چند ایام پہلے ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلے کے نتیجےمیں کئی ہزارعمارتیں منہدم ہوگئیں اور ہزاروں لوگ بے گھر،زخمی اور جان بحق ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ ان مصیبت زدگان کی مددفرمائیں ، زخمیوں کو شفائے کاملہ عطا فرمائیں ،جان بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائیں اور پریشان حال لوگوں کی پریشانیاں دور فرمائیں۔زلزلوں کے وقوع پذیر ہونےکے چندحکمتیں ہیں جن کو صرف زندہ دل مومن ہی سمجھ سکتے ہیں۔درج ذیل میں چند حکمتیں اوراسباب ذکر کیے جاتے ہیں ۔
1۔ زمین کی نعمت ِسکون کی یاد دہانی
یہ زمین اللہ تعالی کی پیدا کردہ کائنات کا ایک حصہ ہے اور اللہ کی قدرت اورطاقت کی عظیم نشانی ہے اور کائنات کی وہ واحد کرہ ہے جس میں زندگی کی بقا کے لیے بےشماروسائل اورنعمتیں مہیا ہیں ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً
(غافر: 64)
اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو جائے قراراورآسمان کوچھت بنایا۔
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی بے شمارنعمتیں ہیں اوراللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ زمین ہے جس پر ہم چلتے ہیں، یہ ہمارے لیے رہنے کی جگہ ہے۔ اللہ نے اس زمین کو ہمارے لیے بابرکت اور مطیع اورمستحکم بنایا ہے۔ یہ زمین انسان کواورتمام جانداروں کو زندگی میں بسیرامہیا کرتی ہے اور مرنے کے بعد بھی انھیں سمیٹتی ہے،اگراس میں یہ وصف نہ ہوتا توتعفن کی وجہ سے کوئی جاندارزندہ و سلامت نہ رہتا۔ انسان کی تمام ضروریات کھانا پینا اور لباس وغیرہ سب زمین سے وابستہ ہیں، اگر اللہ تعالیٰ اس میں یہ صفت نہ رکھتا تو کوئی جانداریہاں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پریہ بات بیان ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق زمین اگرچہ محوگردش ہے جیساکہ الله تعالیٰ كا ارشاد ہے :
وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
(سورة یس :40)
اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔
مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ نےپہلے صرف سورج اورچاند کا ذکر فرمایا پھر کُل کا لفظ استعمال فرمایا جو جمع کے لئے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور چاند کے علاوہ باقی تمام سیارے بھی فضا میں تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ چونکہ زمین بھی ایک سیارہ ہے لہٰذا یہ بھی محو گردش ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہزاروں سال سے اس کے اوپر بسنے والی تمام مخلوقات کو وہ سکون وقرارمیسر ہے جوان کی زندگی کی بنیادی ضرورت کے لیے باعث لذت وسرورہے ۔ یہ ثبات اورسکون اللہ تعالیٰ نے زمین کو کشش ثقل کی صلاحیت کی صورت میں عطا کی ہے جوکہ خالق کائنات کی ان گنت نعمتوں میں سے اہم ترین نعمت ہے۔ اس نعمت کا ادراک دلانے کیلئے مدبرکائنات کبھی کبھارزمین میں زلزلے بھیجتا ہے تاکہ اس کے ذریعے نعمتِ سکون وقرار کا احساس دلائے ۔
2۔ قدرتِ الہی اورعظمت کااظہار
یہ آفات، فتنے،زلزلے اورنشانیاں کائنات میں اللہ تعالیٰ کےقوانین اورنشانیوں میں سے ہیں، اور اس کی قدرت، طاقت اورعظمت کے واضح نشانات ہیں اورانسانوں کی کمزوری کا ثبوت ہیں ۔چاہے وہ کتنے ہی طاقتورکیوں نہ ہوں۔ لہذا زلزلوں كی دوسری حكمت اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اوررب کی عظمت كا اظہارہےکہ دنیا کی ہرچیزاس کے قبضہ قدرت میں ہے، اور ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ان سب پر قادرہے، لہٰذا اس کی نافرمانی میں رہنے سے بچو،ورنہ تمہیں تباہ کرنے والےعذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :
قُلْ هُوَالْقَادِرُعَلٰی اَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ يَلْبِسَکُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ اُنْظُرْ کَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ
(الانعام: 65)
فرما دیجیے وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے (خواہ) تمہارے اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں فرقہ فرقہ کرکے آپس میں بھڑائے اورتم میں سے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھادے۔ دیکھئے! ہم کس کس طرح آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ یہ (لوگ) سمجھ سکیں۔
اوراللہ تعالی کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تواسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی،نہ کسی قوم کی علمی ترقی اس سے انہیں بچا سکتی ہے،اورنہ کسی قوم کے جدید آلات اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں۔دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
(سوره فصلت : 53)
عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اوران کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہوجائے کہ یقیناً یہی حق ہے اور کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے وجود اوراس کی وحدانیت کے دلائل پرغور کریں گے، جو تمام آفاق یعنی زمین و آسمان میں پائے جاتے ہیں، مثلاً سورج چاند، نباتات وجمادات و حیوانات وغیرہ اور جو خود انسان کی ذات میں پائے جاتے ہیں، مثلاً نطفے سے لے کر پیدائش تک، پھر بچپن سے لے کر موت تک، پھر ان کے وجود کی حیرت انگیزبناوٹ پر،جن کےعجائبات کے متعلق ہرروزنئے سے نئےانکشافات ہوتے رہیں گے، تو انہیں یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔
3۔ بندوں کو عذاب الہی سے ڈرانا
زلزلوں کی حکمتوں میں سے ایک حکمت اللہ کے بندوں کوعذاب الہی سے ڈرانا اور انہیں رب کے سامنے جوابدہی کی یاد دہانی کرانا ہےتاکہ لوگ اپنے گناہوں اورخطاؤں سے توبہ کریں۔جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا :
ومَا نُرْسِلُ بالآياتِ إلا تَخْوِيفا
(سورۃ الاسراء: 59 )
ہم تولوگوں کوڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں ۔
بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فیصلے میں علیم وحکیم ہے،اللہ سبحانہ وتعالی جیسا چاہے اپنی نشانیوں کوپیدا فرماتاہےاور پھران نشانیوں کو اپنے بندوں کے ڈرانے اور نصیحت وعبرت کے لیےزمین میں ظاہر فرماتا ہے ۔ اوران نشانیوں کے ذریعےاپنے بندوں پرجو احکامات واجب کیے ہیں ان کی یاددہانی کراتا ہے ، اس میں اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ لوگ گناہوں سے بازآئیں ۔ نصیحت وعبرت حاص کریں ۔اللہ کے حکم کی مخالفت نہ کریں اورجس گناہ اورنافرمانی سے روکا گیا ہے اس کےمرتکب نہ ٹھریں ۔
4۔ اخروی عذاب سے چھٹکارہ
زلزلوں کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کیلئے اخروی عذاب سے نجات اور دنیامیں باعث رحمت ہے ، جیساکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
أمتي هذه أمةٌ مرحومةٌ،ليس عليْهاعذابٌ في الآخرةِ،عذابُها في الدُّنيا،الفتنُ،والزلازلُ،والقتلُ
(صحيح أبي داود: 4278)
میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے۔ آخرت میں اسے عذاب (دائمی) نہیں ہوگا ، البتہ دنیا میں اس کا عذاب: فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہوگا ۔ ایک روایت میں قتل کی جگہ آتش فشاں کا ذکر ہے ۔چنانچہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُمَّتِي أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِعَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ وَالزَّلَازِلُ وَالبَراكِين.
(السلسلة الصحیحة:2536)
یہ بھی پڑھیں:زلزلے!عبرت و نصیحت ، اسباب و علاج
میری امت پر رحم کیا گیا ہے، آخرت میں اس پرعذاب نہیں، اس کا عذاب دنیا میں فتنوں، زلزلوں اور آتش فشاں کی صورت میں ہے۔
یعنی آخرت کا ناقابلِ برداشت یعنی شدید،دائمی،دردناک اورذلیل کردینے والاعظیم عذاب کے تو منکروں اور منافقوں کیلئے ہے، لیکن وقتی اور قابلِ برداشت عذاب گناہوں کی وجہ سےفتنوں، زلزلوں اورقتل کی شکل میں کافراورمسلمانوں سب کو ہوتے ہیں،جو مسلمانوں کے لیے آخرت کے دن حساب وکتاب کےعذاب سے بچانے کا سبب ہیں اوردنیا میں اپنے مؤمن بندوں کیلئے اللہ کی رحمت کا باعث ہے ۔
5۔ روز قیامت کی یاد دہانی
زلزلوں کی ایک حکمت یہ ہے کہ یہ مومنوں کو یوم آخرت کے عظیم زلزلہ کی یاد دلاتے ہیں کہ اس عظیم دن میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اپنی نجات کیلئے کوئی ذریعہ بنایا ہوگا۔چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌعَظِيمٌ
(سورۃ الحج :1)
لوگو! اپنے پروردگارسے ڈرتے رہو بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔
کیونکہ جب قیامت برپا ہو گی توزمین کانپے گی اورلرزے گی اورزلزلہ برپا ہو گا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا، وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا ،
(سورة الواقعة : 4۔5 )
جس دن زمین پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی اور پہاڑریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے۔
رج الأرض سے مراد زمیں میں زلزلہ ہے۔1
اس آیت سےمعلوم ہوا کہ زمین کی مضبوطی اور استحکام اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے کیونکہ وہی اس کو قائم کرنے والا ہے اوروہی اس کو ثابت رکھنے والاہےاوروہ اپنے بندوں کوزلزلوں کوذریعے اس نعمت کی یاد دلاتا ہے۔
6۔ قیامت کی نشانی
زلزلوں کثرت قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حتَّى يُقْبَضَ العِلْمُ، وتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ، ويَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، وتَظْهَرَ الفِتَنُ، ويَكْثُرَ الهَرْجُ – وهو القَتْلُ- حتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ المَالُ فَيَفِيضَ.
( صحيح البخاري: 1036)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہوجائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور هرج کی کثرت ہوجائے گی اورهرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور تمہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔
7۔ قرآن حکیم کی حقانیت اور نبی کریم ﷺ کی سچائی
زلزلوں کی ایک حکمت یہ ہے کہ تاکہ ملحد اوربے دین لوگ اپنے طریقوں سےتحقیق کرکے قرآن کی حقانیت اورمحمد ﷺ کی سچائی کوتسلیم کرلیں کہ زلزلے قیامت کی نشانیاں ہیں اوران نشانیوں کا واقع ہونا قرآن کریم کی صداقت اورمعجزہ ہونےاور نبیﷺ کے اللہ کے سچے رسول اور نبی ہونےکی دلیل ہے کیونکہ نبی ﷺ نےاپنے فرامین میں یہ بتایا ہے کہ یہ چیزیں آخری زمانوں میں بکثرت ہوں گی۔اور اس بات کو بھی تسلیم کرلیں کہ غیب کی جو باتیں نبی ﷺ نے بیان کی ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ وحی الہی کے ذریعہ بیان فرمائیں ہیں۔جیساکہ قرآن مجید میں اللہ پاک نے وضاحت فرماتے ہوئے کہا:
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
(سورۃ العنکبوت : 48 )
اور (اے نبی!) اس سے پہلے آپ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھےاور نہ اپنے ہاتھ سے لکھ سکتےتھے۔ اگرایسی بات ہوتی تو باطل پرست شبہ میں پڑ سکتےتھے۔
چنانچہ زلزلوں کے کے بابت اللہ نے قرآنِ مجید میں قسم کھاکرفرمایا:
وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ،وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ،إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ
(سورۃ الطارق: 11 ، 12 ، 13 )
بارش والے آسمان کی قسم ۔اور پھٹنے والی زمین کی قسم ۔بیشک یہ (قرآن) دو ٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے پھٹنے والی زمین کی قسم کھائی ہے، سائنسدانوں اوراصحابِ علم نے تحقیق کے ذریعہ زیرِزمین ایک ایسا میدان(ہموار اور ذرخیز)تلاش کیا جہاں پرپھٹنے والی کیفیت رونما ہوتی ہے اور وہی دنیا میں اکثرزلزلوں کا مرکزہے۔
جو بات چودہ سو سال پہلے قرآن اور رسول اللہ ﷺ نے بتائی وہ آج تحقیق کےذریعے سچ ثابت ہورہی ہے ۔تو اس سے معلوم یہ ہوا کہ اللہ نے پھٹنےوالی زمین کی قسم کھاکرجو بات بیان فرمائی وہ دینِ اسلام،قرآن کریم اورپیغمبرِاسلامﷺکی حقانیت کے ثبوت کے لئےایک معجزہ ہے۔
8۔ دنیا كی سختیوں اور مشکلات سے نجات ۔
زلزلوں میں جان بحق ہوجانانیک لوگوں کے لیے دنیا كی سختیوں اورمشکلات سے نجات کا باعث ہے۔جیساكه احادیث میں آتا ہے ۔
أنَّ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم مُرَّعليه بجِنَازَةٍ، فَقالَ:مُسْتَرِيحٌ ومُسْتَرَاحٌ منه. قالوا:يا رَسولَ اللہِ ما المُسْتَرِيحُ والمُسْتَرَاحُ منه؟ قالَ:العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِن نَصَبِ الدُّنْيَا وأَذَاهَا إلى رَحْمَةِ اللہِ والعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ منه العِبَادُ والبِلَادُ، والشَّجَرُ والدَّوَابُّ.
( صحيح البخاري : 6512)
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا توآ پ ﷺ نے فرمایا: كہ یہ مرنے والا یا توآرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ”المستریح او المستراح منه“ کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ «مستريح» آرام پانے والا ہے اور «مستراح منه» یعنی دوسرے بندوں کو آرام دینے والا وه فاجر ہے کہ جس سے اللہ کے نیک بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔
9۔ گناہوں کی بخشش
زلزلے ایک قسم کی مصیبت اورپریشانی ہے ۔اہل ایمان كو اگركوئی مصیبت،پریشانی آجائے تو وہ آزمائش اور درجات کی بلندی اورنیکیوں میں اضافے کا باعث ہے،لیكن اگراہل کفر،شراب پینے والےاورسود کھانے والےكسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو یہ ان كے لیےعذاب ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری اورسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ما يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِن نَصَبٍ ولَا وصَبٍ، ولَا هَمٍّ ولَا حُزْنٍ ولَا أذًى ولَا غَمٍّ، حتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا،إلَّا كَفَّرَاللہُ بهَامِن خَطَايَاهُ.
( صحيح البخاري:5641)
”مسلمان کو جو بھی دکھ، گھٹن،حزن،ملال اورتکلیف وغم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا ہی لگ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ضروراس کی خطائیں معاف فرماتا ہے۔“
10۔درجات کی بلندی
زلزلوں اوراس قسم کی ناگہانی آفتوں میں جو موتیں ہورہی ہیں وہ کافروں کے لئے توعذاب کا سبب ہیں، البتہ اہل ایمان کے لئے ان کے گناہوں کی معافی اوردرجات کی بلندی ذریعہ ہیں۔ارشاد نبوی ہے:
إنَّ الصالِحينَ يُشَدَّدُ عليهم،وإنَّهُ لا يُصِيبُ مؤمِنًا نَكْبَةٌ من شَوْكَةٍ فمَا فَوقَ ذلِكَ إلا حُطَّتْ عنهُ بِها خَطِيئةٌ،و رَفَعَ له بِها دَرَجَةٌ 2
نبیﷺ نے فرمایا: صالحین پرسختی كی جاتی ہے۔ اورمومن كوكوئی كانٹا بھی چبھتا ہے یا اس سے كم تر درجے كی كوئی تكلیف آتی ہے تواس كی كوئی خطا معاف كردی جاتی ہے یا اس كا درجہ بلند كر دیا جاتا ہے۔
11۔ باعثِ رحمت ومغفرت
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا ظهرالسُّوءُ في الأرضِ أنزلَ اللهُ بأسَه بأهلِ الأرضِ،وإن كان فيهِم قومٌ صالِحون،يُصيبُهم ما أصابَ النَّاسَ،ثمَّ يرجِعون إلى رَحمةِ اللهِ ومغفِرتِهِ
(صحيح الجامع: 680)
”جب زمین میں برائی عام ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اہل زمین پر اپنا عذاب نازل کر دے گا۔ اگر ان میں نیک لوگ ہوئے تووہ بھی اس عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی طرف منتقل ہو جائیں گے ۔
12۔ طرزِعمل کی اصلاح
اللہ تعالیٰ زلزلوں،سیلابوں کی صورت میں مصیبتیں اورپریشانیاں اس لیےنازل فرماتا ہے تاکہ ہم اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کریں اورگناہوں سے باز آجائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
(سورۃ السجدۃ : 21 )
ہم انہیں (قیامت کے) بڑےعذاب سے پہلے ہلکےعذاب کا مزا بھی ضرور چکھائیں گے شاید وہ (اپنی روش سے) باز آجائیں۔
اس عذاب سے مراد آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا کا عذاب ہے، جیسا کہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ : ’’اس سے مراد دنیا کی مصیبتیں، بیماریاں اور آزمائشیں ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ بندوں کو مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ توبہ کرلیں۔‘‘
یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے پہلےاسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرزعمل پرنظر ثانی کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے،اس آیت سے یہ معلوم ہواکہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہیے۔
زلزلوں کے اسباب
سائنسدانوں کی تحقیق کےمطابق زلزلے کے طبعی اسباب بھی ہیں اوراللہ تعالیٰ نےاس دنیا میں ہرواقعے کو اسباب سے جوڑا ہے، اس لیے ان اسباب کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن زمین کے اندریا باہرکی یہ ٹوٹ پھوٹ،یہ زمینی پلیٹوں کا ہلنا، یہ زمین کی رگوں کا کھنچنا بے وجہ نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا توہروقت زلزلے آتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمتوں کے تحت ہوتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ زمین کے کس حصے کی پلیٹوں کوکب ہلانا ہے،زمین کے کس حصے کی رگوں کو کب ہلانا اورکھینچنا ہے۔ ماہرین ارضیات جو اسباب بتاتے ہیں وہ درست ہیں، مگر ان اسباب کو مہیا کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اوریہ بھی ضروری نہیں کہ ہمیشہ زلزلے انہی طبعی اسباب کی وجہ سے آئیں۔اس لیے زلزلوں کواللہ تعالیٰ کی تنبیہ سمجھتے ہوئے اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہی تعلیم ہمیں دورِنبویﷺ و صحابہؓ سے بھی ملتی ہے۔
بد اعمالی اور گناہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دنوں بہت سے مقامات پرآنےوالےزلزلےان نشانیوں میں سے ہیں جن سےاللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوعذاب سےڈراتا ہے،اورہروہ چیزجواس کائنات میں زلزلوں یا دیگر آفات اور مصائب کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں اورانسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اوربہت سی تکلیفوں کا سبب بنتی ہیں۔یہ سب گناہوں کی وجہ سے ہے۔جیساكه الله تعالیٰ كا ارشاد ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّوَالْبَحْرِبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
(سورۃ الروم : 41)
خشکی اورتری میں فساد پھیل گیا ہے ان گناہوں کی وجہ سے جو لوگوں نے کیے ہیں، تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض بد اعمالیوں کا مزا چکھائے، شاید وہ ایسے کاموں سے باز آجائیں ۔
گذشتہ قوموں کا انجام
گناہوں اوراللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نےگذشتہ اقوام کو بھی ہلاک کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
(سورۃ العنكبوت : 40)
ان میں سے ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی پاداش میں دھرلیا۔ پھر ان ہلاک ہونے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ہم نے پتھراؤ کیا اورکچھ ایسے جنہیں زبردست چیخ نےآ لیا اور کچھ ایسے جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے جنہیں ہم نے غرق کردیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔
چنانچہ قوم شعیب پرعذاب آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں :
فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ
(الاعراف:91)
پس انہیں ایک خطرناک زلزلے نے آلیا اورسب اپنے گھروں میں اوندھے منہ گر کرمرگئے ۔
قرآن کریم نے قوم شعیب پرعذاب آنے کی وجہ ناپ تول میں کمی بیشی بتائی ہے کہ ان کی عادت بن گئی تھی کہ لیتے ہوئےزیادہ لیتے اوردینے کا وقت آتا تو کم کرکےدیتے تھے۔
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر،ایمان نہ لانے کے لیےحیلے بہانے اختیار کرنےاورگستاخی کی وجہ سے عذاب آیا ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
وَاخْتَارَمُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِّمِيقَاتِنَا فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ
(سورۃ الاعراف:155)
اور موسیٰ نے اپنی قوم کے سترآدمی ہمارے مقررہ وقت پر آنے کے لیے چن لیے پس جب زلزلہ نے انہیں اپنی زد میں لے لیا۔اللہ نے ان کو وہیں ہلاک کردیا ۔
قارون جو مالداری میں ضرب المثل تھا، جب اُس سے کہا گیا کہ ان خزانوں پراللہ کا شکر ادا کرو تو کہنے لگا، یہ سب میرے زورِ بازو کا کرشمہ ہےچنانچہ اللہ نے اسے اِس ناشکری کی وجہ سے خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللہِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ
(سورہ القصص: 81)
پس ہم نے اسے اوراس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا اوراس کی کوئی ایسی جماعت نہ تھی، جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی، اور نہ وہ آپ اپنی مدد کرسکا۔
اگر قوم شعیب پرناپ تول میں کمی کی وجہ سے، حضرت موسی علیہ لاسلام کی قوم پربہٹ دھرمی کی وجہ سے اور قارون پر تکبرکی وجہ سے عذاب اورزلزلہ آسکتا ہے تو آج بھی انسانوں کے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے زلزلہ آجائے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
بے حیائی اور فحاشی
بے حیائی اور فحاشی اجتماعی عذاب کا سبب ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
(سورہ النور : 19 )
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے درمیان بے حیائی رواج پائے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے،اوراللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ہو۔
اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سيكونُ في آخرِ الزمانِ خَسْفُ وقذفٌ ومَسْخٌ ، إذا ظَهَرَتِ المعازِفُ والقَيْناتُ ، واسْتُحِلَّتِ الخمْرُ
(صحيح الجامع: 3665)
’’ آخرزمانے میں زمین میں دھنسنا، پتھروں کی بارش اورشکلوں کا بدل جانا واقع ہو گا۔‘‘ پوچھا گیا : ’’اے اللہ کے رسول! یہ کب ہو گا؟‘‘ آپ ﷺنے فرمایا: ’’جب باجے گانےاور گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب حلال کر لی جائے گی۔‘‘
نعمتوں کی ناشکری
عذاب کےدو بنیادی اسباب ہیں ۔ ناشکری اوربےایمانی ۔جس قوم کےاندریہ دو بری خصلتیں پائی جائیں وہ اللہ کے غضب کا شکارہوجاتی ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے :
مَّا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللہُ شَاكِرًا عَلِيمًا
سورۃ النساء: (147)
اگر تم شکرادا کرو گے اور ایمان لاؤ گےتواللہ تمہیں عذاب دے کرکیا کرے گا، اوراللہ بڑا قدر کرنے والا اور بڑا علم والا ہے۔
زلزلوں کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہیئے
توبہ واستغفار کریں
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو توبہ کا حکم دیا ہے ۔
وَتُوبُوا إِلَى اللہِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(النور:31)
اوراے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو،تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔
أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَاهُمْ يَذَّكَّرُونَ
(سورۃ التوبۃ :126 )
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہرسال ایک باریا دوبارکوئی نہ کوئی مصیبت پیش آجاتی ہے پھر بھی یہ لوگ نہ توبہ کرتے ہیں اورنہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔
نیک اعمال کا اہتمام کیجیئے
سورج گرہن،چاند گرہن اورزلزلزے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جن کی ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سےڈراتے ہیں تاکہ ہم بداعمالیوں اور گناہوں سے بازآجائیں لہذا ایسے موقعوں پرکثرت سے توبہ واستغفار،دعاؤں اورصدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا چاہیئے ۔ جیساکہ حدیث کسوف میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
هذِه الآياتُ الَّتي يُرْسِلُ اللہُ لا تَكُونُ لِمَوْتِ أحَدٍولا لِحَياتِهِ، ولَكِنْ يُخَوِّفُ اللَّهُ به عِبادَهُ، فإذا رَأَيْتُمْ شيئًا مِن ذلكَ، فافْزَعُوا إلى ذِكْرِهِ ودُعائِهِ واسْتِغْفارِهِ.
( صحيح البخاري: 1059)
آپﷺ نے فرمایا: تحقیق یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ ظاہرفرماتا ہے،کسی کی موت وحیات کی بناء پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے ظاہرفرماتا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی بنا پر اپنا خوف پیدا فرمائیں۔ جب تم کوئی ایسی چیز دیکھوتو فوراً اللہ کا ذکرکرو، دعائیں کرواوراس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔‘‘
ایک اور حدیث میں دعا ، تکبیر، نمازاورصدقہ کا ذکرہے ۔
إنَّ الشَّمْسَ والقَمَرَ آيَتانِ مِن آياتِ اللہِ لا يَخْسِفانِ لِمَوْتِ أحَدٍ ولا لِحَياتِهِ، فإذا رَأَيْتُمْ ذلكَ، فادْعُوا اللَّهَ، وكَبِّرُوا وصَلُّوا وتَصَدَّقُوا.
( صحيح البخاري: 1044)
سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو، تو اللہ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
واستدل بذلك على أن الأمر بالمبادرة إلى الذكروالدعاء والاستغفاروغيرذلك لا يختص بالكسوفين،لأن الآيات أعم من ذلك3
کہ اس سے یہ معلوم ہواکہ ذکر، دعا، استغفار وغیرہ میں جلدی کرنے کا حکم سورج گرہن اور چاند گرہن کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، کیونکہ نشانیاں صرف سورج اور چاند گرہن کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہیں ۔
غریبوں اور مسکینوں کےساتھ حسنِ سلوک
آفات ، مصائب ، سیلابوں اورزلزلوں کے دوران غریبوں اورمسکینوں کے ساتھ خصوصی رحمت وشفقت سے پیش آئیں ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ارْحَموا تُرْحَموا،واغفِروا يغْفِرِ اللهُ لكم،وويلٌ لأقماعِ القولِ،وويلٌ للمُصِرِّينَ الذين يُصِرُّون على ما فَعلوا وهُم يعلَمون4
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’رحم کروتو تم پر رحم کیا جائے گا، لوگوں سے درگزر کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے گا۔ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینے والوں کے لیے ہلاکت ہے، اصرار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے جو جانتے بوجھتے اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الرَّاحمونَ يرحمُهُمُ الرَّحمنُ، ارحَموا من في الأرضِ يرحَمْكم من في السَّماءِ
(صحيح الترمذي: 1924)
”رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔
مصیبت زدہ لوگوں کی مدد
ہماری بہت بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہمارا دینی اوراخلاقی فریضہ ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔اس کے ساتھ ہی اس سلسلہ میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لئے دعائے مغفرت کا اہتمام ضروری ہے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اورحادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں اس لئے نبیﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ ان کے لئے مغفرت اور بلندی درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اورہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہئے۔
اللہ کا پسندیدہ عمل
دکھ اور مصیبت کے وقت دکھی انسانیت کی مدد کرنا اللہ کے ہاں بے حد پسندیدہ عمل ہے ۔چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَحَبُّ الناسِ إلى اللهِ أنفعُهم للناسِ،وأَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ عزَّوجلَّ سرورٌتُدخِلُه على مسلمٍ ، تَكشِفُ عنه كُربةً،أو تقضِي عنه دَيْنًا،أو تَطرُدُ عنه جوعًا
(صحيح الترغيب : 2623)
لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے۔ اوراللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے، یا اس سے کسی مصیبت کودور کرے، یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے۔
لہذا ہمیں شام اورترکی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، کیونکہ اس وقت انہیں بہت ہی تکلیف دہ مراحل اور مشکل گھڑی کا سامناکر رہے ہیں ۔
ہمیں اس نازک اور مشکل وقت میں ان کے دکھ دردمیں شریک ہو کر ان کی ہرممکن مدد کرنی ہے ۔یہ مدد آپ مالی تعاون کی شکل میں بھی دے سکتے ہیں ۔
مصیبتوں میں مدد کرنے والوں کواللہ کبھی رسوا نہیں کرتا
یاد رکھیئے کہ مصیبتوں میں مدد کرنے والوں کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرتا۔ جیساکہ ام المؤمنین خدیجۃ رضی اللہ عنہا نے ابتدائے وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا :
أبْشِرْ،فَوَاللہِ لا يُخْزِيكَ اللَّهُ أبَدًا،إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،وتَصْدُقُ الحَدِيثَ،وتَحْمِلُ الكَلَّ،وتَقْرِي الضَّيْفَ،وتُعِينُ علَى نَوَائِبِ الحَقِّ
(صحیح البخاری:4953)
آپ کوخوشخبری ہو، اللہ کی قسم!اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزوروناتواں کا بوجھ خود اٹھالیتے ہیں،جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پالیتے ہیں۔ آپ مہمان نوازہیں اورحادثات کے وقت پیش آنے والی مصیبتوں پرلوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ومَن فَرَّجَ عن مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عنْه كُرْبَةً مِن كُرُبَاتِ يَومِ القِيَامَةِ،
( صحيح البخاري: 2442)
جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دورکرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔
دعاؤں کا اہتمام
زلزلوں کے موقع پر توبہ، استغفار کے ساتھ دعا، کااہتمام کرنا چاہیئے۔خاص طور پرصبح اور شام کی ان دعاؤں کی پابندی کرے جن میں حفاظت کی دعائیں ہیں ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح و شام ان دعاؤں کو نہیں چھوڑتے تھے۔
اللهم إني أسألُك العافيةَ في الدنيا والآخرةِ،اللهم إني أسألُك العفوَ والعافيةَ في ديني ودنياي وأهلي ومالي،اللهم استرْعورتي وآمنْ روعاتي،اللهم احفظْني مِن بين يديَّ ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي،وأعوذُ بعظمتِك أن أُغتالَ مِن تحتي. قال وكيع يعني: الخسف.
( صحيح أبي داود: 5074)
”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اورآخرت میں عفواورعافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا اور اپنے اہل و مال میں معافی اورعافیت کا طالب ہوں، اے اللہ! میرے عیوب چھپا دے، میرے دل کو مامون کر دے، اورمیرے آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوراوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں نیچے سے ہلاک کئے جانے سے“ امام وکیع کہتے ہیں: «أغتال من تحتي» کے معنی دھنسا دئیے جانے کے ہیں۔
یہ بڑی جامع دعا ہے۔جس میں اپنے لئے دنیا اورآخرت کی عافیت کا سوال بھی ہے اور اہل وعیال کی خیریت کی دعا بھی مخلوق کے ذریعے سے پہنچنے والے شر سے پناہ کی درخواست بھی ہے۔اور اللہ کے عذاب کے ذریعے سے پکڑے جانے سے محفوظ رہنے کی دعا بھی۔
صدقه وخیرات كریں
مصیبت اور پریشانی كے وقت جو کچھ اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کرو گے اس كے بدلے میں آپ كو اپنے اعمال نامے میں بڑی نیكیاں ملیں گی۔نیزمصیبت زدہ لوگوں کی مدد انسان کو مصائب اور پریشانیوں سے بھی بچاتی ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد ہے۔
صَنائعُ المعروفِ تَقِي مَصارعَ السُّوءِ،والصَّدَقةُ خَفِيًّا تُطفئُ غضبَ الرَّبِّ
(صحیح الجامع : 3796)
بھلائیوں کے کام بُری موتوں آفتوں اور ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اورپوشیدہ خیرات رب کا غضب بجھاتی ہے ۔
اللَّهُمَّ انْصُرْعِبَادَكَ الْمُوَحِّدِيْنَ،اللَّهُمَّ فَرِّجْ هَمَّ الْمَهْمُومِيْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ،وَنَفِّسْ كَرْبَ الْمَكْرُوبِيْنَ، وَاقْضِ الدَّيْنَ عَنِ الْمَدِينِيْنَ،وَاشْفِ مَرْضَاهُمْ،وَاغْفِرْ لِمَوْتَاهُم.اللَّهُمَّ آمِنَّا فِي أَوْطَانِنَاوَأَصْلِحْ وُلَاةَ أُمُورِنَا،اللَّهُمَّ إِنَا نَعُوذُ بِكَ مِنَ الْوَبَاءِ وَالْغَلَاَءِ، وَالرِّبَا والزِّنا،وَنعوذُ بك من الزَّلَازِلِ وَالْمِحَنِ وَسُوءِالْفِتَنِ مَا ظَهَرَمِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۔