شہرت اور مشاہیر،ضابطے اور تنبیہات

خطبہ حرمیں شریفین

پہلا خطبہ :

تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے جو مسلسل اور لگاتار ہو، ہم اُس پاک ذات کی تعریف کرتے ہیں اُس کی پے درپے نعمتوں پر، ایسی تعریف جو مسلسل اور کئی گنا ہو۔ تیرے لئے تمام تعریف ،مبارک و پاکیزہ تعریف۔ ہمارے مولیٰ تجھ ہی پر اعتماد ہے۔ تیرے لئے تمام تعریف بُلند و معزم ،پاکیزہ وافضل ترین حمد اور شکر و ثنا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ،ایسی شہادت کہ جس کے لئے دل انکساری و تابعداری میں جھکے ہوئے ہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔ اقوال و افعال میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنے والوں میں سے سب سے بہتر۔

اللہ تعالیٰ درود و سلام نازل کرے اُن پر اور اُن کی آل پر، جن میں فضل رواں دواں ہے۔ اور اُن کے اصحاب پر جنہوں نے پامردی و شجاعت سے اسلام کا دفاع کیا اور تابعین پراوراُن کی اچھے سے پیروی کرنے والوں پر۔ تاقیامت سلامتی نازل کر۔

اما بعد!

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تقویٰ دلوں کی طرف رہنمائی کرنے والا نوراور روشنی ہے۔اُس کی محبت کا راستہ اِس کی سیڑھی ہے،اُس سے ڈرنے کی برہان و نشانی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ

الاعراف – 26

اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔

مزید فرمایا:

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ

الحجرات – 13

اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔

تقویٰ میں عبرتیں ہیں جس میں دلوں کی شفا یابی ہےبالکل اُس بارش کی طرح جس سے پھول کھل اُٹھتے ہیں۔

اسلامی بھائیو! خوفناک فتنوں کی دنیا میں اُمت کو محیط خطرات کی بہتات میں اور اُن باتوں میں کہ جن میں غلط باتوں نے واضح طور پر حق کے راستے میں روڑے ڈالے ہوئے ہیں۔ اور خیالات حق سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔ وسائل ،اختراعات ،تبدیلیاں اور بحران کی صورتِ حال میں ہمارے لئے مناسب ہے کہ خالص عقیدہ اور دل کی گہرائیوں میں اُن مستحکم  و بُلند اقدار کی روشنی میں جن کے ذریعے روح بُلندی کی چوٹیوں میں اپنی جگہ بناتی ہے۔ مستقبل کا اندازہ لگانے اور آفاق کا خاکہ بنانے اور اُس گہرائی و گیرائی کا پتہ لگانے میں سنجیدگی سے غور کرے۔

اسلام توحید کا خالص عقیدہ لے کر جو انبیاء اور رسولوں کی دعوت ہے۔ اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کو خالص کرنا یہی زندگی میں ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ بعد کے زمانے میں جب لوگوں نے کتاب و سنت کے بدلے دوسری چیزوں کو اختیار کیا تو اُنہوں نے بہتر کی جگہ بد تر کو لے لیا۔ تو بہت سارے لوگوں نے نبوت، خیرِ قرون صاحبہ، سلفِ صالح کے منہج سے رُو گردانی کی، وہ فرق و اختلافات، گروہوں اور تقسیموں سے دوچار ہوئے۔ وہ کمیوں اور کوتاہیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے، غلطیوں کے پیچھے پڑھتے، اپنے آپ کو لغزشوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے صحیح منقول اور صریح معقول کی مخالفت کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی ۔ اُس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کے کر اپنی خواہشات پر چلتا ہے۔

تابناک شریعت ایک ایسے مضبوط معاشرے کے قیام کے لئے کوشاں ہے جو فتنوں اور شبہات کو ہوا دینے سے دور ہو۔اور ہمارے رب نے ہمیں اپنی مضبوط رسی کو تھامنے کا حکم دیا ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ

آل عمران – 103

اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔

اے مومنو! اخلاص کی شفافیت کو داغدار کرتا اتفاق و اتحاد کی چادر کو حتمی طور پر تار تار کرتا ہے۔ وہ ہے لوگوں میں نام و نمود کی خواہش بلفظِ دیگر شہرت کی ہوس اور نمایاں ہونے کی خواہش ہے۔ اور یہ بات یقیناً تکلیف دہ ہے کہ ہم کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ اُس کے پیچھے دوڑے چلے جارہے ہیں یہاں تک کہ اُنہیں اُس کے سوا دنیا میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کبھی کبارتو وہ اُس سرابِ فریب کی خاطر (جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے) اپنے اقدارواُصولوں یا اپنے اخلاق وعقیدے سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے سلفِ صالح اِس بات کو ناپسند کرتے تھے بلکہ اِس سے دور بھاکتے تھے۔ اور نبی اکرم ﷺ نے شہرت کے لباس سے منع کیا ہے۔ اور اِس پر وعید سنائی ہے”وہ مسلمانوں کی اجماعی حالت کے خلاف ہے “۔

ابنِ عمررضی اللہ عنہما نےفرمایا: جو شخص لباسِ شہرت پہنے گا اللہ تعالیٰ اُسے آگ کا لباس پہنائے گا۔

صفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شہرت سے بچو!۔ میں جس کے پاس بھی آیا تو اُس نے شہرت سے منع کیا۔ اور بشر بن حارث رحمہ اللہ نے فرمایا: جس نے شہرت کو پسند کیا وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرا۔ ثابت بُنانی نے کہا: مجھ سے محبت نہیں۔ ابنِ سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: شہرت کے خوف سے ہی میں تمہاری ہم نشینی سے بچتا ہوں۔ اورامام اہلِ سنت امام حنبل نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ مکہ کی کسی گھاٹی میں گمنام ہوکر رہوں کہ میں شہرت سے دوچار ہوگیا۔ اللہ اکبر، اللہ المستعان۔اور اللہ تعالیٰ ہمیں رسوائی سے بچائے۔ہمارے سلفِ صالح اِسی روش پر قائم رہے۔

یہی اُن کا طریقہ کار تھا اور وہ لوگ اِس سے کافی دور رہے جس پر شہرت کی محبت غالب رہی۔ بطورِ خاص اِس زمانے میں اُن لوگوں کا فتنہ بڑھا ہے کہ جنہیں سوشل میڈیا کی مشہور شخصیات مانا جاتا ہے۔ ہم حیرت انگیز جدید تیکنیکی اصلاحات کے دور میں ہیں، جس کے نتیجے میں مواصلات کے تیز رفتار اور ترقی یافتہ ذرائع پیدا ہوئے۔ اور جس کی بدولت انسان جس سے چاہے دنیا میں کہیں بھی اور کسی بھی وقت ایک تفصیلی میٹنگ میں براہِ راست آواز و تصویر دونوں کے ساتھ رابطہ کرسکتا ہے۔ لوگ اپنا کھانا پینا اور اپنی نشستوں کو شیئر کرتے ہیں اور خاندانوں اور گھروں کے حجاب کو تارتار کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں اِن راستوں نے قوم کو کتنا نقصان پہنچایا۔

لوگ اپنی وہ حقیقت کہ جس میں وہ رہتے ہیں اسکرینز میں دکھائی جانے والی دنیا دیکھتے ہیں اور پھر دونوں کے درمیان موازنہ کرنے لگتے ہیں۔ خاندانی مسائل بڑھ گئے ، رنجش اور کینہ ، حسد اور غیرت  اور دیگربیماریاں عام ہوگئیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم قوم کے فرزندوں کو چیزوں کے نتائج اورانجام کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ شب وروز اُن کی یہ بس یہی فکر ہوتی ہے کہ وہ مشہور و معروف ہوجائیں پھر چاہے اِس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معمولی قسم کے لوگ اپنی زبان کھولنے لگے۔

بڑے بڑے بازاری اور بے وقعت لوگ بے کار اور لایعنی باتیں کرنے لگے۔ اورعام معاشرہ اُن بیماری زدہ نیٹ ورکس اور زہرآلود چینلز کو دیکھنے کا رسیا ہوگیا۔ یقیناً چھوٹا سا ایک پرندہ جب اُس کے اعضاء مضبوط ہوئے تواُسے وہم ہوگیا کہ وہ شاہین بن گیا۔ بلکہ اِن میں سے بعض نے عقائدا و ضواط ، عزت و آبرو ،قدآور اورقدوہ شخصیات کو مطعون کرکے شہرت کا ننگا لباس پہن لیا۔ یہ صریح ، کھلاجھوٹ اور بہت بڑا بہتان ہے۔ یہ ایک ایسی چیز کا اظہار ہے جو ان بیوقوفوں ،منافقوں اوراحمقوں کے پاس ہے۔

اگر معمولی لوگوں کے ہاتھوں میں بڑا ہتھیار آجائے،اور اُنہیں چھوڑ دیا جائے تو یہ کم ظرف لوگ بڑے لوگوں کا شکار کریں گے۔ سبحان اللہ!۔ یہ بہت بڑا بہتان ہے جو یہ لوگ لگاتے ہیں اور یہ صریح کھلا جوٹ اور نہایت ہی بڑا بہتان ہے۔ یہ بیوقوفوں کا وطیرہ ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اِن میں سے ہر ایک کے لئے بقدرِ عمل گناہ ہے۔ اور جس نے اِن میں سے سب سے زیادہ حصہ لیا تو اُس کے لئے بڑاعذاب ہے۔

اے اُمتِ اسلام! شہرت مقصود بالذات نہیں ،اگر کسی کو ملے اور وہ شخص اس کے حق کو ادا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ شخص اُس شہرت سے لطف اندوز ہو۔ اسی طرح گمنامی بھی مقصود بالذات نہیں ۔ مقصودِ بالذات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وہاں دیکھے کہ جہاں رہنے کا حکم دیا ہے اور وہاں سے تمہیں دور دیکھے جہاں سے منع کیا ہے۔ اور یہی پوری ذمہ داری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیاہے۔ اور اِس ذمہ داری کو بھلادینا اُس کی شان کو گھٹانا، مصیبت اور گھناؤنا شر ہے۔ اور یہی حقیقی ذمہ داری ہےجس میں قلم کی ہر نگارش اور زبان کی ہر تعریف  کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خشیت کا احساس ہے۔حقیقت میں یہ ذمہ داری اُس کے لئے ہے جو اِس کی عظمت وامانت کے بار کو محسوس کرے۔ وہ اُس کے لئے بوجھ ہے، غنیمت نہیں۔ ایسی ذمہ داریاں ہیں جو سچی دُعاؤں اور خود فراموشی کا تقاضہ کرتی ہیں جیسا کہ ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا، اُن سب پر رحمتیں ہوں۔

اے مسلمانو! بعض لوگ دائمی شہرت میں ملوث ہیں،اُن کا معاملہ لوگوں میں عام ہے۔ اُن کی اخلاقی بُرائیوں ،بحران زدہ فکری میلان کی وجہ سے اُمت کے سیاست دان، علماء،دعاۃ، فکر و ثقافت اور میڈیا کے چنندہ افراد، دنیا کے انصاف پسند افراد پر واجب ہے کہ وہ ہروسیلے اور چینلز کے ذریعے اس سنگین معاملے پر متنبہ کرنے میں یکجا ہوجائیں۔ اور سزاؤں کو متعین کریں، سخت قوانین بنائیں تاکہ اقدار کی حفاظت کی جاسکے اور اچھے اخلاق کو برقرار رکھا جاسکے۔

اے شہرت یافتہ لوگوں! وہ جو میڈیا اور ٹیکنالوجی کے پیروکاروں میں اضافہ اور شہرت کے ذریعے فالورز کے دلوں میں مقام و وقار رکھتے ہیں، اپنے پختہ ارادوں کے ساتھ رسوائیوں اور لاپروائیوں سے دور رہو۔ اپنے صدق و اخلا ص کے ساتھ سستی اور ٹال مٹول سے بُلند ہوجاؤ۔ اپنی ہمتوں سے عظیم مقاصد اور بیش قیمت عظائم کو طلب کرو۔

اپنی شہرت کو دینِ حق کی دعوت اور وطنوں کی خدمت ،اُن کی ترقی اور سلامتی میں لگاؤ، اور نیکی کی کنجیاں اور بُرائی کے تالے بن جاؤ۔ قابلِ تعریف ہیں ہو لوگ جو بھلائی میں شہرت رکھتے ہیں، جنہوں نے علمِ نافع اور عملِ صالح ،اعلیٰ اقدار اور بُلند مقاصد کو نشر کرنے کے لئے اپنی شہرت کو مسخر کیا۔ پس مہارت کی چمک، لگن اور تخلیقی شہرت ہے، یہ ترقی کے تاج  کی خوبصورتی کی چمک ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

الانفال – 27

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاﻇت چیزوں میں خیانت مت کرو۔

نیز فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

الحجرات – 6

اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔

اللہ قرآن و سنت میں میرے اور آپ کے لئے برکت عطا فرماۓ ، اور اس کی آیات و حکمت سے مجھے اور آپ کو نفع دے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لئے اور آپ لئے ہر گناہ اور معصیت کی بخشش طلب کر تا ہوں، تو اس سے مغفرت طلب کرو، یقینا وہ بہت بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے، بہت زیادہ پاکیزہ اور عمدہ تعریف۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اُس کا کوئی شریک نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

اے اللہ ! اے میرے رب  تو برکت نازل فرما آپ ﷺ پر ،اُن کے آل و اصحاب  اور تابعین پر، اور قیامت تک اچھی طرح اُن کی پیروی کرنے والوں پر۔

امابعد!

اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔ اُن امانتوں کے تعلق سے کہ جنہیں اُس نے تمہارے سُپرد کیا اور ذمہ داریوں کا احساس کرکے اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ تمہیں بھلائیاں نصیب ہوں گی۔ اور شامانیاں و برکات تمہارے حصے میں آئیں گی۔

اسلامی بھائیو! جو مشہور ہوگیا اور جس کا نام و شکل لوگوں میں معروف ہوگیا تو اِس سے اُس کی اہلیت ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو واضح شکل و معیار میں پورا کرے۔ اُسے سچائی ،رفق ،برد باری حکمت، اچھے اخلاق واقدار کے باب سے مزین کیا جائے۔ جو اخلاق باکمال دانشمندی اور اُسے بُلند اسلامی روح کا پتہ دے گی اسی لئے ذمہ داری کے بقدر ہی اُسے عزت ملتی ہے اور لوگوں میں اُس کی قدر ہوتی ہے۔ خصوصاً معظم اور مقدس سرزمین میں کیا ہی نیک بختی کی بات ہے اُس کے لئے جسے اس میں خدمت کرنے اور اِن کو فائدہ پہنچانے کا اعزا ز حاصل ہو۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص اور اُس کا سہارا لینے اوراس کی مدد اور توفیق طلب کرنے ضرورت ہوتی ہے۔ جان لو کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مہربانی، اُس کی عظیم نعمت، بڑا احسان ہے کہ اُس نے حرمین شریفین کو اِس اُمت کے سپرد کیا۔ اسی طرح حرمین شریفین کو امن و امان ،راحت و اطمنان  کی نعمت سے نوازا اور عقل مند دانا و حکیم قیادت سے نوازا جسے اُن کی خدمت و رعایت کا اعزاز حاصل ہے۔ جو حرمین کے زائرین کے واسطےاُمیدوں اور عظائم کو پورا  کرنے کے لئے عظیم خدمات کا ایک مکمل نظا م پیش کرتی ہیں۔

اور یہاں ہمارے اوللامر پر کتاب و سنت کے عقیدت وعبادت، اللہ تعالیٰ سے قربت اور اُس کے پاس جو ہے اُس پر اعتماد کہ بطور شرعی بیعت کی ضرورت ہے۔ نفوس کو متضاد باتوں ،گستاخیوں،زبان درازیوں ،مبالغہ آمیزی  اور سودے بازی سے دور رکھیں۔ اور اے معصوم لوگ جو نشانے پر ہو! تمہیں مبارک ہو تمہارے لئے خوشخبری،تمہارے دین و دنیا میں صبر ،فتح بُلندی ،نیکیوں کا اضافہ اور درجات کی بُلندی ،وہ کامیابیوں اور امتیازات کی قیمت ہے۔ راستہ سیدھا ہے ، سنت جاری ہے اور حق غالب ہوتا ہے اُسے مغلوب نہیں کیا جاسکتا ۔ پس جھاگ بے سُود بن کر ختم ہوجاتا ہے۔ اور جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے۔

 اے احباب کی جماعت! جان لو کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے اخلاق شرف کی بنا پر روکتے ہیں ہم اُن لوگوں کو پہلے تکلیف پہنچائیں جنہوں نے ہمیں تکلیف نہیں دی۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کی کتنی اہم اور بہترین پردہ داری ہے۔ یہ لوگ کتنی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے عیوب تلاش کریں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں ناکام کردیتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ اُن کے کرتوتوں کوروکتا ہے۔

اے احباب کی جماعت ! تمہارے رب کے نزدیک تمہارے اشرف و پاکیزہ اعمال میں سے ہےکہ تم اپنے صادق و امین ،امام المتقین رحمت للعالمین پر زیادہ سے زیادہ دُرود و سالم بھیجو۔ ایسا دُرود جو مشک و عنبر سے زیادہ خوشبودار، جیسا کہ تمہارے رب نے حکم دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اورسلام بھیجی۔

اے اللہ نبی پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر ، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا، اور محمد پر برکت نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا۔

 اے اللہ! خلفاء راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ و تابعین سے، اور قیامت تک ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں سے ، اور اپنے عقو، جو وو کرم سے ہم سے بھی، اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، اور دین کی حفاظت کر ، اس ملک اور تمام مسلم ملکوں کو مامون، محفوظ ، ترقی والا، خو شحال بنادے۔

اے اللہ اے حی و قیوم ! ہمارے تمام احوال کو درست کر دے، اور ہمیں ہمارے بھروسے پلک جھپکنے کے برابر بھی نہ چھوڑ۔

اے اللہ! غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور کر دے، پریشان حال کی پریشانی مٹادے، قرضداروں سے قرض چکا دے، ہمارے اور مسلمانوں کے پیاروں کو شفا دے۔

 اے اللہ !ہر جگہ کے مسلمانوں کے حالات درست کر دے، اپنی رحمت سے ، اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ! جو ہمارے اور ہمارے ملک اور امن کا برا چاہے اسے اس کی ذات میں مشغول کر دے، اس کی چال کو اس کی موت بنادے، اور اس ، اوراسی پر بری گردش ڈال دے، اے رب العالمین۔

 اے اللہ! ہمارے ولی امر خادم حرمین شریفین کو اس کی توفیق دے جسے تو پسند کرتا اور جس سے راضی ہو ، ان کی پیشانی کو تقوی اور بھلائی کی طرف موڑ دے۔

 اے اللہ !ان کو اور ان کے جانشین کو عباد وبلاد کی بھلائی کی توفیق دے۔

اے اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر بہترین بدلہ دے۔

اے اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی پسندیدہ چیز کی توفیق دے۔

اےاللہ! سرحد پر متعین ہماری فوج کی مدد کر ، اپنے اور ان کے دشمن کو برباد کر دے۔

اے اللہ! مسلم نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی حفاظت فرما، ان کی امت اور وطن کو ان کے ذریعہ فائدہ پہنچا، ایمان کو ان کے نزدیک محبوب بنادے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دے، انہیں ہدایت یافتہ بنا۔

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔

اے اللہ! ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے عیوب کو چھپا دے، ہمارے معاملے کو آسان کر، اور ہماری نیک تمناؤں تک ہمیں پہونچا دے۔ ہمارے رب ہماری دعا قبول کر لے تو سننے جائے والا ہے، ہماری توبہ قبول کرلے، تو توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ ڈاکٹرعبدالرحمٰن السدیس حفظه اللہ
10 ربیع الثانی 1444هـ بمطابق 4 نومبر 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالعزیز السُدیس حفظہ اللہ

آپ 10 فروری 1960ء کو پیدا ہوئے ۔ کعبہ کے ائمہ میں سے ایک ممتاز نام الشیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس حفظہ اللہ کا ہے ، جن کی آواز دنیا بھر میں گونجتی ہے اور یہ سعادت 1984ء سے آپ کو حاصل ہے ، کم و بیش دس سال سے زائد عرصے سے آپ مسجد حرام ، اور مسجد نبوی کےا مور کے رئیس بھی ہیں ۔