سیرتِ امیرِ معاویہ اور 22 رجب کے کونڈے

دورِِ حاضر میں بعض حلقوں کی طرف سے رسول کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رفعت منزلت اور علو مرتبت میں بہت تفریط اور تنقیص کی جاتی ہے اور ان کی شان وعظمت کے خلاف مواد نشر کیا جاتا ہے۔اور اکابر صحابہ بنو امیہ کے معائب و نقائص پھیلانے کو خاص طور پر کارِ خیر اور دین کی خدمت سمجھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس چیز کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی رفعت، فضیلت، عظمت جو عند اللہ اور عند رسول اللہ ﷺ ثابت ہے اس کو صحیح انداز میں پیش کیا جائے اور ان حضرات کے اعلی اخلاق و کردار اسلامی خدمات اور کارناموں کو اہل اسلام تک پہنچانے میں کوئی کمی نہ کی جائے ۔ اسی بنا پر رسول کریم ﷺ کے جلیل القدر صحابی امیر المؤمنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما جو بنو امیہ کی مشہور شخصیت ہیں اور ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ایک ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر صحابہ کرام ؓ میں ایک خاص مقام عطا کیا تھا۔ آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو امیہ سے تھا جسے قریش کے قبائل میں اپنی سیاسی فہم و فراست اور سیادت کی صلاحیتوں کی بناء پر ایک اہم مقام حاصل تھا۔  ذیل میں ان کی سیرت کے چند پہلو مختصرًا بیان کیے جاتے ہیں۔

نام و نسب :

آپ کا اسمِ گرامی معاویہ بن ابو سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشی اموی تھا ۔ آپ کی کنیت ابو عبد الرحمن، لقب خال المؤمنین یعنی مؤمنوں کے ماموں اور کاتبِ وحی رسول اللہ رب العالمین تھا۔ آپ کی والدہ ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھیں۔1

ولادتِ باسعادت :

نبی کریم ﷺ کے سن ولادت کے34 سال بعد حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی اور نبی کریم ﷺ کی ولادت مشہور اقوال کے مطابق عام الفیل میں ہوئی ۔

 وفي سنة أربع وثلاثین من مولده ﷺ ولد معاویة بن أبي سفیان رضی الله عنه

یعنی نبی کریم ﷺ کی ولادت کے چونتیس سال بعد معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔2  بعض سیرت نگاروں کے مطابق نبی كریم ﷺ كی بعثت سے پانچ برس قبل سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ كی ولادت ہوئی۔ اسی بات کو بعض دیگر سیرت نگاروں نے کچھ مختلف انداز میں یوں درج کیا ہے۔

 ولد قبل البعثة قبل بخمس سنین، وقیل بسبع، وقیل بثلاثة عشرة، والأوّل أشهر

یعنی حضرت ابو سفیان نبی کریم ﷺ کی بعثت سے 5 سال قبل پیدا ہوئے۔3بعض نے لكھا کہ بعثت سے سات سال پهلے ولادت ہوئی، كسی نے لکھا کہ بعثت سے 13 سال قبل ولات ہوئی لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک بعثت سے پانچ سال قبل والا قول زیادہ مشہور ہے۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو مروجہ تمام علوم و فنون سے آراستہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

  وکان رئیسًا مطاعاً ذا مال جزیل

یعنی آپ اپنی قوم کے سردار تھے، آپ کے حکم کی اطاعت کی جاتی تھی اور آپ کا شمار مال دار لوگوں میں ہوتا تھا۔4

رسول اللہ ﷺ سے نسبتی قرابت :

حضرت امیر معاویہ کے نسب پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنےآتی ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پانچویں جگہ پر عبد مناف سے مل جاتاہے اورعبد مناف وہ بزرگ ہیں کہ جن کانام نبی کریم ﷺ کے سلسلہ نسب میں چوتھے نمبر پر آتا ہے ۔یعنی محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ۔

صحابی خاندان :

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جس خاندان سے تعلق ہونے کا شرف حاصل ہے وہ صحابی خاندان ہے۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ خود صحابی رسول ﷺ ہیں پھر ان کے والد ابو سفیان اور والدہ ھند پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید بن ابی سفیان اور عتبہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھم یہ سب صحابیت کے شرف سے مشرف ہیں ۔ اسی طرح جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہنیں ام المؤمنین ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان ، ام الحکم بنت ابی سفیان اور عزہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھن کو بھی صحابیہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔5

حلیہ مبارک :

 حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وضع قطع ، چال ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبع میں زہد و ورع ، حلم و بردباری کے مالک انسان تھے، لحیم و شحیم ،موٹی آنکھیں ، گھنی داڑھی، گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے، چہرہ نہایت وجیہ اور رُعْب و دبدبے والا تھا۔ چہرے سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی ، زرد خضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے۔6

قبول اسلام :

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کو اس طرح ذكرکیا ہے :

وحكی ابن سعد أنه كان یقول لقد أسلمت قبل العمرة القضیة ولكني كنتُ أخاف أن أخرج إلی المدینة ،لأن أمّي كانت تقول إن خرجت قطعنا عنك القوت

یعنی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ فرماتے تھے کہ میں عمرۃ القضا یعنی7 ہجری سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا مگر اپنی والدہ  ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کے خوف سے مدینہ منورہ ہجرت نہیں کر سکا تھا کیونکہ وہ مجھے کہتی تھیں کہ اگر تو مدینہ کی طرف گیا تو ہم تیرا نفقہ بند کر دیں گے اور تجھ سے کوئی تعاون نہیں کریں گے۔7

اہلِ علم جانتے ہیں کہ عمرۃ القضا سنہ 7 ہجری میں پیش آیا تھا ۔البتہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا باقاعدہ اعلان فتح مکہ سنہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

کان یقول : ثم لما دخل عام الفتح أظهرتُ إسلامي فجئته فرحّب بي

کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کہا کرتے تھے کہ جب فتح مکہ کا سال آیا تو میں نے اپنا اسلام ظاہر کیا اور میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے میرا استقبال کیا۔8

مؤرخین کے اندازے کے مطابق اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً 18 برس تھی ۔چنانچه خطیب بغدادی رحمہ الله لكھتے ہیں :

أسلم وھو ابن ثماني عشرۃ سنة ، وکان یقول أسلمتُ عام القضية ولقیت رسول اللہ ﷺ فوضعت عنده إسلامي

معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو وہ اٹھارہ سال کے تھے. وہ یہ کہا کرتے تھے کہ میں نے عمرۃ القضاء کے وقت اسلام قبول کیا میں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور آپ ﷺ کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔9

فضائل و مناقبِ معاویہ رضی اللہ عنہ :

صحبت ِرسالت كا شرف :

فتح مکہ کے موقع پر اسلام کا اعلان کرکے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اُن خوش نصیب اور مبارک ہستیوں میں شامل ہوگئے جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ الله اتعالیٰ ان لوگوں سے اور یہ لوگ الله تعالیٰ سے راضی ہوگئے ہیں۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

التوبة – 100

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔

حضرت معاویہ رضی الله عنہ  اور نبی كریم ﷺکے خاندان کے درمیان اسلام سے پہلے دوستانہ تعلقات تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دارِ ابو سفیان ؓ کو دارِ امن قرار دے دیا تھا ۔ اور ابو سفیان کی صاحبزادی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول کریم ﷺ کے حرم میں داخل تھیں۔

کاتبِ وحی :

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کو کتابتِ وحی کے لیے قابل اعتماد قرار دیا اور انہیں کاتبِ وحی مقرر فرمایا۔چنانچہ حد یث میں آتا ہے کہ:

قال لي النبي صلى الله عليه وسلّم :اذهب فادعُ لي معاوية “، وكان كاتبه

 یعنی حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہ  فرماتے ہیں كہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: جاؤ معاویہ کو بلا کر لاؤ۔ وہ ( معاویہ رضی اللہ عنہ) نبی ﷺ كیلئے وحی لکھتے تھے۔10

مشہور شیعہ عالم شیخ نعمت اللہ الجزائری کہتے ہیں :

وكذلك جعل معاوية من الكُتَّاب قبل موته بستة أشهر

یعنی نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات سے 6 ماہ پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی مقرر فرمایا۔11

ایک اور شیعہ عالم لکھتے ہیں :

سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول : قال رسول الله ﷺ – ومعاوية يكتب بين يديه

میں نے ابو جعفر علیہ السلام کو کہتے ہوئےسنا: کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اور معاویہ آپ ﷺ کے سامنے وحی کی کتابت کر رہے تھے۔12

چنانچہ كتب تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے 13 جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس منصب عظیم کے لیے مقرر کیا تھا ۔ خلفاء راشدین اربعہ، عامر بن فہیرہ، عبد اللہ بن ارقم ، ابی بن کعب ، ثابت بن قیس ، خالد بن سعید ،حنظلہ بن ربیع اسلمی، زید بن ثابت، معاویہ بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ، جبکہ معاویہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ اس فريضہ کی ادئیگی کے لیے مختص تھے۔13

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  قریش کے ان چند افراد میں سے تھے جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے آپ ؓ کو کاتبِ وحی کے اہم منصب کی ذمہ داری عطا کی ۔آپ ؓ کو نہ صرف وحی کو لکھنے والے صحابہ کرام میں شامل کیا تھا بلکہ آپ ﷺ کی طرف سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ان کو بھی آپ ؓ ہی لکھا کرتے تھے جو کہ نبی کریم ﷺ کا آپ ؓ پر بھرپور اعتماد کا نتیجہ تھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت آپ ﷺ نے مقرر فرمائی تھی جو کاتب وحی کے عظیم المرتبت فريضے پر معمور تھی، اس جماعت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔

خال المؤمنین :

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز اور شرف حاصل ہے کہ آپ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی زوجہ مبارکہ تھیں جو تمام مؤمنوں کی ماں ہیں ۔ اس لحاظ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ كو مؤمنوں کا ماموں کہا جاتا ہے ۔حدیث میں آتا ہے کہ :

يا نَبِيَّ اللهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ، قالَ: نَعَمْ قالَ: عِندِي أَحْسَنُ العَرَبِ وَأَجْمَلُهُ، أُمُّ حَبِيبَةَ بنْتُ أَبِي سُفْيَانَ، أُزَوِّجُکہ ا، قالَ: نَعَمْ قالَ: وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بيْنَ يَدَيْكَ، قالَ: نَعَمْ قالَ: وَتُؤَمِّرُنِي حتَّى أُقَاتِلَ الكُفَّارَ، كما كُنْتُ أُقَاتِلُ المُسْلِمِينَ، قالَ: نَعَمْ.

حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: یا نبی اللہﷺ! تین انعام مجھ پہ کیجئے. میری حسین و جمیل دختر ام حبیبہ کو اپنے نکاح میں لے لیجئے. رسول اللہﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے. معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب بنا لیجئے. فرمایا :جی ٹھیک ہے. عرض کیا: مجھے امیر لشکر بنا دیجئے تاکہ میں کفار سے اسی طرح قتال کروں جس طرح مسلمانوں سے کیا تھا۔ فرمایا : ٹھیک ہے۔14

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی نظر میں  :

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے ہاں ایک خاص مقام حاصل تھا ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے بہت سے مقامات پر آپ ؓکو بشارت دی بلکہ آپ ؓ کے لیے دعا بھی فرمائی۔

سیدناعرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا، آپ ﷺ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا فرمارہے تھے :

اللّٰہُمَّ عَلِّمْ معاویة الَکِتَابَ والْحِسَابَ وَقِه الْعَذَابَ

 اے اللہ !  معاویہ رضی اللہ عنہ  کوکتاب وحساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچالے۔15

ہادی و مہدی :

عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا فرمائی:

اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِه وَاهْدِ بِهِ

‏”اے اللہ !معاویہ کو ہدایت کا راستہ دکھانے والا ،  ہدایت یافتہ  اور اس کے ذریعے انسانوں کی رہنمائی فرما۔16

خلافت کی پیش گوئی :

نبی کریم ﷺ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کی خلافت کے بارے میں پیش گوئی فرمائی چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کو مخاطب کرکے فرمایا :

یا معاوية إن ولّیت أمراً فاتق الله

اے معاویہ ! اگر تو حاکم بن جاؤ تو تقوی اختیار کرنا ۔17

دعا برائے خلافت :

آپ ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت كی دعا كرتے ہوئے فرمایا :

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ ، وَمَكِّنْ لَهُ فِي الْبِلَادِ ، وَقِهِ الْعَذَابَ

اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب کا علم سکھا اور اسے ملکوں کی حکومت عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا۔18

جنت کی بشارت :

أَوَّلُ جَيْشٍ مِن أُمَّتي يَغْزُونَ البَحْرَ قدْ أوْجَبُوا

سیده ام حرام بنت ملحان  رضی اللہ عنہا بیان كرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’ میری امت میں سب سے پہلا لشکر جو سمندری جنگ لڑے گا بے شک اُن کے لئے جنت واجب ہے‘‘۔19

امت كا اجماع ہے کہ پہلے سمندری لشکر کے سربراہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ تھے ۔کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا ۔ سیدنا  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے عہد فاروقی ؓ میں بحری بیڑہ بنانے کی اجازت چاہی مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سمندری مشکلات کے پیش ِنظر آپ ؓ کو اس کی اجازت نہیں دی ۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپؓ کے عزم کامل اور شدید اصرار کو دیکھتے ہوئے اجازت دیدی ۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے پانچ سو جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ تیار کیا جو کہ اسلامی افواج كی تاریخ میں سب سے پہلا بحری بیڑہ تھا ۔ اور یہ بشارت ِنبوی کا عملی نمونہ تھا۔

فاتحِ قبرص :

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپ ؓ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کیے ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت میں آپ ؓنے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرایا ۔آپ ؓکے جہادی کارناموں میں ایک عظیم کارنامہ قبرص کی فتح ہے. یہ شام کے قریب واقع حسین وزرخیز جزیرہ تھا جو کہ جغرافیائی حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیرہ مصر اور شام کی فتح کا دروازہ تھا ۔ آپ ؓ نے 500 بحری جہازوں پر مشتمل بحری بیڑے کے ساتھ قبرص پر چڑھائی کی. اہلِ قبرص نے اتنے عظیم بحری بیڑے کو قبرص میں لنگر انداز دیکھا تو شروع میں کچھ شرائط پر صلح کرلی لیکن موقع پاتے ہی عہد شکنی کی اور رومیوں کو مدد فراہم کی چنانچہ آپ ؓ نے دوبارہ حملہ کر دیا اور اس اہم جزیرے کو مسخر کر لیا ۔ یہ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ تھا۔

دور ِمعاویہ رضی اللہ عنہ میں دیگر فتوحات :

آپ کا عہد امارت اور دور خلافت اسلامی فتوحات سے عبارت ہے۔جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے رومن ایمپائر سے جہاد کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ قیصرِ روم اپنی ترکی کی چھوٹی سی حکومت پر قانع نہ تھا اور ایشیا اور افریقہ میں اپنا اقتدار دوبارہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ وہ کئی مرتبہ شام پر لشکر کشی کر چکا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے مقابلے کے لیے دو افواج تیار کیں جو سردی اور گرمی کی افواج کہلائیں۔ اگر آپ تاریخِ طبری میں حضرت معاویہ کے دور کا مطالعہ کریں تو ہر سال کے آغاز میں امام طبری رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ اس سال فلاں نے سردیوں کا جہاد کیا اور فلاں نے گرمیوں کا۔ حضرت معاویہ کی یلغاریں نہ صرف مغرب بلکہ مشرق میں بھی جاری رہیں ۔ٹائم لائن کی صورت میں حضرت معاویہ ؓکی جنگی مہمات ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ 27ھ کو آپ بحری بیڑا لے کر قبرص کی جانب بڑھے اور مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ بحری جنگ لڑی ۔ 28 ھ میں قبر ص جزیر ہ فتح ہوگیا ۔ 32 ھ میں آپ نے قسطنطینہ (استنبول) کے قریب کے علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔ 33ھ میں افزنطیہ ۔ملطیہ اور رُوم کے کچھ قلعے فتح ہوئے۔ 35ھ میں آپ کی قیادت میں ذی خشب کا معرکہ شروع ہوا۔42ھ میں جنگ سجستان موجودہ افغانستان اور پاکستان میں مشترک علاقہ) کی مہم ہوئی اور سندھ کا کچھ حصہ مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔ 43 ھ میں سوڈان فتح ہوا۔ 44 ھ میں کابل فتح ہوا۔ 45ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور لیبیا اور الجزائر کے بعض علاقوں کی فتح ہوئی۔ 46 ھ صقلیہ یا سسلی پر پہلی بار حملہ کیا گیا۔ 50 ھ میں قسطنطنیہ کی پہلی مہم شروع ہوئی۔ 54 ھ میں بخاریٰ فتح ہوا اور قسطنطنیہ کی دوسری مہم  شروع ہوئی۔ 56 ھ میں سمرقند فتح ہوا۔20

سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں :

جنگِ صِفِّین کے بعد امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر معاویہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے کٹ کر گرتے ہوئے دیکھو گے جیسے اندرائن کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔ یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے۔21

اہل تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک خط نقل کیا گیا ہے اس خط میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

 وكان بدءُ أمرِنا أنَّا التقينا والقوم من أهل الشام، والظَّاهر أنَّ ربنا واحد، ونبيّنا واحد، ودَعوتنا في الإسلامِ واحِدة، لا نستزيدُهم في الإيمان بِالله والتَّصديق برسوله صلى الله عليه وآله وسلم ولا يستزيدُونَنا، الأمرُ واحدٌ إلا ما اختلفنا فيه من دمِ عُثمانَ ونحن منه براء

ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا خون جبکہ ہم اس سے بری تھے۔22

جنگِ صفین اور جنگِ جمل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف :

عن ابن علوان عن جعفر عن أبيه أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه ” يقصد أهل صفين والجمل ” إنَّا لم نقاتلهم على التَّكفير لهُم، ولم نقاتِلهُم على التَّكفير لنا، ولكنَّا رأينا أنَّا على حقٍّ، ورأوا أنَّهم على حقٍّ

نہ تو ہم معاویہ سے اس لئے لڑے کہ ہم انہیں کافر سمجھتے تھےاور نہ ہی اس لیے لڑے کہ وہ ہم کو کافر کہتے تھے بلکہ ایک بات تھی جس کے متعلق ہم سمجھتے تھے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ وہی حق پر ہیں۔23

حضرت معاویہؓ کے ہاتھ پرحسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کی بیعت :

مذہب شیعہ کی کئی معتبر کتب میں لکھا ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی الله عنہما نے حضرت امیر معاویہ  رضی الله عنہ كے ہاتھ پر بیعت كی۔24

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی نظر میں :

  • اہلِ بیت کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم  فرماتے ہیں: ’’ہم میں سے کوئی بھی سیدنا  معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا عالم نہیں‘‘۔25
  • اسی طرح آپ ؓ نے فرمایا :’’ میں نے اپنی زندگی میں حکومت کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حق دار کسی کو نہیں دیکھا۔26
  • سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : ’’ میں نے نبی ﷺ کے بعد سب سے سخی اگر کسی کو دیکھا ہے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ  کو دیکھا ہے۔27
  • سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ’’ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا اگر کسی کو دیکھا ہے تو اس گھر والے یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے‘‘۔28
  • سیدنا ابو الدرداءرضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :’’میں نے سب سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ اگر کسی کی نماز دیکھی ہے تو وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  ہیں‘‘۔29

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبار محدثین کی نظر میں  :

جلیل القدر تابعی امام حسن بصری رحمہ اللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ  کے بارے فرماتے ہیں :’’جب  ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وابن زبیررضی اللہ عنہما کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما پر لعنت کرنے والے خود اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ہیں‘‘۔30

عہدے و مناصب اور خلافت :

آپ رضی اللہ عنہ سنہ 18ھ سے سنہ 41ھ تک تقریباً 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے ۔ آپ ؓ نے تقریباً 20 سال تک بطور خلیفۃ المسلمین گزارے اور 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل پر اسلامی خلافت کو قائم کیا ۔

بطورِ خلیفہ خدمات :

  • آپ ؓ کے دور ِخلافت میں فتوحات کا سلسلہ برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات، قندھار ، قیقان ،ترمذ، شمالی افریقہ، سیسان، سمرقند، مکران، جزیرہ روڈس  واروڈ ، کابل، صقلیہ سمیت مشرق ومغرب شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیرِنگیں آگیا۔
  • آپ ؓنے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا،ایک موسم سرما میں اور دوسرا موسم گرما میں جہاد کرتا تھا۔
  • مردُم شماری کے لیے باقاعدہ محکمہ جاری کیا ۔
  • بیت اللہ شریف کی خدمت کے لیے مستقل ملازم رکھے اور بیت اللہ پر دیباج و حریر کا خوب صورت غلاف چڑھایا۔
  • آپ ؓ نے سب سے پہلے اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا ۔
  • تمام قدیم مساجد کی از سرِ نو تعمیر و مرمت، توسیع و تجدید اور تزئین و آرائش کی ۔
  • خطِ دیوانی ایجاد کی اور قوم کو الفاظ کے ذریعے لکھنے کا طریقہ متعارف کرایا۔
  • نئے شہر آباد کیے اور نو آبادیاتی نطام متعارف کروایا۔
  • احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ  رکھنے کا طریقہ ایجا د کیا۔
  • آپ کے دورِ خلافت میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔
  • بحری بیڑے قائم کیے اور باقاعدہ بحری فوج بنائی اور جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کیے ۔ پہلا کارخانہ 54ھ میں قائم ہوا ۔
  • امنِ عامہ برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے شعبے کو ترقی دی اور اسی طرح دار الخلافہ دمشق میں اور تمام صوبوں میں قومی و صوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالسِ شوری قائم کیں ۔

روایتِ حدیث :

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے 163احادیث مروی ہیں۔آپ سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ، جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ابن عمررضی اللہ عنہما، ابن زبیر اور ابو درداءرضی اللہ عنہم  شامل ہیں۔

وفات :

 رجب المرجب سنہ 60ھ میں کاتب وحی، امیر البحر ، جلیل القدر صحابی ٔرسول ﷺ ، فاتحِ شام و قبرص اور تقریباً 20 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ نے 78 سال کی عمر میں وفات پائی ۔ آپؓ کی نماز جنازہ صحابیٔ رسول ﷺ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ ؓکو دمشق کے مقبرہ باب الصغیر میں دفن کیا گیا ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔31

22 رجب کے کونڈے

رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے مگر بدقسمتی سے بعض لوگوں نے اس کی حرمت و فضیلت کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ کچھ ایسی رسمیں وابستہ کرلی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ انہی رسموں میں سے ایک رسم ”رسم کونڈا“ بھی ہے جو اس مہینہ کی 22تاریخ کو منائی جاتی ہے۔اس دن پاکستان ، ہندوستان ، ایران ، بنگلہ دیش وغیرہ میں میٹھی چیز بنا کر کھائی ، کھلائی ، اورلوگوں میں بانٹی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ امام جعفرصادق رحمہ اللہ کی یومِ پیدائش ہے لہذا اُن کی ولادت کی خوشی میں یہ جشن منایا جاتا ہے اور اِسے ’’رجب کے کونڈے ‘‘ یا ’’ اِمام جعفر کے کونڈے ‘‘ کا نام دِیا جاتا ہے ۔اور یہ کام عِبادت اور ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔حالانکہ کسی کی یومِ پیدائش پر خوشی یا کسی کے موت کے دِن پر سوگ منانے کا ثبوت رسو ل کریم ﷺ کی تعلیمات میں کہیں نہیں ملتا اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں اور نہ ہی تابعین ، تبع تابعین، ائمہ کرام ، فقہا اور محدثین کی زندگیوں یا کتابوں میں کوئی ذِکر ملتا ہے ۔یہ کام یقیناً دین میں سے نہیں ہیں۔ یہ مشرکوں اور کافروں کی نقالی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اِشادِ گرامی ہے کہ :

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے شمار ہو گا۔32

رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق لباس ، طرزِ رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی مشابہت اور نقالی کرنا جائز نہیں اور کسی کا یومِ پیدائش منانا مسلمانوں کی رسم نہیں ۔ یہ دین مین نیا طریقہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا طریقہ نکالا تو وہ مردود ہے۔33

ثواب کی نیّت سے منایا جانے والے اس غیر شرعی دن اور عبادت کا مقصد امام جعفر صادق رحمۃاللہ علیہ کی یومِ پیدائش کو قرار دیا جاتا ہے حالانکہ شیعہ مؤرخین كے مطابق امام جعفر صادق رحمہ الله بروز جمعہ طلوع فجر کے وقت اور دوسرے قول کے مطابق منگل 17 ربیع الاول سن 80 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔34

ایک اور مقام پر شیعہ مؤرخین یوں لكھتے ہیں کہ’’ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی یومِ وفات کے بارے میں دو قول منقول ہیں ۔ بعض نے 15 رجب سن 148ھ اور بعض نے 25شوال سن 148ہجری بیان کیا ہے اور مشہور شیعہ مورخوں اور سیرت نویسوں کے نزدیک دوسرا قول یعنی 25شوال ہی معتبر ہے‘‘ ۔35

سابقہ دونوں تاریخی روایات کے مطابق امام جعفر صادقؒ  کی تاریخ پیدائش 8 رمضان یا 17 ربیع الاوّل ہے 22 رجب نہیں۔ اور نہ ہی یہ ان کی تاریخِ وفات ہے بلکہ وہ بالاتفاق 15 یا 25 شوال ہے. اب بتائیں یہ کونڈے کس خوشی میں بھرتے ہیں؟ امام ابنِ کثیر علیہ رحمۃ اللہ نے بھی ” البدایہ والنہایہ ” میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی تاریخ پیدائش 8 رمضان 80 ہجری اور تاریخ وفات شوال 148ہجری ہے۔

در حقیقت 22 رجب  60 ہجری کےدن کاتبِ وحی اور آپﷺ کے برادرِ نسبتی امّ المؤمنین حضرت امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی۔36

چنانچہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی پیدائش کا دھوکہ دے کر سیدنا امیرمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی موت کے جشن میں شامل کرتے ہیں اور دانستہ بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اظہار کیلئے خوشی مناتے اور حلوہ پوری کے کونڈے بھر بھر کر تقسیم کرتے ہیں جبکہ دیگر لوگوں کی کثیر تعداد بلا سوچے سمجھے ، نا دانستہ ہی ان کی خوشی میں شریک ہوجاتی ہے. یہ رسمِ بدعت ہے اور منافقین ، دشمنانِ صحابہ کی طرف سے مسلمانوں میں داخل کی گئی ہے اور اگرسالگرہ کے طور پر میں منائی جائے تو کافروں کی نقالی ہے اور حرام کام ہے۔ اِس کا مقصد صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اظہارِ بُغض اور نفرت کے عِلاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ 22 رجب کے دن اور رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کونڈے بھرنے سے پہلے ذرا سوچ لیں کہ 22 رجب کس کی وفات کا دِن ہے ؟ اور سالگرہ یا برسی منانا کس کی نقالی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وسنت کے مطابق حق کو پہچاننے اور اُسے قبول کر کے اُس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے  اور اسلامی حمیت اور رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت یعنی اُمہات المؤمنین اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے۔

  1.  البداية والنہایة ، ج : 1 ، ص : 1632  دار ابن حزم
  2. سیرة حلبیة ، ج : 3، ص: 405
  3. الإصابة في تمييز الصحابة،  لابن حجر العسقلانی ، ج : 3، ص: 412، تحت معاویة بن أبي سفیان رضی اللہ عنہما
  4. البدایة والنہایة، ص: 21، جلد : 8، طبع مصر
  5. الاستیعاب في معرفة الأصحاب  لابن عبد البر ، ص:  363 ، وأسد الغابة في معرفة الصحابة ، ج 4 ، ص: 474
  6. تاریخ الإسلام للذھبی، ج : 4، ص : 308
  7. الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلانی ، ج : 3، ص: 413 ، تحت معاویة بن أبي سفیان
  8. البدایة والنهایة ، ج ، 8 ،ص: 117 ، تحت ترجمة امیر معاویة
  9. تاریخ بغداد ، ج : 1، ص: 207 ، تحت  معاویة بن أبي سفیان
  10. رواه أحمد ، 2651 ، بتحقیق أحمد شاكر ، والسلسلة الصحيحة ، 1 / 164
  11. الأنوارالنعمانية ، ج2ص247
  12. معاني الأخبار ، في باب معنى استعانة النبي ﷺ بمعاوية في كتابة الوحي ۔ ص: 346
  13. خلاصة السیر لأحمد بن عبد اللہ محمد الطبري۔ ص: 349
  14. صحیح مسلم : 2501
  15. مسند أحمد : ۱۷۱۵۷
  16. صحيح الترمذي: 3842. والسلسلة الصحيحة. 1969. والبخاري في التاريخ الكبير 7/327
  17. البداية والنهاية ج : 8، ص: 123
  18. مسند أحمد ۔ 5\2438
  19. صحيح البخاري: 2924
  20. تاریخ طبری : 4/133
  21. نہج البلاغة شرح ابن أبي الحدید: 12 / 40 مصنف ابن ابی شیبة،ج 8،ص724
  22. نہج البلاغة   3 /85-86) خط نمبر: 58
  23. رواه الحميري في الحديث : ” 297 و 302 ” من كتاب قرب الإسناد ، ص: 45
  24.  رجال کشي ، ص: 102 ، الاحتجاج لطبرسي ، ص:9 ، منتهی الآمال ، عباس قمي ،ج : 2، ص:232
  25. مصنف عبد الرزاق ۔ج : 3، ص: 20
  26. السنة للخلال : 677 ج 2 ص: 440 ۔ والأمالی من آثار الصحابة: 97
  27. السنة لأبكر بن خلال : رقم الحدیث 678 و 679
  28. تاریخ دمشق ج 69 ، ص: 161
  29. مجمع الزوائد ، 9/590 رقم 15920
  30.  تاریخ دمشق 59/206
  31. تاریخ طبری، ، 245/6 ، الاصابہ : 155/6 ، معجم کبیر،ج 19،ص305، رقم: 679،الا ستیعاب،ج 3،ص472) ۔ رضی اللہ عنہالثقات لابن حبان،ج1،ص436:
  32. صحيح أبي داود : 3401
  33. صحیح مسلم :4462
  34. تاج المواليد،علامہ طبرسي، ص 43؛ زندگاني چہاردہ معصوم ،ترجمہ اعلام الوري للطبرسی ، ص 376،  منتہي الامال ،شيخ عباس قمي، ج2، ص 120
  35. وقايع الأيام ،شيخ عباس قمي، ص: 81؛ منتهی الآمال، ج2، ص: 155
  36. تاریخ طبری

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ