الفت اور محبت

الفت اور محبت

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو فراوانی کے ساتھ عطا کرنے والا، پوری پردہ پوشی کرنے والا اور عظیم سخاوت والا ہے ۔ اُس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور اُس کا شکر بجا لاتا ہوں جو صاحبِ کرم اور سخاوت ہے، پردہ ڈالنے والا اور احسان کرنے والا ہے ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اُس کا کوئی شریک نہیں، جس کے ہاتھ میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں جو کریموں میں سب سے زیادہ نوازنے والے ، فیاضوں میں سب سے زیادہ فیاضی کرنے والے اور وفا شعاروں میں سب سے زیادہ سچے ہیں۔ اللہ درود و سلام نازل فرمائے آپ کے آل واصحاب پر جو کرم وشرف والے ہیں ، تابعین پر اور پیشی اور بدلہ کے دن تک اچھی طرح اُن کی پیروی کرنے والوں پر ۔

أَمَّا بَعْدُ!
لوگوں! میں آپ کو اور خود کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ آپ پر رحم کرے۔ آپ لوگ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور باہم الفت کرنے والے رحم دل بنیں ، دنیا میں سعادت مند اور قیامت کے دن کامیاب ہوں گے ۔
اللہ کے بندو! اللہ کی نعمتیں اور احسانات اُس کے بندوں پر بے شمار اور بے حد اور بے انتہا ہیں خواہ وہ مادی نعمتیں ہوں یا معنوی ، خواہ دینی نعمتیں ہوں یا دنیاوی اور اللہ کی عظیم ترین معنوی نعمتوں میں سے محبت اور الفت کی نعمت اور پیار اور رحمت کی نوازش ہے ، ایسی عظیم نعمت جس سے زندگی خوشگوار ہوتی ہے، رشتے پائیدار رہتے ہیں اور تعلقات تابناک ہوتے ہیں اور ایسی بڑی نوازش جو رحمٰن عطا کرتا ہے اُسے نہ مال سے خریدا جا سکتا ہے اور نہ مہنگے دام پر دیا جا سکتا ہے ۔
فرمانِ الہی ہے:
“کہ اُن کے دلوں میں باہمی الفت بھی اُسی نے ڈالی ہے تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے اُن کے دلوں کو جوڑا ، یقیناً وہ غالب حکمتوں والا ہے”۔1
حیا، الفت و محبت مومن کی افضل ترین خصلتوں اور اخلاق میں سے ہیں اور اُس کے بلند ترین اوصاف اور خصوصیات میں سے ہیں۔
اورابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“کہ مومن الفت و محبت ہے سو اُس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ خود محبت کرے اور نہ اُس سے محبت کی جائے “۔2
اللہ کے بندو! سچی الفت اور محبت وہی ہے جو حسنِ ظن، نیک نیتی اور خوشگوار برتاؤ کی بنیاد پر قائم ہو جس کا فائدہ احسان، سخاوت، چشم پوشی، لغزشوں سے در گزر اور غلطیوں سے تغافل ہے۔ الفت اصحابِ الفت کو درست پیمانہ اپنانے پر اُبھارتی ہے چنانچہ ہمہ وقت اور مختلف تعلقات میں جب لغزشوں کی آندھی چلتی ہے تو وہ اچھائیاں کرتے ہیں۔
حکمران اور رعایا کے درمیان الفت اور محبت
اے مسلمانوں! سچی الفت بڑا قاعدہ اور وہ اساس ہے جس پر انسانی زندگی میں سعادت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ یہ الفت حکمران اور رعایا کے درمیان ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا گیا : “تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جنہیں تم چاہتے ہو اور وہ تمہیں چاہتے ہیں تم اُن کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں”۔3
میاں بیوی کے درمیان الفت اور محبت
اسی طرح یہ الفت میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے جیساکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
” کوئی مومن مرد مومن عورت سے نفرت نہ کرے اگر اُسے اُس کی کوئی عادت نا گوار گزرے تو کوئی اور خصلت پسند آئے گی “۔4
پڑوسیوں کے درمیان الفت اور محبت
پڑوسیوں کے درمیان بھی الفت ہوتی ہے، حضر ت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی روایت کردہ حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“جبریل مجھے مسلسل پڑوسیوں کے بارےمیں و صیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اُسے وارث بنا دیں گے”۔
مالک اور ملازمین درمیان الفت اور محبت
یہ الفت مالک اور ملازمین کے درمیان بھی ہوتی ہے، حضرت ابو ذر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“اے ابو ذر! تم میں جاہلیت کی کچھ باتیں ہیں۔ یہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے اُنہیں تمہارے ما تحت کیا ہے انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور اُنہیں وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو اور اُن پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو اُن کی استطاعت سے زیادہ ہو اور اگر بوجھ ڈالو تو اُن کی مدد کرو”۔5
یہ الفت مزدور اور مالک کے بیچ ہوتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : “مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو۔6
اللہ کے بندو! الفت نیکی اور تقویٰ پر تعاون نیز مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کا سبب ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“تم دیکھو گے کہ مومن لوگ باہمی رحمت ، محبت اور شفقت میں ایک جسم کی مانند ہیں کہ جب جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے”۔
غیر مسلموں کے ساتھ الفت اور محبت
اس کے اسی مقام اور عظیم اثر کے پیشِ نظر اللہ عزوجلّ نے اس میں رغبت دلائی ہے اور اسے شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد بنایا ہے حتیٰ کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی روا رکھا چنانچہ اُن کی تالیفِ قلبی کو مشروع ٹہرایا۔ یوں کہ انہیں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک مصرف قرار دیا جس کے ذریعے ان کے دل کا کینہ زائل کیا جاتا ہے اور ان کے دل کا حسد نکالا جاتا ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے:
“یہ صدقات تو در اصل فقیروں اورمسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کو چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے اور راہِ خدا میں مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہے، ایک فریضَہ ہے اللہ کی طرف سے۔ اللہ علم اور حکمت والا ہے”۔7
الفت رحمت کی قسموں میں سے ایک قسم ہے اور مودت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے بلکہ یہ اس کے اثرات میں سے ایک اثر ہے۔ مسند اور سنن میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم کرتا ہے ، زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا”۔
میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور الرحمٰن سے اپنے لیے آپ سب اور باقی تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں آپ بھی اُس سے مغفرت طلب کریں بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو نہایت شفیق و مہربان صاحبِ کرم اور انعام اور صاحبِ فضل و احسان ہے اور اللہ درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو اولادِ عدنان کے سردار ہیں اور آپ کے آل و اصحاب پر جو بھلائی اور عرفان اور شکر و احسان والے ہیں اور تابعین پر اور ان لوگوں پر جنہوں نے اچھے سے اُن کی پیروی کی جب تک سلسلۂ شب و روز اور شمس و قمر باقی رہے، اُس دن تک جس دن انس و جِن کو اکٹھا کیا جائے گا ۔
أَمَّا بَعْدُ!

اللہ کا تقویٰ
اللہ کا تقویٰ اختیار کرو! اللہ تم پر رحم کرے۔ یاد رکھو کہ الفت کامل لوگوں کی خصلت ہے جو فضول باتوں سے گریز کرتے ہیں، احمقانہ چیزوں سے خود کو پاک رکھتے ہیں اور اپنی روحوں کو کمالات کے لیے آمادہ کرتے ہیں چنانچہ تم اُنہیں ہمیشہ بلند ترین مقامات پر پاؤ گے اور تاریک ترین حالات میں بھی ان سے پاکیزہ ترین باتیں ہی صادر ہوں گی ۔
الفت اور محبت سے امن پھیلتا ہے، سلامتی آتی ہے اور لوگ سعادت اور اطمینان میں زندگی گزرتے ہیں، اور جب یہ چیز لوگوں کی زندگی سے ختم ہو جاتی ہے تو زندگی بے مزہ ہو جاتی ہے، وسوسے بڑھ جاتے ہیں، بدگمانی عام ہو جاتی ہے، قطع تعلقی پھیلتی ہے اور سفینۂِ حیات مصیبتوں کی لہروں اور آزمائشوں کے تھپیڑوں کے درمیان ڈگمگانے لگتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“تمہارے اندر پچھلی امتوں کا ایک مرض سرایت کر گیا ہے اور یہ حسد اور بغض کا مرض ہے اور”بغض یہ مونڈنے والی چیز ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سر کے بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے ۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہوگے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں جس سے تمہارے درمیان محبت مستحکم ہو؟ تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ”۔8
او ر تم اس شخص کی محرومی کا نہ پوچھو جو اس عظیم نعمت اور جلیل القدر احسان سے محروم کر دیا گیا ہو کہ وہ اپنی زندگی میں کیسے گزارہ کرتا ہے، تم اُسے دیکھو گے کہ وہ مختلف قسم کے غموں ، مصیبتوں ، آزمائشوں اور پریشانیوں کے درمیان گھومتا رہتا ہے جہاں کینہ و کَپَٹ اور دھوکہ و حسد ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں سلامتی اور عافیت میں رکھے۔ یہ عذاب کا ایک حصہ ہے جس کو آدمی نے قیامت کے دن سے پہلے ہی خود پر مسلط کر لیا ہے ۔
اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور درود و سلام بھیجو اللہ کی سب سے بہتر مخلوق محمد بن عبد اللہ پر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کا حکم تم کو تمہارے ربّ نے دیا چنانچہ فرمایا :
اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے مومنو! تم بھی اُن پر درود اور خوب سلام بھیجو9
اے اللہ! درود اور سلام اور مزید برکت نازل فرما اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد پر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
اے اللہ! نیک پیشواؤوں میں چاروں خلفاء سے ابو بکر ، عمر ، عثمان اور علی سے راضی ہو جا اور باقی عشرۃ مبشرۃ سے اور اصحاب بیعت الرضوان سے اور تمام صحابہ اور تابعین اور اُن لوگوں سے جنہوں نے روزِ جزاء تک اچھے سے اُن کی پیری کی ہے ۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، دین کے قلعے کی حفاظت فرما اور اپنے مومن بندوں کی مدد فرما ۔
اے اللہ! پریشان حال مسلمانوں کی پریشانی دور فرما ، مصیبت زدوں کی مصیبت دور فرما ، قرضداروں کا قرض ادا کر دے ، ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفاء دے اپنی رحمت سے۔ اے أرحم الراحمین !
اے اللہ! ہمیں اورہمارے وطنوں میں سلامتی عطا فرما ، ہمارے سربراہوں اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما اور ہمارے سربراہ اور ہمارے حکمران خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کی حق اور توفیق کے ذریعے مدد فرما۔ (جن کے اقتدار اور سربراہی اور قیادت اور ترقی کے دس سال مکمل ہوئے) اے اللہ ! صحت و عافیت، تقویٰ اور اپنی رضا مندی کے ساتھ اُن کی عمر میں اضافہ فرما۔ اے اللہ !اُن کو اور اُن کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اُس چیز کی توفیق دے جس میں بندوں اور ملکوں کی بہتری اور بھلائی ہو اور جس میں اسلام اور مسلمانوں کی قوت اور عفت ہو ۔
اے ربّ العالمین ! اے اللہ ! سرحدوں پر مامور ہماری فوجوں کی حفاظت فرما ، اے اللہ! تُو اُن کا حامی و ناصر، مددگار اور نگہبان ہوجا۔ اے اللہ! تُو اپنی آنکھوں کے ذریعے اُن کی حفاظت فرما جو کبھی نہیں سوتیں ، اے اللہ! تُو اُنہیں اپنی حفاظت میں لے لے جس کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اے ربّ العالمین!
اے اللہ! تُو ہمیں اپنی ایسی خشیت عطا فرما جو ہمارے اور تیری نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے اور اپنی وہ اطاعت عطا فرما جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے۔ ہمیں وہ یقین عطا فرما جس سے تُو ہماری دنیاوی مصیبتوں کو ہلکا کر دے، اور جب تک تُو ہمیں زندہ رکھ ہمیں ہماری سماعتوں، بصارتوں اور قوتوں سے لطف اندوز کرتا رہ اور اُسے ہمارا وارث بنا ، اور جس نے ہم پر ظلم کیا اُس سے ہمارا بدلہ لے لے۔ ہمارے دشمنوں پر ہماری مدد فرما۔
اے اللہ! ہماری مصیبت ہمارے دل (دین) میں نہ رکھ ، دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنا اور نہ ہی ہمارے غم کی انتہاء بنا اور نہ ہی جہنم کو ہمارا ٹھکانہ بنا بلکہ اپنی رحمت سے جنت کو ہمارا گھر اور ٹھکانہ بنا دے ۔
اے أرحم الراحمین ! اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے ۔

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

خطبۂ جمعہ المسجد الحرام

فضیلۃ الشیخ: بندر بلیلۃ حفظہ اللہ

تاریخ 01 ربیع الآخر  1446 ہجری ، بمطابق 04 اکتوبر 2024 عیسوی

_______________________________________________________

  1. (الانفال:63)
  2. (اسے احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے)
  3. ( اسے مسلم نے اپنی صحیح میں عوف بن مالک سے روایت کیا ہے)
  4. (اسے مسلم نے روایت کیا ہے )
  5. (اسے امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے )
  6. ( اسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے)
  7. التوبہ: 60)۔
  8. (اور اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں، ترمذی نے اپنی جامع میں زبیر بن عوام سے روایت کیا ہے)
  9. (الاحزاب:56)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ بندر بلیلۃ حفظہ اللہ