دل پر گناہوں کے بُرے اثرات

الحمد لله رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی آله وصحبه أجمین، ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین، وبعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

ظَهر الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهم  بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهم یَرْجِعُوْنَ

الروم – 41

بحر و بر میں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کمائےہوئے اعمال ہیں۔ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے۔ شاید وہ ایسے کاموں سے باز آجائیں ۔

خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ و بالا ہوجاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں تو معلوم ہوا کہ نافرمانی اور گناہ پریشانی کا سبب ہے اور فرمان برداری اور نیکی سکون کا سبب ہے۔

ہر انسان میں گناہوں اورنافرمانیوں کی جانب رغبت کا میلان موجود ہے، اورانسان کے اندر موجود نفس امارہ ہرلمحہ اسے گناہوں میں مبتلا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ جب سلیم الفطرت انسان کسی گناہ یا غلط کام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ یہ جان رہا ہوتا ہے کہ وہ غلط کام یا ظلم وزیادتی اور فسق وفجور کررہا ہے، اس کو یہ علم ہوتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے کی مخالفت کررہا ہے ، وہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ وہ  اللہ کے فرامین سے بغاوت کرکے اس کے قہر وغضب کو دعوت دے رہا ہے۔ لیکن شیطان کے وار،خواہشات کا غلبہ اور گناہوں کی عارضی لذت اس کو گناہ کے ارتکاب کی طرف لے جاتے ہیں۔

گناہ کے ارتکاب کے وقت جب کبھی اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا ہے تو وہ یہ کہہ کر ضمیر کو خاموش کرا دیتا ہے کہ ابھی بڑی عمر پڑی ہے، میں عنقریب توبہ کرلوں گا ، اس طرح موہوم اُمیدوں سے دل کو بہلاوے میں رکھتا ہے اور یوں وہ گناہوں کی گہری دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ گناہ کی وجہ سے آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا ، ابلیس کو ملعون قرار دیا گیا ، قوم عاد ، ثمود کا نام ونشان مٹ گیا ، قوم لوط پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی اور ان کی بستی کو ان پر ہی الٹ دیا گیا، اسی نافرمانی اور گناہ کی وجہ سے قوم شعیب بھی عذاب میں گرفتار ہوئی ، اور فرعون اور اس کا لشکر سمندر میں غرق ہوا ۔ اللہ تعالیٰ  ارشاد فرماتے ہیں:

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

العنکبوت – 40

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

 حقیقت میں گناہ انسان کے حق میں نہایت خطرناک ہیں۔ اس سے اس کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجاتے ہیں اور گناہوں سے نہ صرف انسانی دل متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے بُرے اثرات اور نقصانات سے انسانی جسم ،معاشرہ، ملک ، شہر، قوم  اور جانور سب ہی متأثر ہوتے ہیں ۔ ذیل میں دل پر گناہوں کے چندبُرےاثرات اور نقصانات کی تفصیل پیش خدمت ہے ۔  

دل میں وحشت اورتاریکی :

گناہوں کے برے اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ چہرے پر سیاہی، دل میں تاریکی، جسم میں کمزوری، رزق میں تنگی، مخلوق کےدل میں نفرت اور بزدلی آجاتی ہے ، یہ سب گناہوں کا وبال ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اطاعت الٰہی ایک نور اور روشنی ہے جبکہ معصیت الٰہی ایک تاریکی اور اندھیرا ہے ۔چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں :

إن للحسنة ضياء في الوجه، ونورا في القلب، وسعة في الرزق، وقوة في البدن، ومحبة في قلوب الخلق، وإن للسيئة سوادا في الوجه، وظلمة في القلب، ووهنا في البدن، ونقصا في الرزق، وبغضة في قلوب الخلق

’’جو شخص الله كی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوشاں رہتاہے ،اس کے چہرے پہ چمک دمک، دل میں نور،روزی میں فراخی ،بدن میں طاقت وقوت اور لوگوں کےدل میں اس کے لیے محبت ومودت ہوتی ہے او رجو شخص اطاعت الٰہی سے منہ موڑ کر نافرمانی اور طغیانی میں کوشاں رہتا ہے، اس کے چہرے  پہ نحوست ،دل میں تاریکی ،قبر میں اندھیرا،بدن میں کمزوری،روزی میں کمی اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے حسد ،بغض اورکینہ پیدا ہوجاتا ہے ۔‘‘1

دل زنگ آلود :

  گناہوں کے برے اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ کثرت گناہ کے سبب  بندے کا دل مرده  اورزنگ آلود ہوجاتا ہے  اور اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ،جب دل غافل اور مرده هوجاتا هے تو حق بات سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :

إنَّ العبدَ إذا أخطأَ خطيئةً نُكِتت في قلبِهِ نُكْتةٌ سوداءُ، فإذا هوَ نزعَ واستَغفرَ وتابَ صُقِلَ قلبُهُ، وإن عادَ زيدَ فيها حتَّى تعلوَ قلبَهُ، وَهوَ الرَّانُ الَّذي ذَكَرَ اللہُ

كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

المطففین – 14

”بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے ( سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے ) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت  میں کیا ہے:ترجمہ:”ایسے نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے برے اعمال کی وجہ سے زنگ  چڑھ گیا ہے“۔2

حیاء کا خاتمہ :

شریعت میں ’’حیاء‘‘ اس اچھائی کا نام ہے جو انسان کو ان تمام چیزوں کے چھوڑنے پر ابھارے جو شریعت میں قبیح ہیں، اسلام کا مزاج شرم و حیاء کا ہے اور مغربی ثقافت کی ساری بنیاد ہی بے حیائی اور بے شرمی پر کھڑی ہے، حیاء ہی وہ جوہر ہے ‘ جس سے محروم ہونے کے بعد انسان کا ہر قدم برائی کی طرف ہی اٹھتا ہے اور ہر گناہ کرنا آسان سے آسان تر ہو جاتا ہے ۔ شرم و حیاء آپ کیلئے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے، جس کی پناہ میں آپ معاشرے کی تمام گندگیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔

 حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  :

الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ

 پوری کی پوری بھلائی حیاء میں مضمر ہے۔3

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَة؛ وَالْحَیَاءُ شُعْبةٌ مِنَ الْاِیْمَانِ

ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔4

  ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا اررشاد ہے :

عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رضی الله عنه أن النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ

 ابو مسعود رضی الله عنه  سے روایت ہے كہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :”اگلے پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے“۔5

بے حیائی اور بے غیرتی جہاں ہوگی، گناہ لازم ہوں گے مگر جب انسان اللہ سے حیا اور شرم کرتا ہے اور گناہوں سے پرہیز کرتا ہے تو اللہ بھی سزا دینےمیں شرم کرے گا۔

قلبی انحطاط :

گناہوں کے برے اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ گناہ اور نافرمانی کرنے والے کا دل  ایسا ہوجاتا ہےکہ باطل كو حق اور حق بات كو باطل سمجھنے لگتا ہے، اسی طرح نیكی كو برائی اور برائی كو نیكی سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:

تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا، فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا، نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا، نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ ، حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ، عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ، وَالْآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ، مُجَخِّيًا لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا، إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ

’’ یعنی فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک ایسے آئیں گے جیسے بوریے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں۔ پھر جس دل میں فتنہ رچ جائے گا، اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا تو اس میں ایک سفید نورانی نشان ہو گا، یہاں تک کہ اسی طرح کالے داغ اور سفید نشان ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے۔ ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح کہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک اسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا۔ دوسرا کالا سفیدی مائل یا الٹے کوزے کی طرح ، جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا نہ بری بات کو بری ،مگر وہی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔6

اللہ تعالیٰ کی عظمت میں كمی:

گناہوں کے برے اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ گناہ کے ارتکاب سے  دل میں اللہ کی عظمت کم ہوجاتی ہے، تب ہی تو انسان گناہ کرتا ہے۔ جب اللہ کی محرمات کی اہمیت نہ رہی تو دل پر پردہ پڑ جاتا اورمہر لگ جاتی ہے۔ جب انسان اللہ کو بھول جاتا ہے تو اللہ اُنہیں بھول جاتا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے اوامر و احکام کو برباد کیا، وہ اللہ کے عتاب کا نشانہ بن گئے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ ، إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُوبِقَاتِ

  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ : تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں ( یعنی تم اسے نهایت حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں سمجھتے ) اور ہم لوگ نبی کریم ﷺکے زمانہ میں ان اعمال کو ہلاک کر دینے والے اعمال سمجھتےتھے۔7

دل کی سختی :

گناہ کے ارتکاب سے دل میں سختی آجاتی ہے ،دنیاوی مشاہدہ بھی ہے کہ جو جس قدر برائی کا رسیا ہے وہ اسی قدر لوگوں کے لیے سخت دل ہے۔ اسے کسی سے پیار نہیں ہوتا، معمولی بات پہ ہنگامہ آرائی اس کی فطرت بن جاتی ہے اور لوگوں کے ساتھ کبھی بھی نرمی کا برتاؤ نہیں کرتا حتی کہ سختی میں اپنے اور بیگانوں کا فرق بھی یاد نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

الانعام – 43

سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔

سینے کی  تنگی :

جو بندہ گناہوں اور برے کاموں میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کا سینہ اور دل  بقدر اس کے گناہ  تنگ کر دیا جاتا ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَمَنْ يُرِدِ اللہُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

الانعام – 125

سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشاده کر دیتا ہے اور جس کو بے راه رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ ﻻنے والوں پر ناپاکی مسلط کردیتا ہے۔

سینہ کھلنے سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں روشنی پیدا فرماتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہر عمل  اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے۔8

وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّه

جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ تنگ بہت ہی تنگ کردیتا ہے کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ رہے، چنانچہ اس دل کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اوراسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ 

سینے کی تنگی کی علامت :

 دینی کام بھاری معلوم ہونا اور دنیاوی کام آسان محسوس ہونا، سینے کی تنگی کی علامت ہے ۔ بعض  لوگوں پر ایمان بھاری ہوتا ہے اور بعض پر نیک اعمال بھاری  ہوتا ہے اور آدمی کی بد کرداریوں سے دل میں یہ حال پیدا ہو جاتا ہے جیسے لوہا زنگ لگ کر بیکار ہو جاتا ہے اسی طرح گناہوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو کر حق قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ 

ایمان کا خاتمہ :

گناہوں کے برے اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ گناہ کرنے والے کا دل ایمان سے خالی ہوجاتا ہے کیونکہ گناہ دل کی بیماری ہے، گناہ کا مرض بڑھ جائے تو دل کی موت یقینی ہے، دل کی زندگی کے لیے ایمان اور عمل صالح ضروری ہیں۔ نیک اعمال اور توبہ واستغفار سے دل کی بیماریوں کا اخراج ہوتا ہے۔ گناہ دل کی صحت کے لیے مضر ہے۔ جو آخر کار اسے ہلاک کر کے تباہ کردیتا ہے۔ دل کی بیماری کا علاج تقویٰ میں ہے،چنانچہ حدیث میں آتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ

  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ مار اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔9

لہٰذا موت آنے سے پہلے گناہوں سے کنارہ کش ہوجائیں، برے کاموں سے باز آجائیں، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں چھوڑ دیں ، کیونکہ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ زندگی کا یہ سفر کس موڑ پرختم ہوجائے، لہٰذا توبہ ہی نجات کا پروانہ اور اُخروی زندگی کی کامیابی کی علامت وضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم  سب میں آخرت کی جواب دہی کا احساس پیدا کرے اور اس دنیا میں دی گئی مہلت میں اللہ کا تابع فرمان بندہ بننے کی توفیق عطا  فرمائے۔ آمین ۔

  1. الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي  لابن القیم: ص:58
  2. صحيح الترمذي: 3334
  3. صحیح مسلم: 37
  4. صحیح مسلم : کتاب الإیمان، رقم: ۱۵۲۔
  5. صحیح البخاری: 6120
  6. صحیح مسلم : ۳۵۹ ، مسند احمد:  ۱۱۶۷۶ ، مشکوٰۃ  المصابیح: ۵۳۸۰
  7. صحیح بخاری :رقم الحدیث: ۶۴۹۲
  8. حاشیة  الصاوی  علی تفسیر جلالین ، سورۃ  الأنعام، تحت الآیة:   ۱۲۵  ،   ۲   /   ۶۲۷  ) 
  9. صحیح البخاری  : ۲۴۷۵  ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ