صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اہلِ سنہ کا مؤقف کیا ہے؟

امت محمدیہ کے سب سے افضل اور ارفع شخصیات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے قرآن و سنت میں اہل ایمان کے جتنے خصائص بیان ہوئے ہیں وہ بدرجہ اتم صحابہ کرام میں موجود تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنھیں وحی کے ذریعے بار بار براہ راست مخاطب کیا گیا اور بہت سوں کو نام لے کر مختلف اوقات میں جنت کی بشارت دی گئی اور ان سب سے اللہ عزوجل نے “الحسنیٰ” کا وعدہ کیا اور مفسرین نے یہاں حسنی سے مراد جنت لیا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے زمانے اور پھر اسکے بعد کے زمانے کو بہترین قرار دیا کیونکہ اس میں وہ لوگ موجود تھے جنھوں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور شریعت کو دیکھا صحابہ کرام پہ ایمان کو علماء کرام نے بالاجماع عقیدے کے مسائل میں شمار کیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب خوارج اور روافض نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سب وشتم کا نشانہ بنایا اور انکی شان میں تنقیص کی کوشش کی اور صحابہ کرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے کیونکہ قرآن اور رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے شک پیدا کرنا مشکل تھا لہذا اصحاب رسول ایسے شریر لوگوں کے لئے چور رستہ تھا جس سے انھوں نے کبھی انھیں منافق کہا کبھی مرتد کہا اور کبھی کہا کہ وہ جاہل اور غیر فقیہ تھے جو قرآن وسنت کو صحیح سمجھ نا سکے۔ ان سب کے مقابلے میں اہل السنّۃ اعتدال کے مذہب پہ ہیں اور اس چور راستے کو بند کرنے کے لئے اصحاب رسول کے متعلق امور کو عقیدےمیں شمارکرتے ہیں اور درج ذیل امور کو لازم جانتے ہیں:

1اہل السنہ یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل تھے اور ان میں سے ہر ایک پاکیزہ دل اور حب ایمان سے بھرپور تھا انھوں نے من وعن کتاب وسنت میں جو حکم ان کے لئے آیا اسے قبول کیا وہ نفاق اور ارتداد دونوں سے بری تھے وہ رسول اللہ ﷺ اور انکے اہل وعیال سے شدید محبت رکھتے تھے۔

2 اہل السنّۃ ان صحابہ کو افضل مانتے ہیں جو صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں اور مال دونوں پیش کئے اور اللہ تعالیٰ ان دونوں گروہوں یعنی صلح حدیبیہ سے قبل اور بعد اسلام لانے والے دونوں سے اچھائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بہتر کس کا وعدہ ہو سکتا ہے!

3اہل السنّۃ قرآن و سنت کی نصوص کی روشنی میں مہاجرین صحابہ کو انصار مدینہ سے افضل مانتے ہیں۔

4اہل السنّۃ اہل بدر اور بیعت رضوان میں حصہ لینے والوں کو سب سے افضل مانتے ہیں؛ کیونکہ اہل بدر کے بارے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وكانوا ثلاث مائة وبضعة عشر -: اعملوا ما شئتم؛ فقد غفرتُ لكم

صحیح مسلم – رقم/2195

وہ تین سو دس اور کچھ تھے’’ تم چاہے جو مرضی کرو میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے‘‘۔ اور اسی طرح صلح حدیبیہ میں بیعت رضوان میں حصے لینے والوں کے بارے یہ یقین رکھتے  ہیں کہ درخت کے نیچے چودہ سوسے زائد جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پہ بیعت کی ان پہ جہنم کی آگ حرام کر دی گئی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت موجود ہے:

لا يدخل النارَ إن شاء الله من أصحاب الشجرة أحدُ الذين بايعوا تحتها

صحیح مسلم – رقم 2496

5اہل السنّۃ ان سب کی جنت کی گواہی دیتے ہیں جن کا نام لے کر نبی کریم ﷺ نے ان کے جنتی ہونے کی گواہی دی اور ان میں سب سے پہلے وہ دس صحابہ کرام شامل ہیں جنھیں ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی گئی اور وہ یہ ہیں: ابوبکر، عمر، عثمان، علی،طلحہ ،زبیر، عبدالرحمن بن عوف، ابو عبیدہ بن الجراح، سعد اور سعید رضی اللہ عنھم ہیں۔ اور اسی طرح وہ صحابہ کرام ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً زبان رسالت سے جنت کی  بشارت دی گئی۔

6اہل السنّۃ اس چیز پہ ایمان لاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد بہترین امتی جناب سیدنا ابو بکر صدیق ہیں اسکے بعد سیدنا عمر بن الخطاب پھر سیدنا عثمان بن عفان اور پھر سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنھم ہیں۔

7اہل السنّۃ کا ایمان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان جناب عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد جو تنازعات اور فتنے برپا ہوئے انکے بارے خاموشی اختیار کی جائے اور ان معاملات میں اپنی زبانوں کو آلودہ نا کیا جائے اور اہل السنّۃ کا ایمان ہے کہ جنگ جمل کا فتنہ جناب علی جناب طلحہ بن عبیداللہ زبیر بن عوام اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھم کسی کے اختیار میں نہیں رہا تھا اور یہ سب مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لئے نکلے تھے اور یہ سب وہ بھی ہیں جنھیں زبان رسالت سے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

8اہل السنّۃ تمام اصحاب رسول سے محبت کرتے ہیں اور کسی ایک فضائل بیان کرتے ہوئے کسی دوسرے کی تنقیص نہیں کرتے سب وشتم کا اظہار نہیں کرتے اور کسی صحابی سے برات کا اظہار نہیں کرتے اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغض رکھے ان سے بغض رکھتے ہیں۔

9اہل السنّۃ کا یہ موقف ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے درمیان جو بھی ہوا اس پہ توقف اختیار کیا جائے اور اس کے ساتھ یہ مؤقف رکھا جائے کہ ان دونوں کے درمیان جو کچھ تنزاع ہوا اس میں جناب علی حق پہ تھے اور جناب معاویہ کا اجتہاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے میں درست نہیں تھا۔

10 اہل السنّۃ یہ مؤقف رکھتے ہیں اہل بیت سے محبت ایمان کا تقاضا ہے اور یہ کہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ کی تمام بیویاں شامل ہیں اور اس کے علاوہ آپ کی تمام بیٹیاں (زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ) سیدنا علی، حسن وحسین اور زینب بنت علی رضی اللہ عنھم یہ سب اہل بیت میں شامل ہیں اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی تمام بیویاں صحابیات میں سے سب سے افضل ہیں اور مومنوں کی مائیں ہیں ان کے بارے جو زبان درازی کرے وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے اور جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے زبان درازی کرے وہ کافر ہے جیسا کہ سورہ النور میں اللہ عزوجل نے وضاحت کر دی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنین کریمین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

!اہل السنّۃ کا یہ مؤقف ہے کہ سبط رسول سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ سے صلح کر کے اور خلافت سے دستبردار ہو کے نبی کریم ﷺ کی اس پیشگوئی کو پورا کیا کہ میرا یہ بیٹا امت کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں شہادت مظلومانہ تھی اور انکے قاتل ظالم اور فاسق تھے۔

اہل السنّۃ کا یہ مؤقف ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انبیاء علیھم السلام کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں ہیں بلکہ ان سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ سرزد ہو سکتے تھے لیکن وہ ایمان میں سبقت لے جانے والے تھے اور ان کے ایسے فضائل ہیں کہ ان سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اس پہ انکی مغفرت یقینی ہیں اور یہ فضل ان کے علاوہ کسی امتی کو بالیقین حاصل نہیں ہے بلکہ انکے لئے یہ فضل بھی تھا کہ ان کے قبل ایمان کی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیا گیا اور ان کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ ان کی اللہ کی راہ میں خرچ ایک مدّ بعد میں آنے والوں کے احد پہاڑ کے برابر انفاق فی سبیل اللہ سے افضل ہے۔ ان کی ہجرت حق العین تھی ان کا جہاد اور قتال سب سے افضل تھا۔

اہل السنّۃ یہ مؤقف رکھتے ہیں قرآن اور فرمودات رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی جو تشریحات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بیان کی ہیں وہی اصح اور درست ترین ہیں اور جس چیز پہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتفاق کیا وہ درست ترین اجماع ہے جیسے صحابہ کرام کا مانعین زکوٰۃ سے جہاد اور قرآن کو جمع کرنا۔

اللہ عزوجل ہمیں اہل بیت ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دلی محبت عطا فرمائے کہ یہی حب اللہ اور حب رسول کا راستہ اور تقاضہ ہے اور ہمیں ان کی روشن سیرت پہ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔۔۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort