پہلا خطبہ :
تمام تعریف اُس اللہ کے لئے جو نرمی اور برد باری کو پسند کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ ایسی گواہی جس سے اُس کی رضا مندی کی اُمید ہے،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار نبی کریم محمد ﷺ اُس کے چنندہ بندے اور رسول ہیں۔
درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر اور آ پ ﷺ کے آل و اصحاب پر جو نیک اور ہدایت یافتہ تھے۔
حمد و ثنا کے بعد !
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرا وہ کامیاب ہوجاتا ہے اور کامیاب لوگ ایک نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔
اے مسلمانو! نفیس ترین چیز عمدہ اخلاق ہےاور شفقت و نرمی اخلا ق کی زینتوں کا زیور ہے۔ نرمی حکمت کی بنیاد ،سلامتی کا قلعہ ،فضیلت کی علامت اور کامیابی کا توشہ ہے۔
شاعر کہتا ہے :
نرمی باعثِ برکت اور بُرد باری باعثِ سردادری ہے لہٰذا تم معاملات میں نرمی برتو،تمہیں کامیابی ملے گی۔
اگر ایک ہزار لوگ بھی ہتھیار بند ہوکر کسی کام کے لئے نکلیں تب بھی اُسے وہی شخص پورا کرپائے گاجو نرمی کا معاملہ کرے گا۔
یقیناً نرمی مقیم شخص کے لئے مناسب ہے اور جب انسان سفر میں ہوتونرمی کی اور زیادہ ضرورت پڑھتی ہے۔بات کا وزن اُسی وقت معلوم ہوتا ہے جب تم بولتے ہو،پھر اُس بات سے یا تو انسان کی عقلمندی ثابت ہوتی ہے یا اُس کے عیب نظر آتے ہیں۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جسے نرمی کی صفت سے نوازا گیا تواُسے بھلائی کا حصہ مل گیا اور جو نرمی سے محروم رہا تو گویا وہ بھلائی میں اپنے حصے سے محروم ہوگیا۔ سنن الترمذی
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور ہر چیز میں نرمی کو پسند کرتا ہے ۔ متفق علیہ
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ : اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور نرمی کو پسند کرتاہے اور نرمی کی وجہ سے وہ چیزیں عطا کردیتا ہے جو سختی کی وجہ سے یانرمی کے علاوہ کسی اور وجہ سے نہیں دیتا۔
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں یہ بھی ہے : جس چیز میں نرمی ہوتی ہے وہ اور زیادہ خوبصورت بن جاتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال لی جاتی ہے وہ اور زیادہ عیب دار ہوجاتی ہے۔
نرمی کامطلب ہے نرم پہلو ،پاکیزگی،اچھی کارکردگی ،نرمی اور شفقت سے پیش آنا،آسانی کو ترجیح دینا ،بہتر طریقے سے دِفاع کرنا،سختی اور جلد بازی سے گریزکرنا۔تشدد ،تیزی اور شدت سے پہلو تہی، اقوال و افعال میں ترش روی ،خودپسندی ،سنگ دلی اور حد اعتدال سے خروج کرنے سے بچنا۔ اور کسی بھی معاملے کے بہتر اور آسان پہلو کو اختیار کرنا۔
یہ بھی پڑھیں: چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ نبی کریمﷺ کا برتاؤ
یہ بھی پڑھیں: جارِحانہ روّیے کی مذمت
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا معاملہ بڑا پیچیدہ اور ہاتھ بڑے سخت ہوتے ہیں۔اُن کی بدبختی ختم نہیں ہوتی،وہ نہایت متکبر ہمدردی سے عاری ،سخت ،ترش رو،جلد باز ،جاہل اور فریب خوردہ ہوتے ہیں۔اوراحوال و امور کا صحیح اندازہ بھی نہیں لگاپاتے۔اور جو معاملات کے اہم موڑ پر نرمی اختیار نہیں کرتاوہ ناپسندیدہ آزمائش سےدوچار ہوتا ہے۔جو اپنے غصے کےزیرِ اثر آجاتا ہے وہ اپنا ادب کھودیتاہے اور جو نرمی چھوڑدیتا ہے تو دوست اور مددگار اُس کا ساتھ چھوڑدیتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے :
اے میرے بیٹے ! اگر تمہیں کوئی چوٹ پہنچے تو صبر سے کام لو،کیونکہ نرمی عقلمندی کے زیادہ قریب اور مناسب ہے۔
اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کے لکھ کر کے بھیجا : اما بعد! بے شک خیر کے معاملے کو سمجھنا ایک اضافی ہدایت ہے۔ اورہدایت یافتہ وہ ہے جو جلد بازی سے باز رہے ۔اور نامراد وہ شخص ہے جو بُرد باری سے عاری ہو۔غور وفکر سے کام لینے والا دُرستگی کو پالیتا ہے یا پھر دُرستگی کے قریب پہنچ جاتا ہے اور جلد بازی کرنے والا غلطی کرتاہے یا غلطی کرنے کے قریب ہوتاہے ۔نرمی جس کو فائدہ نہ پہنچائے تو حماقت اُسے ضرور نقصان پہنچا دیتی ہے ۔اور جو تجربات سے نہ سیکھے وہ بُلندی نہیں پاسکتا ۔اور جب تک انسان کی بُرد باری اُس کی جہالت اور خواہشات پرغلبہ نہ پائے تب تک وہ صاحبِ فکر و رائے نہیں ہوسکتا۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قدرت کے باوجود معاف کردینا ،سخت غصے کے وقت جذبات پر قابو رکھنا اور خود کو روک لینااور اللہ کے بندوں کےساتھ شفقت و نرمی کا برتاؤ کرنا اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال میں سے ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اللہ سبحانہ وتعالیٰ رحیم ہے اور رحم کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔وہ اپنے رحم کرنے والے بندوں کوپسند کرتاہے۔وہ پردہ پوشی کرنے والا ہے۔اور اپنے بندوں کی پردہ پوشی کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔وہ معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والے لوگوں کو پسند کرتاہے۔وہ غفور ہے اور دوسروں کو بخشنے والے لوگوں کو پسند کرتاہے۔وہ لطیف و باریک بیں ہیں اور بندوں کے ساتھ لفط و مہربانی کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔تُند خو، تُرش رو ،بدخو اور متکبر انسان کو پسند نہیں کرتا۔وہ رفیق ہے اور نرمی کو پسند کرتاہے ۔وہ حلیم ہے اور بُرد باری کو پسند کرتاہے۔وہ بر ہے اور نیک کو پسند کرتاہے۔وہ عادل ہے اور عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔وہ خود لوگوں کے عذر قبول کرتاہے اور عذر قبول کرنے والے بندوں کو پسند کرتاہےاور انتفاد کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بقدر بندوں کو نوازتاہے۔جو لوگوں کومعاف کرتاہے وہ اُسے بھی معاف کرتا ہے۔جو لوگوں کی خطاؤ کو درگزر کرتاہے وہ اُسے بھی معاف کرتاہے۔جو لوگوں سے چشم پوشی کرتا ہے وہ بھی اُس کےساتھ چشم پوشی کرتا ہے۔جو بندوں کے ساتھ نرمی برتا ہے وہ بھی اُس کے ساتھ نرمی برتا ہے ۔جو اُس کی مخلوق پر رحم کرتا ہے وہ بھی اُس پر رحم کرتاہے ۔جو اُس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرتا ہے وہ بھی اُس کےساتھ احسان کرتاہے ۔جو مخلوق کے ساتھ سخاوت کرتاہے وہ بھی اُس کے ساتھ سخاوت کرتا ہے ۔جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ بھی اُس کوفائدہ پہنچا تا ہے ۔جو لوگوں کی پردہ پوشی کرتا ہے وہ بھی اُس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ جو لوگوں سے درگزر کرتاہے تو وہ بھی اُس سے درگزر کرتا ہے۔جو لوگوں کی بے حرمتی کرتا ہے تو اللہ بھی اُس کی بے حرمتی کرتاہےاور اُسے رسوا کرتاہے ۔جو لوگوں سے بھلائی کو روکتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے اپنی بھلائی کو روک لیتا ہے۔جو روگردانی کرتاہے اللہ تعالیٰ اُس سے روگردانی کرتاہے۔جو مکر و فریب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کےساتھ بھی مکر و فریب کرتا ہے۔جو لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے دھوکہ دیتاہے۔غرض یہ کہ جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کےساتھ جس طرح سے پیش آئےگااُسی طرح سے اللہ تعالیٰ بھی دنیا و آخرت میں اُس کےساتھ پیش آئےگا۔یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتاہے جیسا سُلو ک وہ اللہ کی مخلوق کےساتھ کرتا ہے۔
اے مسلمانو! جب اللہ تعالیٰ کسی گھر والے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو وہ اُنہیں شفقت و نرمی کی رہنمائی کرتاہےاور جس گھر کےافراد شفقت و نرمی سے محروم ہو تو وہ بھلائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسے گھرانے بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جہاں شفقت و نرمی کا بول بالا ہوتا ہے ۔ پیار و محبت اور نیکی اُسے مزید خوبصورت بنادیتی ہے۔اور اُس گھر میں سکون و اطمنان کی حکمرانی ہوتی ہے۔اور وہ گھرانے بہت بدنصیت ہوتے ہیں جہاں شور شرابہ ،لڑائی جھگڑے کا ماحول ہوتاہے، شرارت و چیخ و پکا راُسے برباد کردیتی ہے۔اورا ختلاف و فتنہ پروری اُسے تباہ کردیتے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی فرد کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے پس اُن کےدل میں شفقت و نرمی ڈال دیتا ہے۔مسند احمد
جب کسی گھر کے افراد سے شفقت و نرمی ختم ہوجاتی ہے پھر وہ گھر اختلافات ،لڑائی جھگڑا ،شکوک و شبہات،شکایتوں اور غموں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔جہاں ہرایک دوسرے پر الزام تراشی اور ایک دوسرے کی جڑکاٹنے کی فراق میں رہتے ہیں ۔
شاعر کہتا ہے:
نہ تو اُنہوں نے ظلم کرتے ہوئے نرمی اختیار کی اور نہ قطع رحمی کرتے ہوئے حسن ِ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
اے محفوظ گھرانے کےلوگو! اللہ سے ڈرو ،روابط اور زیارت کے ذریعے وحشت و نفرتوں کےپردے کو چاک کردو۔
یارانہ ماحول کو فروغ دو۔شگاف اور دراڑ کو بھر دو۔ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑو۔بگاڑ کی اصلاح کرو۔اورعفو و چشم پوشی ،درگزری کے ذریعے دل کی آگ کو بھجادو۔اور جو عذر پیش کرے تو اُس کےعذر کو قبول کرو اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ کہ جب اُن کی رضامندی طلب کی جاتی ہے تو وہ راضی نہیں ہوتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے:
جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے تمہارے ساتھ بُرا سُلوک کیا اور ذلت کو برداشت کرنا ایک نوجوان کےلئے عار کی با ت ہے۔
تو میں کہتا ہوں کہ تو ہمارے پاس عذر لے کر آیا ہےاور معذرت طلب کرنا ہمارے نزدیک گناہ کی دیت ہے۔
اے مسلمانو! شریعت میں مطلوبہ شفقت و نرمی کا تقاضہ یہ ہے کہ علم حاصل کرنے والے طلبہ ، جاہل اور سوال کرنے والے لوگوں سے شفقت و نرمی کا برتاؤ کیا جائے، اُن کےساتھ مسائل کو واضح کا جائے۔ حق کو ظاہر کا جائے،مقاصد کا خلاصہ پیش کیا جائے۔ جس چیز کے وہ متحمل نہیں اُسے چھوڑ دیا جائے۔اور جسے وہ نہیں جانتے اُس میں انہیں معذور سمجھا جائے۔جس چیز کو وہ نہیں جانتے اُسے شفقت و نر می کے ساتھ اُنہیں سمجھایا جائے۔نا کہ سختی و شدت کا مظاہر کیا جائے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ
الضحیٰ – 10
اور لیکن سائل، پس (اسے) مت جھڑک۔
ایک قول کے مطابق اِس آیت میں سائل سے مراد طالب علم ہے۔لہٰذا علم کے بارے میں سوال کرنے والے،رہنمائی طلب کرنے والے اور سمجھنےکی کوشش کرنے والوں کو نا جھڑکئے۔
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جب اصحاب ِ حدیث کو دیکھتے تو اُ ن کےلئے اپنی چادر کو بچھا دیتے اور کہتے کہ: رسول اللہ ﷺ کے چہیتے لوگوں کو میں خوش آمدید کہتا ہوں۔
اور ابو ھارون عبدی جناب سعید الخذری رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ ابو سعید الخذری رضی اللہ عنہ کے پاس جا تے تو وہ کہتے کہ ہم اُنہیں خوش آمدیدکہتے جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں وصیت کی ہے۔
معاویہ بن حکم سُلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھاکہ اتنے میں ایک آدمی کو چھینک آگئی تو میں نے نماز ہی میں “یرحمک اللہ “کہ دیا ۔ یہ سن کر لوگ مجھے گھورنے لگے تو میں نے نماز ہی میں کہا : تمہاری مائیں تمیں گم کردیں! تم لوگ مجھے کیوں گھوررہے ہو؟ ۔ تو لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنی رانوں پر مار کرمجھے چپ کرانے لگے، تو جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھے چپ کرارہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا ۔پھر جب رسول اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں کہ میں نے نہ آپ ﷺ سے پہلے نہ آپ ﷺ کے بعد ایسامعلم دیکھا جو آپ سے بہتر تعلیم دے دسکے ۔اللہ کی قسم ! آپ ﷺ نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ مارا اورنہ ہی بُرا بھلا کہا ۔بلکہ صرف یہ فرمایا کہ: نماز میں لوگوں سے بات کرنا دُرست نہیں ہے ۔بلکہ وہ تسبیح ،تکبیر اور تلاوت ِ قرآن کے لئے ہے۔صحیح مسلم
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے اُس عظیم اخلاق کو بیان کیا گیا ہے جس کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور جاہل کے ساتھ آپ ﷺ کی نرمی اور اُمت کے ساتھ آپ ﷺ کی شفقت کا بھی بیان ہے۔اور اِس حدیث میں جاہل کے ساتھ نرمی برتنے اور اُسے اچھے اندازمیں تعلیم دینے ،اُس پر مہربانی کرنے اوراُسے دُرست بات کو اچھے انداز سے سمجھانے کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کو اپنانے کی ترغیب بھی ہے۔
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیاتو لوگ اُسے مارنے کےلئے اُس کی طرف دوڑے، تب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اُسے پیشاب کرنے لینے دوپھر اُس کے پیشاب پر ایک بالٹی یا ایک گھڑا پانی کا بہادو۔کیونکہ تم لوگ مشکل نہیں بلکہ آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو۔صحیح بخاری
پھر نبی اکرم ﷺ نے اُس دیہاتی کو بلایا اور اُسے کہا : مسجدوں میں پیشاب کرنا یا گندگی پھیلانا مناسب نہیں ہے، بلکہ یہ مسجدیں نماز ،ذکر و اذکار اور تلاوت ِ قرآن کےلئے ہیں۔پھر بعد میں جب اُس دیہاتی کو دین کی سمجھ آگئی تو وہ خود اُس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہتا تھا: کہ جب نبی اکرم ﷺ میرے پاس آئے تو میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں۔ نہ تو آپ ﷺ نے مجھے بُرا بھلا کہا ،نہ تو ڈانٹا اور نہ ہی مارا۔
رسول اللہ ﷺ کے عظیم اخلا ق میں رحم،لطف اور سنگدل جاہل کے ساتھ نرمی کے برتاؤ پر غور و فکر کیجئے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ کے نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے اور آپ کے طریقوں پر چلنےوالوں میں سے بنائے ۔ میں نے کہا اور آپ نے سُنا اور میں اللہ تعالیٰ سےمغفرت طلب کرتاہوں اور آپ بھی اُس سے مغفرت طلب کیجئے ۔یقینا ً وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں االلہ رب العالمین کے لئے ہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ،وہی بیماروں کو شفا دیتا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔جو اُس کی اتباع کرے وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جو اُس کی نافرمانی کرے وہ گمراہ ہوجائےگا۔درود و سلام نازل ہوآپ ﷺ پر اور آپ کے آل و اصحاب پر، ایسا درود و سلام جو قیامت تک باقی ہے۔
حمد و سلام کے بعد!
اے مسلمانو! ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے۔
اے مسلمانو! نصیحت کرتے وقت شفقت و نرمی اختیار کرنے سے اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ سامنے والا اُسے قبول کرلے اور مقصد حاصل ہوجائے۔ انسان کو سختی سے جو چیز نہیں ملتی ،نرمی سے اُسے کہیں افضل اور بہتر چیز مل جاتی ہے۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: بھلائی کا حکم دیتے وقت لوگوں کے ساتھ سختی کے بجائے نرمی و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کھلم کھلا فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہےتو پھر اُسے منع کرنا اوراُس کے بارے میں لوگوں کو بتانا ضروری ہے ۔لیکن اِس میں بھی نصیحت کرتے ہوئے نرمی برتنے اوراچھے اندازمیں بات چیت کرنے کے اُصول کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔لوگوں کےسامنے کسی کو نصیحت کرنا دراصل اُس کی توبیخ و ڈانٹ پھٹکار ہے۔اور کسی کی بُرائی کی تشہیراُس کی نفرت کو بڑھانے اور اُسے ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
ابن ِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلف صالحین جب کسی کو نصیت کرنے کا ارادہ کرتے تواُسے تنہائی میں نصیحت کرتے ۔ کسی سلف نے یہاں تک کہا ہے کہ کسی نے اپنے تھائی کو تنہائی میں نصیحت کی تو وہ واقعی نصیحت ہے اورجس نے لوگوں کے سامنے اُس کو نصیحت کی تو دراصل اُس نے اُسے پھٹکار لگائی۔
اورفضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ مؤمن شخص خیر خواہی کرتا ہے ، پردہ پوشی کرتاہےاور فاجر انسان عزت کو چاک کرتا اورعار دلاتا ہے۔عبدالعزیز بن ابو وراء بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے کچھ لوگ ایسے بھی تھےجب وہ اپنے کسی بھائی کے اندر کوئی بُرائی دیکھتے تونرمی کے ساتھ اُسے روکتے تھے تو لہٰذا اُنہیں بُرائی سے روکنے اور بھلائی کا حکم دینے پر نیکی ملتی تھی۔
اے مسلمانو! اپنے والدین ،بزرگوں ،بوڑھوں اور خود سے عمر میں بڑے لوگوں سے شفقت سے پیش آؤ۔اُنہیں مقدم رکھو اور اُن کی تکریم و تعظیم کرو اور اُن کی قدر و منزلت کا خیال رکھو۔کمزوروں ،بیماروں اور معذوروں سے شفقت و نرمی کا برتاؤ کرو۔ اُن کی مدد کرو اور اُن کو قریب کرو۔پھر فقیروں، مسکینوں اور کمزوروں کے ساتھ نرمی برتو،اُن پر مہربانی کرو اور اُنہیں بے نیاز کردو۔عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آؤ اور اُن پر رحم کرو اور اُن کے حقوق ادا کرو،مزدوروں ،عاملوں اور خادموں کے ساتھ بھی شفقت و نرمی کامعاملہ کرو۔اُن کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماتحتی او رکفالت میں رکھا ہے۔لہٰذا اُنہیں اُن کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف نہ بناؤاور وہ جن چیزوں کے حقدار ہیں اُنہیں اُن سے محروم نہ کرو۔اور ایسی باتیں اُنہیں نہ سناؤ جو انہیں ناگوار لگیں۔
چوپائیوں اور بے زبان جانوروں سے بھی نرمی کا معاملہ کرو۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اونٹ کے مالک کو حکم دیا کہ جب وہ ہر یالی اور کھانس سے گزرے تواُس پر نرمی کرے اور اُسے چر لینے دےتاکہ اُس طاقت و قوت اور تازگی لوٹ آئے۔اور اُسے ہریالی والی جگہ میں تیز چلانے اور روکنے سے منع فرمایا تاکہ جسمانی کمزور اور خواہش کو توڑنے کی کمزوری جمع نہ ہوجائیں۔اور جب اُنٹ کو لے کر قحط زدہ جگہ سے گزرے تو تیزی سے گزرے تاکہ جلد ازجلد منزلِ مقصود تک پہنچ جائےاور اُس کے اندر کچھ جسمانی طاقت باقی رہےاور وہ کمزوری اور طاقت کی کمی کا شکار نہ ہو۔
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم ہریالی کے راستے سے سفر کرو تواونٹ کو زمین کی ہریالی میں سے اپنا حق لے لینے دواور جب تم قحط زدہ جگہ سے گزرو تو اُسے تیزی سے بھگاؤ۔صحیح مسلم
غرض یہ کہ ہر چیز میں شفقت و نرمی برتوکیونکہ شفقت و نرمی آفت و مصیبت سے نجات کا ذریعہ ہے۔
آپ درود و سلام پڑھیں تمام مخلوقات کے سردارپر ،کیونکہ جس نے اُس پر ایک بار درود و سلام بھیجا تو اللہ تعالیٰ اُس پر دس مرتبہ رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائےگا۔
اے اللہ ! تو محمد ﷺ پر اور اُن کی آل پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابرھیم علیہ السلام پر اور اُن کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں۔
اے اللہ تو راضی ہوجا ان کے چاروں خلفاء راشیدین جو ہدایت کے پیشوا وامام تھے ۔ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سے اور تمام صحابہ اور تابعین سے اوران سے جو دُرست طریقے سے قیاُمت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم یا وہاب۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما ۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیرعطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقاُمت دے۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے اللہ ! ہماری دُعاؤں کو سن لے اور اُنہیں قبول و منظور فرما۔ یا عزیز ، یا کریم ،یارحیم
خطبة الجمعة مسجدِ نبوی ﷺ : فضیلة الشیخ صلاح البدیر حفظه اللہ
تاریخ 18جمادي الآخرة 1443هـ بمطابق 22 جنوری 2022