شادی بیاہ کے مسنون اور غیر مسنون طریقے

ولیمے کا مسنون طریقہ اور غیر مسنون طریقے :

شادی کی تقریبات میں ولیمہ ایک ایسا عمل ہے جو مسنون ہے ، یعنی نبی ﷺنے اس کا حکم دیا ہے اور آپ نے خود بھی اپنی شادیوں کا ولیمہ کیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اللہ نے زندگی کے ایک نہایت اہم اور نئے موڑ پر مدد فرمائی اور اسے ایک ایسا رفیق حیات اور رفیق سفر عطا فرما دیا جو اس کے لیے تفریح طبع اور تسکینِ خاطر کا باعث بھی ہوگا اور زندگی کے نشیب وفراز میں اس کا ہم دم ، ہمدرد اور مددگار بھی۔

اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ اسلام میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اِطعامِ طعام (کھلانے پلانے) کا اہتمام کیا جائے ۔ اولاد اللہ کی نعمت ہے اس کے ملنے پر حکم ہے کہ جانور قربان کرو اور خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ ۔ اولاد میں لڑکے کی ولادت پر زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے ، اس لیے اس کی ولادت پر دو بکریاں ذبح کرنے کا حکم ہے یعنی بقدر مسرت اطعامِ طعام ۔ لڑکی بھی اللہ کی نعمت ہے اس کی ولادت پر زمانۂ جاہلیت کی طرح غم واندوہ کا اظہار نہیں کرنا بلکہ اظہار مسرت ہی کرنا ہے گو لڑکے کے مقابلے میں کم ہی سہی اس لیے ایک جانور قربان کردو۔

نکاح بھی نوجوان جوڑے کے لیے بلکہ دونوں خاندانوں کے لیے بھی خوشی کا ایک موقع ہے ، اللہ نے دونوں خاندانوں کو ایک نہایت اہم فیصلے کی ادائیگی سے نواز دیا اور نوجوان جوڑے کے لیے بھی خوشی کا موقع ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا جیون ساتھی میسر آگیا جو ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک ہوگا اور شاہراہ زندگی میں ایک دوسرے کا ہمسفر بھی لیکن اسلام زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی کا قائل ہے اور حد سے تجاوزکو ناپسند کرتاہے ، اس لیے اس کے نزدیک اظہار ِ مسرت میں بھی اعتداء (حد سے تجاوز) اور اسراف(فضول خرچی) ناپسندیدہ ہے۔

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ 

الاسراء – 27

’’ یقیناً فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘

علاوہ ازیں تفاخر اور شان وشوکت کا بے جااظہار بھی اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ اس اعتبار سے ولیمہ جب سنت ہے ، دنیاوی رسم نہیں تو اسے کرنا بھی اسی طرح چاہیے جس میں اسلامی ہدایات سےانحراف نہ ہو جب کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ولیمہ بھی اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ بھی شادی بیاہ کی دیگر رسموں کی طرح بہت سی خرابیوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے مثلاً :

(1) ولیمے میں بارات سے بھی زیادہ ہجوم اکٹھا کیا جاتاہے ۔

(2) حسبِ استطاعت زیادہ سے زیادہ انواع واقسام کے کھانوں کا اہتمام کر لیا جاتاہے۔

(3) اپنی امارت اور شان وشوکت کا اظہار کیا جاتاہے ۔

(4) غرباء کی شرکت کو ناپسندیدہ اور اپنے مقام ومرتبہ کے خلاف سمجھا جاتاہے۔

(5) جس کے پاس وسائل نہ ہوں یا بہت کم ہوں وہ بھی قرض لے کر اپنی استطاعت سے بڑھ کر ولیمہ کرتاہے۔

(6) ولیمے میں بھی بے پردگی کا طوفان آیاہوتا ہے اور اس پر مزید یہ کہ مووی فلم کے ذریعے سے مردوں کے علاوہ تمام خواتین کی حرکات کو بھی محفوظ کیا جاتاہے اور دونوں خاندانوں میں اس کو ذوق وشوق سے دیکھا جاتاہے۔

ولیمے کے بارے میں اسلامی ہدایات :

حالانکہ اسلامی ہدایات کی رو سے مذکورہ سب باتیں غلط ہیں اس لیے دعوتِ ولیمہ میں بھی اصلاح کی اور اپنے رویوں میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہمیں اس کی بابت جو ہدایات ملتی ہیں ان سے حسب ذیل چیزوں کا اثبات ہوتاہے۔

(1) اسراف اور فضول خرچی سے بچا جائے ، سادہ اور مختصر ولیمہ ہو، سارے خاندان اور دوست احباب کو اکٹھا کرنا ضروری نہیں ہے۔ عہد نبوی میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اپنے بیٹوں،بیٹیوں کی شادیاں کرتے تھے لیکن دعوتِ ولیمہ وغیرہ میں کسی بڑے اجتماع کا کوئی ثبوت نہیں ملتا حتی کہ صحابہ کرام جو رسول اللہﷺکے ساتھ خصوصی قربت کا تعلق رکھتے تھے خود اپنی شادی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تک کو مدعو نہیں کیا کرتے تھے۔ جیسےسیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی ہوئی تو رسول اللہﷺنے ان کے لباس پر زردی دیکھی تو ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے کھجور کی ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر ایک خاتون سے شادی کر لی ہے ، آپﷺنے فرمایا :

أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ

’’ ولیمہ کرو(اگر زیادہ استطاعت نہ ہو تو) ایک بکری ہی کا کردو۔‘‘   [2]

خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہﷺنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرکے اپنے  حبالہ عقد میں لے لیا تو راستے ہی میں مدینہ پہنچنے سے قبل ہی آپﷺنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے خلوت فرمائی اور صبح کو آپ نے ولیمہ کیا جس میں کھجور،پنیر اور گھی کا ملیدہ بنا کر صحابہ کی تواضع کی گئی ، نہ گوشت تھا اور نہ روٹی یہ چونکہ سفر کا واقعہ ہے ، مجاہد صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی جو خیبر میں آباد یہودیوں سے جہاد کرنے کے لیے آپ کے ساتھ گئی تھی تو آپ نے اس میں ان سب کو شریک فرمایا۔[3]

یہ ولیمہ بھی رسول اللہﷺنے صحابہ کرام کے تعاون سے کیا تھا چونکہ آپ سمیت سب سفر میں تھے آپﷺخیبر فتح کرکے مدینہ واپس آرہے تھے ، راستے میں آپ نے یہ نکاح فرمایا تھا اور شب باشی کے بعد آپﷺنے صبح صحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین سے فرمایا :

مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ

’’ جس کے پاس جو چیز بھی ہے وہ لے آئے‘‘۔

آپ نے چمڑے کا ایک دستر خوان بچھا دیا کوئی کھجور لے آیا ، کوئی گھی(اور کوئی پنیر) لے آیا اور بعض سَتُّو ، ان سب کو ملا کر ملیدہ بنالیاگیا یہی رسول اللہﷺکے ولیمے کا کھانا تھا۔[4]

رسول اللہﷺکا سب سے گراں ولیمہ وہ تھا جو آپﷺنےسیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد کیا تھا ، اس میں آپ نے گوشت روٹی کا اہتمام فرمایا تھا۔ [5]ان واقعات سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں نہ زیادہ ہجوم جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ پر تکلف انواع واقسام کے کھانوں اور ڈشوں کی۔

تھوڑے سے افراد کو بلایا جائے اور گھر ہی میں ان کی خاطر تواضع کر دی جائے اس طرح شادی ہال وغیرہ بک کروانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

اپنی امارت اور شان وشوکت کے اظہار کی بھی ضرورت نہیں ہے ، اللہ نے دنیاوی وسائل سے نوازا ہے تو اسے ان ضرورتوں پر خرچ کیا جائے جن کی معاشرے میں ضرورت ہے ، اللہ کے دین کی نشر واشاعت اور اللہ کے دین کے داعیوں اور محافظوں پر خرچ کیا جائے ، جہاد اور مجاہدین پر خرچ کیا جائے ، وعلی ہذا القیاس۔ ولیمے وغیرہ کی دعوتوں میں اسراف وتبذیر کا مظاہرہ کرکے کم وسائل والے افراد کے اندر احساس محرومی پیدا نہ کیا جائے۔

(2) رسول اللہﷺنے خیبر سے واپسی پر راستے میں جو ولیمہ کیا تھا ، وہ مسلمانوں کے باہمی تعاون سے ہوا تھا ، جیسا کہ اس کی تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں اصحاب ثروت لوگوں کو بے وسیلہ لوگوں کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر تعاون کرنا چاہیے، ان کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا عند اللہ ناپسندیدہ روش ہے۔

(3) ولیمہ گوشت کے بغیر دو سری چیزوں سے بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺکے مذکورہ بالا ولیمے میں ہوا۔

(4)  ولیمے میں محض رشتے داریوں اور دوستانہ تعلقات کی بنیاد ہی پر نہ بلایا جائے بلکہ نیک لوگوں کو بھی شریک کیا جائے ، اسی طرح غرباء ومساکین کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے ، جس ولیمے میں محض اغنیاء ہی شریک ہوں ، اسے نبی نے “شر الطعام”(بدترین کھانا) قرار دیا ہے ، صحیح بخاری میں موقوفاً سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہا کرتے تھے۔

شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاء

’’ بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘[6]

حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ قول مرفوع کے حکم میں ہے (فتح الباری) اس کی تائید صحیح مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریمﷺنے فرمایا ہے :

شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُمْنَعُهَا مَنْ يَأْتِيهَا، وَيُدْعَى إِلَيْهَا مَنْ يَأْبَاهَا، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُولَهُ

’’ بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں ان(غرباء) کو تو روک دیا جائے جو اس میں آتے ہیں اور ان کو بلایا جاتا ہے جو اس میں آنے سے انکار کرتے ہیں  اور جس نے دعوت قبول نہیں کی ، اس نے اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔‘‘ [7]

ایک اور حدیث ہے جس میں نیکوں ہی کو کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے فرمایا :

لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ

 ’’ دوست اور ساتھی مومن ہی کو بناؤ اور تمہارا کھانا بھی سوائے متقی کے اور کوئی نہ کھائے۔‘‘ [8]

(5) اوپر حدیث گزری ہے کہ جس نے دعوت قبول نہیں کی، اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کی ، اس سے معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنا، چاہے وہ ولیمے کی ہو یا عام دعوت ، ضروری ہے۔ حتی کہ اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے تو اس کو بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ نفلی روزہ توڑ لے اور دعوت میں شریک ہوجائے ، بالخصوص جب دعوت کرنے والا اصرار کرے اگر اصرار نہ کرے تو روزے دار کی مرضی ہے کہ روزہ توڑے یا نہ توڑے ، روزہ نہ توڑے تو دعوت کرنے والے کے حق میں دعائے خیر کر دے ۔ [9]

(6) اگر نفلی روزہ توڑ کر دعوت کھائی جائے تو اس نفلی روزے کی قضا ضرور ی نہیں۔ نبیﷺایک  دعوت میں تشریف فرما تھے، صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی ، جب کھانا شروع ہوا تو ایک شخص الگ ہوکر ایک طرف بیٹھ گیا ، نبیﷺکے پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ وہ نفلی روزے سے ہے ، آپﷺنے فرمایا :

أَفْطِرْ وَصُمْ يَوْمًا مَكَانَهُ إِنْ شَئْتَ

 ’’ تم دعوت کھا لو، اگرچاہو تو بعد میں اس کی جگہ روزہ رکھ لینا۔‘‘[10]

حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے اس کو حسن کہا ہے ۔ [11]

معصیت والی دعوت میں شریک ہونے کی اجازت نہیں

دعوت قبول کرنے کی اتنی تاکید کے باوجود شرعی دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس دعوت میں یا دعوت والے گھر میں اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب ہو یا وہاں معصیت والی چیز ہو تو اس دعوت میں اس شخص کا شریک ہونا تو جائز ہے جو اصحابِ دعوت کے ہاں اتنے اثر ورسوخ کا حامل ہو کہ وہ معصیت کاری رکواسکتا ہو ، تو اس کو شریک ہوکر اس کو رکوانے کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور جو شخص ایسی پوزیشن کاحامل نہ ہو اگر اس کے علم میں پہلے سے یہ بات ہوکہ وہاں فلاں فلاں معصیت کا ارتکاب ضرور ہوگا جیسے آج کل میوزک،ویڈیو،بے پردگی جیسی معصیتیں عام ہوگئی ہیں تو اس کا اس دعوت میں جانے کے بجائے اس کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے اور اگر پہلے اس کے علم میں نہیں تھا ، وہاں جاکر دیکھا کہ وہاں ان شیطانی کاموں کا اہتمام ہے تو اس میں شرکت نہ کرے اور واپس آجائے۔ اگر ان معصیت کاریوں کے باوجود وہ شریک ہوگا تو وہ بھی گناہ گار ہوگا۔ بالخصوص اصحابِ علم وفضل کی اس قسم کے اجتماعات میں شرکت بہت بڑا جرم ہے ان کی شرکت ان معصیت کاریوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔

رسول اللہﷺتو تصویر والا پردہ دیکھ کر بھی دعوت کھائے بغیر واپس آجاتے تھے ،سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ’’ میں نے ایک روز کھانا تیار کیا اور رسول اللہﷺکو دعوت دی، آپ تشریف لائے تو گھر میں تصاویر دیکھ کر واپس چلے گئے ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ کو کس چیز نے واپس ہونے پر مجبور کردیا؟ آپﷺنے فرمایا ’’ گھر میں ایک تصویروں والا پردہ ہے اور جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘ [12]

رسول اللہﷺنے تو ایک مرتبہ خود اپنے گھر یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دروازے پر ایک تصویر والا پردہ لٹکا ہوا دیکھا تو آپ نے اندر داخل ہونا پسند نہیں فرمایا ، جس پرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے معذرت کی۔[13]

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل بھی یہی تھا۔

سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اپنے دور خلافت میں جب شام تشریف لے گئے تو شام کے ایک نہایت معزز عیسائی نے آپ کی اور آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی دعوت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

إِنَّا لَا نَدْخُلُ كَنَائِسَكُمْ مِنْ أَجْلِ الصُّوَرِ الَّتِي فِيهَا

ترجمہ: ’’ تمہارے گرجوں میں تصویریں ہوتی ہیں اس لیے ہم وہاں نہیں آسکتے۔‘‘[14]

سیدناابو مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ، ان کی ایک شخص نے دعوت کی ، انہوں نے اس سے پوچھا : گھر میں کوئی تصویر ہے؟ اس نے کہا : ہاں ۔ آپ نے تصویر کو توڑنے تک گھر میں داخل ہونے سے انکار کر دیا جب تصویر کو توڑ دیا گیا تو پھر آپ داخل ہوئے۔[15]

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا ندخل وليمة فيها طبل ولا معزاف

’’ہم اس ولیمے میں شریک نہیں ہوتے جس میں ڈھول تماشے یا گانے بجانے کے کوئی اور آلات ہوں۔‘‘[16]

دعوت کھلانے والے کے لیے دعا

نبیﷺنے متعدد مواقع پر صحابۂ کرام کے ہاں کچھ کھایا پیا تو آپ نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ، اس سلسلے میں آپ سے تین دعائیں منقول ہیں ، جو آپﷺنے مختلف اوقات میں صاحب خانہ کے لیے فرمائیں ۔

اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ

 ’’ اے اللہ! ان کو جو کچھ تو نے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما ، ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔‘‘ [17]

اللهُمَّ، أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي، وَأَسْقِ مَنْ سَقَانِي

’’ اے اللہ! جنہوں نے مجھے کھلایا تو اسے کھلا اور جس نے مجھے پلایا تو اسے پلا۔‘‘[18]

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ

 ’’ روزے دار تمہارے پاس روزے کھولتے رہیں ، نیک لوگ تمہارا کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے لیے دعائے خیر کرتے رہیں۔‘‘[19]

دولہا کے لیے خصوصی دعا

دولہا کے لیے خاص طور پر ان الفاظ میں دعا دی جائے۔

بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ

’’ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تم پر اپنی برکت فرمائے اور تم دونوں کو خیر کے ساتھ اکٹھا رکھے۔‘‘

ولیمہ کب کیا جائے ؟

سیدہ زینب بنت جحش اورسیدہ صفیہ  رضی اللہ عنہما دونوں کے ساتھ نکاح کے بعد جب رسول اللہﷺنے خلوت فرمائی تو احادیث میں صراحت ہے کہ اس کے بعد دوسرے دن آپ نے ولیمہ کی دعوت کی۔ اس سے اسی بات کا اثبات ہوتا ہے کہ ولیمہ نکاح سے پہلے نہیں بلکہ نکاح کے بعد ہونا چاہیے۔ البتہ شب باشی کے بعد دوسرے روز ہی ضروری نہیں بلکہ دو تین دن کے وقفے کے بعد بھی جائز ہے۔

علاوہ ازیں ولیمے سے قبل خلوت صحیحہ بھی ضروری ہے یا نہیں یا اس کے بغیر بھی ولیمہ جائز ہے ؟ بعض لوگ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم بستری سے پہلے ولیمہ جائز نہیں ہے ، لیکن ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ بعض دفعہ پہلی رات کو جب خلوت میں میاں بیوی کی ملاقات ہوتی ہے تو عورت کو حیض کے ایام ہوتے ہیں ، اس لیے ایسی حالت میں بوس وکنار سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا نیز کسی اور وجہ سے بھی بعض دفعہ ہم بستری نہیں ہوپاتی۔ اس لیے ولیمے کی صحت کے لیے ہم بستری کو لازم خیال کرنا صحیح نہیں ہے ، مخصوص قسم کے حالات میں اس کے بغیر بھی ولیمہ صحیح ہوگا ۔ واللہ اعلم

شادی کی چند ناجائز رسومات

انگریزی زبان میں شادی کارڈ

شادی بیاہ کی رسومات یا از خود پیدا کردہ ضروریات میں سے ایک رسم یا ایک ضرورت ’’شادی کارڈ‘‘ بھی ہے جس کے ذریعے سے اہل خاندان اور دوست احباب کو شادی (اور مہندی وغیرہ) میں مدعو کیا جاتاہے۔ پہلے یہ ضرورت ایک پوسٹ کارڈ یا زبانی دعوت سے پوری ہوجاتی تھی اب یہ شادی کارڈ بھی شادی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔

اس کی وجہ بھی شادیوں میں زیادہ سے زیادہ ہجوم جمع کرنے ہی کا جذبہ ہے اگر نکاح کی تقریب اور ولیمے کی دعوت مختصر ہو ، خاندان کے چند ضروری افراد اور صرف بعض احباب ہی ان میں شریک ہوں تو ظاہر بات ہے کہ پھر خصوصی دعوت ناموں اور شادی کارڈوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے لیکن چونکہ یہ سادگی اور اختصار اب کسی کو پسند نہیں ہے ، اس لیے شادی کارڈ چھپوائے بغیر بھی چارہ نہیں۔ اس لیے اصل ضرورت شادی بیاہ کی تقریبات کا حجم(سائز) مختصر کرنے کی ہے ، اگر لوگ اس کو اختیار کرلیں تو بہت سی قباحتوں کے ساتھ شادی کارڈ سے بھی بچنا ممکن ہے بصورت دیگر کم از کم اس میں فضول خرچی سے تو ضرور اجتناب کیا جائے یعنی شادی کارڈ مختصر اور سادہ چھپوائے جائیں ، انہیں زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور دیدہ زیب بنانے کے لیے گراں سے گراں تر نہ کیا جائے اس طرح کے گراں قیمت شادی کارڈ سراسر اسراف اور فضول خرچی ہے جس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔

ایک اور بے ہودگی شادی کارڈ میں یہ چل پڑی ہے کہ اپنی قومی زبان اردو کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن انگریزوں کی زبان میں چھپوائے جانے لگے ہیں ، یہ بھی ایک چلتا ہوا فیشن اور مقبول عام رجحان ہے حالانکہ مسلمانوں کو تو یہودیوں اور عیسائیوں سے بغض وعداوت رکھنے کا حکم ہے نہ کہ دوستی اور محبت رکھنے کا اور اپنی گھریلو قسم کی معاشرتی تقریبات میں مدعو کرنے کے لیے بھی ہم دعوت نامے انگریزی زبان میں چھپوائیں تو یہ اپنے دشمنوں سے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا دشمن قرار دیا ہے ، محبت کا اظہار ہے یا نفرت کا ؟ کیا اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہایت دیدہ دلیری سےپامال نہیں کررہے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ انگریزی زبان بین الاقوامی اور سائنس وٹیکنالوجی کی زبان ہے ، اس لیے اسے سیکھے بغیر چارہ نہیں ،ٹھیک ہے اس وقت بدقسمتی اور ہم مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے اس کی یہ اہمیت مسلم اور اس کا سیکھنا جائز بلکہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے کسب معاش کے لیے اس کا سیکھنا ضروری ہے لیکن حکومتوں کی مسلط کردہ پالیسی یا دیگر دنیوی ضروریات کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا اور چیز ہے اور اس سے محبت رکھنا اور چیز ہے۔ پہلی بات یقیناً جائز ہے،” الضرورات تبیح المحظورات” (ضرورتیں ناجائز کاموں کو بھی جائز کر دیتی ہیں) فقہی اصول ہے۔اس لیے کوئی عالم انگریزی زبان کے پڑھنے، سیکھنے بلکہ اس میں مہارت حاصل کرنے کو ناجائز نہیں کہتا لیکن دوسری بات یعنی اس سے محبت رکھنا ، اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا اور اپنی قومی زبان پر اسے ترجیح دینا اس کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔یہ قومی غیرت کے بھی خلاف ہے اور شرعی لحاظ سے بھی حرام اور ناجائز ۔

انگریزی میں دعوت نامہ چھپوانا، کسی بھی پاکستانی کی بین الاقوامی ضرورت نہیں ہے ، جو پاکستانی ایسا کرتا ہے ، وہ قومی بے غیرتی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے محبت کا والہانہ اظہار بھی۔ اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ یوں وہ قومی جرم کا بھی ارتکاب کرتا ہے اور حکم الٰہی کی پامالی کا ارتکاب بھی ۔ اعاذنا اللہ منہ

یہ مسئلہ شرعی لحاظ سے ۔’’عقیدہ الولاء والبراء ‘‘کے تحت۔ جتنا اہم ہے ، افسوس ہے کہ علماء کے طبقے میں بھی اس کا احساس نہیں ہے ، اس لیے وہ بھی انگریزی کارڈوں پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کرتے۔ فإنا لله وإنا إليه راجعون

رات کو شادیوں کا انعقاد

ایک اور نہایت قبیح رواج، جو دیگر رسومات کی طرح بہت عام ہوگیا ہے ، شادی کی تقریب رات کو کرنا ہے اس میں بھی غالباً یہ شیطانی فلسفہ کار فرما معلوم ہوتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں بجلی کے قمقمے اور چراغاں جو بہار دیتا ہے ، وہ دن کی روشنی میں ممکن نہیں ۔ اسی طرح آتش بازی کا سماں بھی رات کی تاریکی ہی میں بندھتا ہے اور آتشیں پٹاخوں کے نہایت خوف ناک دھماکے بھی رات ہی کو اہل محلہ کی نیندوں کو خراب کرتے ہیں۔ دن کے شوروشغب میں یہ دھماکے کسی کے آرام وراحت میں زیادہ خلل انداز نہیں ہوتے اور ہم اخلاقی پستی کی جس اتھاہ گہرائی میں جاچکے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ جب تک ہم اہل محلہ کے آرام وسکون کو برباد نہ کر لیں ، ہماری خوشی کی تقریب مکمل نہیں ہوسکتی یعنی ہمیں دوسروں کے سکون وآرام کو برباد کرنے میں راحت محسوس ہوتی ہے ، ورنہ جس قوم کی اخلاقی حس زندہ اور بیدار ہو وہ کبھی اتنی اخلاقی پستی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی جس طرح ہماری قوم کرتی ہے۔ رات کے دو بجے بارات واپس آتی ہے تو آتشیں پٹاخوں کے دھماکے سے سارے محلے کے لوگوں کی نیندیں خراب کر دی جاتی ہیں۔

سالہا سال سے اخلاقی پستی کے یہ مظاہر ہم دیکھتے آرہے ہیں، البتہ اب ایک دو سالوں سے (۲۰۱۱۔۲۰۱۲) حکومت پنجاب نے شادی ہالوں کے لیے رات کے ۱۰ بجے تک بند کرنے کی پابندی عائد کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں اصلاح کے کچھ آثار نظر آرہے ہیں اور باراتوں اور ولیموں سے لوگ ۱۱ بجے تک فارغ ہوجاتے ہیں ورنہ اس سے پہلے جو صورت حال تھی وہ ہمارے اخلاقی زوال کی نوحہ کناں تھی۔

علاوہ ازیں رات کی ان تقریبات میں وقت کا جو ضیاع ہوتا تھا وہ بھی ہماری اس قوم کی بے فکری ، بے شعوری اور اخلاقیات سے عاری ہونے کی غمازی کرتا تھا۔ کارڈوں پر ۸ یا ۹ بجے کا وقت لکھا ہوتاتھا لیکن نکاح یا ولیمے کی تقریب کا آغاز رات کے ۱۲ بجے یا ایک بجے سے پہلے نہ ہوتا ۔ ذرا سوچئے! یہ رواج یا عادت یا رسم اچھی ہے یا بری؟ اس میں اخلاقی ذمے داری کا احساس پایا جاتاہے یا اس سے خوف ناک بے اعتنائی ؟ ذرا تصور کیجیے! ان لوگوں کی کوفت، تکلیف اور ضیاع وقت کا جو دعوت نامے کے مطابق وقت پر تشریف لے آتے ہیں لیکن انہیں ان لوگوں کے انتظار میں جو تین یا چارگھنٹے تاخیر سے آتے ہیں ، ۳ یا ۴ گھنٹے انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھا جاتاہے۔

حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ وقت پر آنے والے سزا کے مستحق ہیں یا غیر معمولی تاخیر سے آنے والے؟ لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی رہی ہے۔ کئی کئی گھنٹے تاخیرسے آنے والوں کی سزا، وقت کا ضیاع اور”الانتظار اشد من الموت” کے کرب وقلق کی صورت میں، وقت پر آنے والوں کو بھگتنی پڑتی، ان سب پر مستزادیہ کہ رات کو اتنی تاخیر سے سونے کے بعد فجر کی نمازکے لیے اٹھنا بھی ناممکن سا ہے ، گویا نماز فجر بھی جاتی۔ اسی طرح اتنی تاخیر سے واپسی پر ان لوگوں کو جو پریشانی ہوتی ہے جن کے پاس اپنی سواری وغیرہ نہیںہوتی۔ نیز رات کی تاریکی میں ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہتھے چڑھ جانے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

بہر حال جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے راتوں کی ان تقریبات کا انعقاد غیر صحیح ہے، کم از کم دین دار حضرات کو اس قبیح رواج و رسم سے سختی سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ نبی کریمﷺکی بابت آتا ہے کہ آپ کو رات کو عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرتے رہنا نا پسند تھا۔ [20]

اس حدیث کی روشنی میں بھی اگر دوسری باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو راتوں کو شادی کی تقریبات کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ رات سے مراد عشاء کے بعد ہے ، ورنہ عشاء سے پہلے اس کا جواز ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

رات کے وقت شادی کا صحیح طریقہ

چراغاں اور آتش بازی وغیرہ رسومات سے بچتے ہوئے ، اگر نکاح ، خاطر تواضع اور رخصتی کی ساری کارروائی، وقت کی پابندی کرتے ہوئے، مغرب کے فوراً بعد سے لے کر عشاء کے وقت تک کر لی جائے تو پھر چوں کہ مذکورہ قباحتیں پیدا نہیں ہوں گی اس لیے رات کے پہلے پہر میں ان تقریبات کے جواز میں شک کی گنجائش نہیں۔

لیکن ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب دونوں خاندانوں کے دلوں میں ایک تو نبی اکرمﷺکے طرز عمل کی اہمیت ہو ، اتباع سنت کا سچا جذبہ ہو۔ دوسرے وقت کی قدروقیمت کا احساس اور مقررہ وقت کے اندر ساری کارروائی کرنے کا عزم راسخ ہو۔ مہمانوں کے وقت پر نہ آنے کی پروانہ کی جائے بلکہ جو لوگ وقت پر آجائیں چاہے وہ بالکل تھوڑے ہی ہوں ، ان کی موجودگی میں نکاح یا ولیمے کا آغاز کر دیا جائے اور تاخیر سے آنے والوں کی مہمان نوازی سے معذرت کر لی جائے۔

جب تک لومۃ لائم کے خوف کے بغیر اس جرأت وہمت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا ، وقت کے ضیاع کو روکنا بھی ممکن نہیں ہے اور اسوۂ رسول ﷺ  کی پیروی بھی نہایت مشکل ہے۔

حکومت پنجاب کا ایک اصلاحی اقدام مگر ؟

اب اگرچہ کچھ عرصے سے پنجاب حکومت کی طرف سے شادی ہالوں کے لیے رات کے دس بجے تک کا وقت مقرر کردیاگیاہے جس پر بہت حد تک عمل ہورہا ہے اس سے بہت سی قباحتوں کا تدارک اور وقت کا ضیاع بھی کم ہوا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک تو اس کو پورے ملک میں نافذ کیا جائے اس وقت یہ پابندی صرف پنجاب میں ہے ۔ دوسرے اس قانون کو قانون سازی کے ذریعے سے مستقل کیا جائے فی الحال یہ پابندی عارضی ہے ، اس میں مہینہ وار توسیع کی جارہی ہے کیونکہ ہماری قوم میں بگاڑ جس طرح عام ہو گیا ہے اور خدا خوفی کا فقدان اور دین سے بے اعتنائی فزوں تر ہے اس سے یہ شدید خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ مفید اقدام پتہ نہیں کب ختم ہوجائے اور قوم پھر اسی بے اعتدالی کا شکار ہوجائے جس میں وہ نہ صرف یہ کہ سالہا سال سے مبتلا چلی آرہی ہے بلکہ وہ اس کی رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے جیسے اس سے قبل ۲۰۰۰ء میں نواز شریف کے جاری کردہ شادی آرڈیننس کا کچھ عرصے بعد حشر ہوا کہ وہ نہایت مفید ہوتے ہوئے عوام وخواص نے اسے اپنانے سے گریز کیا، غریبوں نے اگرچہ اس پر سکھ کا سانس لیا تھا اور اسے سراہا تھا، لیکن قومی مزاج کے عمومی بگاڑ بالخصوص دین سے دور نو دولتیوں کے طرز عمل کی وجہ سے ، وہ تنقید کا نشانہ بنا رہا بالآخر اسے ختم کرنا پڑا۔

نواز شریف کا جاری کردہ وہ مذکورہ آرڈ نینس کیا تھا؟ اس کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر ہم اس کو ذیل میں درج کرتے ہیں کیونکہ شرعی اعتبار سے اس کا جواز تھا اس امید پر کہ شاید دوبارہ اللہ تعالیٰ کسی حکمران کو اس کے نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمادے اور ون ڈش(قانون) کے بجائے اس کو نافذ کردے، کیونکہ ون ڈش کا قانون بھی اگرچہ اسراف(فضول خرچی) سے بچانے ہی کے لیے نافذ کیاگیاہے لیکن عملاً اس سے اسراف کی کوئی خاص حوصلہ شکنی نہیں ہوئی ہے۔ اصحاب حیثیت اس پر خوش دلی سے عمل نہیں کرتے اور ون ڈش کے قانون کے ہوتے ہوئے بھی بہت سی ڈشوں کا اہتمام عام ہے۔ اس لیے اصل ضرورت اسی آرڈیننس کے نفاد کی ہے جس کے نفاذ سے واقعی اسراف کا سدباب ہوا تھا اور کم وسائل کے حامل افراد نے اطمینان وسکون محسوس کیا تھا۔

مذکورہ آرڈیننس کی دفعات کا خلاصہ

دفعہ : ۴ (۱)

کسی شخص کو اپنی یا کسی اور کی شادی کی تقریب میں، جوہوٹلوں،ریسٹورنٹوں،شادی ہال یا کمیونٹی سنٹر میں منعقد ہورہی ہو،شرکت کرنے والوں کے لیے صرف مشروبات کے علاوہ کھانا پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

دفعہ : ۵

وہ شخص جو ہوٹل، ریسٹورنٹ،شادی ہال، کمیونٹی سنٹر کا مالک یا مینیجرہو، انہیں شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کے لیے کھانا، طعام وغیرہ پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی مہمانوں کی تواضع مشروبات سے کی جائے گی۔

دفعہ : ۶

جوشخص ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا وہ قابل سزا مجرم ہوگا انہیں ایک ماہ کی قید محض یا جرمانے کی سزا دی جائے گی جوکہ ایک لاکھ سے کم اور پانچ لاکھ سے زیادہ نہ ہوگا اس آرڈیننس کے تحت یہ جرائم قابل دست اندازی پولیس نہیں ہوں گے۔

ضروری وضاحت

اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیاگیا تھا۔ شرعی عدالت نے اپنے طریقۂ کار کے مطابق علمائے کرام اور اپنے فقہی مشیران سے اس کی بابت رائے طلب کی، لیکن قبل اس کے کہ شرعی عدالت علماء کی آراء کی روشنی میں اس پر بحث کرتی اور شرعی فیصلہ کرتی سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا اور یہ کالعدم ہوگیا۔ راقم نے اس آرڈی ننس کی حمایت میں شرعی عدالت میں پیش کرنے کے لیے ایک بیان مرتب کیا تھا،عدالتی فیصلے کی وجہ سے اسے پیش کرنے کا موقع ہی نہیں آیا۔

نکاح کی الگ مستقل تقریب ،اگر ناگزیر ہوتو ….

ایک اور سلسلہ عام ہوتا جارہا ہے کہ کسی وجہ سے اگر لڑکے یا لڑکی والے کچھ عرصہ کے لیے رخصتی لینا یا کرناپسند نہیں کرتے تو رشتہ مضبوط کرنے یا باہر لے جانے کے لیے کاغذات کی تیاری کی غرض سے ،بھاری بھر کم بارات سے پہلے، ایک مختصر تقریب میں صرف نکاح کی کارروائی پوری کرلی جاتی ہے۔

مذکورہ وجوہ سے اگر واقعی ایسا کرنا ضروری ہوتو ایسا کیا جاسکتا ہے لیکن شرعاً اس کا جواز اسی صورت میں ہوگا جب اس میں فضول خرچی کا پہلو نہ ہو اور ایسا کب ہوگا؟ تب جب کہ اس تقریب میں گھر کے صرف چند ضروری افراد ہی لڑکی والوں کے گھر آئیں اور ایک کمرے میں بیٹھ کر نکاح کر لیا جائے اور بلاتکلف ماحضر تناول کرکے چلے جائیں ، اس میں نہ ہجوم ہوکہ اس کے لیے لڑکے والے بھی ٹرانسپورٹ کا خصوصی انتظام کریں اور لڑکی والے بھی۔بارات سے پہلے …. باراتیوں(لڑکے والوں) کے لیے پر تکلف کھانوں اور ہالوں کا انتظام کریں۔ یہ ایسا سادہ طریقہ ہے کہ دونوں خاندانوں پر کوئی خاص مالی بوجھ نہیں پڑتا اور دونوں فضول خرچی سے محفوظ رہتے ہیں جوکہ شرعاً پسندیدہ امر ہے۔

لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس کے لیے بھی باقاعدہ ہال اور پر تکلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتاہے اور دونوں خاندانوں کے افراد کافی معقول تعداد میں شریک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک سادہ سی گھریلو تقریب بھی ایک پر ہجوم تقریب بن جاتی ہے۔ یہ طریقہ چونکہ غیر ضروری ہے اس لیے یہ شرعاً فضول خرچی کے دائرے میں آئے گا جن کے مرتکبین کو اللہ تعالیٰ نے شیاطین کا بھائی کہا ہے۔

بنابریں صرف نکاح کے لیے بارات سے پہلے نکاح کی الگ تقریب سے اجتناب کیا جائے اور اگر ناگزیر ہوتو گھر میں اس کا اہتمام ہو اور صرف گھر کے چند ضروری افراد کی موجودگی ہی کو کافی سمجھائے۔

سلامی یانیوتہ

بارات کی روانگی سے قبل دولہا میاں تیار ہوکر گھر میں بیٹھ جاتے ہیں اور بارات میں شریک ہونے والے اہل خاندان دولہا کو سلامی دیتے ہیں ، اسے نیوتہ بھی کہاجاتاہے۔ یہ نقد رقم ہوتی ہے جو سلامی کے نام پردی جاتی ہے اور اسے باقاعدہ لکھ کررکھا جاتا ہے۔ زیادہ ہجوم ہوتا ہے تو ایک شخص اس رقم کو دینے والے کے نام کے ساتھ لکھتا جاتاہے۔ جو دوست احباب اس موقع پر نہیں ہوتے تو وہ ولیمے کی دعوت میں دولہا یا اس کے والد کو دے دیتے ہیں۔

یہ رواج بھی اتنا عام ہے کہ شریک ہونے والے خاندان کا ہر بڑا فرد اور احباب میں سے ہر شخص اس سلامی یا نیوتے کے بغیر شرکت میں سبکی محسوس کرتا ہے اور اسے خواہی نخواہی کچھ نہ کچھ ضرور دینا ہی پڑتا ہے ، علاوہ ازیں نہ دینے پر گو زبان سے اظہار نہ ہو دل میں خفگی ضرور محسوس کی جاتی ہے۔

یہ ہدیہ،تحفہ یا تعاون نہیں ہوتا بلکہ اس کو قرض سمجھا جاتا ہے اور قرض بھی سودی۔ یعنی جتنی رقم دی جاتی ہے، دینے والے کے ہاں جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اب لینے والا میری دی ہوئی رقم مع اضافہ لوٹائے اور رواج بھی یہی ہے کہ واپسی کے وقت اضافہ کرکے ہی دی جاتی ہے۔

اس رسم کا جب کبھی آغاز ہوا ہوگا ، اس وقت یقینا جذبہ تعاون کے تحت ہی ہوا ہوگا، لیکن اب یہ تعاون کے بجائے متعدد قباحتوں کا باعث ہے۔مثلاً

تعاون کی ضرورت ہے یا نہیں ، اب صرف رسم کے طور پر اس کو کیا جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ لکھ پتی اور کروڑ پتی خاندانوں میں بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے حالانکہ ان کو اس تعاون کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔

واپسی پر زیادہ دینا اور اس کا واپس کرنا ضروری ہے ، اس طرح یہ ایک قرض کی صورت بن جاتی ہے اور قرض پر زیادہ لینا ہی سودہے۔ اس اعتبار سے یہ باہم تبادلہ سودی طریقہ ہے۔

دعوت قبول کرنے کا حکم ہے لیکن شادی(بارات یا ولیمہ) کی دعوت ایک خالص دعوت نہیں رہتی کیونکہ کچھ نہ کچھ دینا ضروری سمجھا جاتا ہے جب کہ دعوت بے لوث ہوتی ہے اور اسے ہی قبول کرنے کی تاکید ہے ، اس اعتبار سے یہ بارات یا ولیمے کی دعوت بھی، اسلامی دعوت نہیں ہے بلکہ یہ خود غرضی کا یا باری اتارنے یا وصول کرنے کا ایک سلسلہ ہے جو شادی بیاہ کی زیر بحث رسومات ہی کا ایک حصہ ہے۔

بنابریں ضروری ہے کہ دین کا صحیح شعور رکھنے والے سلامی یانیوتے کی اس رسم کا بھی خاتمہ کریں،اس کا بھی کوئی شرعی جواز نہیں ہے البتہ کوئی رشتہ دار غریب ہے اور اسے تعاون کی ضرورت ہے تو اس کے ساتھ ضرور تعاون کیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔

(1) آپ اگر صاحب حیثیت ہیں تو اس کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے تعاون کردیں نیز سادگی کے ساتھ شادی کرنے کی تلقین کریں۔

 قرض حسنہ کے طور پر حسب ضرورت تعاون کردیاجائے۔

عورت نئے گھر میں نئے ماحول میں

عورت رخصتی کے بعد اپنے والدین اور گھر کو چھوڑ کر ایک دوسرے گھر میں جاتی ہے، والدین کے ہاں تو اس کو بھرپور پیار اس لیے ملا کہ وہ والدین کے جگر کا ٹکڑا تھی ، اولاد نافرمان ہوتب بھی والدین سے پیار اور شفقت کے سوا کچھ نہیں ملتا پھر جس گھر اور ماحول میں وہ پروان چڑھی وہ اس کے لیے نہایت مانوس تھا۔

لیکن ایک نئے گھر میں خاوند کے علاوہ اس کو خاوند کے ماں باپ اور بہن بھائی بھی ملتے ہیں، یہ ابتداءًاس کے لیے اجنبی ہوتے ہیں اور ماحول بھی نامانوس ۔ اب یہ عورت کی سمجھ بوجھ، لیاقت وذہانت اور اس کے رویے پر منحصر ہے کہ وہ خاوند کو کس طرح اپنا بناتی ہے؟ اس کے والدین کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھتے ہوئے ان سے اپنائیت کا اظہار کرتی ہے یا اس کے برعکس غیریت کا تأثر دیتی ہے؟ اس نئے ماحول کو خوشگوار بناتی ہے جہاں اب زندگی کے بقیہ ایام اس نے گزارنے ہیں یا اس کو ناگواری میں ڈھال کراپنی زندگی بھی اجیرن بنالیتی ہے اور دوسروں کی زندگیوں میں بھی زہر گھول دیتی ہے۔

اس میں چند عوامل نہایت مؤثر کردار ادا کرتے ہیں جو مستقبل کو سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔

  (1) والدین کی ذمے داری :

اس میں اوّلین ذمے داری عورت کے والدین کی ہے ، وہ بچی کو اچھی تربیت دیں جس میں حسب ذیل چیزیں شامل ہیں۔

(1)  دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام ، احکام شرعیہ کی پابندی اور سادگی کی تلقین ۔

(2) خانگی امور کی تربیت، اس میں کھانے پکانے کی مہارت، صفائی ستھرائی کی تاکید، بچوں کی دیکھ بھال، گھریلو اخراجات میں کفایت شعاری اور سلیقہ پن شامل ہیں۔

(3)  ساس سُر کے احترام کی تلقین،نندوں کے ساتھ پیار محبت اور شفقت کاسلوک،خاوند کی اطاعت وخدمت گزاری اور ہر حالت میں وفاداری کا مظاہرہ کرنے کی تاکید۔

(4)  بیٹی کو سمجھائیں کہ سسرال میں پیش آنے والے چھوٹے موٹے معاملات، معمولی تلخیاں یا کبھی کبھی تعلقات کی ناخوش گواریاں برداشت کی جائیں، صبر وتحمل اور دانش مندی سے ان کو سلجھایا جائے اور روزمرہ کے واقعات یا کبھی کبھی کی ناخوش گواریوں کاذکر اپنے ماں باپ سے نہ کیا جائے۔ اس سے والدین کے دلوں میں سسرالیوں سے نفرت پیدا ہوگی جو دونوں خاندانوں کے تعلقات میں خرابی اور بگاڑ کا باعث ہوگی۔

ہاں اگر واقعی سسرال والوں کا رویہ نئی دلہن کے ساتھ اچھا نہیں ہے، یہاں پیار کے بجائے اسے نفرت کا سامنا ہے،عدل وانصاف کے بجائے ظلم وستم کی گرم بازاری ہے اور اس کو گھر میں وہ قرار واقعی مقام نہیں دیا جارہا ہے جس کا وہ استحقاق رکھتی ہے تو پھر اس انہونی صورت حال سے والدین کو ضرور مناسب انداز سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس کا حل نکال سکیں تاہم عام حالات میں چھوٹی چھوٹی باتیں ماں باپ کو پہنچا کر ان کے سکون کو برباد کرنا نہ کوئی دانش مندی ہے اور نہ سسرال میں رہنے کا کوئی قرینہ وسلیقہ۔

(5) بعض مائیں پیشگی ہی اپنی بچی کو اس طرح کی پٹی پڑھا دیتی ہیں کہ دیکھنا وہاں کسی سے دب کر نہیں رہنا، اپنا رعب جمانے کی کوشش کرنا، کسی کی ماتحتی قبول نہیں کرنا، وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کو نئے گھر میں حکمت ودانش،پیار محبت اور تواضع وانکساری کے ذریعے سے اپناجو مقام بنانا ہوتا ہے، اس سنہری موقعے کو وہ ضائع کردیتی ہے اور ماں یا سہیلیوں کے پڑھائے ہوئے سبق پر عمل کرتے ہوئے محاذ آرائی کی فضا یا سرکشی کی سی صورت پیدا کر دیتی ہے اور یوں بنابنا یا کھیل سب بگڑ کر رہ جاتاہے اور حسین خوابوںکا شیش محل چکنا چور ہوجاتا ہے۔

اس لیے ماؤں کو اس قسم کا سبق بچیوں کو ہرگز نہیں پڑھانا چاہیے بلکہ اس کے برعکس اس کو برائی کو اچھائی سے ٹالنے کی اور عارضی تکلیفوں کے مقابلے میں صبر وحکمت سے کام لینے کی، بڑوں کا ادب واحترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ہمیں انہی باتوں کو اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ

حم السجدة – 34

’’ نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دور کرو (ایسا کروگےتو)پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ، ایسا ہوجائے گاجیسے وہ دلی دوست ہے۔‘‘

اور نبیﷺکافرمان ہے :

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا

 اس کا ہم(مسلمانوں) سے تعلق نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت(رحم) نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا ادب واحترام ملحوظ نہیں رکھتا۔ ‘‘[21]

(1)مرد کے لیے حکمت ودانش کی ضرورت

دوسرے نمبر پر خاوند کا کردار ہے جب نئی نویلی دلہن ایسے گھر میں آتی ہے جہاں شوہر کے والدین، اس کے بہن بھائی اور بھابھیاں وغیرہ بھی ہوتی ہیں تو پھر مرد کا امتحان شروع ہوجاتاہے۔ اس طرح کے مشترکہ خاندان میں عورتوں(ساس،نندوں وغیرہ) کے ساتھ ٹکڑاؤ کا خطرہ ہر وقت، سرپر لٹکی تلوار کی طرح رہتاہے ، کسی وقت ساس بہو کے درمیان تکرار ہوجاتی ہے تو کبھی نندوں کے ساتھ نوک جھونک یا بھابھیوں یا ان کے بچوں کے ساتھ کوئی معاملہ ، ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مرد کا خصوصی تعلق ہے، گو اس کی اہمیت ونوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ہر ایک کے ساتھ تعلق کے خصوصی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

ایک عورت اس کی بیوی بن کر اس کے پاس آئی ہے وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ناز ونعمت میں پلی ہے، وہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور ان کے دلوں کا ٹکڑا رہی ہے، اس نئے گھر میں اس کو ماں باپ کی محبت وشفقت کا بدل بلکہ نعم البدل ملنا چاہیے۔ (شریعت کا حکم بھی یہی ہے)۔

اس مرد(خاوند) کی ماں ہے ، جس نے اس کی خاطر ہر طرح کی مشقتیں برداشت کی ہیں ، اس کو پال پوس کر جوان کیا ہے پھر اس کی حسب خواہش اس کی جوانی کی آرزو(شادی کرکے) پوری کی ہے۔ بیوی کے آجانے کے بعد بھی ضروری ہے کہ اس کی طرف سے ماں کی خدمت،حسن سلوک، ادب واحترام میں کوئی کمی نہ آئے۔

گھر میں باپ ہے ، جس نے دکھ دیکھا نہ سکھ ، ہر حالت میں شب وروز محنت کرکے دولہا کی کفالت کی، اس کی تعلیم سے لے کر زندگی کی ہر ضرورت تک ، اس نے وسائل مہیا کیے، آخر میں شادی کا بندوبست کیا، کیا اب دولہا میاں کو یہ زیب دے گا کہ شادی کے بعد وہ اپنے محسن باپ سے ادب واحترام اور حسن سلوک کے تقاضوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرے؟

دولہا کی بہنیں ہیں یا چھوٹے بھائی ہیں ، ان کی بھی محبت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

چکی کے تو دو ہی پاٹ ہوتے ہیں جن کے درمیان آنے کا محاورہ مشہور ہے لیکن یہاں تو کئی پاٹ ہیں جن میں شادی کے بعد ایک مرد کو خواہی نخواہی آنا پڑتاہے ان پاٹوں کی زد میں آنے سے بچاؤ کے لیے اسے حکمت ودانش سے کام لینا پڑے گا جس میں شریعت اسلامیہ اس کی پوری مدد کرتی ہے اور اگر مرد شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سب کے حقوق کی ادائیگی میں حسب مراتب مخلص ہوگا اور کسی کے ساتھ بھی تجاوز کرنے کی نیت نہیں رکھے گا تو یقیناً اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا اور وہ اس امتحان میں سرخ رُو رہے گا اور اس پل صراط کو عبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

(3)  ساس کا کردار

تیسرے نمبر پر دولہا کی ماں کا کردار ہے جس کو ساس کہا جاتاہے اور ہمارے معاشرے میں ساس بہو کا روایتی کردار مشہور ہے اور اس کے بارے میں مختلف حکایتیں اور کہاوتیں عام ہیں ۔

ساس حسب ذیل تجاویز یا تدابیر کو اختیار کرے تو یقیناً حسن کردارکے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔

(1)   مذکورہ آیت وحدیث پر عمل کرتے ہوئے برائی کو بھلائی سے ٹالے، نفرت کے بجائے محبت واپنائیت کا مظاہرہ کرے ، شفقت ونرمی کو معمول بنائے۔

(2)   بیٹے کا گھر آباد کرنے کی نیت سے خوب دیکھ بھال کر دلہن کو گھر میں لا کر رکھاہے اب گھر کو آباد رکھنے کی نیت کر لے اور اس کے جو تقاضے ہیں ان کو بروئے کار لائے۔(3) بہو کی خوبیوں کو سراہے، کوتاہیوں سے درگزر کرے جو کوتاہیاں سمجھانے سے دور ہوسکتی ہیں ، اسے سمجھا کر دور کرنے کی مخلصانہ اور ہمدردانہ کوششیں کی جائیں، بار بار سمجھانے میں بھی گرانی محسوس نہ کرے ، اس کی ناسمجھی پر غصے اور ناراضی کا اظہار کرنے کے بجائے چھوٹوں پر شفقت کرنے کے جذبے کو توانا اور برقرار رکھے۔

   بہو کو غیر نہ سمجھے بلکہ بیٹیوں کی طرح اُسے عزیز رکھے ، اسے بیٹیوں والا پیار اور شفقت دے، بیٹیوں کی غلطیوں کو جس طرح باربار کرنے کے باوجود نظر انداز کر دیا جاتاہے بہو کی غلطیوں کی بھی یہی حیثیت دی جائے۔

(4) اس میں کھانے پکانے کی صحیح مہارت نہ ہو تو اس کی اس کوتاہی کو بتدریج دور کیاجائے۔ طعن وتشنیع کے بجائے اس کو نو آموز سمجھ کر خوش ذائقہ کھانوں کے طریقے اور ترکیبیں سمجھائی جائیں۔

(5) بیٹا اگر بیوی سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت کرنا فطری بات بھی ہے اور اس کا حق بھی ہے ۔ نبی کریم ﷺکا فرمان ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس کی کوئی دوسری مثال ناپید ہے۔ اس کی اس فطری محبت اور اس کے مظاہر کو برداشت کیا جائے  ،   اس کو اپنا رقیب یا حریف سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے آخر شادی کامقصد بھی اس کے سوا اور کیا ہوتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ محبت کریں، شادی کے بعد اس محبت پر اعتراض کا کیا جواز ہے؟

(3) بیوی کا حسن کردار اور حسن تدبیر

گھر کو آباد رکھنے میں چوتھے نمبر پر بیوی کا کردار اور اس کا حسن تدبیر ہے اگر عورت حسب ذیل باتوں کا خیال رکھے تو وہ بھی یقیناً اپنے گھر کو امن وسکون کا گہوارہ اور جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔

(1) چھوٹوں(نندوں وغیرہ) پر شفقت اور بڑوں(ساس ،سسر وغیرہ) کے ادب واحترام کو اپنا شعار بنائے اور اس میں کسی مرحلے پر بھی کوتاہی نہ کرے۔

(2) امور خانہ داری میں پوری دلچسپی لے، کھانے پکانے کا کام ہو، صفائی ستھرائی کا مسئلہ ہو، مہمانوں کی خاطر تواضع کا مرحلہ ہو، عزیز واقارب سے تعلقات نبھانے کا مسئلہ ہو، خاوند یا ساس سسر کی خدمت کی ضرورت ہو، بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کی ذمے داری ہو، وہ کسی بھی مرحلے میں غفلت،سستی یا لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کرے عورت کی عزت، خدمت اور مسلسل خدمت ہی میں ہے۔ خدمت سے گریز کرکے کوئی عورت نہ عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ گھر والوں کے لیے آرام وراحت کا باعث ہوسکتی ہے۔ عورت سلیقہ مند بھی تب ہی کہلائی اور سمجھی جائے گی جب وہ مذکورہ امور حسن وخوبی سے انجام دے گی ورنہ وہ پھوہڑ عورت کہلائی اور سمجھی جائے گی اور خاندان اور معاشرے میں سلیقہ مند عورت ہی معزز ومحترم سمجھی جاتی ہے نہ کہ پھوہڑ عورت۔

(3) عورت نئے گھر میں آکر اپنے ماں باپ کے گھر کو بھول جائے گھر کو بھول جانے کا مطلب ماں باپ کو بھول جانا نہیں ہے وہ تو ایک لازوال فطری تعلق ہے ، اس کو کس طرح بھلایا یا دل سے نکالا جاسکتاہے ، ماں باپ سے محبت کا تعلق تو سداقائم رہنا اور قائم رکھنا ہے ، پرانے گھر کو بھول جانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت یہ سمجھے کہ اب میرا جینا اور مرنا اس نئے گھر کے ساتھ ہی وابستہ ہے ، اب میں نے اسی کو سنوارنا اور سنبھالنا ہے۔

لیکن اس جذبے کو رُوبہ عمل لانے اور اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے چند باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔

اول : یہ کہ اس گھر کے عسر ویسر کو برداشت اور اس کی اونچ نیچ کو انگیز کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی چھوٹی چھوٹی باتیں بڑھا چڑھا کر ماں باپ تک نہ پہنچائی جائیں،چھوٹی موٹی باتیں ہر گھر میں ہوتی ہیں حتی کہ ماں بیٹیوں کے درمیان اور باپ بیٹوں کے درمیان اور بھائی بہنوں کے درمیان بھی ہوتی رہتی ہیں اگر ساس بہو، یا بھاوج نندوں کے درمیان یا میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہیں تو یہ کوئی نہ انہونی بات ہے کہ ماں باپ کو اس سے ضرور آگاہ کیا جائے اور نہ ان کی ایسی اہمیت ہے کہ ماں باپ کے علم میں لانا ضروری ہو ، بلکہ یہ رویہ سخت خطر ناک اور آباد کاری کے منافی ہے۔

دوم: یہ کہ عورت اس نئے گھر کے ماحول کو سمجھے اور اپنے آپ کو اس ماحول میں پوری سنجیدگی سے ڈھالے، ماں باپ کے گھر میں وہ جو کام کرتی تھی وہ یہاں اگر نہیں ہوتے تو ان کو یہاں کرنے پر اصرار نہ کرے اور جو کام اس نے اپنے گھر میں کبھی نہیں کیے لیکن یہاں وہ کیے جاتے ہیں تو ان کے کرنے میں تأمل یا گریز نہ کرے بشرطیکہ ان میں شریعت سے تجاوز نہ ہو۔

اسی طرح ماں باپ کے گھر میں اسے جو سہولتیں حاصل تھیں، نئے گھر میں وہ سہولتیں کم ہیں یا ان کا فقدان ہے تو اس سے نہ گھبرائے اور نہ پریشان ہو اور نہ اس کی وجہ سے ماں باپ کو کو سے۔ بلکہ اللہ سے دعائیں کرے اور بہتری کے لیے مل جل کر کوششیں جاری رکھے، اللہ کا یہ فرمان یادرکھے ۔

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

الانشراح – 5/6

’’بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ، بلاشبہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے تکرار کے ساتھ دو مرتبہ اس حقیقت کا اظہار فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مشکلات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے یقیناً اللہ تعالیٰ مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کرنے پر قادر ہے اور جو لوگ اللہ سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے صبر کرتے اور مشکلات برداشت کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کی ضرور مدد فرماتا اور ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمادیتاہے۔

سوم : یہ کہ اگر اس کو خاوند ایسا ملا ہے جو اس کی سوچ اور معیار سے کم ہے، وہ اس کے خوابوں کا شہزادہ نہیں ہے۔ اب اس کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر دل سے قبول کرلے اور صبر وشکر سے کام لے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی میں اس کے لیے اس کے حسین سپنوں سے زیادہ بہتری پیدا فرمادے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

البقرة – 216

’’ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو جب کہ وہ تمہارے لیے بری ہو(کیونکہ) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

ایک نہایت دلچسپ حکایت :

وہ دلچسپ اور عبرت آموز حکایت یہ ہے کہ ایک عورت نہایت حسین وجمیل تھی لیکن خاوند اسے اتنا ہی بدشکل اور بدصورت ملا کسی نے اس عورت سے پوچھا کہ تو اتنی خوبصورت ہے اور تیرا خاوند اتنا بدصورت؟ تیرا گزارا اس کے ساتھ کس طرح ہورہا ہے ؟ اس نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ہمارا گزارا بہت اچھا ہورہا ہےاور وہ اس طرح کہ اللہ نے اس کو میرے جیسی حسین وجمیل بیوی عطا کر دی جس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور مجھے اس جیسا بدصورت خاوند ملا تو میں نے اس پر صبر کیا اور صابر وشاکر دونوں کے لیے اللہ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے ہمیں امید ہے کہ یہ دنیا تو چند روزہ ہے ،گزر ہی جائے گی لیکن ہم دونوں صبر اور شکر کرنے کی وجہ سے جنت کے حق دار قرار پائیں گے۔

یہ حکایت جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی حکمت وموعظت سے لبریز ہے ، کاش عورتیں احساس محرومی کے وقت اس میں پنہاں سبق کو حرزجان بنالیں۔

چہارم: اگر مشترکہ گھر میں جیٹھ اور دیور اور ان کی بیویاں اور بچے بھی ہوں تو یہاں بھی عورت چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کے ادب واحترام والے اس سبق کو یادرکھے جس کی تلقین مذکورہ حدیث میں کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں خوش اخلاقی اور خوش زبانی کا التزام کرے اور ان کے تقاضوں سے کسی بھی مرحلے پر انحراف نہ کرے ۔

مشترکہ خاندان میں دونوں باتوں کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اکٹھے رہنے میں جہاں بہت سے فائدے یا مجبوریاں ہیں وہاں لڑائی جھگڑے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں ، بعض دفعہ عورتوں میں باہم کسی بات پر تکرار ہوسکتی ہے۔ بھائیوں کے درمیان اختلافات ہوسکتے ہیں ،بچوں کا آپس میں مل کر کھیلنا کودنا اور نادانی اور ناسمجھی میں ایک دوسرے کوزک پہنچانا،بچوں میں معمول کی بات ہوتی ہے۔ چھوٹوں پر شفقت کا تقاضا ہے کہ بچوں کی لڑائی کو ایسا ہی سمجھا جائے جیسے بچپنے میں حقیقی بہن بھائی ایک دوسرے کو مار پیٹ لیتے ہیں یا زیادہ تیز طرار بچہ دوسرے بھولے بھالے بھائی کی چیزیں چھین لیتا یا زیادتی کرتاہے تو ان کو ناسمجھ سمجھ کر برداشت کیا جاتاہے یہی رویہ سارے بھائیوں کے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنانا ضروری ہے، سب کو اپنے ہی بچوں کی طرح سمجھیں اور دیکھیں اور ان کی آپس کی باہمی معصومانہ لڑائیوں کو نظر انداز کریں اور ان کی لڑائی کو بڑوں کی لڑائی میں تبدیل نہ کریں اور نہ ہونے دیں ۔

اس رویے کو اپنانے میں بڑوں کے ادب واحترام اور خوش اخلاقی وخوش زبانی کا بھی بڑا دخل ہے ، کوئی بھی عورت ان کے تقاضوں سے بھی کبھی غفلت نہ برتے بلکہ ان خوبیوں کو اپنی سیرت وکردار کا حصہ اور زندگی کا معمول بنائے ، یہ اللہ اور رسول کا بھی حکم ہے اور حکمت ودانش کا مظہر بھی۔ جس کے اختیار کرنے میں آخرت کی بھی بھلائی اور دنیوی زندگی میں خیر اور فلاح کا ذریعہ بھی ۔ اللہ کی نظر میں بھی پسندیدگی کا باعث ہے اور خاندان میں بھی عزت اور نیک نامی کا ذریعہ ۔

وَفَّقَ اللَّہُ جَمِیعَ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ لِمَا یُحِبُّ وَیَرضَی

اللہ تعالیٰ تمام مسلمان مرد و خواتین کو ہر اس عمل کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی پسند اور رضا کا سبب ہو ۔

 پنجم :  اگر خاوند کے وسائل الگ گھر لے کر الگ رہنے کے متحمل نہیں ہیں تو عورت خاوند کو کبھی بھی اس پر مجبور نہ کرے بلکہ مذکورہ ہدایات کی روشنی میں مشترکہ طور پر ہی گزارا کرے تاآنکہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمادے۔

ہاں اگر خاوند کے وسائل اس امر کی اجازت دیں کہ وہ الگ مکان لے سکتاہے (کرائے پر یا خریدکر) اور وہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزارا کرسکتاہے اور علیحدہ رہ کر والدین کی بھی حسب ضرورت اور حسب استطاعت خدمت کر سکتاہے ، تو شادی کے بعد علیحدگی میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں علیحدگی بہتر ہے ایسی صورت حال میں والدین کو بھی بیٹے کو بہ رضا ورغبت علیحدہ رہنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔

ششم:  بڑوں کے ادب واحترام کی بابت جو عرض کیا گیا ہے ، ان میں ساس سسر(دولہا کے ماں باپ) سرفہرست ہیں۔سسرال میں آنے کے بعد عورت(دلہن) کے لیے یہ بھی اس کے لیے ماں باپ کےدرجے میں ہیں اب اس گھر میں جس طرح یہ دولہا کے ماں باپ ہیں دلہن کے بھی ماں باپ ہیں۔ ماں باپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والی دلہن کو بیٹی کی حیثیت دیں اور بیٹیوں والی شفقت اور پیار اسے دیں، اسی طرح عورت بھی ان کو زبان ہی سے اَمی ، اَبّو نہ کہے بلکہ دل کی گہرائیوں سے ان کو ماں باپ والا احترام (پروٹوکول) دے، ان کے ساتھ گستاخانہ رویہ کسی حال میں بھی روانہ رکھے، ساس اس کو امورخانہ کے بارے میں جو ہدایات دے ، ان کو بہ صمیم قلب قبول کرے ، ان کو بروئے کار لانے میں عملاً کوئی کوتاہی نہ کرے ، ساس کو بار بار سمجھانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ یہ ضرورت اسی وقت پیش آتی ہے جب بہو ان ہدایات کی نہ پرواہی کرتی ہے اور نہ ان ہدایات کی روشنی میں اپنا رویہ ہی تبدیل کرتی ہے حالانکہ ان ہدایات کا مقصد عام طور پر بہو کی اصلاح،گھر کی اصلاح اور روز مرہ کے معمولات میں پیش آنے والی کوتاہیوں کی اصلاح ہوتی ہے ۔ ان ہدایات کی پابندی اور سنجیدگی سے ان پرعمل کرنے سے بہو کے کردار ہی میں بہتری آتی ہے اور گھر والوں کی نظر میں اس کی عزت اور احترام میں اضافہ ہی ہوتاہے۔

لیکن بار بار کے سمجھانے کے باوجود اگر بہو اپنی اصلاح نہیں کرتی تو اس سے یقیناً وہ گھر والوں کی نظر میں اس احترام سے محروم ہوجاتی ہے جو اس کا حق ہے اور جو اس کو اس گھر میں ملنا چاہیے۔ لیکن اس کی وجہ اس کی اپنی کوتاہی ہے جو کسی سمجھدار بہو سے متوقع نہیں ہے ، علاوہ ازیں بہو کا یہ کردار بھی گستاخی پر مبنی ہے، ساس ، جو بمنزلہ ماں ہے ، اس کو ایک بات بار بار سمجھاتی ہے لیکن وہ اس کو اختیار نہیں کرتی، اس کے مطابق اپنی اصلاح نہیں کرتی تو یقیناً یہ گستاخی ہے جس کی نہ شرعاً اس کو اجازت ہے نہ اخلاقاً اور نہ مصلحتاً ۔

مصلحت تو اسی میں ہے کہ وہ ساس کی سمجھائی ہوئی باتوں کو اہمیت دے ، آخر اب دلہن نے اسی گھر میں رہنا ہے تو پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر رکھنا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ ساس کا قرار واقعی احترام کرکے اس کے دل میں اپنامقام اور اپنا وقار بنائے، یہی دانش مندی  ہے ، یہی عزت ووقار کا باعث اور امن وسکون کی خوشگوار فضا قائم کرنے اور قائم رکھنے کا ذریعہ ہے ، اسی میں خاوند کی بھی رضا مندی ہے اور اس کی رضامندی، احکام شریعت کی پابندی کے بعد ، جنت کی ضمانت ہے۔

میاں بیوی کی رنجش میں میکے والوں کا کردار

سیدنا سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺاپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے گھر تشریف لے گئے، وہاںسیدنا علی رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے، آپﷺنے اپنی صاحبزادی سے پوچھا تمہارے عم زاد کہاں ہیں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا :

كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي

’’میرے اور ان کے درمیان کوئی بات ہوگئی تھی تو وہ گھر سے غصے میں چلے گئے اور میرے پاس قیلولہ بھی نہیں کیا۔‘‘[22]

رسول اللہﷺنے کسی شخص سے کہا ان کو دیکھو! وہ کہاں ہیں؟ اس نے آکر بتلایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں ، رسول اللہﷺمسجد میں تشریف لائے ، دیکھا کہ وہ واقعی وہاں سوئے ہوئے ہیں ، ان کی چادر(نیند کی وجہ سے) ان کے پہلوسے گری ہوئی ہے اور ان کےجسم کو مٹی لگ گئی ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا :

قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَاب

’’ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔‘‘ [23]

اس وقت سے ان کی یہ کنیت مشہور ہوگئی اور چونکہ اس کنیت سے آپ کو خطاب رسول اللہﷺنے فرمایا تھا ، اس لیے یہ کنیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بہت پسندتھی۔

ابو تراب کے معنی ہیں مٹی والے ۔ چونکہ جناب علی رضی اللہ عنہ فرشِ زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور چادر جسم سے اتر جانے کی وجہ سے جسم پر مٹی لگ گئی تھی اس لیے رسول اللہﷺنے ان کو ابوتراب سے خطاب فرمایا۔

اس واقعے میں یہ نہایت اہم سبق پنہاں ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اگر کوئی رنجش ہوجائے اور لڑکی کے گھر والوں کو اس کا علم ہوجائے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ بچی کو فوراً اپنے گھر لے آؤ، یا بچی ازخود خاوند کے گھرسے نکل کر میکے چلی آئے بلکہ عورت گھر ہی میں رہے ، عورت کے گھر والے بھی اسے اپنے خاوند ہی کے گھر میں رہنے دیں البتہ پہل کرکے خاوند سے رابطہ کریں اور میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش کو دور کردیں اور اس کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں۔

ہمارے یہاں  ایسی صورت میں اس کے برعکس بالعموم یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والے لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ہیں یا بعض لڑکیاں اتنی جسارت کرتی ہیں کہ از خود اپنے میکے آجاتی ہیں۔ ماں باپ بیٹی کی محبت میں اس کے اس غلط اقدام کی حمایت کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،یوں معاملہ بگڑ جاتاہے اور اختلاف کی چنگاری شعلہ بن جاتی ہے جس سے بعض دفعہ گھر ہی بھسم ہوکر رہ جاتاہے۔

بیٹی کی یہ محبت نادانشی پر مبنی ہے اور اس قسم کا فیصلہ جلد بازی کا مظاہرہ ہے ، نہ یہ بے دانشی صحیح ہے اور نہ یہ جلد بازی ہی مناسب ہے ، محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ بیٹی کا گھر آباد ہی رہے ، یہ جذبہ تمام باتوں پر غالب رہے ، اس کے لیے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ بچی کو ہر حالت میں سسرال ہی میں رہنے دیا جائے اگر وہ خود آجائے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اسے فوراً سسرال پہنچادیاجائے اور مناسب انداز سے باہم پیدا ہونے والے اختلاف کو دور کرنے کی سعی کی جائے، بیٹی کی غلطی ہوتو اس کی سرزنش کی جائے۔ سسرال والوں کی غلطی ہوتو ان کو سمجھایا جائے لیکن کسی حالت میں بھی بچی کو نہ خود گھر میں لاکر بٹھائیں اور نہ بچی کو گھر میں آنے دیں۔بچی سے محبت کا صحیح تقاضا اس کے گھر کو آباد رکھنا ہے نہ کہ اس کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے گھر کو اُجاڑنا۔

شریعت اسلامیہ نے تو اس نکتے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق میں بھی ، جن میں عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق رہتا ہے ، یہ حکم دیا ہے کہ مطلقہ کو خاوند ہی کے گھر میں رہنے دیاجائے، طلاق مل جانے کے باوجود والدین اس کو اپنے گھر مت لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ

الطلاق – 1

’’(طلاق کے بعد) ان کو ان کے(اپنے) گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، ہاں اگر وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں تو اور بات ہے(پھر نکالنے کا جواز ہے)۔‘‘

________________________________________

 [2] صحیح البخاری:کتاب النکاح باب کیف یری للمتزوج، حدیث : 5153،5155

[3] صحیح البخاری: کتاب النکاح، باب البناء فی السفر ، حدیث : 5159

[4] صحیح البخاری: کتاب الصلاۃ، باب  ما یذکر فی الفخذ

[5] صحیح مسلم : کتاب  النکاح ، باب زواج زینب بنت جحش

[6] صحیح البخاری: کتاب النکاح ، باب من ترك الدعوةفقد عصى الله 

[7] صحیح مسلم: کتاب  النکاح ، باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ

[8] سنن ابو داؤد:کتاب الادب، باب من یؤمر ان یجالس

[9] صحیح مسلم: حدیث : 1431

[10] السنن الکبریٰ للبیھقی: باب الشیخ الکبیر لایطیق الصوم …

[11] ارواء الغلیل: 7/11۔12، حدیث : 1952

[12] سنن ابن ماجہ، مسند ابی یعلی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للالبانی ، ص: 77      

[13] سنن ابن ماجہ،مسند ابی یعلی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للالبانی ، ص: 77

[14] سنن بیہقی 7/268 بسند صحیح ، بحوالہ : آداب الزفاف ، ص : 80

[15] سنن بیہقی بسند صحیح ، آداب الزفاف ، ص:81

[16]  آداب الزفاف ، للالبانی رحمہ اللہ ، ص: 81

[17] صحیح مسلم : کتاب الاشربہ ،باب استحباب وضع النویٰ…… ، سنن ابو داؤد ، کتاب الاشربہ، باب   فی النفخ

[18] صحیح مسلم :  کتاب الاشربہ،باب اکرام الضیف

[19] سنن ابو داؤد : کتاب  الاطعمہ ، باب ما جاء فی الدعاء لرب الطعام إذا أکل عندہ

[20] صحیح البخاری : کتاب  المواقیت، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء

[21] جامع الترمذی، کتاب  البروالصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان

[22]  صحیح البخاری:کتاب الصلوۃ،باب نوم الرجال فی المسجد

[23] صحیح البخاری: الصلاۃ،باب نوم الرجال فی المسجد، حدیث:441

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1945ء میں ریاست جے پور راجستھان میں آپ کی ولادت ہوئی ، فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف ر حمہ اللہ کا شمار پاکستان کے نامور قلمکاروں میں ہوتا ہے ، آپ کی تصانیف کی ایک لمبی فہرست ہے ، جنہیں اللہ نے بڑی مقبولیت سے نوازا ، اور بڑے اعزاز کی بات یہ ہے کہ آپ نے اردو زبان میں بنام احسن البیان قرآن کریم کی انتہائی جامع تفسیر تحریر فرمائی ، جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور سعودی عرب کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں شائع کی جارہی ہے۔ اسی طرح آپ صحابہ کرام کے دفاع میں آپ کا ایک عظیم کارنامہ خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت کے عنوان پر ایک شاندا ر و جاندار علمی ، تحقیقی کتاب ہے ، جسے ہر خاص و عام میں خوب شہرہ ہوا اور تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس کتاب کی تحسین کی۔