سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی اصل تکلیف

دین اسلام کے سب سے پہلے چوکیدار اور محافظ ، دین اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے والے، دین اسلام کے سب سے پہلے نشر اور اس دین کو ہر سو عام کرنے والے اور مکمل طور پر دین اسلام پر عمل پیرا ہونے والوں میں سب سے پہلے پہلے صحابہ کرام ہی ہیں، اگر ان کی شخصیات کو مطعون اور مشکوک بنادیا جائے تو یہ دراصل دین اسلام اور اس دین کے تمام مشروع امور پر حملہ کا سب سے مؤثر راستہ ہوگا۔ اسی لیے دین اسلام کے  دشمنوں کا صحابہ سے بغض وعداوت واضح ہے۔

یہی اصل وجہ ہے کہ آئے دن پیارے پیغمبر ﷺ کے عظیم المرتبت اصحاب کو کبھی اشارے کنائے میں اور کبھی سرِعام سب و شتم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی عمومی طور پر تو کبھی بعض اصحاب کے نام لے کر۔ اس سلسلے میں ڈالروں کے پجاری اور سستی شہرت کے خواہاں دہن بگڑوں کے پاس سب سے سہل طریق یہی ہے کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت پر تبرا کرکے کھوٹے سکے کھرے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی تازہ مثال ملعون پیر سلطان شاہ کی غلیظ گالیاں ہیں۔

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ہم بھرپور ایمانی جذبے کے ساتھ پیارے معاویہ رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ معلوم شد کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے عظیم صحابی اور کاتبِ وحی ہیں۔ پیغمبر اسلام کے صحابہ کے بارے میں بنیادی بات معلوم رہنی چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کے تمام صحابہ عادل ہیں، اس حکم میں سے کسی  صحابی کو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا، یہی اہل السنۃ والجماعہ کا مؤقف ہے، جوکہ قرآن و سنت کے دلائل کی بنیاد پر اختیار کیا گیا ہے، سلف صالحین ایسے لوگ جو پیغمبر ﷺ کے صحابہ کے بارے میں زبان درازی کرتے ان کی نکیر فرماتے تھےچنانچہ ابن عقیل الحنبلی فرماتے ہیں :

’’ جس نے بھی رافضیت کی بنیاد رکھی اس کا اصل ہدف نبی کریم ﷺ کی ذات اور دین ہے۔1

  امام مالک (المتوفى: 179ھ) رحمہ اللہ  صحابہ پر طعن کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’صحابہ کرام کے بارے میں زبان درازی کرنے والے ) دراصل وہ لوگ ہیں جو نبی کریم ﷺ کے بارے میں اپنی زبانیں دراز کرنا چاہتے ہیں جو کہ ان کے لیے ممکن نہیں تو وہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ  کے بارے میں یہ جرات کرتے ہیں نتیجتاً یہ کہا جائے گا کہ برے آدمی کے برے  ہی ساتھی ہوتے ہیں اگر وہ آدمی (نبی کریم ) اچھے ہوتے تو ان کے ساتھی بھی اچھے ہوتے۔ معاذاللہ ‘‘2

شیخ الاسلام ابن تیمیہ (المتوفى: 728ھ) رحمہ اللہ نے صحابہ کے بارے میں زبان درازی کو براہ راست دین  پر زبان درازی کے مترادف قراردیا۔3

محمد بن حبان أبو حاتم البُستي (المتوفى: 354ھ ) ، أبو زكريا محي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676ھ) اور شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (المتوفى: 748ھ) کے اقوال میں تمام صحابہ کی عدالت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.4

 أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک تمام  صحابہ عادل ہیں ، چونکہ ان کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے اور احادیث میں نبی کریم ﷺ نے ان کے تمام اخلاق و افعال کے حوالےسے مدح کی ہے اور خالص اللہ تعالیٰ سے اجر کے حصول کے لیے  رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں انہوں نے اپنی جان و مال کو پیش کردیا ۔‘‘

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے وہ عظیم صحابی ہیں جن کے حصے میں کئی ایک فضائل آئے ہیں اور تمام فضائل کے ساتھ ساتھ یہی فضیلت کافی ہے کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ کا جلیل القدر صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے ،ان سے بغض رکھنے والےاپنی غلیظ زبان سے اپنے سینے ٹھنڈے کرنا چاہیں مگر نہیں ہوسکتے ، ایسے لوگوں کو ہم یہی کہہ سکتے ہیں ’’موتوا بغیظکم ‘‘ اپنے غیض و نفرت کی اسی آگ میں جھلس جھلس کر مرواور دنیا میں نشانِ عبرت بن جاؤ اور آخرت میں اسی صف میں کھڑے ہو جس میں اعداءِ صحابہ کھڑے ہوں۔

یہاں قانونی اداروں کی کارکردگی پر ماتم کو جی چاہتا ہے کہ آئے دن ایسے ملعون انتشار پھیلاتے نظر آتے ہیں اور مسلمانوں کے دل چھلنی کرتے ہیں مگر کارروائی کرنے والے نہ جانے کون سی نیند سوتے ہیں ،راقم کی اداروں سے گذارش  ہے کہ اس ملعون کو فی الفور گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ایسی کڑی سزا دی جائے کہ پھر کوئی اس قسم کی جرأت نہ کرے۔

  1. ‘‘ (تلبیس ابلیس لابن الجوزی : 107 ، 108 )
  2. (الصارم المسلول : 1/580 ، المسئلۃ الرابعۃ فی بیان السب )
  3. ( منهاج السنة 1/18 ، تحریم کتمان العلم  )
  4. (دیکھئے : صحیح ابن حبان بتحقیق الشیخ شعیب الارناؤوط: 6/442، تهذیب الاسماء واللغات :1/313 ، سیر اعلام النبلاء : 1/40 )  

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ