رشتوں کی بنیاد کیاہونی چاہیے؟

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ علی سیدالمرسلین وعلی آله واصحابه اجمعین وبعد!

اللہ تعالی نے اس عالم رنگ وبو میں انسان کوخودمختاربناکرپیداکیاہے،لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سے تعلقات رکھنے پر مجبورہےکیونکہ اس پر دنیاکانظام قائم ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ

الزخرف – 32

’’ہم نے کچھ لوگوں کودوسروں پرفوقیت بھی دی ہےتاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت بھی لے سکیں‘‘۔

چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ امیرکوغریب کی ضرورت ہے،وہ اس غریب کامحتاج ہےکہ اس کاکام کاج کرے اورغریب کوامیر کی ضرورت ہےکہ وہ اس کاکام کاج کرکے اپنےبچوں کےلیے روزی کمائے،اس طرح شاگردکواستادکی اوراستادکوشاگردکی ضرورت ہوتی ہے، الغرض اختلافِ صفات کے باوجود ہرانسان دوسرےکامحتاج اوراس سے تعلقات رکھنےپرمجبورہے،لیکن اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتاہےکہ ہمارے تعلقات کی بنیاداگر اللہ کی محبت،تقویٰ اوراخلاص ہےتوایسے تعلقات آخرت میں بھی برقرار رہیں گے اوراگران تعلقات کی بنیاد دنیا اور اس کے مفادات ہیں توقیامت کےدن اس قسم کے تعلقات دشمنی میں بدل جائیں گے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے:

 الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ

الزخرف – 67

 ’’اس دن پرہیزگاروں کےعلاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے‘‘۔

اس کامطلب یہ ہے کہ قیامت کےدن صرف وہی تعلقات برقراررہیں گے جن کی بنیادتقویٰ پرہوگی اور جنہوں نے صرف اللہ کی خاطر اوراللہ کے دین کےلیے ایک دوسرے سے دوستی کی ہوگی،اس کے علاوہ باقی ہرقسم کےتعلقات اورتمام قسم کی دوستیاں دشمنی میں بدل جائیں گی،قیامت کےدن اس قسم کے رشتےاورتعلقات نہ صرف ختم ہوجائیں گے بلکہ سب ایک دوسرے کےدشمن بن جائیں گے اورسب ایک دوسرےپریہ الزام دھریں گے کہ فلاں دوست میری گمراہی کاباعث بنا اورفلاں رشتہ دار اپنے ساتھ مجھے بھی لےڈوبا، اس کے برعکس جس رشتےکی بنیاد تقویٰ اور اخلاص پرہوگی دین کےرشتے کوتمام رشتوں سےمقدم سمجھاہوگاایسےلوگوں کے متعلق اعلان ہوگا:

يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ

الزخرف – 68

 ’’ آج قیامت کے دن تمہیں کسی پریشانی کاخوف نہیں رکھناچاہیے،اورنہ آج تمہیں اپنی سابقہ زندگی پر کچھ ملال ہوگا‘‘۔

بلکہ رسول اللہﷺکاارشادگرامی ہےکہ ایسے لوگوں کواللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دےگاجواللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرےسے محبت کرتےہیں چنانچہ حدیث میں ہے:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آوازدےگا ’’میرے جاہ و جلال اورعظمت وتعظیم کی خاطر ایک دوسرے سےمحبت کرنےوالے کہاں ہیں؟میں آج انہیںاپنےسایہ میں جگہ دوں گا اس دن میرےسائے کےعلاوہ اورکوئی سایہ نہیں ہوگا‘‘[2]۔

  اس مبارک عمل کی اللہ کےہاں بہت فضیلت ہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے:میری جلالت وعزت کی خاطر آپس میں محبت کرنےوالوں کےلیے نورانی منبرہیں،جن پرانبیاء اورشہداءرشک کریں گے[3]

بہرحال جن لوگوں کےتعلقات کی بنیاد تقویٰ اوراخلاص پرہوگی قیامت کےدن اللہ تعالیٰ ان سے فرمائےگا:

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ

الزخرف – 70

’’ تم خود اور تمہاری طرح کے دوسرےساتھی جنت میں داخل ہوجاؤ،تمہیں وہاں خوش رکھاجائےگا‘‘۔

جس طرح ہمارے تعلقات کی بنیاد للٰہیت ،تقویٰ ہوناچاہیے اسی طرح ہمارے رشتوں کی اساس بھی دینداری کوہوناچاہیے،چنانچہ رسول اللہﷺکافرمان ہے:’’ عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پرنکاح کیاجاتاہے:(1) اس کے مال واسباب،(2) اس کے حسب ونسب،(3) اس کے حسن وجمال اوراس کی (4)دینداری، تیرے ہاتھ خاک آلودہوں،تم دینداری کی بنیادپہ نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو‘‘[4]۔

اس حدیث کی روشنی میں جب ہم رسول اللہﷺکے پیروکارصحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین کو دیکھتےہیں توپتہ چلتاہے کہ انہوں نے نکاح کےلیے اسی کوبنیاد بنایا۔

چنانچہ رسول اللہﷺکے مدینہ منورہ تشریف لانےسے کچھ عرصہ پہلےکاواقعہ ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے والدجناب مالک رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے،ان کی وفات کےبعدسیدہ ام سلیم رضی اللہ عنھاکوسیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نےجو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، پیغامِ نکاح بھیجا،سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے جواب دیا: ’’ تیرےجیسے شخص کاپیغامِ نکاح ردنہیں کیا جاتا،لیکن توکافرہےاور میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوچکی ہوں ،میرےلیے تجھ سے نکاح جائزنہیں ہے، اگر تو مسلمان ہوجائےتویہی میرا حق مہر ہوگا اورمیں تجھ سے اس کے علاوہ بطور مہرکسی چیزکامطالبہ نہیں کروں گی‘‘ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام ہی سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا حق مہر قرارپایا[5]۔

اس نکاح اور حق مہر کے متعلقجناب انس رضی اللہ عنہ کےشاگردرشیدسیدناثابت البنانی رحمہ اللہ   بایں الفاظ تبصرہ کرتےہیں: ’’ میں نے کسی دوسری عورت کے متعلق نہیں سناکہ اس کا مہر سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنھاکےمہراسلام سے بہترہو،سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کےساتھ زندگی کے خوشگوار لمحات بسرکیے اوران سےان کے بچےبھی پیداہوئے۔[6]

چونکہ یہ نکاح رنگ ونسل اوربرادری وخاندان سے بالاترہوکرصرف اسلام اوردینداری کی بنیاد پرہواتھا،اس لیے اللہ تعالیٰ نےسیدنا ابوطلحہ کوبہت خیروبرکت سے نوازا،سیدنا انس رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصارمیں سب سے زیادہ مالدارتھے،اللہ تعالیٰ نے انہیں کھجوروں کےباغات سے نوازاتھا،ان کا ایک باغ جومسجدنبوی کےبالکل سامنے تھا،رسول اللہ ﷺوہاں تشریف لے جاتے ، وہاں تازہ کھجوریں تناول فرماتے،میٹھےچشموں کاٹھنڈا پانی نوش کرتےاوردرختوں کےگھنےسایہ میں محواستراحت ہوتےتھے[7]۔

اس سلسلےمیں ایک دوسراواقعہ پیش خدمت ہے کہ رسول اللہﷺاپنےساتھیوں سے نہ صرف انتہائی محبت کرتےتھے بلکہ ان کی ضروریات کابھی خیال رکھتےتھے چنانچہ سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے جومالدار تھے نہ خوبصورت،ان کاکسی بڑے قبیلےسےتعلق تھانہ ہی کسی منصب پرفائزتھے،ان کی خوبی صرف یہ تھی کہ وہ رسول اللہﷺسے اوررسول اللہﷺان سے محبت کرتےتھے،ایک دن رسول اللہﷺنے مسکراتےہوئے ان سے فرمایا:’’ جلیبیب !تم شادی نہیں کروگے؟۔سیدنا جلیبیب  رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہﷺمجھ جیسے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کون کرےگا؟میراحسن وجمال،مال ودولت اورکوئی جاہ ومنصب نہیں ، بلکہ ایک فقیر بےنوا ہوں، لیکن رسول اللہﷺکی نظراس کے دنیاوی معیارپرنہیں بلکہ اس کی دینداری اورتقویٰ شعاری پر تھی، آپ نے اس کی مایوسی کوخوشی میں تبدیل کرتے ہوئے فرمایا: جلیبیب!  تم فکرنہ کرو،تمہاری شادی میں خود کروں گا،تم اللہ کے نزدیک بےقیمت نہیں ہو،تمہاری وہاں بڑی قدرومنزلت ہے‘‘۔چنانچہ رسول اللہﷺنے ایک دن ان سے فرمایا:جلیبیب ! تم فلاں انصاری کے گھرجاؤ،اسے میراسلام کہو اور میرا پیغام دوکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کردے،سیدنا جلیبیب خوشی خوشی اس انصاری کے گھر پہنچ جاتےہیں،دروازے پہ دستک دی،اہل خانہ پوچھتےہیں تم کون ہو؟سیدنا جلیبیب  رضی اللہ عنہ نے جوابا عرض کیا:رسول اللہﷺنے آپ لوگوں کو سلام بھیجاہے ،  یہ سن کر انصاری صحابی خوشی سے پھولانہیں سماتاکہ رسول اللہ ﷺنے مجھے سلام بھیجاہے،یہ تومیرےلیے خوش قسمتی کی بات ہے، پورے  گھر میں خوشی کی لہردوڑ گئی ،اس خوشی میں سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کواپنے گھر لےجاتےہیں،سیدنا جلیبیب نے اپنی بات مکمل کرتےہوئے کہا: ’’ رسول اللہ ﷺتمہیں سلام کے ساتھ یہ پیغام بھی بھیجاہےکہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو‘‘،صاحبِ خانہ نے جب یہ بات سنی توسناٹے میں آگئے،کیایہ شخص میراداماد بنےگا؟اس کانہ مال ودولت نہ حسن وجمال ،نہ قدکاٹھ ،نہ حسب ونسب اورنہ منصب اور کاروبار !کہنےلگامیں اپنے گھروالوں سےمشورہ کرکےتمہیں جواب دیتاہوں،انہوں نے اپنی اہلیہ کوبلایااور رسول اللہﷺکاپیغام سنایاکہ آپ فرماتےہیں کہ ’’ اپنی بیٹی کی شادی جلیبیب سے کردو‘‘ ۔

یہ حسنِ اتفاق تھاکہ ساتھ والے کمرے میں پسِ پردہ ان کی دخترِنیک اختر اپنے والدین کی گفتگوسن رہی تھی،انصاری کی اہلیہ نے کہاہم اپنی بیٹی کی شاد ی جلیبیب سے کیسے کردیں جبکہ وہ خوبصورت بھی نہیں،مال ودولت کی ریل پیل بھی نہیں، بڑاخاندان بھی نہیں،اورکسی منصب پرفائز بھی نہیں،ہم نے فلاں فلاں خاندان کی طرف سے آنے والوں کومسترد کردیاہے،میاں بیوی دونوں اس قسم کی گفتگو کررہے تھے، بیٹی بھی پردےکےپیچھے کھڑی گفتگوسن رہی تھی اوراس ماجرےکامشاہدہ کررہی تھی جب سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ مایوس ہوکرواپس جانے لگےتو لڑکی نے معاملے کی نزاکت کااحساس کرتےہوئے اپنے والدین سے مخاطب ہوکرآہستہ کہا:’’ کیاتم رسول اللہﷺکاحکم ٹالنےکےلئے سوچ وبچارکررہےہو، آپ مجھے رسول اللہﷺکے سپردکردیں، وہ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے میری شادی کردیں،وہ مجھے ہرگزضائع نہیں کریں  گے‘‘۔

بیٹی کے پاکیزہ جذبات سن کروالدین نے بھی سرجھکادیا،کچھ دیرپہلے تک ان کے ذہن میں نہ تھاکہ وہ اس رشتے کوقبول نہ کرنےکی صورت میں رسول اللہﷺکےحکم کونظراندازکرنےوالےبن جائیں  گے،وہ اپنی بیٹی کی فہم وفراست اوراس کے خوبصورت فیصلےپرراضی ہوگئے۔

سیدنا جلیبیب رسول اللہ ﷺکا پیغام پہنچاکرواپس چلےگئے،کچھ دیر بعد ذہین وفطین بچی کاوالدرسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوااور عرض کرنےلگا:یارسول اللہ ﷺ! مجھے آپ کا پیغام ملا،آپ کاحکم سرآنکھوںپر،میں میرے اہل خانہ حتی کہ میری بیٹی بھی آپﷺ کے  فیصلے پرراضی ہیں۔

ادھر رسول اللہﷺکوسیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے ذریعے بچی کے پاکیزہ جذبات اور سمع واطاعت پرمبنی جواب کا علم ہوچکاتھا،آپ ﷺ نے اسے ایک عظیم تحفہ دیا،اپنےمبارک ہاتھوں کوبارگاہ الٰہی میں اٹھایا اوربایں الفاظ دعا فرمائی:’’اے اللہ! ان دونوں پرخیروبھلائی کے دروازے کھول دے،اور انہیں زندگی میں مشقت وپریشانی سے دورکردے ‘‘۔اس بچی کی شادی سیدنا جلیبیب سے ہوگئی،مدینہ طیبہ میں ایک اورگھرکااضافہ ہوا،وہ جلیبیب جوکبھی مفلس ونادار تھے، رسول اللہﷺکی دعاکے نتیجہ میں ان پررزق کےدروازےکھل گئے،یہ گھرانہ  بڑاسعادت مند اوربابرکت ثابت ہوا،اس گھرانےکورسول اللہﷺکی اطاعت کاصلہ اس صورت میں ملا ،اہل مدینہ اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے تھے:’’ انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے زیادہ خرچ کرنےوالا گھرانہ اسی لڑکی کاتھا‘‘[8]۔

قارئین کرام! رسول اللہﷺکی دعاکی برکت سے اس لڑکی کودنیامیں بھی بھلائی نصیب ہوئی، اورآپ کی اطاعت کےنتیجہ میں جوکچھ آخرت میں ملنےوالاہے،اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں،لیکن افسوس کہ ہم رشتوں ناطوں کےسلسلہ میں مال ودولت، حسن وجمال ،حسب ونسب اور خاندان وبرادری کے بتوں کوپوج رہےہیں، ہماری بچیاں اس جعلی معیار کےانتظارمیں بڑھاپےکی دہلیز پر قدم رکھ دیتی ہیں ،ہمیں ان بتوں کوپاش پاش کرناہوگا،اورخالص دینداری کے ماحول کواپنے رشتوں کامعیار قراردیناہوگا۔

آج بھی کچھ دیندارگھرانے اس معیارکوسینےسےلگائےہوئےہیں،اس سلسلہ میں ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں، یہ واقعہ میرےایک قریبی دوست کارقم کردہ ہے:’’ میری بہن کےلیے ایک اچھارشتہ آیا، لڑکا برطانیہ میںملازمت کرتاتھا،تعلیم یافتہ،خوبصورت برسرِروزگاتھا، پاکستان میں رہنے والےاس کےوالدین اپنے بیٹے کےلیے بہتررشتہ کی خاطربھاگ دوڑ کررہےتھے،تلاش کرتے کرتے نظرِانتخاب ہمارے گھرانےپر پڑی چنانچہ یہ رشتہ منظور کرلیاگیا، برطانیہ میں ملازمت کی بناپر لڑکا ایک محدود وقت کےلیے پاکستان آسکتاتھا،اس لیے یہ طے پایا کہ وہ نکاح سے ایک ہفتہ قبل پاکستان آئےگا اورنکاح کے چندروز بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ واپس برطانیہ چلاجائےگا،والدمحترم نے احتیاطا یہ شرط رکھ دی تھی کہ لڑکے سے ملاقات پراگرکوئی بےاطمینانی والی بات سامنے آئی تو عین موقع پربھی معذرت کی جاسکتی ہے،اس شرط کو فریقِ ثانی نے بخوشی قبول کرلیا،آخرکار نکاح سے ایک ہفتہ قبل حسبِ پروگرام لڑکا برطانیہ سے پاکستان آیا اوروالدمحترم سے ملاقات ہوئی، حسنِ صورت ،اندازِگفتگو اورآدابِ معاشرت کے اعتبار سے وہ ہمارے تصورات سے بھی بالاترتھا،اس پہلوسے اطمینان حاصل ہوالیکن چادراورچاردیواری کے لحاظ سے آزادخیالی محسوس ہوئی، ہمارے ہاں دینی ماحول کی وجہ سے والدمحترم کوبہت تشویش لاحق ہوئی،رشتہ داروں نے اطمینان دلایاکہ رشتہ ہونےکےبعد اس کمی کی تلافی ہوجائےگی اس بناپرایک پڑھے لکھے برسرِروزگارشتےکوجواب دینامناسب نہیں ہے،لیکن ہمارے والدمحترم دینی معاملات میں بڑے حساس تھے،اس لیے ان کی تشویش میں مزیداضافہ ہوافرمانے لگےکہ برطانیہ کےنیم عریاں ماحول میں اس کی آزاد خیالی کے بڑھنےکااندیشہ ہے،آخرکارانہوںنے اپنی دینی غیرت کی وجہ سے نکاح سے ایک دن قبل اس رشتہ کورد کردیااورانہیں صاف صاف جواب دےدیا،اگرچہ نکاح کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکی تھیں،کھانے وغیرہ کے انتظامات بھی مکمل ہوچکےتھےلیکن والد محترم کی حمیتِ ایمانی نے ہرقسم کی قربانی دے کر اسے برداشت کیا،شایداس کی برکت تھی کہ اس قربانی کے چھ ماہ بعد مدینہ منورہ سے ہمارے خاندان کاایک رشتہ آیاجو قرآن کریم کاحافظ اورعالم دین تھا،والدمحترم نے استخارہ کرنےکےبعد وہ منظورکرلیا اس طرح ہماری ہمشیرہ کاان سے نکاح ہوگیا،اب وہ صاحبِ اولاد اورمدینہ طیبہ میں اقامت گزین ہے‘‘۔

رشتوں کےمتعلق ہمارایہی رجحان ہے کہ دولت، خاندان اور برادری کے چکرسے آزاد ہوکردین اور تقویٰ کوپیش نظررکھاجائے،اس سلسلہ میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی مثالیں پیش خدمت ہیں، عرب معاشرہ میں جب کوئی غلام آزاد ہوجاتاتو اسے اور اس کی اولاد کوآزادافراد سے فروتر خیال کیاجاتاتھا،سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے والدگرامی سیدنا زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ ام یمن رضی اللہ عنھا پہلے غلام تھے،پھر انہیں آزادی ملی تھی،اس کے علاوہ سیدنا اسامہ رنگ کے بھی کچھ سانولےتھے،رسول ا للہ ﷺنے سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کوان سے نکاح کرنے کے متعلق مشورہ دیا،چونکہ ان کے خاوندپر غلامی کاٹھپہ لگاہواتھا، اس لیے ابتدائی طور پرانہیں یہ رشتہ اچھانہ لگا اوراپنی ناگواری کااظہارکرتےہوئےکہا،اسامہ،اسامہ اس سے میں نکاح کرلوں!، اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت تیرے لیے بہترہے‘‘[9]۔

آخرکار انہوں نے رسول اللہ ﷺکی خواہش کااحترام کرتےہوئے سیدنا اسامہ رضی  اللہ عنہ سے نکاح کرلیا،وہ خود اس نکاح کے متعلق فرماتی ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں بھلائی اور برکت ڈال دی حتیٰ کہ مجھ پر رشک کیاجانے لگا‘‘[10]۔

سیدنا اسامہ بہت ہی ملنسار اورحسن خلق کے حامل تھے،اس لیے ذات پات کے اعتبارسے ہم پلہ نہ ہونےکے باوجود سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ان پر فخرکیاکرتی تھیں کہ خاوندہوتوایساہو۔

اسی طرح سیدنا سالم رضی اللہ عنہ ایک انصار عورت کے آزاد کردہ غلام تھے،سیدنا حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنامنہ بولا بیٹا بنایاتھا،انہوں نے اپنی حقیقی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ سے ان کا نکاح کردیاتھا۔[11]

اس حدیث پرامام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیاہے ’’ دین میں ہم پلہ ہونا‘‘[12]۔

اس طرح کی متعدد مثالیں کتب حدیث میں مروی ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات نے برادری ،حسب ونسب،مال ودولت،حسن وجمال اوردنیاداری کے بتوں کوتوڑ کررشتوں کی بنیاد صرف تقویٰ اوردینداری کوقراردیا،کیونکہ اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ متقی انسان کواگر بیوی سے محبت ہوگی تواس کی عزت کرےگااور اگر نفرت ہوگی تو اس پر ظلم کرنےسے بازرہےگا۔

اب ہم نکاح کے دوسرے پہلو کاجائزہ لیتےہیں کہ جولوگ دین اورتقویٰ کے معیارکونظرانداز کرکےمحض دنیاوی مفادات اور برادری کارکھ رکھاؤ پیش نظر رکھتےہیں ،ایسے رشتوں کاکیاانجام ہوتاہے،اس سلسلہ میں رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے: ’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کاپیغامِ نکاح آئے جس کادین اوراخلاق تمہیں پسندہو تو اسے اپنی لڑکی کارشتہ دے دو،اگر تم ایسانہیں کروگے توزمین میں فتنہ اوربڑافساد ہوگا‘‘[13]۔

اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ رشتہ کرتے وقت تقویٰ،اخلاق وکردار اوردینی اقدار کوپیش نظر رکھنا چاہیے، اگردین کونظرانداز کرکے حسب ونسب ،خاندان،برادری،حسن وجمال اور مال ودولت کو معیار بنایا گیا تو یہ کئی ایک فتنوں اورآزمائشوں کا پیش خیمہ ہوگا،کئی لڑکیاں بے نکاح رہ جائیں گی جو ان کےلیے مصیبت اورفتنہ کاباعث ہوگا،نیزدینی لحاظ سے نیک نہ ہونے کی وجہ سے جھگڑے پیداہوں گے پھر یہی مال وجمال اور خاندانی تفوق گلےکاطوق اورپاؤں کی بیڑی بن جائےگا،ہم آئے دن اس طرح کے بیسیوں واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو خاندانوں کے ٹکراؤ اورگھروں کی بے آبادی کاباعث ہوتےہیں۔

ہم ذیل میں صرف ایک واقعہ ذکرکرتےہیں جودیدۂ عبرت کےلیے سرمۂ بصیرت کاباعث ہے،اس کی روشنی میں ہم نے اپنے کردار کابس جائزہ لیناہے،واللہ المستعان۔

برادری کامعیار یہ تھاکہ لڑکا خوبرو، ملنسار، خوش اخلاق ،تعلیم یافتہ،برسرروزگار ہونےکےساتھ ساتھ برادری کے اعتبار سے ہم پلہ اور اس کا خاندان بھی مختصر افراد پر مشتمل ہو،تلاش بسیار کےباوجود ہمیں مناسب رشتہ نہیں مل رہاتھا،اس بناء پروالدین انتہائی پریشان تھے،اتفاقا ایک دن ہمیں کسی عورت کے ذریعے خانیوال میں ایک رشتہ کاپتہ چلا اس عورت نے بتایاکہ لڑکےکے والدین فوت ہوچکےہیں،اس کی خالہ نے تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اٹھائی تھی،تعلیم کے بعد اب وہ ایک پرائیوٹ کمپنی میں بطور منیجرجاب کرتاہے،تنخواہ تقریباایک لاکھ ماہانہ ہے۔کمپنی نےاسے گاڑی بھی دے رکھی ہے،اس کا خانیوال میں اپنا مکان ہے،کافی سوچ وبچار کےبعدمیں اورمیرے والدین اس عورت کے ہمراہ خانیوال گئے، لڑکےسے ملاقات ہوئی،وہ قبول صورت،خوش گفتاراور تعلیم یافتہ معلوم ہوتاتھا،اس کی کوٹھی نما مکان میں زندگی کی تمام سہولیات موجودتھیں،ہم نے بات چیت کےذریعے اس کے اخلاق وکردارکومعلوم کرنے کی کوشش کی تووہ کچھ آزادخیال تھا،ہم نے گھرآکر باہمی مشورہ کیا، اس کی آزاد خیالی کو نظر اندازکرکےاسے رشتےکےلیے پسند کرلیا،عورت کے بار بار اصرار کرنےپرہم نے جلدی شادی کی تاریخ طےکردی،شادی کے موقع اس کےہمراہ چندافراد اورکچھ خواتین تھیں،اس نے پندرہ تولے طلائی زیورات بطورحق مہرادا کیے،ہم نے بھی اپنی بہن کوڈھیروں جہیز کےساتھ دس تولے طلائی زیور پہنائے،اس کے علاوہ ایک نئی گاڑی لڑکے کوبطور گفٹ دی۔

 شادی کے اگلےدن خانیوال ایک ہوٹل میں ولیمےکا اہتمام کیاگیا،ہماری بہن بھی اس انتخاب پر ہرطرح سے مطمئن تھی، ہم بھی خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارےلیےایک اچھےرشتےکابندوبست کردیاہے،شادی کے دوہفتےبعدوہ اپنی گاڑی پرہماری بہن کوگھرچھوڑنےآیا، اس نے بتایاکہ میں کمپنی کے ایک ضروری کام کےلیےکراچی جا رہا ہوں،وہاں مجھے ایک دوہفتے لگ جائیں گے،میں کراچی سے واپسی پر اسے لے جاؤں گا، دو ہفتے بعد بعد جب وہ نہ آیاتوہمیں فکرلاحق ہوئی،اسے فون کیاتو اس کاموبائل بندتھا،خانیوال گئے توہمیں وہاں سے پتہ چلاکہ دوماہ قبل ایک شخص نے یہ مکان کرایہ پرلیاتھا، اب تین ہفتےقبل وہ اپنا سامان وغیرہ لے کریہاں سے چلاگیاہے،ہماری بہن کاسامان جہیز اور اس کے زیورات بھی ساتھ لےگیا،ہم نے اسے بہت تلاش کیالیکن اس کاکچھ اتاپتانہ چل سکا،اب ہم اس سلسلہ میں بہت پریشان ہیں،ہماری  بہن کامسقبل بھی داؤپرلگ گیاہے،ہمیں کچھ نہیں سوجھتاکہ اب کیاکیاجائے،وہ اپنی داستانِ غم سناتےہوئے باربار کہہ رہاتھاکہ وہ ہماری بہن کی عزت بھی داغدار کرگیا،بہرحال اس واقعہ میں دنیاکی دولت اور اس کی زیب وزینت کومعیار بنانےوالوں کےلیے بہت سامانِ عبرت ہے،یہ دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہےبیٹیوں کے رشتہ کےلیے اسے قطعا معیارنہ بنایاجائے۔اور نہ ہی تقویٰ اوردینداری کو نظر اندازکرکےصرف خاندانی اوربرادری کی بنیادپر رشتے کیےجائیں،اللہ کےنزدیک قومیت اور خاندان صرف تعارف وپہچان کاذریعہ ہے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

الحجرات – 13

 ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیداکیااورتمہاری ذاتیں اورقبیلے اس لیے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو،اللہ کےنزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہ شخص ہےجو تم میں سے زیادہ پرہیزگاہو‘‘۔

موجودہ دورمیں ذات وقوم ،رنگ ونسل کو معبودکی حیثیت دے کر ان کی پوجاکی جارہی ہے، ان کی بنیاد پرپوری انسانی برادری کوکئی گروہوں میں تقسیم کردیاگیاہےجو آپس میں ایک دوسرے پرفخر کرتے رہتےہیں،حالانکہ سب انسان سیدنا آدم وحوا کی اولادہیں،اللہ تعالیٰ کےہاں عزت وشرف کا معیار صرف تقویٰ ہے یعنی جتنا کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرنےوالااور اس کی معصیت سے دور رہنے والا ہوگا اتناہی وہ اللہ کےنزدیک معززومحترم ہوگا،رسول اللہ ﷺنے اپنےخطبہ حجۃ الوداع میں اس مضمون کو بایں ا لفاظ بیان کیاتھا:’’ کسی گورے کوکالے پر اورکسی کالےکوگورے پر،کسی عربی کو عجمی پراورکسی عجمی کوعربی پرکوئی برتری نہیں، فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے[14]۔

لیکن ہم ذات وقومیت اور رنگ ونسل کی بنیاد پرخودکواعلیٰ اوردوسروں کو حقیر سمجھنے لگے ہیں، اور انہیں باہمی تفاخر وتنافر کاذریعہ بنالیاہے۔

رسول اللہ ﷺکا ارشادگرامی ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اورباپ دادا پرفخر کودور کردیاہے اب لوگ صاحبِ ایمان متقی ہیں یافاجروبدبخت،تم سب آدم کی اولادہو،اورآدم مٹی سے تھے، لوگوں کوقومی برتری ختم کردینی چاہیےکیونکہ ایساکرنےوالے توجہنم کے کوئلے بن چکےہیں،یاپھر یہ لوگ اللہ کے ہاں گندگی کے سیاہ کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گےجواپنی ناک سے گندگی کودھکیلتاپھرتاہے [15]۔

ان احادیث سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم اپنے رشتےناطے، اسلام اورتقویٰ کونظرانداز کرکے صرف قوم اور برادری کی بنیاد پر نہ کریں اور نہ ہی اپنی معصوم بیٹیوں کومال ودولت کی بھینٹ چڑھائیں،قیامت کے دن ان کےبارے میں بازپرس ہوگی۔

واللہ المستعان

________________________________________

[2] صحیح مسلم،کتاب البروالصله

[3] سنن ترمذی،کتاب الزھد

[4] صحیح بخاری،کتاب النکاح

[5] سنن نسائی:کتاب النکاح

[6] سنن نسائی:کتاب النکاح

[7] صحیح بخاری:کتاب الزکاۃ

[8] مسندامام احمد:جلد،4صفحہ422

[9] سنن ابن ماجہ:کتاب النکاح

[10] سنن ابن ماجہ :کتاب النکاح

[11] صحیح بخاری: کتاب النکاح

[12] صحیح بخاری:کتاب النکاح،باب نمبر16

[13] سنن ترمذی:کتاب النکاح

[14] مسندامام احمد: جلد،5 صفحه،422

[15] سنن ابی داؤد:کتاب الادب

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستارحماد حفظہ اللہ

آپ 16 اپریل 1952ء میں پیدا ہوئے ۔ مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی اور جامعہ محمدیہ جلال پور پیر والا میں عظیم عالم دین الشیخ سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ سے جامع ترمذی اور صحیح بخاری پڑھی ۔ بعد ازاں جامعہ سلفیہ میں بھی تعلیم حاصل کی اور وہاں اول پوزیشن حاصل کی اور پھر آپ کا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ہوگیا اور آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ سے بکالوریس کیا ، واپس آ کر پاکستان کے مختلف شہروں تدریس کا سلسلہ جاری رہا ،اب آپ مرکز الدراسات الاسلامیہ میاں چنوں میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے اور پیغام ٹی وی ، ہفت روزہ اہل حدیث میں افتاء کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں ، متعدد کتب کے مصنف ہیں ، جن میں صحیح البخاری کی شرح اردو زبان میں شامل ہے۔