خطبہ اول:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے انعام و اکرام کیا اور سب سے سیدھے راستے کی ہدایت دی وسیعی انعامات اور عظیم نوازشوں پر ہم اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں ہم اللہ عزوجل کا ماضی مستقبل اور حال میں مسلسل شکرادا کرتے ہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اس نے ہمیں تمام امتوں میں سب سے بہتر امت بنایا اور ہمیں اپنے سب سے افضل رسول کے ذریعے عزت بخشی جو کامل اخلاق اور بلند کردار کے حامل تھے اللہ تعالی ان پر اور فضائل و عزائم والے ان کے آل واصحاب پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے۔
اما بعد:
لوگوں میں تمہیں اور خود کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرو اللہ تم پر رحم فرمائے، اور جان لو کہ بھلائی کے موسم اور قربتوں کے لمحات کبھی ختم نہیں ہوتےا گرچہ ہم نے چند دن پہلے ایک معزز ترین مہمان،اور سال کے سب سے زیادہ فیاز مہینے کو الوداع کہا ہے لیکن نیک اعمال کے مواقع کے بعد ڈگری آتے رہتے ہیں خیر و برکت کے مواقع مسلسل ملتے رہتے ہیں نیکی کے کام کبھی منقطع نہیں ہوتے تو کیا کوئی کمر کسنے والا اور شوق رکھنے والا ہے اور کیا کوئی محنتی اور خواہشمند ہے.
اللہ کے بندوں! رمضان زاد راہ حاصل کرنے کا پڑاؤ تبدیلی کی درسگاہ اور پیش قدمی کا ایک دروازہ ہے نیکی کے میدان کھلے ہیں، اور وہ تمام عبادات جو رمضان میں سبقت لے جانے کا ذریعہ تھی دیگر زمانوں میں بھی نیکیوں میں مسابقت کے لیے باقی ہیں۔
بے شک اطاعت پر مداومت اور عبادت میں پائیداری ایسی چیزیں ہیں جن کی اسلام نے ترغیب دی ہے اور قرآن نے اس کی نشاندگی کی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنایا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ1
جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرنے والے ہیں۔
’’صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اسے پوچھا گیا
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیسا تھا کیا وہ کسی دن کو عبادت کے لیے مخصوص کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا نہیں ان کا عمل مستقل تھا اور تم میں سے کون اس چیز کی طاقت رکھتا ہے جس کی طاقت رسول اللہﷺ رکھتے تھے گرچ عمل تھوڑا اور نیکی معمولی ہو مگر ہمیشہ کیا جانے والا تھوڑا عمل کبھی کبھار کیے جانے والے زیادہ عمل سے بہتر ہیں میں‘‘۔
’’عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا :کون سا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو مستقل ہواگرچہ کم ہو‘‘۔
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے اوپر عمل کا اتنا بوجھ ڈالو جسے برداشت کرنے کی تم میں طاقت ہو ‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یعنی ایسے اعمال اختیار کرو جن پر تو بغیر کسی ضرر کے ہمیشہ عمل کر سکو۔
اس حدیث میں عبادت میں اعتدال برتنے اور سختی و غلو سے بچنے کی ترغیب ہے معمولی عمل پر ہمیشگی اختیار کرنا لمبے وقفے سے بچاتا ہے کیونکہ بندہ ہمیشہ یا تو اگے بڑھ رہا ہوتا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہوتا ہے وہ مسلسل سفر میں ہیں اس کے لیے رکنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے:
لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ2
ــ’’(یعنی) اسے (١) جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہئے‘‘۔
انسان رمضان کے بعد نیکی کے کاموں کا بہترین آغاز شوال کے چھ روزے رکھ کر سکتا ہے چاہے لگاتار رکھے یا الگ الگ دنوں میں،
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ»3
’’ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی انھوں نے ان کو حدیث سنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا:”جس نے رمضا ن کے روزے رکھے۔پھر اس کے بعد شوال کے چھروزے رکھے تو یہ (پوراسال ) مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے‘‘۔
بس مبارک ہو اسے!جس نے رمضان کو اللہ رحمن کی طرف سفر کا زاد راہ بنا لیا اور اپنی تمام زندگی کے دنوں کو ایسی عبادت بنایا جو اسے جنت کے قریب کر دے میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ سب کے لیے اللہ سے تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ کی بخشش طلب کرتا ہوں بس اس سے بخشش مانگو بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اس کے احسان پر, اور اس کے لیے شکر اس کی توفیق اور عنایت پر, اس کی تعظیم کرتے ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں جو اس کی رضا کی طرف بلانے والے ہیں اللہ درود و سلام نازل کرے آپ پر آپ کے ال وصحاب پر اللہ کے بندو جب اللہ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اطاعت کے راستے پر ثابت قدم رکھتا ہے استقامت کی راہ پر جمائے رکھتا ہے اس کے لیے نیکی کے دروازے کھول دیتا ہے اور عبادت کے راستے اسان کر دیتا ہے۔
امام ابن قیم فرماتے ہیں ؛دین کی راہ پر چلنے والوں پر آنے والے لمحات سے سچے اور جھوٹے کی پہچان ہوتی ہے جو جھوٹا ہوتا ہے وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اپنی پرانی طبیعت اور خواہشات کی طرف لوٹ جاتا ہے جبکہ سچا شخص اللہ کی طرف سے راحت کا انتظار کرتا ہے اس کے فضل سے نا امید نہیں ہوتا اور دامن کی طرح اس کی چوکھٹ پر عاجزی وہ انکساری کے ساتھ خود کو ڈال دیتا ہے۔
پس اگر تم دیکھو کہ اللہ نے تمہیں اس مقام پر ثابت قدم رکھا ہے تو جان لو کہ وہ تم پر رحم فرمانا چاہتا ہے اور تمہارے دامن کو بھلائی سے بھرنا چاہتا ہے بندے کے لیے اس پر سب سے بڑی معاون چیز اللہ تعالی سے دعا کرنا ہے کیونکہ اس نے اپنے بندوں سے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ4
’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں (١) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھتیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے‘‘۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں دین پر ثابت قدمی کی دعا ہوتی تھی
مسند احمد اور جامع ترمذی میں بسرت صحیح حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا کرتے تھے۔
يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ
اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ ۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لا چکے ہیں کیا اپ کو ہمارے بارے میں کوئی اندیشہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بے شک دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پلٹتا رہتا ہے۔
پھر درود و سلام کے جو اللہ کی مخلوقات میں سب سے بہتر شخصیت محمد بن عبداللہ پر دھوکی تمہارے رب نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے فرمایا بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو اے اللہ اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد پر درود و سلام اور برکتیں اور مزید انعامات نازل فرما اے اللہ چاروں خلفائے راشدین ہدایت یافتہ امام و ابوبکر و عمر عثمان و علی سے اور باقی عشرہ مبشرہ سے راضی ہو جا اور بیعت رضوان والے صحابہ سے بھی راضی ہو جا اور تمام صحابہ کرام تابعین قیامت کے دن تک اچھے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے بھی راضی ہو جائے۔
اے رحم الراحمین! اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دین کے قلع کی حفاظت فرما اپنے مواحد بندوں کی مدد فرما اے قوت و طاقت والے رب اے اللہ پریشان حال مسلمانوں کی پریشانی دور فرما مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت دور فرما قرضداروں کا قرض ادا کر دے ہمارے اور مسلمانوں کے بیماروں کو شفا دے دے اے اللہ ہمیں ہمارے وطنوں میں امن عطا فرما ہمارے سربراہان اور حکمران کی اصلاح فرما حق وتوفیق اور درستگی کے ساتھ ہمارے سربراہ اور حاکم خادم الحرمین شریفین کی مدد فرما اے اللہ صحت عافیت اور مسلسل نعمتوں کے ساتھ ان کی عمر کو دراز فرما اے اللہ انہیں ان کے ولی عہد کو امور کی توفیق دے جن میں ملک و قوم کی اصلاح اسلام اور مسلمانوں کی عزت و سربلندی ہو۔
اے رب العالمین! اے اللہ ہماری سرحدوں اور مورچوں پر متعین ہمارے سپاہیوں کی حفاظت فرما اپنی نہ سونے والی انکھ سے ان کی نگرانی فرما اور اپنے ناقابل تسخیر سہارے سے انہیں محفوظ رکھ اے رب العالمین اے اللہ ہر جگہ ہمارے کمزور بھائیوں کا مددگار بن جا اے اللہ ان کی کمزوری کو طاقت میں خوف کو امن میں تنگی کو خوشحالی میں تبدیل کر دے اے رب العالمین اے اللہ فلسطین میں اپنے مظلوم بندوں کی غاصب صحیح یعنیوں کے خلاف مدد فرما اے اللہ تو ان کا مددگار پشت پناہ بن جا ان کا حامی وہ ناصر بن جا انہیں اپنے دشمن اور ان کے دشمن پر غلبہ عطا فرما اے زبردست قوت و طاقت والے رب اے اللہ ہمارے بہترین عمل کو ہمارا آخری عمل بنا ہماری زندگی کے آخری لمحات کو سب سے بہتر بنا ہمارے دنوں میں سب سے بہتر اس دن کو بنا جب ہم اس سے ملاقات کریں اور ہمیں اس حال میں وفات دیکھیں وہ ہم سے راضی ہو نعلہ نہیں اپنی اطاعت پر ہمیں استقامت دے اپنی مرضی کے کاموں پر ہماری مدد فرما۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
خطبہ جمعہ: مسجد الحرام
06 شوال 1446ھجری بمطابق 04 اپریل 2025 عیسوی
فضیلۃ الشیخ: بندر بلیلہ حفطہ اللہ
_______________________________________________________________________________________________________________