رمضان کی فضیلت   

Virtue of Ramadan

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو بڑا کرم و احسان والا، وسیع انعام و نوازش والا ہے ۔اس نے ماہِ رمضان کا روزہ اپنے مومن بندوں پر فرض کیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ متقین اور اپنے نیک بندوں کا ولی ہے۔ اس نے محمد ﷺ کی امت کو ماہِ رمضان سے نوازا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور بیت اللہ الحرام کا طواف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ اللہ درود و سلام نازل کرے ان پر اور انکے صحابہ پر جو ہدایت کے ستارے اور تاریکی میں چراغ ہیں۔

 اما بعد!

میں آپکو اللہ عزوجل کے تقوی اور اطاعت کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ اپنے علم کے ساتھ ہر وقت اور ہر جگہ آپکے ساتھ ہے۔ آپ جان لیں کہ اللہ تعالی کے تقوی کے ساتھ تھوڑا عمل زیادہ ہے اور اللہ کے تقوی کے بغیر زیادہ عمل تھوڑا ہے۔

 آپ دین کے ارکان اور ایمان کی شاخوں کو مضبوطی سے تھامے اس لیے کہ اللہ تعالی کے تقوی اور اس پر ایمان کے بغیر دنیا و آخرت میں آپکو نجات اور کامیابی نہیں مل سکتی۔ تم اس زندگی کی مہلت کو اس کے نکلنے سے پہلے غنیمت جانو اور طاعتوں کی طرف جلدی کرو۔ بے شک تم ان کے معزز ترین زمانے میں ہو۔ انسان اس دنیاوی زندگی میں نہ بہت لمبی عمر پائے گا اور نہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ وہ عدم سے وجود میں آیا اور اس کا انجام عدم ہے۔

 اس دنیا میں انسان پر جو گھڑیاں گزرتی ہیں وہ گویا لمحات ہیں، ایک لمحے کے بعد آتا ہے اور اس طرح انسان اپنی آخری انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم میں سے ہر کوئی محسوس کرتا ہے ، ہم اپنے کچھ بھائیوں کو یاد کریں جو پچھلے سال ہمارے ساتھ تھے ، وہ خیر و برکت کے مہینے رمضان کا انتظار کر رہے تھے، ان کی عمر ختم ہو گئی اور ان کے اعمال منقطع ہو گئے اور وہ زمین کے اس حصے میں چلے گئے جہاں ان کے ساتھ صرف ان کے اعمال ہیں اور اپنے بعد اپنے آپ  کے لیے اگر کچھ چھوڑا ہے تو وہ صدقہ جاریہ یا نفع بخش علم یا نیک اولاد جو ان کے لیے دعا کرے۔ ہم بھی وہاں جانے والے ہیں جہاں وہ پہنچ چکے ہیں ، اس طرح زمانے نے اپنی گردش پوری کرلی اور اس سال ماہ رمضان لوٹ کر آیا، وہ لوٹ کر آیا جبکہ ہم بہت کچھ بھول چکے تھے اور ہم اپنے دنیاوی معاملات میں دور تک بہہ گئے تھے، رمضان لوٹ کر آیا اور ہمارے لیے مقدر کیا گیا کہ ہم بھی اس کے ساتھ لوٹیں تاکہ ہم اس کے دمکتے دنوں کو دیکھیں اور اس کی روشن راتوں کو جیے۔

 مسلمانوں! اپنے مومن بندوں پر اللہ تعالی کے عظیم ترین نعمتوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تھوڑے دن پہلے ہی بھلائی کے موسموں میں سے ایک موسم کو پانے کی سعادت بخشی اور وہ رحمتوں اور برکتوں والا ماہ رمضان ہے جس میں روزے دار خوش ہوتے ہیں اور عمل کرنے والے اللہ کے نزدیک کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کے فرائض کا اجر و ثواب دوسرے مہینوں کے فرائض سے کئی گناہ ہے اور جس کے نوافل دوسرے مہینوں کے فرائض کی مانند ہیں، جو سخاوت و صدقات کا مہینہ ہے، جس میں خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور گناہ معاف کیے جاتے ہیں، اللہ نے ہم پراس کے روزے فرض کیے اور رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے اس کا قیام مسنون کیا ۔

ہمارے رسول ﷺ اپنے صحابہ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے تھے:

’’ تمہارے پاس برکتوں کا مہینہ رمضان آ چکا ہے جس میں اللہ رحمت نازل کرتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے، دعائیں قبول کرتا ہے اور تم کو لے کر اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے سو تم اپنی طرف سے اللہ کو بھلائی دکھاؤ ۔ بدبخت وہ ہے جو اللہ کی رحمت سے محروم کر دیا جائے‘‘

 اس حدیث کو ہیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی کی طرف منسوب کیا ہے۔

عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” إذا كانت اول ليلة من رمضان صفدت الشياطين، ومردة الجن، وغلقت ابواب النار، فلم يفتح منها باب، وفتحت ابواب الجنة، فلم يغلق منها باب، ونادى مناد يا باغي الخير اقبل، ويا باغي الشر اقصر، ولله عتقاء من النار، وذلك في كل ليلة1

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے

رمضان کے مہینے میں نبی ﷺ کا طریقہ جو کہ سب سے افضل طریقہ ہے یہ تھا کہ آپ  ﷺ ہر طرح کی عبادت با کثرت کرتے تھے، چنانچہ آپ  لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ سخاوت آپ  رمضان میں کرتے تھے، بکثرت صدقہ دیتے، احسان کر تے، قران کی تلاوت کرتے، نماز پڑھتے ، ذکر کرتے اور اعتکاف فرماتے اور آپ ﷺ نے رمضان میں عمرہ کرنے پر بھی ابھارا ہے۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَجَّتِهِ قَالَ لِأُمِّ سِنَانٍ الْأَنْصَارِيَّةِ مَا مَنَعَكِ مِنْ الْحَجِّ قَالَتْ أَبُو فُلَانٍ تَعْنِي زَوْجَهَا كَانَ لَهُ نَاضِحَانِ حَجَّ عَلَى أَحَدِهِمَا وَالْآخَرُ يَسْقِي أَرْضًا لَنَا قَالَ فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً أَوْ حَجَّةً مَعِي2

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سنان انصاریہ عورت رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟ انہوں نے عرض کی کہ فلاں کے باپ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘ 

آپﷺ خصوصی طور پر رمضان میں جن عبادتوں کا اہتمام کرتے تھے، ان کا اہتمام دوسرے مہینوں میں نہیں کرتے تھے۔ پس رمضان کو پانے کی نعمت پر اللہ عزوجل کی تعریف کرو ، جدوجہد کر کے اور مختلف اطاعتوں سے اس کے اوقات کو معمور کر کے اس کا شکر ادا کرو ، اللہ تم پر رحم کرے۔ غلطیوں اور گناہوں سے اس کی حفاظت کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ یہ فضیلتوں کے اوقات ہیں۔ انہیں غنیمت جاننے والے کہاں ہیں ؟ اور یہ  نفع بخش تجارتوں کے موسم ہیں، ان کے طلبگار کہاں ہے ؟

عن أَبی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ” كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَسْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ3

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اللہ عزوجل نے فرمایا: ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لئے ہیں سوائے روزے کے، وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے، جب تم میں سے کوئی کسی دن روزے سے ہو تو وہ فحش گوئی نہ کرے، نہ جہالت والا کوئی کام کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا (کرنا) چاہے تو وہ کہے: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں۔

روزے دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں ایک تو روزہ کھولنے کے وقت خوش ہوتا ہے دوسری جب وہ اپنے مالک سے ملے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہوگا ۔

دعا

اللہ میری اور آپ سب کی مدد کرے، ہم رمضان کا صیام و قیام ایمان کے ساتھ ، ثواب کی امید کرتے ہوئے انجام دیں، اللہ ہماری تمام لغزشوں کو معاف کرے، ہمارے گناہوں کو ڈھانپ دے اور سوال و جواب کے دن ہمیں معاف کرے ۔

اللہ میرے لیے اور آپ سب کے لیے قرآن میں برکت دے ، اس کے بیان سے مجھے اور آپکو فائدہ پہنچائے۔ میں “اللہ العظیم” سے اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ لوگ اس سے مغفرت مانگیں وہ بڑا غفور الرحیم ہے۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے ، اس نے اپنے بندوں کے دلوں کو اپنے انعامات سے معمور کیا اور ان کے دلوں کو دین اور اس کے احکام کی روشنی سے آباد کیا اور اپنی باریک حکمت سے مقرر کی گئی شریعت اور اپنے احکام کا ان سے عہد لیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، ذات و صفات اور افعال میں اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ، اس نے انہیں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا تاکہ اس دین کو تمام ادیان پرغالب کرے۔ درود و سلام نازل ہو ان پر، ان کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے ان کے آل واصحاب پر۔

اما بعد!

  میں تمہیں اور خود کو اللہ کے تقوی اور اس کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جلدی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہے، جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور جان لو کہ ہمارے مبارک ، فضیلتوں ، بھلائیوں، عمل اور نیکیوں کے مہینے میں سے جتنے ایام گزر گئے سو گزر گئے، بقیہ ایام بھی اس کے پیچھے پیچھے ہیں اور عنقریب ختم ہو جائیں گے۔ سعادت مند وہ ہے جو اپنے معاملے پر غور کرے، اپنی حفاظت کا سامان لے اور فرصت کے ختم ہونے سے قبل اس سے فائدہ اٹھائے اور جُود و کرم اور احسان والے اپنے رب کے فضل کو غنیمت جانے ۔

لہذا خوب قرآن کی تلاوت کرو، کھانا کھلاؤ اور فقیروں اور یتیموں پر صدقہ و خیرات کرو اور اس ماہ میں اپنے اعضاء و جوارح کو معصیت اور گناہوں سے بچاؤ اور سید الانعام اور بدرِ تمام پر خوب درود و سلام بھیجو ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا4

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ! درود و سلام نازل فرما تمام مخلوقات کے سردار اور ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ پر، آپکی پاکیزہ اور پاک باز آل پر، آپکے روشن مبارک صحابہ پر جو آپ  کی دعوت کے امین اور آپکے لشکروں کے قائد تھے اور اس پر جس نے ان کے لیے رحمت کی دعا کی اور جس کے دل میں ان سب کے لیے کوئی کینہ نہیں وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے:

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ5

اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

اور ان پر درود و سلام نازل فرما جو قیامت کے دن تک اچھی طرح سے ان کی پیروی کرے اور ہم سے اور ان سے راضی ہو جا۔

خطبہ جمعہ، مسجد حرام

07 رمضان المبارک 1446ھ بمطابق 07 مارچ 2025

فضیلۃ الشیخ: عبداللہ بن عواد الجہنی حفظہ اللہ

____________________________________________________________________________________________________________________________

  1. (سنن ابن ماجہ : 1642)
  2. (صحیح بخاری: 1863)
  3. (صحیح مسلم: 2706)
  4. (سورۃ الاحزاب: 56)
  5. (سورۃ الحشر: 10)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عواد الجھنی حفظہ اللہ