مقدمہ
قضا (نظامِ قضا)، عدل اور قانون کا لغوی اور اصطلاحی تعارف
(الف) قضا کی لغوی تعریف
لغوی طور پر قضا کا مادہ (RoSot) ’ق، ض، ی‘ ہےجس کے درج ذیل معانی آتے ہیں:
(1) ’’إحكام الأمر وإتقانه والفراغ منه‘‘
دوسرے الفاظ میں
’’القاطع للأمور المحكم لها‘ أي إتمام الشيء قولا وفعلا‘‘
’’کسی معاملے کو مضبوط اور پختہ کرنا اور (مکمل کر کے) اس سےفارغ ہو جانا‘‘۔
بالفاظِ دیگر’’مکمل کیے گئے اُمور کو حتمی کر دینا‘‘۔یعنی قولاً وفعلا ًاسے مکمل کر دینا۔[2]
جیسے اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین ہیں :
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْ
فصلت – 12
’’ تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے۔‘‘ یعنی ان کی تخلیق کو مکمل کردیا۔
فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ
البقرة – 200
’’ پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اس طرح اللہ کا ذکر کرو۔‘‘
فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ
الاحزاب – 23
’’ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔‘‘
(2) القضاء کا مطلب’الحكم‘ یعنی فیصلہ کرنا اور’الإلزام‘ یعنی دوسرے پرلازم کرنا ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ
طهٰ – 72
یعنی ’’تم فیصلہ کر لو جو بھی کرنا ہے۔ ‘‘
اسی بنا پر قاضی کو قاضی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کے معاملات میں فیصلے کر کے اُن پر لاگو کرتا ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ کے فرامین ہیں :
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ
المائدة – 49
’’ ( اے محمدﷺ!) تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے مابین فیصلہ کرو۔‘‘
حاصل کلام یہ ہوا کہ قضا کے اندر فیصلے کی پختگی اور نفاذ کے معنیٰ پائے جاتے ہیں۔
(3) قضا کا مطلب الأمر بھی ہے یعنی ’’صرف حکم دینا‘‘ جیسا کہ فرمان ِ الٰہی ہے :
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
الاسراء – 23
’’تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ اپنے رب کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو۔‘‘
(ب) ’قضا‘ کا اصطلاحی مفہوم
قضاکے اصطلاحی معنی درج ذیل ہیں:
’’فصل الخصومات وقطع المنازعات بحكم شرعي على سبيل الإلزام‘‘۔
’’ جھگڑوں اور تنازعات کو یوں ختم کر دینا کہ شرعی حکم فریقین پر لازمی قرار پائے۔‘‘[3]
’’فصل الخصومات بقول ملزم صادر من ذي ولاية عامة”أي فصلها بين الناس بالأحكام الشرعية حسما للتداعي وقطعا للنزاع ‘‘
’’حاکم کی جانب سے صادر ہونے والے لازمی آرڈر کے ساتھ جھگڑوں کو ختم کرنا۔‘‘ یعنی ’’شرعی احکام کے ذریعے لوگوں کے درمیان دعووں کے خاتمے اور نزاع کو نمٹنانے کے لیے فیصلہ کرنا۔‘‘[4]
مسلم فقہانے اس کی متعدد تعریفات کی ہیں جن کا مقصد ومدعا یہ ہے کہ دو جھگڑا کرنے والوں کو اس فیصلہ کا پابند کیا جائے جو شریعتِ اسلامیہ کے مطابق ہو، گویا اس فیصلہ کو ان پر نافذ کیا جائے۔
’نظام قضا ‘کی تعریف
’شرعی نظام قضا‘کی تعریف یوں ہے :
’’ نظام القضاء في الشريعة الإسلامية يقوم على جملة أركان ومرتكزات فھو يستلزم وجود من يقوم بحسم الخصومات وفض المنازعات‘‘۔
’’شریعتِ اسلامیہ میں نظامِ قضا ان تمام ستونوں اور بنیادوں پر قائم ہوتاہے،جو جھگڑوں کے خاتمے اور تنازعات کے حل کے ضروری ہوتے ہیں۔‘‘[5]
جبكہ عام یعنی ’وضعی نظام قضا‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے:
’’مجموعة من القواعد المنظمة لهيئات السلطة القضائية في الدولة ولولايتھا‘‘۔
’’ ایسے ضوابط کا مجموعہ جو ریاست میں عدلیہ اور با اختیار اداروں کی تنظیم کی غرض سے بنائے جاتے ہیں۔‘‘[6]
نوٹ: قواعد و ضوابط کی عملداری کے دوران جو رویے تشکیل پاتے ہیں، وہ بھی ایک روایت بن جاتے ہیں ان ضوابط اور روایات کا مجموعہ ’نظام‘ کہلاتا ہے۔
(ج) قانون ،عدل اور شریعت
قانون كے لفظ کا پس منظر اور مفہوم یہ ہے:
’’القانون كلمة يونانية الأ صل تلفظ كما هي Kanun فانتقلت إلى الفارسية بنفس اللفظ ثم عُربت عن الفارسية بمعنى الأصل ودرج استخدامھا بمعنى ’أصل الشيء الذي يسير إليه أو المنھج الذي يسير بحسبه أو النظام الذي على أساسه تنتظم مفردات الشيء‘‘۔
’’لفظ ’قانون‘یونانی الاصل ہے جو پہلے فارسی میں اسی تلفظKanun کے ساتھ منتقل ہوا پھر فارسی سے اپنے اصلی معنیٰ میں ہی عربی زبان میں استعمال ہونے لگا جس کا مفہوم وہ بنیاد ہے جس کے مطابق عملداری ہوتی ہے یا وہ طریق کار ہے جسے اختیار کیا جاتا ہے یا ایسا نظام ہے جس کے تحت کسی معاملے کے اجزاء ترتیب پاتے ہیں ۔ ‘‘
قانون کی عام اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ:
’’القانون هو مجموعة القواعد القانونية التي تھدف إلى تنظيم سلوك الأفراد في المجتمع وتكون مسحوبة بجزاء توقِعه السلطة العامة على المخالف عند الاقتضاء‘‘۔
’’قانون سے مراد قانونی قواعدکا وہ مجموعہ ہے جن کا مقصد معاشرے میں افراد کے رویوں کو منظم کرنا ہو ، جبکہ وہ کسی ایسی سزا کے ساتھ منسلک ہو، جسے بوقتِ ضرورت خلاف ورزی کرنے والے پر پبلک اتھارٹی (حکومت)جاری کرے گی۔‘‘[7]
قانون کی دوسری تعریف یوں کی گی ہے:
’’وهو القواعد التي تنظم سلوك الأفراد في المجتمع تنظيمًا ملزمًا ومن يخالفھا يعاقب وذلك كفالة لاحترامھا‘‘۔
’’قانون سے مراد وہ قواعد ہیں جو معاشرے میں افراد کے رویّوں کو لازمی طور پر منظم کرنے کےلیےہوتے ہیں، اور جو کوئی ان کی مخالفت کرتا ہے، اسے سزا دی جاتی ہے،اور یہ سزا اس قانون کے احترام کی غرض سے دی جاتی ہے۔‘‘
خصوصی قوانین
(ا) خصوصی معاملات پر بننے والے قانون کی تعریف یہ ہے:
’’مجموعة القواعد المنظمة لأمر معيّن وضعت عن طريق السلطة التشريعية‘‘۔
’’کسی بھی خاص موضوع پرقوانین کا ایسا مجموعہ، جو قانون سازی کا اختیار رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہو۔‘‘[8]
(ب) کسی خاص علاقے کے لیے بننے والے قانون کی تعریف یہ ہے:
’’مجموعة القواعد القانونية النافذة في بلد ما يقال القانون الفرنسي‘‘۔
’’کسی ملک میں نافذ قانونی قواعد کا مجموعہ جیسے کہا جاتا ہے :فرانسیسی قانون‘‘۔[9]
قانون کی تیسری تعریف یوں کی گئی ہے:
’’القانون هو مجموعة من القواعد والأسس التي تعمل على تنظيم المجتمع‘‘۔
’’قانون سے مرادایسی بنیادوں اور قواعدکا مجموعہ ہے کہ معاشرے کی تنظیم کے لیے جن پر عمل کیا جاتا ہو۔‘‘[10]
عدل کی تعریف یہ ہے:
’’العدل هو فصل الحكومة على ما في كتاب الله سبحانه وسنة رسوله، لا الحكم بالرأي المجرد۔ كقوله تعالى:
اِنَّ اللهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ
النساء – 58
عدل سے مراد یہ ہے کہ ’’حکومت محض شخصی رائے کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بجائے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺکے مطابق فیصلہ کرے۔‘‘[11]
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتاہے کہ امانتوں کو ان کے اہل افراد کے سپرد کرو۔ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ ہی فیصلہ کرو۔‘‘
اور نبی کریمﷺکا فرمان ہے :
’’ كِتَابُ اللہ فِيهِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ، وَهُوَ الفَصْلُ لَيْسَ بِالهَزْلِ… مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ، وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ‘‘۔
’’یہ اللہ کی کتاب ہے،اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں ہیں ، بعد میں آنے والوں کےلیے پیشین گوئیاں ہیں، تمہارے درمیان جھگڑوں کے فیصلے ہیں، یہ فیصل ہے،مزاح نہیں ہے۔…جس نے اس کی بات کی، اس نے سچ کہا، جس نے اس پر عمل کیا اس نے ثواب پا لیا، جس نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا ،اس نے سیدھے رستے کی طرف دعوت دی۔‘‘[12]
انصاف صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریمﷺکی سنت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فأولئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
المائدۃ – 47
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
شریعت کی تعریف مختلف انداز سے کی جاتی ہے، پہلے ہم وہ تعریف ذکر کریں گے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پہلے شریعت کی حقیقی تعریف پھر بگڑی ہوئی تعریفوں کو واضح کیا ہے، اور بعد ازاں شریعت کی وہ تعریف ذکر کریں گے، جو پاکستان کے جملہ مکاتبِ فکر کے ہاں مسلمہ اور متفقہ ہے ۔
شریعت کا لفظ مداہنت سے فقہ اور بگڑی ہوئی شریعت پر بھی بول دیا جاتا ہے لیکن اللہ کی نازل کردہ شریعت صرف کتاب و سنت ہی ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لفظ’الشرع‘فى هذا الزمان يطلق على ثلاثة معان: شرع منزّل وشرع متأول وشرع مبدل… فالمنزل: الكتاب والسنة فھذا الذى يجب اتباعه على كل واحد ومن اعتقد انه لا يجب اتباعه على بعض الناس،فھو كافر۔
عصر حاضر میں لفظ شرع کا اطلاق تین معانی پر ہوتا ہے۔شرعِ منزل، شرعِ متاول اور شرع مبدل۔ شرع منزلسے مراد کتاب وسنت ہے جس کی اتباع کرنا ہر ایک پر واجب ہے اور جوشخص یہ عقیدہ رکھے کہ بعض لوگوں پر اس کی اتباع واجب نہیں ہے، وہ کافر ہے۔
گویا اجتہاد اگرچہ مشروع ہے لیکن کتاب وسنت سے مستنبط اجتہاد کا ثمرہ ’فقہ‘ کہلاتی ہے۔ شریعت محمدیہ میں حقیقی اختلاف نہیں ہو سکتا اس لیے وہ ایک ہی ہے مگر مجتہدین کا اختلاف بسا اوقات حقیقی ہوتا ہے اور پھر کتاب وسنت کی تعبیر تو عموما َ َمتنوع ہوتی ہے اسی لیے فقہ میں تعدد لازمی ہے۔ فقہ حنفی، فقہ جعفری، فقہ زیدی، فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ ظاہری کے الفاظ کا استعمال علماء کے ہاں عام ہے جبکہ حنفی شریعت اور شافعی شریعت کا لفظ گوارا نہیں کیا جاتا۔ صدر محمد ضیاء الحق مرحوم کے زمانہ میں سینٹ میں پیش کردہ شریعت بل پر جب اختلاف ہوا تو 1986ء میں اسے اتفاقی بنانے کےلیے مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر نے شریعت بل کی دفعہ (2) شق (ج) میں یہی تعریف کی تھی کہ’ ’شریعت سے مراد کتاب وسنت ہے‘‘۔
مذکورہ بالا تفصیل سے علم ہوا کہ شریعت سے مراد صرف کتاب وسنت ہے اور فقہا کی آرا کو شریعت نہیں کہا جاسکتا۔
(د) نزولِ شریعت کا مقصد
شریعت کے نزول کا مقصد اللہ کی بندگی اور اطاعت کے ذریعے معاشرے میں عدل وانصاف کا قیام بھی ہے:
َقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
الحدید – 25
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘
وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ
النساء – 58
’’ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔‘‘
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ، وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ
المائدۃ – 8
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔‘‘
اور وہی معاشرے ترقی پاتے ہیں جہاں عدل وانصاف کی حکومت ہو، جیسا کہ نبی کریمﷺکا فرما ن ہے:
’’إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ،أَنَّھُمْ كَانُوا يُقِيمُونَ الحَدَّ عَلَى الوَضِيعِ وَيَتْرُكُونَ الشَّرِيفَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ فَعَلَتْ ذَلِكَ لَقَطَعْتُ يَدَهَا‘‘
’’ تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی( چور) کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ لیتا۔ ‘‘[13]
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام’نظام القضاء في الدّول الإسلامية‘(النظریة والتطبيق)کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس کے مرکزی مباحث میں’’ تشریع الأحکام القضائية في الاسلام‘‘ (المصادر التي يجب أن يعتمد عليھا القاضي في إصدارأحكامه) کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عدالتی نظام کی قانونی حدود کے لیے پہلے دونوں دساتیر کا جائزہ لیا جائے۔ چنانچہ دونوں دساتیر کی الگ الگ اسلامی خصوصیات کا ذکر کرکے، پہلے چند تقابلی نکات بھی پیش کیے گئے ہیں۔ جس کے بعد دونوں اسلامی ممالک کے نظام القضاء کی چند خصوصیات کا ذکر اور تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا۔
پاکستانی اورسعودی دستور (نظام الحکم) کی اسلامی خصوصیات کا تجزیہ
کسی بھی ملک میں جاری قانونی نظام کے دو اہم پہلو ہیں:
ایک پہلو تو دستوری اور بنیادی قانون کے حوالے سے ہوتا ہے کہ اس میں اُصولی طور پر کیا کیا ضوابط قائم کیے گئے ہیں یہ نظام الحکم یا دستور کہلاتا ہے ۔ جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس دستور وقانون یا انصاف کے حصول کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا، جس میں قاضی کون ہوں گے؟ کس طرح نظام قضا چلے گا، اور فیصلہ کس طرح ہوگا، اگر کسی فیصلہ میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو تو نظرثانی یا اپیل کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ اس کو نظام القضاء کہا جاتا ہے۔
اس وقت 1973ء میں منظور ہونے والا پاکستانی دستورملک میں نافذ العمل ہے، جس میں اب تک 28 ترامیم بھی ہوچکی ہیں، یہ دستور 280 دفعات پر مشتمل ہے۔ جبکہ سعودی عرب میں نافذ العمل نظام الحکم(دستور)
یکم مارچ 1993ء کو نافذ کیا گیا، جس کے سات حصوں میں 80 دفعات ہیں، اس کے ساتھ ہی مجلس شوریٰ کا نظام بھی قائم کیا گیا جس کی 34 دفعات ہیں۔ ذیل میں ہر دو دساتیر کی اسلامی دفعات کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستانی دستور کی اسلامی دفعات
واضح رہے کہ پاکستانی نظام میں ایک قانون تو وہ ہے جو پارلیمنٹ کے ذریعے منظور ہوتا ہے ، اور دوسرا قانون کا وہ حصہ ہے جسے شرعی عدالت یا دیگر عدالتیں اصل قانون کی وضاحت کرتے ہوئے متعین کرتی ہیں۔ ان ہردو بنیادوں پر پاکستان کے مرکزی اور ذیلی قوانین میں اسلامی دفعات کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
(1) قرارداد مقاصد[14] (Objective Resolution) 12 مارچ 1949ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی جو دستور کا دیباچہ ہی رہی تاہم 1977ء کے انقلاب کے بعد پاکستانی دستور کے آرٹیکل 2 کے بعد 2A کا اضافہ کر کے قرار داد مقاصد کو آئین کا لازمی حصہ مارچ 1985ء میں بنایا گیا تھا ۔لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل فل بینچ نے جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں زیر سماعت مقدمہ حاکم خان وغیرہ بنام حکومت پاکستان میں بتاریخ 19 جولائی 1992ء فیصلہ کیا کہ آرٹیکل 2A کو دستور کے باقی آرٹیکل پر کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے پارلیمنٹ ہی دیگر آرٹیکلز میں ترمیم کر کے تضادات ختم کر سکتی ہے[15]۔
قرار داد مقاصد کا اُردو ترجمہ ملاحظہ ہو:
اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکت ِ غیرے حاکم ِمطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔
مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اُصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
جس کی رو سے اس امر کا قرارِواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں،اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے،عمل کر نے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
جس کی رو سے وہ علاقے جو اَب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں،ایک وفاق بنا ئیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون واخلاق اجازت دیں،مساوات،حیثیت ومواقع کی نظر میں برابری،عمرانی،اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارخیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہو گی۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جا ئز حقوق کے تحفظ کا قرارِ واقعی انتظام کیا جائے گا۔
جس کی رو سے نظام ِعدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہو گی۔
جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت،آزادی اور جملہ حقوق ،بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گاتاکہ اہل ِپاکستان فلاح وبہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف
میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکیں۔ ‘‘
پاکستان کے دستور 1973ء میں جو مزید دفعات اسلامی کہی جاتی ہیں ان کا مختصر ذکر یوں ہے:
(2)-آرٹیکل 29سے 40 تک جو پالیسی کے اصول ہیں ، وہ بھی اسلامی تہذیب وتمدن کے فروغ پر مبنی ہیں اگرچہ آرٹیکل 30 کی شق 2 میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ انہیں کسی عدالت میں قانونی لزوم کے طور پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم قومی زبان اردو کے بارے میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں آرٹیکل 251 کے تحت اہم فیصلہ کیا ہے جسے نافذ کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹیفکیشن کردیا ہے۔
(3) -مسلم عائلی قوانین 1961ء
(4)- قادیانی غیر مسلم اقلیت7 ؍ستمبر1974ء
(5)- ہائیکورٹوں میں شریعت بنچ1979ء [16]
(6)- بدکاری کا انسداد1962 ء
(7)- حدود آرڈیننس 1979ء
(8)-سود کا خاتمہ …ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن كے سلسلے میں
(9)- وفاقی شرعی عدالت کا قیام… 26 مئی 1980ء
(10)- زکوٰۃ وعشر آرڈیننس… 20 جون 1980ء
(11)- نفاذِ شریعت آرڈیننس 15 جون 1988ء
(12)- حق شفعہ کے قانون کی بیشتر دفعات جو سپریم کورٹ آف پاکستان (شریعت اپلیٹ بنچ) کے فیصلہ 1986ء کی رو سے غیراسلامی قرار پائیں۔
(13)-قصاص ودیت کے قانون کی 56 دفعات(جون 1990ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان(شریعت اپلیٹ بنچ) نے قرآن وسنت کے احکام کے منافی قرار دیں۔اس فیصلہ میں یہ اہم امر بھی شامل کیاکہ اگر متعینہ مدت تک نیا قانون نافذ نہ کیا گیا تو قرآن وسنت کے احکامات براہ راست نافذ ہوں گے)
(14)-امتناعِ توہین رسالت کا قانون، 30 ؍اپریل 1991ء،شرعی عدالت کے فیصلے کی رو سے
(15)-بعض سودی قوانین جنہیں26 جون 1990ء کے بعد 14؍ نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت نے غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ لیکن اب تک اپیلوں اور ریمانڈ وغیرہ کے ذریعے حکومت نے سودی قوانین کو شریعت سے محفوظ کررکھا ہے۔[17]
سعودی عرب کے دستور (نظام الحکم) کی اسلامی دفعات
سعودی دستور کی براہ راست نفاذ شریعت کے بارے میں اہم دفعات کا متن مع ترجمہ حسبِ ذیل ہے:
(1) ’’المادة الأولى:المملكة العربية السعودية دولة عربية إسلامية، ذات سيادة تامة، دينھا الإسلام، ودستورها كتاب الله تعالى وسنة رسول الله، ولغتھا هي اللغة العربية، وعاصمتھا مدينة الرياض‘‘۔
’’آرٹیکل1: مملکت ِ سعودی عرب مکمل طور پر خود مختار عرب اسلامی ملک ہے، اس کا دین’اسلام‘،دستور’کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘،زبان’عربی‘اور دارالحکومت’الریاض‘ہے۔‘‘
(2)–’’المادة السادسة:يبايع المواطنون الـمَلِك على كتاب الله تعالى وسنة رسوله،وعلى السمع والطاعة في العُسر واليسر والمنشط والمكره‘‘۔
’’آرٹیکل 6: ملک کے تمام شہری بادشاہ کی، کتاب اللہ اور سنت ِرسولﷺپر، نیز تنگی و خوشحالی اور پسندوناپسند، ہرصورت میں سمع و طاعت پربیعت کریں گے۔‘‘
(3)-’’المادة السابعة: يستمدّ الحكم في المملكة العربية السعودية سلطته من كتاب الله تعالىٰ وسنة رسوله، وهما الحاكمان على هذا النظام وجميع أنظمة الدولة‘‘۔
’’آرٹیکل 7: حکومت کے ملک میں جملہ اختیارات کتاب اللہ اور سنت رسولﷺکی بنا پر ہوں گے،اور ان دونوں (کتاب و سنت) کو اس نظامِ حکومت اور ملک میں رائج دیگر تمام نظاموں پر بالادستی اور برتری حاصل ہوگی۔‘‘
(4)-’’المادة الثامنة: يقوم الحكم في المملكة العربية السعودية على أساس العدل والشورٰى والمساواة وفق الشريعة الإسلامية‘
’’آرٹیکل 8: حکومت، شریعت ِاسلامی کے مطابق عدل و انصاف، شورائیت اور مساوات جیسے بنیادی اُصولوں پر قائم رہے گی۔‘‘
(5)’’المادة التاسعة:الأسرة هي نواة المجتمع السعودي، ويُربي أفرادها على أساس العقيدة الإسلامية وما تقتضيه من الولاء والطاعة لله ولرسوله ولأولى الأمر،واحترام النظام وتنفيذه وحبّ الوطن والاعتزاز به وبتاريخه المجيد‘‘۔
’’آرٹیکل 9:سعودی معاشرے کی بنیاد ’خاندان‘ ہے جس کے افراد کی تربیت اسلامی عقیدے کی بنیاد پر کی جائے گی، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ ،اُس کے رسولﷺاور اولوا الامر کی اطاعت وفرمانبرداری قبول کی جائے۔اسی طرح حکومت کے نافذ کردہ نظاموں کا احترام ، وطن کی عزت ومحبت اور اس کی شاندار تاریخ کی بنیاد پرکیا جائے ۔‘‘
(6) ’’المادة العاشرة: تحرص الدّولة على توثيق أواصر الأسرة، والحفاظ على قيمها العربية والإسلامية، ورعاية جميع أفرادها، وتوفير الظروف المناسبة لتنمية ملكاتھم وقدراتھم‘‘۔
’’آرٹیکل 10:حکومت، خاندان کے مابین تعلق کو مضبوط بنانے، اس کی عربی اور اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے، اس کے تمام افراد کی دیکھ بھال اور ان کی اہلیّتوں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے مناسب ماحول مہیا کرنے میں انتہائی طور پر کوشاں رہے گی۔‘‘
(7)’’المادة الحادية عشرة:يقوم المجتمع السعودي على أساس من اعتصام أفراده بحبل الله، وتعاونھم على البر والتقوى، والتكافل فيما بينھم، وعدم تفرقھم‘‘۔
’’آرٹیکل 11:سعودی معاشرے کا قیام اس اساس پرہوگا کہ اس کے تمام افراد اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، نیکی اور پرہیزگاری کے اُصولوں پر ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور تفرقہ سے اجتناب کریں۔‘‘
(8)’’المادة الثانية عشرة:تعزيز الوحدة الوطنية واجب،وتمنع الدولة كل ما يؤدي للفرقة والفتنة والانقسام‘‘۔
’’آرٹیکل 12:ملکی وحدت اور سا لمیت کی حفاظت ہر سعودی شہری کا فرض ہے اور حکومت ہر ایسی کوشش سے روکے گی جو فرقہ بندی، فتنہ فساد اور انقسام پر منتج ہو۔‘‘
(9) ’’المادة الثالثة عشرة:يھدف التعليم إلى غرس العقيدة الإسلام في نفوس النشئ، وإكسابھم المعارف والمهارات،وتھيئتھم ليكونوا أعضاءنافعين في بناء مجتمعھم محبين لوطنھم معتزين بتاريخه‘‘۔
’’آرٹیکل 13:نئی نسل کے دلوں میں اسلامی عقیدے کی ترکیزو آبیاری، اسے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے امداد مہیا کرنااور اس طرح تیار کرنا کہ وہ اپنے معاشرے کی تعمیر میں نفع بخش ثابت ہو، اپنے وطن سے محبت اور اپنی تاریخ پر فخر کرے، تعلیم کے اہداف ہوں گے۔‘‘
(10)’’المادة السابعةعشرة:الملكيةورأس المال والعمل مقومات أساسية في الكيان الاقتصادي والاجتماعي، وهي حقوق خاصة تؤدي وظيفة اجتماعية وفق الشريعة الإسلامية.
’’آرٹیکل 17:ملکیت، سرمایہ اورمحنت… ملک کے اقتصادی اور اجتماعی ڈھانچے کی بنیادیں ہیں۔ یہ خاص (انفرادی) حقوق ہیں جوشریعت ِاسلامیہ کے مطابق اجتماعی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔‘‘
(11)’’المادة العشرون:لاتفرض الضرائب والرسوم إلا عند الحاجة،وعلى أساس من العدل، ولايجوز فرضھا أو تعديلها أو إلغاؤها أو الإعفاء منھا إلا بموجب النظام‘‘۔
’’آرٹیکل 20:ٹیکس اور محصولات صرف ضرورت کے تحت اور منصفانہ بنیاد پر عائد کیے جائیں گے۔ ان کا عائد کرنا یا ان میں کوئی ترمیم، یا ان کو معاف کرنا وغیرہ صرف نظام کے مطابق عمل میں آئیں گے۔‘‘
(12) ’’المادة الحادية والعشرون: تجبى الزكاة وتنفق في مصارفھا الشرعية‘‘۔
’’آرٹیکل 21:زکوٰۃ وصول کی جائے گی اور اسے اس کے شرعی مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔‘‘
(13) ’’المادة الثالثة والعشرون:تحمي الدولة عقيدة الإسلامية وتطبق شريعته،وتأمر بالمعروف وتنھى عن المنكر، وتقوم بواجب الدعوة إلى الله‘‘۔
’’ آرٹیکل 23:حکومت، عقیدۂ اسلام کی حفاظت اور شریعت ِ اسلامیہ کو نافذ کرے گی، اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے گی اور دعوت الیٰ اللہ کا اہتمام کرے گی۔‘‘
(14) ’’المادة الرابعة والعشرون: تقوم الدولة بإعمار الحرمين الشريفين وخدمتھا وتوفر الأمن والرعاية لقاصديھما، بما يمكن من أداء الحج والعمرة والزيارة بيُسرٍ وطمأنينة‘‘۔
’’آرٹیکل 24: حکومت، حرمین شریفین کی تعمیر اور ان کی خدمت کافرض پوراکرے گی، ان کی طرف قصد کرنے والوں کے لیے امن و سلامتی اور ان کی دیکھ بھال کو یقینی بنائے گی تاکہ حج و عمرہ اورزیارتِ (مسجد ِنبویﷺ) اطمینان و سکون سے انجام پاسکیں۔‘‘
(15)’’المادة الخامسة والعشرون: تحرص الدولة على تحقيق آمال الأمة العربية والإسلامية في التضامن وتوحيد الكلمة وعلى تقوية علاقاتھا بالدول الصديقة‘‘۔
’’آرٹیکل 25:حکومت، عرب اور مسلم اُمت کے باہمی تعاون اور اتحاد کی آرزؤں کی تکمیل کے لیے انتہائی کوشاں رہے گی اور دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرے گی۔‘‘
(16) ’’المادة السادسة والعشرون:تحمى الدولة حقوق الإنسان وفق الشريعة الإسلامية‘‘۔
’’آرٹیکل 26:مملکت شریعت ِاسلامیہ کے مطابق حقوقِ انسانی کی حفاظت کرے گی۔‘‘
(17)’’المادة السابعة والعشرون: تكفل الدولة حق المواطن وأسرته في حالة الطواري والمرض والعجز والشيخوخة، وتدعم نظام الضمان الاجتماعي، وتشجع المؤسسات والأفراد على الإسھام في الأعمال الخيرية‘‘۔
’’آرٹیکل 27:ہنگامی حالت، بیماری، معذوری اوربڑھاپے میں حکومت سعودی شہری اور اس کے خاندان کے حقوق کی کفالت، ’سوشل سیکورٹی‘ (تحفظ ِعامہ) کے نظام کی مالی امداد اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے والے اداروں اور افراد کی حوصلہ افزائی کرے گی۔‘‘
(18)’’المادة الثالثة والثلاثون:تنشيء الدولة القوات المسلحة وتجهزها،من أجل الدفاع عن العقيدة والحرمين الشريفين والمجتمع والوطن‘‘۔
’’آرٹیکل 33:حکومت مسلح افواج بنائے گی اور اُنہیں عقیدۂ اسلامیہ، حرمین شریفین، معاشرے اور وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے تیارکرے گی۔‘‘
(19) ’’المادة الرابعة والثلاثون:الدفاع عن العقيدة الإسلامية والمجتمع والوطن واجب على كل مواطن، ويبين النظام أحكام الخدمة العسكرية‘‘۔
’’آرٹیکل4 3: عقیدہ اسلامیہ، معاشرے اور وطن کادفاع کرنا ملک کے ہر شہری پر لازم ہوگا۔ تاہم ایک الگ نظام فوجی خدمات کے دیگراَحکام کو واضح کرے گا۔‘‘
(20) ’’المادة الثامن والثلاثون:العقوبة شخصية ولا جريمة ولاعقوبة إلا بناء على نص شرعي، أو نص نظامي، ولا عقاب إلا على الأعمال اللاحقة للعمل بالنص النظامي‘‘۔
آرٹیکل 38:سزا فرد کا شخصی معاملہ ہے۔کسی شرعی یا انتظامی خلاف ورزی کے بغیر کوئی فعل جرم قرار نہیں پائے گا، نہ اس پر سزا دی جاسکے گی اور سزا بھی اُسی فعل پر دی جائے گی جو اس کے متعلق جاری ہونے والے نظام کے بعد سرزَدہو۔‘‘
(21) ’’المادة الثالثة والأربعون:مجلس الملك ومجلس ولي العھد، مفتوحان لكل مواطن ولكل مَن له شكوىٰ أو مظلمة، ومن حق كل فرد مخاطبة السلطات العامة فيما يعرض له من الشؤون‘‘۔
’’آرٹیکل 43: بادشاہ اور ولی عہد کے ایوان ہر شہری اور ہر اس شخص کے لیے کھلے ہیں جسے کوئی شکایت ہو یا جس کا حق سلب کیا گیا ہو۔ نیز ہر شہری کو اپنے معاملات کے سلسلے میں متعلقہ حکام سے رجوع کرنے کا حق ہوگا۔‘‘
(22) ’’المادة الخامسة والأربعون: مصدر الإفتاء في المملكة العربية السعودية كتاب الله تعالىٰ وسنة رسول الله، ويبين النظام ترتيب هيئة كبار العلماء وإدارة البحوث العلمية والإفتاء واختصاصاتھا‘‘۔
’’آرٹیکل 45:مملکت میں فتویٰ دینے کا سرچشمہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺہے۔قانون کے ذریعے ’کبارعلماء کونسل‘اور’ادارۂ بحوثِ علمیہ‘کی ترتیب اور ان دونوں کے فرائض کو بیان کردیا جائے گا۔
(23) ’’المادة السادسة والأربعون:القضاء سلطة مستقلة ولا سلطان على القضاة في قضائھم لغير سلطان الشريعة الإسلامية‘‘۔
’’آرٹیکل46: ’عدلیہ‘ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہوگا جس پرشریعت ِاسلامیہ کی بالادستی و برتری کے علاوہ اور کوئی بالادستی نہیں ہوگی۔‘‘
(24)’’المادة الثامنة والأربعون:تطبق المحاكم على القضايا المعروضة أمامھا أحكام الشريعة الإسلامية وفقًا لما دلّ عليه الكتاب والسنة، وما يصدره ولي الأمر من أنظمة لا تتعارض مع الكتاب والسنة‘‘۔
آرٹیکل 48:تمام عدالتیں پیش ہونے والے جملہ مقدمات میں شریعت ِاسلامیہ کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی جیساکہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺسے ثابت ہیں۔ نیز انتظامی عدالتیں حکام کی طرف سے نافذ کردہ اُن نظاموں کے مطابق فیصلہ کریں گی جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول ﷺکے مخالف نہ ہوں۔‘‘
(25) ’’المادة السابعة والستون:تختص السلطة التنظيمية بوضع الأنظمة واللوائح فيما يحقق المصلحة،أو يرفع المفسدة في شؤون الدولةوفقًا لقواعد الشريعة الإسلامية،وتمارس اختصاصاتها وفقًا لهذا النظام ونظامي مجلس الوزراء ومجلس الشورٰى‘‘۔
آرٹیکل 67:انتظامیہ کو شریعت ِاسلامیہ کے قواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسے ضوابط اور پروگرام بنانے کا اختیار حاصل ہوگا جو مصالح عامہ اور رفعِ مفاسد کے لیے معاون ثابت ہوں گے۔ اسی طرح انتظامیہ اپنے خصوصی اختیارات، اس دستور،کابینہ اور مجلس شوریٰ کے نظاموں کے مطابق استعمال کرے گی۔‘‘
پاکستان اورسعودی عرب کے دساتیر کے اسلامی آرٹیکلز کا ایک تقابلی جائزہ
(1)کتاب وسنت کی براہِ راست تنفیذ یا ان کے حوالے سے بننے والےقانون کی:
سعودی عرب کا دستور و نظام براہِ راست کتاب وسنت کی تنفیذ ہے،[18]جبکہ پاکستانی دستور وقانون میں پارلیمنٹ کی بالا دستی [19]ہے۔حتیٰ کہ کتاب وسنّت سے مستنبط احکام کا تعین بھی پارلیمنٹ کا ہی مرہونِ منت ہے۔اورسپریم کورٹ کےفل بنچ کے فیصلے 1992ء کی رو سے ان اسلامی احکام کو دیگر دستوری دفعات پر کوئی بالا دستی حاصل نہیں ہوگی بلکہ ا س کے منافی کسی دستوری آرٹیکل یا قانون کے تضاد کو دور کرنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔کوئی عدالت ایسے تضاد کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
(2)قرآن وسنت کے منافی قرار دینے کا اُلجھا طریق کار : دستور کے باب نہم (اسلامی احکام)آرٹیکل 227 تا 231میں قرآن وسنت سے مستنبط احکام کے منافی کسی قانون کو کالعدم قرار دینے کی بات تو ضرور کہی گئی ہے، لیکن اس کو نافذ العمل کرنے کا طریق کار اس قدر طوالت اور اُلجھاؤ کا شکار ہے کہ ان مستنبط اسلامی احکام کا نفاذبھی عملاً ایک خواب بن کر ہی رہ گیا ہے۔آرٹیکل 227 (2) کا اردو ترجمہ یوں ہے:
’’ شق (1) کے احکام کو صرف اس طریقہ کے مطابق نافذ کیا جائے گا، جو اس حصہ [باب نہم]میں منضبط ہے۔‘‘
(3)انسانی حقوق کا براہ راست نفاذ جبکہ شریعت قانون سازی کی محتاج : پاکستانی دستور کے باب اوّل میں انسانی حقوق (آرٹیکل 8 تا 28) کو توعدلیہ براہِ راست نافذ کرسکتی ہے اور جج اپنے فیصلے میں انسانی حقوق کے منافی کسی قانون کا پابند نہیں ہے، لیکن شریعت کو قانون سازی کے ذریعے بالواسطہ ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔اگر چہ سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ نے شفعہ اور حدود وغیرہ کے بعض مقدمات میں یہ صراحت بھی کی کہ ’’متبادل قانون نہ آنے کی صورت میں شرعی احکامات ہی براہِ راست نافذ العمل ہوں گے۔‘‘
جبکہ باب اوّل میں مندرج حقوق کے حصول کے لیے ہائیکورٹ کے اختیارات سماعت پر کوئی پابندی نہیں ہے:
’’199 ج(2): دستور کے تابع ، حصہ دوم کے باب 1 میں تفویض کردہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے لیے کسی عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کا حق محدود نہیں کیا جائے گا۔‘‘
(4) وفاقی شرعی عدالت سے اہم قوانین کا استثنا اور متبادل قوانین کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع: شرعی عدالت کے اختیارات کے بارے میں دستور کے باب 3 ؍الف کی رو سے دستور وغیرہ اہم قوانین کو مستثنیٰ کرکےفیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ )بنایا گیا، تو اسے غیرمحدودطول طویل سماعت کے بعد جن ذیلی قوانین کو کلی یا جزوی طور پر کالعدم قرار دینے کا اختیار دیا گیا، تو پھر بھی اصل قانونی اختیار پارلیمنٹ کو ہی حاصل رہا ہے۔ نتیجتاً دستور کے دونوں باب ( 3 ؍ الف اورباب نہم ) عملاً غیر مؤثر ہوگئے ہیں۔ جیساکہ دستورِ پاکستان کے باب 3 ؍ الف (وفاقی شرعی عدالت) میں قانون کی تعریف کو یوں محدود کردیا گیا ہے:
203ب(ج)’’قانون میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو مگر اس میں دستور، مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس بات کے آغازِ نفاذ سے دس سال کی مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون یا محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اور جمع کرنے یا بینکاری یا بیمہ کے عمل او ر طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے۔‘‘[20]
جبکہ وفاقی شرعی عدالت کا مقصد 203 د (3 ؍الف ) میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’ اگر عدالت کی طرف سے کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم اسلامی احکام کے منافی قرار دے دیا جائے تو … الف) وفاقی فہرست قانون سازی میں شامل کسی امر کے سلسلے میں کسی قانون کی صورت میں صدر یا کسی ایسے امر کے سلسلے میں مذکورہ فہرست میں سے کسی میں بھی شامل نہ ہو، کسی قانون کی صورت میں گورنر اس قانون میں ترمیم کرنے کے لیے اقدام کرے گا، تاکہ مذکورہ قانون یا حکم کو اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے۔
(3ب) : مذکورہ قانون یا حکم اس حد تک جس حد تک اسے بایں طور منافی قرار دے دیا جائے، اس تاریخ سے جب عدالت کا فیصلہ اثر پذیر ہو، مؤثر نہیں رہے گا۔ ‘‘ [21]
(5)- حکمتِ عملی کے اصول(اسلامی تہذیبی قوانین ) فی الحال نافذ العمل نہیں: دستور کے باب 2 (حکمتِ عملی کے اصول، آرٹیکل 29 تا 40)کی رو سے اسلامی تہذیب وتمدن سے متعلق بعض اہم قوانین کو حکمتِ عملی کے اصولوں کو پالیسی کے طور پر پیش تو کیا گیا ہے تاہم اسی باب کے آرٹیکل 30( شق 2)میں یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ مذکورہ پالیسی کے قوانین قابل نفاذ نہیں ہیں :
’’کسی فعل یا کسی قانون کے جواز پر اس بنا پر اعتراض نہیں کیا جائے گا، کہ وہ حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور نہ اس بناپر مملکت ، مملکت کے کسی شعبے یا ہئیت مجاز یا کسی شخص کے خلاف کوئی قانونی کاروائی قابل سماعت ہوگی۔‘‘
(6)-کتاب وسنت سے متضاد ہونا یا اس کےمطابق ہونا ؟ پاکستانی دستور کے اسلامی آرٹیکلز میں کسی قانون کے کتاب وسنت سے متضاد ہونے کی بات کہی گئی ہے،جبکہ سعودی عرب کے دستور (نظام الحکم) میں کسی بھی قانون کے لیے لازمی ہے کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق ہویا اس سے ماخوذ ہو اورکتاب وسنت کے منافی ہونے کی بات صرف انتظامی اختیارات کے بارے میں ہےجن کو ’نظام‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ [22]
یہ مقالہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی کے زیر اہتمام المصادر التی یجب أن یعتمد عليها القاضی في إصدار أحکامه کے موضوع پر تیار کیا گیا ہے، اس لیے اپنے مرحوم دوست بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے سابق صدر ، وفاقی وزارتِ مذہبی امور کے سابق وزیر، اور وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی یاددہانی کی غرض سےان کی تحریر سے متعلقہ اقتباسات پیش کر تا ہوں :
ڈاکٹر محمود احمد غازی سعودی عرب کے نفاذِ شریعت کے ماڈل کو اسلامی دنیا میں نفاذ شریعت کا کامیاب ترین تجربہ قرار دیتے ہیں، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سعودی عرب میں دنیا بھر سے زیادہ امن وامان بھی پایا جاتا ہے ، آپ لکھتے ہیں:
’’اس معاملے میں غالبًا واحد استثنا برادر ملک سعودی عرب کا ہے جہاں اسلام کے فوجداری قوانین انتہائی مؤثر انداز میں نافذ ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حدود اور اسلام کے فوجداری قوانین کا جتنا مؤثر نفاذ سعودی عرب میں ہوا ہے، اتنا مؤثر نفاذ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے حدود اور فوجداری قوانین کے ثمرات وقتًا فوقتًا بیان کیے جاتے رہے ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کے قوانین حدود کو مؤثر سمجھا جا تا رہا، اس کی واحد کامیاب مثال ابھی تک برادر ملک سعودی عرب ہی ہے۔ بقیہ ممالک میں حدود کے قوانین کا تجربہ یا تو مختلف اسباب کی بنا پر جزوی طور پر کامیاب رہا یا اس کی کامیابی اور ناکامی کا علمی اعتبار سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ ‘‘[23]
اس کے بالمقابل ڈاکٹر غازی پاکستان میں جاری شریعت کی قانون سازی کے تجربے کو فوری سہولت اور وقتی مجبوری کے تحت اختیار کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ تجربہ تو وہ تھا جو پاکستان میں سامنے آیا۔ لیکن اس تجربے کی کمزوریوں یا اس میں غلطیوں کے باوجود کم ازکم شخصی قوانین کی حد تک پاکستان میں آیا اور پاکستان کے علاوہ متعدد مسلم ممالک میں عدم تقنین کا تجربہ خاصی کامیابی سے جاری ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شخصی قوانین پر اُردو، انگریزی اور دوسری زبانوں میں کثرت سے مواد دستیاب ہے۔ ان احکام پر گزشتہ دو سو، ڈھائی سو سال سے مسلسل عمل ہو رہا ہے اور کیس لاء پر اتنا مواد اور نظائر (Precedents) تیار ہو گئے ہیں کہ اب کسی نئی صورت حال کا پیش آنا انتہائی شاذ ونادر حالات میں ہوتا ہے جس کے لیے اعلیٰ عدالتیں فیصلہ دے کر ایک نئی نظیر قائم کر دیتی ہیں۔‘‘[24]
سعودی اور خلیجی ممالک کے نظام کی کامیابی اور اثرپذیری کو تسلیم کرتے اور پاکستان میں جاری قانونی طریقہ کار کو فوری سہولت قرار دینے کے بعد ڈاکٹر محمود غازی لکھتے ہیں کہ درحقیقت تدریجاً ایک مثالی اور بہتر نظام کی طرف پیش قدمی بہر طورضروری ہے:
’’حکومتِ وقت یا قانون ساز ادارہ ایک نقطہ نظر کو لازم اور واجب التعمیل قرار دے اور اس کی بنیاد پر ایک فیصلہ متعین کر دے جس کی روشنی میں قانون کی تدوین کی جائے۔ (صفحہ 173)
جس کی موجودگی کسی بھی اسلامی دستور کے لیے ناگزیر ہے اور کون سی چیز وہ ہے جو محض انتظامی نوعیت کی ہے، جس کی حیثیت وقتی ہو گی۔ (صفحہ 164)
جب ایسا نظامِ تعلیم کا م شروع کر دے گا اور ایسے متخصّصین سامنے آنے شروع ہو جائیں گے، اس وقت شاید یہ کہا جا سکے گا کہ قوانین شریعت کو مدوّن اور ضابطہ بند کرنے کی ضرورت ہو ختم ہو گئی ہے لیکن جب تک ایسا نہیں ہو تا اور ملک کے عام قانون داں، وکلاء اور جج صاحبان احکام شریعت سے براہ راست واقفیت رکھنے والے کثیر تعداد میں دستیاب نہ ہوں، اس وقت تک عدم تقنین یا مختصر تقنین سے نفاذ شریعت کے تقاضے پورا کرنا انتہائی مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔‘‘ [25]
سعودی اور پاکستانی نظام قضا کی خصوصیات اور تقابلی جائزہ
بلاشبہ عدالتی نظام کا مقصد فریقین کے مابین متنازعہ حقوق کے بارے میں ’’حق بحق دار رسید‘‘ ہوتا ہے۔مزید برآں بنیادی حقوق (مذہب، جان، عقل، نسل اور مال وغیرہ) کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ کمزور فریق پر طاقتور فریق کی زیادتی کا ازالہ کیا جائے۔ پاکستانی نظام میں اگرچہ بڑی ذمہ داری عدلیہ پر ڈالی گئی ہے، تاہم سرکاری ملازمین کے ناجائز اختیارات کے ازالہ کے لیے سویڈن سے درآمدہ ایک نظامِ احتساب Ombudsman بھی رائج ہے۔ لیکن قانون کا تصوّر زیادتی کرنے والے کو سزا دے کر صرف تحفظ دینے تک محدود ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب کا نظام انصاف اسلامی تاریخ کے تسلسل میں تین متوازی؍مربوط اداروں پر مشتمل ہے۔چنانچہ عدلیہ کے علاوہ دو اہم ادارے الحسبة (هيئة الامر بالمعروف والنھي عن المنكر) اور ديوان المظالم بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔کیونکہ شریعت کا مقصد سزا کے ذریعے صرف دُکھ دینے کا نہیں بلکہ فرد ومعاشرہ کو اس طرح سنوارنا ہے کہ وہ نہ صرف ایک دوسرے کے حقوق سلب نہ کریں، بلکہ سزا کے ذریعے معاشرے کو امن وامان کو گہوارا بنا دیا جائے۔عربی زبان کے لفظ ’تعزیر‘ کا مفہوم ’معاشرتی برائیوں کا علاج کرکے استحکام پیدا کرنا‘ہے۔ اس لیے تادیب (ادب وسلیقہ سکھانا) کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ شریعت صرف قانون نہیں ہے بلکہ حقوق وفرائض دونوں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب تک فرد اور معاشرے کی تربیت نہ کی جائے، حقوق کا تحفظ اور امن وامان قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی غرض سے نظام احتساب(هيئة الأمر بالمعروف والنھي عن المنكر)کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں بھلائی کو فروغ ملے اور برائیوں کا خاتمہ ہو۔ یہ ایک خود کار نظام ہے جو شکایت کنندہ کے بغیر بھی جاری وساری رہتا ہے۔ عبادات کے علاوہ اخلاق ومعاملات کے وسیع دائرہ کی اصلاح اسی نظام احتساب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح دیوانِ مظالم کا بڑا مقصد اختیارات کے حامل افسروں اور عہدیداروں کی کڑی نگرانی ہے۔
جس میں نظام احتساب کے افسران اور عدلیہ کے عہدیداران کے غیر محدود اختیارات کی حامل زیادتیوں کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے۔ Check & Balanceکے دو مستقل اور متوازی نظاموں کے وسیع دائرہ کار کی وجہ سے عدلیہ پر زیادہ دباؤ نہیں رہتا بلکہ عام عدالتوں سے صرف وہ لوگ رجوع کرتے ہیں،جو نظام احتساب اور دیوان المظالم سے انصاف حاصل نہ کرسکیں۔
واضح رہے کہ دیوان المظالم حکومت کی پوری مشینری کے علاوہ Administrative Courts کی صورت ایک مستقل عدالتی نظام بھی رکھتا ہے۔ (اس کا ذکر عدالتی نظام کے ضمن میں آ رہا ہے )
فی الحال مقالہ مختصر کرنے کے لیے نظام احتساب اور دیوان المظالم دونوں پر تبصرہ نہیں کیا جارہا بلکہ صرف عام سعودی اور پاکستانی عدالتی نظام کی چند ایک خصوصیات کا جزوی تقابلی مطالعہ ہی پیش کیا جاتا ہے البتہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کی مؤثر تنفیذ کے لیے بھی تقریباً تین سال قبل سعودی عرب نے المحاکم المختصة للتنفیذکے نام سےمزید نظام قائم کیا ہے (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔سعودی عرب کے عدالتی نظام اور پاکستان کے عدالتی نظام کی خصوصیات عربی زبان میں مقالہ کے ضمیمہ کے طورپر منسلک ہیں جبکہ ذیل میں صرف ان کا خلاصہ اُردو زبان میں پیش کیا جاتا ہے:
(1) عدالتی ڈھانچہ : انصاف کے عمل کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے سعودی نظام عدل میں مقدمات کی نوعیت کے مطابق عدالتوں کی تقسیم اور درجہ بندی کی گئی ہے جیسا کہ نظام عدل 1428ھ کا آرٹیکل نمبر 9 اور 51 اس کی صراحت کرتا ہے۔ چنانچہ سعودی عرب میں مقدمات کی نوعیت کے اعتبار سے محاكم الدرجة الأولى (درجہ اوّل کی عدالتیں)پانچ طرح کی ہیں:
(ا) المحاكم العامة (جنرل عدالتیں)
(ب) المحاكم الجزائية (کریمنل کورٹس)
(ج) محاكم الأحوال الشخصية (پرسنل لاز کورٹس)
(د) المحاكم التجارية (بزنس کورٹس)
(ھ) المحاكم العمالية (لیبرکورٹس)
ہر طرح کی عدالتوں کی اپیل کے لیے محاکم الاستیناف (ہائی کورٹس) اور المحكمة العليا (سپریم کورٹس) بھی موجود ہیں۔ جن کو مجلس القضاءالأعلىٰ (سپریم جوڈیشل کونسل) کنٹرول کرتی ہیں جبکہ نظام دیوان المظالم کی بھی ادنیٰ سے اعلیٰ سب عدالتوں پر پوری نگرانی ہوتی ہے۔ دیوان المظالم کی عدالتوں کو المحاكم الإدارية (Administrative Courts) کہتے ہیں۔ جن کی اُسی طرح ادنیٰ سے اعلیٰ درجہ بندی ہے یعنی المحاكم الإدارية پر محاكم الاستیناف الإدارية (Administrative High Courts) اور المحكمة الإدارية العُليا (Administrative Supreme Courts) موجود ہیں۔
ان کو مجلس القضاء الإداري ( Supreme Administrative Judicial Council)کنٹرول کرتی ہے۔
مزید برآں سعودی عرب میں تقریباً پانچ سال قبل 13؍شعبان 1433ھ کوعدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کےلیے تیسری قسم کی تنفیذی عدالتوں کا ایک معاون نظام بھی قائم کیا گیا ہے۔جسے دوسال بعد 22؍رمضان 1435ھ (20؍جولائی 2014ء) کو المحاکم المتخصّصة للتنفيذ Special Enforcement Courts کے نام سے مستقل حیثیت دے دی گئی ہےتاکہ فیصلوں پر فوری اور مؤثر عمل درآمد ہوسکے۔
(2) سعودی نظام عدل جدید ترین خطوط پر استوار ہے، او رپوری دنیا کے ایسے جدید ترین تکنیکی وسائل اور سہولیات سے استفادہ کرتا ہے جو شریعتِ مطہرہ کے مخالف نہ ہوں ۔
(3) سعودی نظام عدل فریقین (سعودی شہری اور غیرملکی باشندوں) کو اپنا ہر مسئلہ پیش کرنے یا فیصلہ کے خلاف اپیل دائرکرنے کا مکمل حق دیتا ہے، چاہے براہ راست فریقین اپنا مقدمہ پیش کریں یا وکیل کی مدد حاصل کریں۔ جیسا کہ نظام عدل کا آرٹیکل 47 یہ قرار دیتا ہے کہ
’’حق التقاضي مكفول بالتساوي للمواطنين والمُقيمين في المملكة،ويُبين النظام الإجراءات اللازمة لذلك‘‘۔
’’مطالبہ اور استحقاق پیش کرنے کا حق سعودی عر ب میں تمام شہریوں اور تارکین وطن کو برابرحاصل ہے جس کا طریقہ کار متعلقہ نظام میں وضاحت سے پیش کردیا گیا ہے۔‘‘
(4) سعودی نظام عدل ایسے انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے جو قرآن وسنت کے مخالف نہ ہوں۔ جیسا کہ آرٹیکل نمبر 26 قرار دیتا ہے کہ
’’تحمي الدولة حقوق الإنسان، وفق الشريعة الإسلامية‘‘۔
’’حکومت شریعت کے مطابق تمام انسانی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے ۔ ‘‘
(5) عدالتی طریقہ کار: سعودی نظام عدل میں حقوق کی حفاظت اور زیادتی کے ازالہ کے لیے فیصلے کا میزان اور اس کے طریق کار(Procedural System ) کے لیےحتمی معیار کتاب وسنت ہی ہیں، تمام فیصلہ جات او رنظاموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب وسنت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہوں جیسا کہ سعودی دستور کا آرٹیکل نمبر1 اور نمبر7 اسی کا تقاضا کرتے ہیں۔
F نظام عدل پر حکام کا اثرورسوخ بھی انہی اختیارات تک محدود اورمشروط ہے، جو کتاب وسنت نے اُنہیں دیے ہیں اور وہ نفاذِ شریعت، نظامات،عوام الناس کے مصالح اور ملک کے تحفظ و دفاع کے نگران و ذمہ دار ہیں جیساکہ آرٹیکل نمبر 55 میں اس کو واضح کیا گیا ہے۔ اور آرٹیکل نمبر 50 یہ تقاضا کرتا ہے کہ بادشاہ اور اس کے مقرر کردہ حکام شرعی اور عدالتی نظام کے نفاذ کے ذمہ دار ہوں گے۔
پاکستانی جوڈیشل سسٹم (نظامِ قضا) کے منتخب حصے
(1) پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے جج حضرات کی نگرانی کے لیے دستور کے آرٹیکل نمبر 209 میں ’سپریم جوڈیشل کونسل‘ کا ذکر ہے:
’’پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالتی کونسل ہوگی، جس کا حوالہ اس باب میں کونسل کے طور پر دیا گیا ہے۔ جو چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز اور ہائیکورٹس کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوگی۔‘‘
209(8) :’’کونسل ایک ضابطہ اخلاق جاری کرے گی جس کو عدالتِ عظمی اور عدالت ہائے عالیہ کے جج ملحوظ رکھیں گے۔‘‘
(2) پاکستانی دستور میں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پرنگرانی؍اپیل کی سہولت مہیا کی گئی ہےاور اعلیٰ عدالتوں کے لیے ایک اہم اختیار Writ System کا بھی ہے جن سے گزر کر آخری فیصلہ سپریم کورٹ (عدالتِ عظمیٰ) کا ہو گا ۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کو دستور کا آرٹیکل 185 یہ اختیار دیتا ہے کہ
’’اس آرٹیکل کے تابع عدالت ِعظمیٰ کو کسی عدالتِ عالیہ کے صادر کردہ فیصلوں، ڈگریوں، حتمی احکام یا سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرنے اور ان پر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہوگا۔‘‘
(3) اور ہائی کورٹ کو دستور کا آرٹیکل 201اور 203 یہ اختیار دیتا ہے کہ
201:’’آرٹیکل 189 کے تابع کسی عدالت عالیہ کا کوئی فیصلہ ، جس حد تک کہ اس میں کسی امر قانونی کا تصفیہ کیا گیا ہو یا وہ کسی اصول قانون پر مبنی ہو یا اس کی وضاحت کرتا ہو، ان تمام عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہوگا جو اس کے ماتحت ہوں۔ ‘‘
203: ’’ہر عدالت عالیہ اپنی ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور انضباط کرے گی۔‘‘
(4) پاکستانی دستور میں مختلف عدالتوں کے جج حضرات کی بنیادی اہلیت یہ ہے :
آرٹیکل 177(1): سپریم کورٹ کے چیف اور جج کو صدرِ پاکستان یوں مقرر کرے گا کہ:
(2 الف) کم از کم پانچ سال تک یا مختلف اوقات میں اتنی مدت تک جو مجموعی طور پر پانچ سال سے کم نہ ہو، کسی عدالتِ عالیہ کا جج رہا ہو (ب) کم ازکم پندرہ سال تک یا مختلف اوقات میں اتنی مدت تک جو مجموعی طور پر 15 سال سے کم نہ ہو، کسی عدالت عالیہ کا ایڈووکیٹ رہا ہو۔‘‘
آرٹیکل193: ہائی کورٹ کے جج کے لیے پاکستان کا شہری اور 45 سال عمر ہونا ضروری ہے۔
(الف) 10 سال تک ہائی کورٹ کا ایڈوکیٹ رہا ہو۔ یا
(ب) 10 سال سول سروس کی ہو، جس میں تین سال ڈسٹرکٹ جج بھی رہا ہو۔ یا
(ج) دس برس تک پاکستان میں عدلیہ کا عہدیدار رہا ہو۔
جبکہ وفاقی شرعی عدالت کے جج کی اہلیت دستور کے آرٹیکل 203 ج میں مذکور ہے:
یہ عدالت چیف جسٹس سمیت 8 ججوں پر مشتمل ہوگی۔( 3 الف)’’ججوں میں سے زیادہ سے زیادہ چار ایسے اشخاص ہوں گے جن میں ہر ایک کسی عدالت عالیہ کا جج ہو یا رہ چکا ہو یا بننے کا اہل ہو۔ اور زیادہ سے زیادہ تین علماء ہوں گے جو اسلامی قانون، تحقیق یا تعلیم میں کم از کم پندرہ سالوں کا تجربہ رکھتے ہوں۔‘‘[26]
گویا پاکستانی قانون میں جج کے لیے شرعی علوم کی مہارت بلکہ معرفت ہونا بھی ضروری نہیں۔اگرہے بھی تو وہ شرعی عدالت تک محدود ہے۔
(5) پاکستانی نظام قضا میں سابقہ عدالتی نظائر کی قانونی حیثیت یہ ہے:
آرٹیکل نمبر 189: ’’عدالت ِ عظمی کا کوئی فیصلہ ، جس حد تک کہ اس میں کسی امر قانونی کا تصفیہ کیا گیا ہو، یا وہ کسی اصول قانون پر مبنی ہو یا اس کی وضاحت کرتا ہو، پاکستان میں تمام دوسری عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہوگا۔‘‘
اور ہائیکورٹ کی ماتحت عدالتوں پر نگرانی اور اس کے فیصلوں کی پابندی پر دستور کا آرٹیکل 201 تا 203 صراحت کرتے ہیں، جیسا کہ ان کا متن اوپر گزرا ہے۔
سعودی اور پاکستانی نظام قضا (عدالتی نظام ) کا تقابلی تجزیہ
(1)کتاب وسنت کی بالادستی یا قانون کی :سعودی عرب میں جج پر صرف کتاب وسنت کی بالادستی [27]ہے، جبکہ پاکستان میں وہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے[28]۔یعنی سعودی عرب میں عدلیہ کا مقصد انسانی حقوق کے سلسلے میں انصاف کا حصول اور زیادتی کا ازالہ ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں قانون کا نفاذ برتر حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ خواہ انصاف ملے یا نہ ملے کیونکہ پاکستان میں قانون وضع کیے بغیر کوئی شے نافذ العمل نہیں ہوتی۔
(2)حق اور سچ کی تلاش یا خصومانہ نظام :سعودی عرب کا عدالتی نظام ، مزاج کے لحاظ سےحق اور سچ کی تلاش ہے جس کی پوری ذمہ داری ججوں پر عائد ہوتی ہے جبکہ پاکستان کا عدالتی نظام خصومانہ Adversary Systemہے۔ لہٰذا دونوں پارٹیوں کے بھرپور مقابلے کے درمیان جج کا کردار صرف ریفری کا ہوتا ہے۔اصل مقابلہ فریقین کے بجائے وکیلوں کا ہوتا ہے جو کبھی نہیں ہارتے کیونکہ ان کو ہر صورت میں بڑی سے بڑی فیس مل جاتی ہے ۔
(1)ایڈورسری سسٹم کا قانون طریق کار کے ضمن میں آتا ہے، جس کا علم صرف ماہرین قانون کو ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں وکیل کے سوا کسی کی بات سنی نہیں جاتی اور قانون کی تشریح بھی وکیل کی ہی معتبر ہے جو اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی نشاندہی کے ذریعے اپنی تشریح کو قانونی شکل دیتاہے۔مقدمہ کی طوالت میں بار اوربینچ کی باہمی مفاہمت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے عدالتیں وکلاکو پورا موقع دیتی ہیں کہ وہ کب متعلقہ قانونی تیاری مکمل کرکے بحث کریں۔
(2)سعودی عرب میں گواہ کا معیاری ہونا ضروری ہے، جس کا ذریعہ تزکیۃ الشھود [29]ہے، جبکہ پاکستان میں گواہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ سزا یافتہ نہ ہو۔گواہی کی سچائی اور جھوٹ کا فیصلہ مخالف وکیل کی جرح سے تضاد کی صورت میں مدعا علیہ اور ملزم کے حق میں جاتا ہے ۔یہ ساراکام وکیل کا ہی ہے۔ مقولہ مشہور ہے: ’’ملزم قانون کا لاڈلا بیٹا ہے‘‘۔
(3)اعلیٰ عدالتوں کے جج حضرات اورمعروف قانون دان تو پاکستان کے Adversary System سے واقف ہیں لیکن انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی نے دسمبر 2015ء میں سعودی عدالتی نظام کے جائزے کے لیےجوڈیشل مجسٹریٹ، سول ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز پر مشتمل 24 رکنی وفدبھیجاتھا جس کی رپورٹ شریعہ اکیڈمی نے حال ہی میں شایع کی ہے ۔ ان جج حضرات میں سےایک جوڈیشل مجسٹریٹ ذیشان منظور کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
The Judicial System in KSA as I understood is inquisitorial in nature.Judges take Pains to search for truth rather acting as referees as happens in an adversarial systems. [30]
(3)جج کی اہلیت شرعی مہارت یا قوتِ فیصلہ :حق وسچ کی تلاش جج کا کام ہے، اس لیے سعودی عرب میں کتاب وسنت کی مہارت کے حامل حضرات ہی جج بنائے جاتے ہیں جوکلیات الشریعۃکی اعلیٰ ڈگریوں کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل کے منعقدہ مقابلہ کے تقریری اور تحریری امتحان سے بھی گزرتے ہیں اور پھر ان کو ایک سال سے لے کر تین سال تک کی تربیت [31]بھی دی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں جج بننےکے لیےایل ایل بی تو شرط ہے لیکن کتاب وسنت کی مہارت کی کوئی پابندی نہیں ، بلکہ ملکی قانون سے واقفیت اور عدالتوں میں اس کا تجربہ [32]اہمیت رکھتا ہے۔
(4)دونوں ممالک میں سابقہ نظائر کی قانونی حیثیت : جج کی صلاحیت لازماًکتاب وسنت کی مہارت ہے حتی کہ پیش آمدہ مقدمہ میں وہ عدالتی نظائر سے استفادہ تو کرتا ہے لیکن ان کا پابند نہیں ہوتا[33]، یعنی موقع پر اجتہاد کرتا ہے۔جبکہ پاکستانی آئین اور قانون کی تشریح نہ صرف قانون دان کرتے ہیں، بلکہ ادنیٰ عدالتیں ، اعلیٰ عدالتوں کے نظائر کی پابند[34]ہوتی ہیں۔
(5)فیصلہ کا دورانیہ اور سماعتوں کی تعداد: دورانیہ کے بارے میں سعودی عدالتوں کا معمول یہ ہے کہ 3ماہ کے اندر اندر زیادہ سے زیاہ پانچ سماعتوں میں فیصلہ کردیا جاتا ہے جب کہ اپلیٹ کورٹ میں بھی ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں لگتا۔جیساکہ متذکرۃ الصدر وفد کے ایک رکن جج کا تبصرہ یوں ہے :
That each civil case is decided in two to five sessions and that if the complainant or the defendant is not satisfied with the decision of the court, he or she may appeal to the Appellate Court within 30 days …
Whereas a criminal case if appealed to the Appellate Court for Criminal Case [35]may be decided only in one month.
We were told by the Head of the Criminal Court that the Court of Appeal will decide it in the very first hearing, thus, the total Time for the whole trial in both courts would be less than three months. This makes the justice system one of the fastest and the best in the world ۔[36]
چوں کہ سعودی عرب میں نظام احتساب کے علاوہ تین طرح کے مستقل عدالتی نظام بھی چل رہے ہیں اور ہر نظام میں شہروں اور ان کے حلقوں کے حساب سے ججوں کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے اس لیے ایک جج کے پاس یومیہ 5 تا 8 کیس ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں Adversary System کی وجہ سے طول طویل Litigation ہوتی ہے اس لیے ہر جج کے پاس یومیہ 80 تا 100کیس لگتے ہیں جن میں وکلا کی مصروفیت کی بنا پر اکثر کی سماعت ہی نہیں ہوپاتی۔ مقولہ مشہور ہے کہ’’ انصاف کی تاخیربھی ظلم ہے!‘‘ایسا ہی ایک اور مقولہ ہے کہ ’’انصاف کا عملاً وجودکافی نہیں بلکہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔‘‘اسی طرح سعودی عرب میں عدالتی فیصلہ کی زیادہ سے زیادہ پانچ پیشیاں ہوتی ہیں، جبکہ پاکستان میں ان کی کوئی حد مقرر نہیں اور ادنیٰ عدالت سے لے کراعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں تک بسا اوقات تین نسلیں بھی گزر جاتی ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں بااثر پارٹیاں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جس کی بنا پر کمزور یا تو معافی مانگنے پر مجبور ہوتا ہے یا برائے نام پونجی کا لولی پاپ اس کے ہاتھ تھما کراسے’’ صلح‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ورنہ کمزور ہمیشہ’’جرم کی سزا ہے مرگِ مفاجات ‘‘کا شکار رہتا ہے۔
عام طور پراعلیٰ عدالتوں کے ریٹائرڈ جج حضرات تو خاموش رہتے ہیں لیکن ہائی کورٹ سے ریٹائرڈ ہونے والے وہ جج جو اب سپریم کورٹ میں وکالت کرتے ہیں ، نے قتل کے بعض کیسوں کے بارے میں یوں تبصرہ کیا کہ یہاں سب سے بڑی مصیبت ’’وکالت‘‘ ہے ۔
اس بارے میں چند نکات ملاحظہ ہوں :
(الف)پاکستان میںبینچ اور بار دونوں بظاہر قانونی نکتوں کی تلاش اور ان کے فیصلوں کے لیے مقدمات کی طوالت کابہانہ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جج حضرات اور وکلا کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیوں کہ ججوں کی مراعات اور وکلا کی بھاری بھرکم فیسیں انھیں مل جاتی ہیں لیکن پارٹیاں مسلسل Litigation کے اضافہ میں الجھتی چلی جاتی ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کمزور اور مظلوم ظلم سہنے اور خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہوتا ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔
(ب)پاکستانی قانون میں اپیل دراپیل میں بھی سالہا سال بیت جاتے ہیں، جبکہ سعودی نظام عدل میں بھی اپیل کا تصور تو موجود ہےلیکن فریقین کی بجاے قضاۃ کے بارے میں نگرانی کا نظام بڑا سخت ہے تاہم اپلیٹ کورٹ میں فیصلہ کی مدت بھی ایک ماہ سے زیادہ نہیں لگتی۔
(ج)عدالتی فیصلے کے نفاذ کے لیے پہلےسعودی عرب میں جنرل کورٹس کے تحت تنفیذی عدالتیں تقریباً پانچ سال قبل 13؍شعبان 1433ھ کو قائم کی گئی تھیں، پھر 22؍رمضان 1435ھ (20؍جولائی 2014ء)
کو ان عدالتوں کو المحاکم المتخصصة للتنفيذ Special Enforcement Courts کے نام سے مستقل حیثیت دے دی گئی ہے۔جبکہ پاکستان میں فیصلوں کا نفاذ عدالت کی بجائے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
(6)سعودی عدلیہ پاکستانی عدلیہ کی نسبت زیادہ آزاد:سعودی اور پاکستانی نظام عدل میں یہ بھی فرق ہے کہ پاکستان میں جج حضرات کے انتخاب اور تعین میں انتظامیہ کا زیادہ دخل ہے جبکہ سعودی عرب میں جج حضرات کےانتخاب میں سپریم جوڈیشل کونسل کازیادہ دخل ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں عدالتوں کے فیصلے کا نفاذ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، جبکہ سعودی عرب میں انفورسمنٹ عدالتوں کے قیام کی بنا پر ، عدالتی فیصلوں کی فوری اور مؤثر تنفیذ بھی عدالتی دائرہ عمل کا ہی حصہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی جج حضرات ، پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہوتے ہیں، جبکہ سعودی عرب کے جج حضرات شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔ الغرض ان تین جہات سے سعودی عدلیہ پاکستانی عدلیہ کی نسبت انتظامیہ کے اثر ورسوخ سے زیادہ آزاد ہے۔
نتائج
پاکستان اور سعودی عرب دونوں کے نظامہائے عدل وقانون کے تقابل وتجزیے کے بعد جب ہم مذکورہ بالا نتائج پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کامیاب منزل تک پہنچنے کا راستہ اور طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ اس کے جواب میں بھی میں ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی رائے پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے لیے تعلیمی اور تربیتی ادارے اور اکیڈمیاں قائم کی جائیں جو ایسے نصابات کی حامل ہوں جن میں خیر کے دونو ں پہلوؤں کا امتزاج ہو ۔ چناں چہ لکھتے ہیں :
’’جب ان دونوں قوانین کے نصابات پر از سر نو غور کر لیا جائے اور ایک ایسا نظام وضع کیا جائے کہ قانون کی ابتدائی تعلیم ایک حد تک مشترک ہو جس میں فقہ اسلامی میں تخصص کرنے والے حضرات بھی شریک ہوں اور رائج الوقت قوانین میں تخصیص کرنے والے بھی شریک ہوں۔ پھر آگے چل کر جب قانون کے مختلف شعبوں میں اختصاص کا مرحلہ آئے تو فقہ اور اس کے شعبوں میں اختصاص کرنے والے مختلف اداروں میں چلے جائیں اور جدید قوانین اور اس کے شعبوں میں اختصاص کرنے والے مختلف اداروں میں چلے جائیں۔ اس کے باوجود یہ ضروری ہو گا کہ جو لوگ فقہ اور اس کے شعبوں میں تخصص کر رہے ہوں، وہ اپنے متعلقہ موضوع سے ملتے جلتے شعبہ ہائے قوانین میں بھی ضروری حد تک واقفیت حاصل کریں۔ اسی طرح جو لوگ جدید قوانین کے مختلف شعبوں میں تخصص کرر ہے ہوں، وہ اپنے متعلقہ موضوع سے ملتے جلتے شعبہ ہائے قوانین میں بھی ضروری حد تک واقفیت حاصل کریں۔ اسی طرح جو لوگ جدید قوانین کے مختلف شعبوں میں تخصص کر رہے ہوں مثلاً جورس پروڈنس یا بین الاقوامی قانون یا دستوری قانون میں وہ اپنے تخصصات سے متعلق فقہی شعبوں میں کسی حد تک واقفیت پیدا کریں۔‘‘ [37]
اس نوعیت کے تعلیمی ادارے قائم کرنے سے ہی معاملہ حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کو پھر پاکستان میں مؤثر طور پر نافذ کرنے کے لیے ایک بھرپور تحریک کی بھی ضرورت ہے، جیسا کہ ڈاکٹر غازی مزید لکھتے ہیں:
’’اس کے لیے ایک ہمہ گیر قانونی اصلاح اور قانونی تعلیم کی ضرورت ہے جو ایک تحریک کے طور پر پورے پاکستان میں عام کی جائے۔ پاکستان میں فقہ کی تعلیم کے نصاب پر از سر نو اور بنیادی طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قانون کی تعلیم کے وہ تمام ادارے جو پاکستان میں قانون کی تعلیم دے رہے ہیں، ان کے نصابات پر از سر نو غور کیے جا نے کی ضرورت ہے۔ [38]
حاصل یہ ہے کہ پاکستان میں اس مقصد کے لیے نہ صرف جوڈیشل اکیڈمیاں قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسی عالمی جوڈیشل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس بننے چاہییں جن میں عالم اسلام کے جج حضرات اکٹھے ٹریننگ حاصل کریں تاکہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے استفادہ اور افادہ کی فضا پیدا کریں ۔
[2] عرنوس، تاريخ القضاء في الاسلام مصر: ص2 [3] حاشيه ابن عابدين: 5/352، مواهب الجليل للحطاب 6/86 [4] ابن ابي الدم، أدب القضاء تحقيق محي ھلال السرحان: ج1/125،126 [5] مقدمة “نظام القضاء في الشريعة الإسلامية” للدكتور عبد الکریم زیدان، بغداد (العراق) [6] قانون المرافعات المدنية والتجارية: ص31 [7] وكي پیڈيا، بوابة القانون [8] دروس في أصول القانون د/ جميل الشرقاوي:1/13 دار النھضة العربية،القاهرة 1979م [9] المدخل لدراسة القانون لـ د/ أحمد سلامة 1/15، مكتبة النھضة، مصر. الإسلام والدستور: تأليف توفيق بن عبد العزيز السديري: 1/15، وزارة الشؤن الإسلامية والأوقاف [10] موضوع” أكبر موقع عربي بالعالم [11] فتح القدير: 1/480 [12] جامع الترمذي:رقم 2906، باب ماجاء في فضل القرآن [13] صحیح البخاري: باب إقامة الحدود: رقم 6787 [14] قرار داد مقاصد بنام سپریم کورٹ آف پاکستان کا تجزیہ‘ منجانب سردار شیر عالم خان (ایڈووکیٹ)، مترجم چوہدری محمد یوسف(ایڈووکیٹ)، الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، اشاعت اول، 1994ء [15] ,Supreme Court 595 PLD 1992اور ’قرار داد مقاصد بنام سپریم کورٹ آف پاکستان کا تجزیہ‘ منجانب سردار شیر عالم خان (ایڈووکیٹ)، مترجم چوہدری محمد یوسف(ایڈووکیٹ)، الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، 1994ء [16] جنہیں بعد میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) میں ڈھال دیا گیا۔ اگر چہ اس میں سے اہم قوانین بشمول آئین ، پرسنل لاز، مالیاتی قوانین(26 جون 90ء تک)اور عدالتوں وغیرہ کے طریقہ کار سے متعلق ضابطہ کے قوانین کو مستثنیٰ کردیا گیا۔ چونکہ اس غرض سے شرعی عدالت کے دائرہ کار کے بارے میں قانون کی تعریف (دستور کےباب 3 ؍ الف میں) یوں ہے:
203ب(ج)’’قانون میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو مگر اس میں دستور، مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس بات کے آغازِ نفاذ سے دس سال کی مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون یا محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اور جمع کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل او ر طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے۔‘‘
[17] سپریم کورٹ آف پاکستان، (شریعت اپلیٹ بنچ) نے 23 دسمبر 1999ء كواس فیصلہ کی توثیق کر دی۔ جسے حکومت کے لیے نافذ کرنے کی آخری میعاد 30 جون 2002ء تھی۔ لیکن حکومت کی کوششوں سے شریعت اپلیٹ بنچ نے یہ فیصلہ ریمانڈ کر کے وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیج دیا۔ اسلامی بینکاری کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا مضمون روزنامہ جنگ: 9 مارچ 2017ء [18] سعودی دستور (نظام الحکم )کے آرٹیکل نمبر1، اور آرٹیکل نمبر7 کے علاوہ مذکورہ بالا تمام آرٹیکل کا خلاصہ یہ ہے کہ سعودی نظام الحکم (دستور) کی رو سے خیر وشر اور حق وباطل کے پہلو سے شریعت کی مطابقت حکام وعوام کے لیے لازمی ہوگی، جبکہ انتظامی مصلحتوں کے بارے میں شریعت کے منافی ہونے کی شرط عائد ہے۔ [19] دستور كا آرٹیکل 2 ؍اے : ( یعنی قرار داد مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو بذریعہ ہذا دستور کا مستقل حصہ قرا ردیا جاتا ہے اور وہ بحسبہٖ مؤثر ہوں گے) اور’مقدمہ حاکم خاں بنام حکومتِ پاکستان وغیرہ ‘میں سپریم کورٹ فل بنچ کا فیصلہ PLD 1992, Supreme Court 595 [20] مالیاتی قوانین کے بارے میں دس سال کی مدت پوری ہونے کے بعد اب وفاقی شرعی عدالت کو مالی قوانین کے بارے میں اختیار سماعت حاصل ہوچکا ہے۔ [21] صدارتی حکم نمبر1، 1984ء … سیکشن: 2(اے) مجریہ 14؍فروری 1984ء [22] سعودی دستور (نظام الحکم ): آرٹیکل نمبر1، 7 وغیرہ بالخصوص آرٹیکل نمبر8 4 [23] علم اصول فقہ،ایک تعارف‘:ج3؍ص 168 [24] ایضاً:صفحہ 175 [25] ایضاً:صفحہ 175 [26] دستور (اٹھارویں ترمیم) ایکٹ 2010( نمبر10 بابت 2010) کی دفعہ 74 کی رو سے بعض الفاظ تبدیل کیے گئے۔ [27] سعودی دستور(نظام الحکم) کا آرٹیکل نمبر46 اور7 …نظام القضاءکا آرٹیکل نمبر1 [28] مقدمہ ’حاکم خاں بنام حکومت پاکستان وغیرہ ‘، پی ایل ڈی 1992، ایس سی 595، فیصلہ فل بنچ سربراہی:جسٹس نسیم حسن شاہ [29] سعودی اور پاکستانی نظام میں گواہی سے متعلقہ قوانین [30] Visit of Pakistani Judicial Officers, Shariah Academy, IIUI, 2016, p.28 [31] سعودی عرب کا نظام القضا 1428ھ، آرٹیکل 44 [32]پاکستانی دستور میں جج کی اہلیت کے لیے دیکھیں: آرٹیکل نمبر193 [33] خصائص النظام السعودی میں المادة الخامسة اور پاکستانی ججز کےوزٹ میں شریعہ اکادمی کی رپورٹ :ص 7 “وأنه يحق للقاضي أن يلغي أي قانون أو حكم من أحكام القانون إن وجد مخالفا للقرآن الكريم أو للسنة النبوية.” [34] پاکستانی دستور کا آرٹیکل نمبر 189 [35] Visit of Pakistani Judicial Officers, Shariah Academy, IIUI, 2016, p.6, 7 [36] Ibid, p.17 [37] ’علم اُصول فقہ،ایک تعارف‘:ص 175 [38] ايضاً: صفحہ 174