پریس ریلیز برائے سیمنار اسلامی بینکاری شرعی میزان میں

مروجہ اسلامی بینکاری حیلہ سازی کی منظم واردات ہے۔

دنیا بھر میں رائج اسلامی بینکاری شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

عرب اسلامی بینکارو ماہرین اقتصادیات بھی مروجہ اسلامی بینکاری کےغیر اسلامی ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں۔علمائے اہلحدیث

کراچی ( ) علماءاہلحدیث نے مروجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری بھی کمرشل بینکوں کی طرح نقصان کے خدشہ سے خالی نظام کے تحت چل رہی ہے ۔ اسلام ایسے تجارتی معاملات کی اجازت نہیں دیتا جس کی بنیاد نفع و نقصان کے بجائےصرف منافع پر ہو۔اسلامی بینکوں میں اسکی واضح مثال بینک کا صارف کے ساتھ اجارہ کرنا یا مرابحہ کا معاہدہ کرتے وقت کچھ رقم ٹوکن منی کے نام پر وصول کرناہے تاکہ صارف کے خرید سے انکار کے وقت خود کو نقصان سے بچایاجاسکے ۔اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ اور مشارکہ سے بینکوں کا مقصد حقیقی اجارہ یا شراکت نہیں ہوتی بلکہ محض سرمائے کے لین دین کے ذریعے فائدہ کا حصول ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے اوریہ شرعی نقطہ نگاہ سے ہر گز جائز نہیں ہے۔جبکہ اسلامی بینکوں میں مرابحہ اور اجارہ میں منافع کاتعین کائبور ((KIBOR اور لائبور (LIBOR) کےمطابق کیا جاتا ہے۔ جوملکی اور بین الاقوامی سطح پر شرح سود کے پیمانے کے طور پراستعمال کئے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ملک بھر سے آئے ہوئے علماء اہلحدیث اور اسلامی ماہرین اقتصادیات نے اسلامی تحقیق کے ممتاز اور معتبر ادارے المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے زیر اہتمام جامع مسجد سعد بن ابی وقاص ڈیفنس کے احاطے میں ’’ اسلامی بینکاری شرعی میزان میں ‘‘ کے عنوان پر منعقدہ ممتاز سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینارسےملک کے مایہ ناز علماءمولانا عبداللہ ناصر رحمانی، شیخ الحدیث اورماہراسلامی معیشت و بینکاری حافظ ذوالفقار علی،حافظ عبدالحمید ازہر، حافظ مسعود عالم،معروف ماہر معیشت ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی اورشیخ حماد چاؤلہ نے بھی خطاب کیااورمتعلقہ موضوعات پر اپنے اپنے علمی مقالہ جات پیش کئے ۔ سیمینار میں کثیر تعداد میں علماء و مفتیان کرام ،اسلامی بینکاری سے متعلقہ شخصیات، سرمایہ داروں ،اعلی تعلیمی اداروں کے پروفیسراورطلباءنے شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ مروجہ اسلامی بینکاری کے نظم، اس میں رائج طریقہ کار اور طرق تعامل کا جائزہ لینےکے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہےکہ اسلامی بینک عام (کنوینشنل) بینکوں کے مشابہ ہیں ان کی بینکاری اسلامی معیشت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ اسلامی بینکوں میں کائبور ((KIBOR اور لائبور (LIBOR) کے شرح سود کو معیار BENCH MARK)) کے طور پر سامنے رکھ کر منافع یا کرایہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ جس سے اسلامی بینکاری میں کافی شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ شریعت اسلامیہ ہمیں شبہات سے بچنے کی ترغیب دلاتی ہے۔مقررین نے کہا کہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے کام کرنے والے عرب اسلامی بینکارو ماہرین اقتصادیات بھی مروجہ اسلامی بینکاری کےغیر اسلامی ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ لیکن اب تک ہمارے ملک میں اسے سود سے پاک بینکاری کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔جبکہ اسلام ہمیں ایسے امور کو ترک کرنے کا کہتا ہے جس میں شبہات پائے جاتے ہوں۔تاہم یہ بات قابل حیرت ہے کہ تاحال ان شبہات کو دور کئے بغیر اب تک اسلام کا نام لے کر بینکاری کی جارہی ہے۔علماء اور اسلامی ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ قرضے کی ادائیگی پرجرمانہ بھی شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے۔اسی لیے قرآن و حدیث میں ادائیگی میں تاخیر پر جرمانے کا کوئی تصور نہیں ملتا۔دنیا بھر کے علما ء اور مجتہدین اس بات پر متفق ہیں۔ اسی دلیل کی روشنی میں کسی بھی ایسے معاہدے میں شامل ہونا جائز نہیں جس میں تاخیر پر جرمانہ لگایا جائے۔ اس موقع پر المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کی جانب سے چیئرمین شیخ عثما ن صفدر نے اسلامی بینکاری کی اصلاح کے حوالے سے 19نکاتی سفارشات پیش کیں۔ جس کی تفصیل ریسرچ سینٹر کی ویب سائٹ www.islamfort.com پر پڑھی جاسکتی ہے۔شیخ عثمان صفدر نے کہا کہ اگر اسلامی بینک اسلامی معاشی نظام کے قیام کے حوالے سے اپنے دعویٰ میں مخلص ہیں تو انہیں چاہیے کہ بینکوں کو محض مالیاتی اداروں کے بجائے تجارتی ادارے بنانے کے لیے قدم اٹھائیں۔ اور اسلامی بینک ہر قسم کے مبہم و مشتبہ معاہدات و لین دین روک کر قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی بینکوں کے نظام کو درست کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔مقررین نے مزید کہا محض اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے کوئی بھی بینک اسلامی نہیں ہوجاتا بلکہ لین دین اور تجارت سے متعلق اسلامی اصطلاحات کو ان کے شرعی مفہوم کے مطابق اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔موجودہ اسلامی بینکاری مکمل طور پر شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اس لیے اسے اسلامی قرار دینادرست نہیں ۔البتہ مروجہ اسلامی بینکاری حیلہ سازی کی منظم واردات ہے،جس کے باعث مالی معاملات کے حوالے سے عوام الناس میں پایا جانے والا احساس گناہ بھی ختم ہو رہا ہے۔

علماء اہل حدیث نے اپنی سفارشات میں علماء و مفتیان کرام سمیت اسلامی بینکوں کے ذمہ داران اور شرعی ایڈوائزرز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام مبہم اورمشتبہ معاہدات اور لین دین سے گریز کی پالیسی اختیار کریں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے نظم اور مالی معاملات میں اصلاحات کے لئے کوشاں رہیں ۔ 

میڈیا منیجر

المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی

۵ صفر ۱۴۳۴ھ بمطابق: ۱۹ دسمبر۲۰۱۲ بروز بدھ

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort