فحاشی میں ڈوبتی نسل۔۔۔اور ٹک ٹاک کلچر

ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرائع اور ٹیکنا لوجی کا منفی استعمال کیا۔ جس کی بدولت ہم روبہ زوال ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ دنیا بھر کے لوگوں نےانٹر نیٹ اور  ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال سے دنیاوی ترقی کی تو کر لی۔ اگرچہ اخروی کامیابی ان کا مطمع نظر نہیں رہا۔لیکن ہم دونوں سے ہی محروم رہے۔ دور حاضر کا ایک بڑا فتنہ ٹک ٹاک کے نام پر ہمارے دروازوں پر فحاشی و عریانی کا سیلاب لا رہا ہے۔ پاکستان کےچھوٹےشہروں میں بالعموم اور بڑے شہروں میں بالخصوص ہر بڑا پارک اور تفریحی مقام اس فتنے کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ انتہائی تکلیف کے عالم میں یہ سطور رقم کر رہی ہوں اگرچہ مجھے علم  ہے کہ

میں نے مانا کہ میری آواز نہیں جائے گی۔
درو  دیوار سے ٹکرا  کر  پلٹ  آئے گی۔
خدارا!! ان اندھیروں کا کرو کوئی علاج۔
ورنہ نئی نسل اجالوں کو ترس جائے گی۔

اس کے مفاسد پر بات کرنے سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ کیا یہ اسلام کی نظر میں کوئی تفریح یا جائز امر ہے؟؟ تو آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

رب العزت نے سورہ بنی اسرائیل میں شیطانی حربوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا

الاسراء – 64

ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا ﻻ اور ان کے مال اور اوﻻد میں سے اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں مجاہد رح فرماتے ہیں کہ: یہ لھو اور گانا ہے. یعنی اپنی رنگین آوازوں سے جیسے چاہے بہکا لے. اس سے گانے بجانے اور دیگر لہو و لعب کے آلات ہیں. جو آواز اللہ کی نافرمانی کی طرف بلائے وہ شیطانی آواز ہے۔

تفسیر ابن کثیر(مختصر) اور تیسرالقرآن میں اس کے حوالے سے مذکور ہے کہ: شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو اسے اللہ کی نافرمانی پر اکساتی ہو یہ آواز عموما شیطان کے چیلوں، چانٹوں سے ہی آتی ہے پھر اس شیطانی آواز میں ہر قسم کا گالی گلوچ جھگڑا، گانا بجانا، موسیقی، راگ رنگ اورمزامیر طرب و نشاط کی سب محفلیں آتی ہیں جو اللہ کی یاد سے غافل اور اس کی اصل فطرت پر پردہ ڈالتی ہیں۔ درحقیقت موجودہ ٹک ٹاک کلچر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اب جائزہ یہ لینا ہے کہ اس کلچر نے تفریح کے نام پر کس قدر نوجوان نسل کو غیر اخلاقی روش اور گمراہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔1

مردوزن کا اختلاط:

اس کلچر نے مردو زن کے اختلاط کو فروغ دیا ہے ۔اکثر اوقات لڑکے، لڑکیاں اکھٹے ویڈیوز بناتے ہیں تو یہ اسلامی نقطہ نظر سے انتہائی خوف ناک امر ہے۔ یہ یورپ کے آزاد معاشرے کا کلچر ہے۔ اسلام کا موقف بہت صریح اور واضح ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رشاد گرامی ہے:

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو، ایک انصاری شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ حمو (یعنی شوہر کا باپ، بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حمو‘‘ تو موت ہے۔ اس باب میں سیدنا عمر اور جناب جابر عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، عورتوں کے پاس  جانے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔2

وعن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” ألا لايبتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحاً أو ذا محرم

( رواه مسلم 2/203)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبر دار! کوئی مرد کسی عورت کے پاس نہ ٹھہرے مگر یہ کہ وہ اس کا شوہر ہو یا اس کا  محرم ہو۔

ان ارشادت کی رو سے یہ کلچر اسلامی احکامات کی نافرمانی ہے۔

خواتین کی بے حجابی:

رب العالمین نے صنف نازک کا ایک الگ دائرہ کار مقرر کیا ہے اور اس کے لیے وہ حدود و قیود متعین کی ہیں جو اس کی فطرت کے مطابق ہیں۔ لیکن آج ہم اس کی مخالفت پر تلے ہیں۔ اسلام تو بلا ضروت عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

الاحزاب – 33

اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔

اور اگر ضرورت کے تحت ،ضروری کام کاج علاج معالجے اور بقدر ضرورت ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا ناگزیر ہو تو اس کی اجازت دی اور اس کے آداب یوں سکھائے:

یا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

الاحزاب – 59

اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہے۔

لیکن عرض یہ ہے کہ اسلام نے تو ایذا رسانی کے ان تمام راستوں کو بند کردیا جو موجب تکلیف تھے۔ لیکن اب مختلف شہروں کے معروف سیاحتی اور تاریخی مقامات پر جا کر شہرت اور دولت کمانے کے لیے تمام غیر محرموں کو اعلانیہ اکٹھا کرکے رسوا ہونا کون سی مجبوری ہے؟؟ اس کا جائزہ ہمیں لینا ہوگا۔

لغو کاموں کی ترویج:

بلا شبہہ یہ غیر اخلاقی کام ایک شیطانی ہتھکنڈا اور لغویات کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے۔ اور اسلام نے ہر اخلاقی برائی پر اس فرمانِ باری تعالیٰ کے ذریعے  قدغن لگا دی:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

لقمان – 6

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ:یہاں لھو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہے. اور اس آیت کریم میں رسوا کن عذاب کی وعید ہے اس عمل کی جو آج ہمارے ہاں روح کی غذا کے طور پر معروف ہے. درحقیقت یہ ان شیطانی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے جو شیطان نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اختیار کیے۔

بے حیائی کا فروغ:

بے حیائی کے فروغ  میں ہماری اسلامی ساکھ کو نقصان پہنچانے ، خواتین کو گھروں میں لڑانے ، سیاستیں سکھانے اور ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کروانےکے لیے ہماری فلم انڈسٹری اور ڈرامہ کلچر کا کردار کیا کم تھا جو اب اس بات کو بھی ثقافت کا حصہ بنایا جا رہا ہے کہ خواتین اور مرد جب دل چاہے اپنے کیمرے اٹھائے ، پارکوں ، چھتوں اور ساحلوں پر اعلانیہ بے حیائی کو فروغ دیتے پھریں۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن ِ حکیم کا پیغام ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

النور – 19

بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

موت و قتل کا سبب:

جب سے اس ٹک ٹاک ثقافت کو فروغ ملا ہے ہم اکثر اوقات بہت ساری خبریں سن اور دیکھ چکے ہیں کہ کوئی ٹک ٹاکر چھت سے گھر کر لقمہ اجل بن گیا۔ اور کوئی ساحل سمندر یا دریا پر یہی عبادت کرتے ہوتے گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اسلام میں اپنی جان کی حفاظت نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔ رب العالمین کا فرمان ہے:

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

البقرۃ – 195

اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ:

 انسان کا خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا، مثلاً کسی لڑائی میں گھس جانا، کسی خوفناک سفر پر روانہ ہوجانا، جانتے بوجھتے درندوں یا سانپوں کے مسکن میں داخل ہونا، کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت وغیرہ پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا یہ تمام امور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے زمرے میں آتے ہیں۔

 اس کے علاوہ کتنے ہی لوگ ہیں جو ایک ہی گروپ میں رہ کراس شیطانی کام کو فروغ دیتے ہیں ،پھر اختلاف کی صورت میں یا شہرت کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا میں اس واقعہ کا بہت چرچا رہا کہ پنجاب سے ایک لڑکی اپنے گروپ کے ساتھ ٹک ٹاک کی شوٹنگ کے لیے کراچی گئی اور پھر اس کی مردہ لاش ملی۔ اس کو مارنے کا ذمہ دار کون ہے، یہ ٹرینڈ سیٹر، ہمارے معاشرے کے لوگ یا پھر وہ حکمران جو یہ تمام تماشہ دیکھتے ہیں۔ لیکن اس پر پابندی لگانے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے۔

اپنی اس تحریر  اور اپنے پلیٹ فارم اسلام فورٹ کی وساطت سے اربابِ اختیار اور اپنے معاشرے کے با شعور افراد کو یہ پیام دینا ہے کہ اگر اپنی نسلوں کواخلاقی، معاشرتی ، سماجی زوال سے بچانا چاہتے ہیں تو ایسی ثقافت کا خاتمہ کریں۔ اور والدین سے التجا ہے کہ دنیا میں شہرت اور دولت حاصل کرنے کے اور بہت ذرائع ہیں اس لیے اپنی اولادوں کو دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچانے کے لیے ضرور اقدامات اور تربیت کریں تاکہ ہم بحثیت قوم سر خرو ہو سکیں۔

رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دور حاضر کے فتنوں سے بچاکر اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ دے۔ آمین وما توفیقی الا باللہ۔

  1. (مختصر ابن کثیر/1057/1) ، تیسیر القرآن (594/2)
  2. (ترمذی: حدیث نمبر 1171)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

بنتِ بشیر