رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا آخری باب، رفیق اعلیٰ کی جانب

پہلے مجھے پڑھیں:

((علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، آپ کا شمار دورِ حاضر کے معروف سیرت نگاروں میں ہوتا ہے ، سیرتِ رسولِ مصطفی ﷺ پر آپ کی کئیں گراں قدر تصانیف ہیں جن میں سرِ فہرست عالمی مقابلہ سیرت نگاری میں پہلا درجہ حاصل کرنے والی مایہ ناز تصنیف ’’ الرحیق المختوم ‘‘ ہے، جو عربی ، انگلش کے علاوہ اردو زبان میں بھی موجود ہے ، اسی مایہ ناز کتاب کا ایک با ب قارئین کی خدمت میں پیشِ ہے جو نبی رحمت جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری مبارک ایام کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اس باب کا انتخاب بطورِ مضمون کے اس لئے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو جہاں ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کی کیفیت معلوم ہو وہاں دوسری طرف اصحابِ محمد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی مبارک شخصیات پر جو اس قسم کے غلیظ اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین سے صحابہ کرام کا کوئی تعلق نہیں رہا ، یا صحابہ کرام نے آپ ﷺ کا جنازہ نہیں پڑھا ، یا رات کی تاریکی میں رسول اللہ ﷺ کی تدفین کی گئی ، یا رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد معاذ اللہ صحابہ کو کوئی غم و افسوس نہیں تھا بلکہ انہیں خلافت و حکومت اختیار کرنے کی فکر تھی ۔۔۔ وعلیٰ ھذا القیاس ۔ لہٰذا اس تحریر میں راقم نے چند واجبی توضیحات کا اضافہ کردیا ہے جسے بین القوسین کرکے سرخ رنگ سے نمایاں کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس کو محترم شیخ صفی الرحمٰن رحمہ اللہ کی تحریر کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو اور غیر جانبدار ہوکر انصاف کے ساتھ پڑھنے والے کو صحابا کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شخصیات پر کیے جانے والے مذکورہ اعتراضات کے جوابات بھی حاصل ہوجائیں ۔))

الوداعی آثار:

(رسول اللہ ﷺ کی رحلت سے پہلے کی علامات):

جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہ ﷺ کے جذبات واحساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات (نشانیاں) نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپ ﷺ اس حیات مستعار(دنیاوی زندگی) کو اور اس جہان فانی کے باشندگان (لوگوں) کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلا:

  • آپ ﷺ نے رمضان ۱۰ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے۔
  • پھر سیدنا  جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا  دَورکرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے۔
  • آپ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا: مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔
  • جمرئہ عقبہ کے پاس فرمایا : مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا ًحج نہ کرسکوں گا۔
  • آپﷺپر ایام تشریق  (ذو الحجہ کی ۱۳،۱۲،۱۱  تاریخ جو  حاجی  دورانِ حج منی میں گزارتے ہیں )کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی۔ اور اس سے آپ ﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اور یہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) وفات کی اطلاع ہے۔
  • اوائل صفر۱۱ھ میں آپ ﷺ دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے۔ اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پھر واپس آکر منبر پرتشریف فرما  ہوئے۔ اور فرمایا: میں تمہارا میر کارواں ہوں۔ اور تم پر گواہ ہوں۔ واللہ! میں اس وقت اپنا حوض (حوضِ کوثر) دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے۔ بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش) کروگے1
  • ایک روز نصف رات کو آپ ﷺ بقیع تشریف لے گئے۔ اور اہلِ بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا:اے قبر والو! تم پر سلام! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں۔ اور بعد والا پہلے سے زیادہ برا ہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔

مرض کا آغاز:

۲۹صفر ۱۱ھ روز دوشنبہ (پیر) کو رسول اللہ ﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں دردِ سر شروع ہوگیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپ ﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپ ﷺ نے اسی حالتِ مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت ۱۳یا ۱۴دن تھی۔

آخری ہفتہ:

رسول اللہ ﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران آپ ﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ (یعنی رسول اللہ ﷺ کی خواہش تھی کہ آپ یہ ایام اپنی سب سے محبوب زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس گذاریں ، یہی وجہ تھی کہ آپ سیدہ عائشہ کی باری کے منتظر تھے اور بار بار  پوچھتے کہ کل کس کی باری ہے؟)  اس سوال سے آپ ﷺ کا جو مقصود تھا ازواجِ مطہرات اسے سمجھ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپﷺ جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ منتقلی کے وقت سیدنا فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیاتِ مبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گذارا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا معوذات (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) اور رسول اللہ ﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپ ﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں۔ اور برکت کی امید میں آپ ﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔

اس وقت آپ ﷺ نے مرض کی شدت میں کچھ کمی محسوس کی۔ اور مسجد میں تشریف لے گئے – سر پر پٹی معیالی بندھی ہوئی تھی – منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ یہ آخری بیٹھک تھی جو آپ ﷺ بیٹھے تھے۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا: لوگو! میرے پاس آجاؤ۔ لوگ آپ ﷺ کے قریب آگئے۔ پھر آپ ﷺ نے جو بات کی اس میں یہ فرمایا: ”یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔” ایک روایت میں ہے کہ ”یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیاء  علیہم السلام کی قبروں کو مسجد بنایا ۔”2

(یعنی وہاں وہ سب عبادت کے کام ،رکوع ، سجود کرنا، انبیاء کو پکارنا، اُن سے مدد طلب کرنا، اُن کی قبروں پر جھکنا وغیرہ یہ سب کام کرنے لگے جو صرف عبادت گاہ اور مسجد میں کیے جاتے ہیں اور صرف اللہ کے لیے کیے جاتے ہیں اور چونکہ عبادت بشمول اپنی تمام صورتوں و اقسام کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے اور اللہ ہی کے حکم سے اور اُسی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنا لازم ہے لہٰذا یہود و نصاری اسے غیر اللہ کے لیے انجام دینے لگے جس کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے یہود و نصاریٰ  کو ملعون (لعنتی) قرار دیا ۔ اور یہاں انتہائی قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہود و نصاری نے تو یہ اعمالِ عبادت انبیاء علیہم السلام کے لیے کیے تھے جس پر وہ لسانِ صادق المصدوق ﷺ سے ملعون قرار دیے گئے تو جو لوگ یہ اعمالِ عبادت انبیاء علیہم السلام سے نچلے اور کم تر درجہ کے لوگوں کے لیے انجام دیں وہ کیا ملعون نہ ہوں گے؟؟؟ اور جو اعمال رکوع ، سجود، جھکنا، نذرو نیاز، ذبح کرنا،قبروں کا طواف کرنا وغیرہ وغیرہ انبیاء علیہم السلام تک کے لیے انجام نہیں دیے جاسکتے وہ کیسے کسی غیر نبی کے جائز ہوسکتے ہیں؟ اگرچہ وہ کتنے ہی پہنچے ہوئے بزرگ ، ولی اللہ ، پیر ،امام ہی کیوں نہ ہوں، ہیں تو غیر نبی ہی ناں جو انبیاء کے مقام تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔)

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔”3

پھر آپ ﷺ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: ”میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مار اہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ، وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی آبرو  پر بٹہ لگایا ہوتو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے۔”

اس کے بعد آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نمازپڑھائی، اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور عدالت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دہرائیں۔ ایک شخص نے کہا : آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنھما سے فرمایا: انہیں ادا کردو۔

اس کے بعد انصار (صحابہ) کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا: ”میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے خطا کارسے درگذر کرنا۔ ”ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ” لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی (ذمہ دار) ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے خطاکاروں سے درگذر کرے۔”4

اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ” ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے دے ، یا(وہ) اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔”

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ یہ بات سن کر ابو بکررضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ پر قربان۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو! رسول اللہ ﷺ تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے۔ اور یہ بوڑھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان۔ (لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ تھے۔ اور ابو بکررضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے (کہ اُسی وقت یہ سمجھ گئے تھے رسول اللہ ﷺ خود اپنی ہی بات کر رہے ہیں)۔ 5

پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحبِ احسان ابو بکررضی اللہ عنہ  ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکررضی اللہ عنہ  کو خلیل بناتا لیکن (ان کے ساتھ) اسلام کی اخوت و محبت ( کا تعلق ) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ًبند کردیا جائے، سوائے ابوبکررضی اللہ عنہ  کے دروازے کے۔6

چار دن پہلے:

وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپ ﷺ سخت تکلیف سے دوچار تھے فرمایا : لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس وقت گھر میں کئی آدمی تھے۔ جن میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے کہا: آپ ﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ بس اللہ کی یہ کتاب تمہارے لیے کافی ہے۔ اس پر گھر کے اندر موجود لوگوں میں اختلاف پڑگیا اور وہ جھگڑ پڑے۔ کوئی کہہ رہا تھا :لاؤ رسول اللہ ﷺ لکھ دیں۔ اور کوئی وہی کہہ رہاتھا جو سیدنا عمررضی اللہ عنہ  نے کہا تھا۔ اس طرح لوگوں نے جب زیادہ شوروشغب اور اختلاف کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔7

پھر اسی رو ز آپ ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک اس بات کی وصیت کی کہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا۔ دوسرے اس بات کی وصیت کی کہ وفود کی اسی طرح نوازش کرنا جس طرح آپ ﷺ کیا کرتے تھے۔ البتہ تیسری بات کو راوی بھول گیا۔ غالباً یہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وصیت تھی یا لشکرِ اسامہ کو نافذ کرنے کی وصیت تھی۔ یا آپ ﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ ”نماز اور تمہارے زیرِ دست ” یعنی غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھنا۔

رسول اللہ ﷺ مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک ، یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپ ﷺ ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں ’’سورۂ والمرسلات ِ عُرْفا‘‘ پڑھی۔8

لیکن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجدمیں جانے کی طاقت نہ رہی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا : نہیں ، یا رسول اللہ ﷺ! اور وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے لیے لگن میں پانی رکھو۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ آپ ﷺ نے غسل فرمایا۔ اور اس کے بعد اٹھنا چاہا لیکن آپ ﷺ پرغشی طاری ہوگئی۔ پھر افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت کیا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہﷺ! اور وہ آپ ﷺ کا انتظار کررہے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ اور پھر سہ بارہ وہی بات پیش آئی جو پہلی بار پیش آچکی تھی کہ آپ ﷺ نے غسل فرمایا ، پھر اٹھنا چاہا تو آپ ﷺ پرغشی طاری ہوگئی۔ بالآخرآپ ﷺ نے سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ ابو بکررضی اللہ عنہ نے ان ایام میں نماز پڑھائی۔9نبی ﷺ کی حیات مبارکہ میں ان کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔

جمعرات کی عشاء ، دوشنبہ کی فجر اور بیچ کے تین دنوں کی پندرہ نمازیں۔10

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ سے تین یا چار بار مراجعہ فرمایا کہ امامت کا کام سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کے بجائے کسی اور کو سونپ دیں۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ لوگ ابو بکررضی اللہ عنہ کے بارے میں بد شگون نہ ہوں۔11

لیکن نبی ﷺ نے ہر بار انکار فرمادیا۔ اور فرمایا: تم سب یوسف والیاں ہو۔12

ابو بکررضی اللہ عنہ کو (میری طرف سے) حکم دو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔13

تین دن پہلے:

سیدنا جابررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وفات سے تین دن پہلے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے: ”یاد رکھو تم میں سے کسی کو موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔”14

ایک دن یا دو دن پہلے:

سنیچر یا اتوار کو نبی ﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دوآدمیوں کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت ابو بکررضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ ﷺ نےاشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ اور لانے والوں سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ آپ ﷺ کو ابوبکررضی اللہ عنہ کے دائیں بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد ابو بکررضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کرر ہے تھے۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکبیر سنا رہے تھے۔15

ایک دن پہلے:

وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار نبیﷺنے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرمادیا۔ پاس میں چھ یا سات دینار تھے انہیں صدقہ کردیا۔16

اپنے ہتھیار مسلمانوں کو ہبہ فرمادیے۔ رات میں چراغ جلانے کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا  نے چراغ پڑوسی کے پاس بھیجا کہ اس میں اپنی کپی سے ذرا سا گھی ٹپکا دیں۔17

آپ ﷺ کی زِرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع (کوئی ۷۵کلو ) جَو کے عوض رہن(گروی) رکھی ہوئی تھی۔18

حیات مبارکہ کا آخری دن:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے۔ اور ابو بکررضی اللہ عنہ امامت فرمارہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرے کا پردہ ہٹایا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے نظر ڈالی، پھر تبسم فرمایا۔ ادھر ابو بکررضی اللہ عنہ اپنی ایڑی کے بل پیچھے ہٹے کہ صف میں جاملیں۔ انہوں نے سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ (کے اس اچانک ظہور سے ) مسلمان اس قدر خوش ہوئے کہ چاہتے تھے کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑجائیں۔ (یعنی آپ ﷺ کی مزاج پرسی کے لیے نماز توڑ دیں) لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرالیا۔19

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔

دن چڑھے چاشت کے وقت آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان سے کچھ سر گوشی کی، وہ رونے لگیں تو آپ ﷺ نے انہیں پھر بلایا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ سیدہ   عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار) نبی ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ اسی مرض میں وفات پاجائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے اہل وعیال میں سب سے پہلے میں آپ ﷺ کے پیچھے جاؤں گی۔ اس پر میں ہنسی۔20

آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ساری خواتینِ عالم کی سَیدہ (سردار) ہیں۔21

اس وقت رسول اللہ ﷺ جس شدید کرب سے دوچار تھے اسے دیکھ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بے ساختہ پکار اٹھیں۔

 واہ کرب أباہ۔ ”ہائے ابّا جان کی تکلیف ۔”آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے ابّا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں۔22

آپ ﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر چُوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی۔ ازاوجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اجمعین کو بلایا اور انہیں وعظ ونصیحت کی۔

ادھر لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا جسے آپ ﷺ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے: اے عائشہ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھالیا تھا اس کی تکلیف برابرمحسوس کررہا ہوں۔ اس وقت مجھےمحسوس ہورہا ہے کہ اس زہر کے اثرسے میری رگِ جاں کٹی جارہی ہے۔ 23

ادھر چہرے پر آپ ﷺ نے ایک چادر ڈال رکھی تھی۔ جب سانس پھولنے لگتا تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا: (اور یہ آپ ﷺ کا آخری کلام اور لوگوں کے لیے آپ ﷺ کی آخری وصیت تھی ) کہ یہود ونصاریٰ پراللہ کی لعنت۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا یا. ان کے اس کام سے آپ ﷺ ڈرارہے تھے. سرزمین عرب پر دو دین باقی نہ چھوڑے جائیں۔24

آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی وصیت فرمائی۔ فرمایا:

((الصلاة الصلاة وما ملكت ایمانكم))

نماز ، نماز ، اور تمہارے زیرِ دست ” (یعنی لونڈی ، غلام) آپ ﷺ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔25

نزع رواں:

پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو اپنے اُوپر سہارا دے کر ٹیک لیا۔ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر میں ، میری باری کے دن میرے لَبّے اور سینے کے درمیان وفات پائی۔ اور آپ ﷺ کی موت کے وقت اللہ نے میرا لعاب اور آپ ﷺ کا لعاب اکٹھا کردیا۔ (سیدہ فرماتی ہیں کہ) ہوا یہ کہ عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہما آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اور میں رسول اللہ ﷺ کو ٹیکے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپ ﷺ مسواک چاہتے ہیں۔میں نے کہا: آپ ﷺ کے لیے لے لوں؟ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں! میں نے مسواک لے کر آپ ﷺ کو دی تو آپ کو کڑی(سخت) محسوس ہوئی۔ میں نے کہا: اسے آپ ﷺ کے لیے نرم کردوں؟ آپ ﷺ نے سر کے اشارے سے کہا ہاں! میں نے مسواک نرم کردی، اور آپ ﷺ نے نہایت اچھی طرح مسواک کی۔ آپ ﷺ کے سامنے کٹورے میں پانی تھا۔ آپ ﷺ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے۔ اور فرماتے جاتے تھے۔ لاإلہ إلا اللّٰہ،اللہ کے سوا کوئی معبود(برحق) نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں۔26 مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ ﷺ نے ہاتھ یا انگلی اٹھائی ، نگاہ چھت کی طرف بلند کی۔ اور دونوں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان لگایا تو آپ ﷺ فرمارہے تھے: ”ان انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللہ! مجھے بخش دے ،۔مجھ پر رحم کر ، اور مجھے رفیقِ اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اےاللہ! رفیق اعلیٰ ۔”27 آخری فقرہ تین بار دہرایا ، اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا۔ اور آپ ﷺ رفیقِ اعلیٰ سے جالاحق ہوئے۔ 

إنالله وإنا إلیه راجعون۔

یہ واقعہ ۱۲/ربیع الاول ۱۱ھ یوم دوشنبہ(پیر)کو چاشت کی شدت کےوقت(زوال سے پہلے) پیش آیا۔ اس وقت نبی ﷺ کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہوچکی تھی۔

غم ہائے بیکراں:

اس حادثہ ٔ دلفگار(دل چیر دینے والے حادثہ) کی خبر فورا پھیل گئی ، اہلِ مدینہ پر کوہِ غم(غم کا پہاڑ) ٹوٹ پڑا۔ آفاق واطراف تاریک ہوگئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جس دن رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک (روشن،چمکدار) دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور جس دن رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔28

آپ ﷺ کی وفات پر سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرطِ غم سے فرمایا:

یا أبتاہ ، أجاب رباً دعاہ ، یا أبتاہ، من جنة الفردوس مأواہ، یا أبتاہ، إلی جبریل ننعاہ ۔

صحیح البخاری، باب مرض النبی 641/2

”ہائے ابا جان! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ ہائے اباجان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ ﷺ کی موت کی خبر دیتے ہیں۔” 29

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا موقف:

وفات کی خبر سن کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے (شدتِ غم میں) کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا: کچھ منافقین سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوئی، بلکہ آپ ﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ جس طرح موسیٰ بن عمران علیہ السلام تشریف لے گئے تھے۔ اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کر ان کے پاس پھر واپس آگئے تھے۔ حالانکہ واپسی سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے۔ اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی موت واقعہ ہوچکی ہے۔30

(یعنی شدتِ غم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرپارہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اب ہم میں موجود نہیں رہے بلکہ وفات پاچکے ہیں اور اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں)۔

سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کا موقف:

ادھر سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ سنح میں واقع اپنے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔ اور اُتر کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ پھر لوگوں سے کوئی بات کیے بغیر سیدھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ، اور رسول اللہ ﷺ کا قصد فرمایا ، آپ ﷺ کا جسدِ مُبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے (پیارے نبی ﷺ کے) رُخ انور (روشن چہرہ) سے چادر ہٹائی۔ اور اسے چوما اور روئے۔ پھر فرمایا: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ، اللہ آپ ﷺ پر دو موت جمع نہیں کرے گا۔ جو موت آپ ﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ ﷺ کو آچکی۔

اس کے بعد ابو بکررضی اللہ عنہ  باہر تشریف لائے۔ اس وقت بھی سیدنا عمررضی اللہ عنہ لوگوں سے بات کررہے تھے۔ سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: عمر! بیٹھ جاؤ۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا:

أما بعد: من کان منکم یعبد محمداً ﷺ فإن محمداً قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حي لایموت۔ قال الله تعالیٰ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ

”اما بعد ! تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو (وہ جان لے ) کہ محمد ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ کبھی نہیں مرے گا، (پھرسیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی) اللہ کا ارشاد ہے:

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ

آل عمران – 144

’’محمد(ﷺ) نہیں ہیں مگر رسول ہی۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذرچکے ہیں تو کیا اگر وہ (محمدﷺ ) فوت ہوجائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھے کہ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو اب تک فرطِ غم سے حیران وششدر تھے انہیں سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کا یہ خطا ب سن کر یقین آگیا کہ رسول اللہ ﷺ واقعی رحلت فرماچکے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ واللہ! (اللہ کی قسم ) ایسا لگتا تھا گویا لوگوں نے (پہلے) جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے۔ یہاں تک کہ ابو بکررضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ (حاصل) کی۔ اور اب جس کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اسی کو تلاوت کررہا ہوتا۔

سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ! میں نے جوں ہی ابو بکررضی اللہ عنہ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا (تو اس سانحہ پر یقین ہوتے ہی ،ہمت جواب دے گئی) خاک آلود ہوکر(دھرا کا دھرا) رہ گیا۔ (یا میری پیٹھ ٹوٹ کر رہ گئی) حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور حتیٰ کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سن کر (شدتِ غم سے) میں زمین کی طرف لڑھک گیا۔ کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی نبی ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔31

تجہیز وتکفین اور تدفین:

(تجہیز وتکفین سے پہلے خلیفہ کا تعین، اسباب و وجوہات):

(( اہلِ بیت کرام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے یہ مرحلہ انتہائی المناک وافسوسناک، صبر آزما ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پریشان کن بھی تھا کیونکہ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی وفات کا غم تھا تو دوسری طرف اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام دشمن عناصر کی جانب سے اسلام و مسلمانوں کے خلاف حملوں و مختلف ہتھکنڈوں کے سامنے آنے کا شدید خدشہ بھی تھا۔ اور پھر مسلمانوں کے اندر منافقین کا ہونا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا جو ہمیشہ ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے جن کے ذریعہ وہ  اندر و باہرسے مسلمانوں کو نقصان پہنچاسکیں۔

لہٰذا اس تناظر میں:

جس دین اور معاشرے کو خود رسول اللہ ﷺ نےاپنی زندگی کے 23 سالوں میں تعمیر کیا تھا کہیں اسے نقصان نہ پہنچے ، اسلام و مسلمانوں کے خلاف دشمنانِ اسلام کے عزائم کامیاب نہ ہوں، اور کہیں مسلمانوں کا شیرازہ نہ بکھر جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فوراً بعد آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین سے بھی پہلے انتشار کے آثار نظر آنے لگے تھے۔

 اسی لیے مسلمانوں کو فوراً بلا تاخیرایک ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو اس نازک صورتحال میں اپنے علم، فہم و فراست اور بلند حوصلوں سے ایک طرف تو دشمنانِ اسلام کے عزائم کومٹی میں ملاسکے اور دوسری طرف مسلمانوں کو منتشر ہونے سے بچا سکے ۔ یہی وجہ تھی کہ جلیل القدر صحابہ کرام و اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین نے موقع کی نزاکت کو سمجھا اور رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین سے پہلے فوری اس مسئلہ کو حل  کرنا ضروری سمجھا۔

رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین سے  پہلے اس معاملہ کو حل کرنا اس لیے بھی  ضروری ہوگیا تھا کیونکہ آٓگے فوری پیش آنے والے معاملات کا تعلق خود رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین ، نمازِ جنازہ اور تدفین سے تھاکہ رسول اللہ ﷺ کے جسدِ اطہر کو غسل دینا ہے یا نہیں؟ اور اگر دینا ہے تو کون اور کیسے دے گا؟ اور پھر آپ ﷺ کا جنازہ کیسے پڑھا جائیگا؟ اور پھر آپ ﷺ کی تدفینِ مبارک کہاں اور کس انداز سے ہوگی؟  یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں کسی نے نہیں سوچا تھا اورچونکہ ان معاملات کا تعلق کسی عام آدمی سے نہیں بلکہ انبیاء کے امام ،اولادِ آدم کے سردار سیدنا محمد ﷺ کے ساتھ تھا ،لہٰذامسلمانوں کو فوری قیادت کی ضرورت تھی جس کے زیرِ سایہ اختلاف و انتشار سے بچا جاسکے اور بخیر و خوبی صحیح انداز سے ان معاملات کو نبھایا جاسکے۔

لہٰذا سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوکر اس مسئلہ کو فوری حل کیا گیا اور بالاتفاق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا بطورِ خلیفہ و قائد انتخاب کیا گیا اور اُن کے ہاتھ پر متفقہ بیعت کی گئی۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہےکہ مسلمانوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی بھی شخصیت کو بطورِ قائد تسلیم کرنا آسان نہ تھا اس لیے بھی بطورِ خلیفہ و قائد ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو’’صحبت و معیت میں رسول اللہ ﷺکے سب سے قریب ہو‘‘۔

یہ ایک وجہ ہی ان کے خلیفہ  بننے کے لیے کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے فوری بعد تمام مسلمانوں کی امامت، قیادت و سیادت کے لیے وہی شخصیت سب سے موزوں ہوسکتی تھی جسے رسول اللہ ﷺ کےمزاج و عادات، پسندو ناپسند، آپ ﷺ کے اندازِ سیاست و حکومت سے نہ صرف یہ کہ بھرپور آگاہی ہو بلکہ سب سے بڑھ کر واقفیت  ہواور یہ سب صرف اسی شخص کے لیے ممکن ہوسکتا تھا جو ’’صحبت و معیت میں رسول اللہ ﷺکے سب سے قریب ہو‘‘۔

اسی طرح یہ بھی ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کی نظر میں اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے مسلمانوں میں سب سےافضل ہو ،باعلم ہونے کے ساتھ ساتھ فہم وفراست میں بھی سب سے بڑھ کر ہو، ہمت ،حوصلہ، عزم اور شجاعت و دلیری میں سب سے بلند ہو،اور سیاست شرعیہ کے ساتھ ساتھ حکمت و بصیرت ، حلم و بردباری اور دانائی میں اس کا مقام سب سے بلند ہو، جو حکومت و سیاست کے اتار چڑھاؤ سے آگاہ ہو اورجس میں مشکل اور سخت وقت میں فیصلہ لینے کی مکمل صلاحیت ہو، اسلام و مسلمانوں کے دفاع اور دشمن کے کسی بھی حملہ کا بھرپور جواب دینے کی مکمل سکت موجود ہو،معاشرے میں رونما ہونے والے کسی بھی فتنہ یا فساد سے نمٹنے کی بھرپور طاقت ہو، ہر صلاحیت کو صحیح وقت پر صحیح موقع پر استعمال کرنے کی فہم و فراست ہوکہ کب طاقت کا استعمال کرنا ہے اور کب حکمت و نرمی سے معاملہ سلجھانا ہے ۔اور یہ سب عزیمت والی بلند صفات تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے بڑھ کر بدرجہ اتم صدیقِ کائنات سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ وارضاہ میں موجود تھیں۔

لہٰذا یہ وہ چند اہم اسباب و وجوہات ہیں جن کی بناء پر رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین سے خلیفہ کے انتخاب کو ضروری سمجھا گیا اور خلافت کے منصب کے لئے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ وارضاہ کا تعین ہوا۔ اسی تناظر میں علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ))

تجہیز وتکفین اور تدفین:

ادھر نبی ﷺ کی تجہیز وتکفین سے پہلے ہی آپ ﷺ کی جانشینی کے معاملے میں اختلاف پڑ گیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان بحث ومناقشہ ہوا، حجت و گفتگو ہوئی۔ سوال وجواب ہوا۔ اور بالآخر سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق ہوگیا۔ اس کام میں دوشنبہ (پیر) کا باقی ماندہ دن گذر گیا۔ اور رات آگئی۔ لوگ نبی ﷺ کی تجہیز وتکفین کے بجائے اس دوسرے کام (کوسنبھالنے) میں مشغول رہے۔ پھر رات گذر گئی۔ اور منگل کی صبح ہوئی۔ اس وقت تک آپ ﷺ کا جسد مبارک ایک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا بستر ہی پر (آرام فرما) رہا۔ گھر کے لوگوں نے باہر سے دروازہ بند کردیا تھا۔

منگل کے روز آپ ﷺ کو کپڑے اتارے بغیر (آپ ﷺ کے لباس ہی میں )غسل دیا گیا۔ غسل دینے والے حضرات یہ تھے۔ سیدنا عباس (رسول اللہ ﷺ کے چچا) ، سیدنا علی (رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی)، سیدنا  عباس کے دو صاحبزادگان فضل اور قثم ،رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران ، سیدنا اسامہ بن زید اور اوس بن خولی رضی اللہ عنہم اجمعین۔ سیدنا عباس ، فضل اور قثم رضی اللہ عنھم آپ ﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے۔ سیدنا اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہما پانی بہا رہے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ غسل دے رہے تھے۔اور سیدنا اوس رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کو اپنے سینے سے ٹیک رکھا تھا۔32 (اس کے علاوہ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جو آپ ﷺ کے پھوپھی زاد تھے وہ بھی آپﷺ کی تجہیز و تکفین میں شامل رہے)۔

آپ ﷺ کو پانی اور بیر کی پتی سے تین غسل دیا گیا۔ اور قباء میں واقع سعد بن خیثمہ کے غرس نامی کنویں سے غسل دیا گیا۔ آپ ﷺ اس کا پانی پیا کرتے تھے۔33

اس کے بعد آپ ﷺ کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنایا  گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی(شامل) نہ تھی۔34

بس آپ ﷺ کو چادروں ہی میں لپیٹ (کرکفن) دیا گیا تھا۔

آپ ﷺ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی آرائیں مختلف تھیں، لیکن سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی نبی بھی نہیں اٹھایا گیا مگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں اٹھایا گیا (یعنی جہاں وہ فوت ہوا)۔ اس فیصلے کے بعد سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کا وہ بستر اٹھایا جس پر آپ ﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ اوراسی کے نیچے قبر کھودی۔ قبر لحد والی (بغلی) کھودی گئی تھی۔

اس کے بعد باری باری دس دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجرہ شریف میں داخل ہوکر نماز جنازہ پڑھی۔ کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ ﷺ کے خانوادہ (بنو ہاشم) نے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر مہاجرین نے ، پھر انصار نے ، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے ، اور ان کے بعد بچوں نے۔35

نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گذر گیا ، اور چہار شنبہ (بدھ) کی رات آگئی۔ رات میں آپ ﷺ کے جسد پاک کو سپردِ خاک کیا گیا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی تدفین کا علم نہ ہوا، یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں (اور ایک روایت کے مطابق ، آخر رات میں) پھاؤڑوں کی آواز سنی۔36

  1. متفق علیہ۔ صحیح بخاری ۲/۵۸۵، فتح الباری ۳/۲۴۸حدیث نمبر ۱۳۴۴،۳۵۹۶، ۴۰۴۲، ۴۰۸۵،۶۴۲۶،۶۵۹۰
  2.  صحیح بخاری ۱/۶۲مؤطا امام مالک ص ۳۶۰
  3.  موطا امام مالک ص ۶۵
  4. صحیح بخاری ۱/۵۳۶
  5. متفق علیہ : مشکوٰۃ ۲/۵۴۶، ۵۵۴
  6. صحیح بخاری ۱/۵۱۶
  7. متفق علیہ : صحیح بخاری ۱/۲۲، ۴۲۹، ۴۴۹،۲/۶۳۸
  8. صحیح بخاری عن ام الفضل ، باب مرض النبیﷺ ۲/۶۳۷
  9. متفق علیہ ، مشکوٰۃ ۱/۱۰۲
  10. بخاری مع فتح الباری ۲/۱۹۳، حدیث نمبر ۶۸۱، مسلم : کتاب الصلاۃ ۱/۳۱۵حدیث نمبر ۱۰۰، مسند احمد ۶/۲۲۹
  11. اس کے لیے دیکھئے: بخاری مع فتح الباری ۷/۷۵۷حدیث نمبر ۴۴۴۵مسلم کتاب الصلاۃ ۱/۳۱حدیث نمبر ۹۳، ۹۴
  12. سیدنا  یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں جو عورتیں عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کررہی تھیں وہ بظاہر تو اس کے فعل کے گھٹیا پن کا اظہار کررہی تھیں۔ لیکن یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر جب انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں تو معلوم ہوا کہ یہ خود بھی درپردہ ان پر فریفتہ ہیں۔ یعنی وہ زبان سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ لیکن دل میں کچھ اور ہی بات تھی۔ یہی معاملہ یہاں بھی تھا۔ بظاہر تو رسول اللہﷺ سے کہا جارہا تھا کہ ابو بکر رقیق القلب ہیں۔ آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ تو گریہ ٔ وزاری کے سبب قراء ت نہ کرسکیں گے یا سنا نہ سکیں گے۔ لیکن دل میں یہ بات تھی کہ اگر خدانخواستہ حضور اسی مرض میں رحلت فرماگئے تو ابوبکررضی اللہ عنہ  کے بارے میں نحوست اور بدشگونی کا خیال لوگوں کے دل میں جاگزیں ہوجائے گا۔ چونکہ سیدہ  عائشہ رضی اللہ عنہ  کی اس گذارش میں دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم بھی شریک تھیں۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا: تم سب یوسف والیاں ہو، یعنی تمہارے بھی دل میں کچھ ہے اور زبان سے کچھ کہہ رہی ہو۔
  13. صحیح بخاری ۱/۹۹
  14. طبقات ابن سعد ۲/۲۵۵، مسند ابی داود طیالسی ص ۲۴۶حدیث نمبر ۱۷۷۹، مسند ابی یعلی۴/۱۹۳حدیث نمبر ۲۲۹۰
  15. صحیح بخاری ۱/۹۸، ۹۹مع فتح الباری ۲/۱۹۵، ۲۳۸، ۲۳۹، حدیث نمبر ۶۸۳، ۷۱۲،۷۱۳
  16. طبقات ابن سعد ۲/۲۳۷بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام آپ ﷺ نے دوشنبہ کی رات یا دوشنبہ کے دن، یعنی حیات طیبہ کے آخری دن فرمایا تھا۔
  17. طبقات ابن سعد ۲/۲۳۹
  18. دیکھئے: صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۰۶۸، ۲۰۹۶، ۲۲۰۰، ۲۲۵۱، ۲۲۵۲،۲۳۸۶، ۲۵۰۹،۲۵۱۳، ۲۹۱۶، ۴۱۶۷، مغازی کے آواخر میں ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپﷺ کو اتنا نہ مل سکا کہ اس زرہ کو چھڑا سکیں۔
  19. ایضا ً باب مرض النبیﷺ ۲/۲۴۰مع فتح الباری ۲/۱۹۳حدیث نمبر ۶۸۰، ۶۸۱،۷۵۴، ۱۲۰۵،۴۴۴۸
  20. بخاری ۲/۶۳۸
  21. بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو اور بشارت دینے کا یہ واقعہ حیات مبارکہ کے آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں پیش آیا تھا۔ دیکھئے: رحمۃللعالین ۱/۲۸۲
  22. صحیح بخاری ۲/۶۴۱
  23. صحیح بخاری ۲/۶۳۷
  24. صحیح بخاری مع فتح الباری ۱/۶۳۴حدیث نمبر ۴۳۵، ۱۳۳۰، ۱۳۹۰، ۳۴۵۳، ۳۴۵۴،۴۴۴۱، ۴۴۴۳، ۴۴۴۴، ۵۸۱۵، ۵۸۱۶، طبقات ابن سعد ۲/۲۵۴
  25. صحیح بخاری ۲/۶۳۷
  26. صحیح بخاری ۲/۶۴۰
  27. ایضاً صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ وباب آخرما تکلم النبیﷺ ۲/۶۳۸تا ۶۴۱
  28. دارمی ، مشکوٰۃ ۲/۵۴۷۔ انہی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی روایت ہے کہ جس دن رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے ہر چیز روشن ہوگئی۔ اور جس دن آپ ﷺ نے وفات پائی ہر چیز تاریک ہوگئی۔ اور ابھی ہم نے رسول اللہﷺ سے اپنے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے ، بلکہ آپ ﷺ کے دفن ہی میں مشغول تھے کہ اپنے دلوں کو بدلا ہوا محسوس کیا۔ (جامع ترمذی ۵/۵۸۸، ۵۸۹)
  29. صحیح بخاری باب مرض النبی ﷺ ۲/۶۴۱
  30. ابن ہشام ۲/۶۵۵
  31. صحیح بخاری ۲/۶۴۰، ۶۴۱
  32. دیکھئے: ابن ماجہ ۱/۵۲۱
  33. تفصیل طبقات ابن سعد ۲/۲۷۷،۲۸۱میں ملاحظہ ہو۔
  34. صحیح بخاری ۱/۱۶۹جنائز باب الثیاب البیض للکفن ، فتح الباری ۳/۱۶۲،۱۶۷،۱۶۸حدیث نمبر ۱۲۶۴، ۱۲۷۱،۱۲۷۲،۱۲۷۳، ۱۲۷۳، ۱۳۸۷، صحیح مسلم : جنائز ، باب کفن المیت ۱/۳۰۶حدیث نمبر ۴۵
  35. دیکھئے: مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی دفن المیت ۱/۲۳۱طبقات ابن سعد ۲/۲۸۸ – ۲۹۲ 36)  مسند احمد ۶/۶۲، ۲۷۴۔ واقعہ وفات کی تفصیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ اور اس کے بعد کے چند ابواب مع فتح الباری ، نیز صحیح مسلم ،مشکوٰۃ المصابیح ، باب وفاۃ النبیﷺ ، ابن ہشام ۲/۶۴۹تا ۶۶۵۔ تلقیح فہوم اہل الاثر ص ۳۸، ۳۹۔ رحمۃ للعالمین ۱/۲۷۷تا ۲۸۶۔ اوقات کی تعیین بالعموم رحمۃ للعالمین سے لی گئی ہے۔
  36.  رحمۃ للعالمین ۱/۲۷۷تا ۲۸۶۔ اوقات کی تعیین بالعموم رحمۃ للعالمین سے لی گئی ہے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔