سوال نمبر1:قسطوں پر چیز خریدنے کا کیا حکم ہے ؟کیا نقد وادھار قیمتوں میں فرق سود شمار نہیں ہوگا ؟ (محمد راحیل ،مدثر یاسین ، محمد ممتاز، سلیم معرفانی میمن، محمد منیر، عبد اللہ سندھی)
الحمدُ للّٰهِ، والصَّلاةُ والسَّلامُ على رسولِ اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:وبَعدُ:
بنیادی طور پر اسلام میں قسطوں میں خرید و فروخت جائز ہے ۔ جیسا کہ حدیث عمرو بن الشریک میں ذکر ہے کہ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا ! اے سعد آپ کے محلے میں میرے جو دو گھر ہیں وہ آپ خرید لیں انہوں نے جواباً کہا !اللہ کی قسم میں نہیں خریدتا ۔ سیدنا مسور جو وہاں موجود تھے نے کہا کہ اللہ کی قسم آپ کو ضرور خریدنا ہوں گے تب سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چار ہزار درہم سے زائد نہیں دوں گا وہ بھی قسطوں میں ۔۔۔۔الخ[1]
اور غلام کا قسطوں میں مکاتبہ معروف مسئلہ ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ: جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ فَقَالَتْ كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ وَقِيَّةٌ فَأَعِينِينِي،فَقُلْتُ:إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ:لَهُمْ فَأَبَوْا ذَلِكَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ،فَقَالَتْ:إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمْ الْوَلَاءَ،فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ،فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللّٰهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللّٰهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللّٰهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللّٰهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللّٰهِ أَوْثَقُ، ’’وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ‘‘
صحيح بخاري:كتاب البيوع،باب إذا إشترط شروطا في البيع لا تحل
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ آئی اور کہا کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ[2]چاندی کے عوض اس شرط پر مکاتبت کرلی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی دوں گی اس لیے روپے ان کو دیدوں اور تیری ولاء میرے لئے ہوگی بریرہ نے جا کر اپنے مالکوں سے کہا تو ان لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اپنے مالکوں کے پاس آئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ چیز پیش کی تو ان لوگوں نے انکار کر دیا مگر یہ کہ ولاء ان کی ہوگی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا تو سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حالت بیان کی آپ نے فرمایا تم اسے لے لو اور ولاء کی شرط کرلو وہ تو اسی کے لئے ہے جو آزاد کرے چنانچہ سیدہ عائشہ نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا اما بعد لوگوں کا کیا حال ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں کوئی ایسی شرط جو کتاب اللہ میں مذکور نہیں ہے باطل ہے اگرچہ سو شرطیں لگائے اللہ کا فیصلہ سب سے سچا اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے ولاء اسی کی ہے جو آزاد کرے۔
البتہ قسطوں میں ادائیگی کی صورت میں قیمت بڑھا کر لینا مختلف فیہ ہے۔حدیث میں ادھار لین دین کی جو شرائط مقرر کی ہیں وہ اسطرح ہیں
مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَليُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ
صحيح بخاري:كتاب البيوع، باب السلم في وزن معلوم
یعنی ادھار سودے میں کیل یا وزن اور اس کی ادائیگی کا وقت معین کرنا لازم ہے ۔
یعنی قیمت بھی ایک ہو یعنی ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ نہ ہو اس کا ذکر نہیں ہے ۔
میرے علم کے مطابق مذاھب اربعہ اور محدثین عظام کی اغلب تعداد ادھار کی صورت میں قیمت میں زیادتی کے جواز کے قائل ہیں ۔
دوسر ی بات یہ ہے کہ قیمت میں کمی یا زیادتی کبھی نقد سودے کی صورت میں بھی ہوجاتی ہے ۔
جیسا کہ تھوک اور پرچون کی قیمت مقدم ادا کرنے کی صورت میں بھی قیمت عموما کم ہوتی ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ کیا کسی چیز کی قیمت طے کرنے میں مدت کی بھی تاثیر ہوتی ہے ۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے مفصل بحث کے بعد اسی موقف کو ترجیح دی ہے کہ ادھار کی صورت میں مدت کا قیمت میں حصہ ہوتاہے ۔
مانعین کا معروف حدیث:
مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ…الخ
سنن أبي داود:كتاب الإجارة،باب فيمن باع فی بیعتین
نُهِيَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ…الخ
مؤطا إمام مالك:كتاب البيوع،باب النهي عن بیعتین
سے استدلال میرے خیال کے مطابق محل نظر ہے ۔مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں متعدد اقوال ملیں گے ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے ایک چیز کی نقد قیمت کم اور ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ مراد ہے۔ حالانکہ عملا ایسا ممکن نہیں ہے ۔
سودا ایک ہی قیمت پر طے ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث سے مراد
بَيعُ العِينةِ
ہی ہے اور امام ابن القیم رحمہ اللہ
تهذيب السنن
میں فرماتے ہیں کہ جو حدیث:
مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ…الخ
کو نقد اور ادھار میں فرق کی ممانعت پر محمول کرتا ہے اس نے حدیث کو سمجھا ہی نہیں ۔ ایک چیز کے عملا دوسودے یا تو بیع العینہ کی صورت میں ہوتے ہیں یا قبضے میں لئے بغیر وہی مال آگے فروخت کردینا جہاں تک یہ بات ہے اس صورت میں اور قرض پر سودا لینے میں کیا فرق ہے پہلی بات تو یہ ہے” احل الله البیع و حرم الربا” ۔ اس سلسلہ میں قول فیصل ہے ۔ مذکورہ آیت کے سبب نزول کے بارے میں تفسیر طبری میں منقول ہے ۔ ترجمہ :دور جاہلیت میں لوگ سود کھاتے تھے اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جب کسی کا دوسرے کے ذمہ مال ہوتا جس کی ادائیگی کا وقت آچکا ہوتا وہ صاحب حق سے کہتا آپ مدت میں اضافہ کریں میں آپ کے مال میں اضافہ کرتا ہوں جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو سود ہے جو حلال نہیں تو کہتے ہم بیع کے آغاز میں اضافہ کریں یا مدت پوری ہونے پر دونوں صورتیں یکساں ہیں تو اللہ نے ان کی تردید فرمائی‘‘۔
اسی طرح کی بات علامہ ابن العربی اور امام الرازی رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے ۔
و اللہ اعلم
[2] اوقیہ چاندی کے وزن کا پیمانہ ہے۔ ایک اوقیہ کی مقدار چاندی کے 40 درھم کے برابر ہوتی ہے
[1] صحیح بخاری:کتاب الشفعۃ،باب عرض الشفعۃ