اللہ تعالیٰ نے عورت ذات کو صنفِ نازک بنایا اور اس کی عزت و عفت کی حفاظت کے لیے اس کا اصل مقام گھر کی چار دیواری کو قرار دیا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ1
یعنی: اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔
البتہ آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے یہ اجازت عطا فرمائی کے بوقتِ ضرورت ، تکمیلِ حاجت کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ جیسا کہ نبیﷺ کا فرمان ہے:
قَدْ أَذِنَ اللہُ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنّ2
یعنی: تمہیں اجازت دی گئی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لئے باہر نکل سکتی ہو ۔
نیز اس نکلنے میں چند آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنے کا حکم بھی دیا،مثلاً:
(1) ولی کی اجازت سے باہر نکلے۔
(2) مکمل باحجاب ہوکر نکلے۔
(3) خوشبو نہ لگائے۔
(4) غیر محرم کے ساتھ بات چیت، خلوت و اختلاط نہ ہو۔
(5) راستے کے بیچ میں نہ چلیں۔
(6) اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں۔
ان امور میں سے سب سے اہم حکم حجاب کرنے کا ہے، جس کے تعلق سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ3
یعنی: اے نبی(ﷺ)! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔
اور اس کی حکمت بھی نبیﷺ نے بامرِ وحی متعین کردی کہ خاتون گھر سے باہر نکل کر ہر نیک و بد کی نظروں کی زینت نہ بن سکے اور فرمایا:
الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ4
یعنی: عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔
چونکہ یہ دین قیامت تک کے لیے آیا ہے تو اس میں ہر زمانے کے احکام کے ساتھ ساتھ، آنے والے زمانوں کے فتنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، انہی فتنوں میں سے ایک فتنہ جس کی طرف نبیﷺ نے اپنے اس فرمان میں نشاندہی فرمائی:
صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا (وقال فيه) نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا5
یعنی: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا،(ان میں سے ایک قسم) وہ عورتیں جو لباس پہنتی ہیں مگر بے لباس ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہوگی۔
نبیﷺ کی اس حدیث کی عملی تصویر ہم آج اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں، جس کی ایک واضح صورت خواتین کا ایسا حجاب کرنا ہے، جو مقصدِ حجاب کی دھجیاں اڑا دیتا ہے، بالفاظِ دیگر وہ حجاب نہیں بلکہ زینت کی نمائش کا منظر لگتا ہے، پرکشش، خوبصورت، رنگ برنگے نقش و نگار پر مشتمل عبائے اور سکارف، جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مائل کرنے والے ہوتے ہیں۔
اور افسوس کے ساتھ ہم اس بات کو کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس فتنے نے اچھے خاصے دین دار گھرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور شیطان نے اس گھٹیا عمل کو ان کی نظروں میں مزین کردیا، جیسا کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا:
وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ6
شیطان نے ان کے لیے ان کے کام مزین کردیے، پس انہیں اصل راستے سے روک دیا، حالانکہ وہ بہت سمجھدار تھے۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ پھر شرعی اوصاف پر مشتمل حجاب کیسا ہوتا ہے؟ تو اس پر بِتَوفِیقِ اللہِ تعالیٰ وعَونِہِ زیرِ نظر سطور میں کچھ گفتگو کی جاتی ہے۔
1۔ حجاب مکمل جسم کو ڈھاپنے والا ہو:
شرعی حجاب کی سب سے پہلی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ وہ جسم کو مکمل ڈھاپنے والا ہوتا ہے، جس میں سر سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک کا مکمل جسم شامل ہے، جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 59( يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ)
میں خواتینِ اسلام کو ’’جلباب‘‘ لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے، جلباب ایسی چادروں کو کہا جاتا ہے کہ جو سر کے اوپر سے لٹکائی جائیں اور ان سے مکمل جسم ڈھک جائے۔7
البتہ خواتین کی مشقت کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا8
اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔
مذکورہ آیت میں یہ استثناء دیا گیا ہے کہ وہ اعضاء جن کا ڈھانپنا گھر سے باہر بہت مشکل ہے ان کو کھلا رکھا جاسکتا ہے اور یہ اعضاء صرف دو ہیں: ہتیھلیاں اور قدموں کا اوپری حصہ۔ نیز یہ بھی رخصت ہے، بہترین معاملہ یہی ہے کہ مکمل جسم کو ڈھانپا جائے اور دستانوں وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔
2۔اتنا چُست نہ ہو کہ جسم کے خد و خال واضح ہوں:
شرعی حجاب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ اتنا چُست یا تنگ نہ ہو کہ جسم کے خد و خال واضح ہوں، کیونکہ حجاب کا مقصد جسم ، زینت، خوبصورتی کو چھپانا ہے، اگرحجاب ہی ایسا ہوگا کہ جس سے جسم کے خد و خال واضح ہوں گے تو حجاب کا مقصد مکمل نہیں ہو پائے گا۔ واضح رہے کہ خواتینِ اسلام کی رول ماڈلز صحابیات کا حجاب اتنا ڈھیلا ہوا کرتا تھا کہ نبیﷺ نے ایک موقع پر یہ فرمایا کہ اگر کسی خاتون کے پاس کوئی اوڑھنی نہ ہو تو وہ اپنی بہن کے ساتھ اوڑھنی میں شریک ہو جائے۔ روایت کے الفاظ ملاحظہ ہوں: ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ. قَالَ: لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا9
آنحضرت ﷺ عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔
تو میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ ( نمازِ عید کے لیے ) باہر نہ نکلے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اوڑھا دے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابیات کا حجاب اتنا ڈھیلا ہوتا تھا کہ دوسری خاتون بھی اس میں ساتھ شامل ہوسکتی تھیں۔
3۔اپنی ذات میں خوبصورت نہ ہو:
شرعی حجاب کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں خوبصورت نہیں ہونا چاہیئے، یعنی عبایہ یا سکارف خود جازبِ زینت یا جازب النظر نہ ہو جیسے اس پر کڑھائی ہوئی ہو یا پرکشش رنگ والا ہو یا اتنا خوبصورت اور نفیس ہو کہ مردوں کی نگاہ بے اختیار اس طرف اٹھے، کیونکہ حجاب کا مقصد خواتین کو نامحرم کی نظروں سے بچانا ہے۔ اس کو سمجھنے کا آسان ترین ضابطہ یہی ہے کہ خاتون خود سے یہ سوال کریں کہ کیا میرا حجاب خوبصورت لگ رہا ہے، کہ لوگوں کی نظروں کا مرکز بن سکتا ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہو، تو ایسے حجاب کو پہننا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ مقصدِ حجاب کے خلاف ہے۔
4۔خوشبو اور مہک والا نہ ہو:
خواتینِ اسلام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں تو خوشبو کا استعمال نہ کریں، کیونکہ اس تعلق سے نبیﷺ نے شدید وعید ذکر فرمائی ہے:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ10
یعنی: جو بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ بدکارہ (زانیہ) ہے۔
افسوس صد افسوس! معاشرے کا بدیہی سی نظر سے جائزہ لینے پر ایسے عبائے اور سکارف نظر آتے ہیں جو رنگیلے ، نقش و نگار والے، ہر نیک و بد کی نظروں کا مرکز بننے والے ، جسم کے خدوخال کو واضح کرنے والے ہوتے ہیں، یقیناً یہ عبائے اور سکارف مقصدِ حجاب میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں، اور اس مقصد کی دھجیاں اڑانے والے ہیں۔
لہٰذا خواتینِ اسلام کو اس حکمِ الٰہی پر فخر کرنا چاہیے، اور اس کو اپنے لیے پابندی، مشکل ، دقیانوسی اور ترقی میں رکاوٹ کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیئے ،لہٰذا جو خواتین ایسا عبایہ یا ایسا سکارف استعمال کرتی ہیں ، جو ان ضوابط پر پورا نہیں اترتا تو ایسی خواتین کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیئے، کہیں وہ اس حدیث کا مصداق نہ بن رہی ہوں:
صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا(وقال فيه) نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا11
یعنی: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا، (ان میں سے ایک قسم) وہ عورتیں جو لباس پہنتی ہیں مگر بے لباس ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صحیح معنوں میں دینِ حنیف کے تمام احکامات کو سمجھنے کی اور ان پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
و بالله التوفیق، و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
_________________________________________________________________