شرم و حیا شریعت کی روشنی میں

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقّہ ڈور اور اسلام کے کڑے کو مضبوطی سے تھام لو۔

مسلمانوں!

عبادتِ الہی کی کنجی اور راز اسما و صفاتِ الہی کی معرفت میں پنہاں ہے، اللہ تعالی کے تمام نام اچھے اور اس کی صفات اعلی ہیں، اللہ تعالی کے ہر نام اور صفت کی خاص عبادت بھی ہے جو کہ ان کی معرفت کا تقاضا ہے، اللہ تعالی کو اپنے اسما اور صفات پسند ہیں، اللہ تعالی اپنے اسما و صفات کے آثار اپنی مخلوق میں دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے ان کے واسطے سے دعا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا

الأعراف – 180

 اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، اللہ کو ان کے ذریعے پکارو ۔

اللہ تعالی کے ہاں وہ شخص سب سے پسندیدہ ہے جو اللہ کے ہاں محبوب صفات سے متصف ہو بشرطیکہ وہ صفات اللہ تعالی کیلیے مختص نہ ہوں، اللہ تعالی کی صفات کے ذریعے اللہ کی بندگی کرنے والا شخص اس کی رحمت کے قریب تر ہو جاتا ہے، اور اللہ کے ناموں کو یاد کرنے والے کو اللہ جنت میں داخل فرمائے گا۔

اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک “اَلْحَيِيُّ” ہے اور حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اللہ تعالی نے خود اپنی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا

البقرة – 26

 اللہ تعالی قطعاً اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کسی مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔

 رسول اللہ ﷺ نے بھی اللہ تعالی کا یہ نام بتلاتے ہوئے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی”اَلْحَيِيُّ” اور “اَلسِتِّیْرُ” ہے، اور حیا سمیت پردہ پوشی کو بھی پسند فرماتا ہے ) ابو داود

اللہ تعالی کو اٹھے ہوئے ہاتھ خالی لوٹانے سے بھی حیا آتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک تمہارا پروردگار حیا کرنے والا اور نہایت کرم کرنے والا ہے، وہ اپنے بندے سے حیا کرتا ہے کہ جب وہ اس کی جانب ہاتھ اٹھائے تو انہیں خالی واپس لوٹا دے) ابو داود

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اللہ تعالی کی اپنے بندے سے حیا کرنے کی کیفیت انسانی ذہن سے بالا تر ہے؛ عقل اس کی کیفیت بیان کرنے سے قاصر ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی حیا میں سخاوت، احسان، جود اور جلال شامل ہے”

تمام اعلی اخلاقی اقدار کا سر چشمہ ، بڑا اور عظیم اخلاق: حیا ہے، حیا انسان کو برے کام سے روکتی ہے، اور حقداروں کے حقوق سلب کرنے میں حائل بن جاتی ہے، حیا کا ماخذ حیات ہے تو جس قدر دل میں حیات ہو گی اسی مقدار میں حیا بھی ہو گی، تو جس قدر انسانی دل با حیات ہو گا تو انسانی دل بھی اتنا ہی با حیا ہو گا۔

حیا ایک ایسی اخلاقی قدر ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے مطلوب اور اخلاقی فرائض میں شامل ہے، تمام کے تمام انبیائے کرام نے اپنی امتوں کو حیا کی ترغیب دلائی، نیز سابقہ انبیائے کرام کی شریعتوں کی تنسیخ کے دوران حیا کو منسوخ نہیں کیا گیا، نہ ہی اس کا کوئی متبادل لایا گیا؛ کیونکہ حیا سر تا پا اعلی اور افضل ترین خصلت ہے، عقل اس کی خوبیوں کی معترف ہے؛ چنانچہ جس چیز میں اتنی خوبیاں پائی جاتی ہوں اس کی تنسیخ یا اس میں تبدیلی روا نہیں ہو سکتی ؛ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگوں نے ابتدائی نبوتوں کی تعلیمات میں سے جو چیز [آج تک] پائی وہ یہ ہے کہ: “جب حیا نہ ہو تو جو مرضی کر”)بخاری

حیا اشرف المخلوقات کی صفت ہے، اللہ تعالی نے حیا داروں کی مدح سرائی فرمائی ، فرشتے بھی حیا سے متصف ہیں، آپ ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: (کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں) مسلم

انبیائے کرام اپنی اقوام میں حیا داری میں مشہور ہوتے ہیں، روزِ قیامت جب لوگ (آدم ،نوح اور موسی علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے تو انہیں اپنی اپنی غلطی یاد آ جائے گی اور شفاعت کرنے سے شرما جائیں گے) بخاری

موسی علیہ السلام حیا کے پیکر تھے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک موسی علیہ السلام انتہائی حیادار اور پردے میں رہنے والے تھے، آپ کی حیا کی وجہ سے آپ کی جلد کا کوئی حصہ دِکھ نہیں سکتا تھا) بخاری

ہمارے نبی ﷺ سب سے زیادہ حیا کرتے تھے، آپ ﷺ کی حیا آپ کے چہرے سے عیاں ہو جاتی تھی، چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (نبی ﷺ پردے میں چھپی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے، آپ کو کوئی چیز ناگوار گزرتی تو آپ کے چہرے سے ہم پہچان جاتے تھے ) متفق علیہ

معراج کی رات نبی ﷺ موسی علیہ السلام اور اللہ تعالی کے درمیان بار بار چکر لگاتے رہے کہ نمازوں میں مزید تخفیف کر دی جائے، یہاں تک آپ نے فرما دیا: (اب مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے) متفق علیہ

(جس وقت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے آپ کی شادی ہوئی تو اسی مناسبت سے لوگوں کو کھانے کی دعوت دی گئی ؛ لوگوں نے کھانا کھایا اور چل دئیے ، لیکن گھر میں تین لوگ باتیں کرتے ہوئے بیٹھے رہے، تو نبی ﷺ انہیں چلے جانے سے متعلق کچھ کہنے سے شرمائے، یہاں تک کہ آپ انہیں تنہا گھر چھوڑ کر باہر چلے گئے اور پھر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرما دیں:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ

الأحزاب – 53

 اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو؛ الّا یہ کہ تمہیں اجازت دی جائے اور کھانے کی تیاری کا انتظار نہ کرنے لگو۔ البتہ جب تمہیں (کھانے پر) بلایا جائے تو آؤ اور جب کھا چکو تو چلے جاؤ اور باتوں میں دل لگائے وہیں نہ بیٹھے رہو۔ تمہاری یہ بات نبی کے لئے تکلیف دہ تھی مگر تم سے شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہتے تھے اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ متفق علیہ

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے درمیان ضرب المثل تھے، (ایک بار عثمان رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے اپنا لباس سیدھا کر لیا ، تو آپ ﷺ سے لباس سیدھا کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: عثمان بہت شرمیلے ہیں، مجھے خدشہ تھا کہ اگر عثمان میرے پاس اسی حالت میں آ جاتے تو وہ اپنا مافی الضمیر بیان نہ کر پاتے ) مسلم

خواتین کو پیدا ہی حیا پر کیا گیا ہے، در حقیقت حیا ہی عورت کا زیور اور زینت ہے، یہی حیا عورت کیلیے تحفظ اور امن کی ضامن ہے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا [شادی پر رضا مندی کے متعلق]کہتی ہیں کہ: “اللہ کے رسول! کنواری تو شرمیلی ہوتی ہے” [وہ ہاں یا انکار نہیں کر پاتی]تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اس کی خاموشی ہی شادی پر رضا مندی ہوتی ہے) بخاری

[موسی علیہ السلام کے واقعے میں]مدین والے کی بیٹی جب چلتی ہوئی آئی تو مکمل طور پر حیا کی پیکر تھی، انہوں نے اپنا چہرہ کپڑے اور ہاتھ سے ڈھانپا ہوا تھا اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ

القصص – 25

اتنے میں ان دونوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیاداری کا یہ عالم تھا کہ اپنے حجرے میں عمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد ان سے شرم کرتی تھیں، چنانچہ آپ کہتی ہیں: ” میں اپنے اس گھر میں داخل ہو جاتی تھی جہاں آپ ﷺ اور میرے والد مدفون ہیں ، میں وہاں لباس بھی اتار لیتی تھی اور یہ کہتی کہ میرے خاوند اور والد ہی مدفون ہیں! لیکن جب عمر ان کے ساتھ دفن ہو گئے تو اللہ کی قسم میں جب بھی داخل ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہوئے مکمل لباس کے ساتھ داخل ہوتی ہوں۔” احمد

ایک صحابیہ نے تکلیف تو برداشت کر لی لیکن حیا کا پردہ چاک ہونا منظور نہ کیا تو انہیں جنت کی بشارت دے دی گئی، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے کہتے ہیں: “کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ تو میں [عطاء] نے کہا: کیوں نہیں!۔ تو ابن عباس نے کہا: یہ کالی عورت جنتی ہے، وہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے بیہوشی [مرگی] کی شکایت ہے ، جس کی وجہ سے پردہ کھل جاتا ہے، اللہ سے میرے لیے دعا کر دیں” اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تم چاہو تو صبر کر لو اور تمہیں جنت ملے گی، لیکن اگر چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کر دیتا ہوں) “تو اس خاتون نے کہا: میں صبر کرتی ہو، لیکن بیہوشی میں پردہ کھل جاتا ہے تو اللہ سے دعا کر دیں میرا پردہ نہ کھلے تو آپ ﷺ نے اس کیلیے دعا فرما دی” متفق علیہ

حیا داری ان عظیم اخلاقیات میں سے ہے جن پر اہل جاہلیت بھی قائم دائم تھے، ابو سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “جس وقت مجھ سے ہرقل نے نبی ﷺ کے بارے میں پوچھا اور میں اس وقت ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا تو: بخدا! اگر مجھے حیا داری کا خیال نہ ہوتا کہ میرے ساتھی میری جھوٹی بات آگے بتلائیں گے تو میں اس وقت جھوٹ بول دیتا ، لیکن مجھے اس وقت ایسا کرنے سے حیا نے روک دیا ، اس لیے میں نے سچ بات کی” متفق علیہ

در حقیقت حیا ہی خوشحالی اور ترقی کا سبب ہے، حیا ساری کی ساری خیر ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (حیا خیر ہی خیر ہے)یا آپ ﷺ نے فرمایا تھا:  (ساری کی ساری حیا خیر ہے) مسلم

باحیا شخص کیلیے حیا کا نتیجہ ہمیشہ خیر ہوتا ہے، حیا کی وجہ سے انسان کو کبھی ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (حیا خیر کا باعث ہی بنتی ہے) مسلم

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “حیا قلبی حیات کا جوہر ہے، حیا ہمہ قسم کی بھلائی کا سرچشمہ ہے، اگر حیا ختم ہو جائے تو پھر بہتری کی کوئی رمق باقی نہیں رہتی”۔

حیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے اور مذموم صفات سے دور رہتا ہے، پھر جب انسان کی حیا جوبن پر ہو تو اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے ، اپنی کوتاہیوں کو چھپاتا ہے اور اپنا مثبت کردار سامنے لاتا ہے۔

اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ : ایمان زبانی اقرار، عقیدے اور عمل کا نام ہے، پھر حیا ایمان کا ایک درجہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (ایمان کے ساٹھ سے زائد درجے ہیں اور حیا بھی ایمان کا ایک درجہ ہے) متفق علیہ

ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: “حیا ایمان کا حصہ ہے، مومن جنت میں جائے گا، کسی سے حیا اسی وقت چھینی جاتی ہے جب اس میں ایمان باقی نہ رہے”۔

ایک بار نبی ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے بھائی کو حیا کی وجہ سے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہا تھا: “تم بہت زیادہ حیا کرتے ہو” اس نے یہاں تک بات کہنا چاہی کہ: “تمہاری حیا نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اسے چھوڑ دو، حیا تو ایمان کا حصہ ہے) متفق علیہ

اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی دل کو سب سے سنگین سزا یہ ہے کہ اس میں سے حیا چھین لے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “حیا اور ایمان دونوں کا آپس میں مضبوط رشتہ ہے، لہذا اگر ان میں سے ایک چیز بھی اٹھ گئی تو دوسری بھی اٹھ جائے گی”۔

حیا انسان کو اچھے کاموں پر ابھارتی ہے اور حیا دار انسان کو تقوی کی جانب لے جاتی ہے، لیکن اگر کسی میں حیا باقی نہ رہے تو وہ پھر مخالف سمت میں چل پڑتا ہے۔

انسان اور گناہوں کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ یہی حیا بنتی ہے، چنانچہ باحیا شخص اسی طرح گناہوں سے دور رہتا ہے جس طرح ایمان کی بنا پر گناہوں سے دور رہتا ہے۔

اور اگر انسان سے حیا ہی چھین لی جائے تو قبیح، مذموم اور گری ہوئی حرکتوں سے کوئی چیز مانع نہیں رہتی، جیسے کہ آپ ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ: (جب تم حیا نہ کرو تو جو من میں آئے کرتے جاؤ) بخاری۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں: “اگر حیا کسی شخص کو حرام کاموں سے روک نہ پائے تو وہ صغیرہ گناہ کرے یا کبیرہ ؛ اس کیلیے سب یکساں ہیں۔ یعنی اس حدیث میں حیا کی کمی پر سخت وعید اور ڈانٹ پلائی گئی ہے”۔

گناہوں سے انسان کی حیا متاثر ہوتی ہے ، اور ممکن ہے کہ کلی طور پر حیا ختم ہو جائے ، بلکہ اسے اس چیز کی پرواہ ہی نہ رہے کہ لوگوں کو میری اس حالت کا علم ہو گیا تو وہ کیا کہیں گے! یا اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنی کارستانیاں خود سے بیان کرنے لگ جائے۔

 در حقیقت حیا کے ذریعے انسان آراستہ اور پیراستہ ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بے حیائی کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اسے داغ دار کر دیتی ہے جبکہ حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے) ترمذی

حیا انسان کو عزتِ نفس کے تحفظ کی ترغیب دیتی ہے، اس لیے انسان ضرورت کے باوجود کسی سے کچھ نہیں مانگتا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک ،دو لقمے دے دئیے جائیں، مسکین تو وہ ہے جس کی آمدن کم ہو اور مانگنے سے حیا کرے یا لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرے) متفق علیہ

حیا انسان کو با ادب ہونے پر ابھارتی ہے، (ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے بارے میں پوچھا کہ اس کی خوبیاں مسلمان جیسی ہوتی ہیں[وہ کون سا درخت ہے؟]) اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میرے ذہن میں آیا کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے، لیکن میں نے ابو بکر و عمر کو دیکھا کہ وہ جواب نہیں دے رہے تو مجھے بھی اچھا نہیں لگا کہ میں ان کی موجودگی میں بولوں” ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ: “مجھے شرم آئی کہ میں بولوں” متفق علیہ

یہ اصول ہے کہ جیسا کام ویسا دام، تو حیا کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی بھی حیا کرنے والوں کو بہترین جزا سے نوازے گا، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اور دوسرا شخص حیا کر گیا تو اللہ تعالی نے بھی اس کی حیا کی لاج رکھی) متفق علیہ

اعلی ترین حیا وہ ہے جو اللہ تعالی سے ہو؛ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ایسی جگہ نہ پائے جہاں سے اس نے روکا ہے اور جس جگہ کا اس نے حکم دیا ہے وہاں تمہاری غیر حاضری نہ ہو، اللہ تعالی کا حق زیادہ بنتا ہے کہ اس سے حیا کی جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی سے کما حقہ حیا کرو) ترمذی

حیا اللہ تعالی کی جانب سے ایک نور ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے ، یہ نور انسان کو اس بات کا تصور دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہے اسی بنا پر انسان خلوت اور جلوت ہر حالت میں اللہ سے حیا کرتا ہے۔

انسان کے دل میں اللہ تعالی سے حیا اس وقت پختہ ہوتی ہے جب انسان اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات پر نظر دوڑائے اور ان کے مقابلے میں اپنے کمی کوتاہی کو سامنے رکھے نیز یہ بھی تصور اجاگر کرے کہ اللہ تعالی ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے واقف ہے؛ چنانچہ جس وقت انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی ہر چیز اللہ تعالی کی نظروں اور سماعت کے زیر اثر ہے تو انسان اللہ تعالی سے بہت زیادہ حیا کرے گا اور اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث بننے والے امور سے دور رہے گا۔

انسان کے ساتھ ہر وقت فرشتے ہوتے ہیں ، ان فرشتوں کے احترام میں یہ شامل ہے کہ ان سے حیا کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ

الإنفطار – 10/12

 اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں۔وہ معزز کاتب ہیں۔انہیں معلوم ہے جو تم کرتے ہو۔

 ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “ان معزز محافظوں سے حیا کرو، ان کا احترام کرو اور انہیں ایسی حرکت دکھانے سے شرم کرو جو تم انسانوں کو دکھانے سے شرماتے ہو”۔

لوگوں سے حیا اور شرم انسان کو اچھے کاموں پر ابھارتی ہے، اگر کسی انسان کو اپنے مسلمان بھائی سے صرف اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے شرماتے ہوئے گناہ نہیں کرتا تو یہی اس کیلیے کافی ہے، لوگوں سے حیا اللہ تعالی سے حیا کا ذریعہ ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص لوگوں سے حیا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالی سے بھی حیا نہیں کرتا، نیز اگر کوئی شخص باحیا لوگوں سے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے تو اس کی حیا تروتازہ ہو جاتی ہے۔

سب سے اعلی بات تو یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے حیا کرے، چنانچہ اگر کوئی شخص تنہائی میں ایسا کام کرتا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کرتا تو در حقیقت وہ شخص خود اپنا احترام نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے تو شرماتا ہے لیکن خود اپنے آپ سے نہیں شرماتا تو اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے بھی حقیر اور ذلیل بنایا ہوا ہے، لیکن اگر اپنے آپ اور لوگوں سے شرماتا ہے لیکن اللہ تعالی سے حیا نہیں کرتا تو وہ معرفت الہی سے نابلد ہے۔

اگر کسی شخص کی پردہ پوشی حیا کے ذمے ہو تو لوگ اس کے عیب نہیں دیکھ پاتے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانوں!

دین اسلام خوبیوں اور امتیازی صفات کا دین ہے، دین اسلام میں اعلی ترین اخلاقیات اور اوصافِ حمیدہ یکجا ہیں، دین اسلام میں ہر قسم کی بھلائی کا حکم موجود ہے، اسی طرح ہر قسم کے شر سے تنبیہ بھی ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود عملی طور پر اسلام کو تھامیں، لوگوں کو اس کی دعوت دیں، اللہ تعالی سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکامات کی تعمیل کریں اور نافرمانی سے بچیں۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا

النساء – 125

 اور اس شخص سے کس کا دین بہتر ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہو، وہ نیکو کار بھی ہو اور یکسو ہو جانے والے ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کر رہا ہو ۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ،سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانوں!

احادیث نبویہ کی روشنی میں قابل ستائش حیا ایسی اخلاقی قدر ہے جو انسان کو اچھے کام کرنے پر ابھارے اور برے کاموں سے روکے، جبکہ ایسی سستی اور کاہلی جس کی وجہ سے حقوق اللہ یا حقوق العباد میں کمی واقع ہو تو اس کا حیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص حیا کے باعث خیر سے محروم ہو تو یہ بھی اچھی چیز نہیں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: “بہترین خواتین انصاری خواتین ہیں، وہ دینی مسائل سمجھنے میں حیا کو رکاوٹ نہیں بناتیں” مسلم

لہذا دینی مسائل سیکھنے میں حیا اور شرم کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی شخص شرم کھاتے ہوئے حصولِ علم کیلیے آگے نہیں بڑھتا تو وہ ہمیشہ علم سے محروم رہتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “حیا اور تکبر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کر سکتا”۔

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد

یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر ، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! ہماری فوج کی مدد فرما، ہماری سرحدوں کو محفوظ فرما، اور ہمارے ملک کو امن و امان والا بنا، یا رب العالمین!

یا اللہ! تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، تو ہی غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والے بن جائیں گے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا قوی! یا عزیز!

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

 ترجمہ: شفقت الرحمن مغل

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔