تحریر:محمد قاسم عاجز
وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٥﴾ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ﴿٦ وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿٧﴾ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾
النحل – 5/6/7/8
اسی نے چوپائے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔ اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی۔ اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے۔ گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعﺚ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں۔
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ
النحل – 66
تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے سہتا پچتا ہے۔
یوں تو رب ذوالجلال کی حضرت انسان پر ان گنت اور لا تعداد نعمتیں ہیں جس کو ھنڈا رہا ہے جانوروں سےبالخصوص حلال جانوروں سے ملنے والے فوائد یقینا انہی نعمتوں کی سرتاج نعمتیں ہیں ۔
حلال جانور جہاں گاؤں دیہات کی زینت اور ان کی معیشت کا سہرا ہیں وہیں ان کے فوائد سے شہری لوگ بھی بہراوار نہیں ہیں ان جانوروں کے گوشت سے ہر شہری اور دیہاتی مستفید ہوتے ہیں دودھ تقریبا ہر گھر کی ماکولات و مشروبات کا سردار ہے اس کے علاوہ دودھ کی بہت ساری مصنوعات جو مارکیٹوں میں بڑے بڑے کاروباروں کی جان ہیں ۔
کچھ جانوروں کا سواری کے قابل ہونا کچھ جانور بوجھ اٹھانے کے قابل کچھ جانور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی خوبصورتی کے حامل۔
مویشی منڈیوں میں جانوروں سے اربوں کے کاروبار اور قربانی کے ایام میں گوشت کا کثرت سے ہر گھروں میں پہنچنا ۔ان کے چمڑوں سے عالمی منڈیوں میں بڑے بڑے کاروبار اور ان کے چمڑوں کی مصنوعات سے لوگوں کا مستفید ہونا یقینا یہ تمام فوائد عظیم سر ہے ۔
سو مسلمانوں جان لو کہ جانوروں کی رسیاں تمہارے ہاتھوں میں ہیں اور ان کو تمہارے تابع کردیا گیا ہے ان کی دیکھ بھال ان سے اچھا برتاؤ اور ان کے کھانے پینے کا خیال رکھنا ان سے نرمی کرنا اور ان کے ساتھ جو تعلیمات نبویہ ﷺ ہیں ان کے مطابق پیش آنا اور حسن سلوک کرنا یہ شرعیت کا تقاضا ہے ۔
جانوروں کو لعن طعن یا سب وشتم نہ کیاجائے
شریعت اسلامیہ نے ایک مومن کا وصف یہ بیان کیا ہے کہ وہ پاکیزہ زبان کا حامل ہوتا ہے وہ اپنی زبان سے حتی الوسعہ خیر کے سوا کچھ نہیں نکالتا ہر وقت اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تروتازہ رکھتا ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے:
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ
الاسراء – 53
اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں:
’’جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے ۔‘‘ (مسند احمد: حدیث نمبر 9698 صحیح)
عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا مؤمن طعنہ دینے والا لعنت کرنے والا بے حیا اور بد زبان نہیں ہوتا (سنن ترمذی :حدیث نمبر 1977،سلسلہ احادیث صحیحہ 320)
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن اللہ کے رسول ﷺسے کہا گیا کہ آپ مشرکین کے لئے بد دعا کیجئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیابلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر 6613)
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ہوا کو برا بھلا کہا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تم اس کو لعن طعن نہ کرو یہ تو اللہ کے حکم کے تابع ہے اور اگر کسی چیز کو لعنت کی جائے اور وہ مستحق نہ ہوں تو وہ لعنت دینے والے پر لوٹ آتی ہے ۔(سنن ترمذی: البر والصلۃ 1978 صحیح )
عیزار بن جرول الحضرمی کہتے ہیں کہ ہم میں ایک آدمی تھا جس کو ابو عمیرکہا جاتا تھا ان کے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین اخوت تھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ان کے گھر جایا کرتے تھے ایک دن ان کے گھر گئے اور وہ گھر پر نہ تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ان کی بیوی کے پاس بیٹھ گئے (شاید یہ پردے سے پہلے کی بات ہے)اس خاتون نے اپنی خادمہ کو کسی کام سے بھیجا اور اس نے آنے میں دیر کی تو اس نے کہا اللہ کی اس پر لعنت ہو اس نے آنے میں دیر کردی ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر وہاں سے اٹھ کر دروازے کے پاس بیٹھ گئے اتنے میں ابو عمیر بھی آ گئے تو انہوں نے کہا آپ باہر کیوں بیٹھے ہیں تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں تمہاری اہلیہ نے خادمہ پر لعنت کی ہے جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے کہ لعنت جب کسی کے منہ سے نکلتی ہے تو راستہ ڈھونڈتی ہے اگراسکا اہل یعنی مستحق مل جائے تو اس پر جاتی ہے ورنہ وہ اسی لعنت کرنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے سو میں اس لئے باہر نکل آیا کہ جب وہ لعنت لوٹے تو میں اس لعنت کا راستہ نہ بنوں۔(سلسلہ احادیث صحیحہ : حدیث نمبر 1323)
عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں ایک بار رسول اللہ ﷺایک سفر میں تھے کہ ایک انصاری عورت اونٹنی پر سوار تھی اچانک وہ اونٹنی مضطرب ہوئی عورت نے اس کو لعنت کی آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے سن لیا اور فرمایا اس پر جو کچھ ہے وہ اتار لو اور اس کو آزاد کر دو بس بے شک یہ لعنت کی ہوئی ہے ۔(صحیح مسلم :حدیث نمبر 6604)
اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جس پر لعنت کی جائے تو وہ جانورقابل استعمال نہیں رہتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی اونٹنی کو اپنے ہمراہ سفر میں جانے سے کراہت محسوس کی جیسا کہ یہ مفہوم (صحیح مسلم حدیث نمبر 6606)سے ثابت ہے ۔
زید بن خالد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تم مرغے کو گالی نہ دو وہ تمہیں نماز کے لئے جگاتا ہے ۔ (ابو داؤد : حدیث نمبر 5101صحیح )
ان تمام نصوص سے یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مومن کے لیے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی کسی بھی مخلوق(جو لعنت کی مستحق نہ ہوں ) کو لعنت یا سب و شتم کریں ۔
جانوروں کو تکلیف نہ دی جائے
صحرا کے جہاز اونٹ کی حالت ان کے مالکوں کے ہاں اورپتھریلی زمینوں کو بنجر بناتے یہ بیلوں کی حالت ہاریوں ناریوں کے ہاں اور گدھوں اور خچروں کی حالت پربھاری بوجھ لادے اوڈوں ہاں یہ منظر عیاں کرتی ہیں کہ انسان ان بے زبانوں کو اکثر کھانے کی اور آرام کی مد میں کم اجرت دے کر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں ۔
اس سے مستزاد قربانی کے ایام میں جانوروں کی رسیا شہری بچوں کے ہاتھوں میں گلی محلوں میں بدکتے اور خوف اور ہراساں ہوتے یہ جانور دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں شاید ان جانوروں کا احترام نہیں رہا ۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر بنو کنانہ کا ایک شخص حلیس بن علقمہ مکہ والوں کی طرف سے ایلچی بن کر آیا تھا نبی کریم ﷺ نے اس کو آتے دیکھا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کا احترام کرتے ہیں سو ان کے سامنے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو وہ شخص ان قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر ہی وہیں سے لوٹ گیا اور یہ کہتا ہوا گیا کہ سبحان اللہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے بھلا کون روک سکتا ہے یہ ہےتو قربانی کے جانور ساتھ لائے ہیں (الرحیق المختوم 462)
اس سے اندازہ کیجئے کہاس قوم کا شعار قربانی کے جانوروں کا احترام تھا حالانکہ جانوروں کے متعلق اسلامی تعلیمات تو اس وقت ان کے ہاں موجود ہی نہیں تھی۔
جانوروں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا برتاؤ
آپ ذرا جانوروں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا برتاؤ اور سلوک و احترام بھی دیکھیں :
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:جب تم سر سبز زمین میں سفر كروتوجانوروں كوان كا حق دو (یعنی کچھ چرا لیا کرو یا سسکا لیا کرو) اور جب بنجر زمین سے گزرو تو جانوروں كواس سے نجات دلاؤ یعنی تیز چلو۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: حدیث نمبر 805)
ہشام بن زید بن انس بن مالک انھوں نے کہا : میں اپنے دادا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب کے ہاں آیا ، وہاں کچھ لوگ تھے ، انھوں نے ایک مرغی کو باندھ کر حدف بنایا ہوا تھا ( اور ) اس پر تیر اندازی کی مشق کررہے تھے : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ جانوروں کو باندھ کر مارا جائے ۔ (صحیح مسلم 5057)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی روح والی چیز کو ( نشانہ بازی کا ) ہد ف مت بناؤ ۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر ،5059)
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۔ (ابو داؤد: حدیث نمبر 2562)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں میں سے کسی بھی چیز کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ ( صحیح مسلم : حدیث نمبر 5063)
جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی ﷺ كے پاس سے ایک گدھا گزرا، جس كے چہرے پرنشانات بنائے گئے تھےآپ ﷺ نے فرمایا:كیا تمہیں یہ اطلاع نہیں ملی كہ جس شخص نے جانور كے چہرےپر نشانات بنائےیا اس كے چہر ے پر مارا، میں نے اس پر لعنت كی ہے؟آپ نے اس كام سے منع فرمادیا۔(سلسلہ احادیث صحیحہ حدیث نمبر 818، ابو داؤ د :حدیث نمبر 2564)
عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیا، آپ ﷺ نے راز داری میں مجھ سے کوئی بات کیھ جو میں لوگوں سے بیان نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کواپنی ضرورت کے لئے سب سے پسندیدہ جگہ کوئی ٹیلہ یا کھجوروں کا جھنڈ ہوا کرتا تھا۔آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں سامنے ایک اونٹ کھڑا ہے(جب اس نے نبی ﷺ کو دیکھا تو وہ بلبلا یا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور اس کے کان کی کی پشت سے لے کر کوہان تک ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہوگیا)۔ آپ ﷺ نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تم ان جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے؟ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس پر بوجھ لاد کر تھکاتے ہو۔(سلسلہ احادیث صحیحہ: حدیث نمبر 2052)
سوادہ بن ربیعرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے کچھ اونٹنیاں دیں پھر فرمایا: جب تم اپنے گھر واپس جاؤ تو اپنے (گھروالوں کو)حکم دو کہ اپنے جانوروں کی خوراک اچھی رکھیں اور انہیں حکم دو کہ وہ اپنے ناخن کاٹ کر رکھیں اور ان ناخنوں کے ذریعے اپنے جانوروں کے تھنوں کو دودھ دوہتے وقت تکلیف نہ دیں۔(سلسلہ احادیث صحیحہ: حدیث نمبر 2034)
کتے کو پانی پلانے سے اگر کوئی بنی اسرائیلی جنت کا حقدار بن سکتا ہےاور ایک بلی کو باندھ کر مار دینے والی عورت جہنم کی مستحق بن سکتی ہے تو جال لیجیے جانوروں میں تمہارے لئے اجر اور ثواب کا عنصر موجود ہے ان سے اچھا برتاؤ کیجئے اور ان سے اجر پائیے بالخصوص قربانی کے ان جانوروں کا احترام کیجئے اور ان سے اجر و ثواب پانے کی کوشش کیجئے ۔
ذبح میں جانوروں کو آرام پہنچائیں
جانور کو ذبح کرنے کے شرعی آداب بھی سکھائے گئے ہیں، ذبح کرتے وقت ان آداب اورتعلیمات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے حقیقت یہ ہے کہ ادیان باطلہ سے وابستہ لوگ دنیا میں اپنے آپ کو جانوروں کا محسن ثابت کرتے ہیں کتے بلیوں کا ایک احساس دکھلانے والوں کے ہاں جانوروں کو ذبح کرنے کے طریقوں کو کارخانوں میں مشینوں پہ اور ہاتھ کے مختلف طریقوں سے گردنیں کاٹ کر جو انداز اپنائے جاتے ہیں یہ ظالمانہ بہیمانہ طریقے ان کا جانوروں سے احساس کا کٹھا چٹھا کھول دیتے ہیں ۔ اے مسلماں جب جانور کی رسی تیرے ہاتھ میں ہو اور تو اللہ کے لیے اس کو قربان کرنا چاہے تو اس کو بائیں پہلو لیٹا اور دائیں ہاتھ میں چھری لے اور درج ذیل تعلیمات کی روشنی میں اپنا جانور اللہ کی راہ میں ذبح کر ۔
۱۔ قربانی کا جانورذبح کرتے وقت نیت کرنا الفاظ کے ساتھ یہ مروجہ نیت کے الفاظ کہیں بھی ثابت نہیں ہے نیت دل کے ارادے کا نام ہے کچھ لوگ نیت ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ جانور کے سات حصے ہیں تو ایک حصہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نام باقی کے فلاں فلاں کے نام حقیقت میں یہ لوگ جانور کے باقی ماندہ حصوں میں اللہ کے رسول کا جو اجر بنتا ہے اس سے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے( صحیح بخاری حدیث نمبر 1)
۲۔ جانور کو قبلہ رخ لٹانا سنت ہے اور دعا کے الفاظ : جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ ﷺ نے یہ دعا پڑھی:
«إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلك أمرت وأنا من المسلمين، اللهم منك ولك
أبی داؤد – حدیث رقم: 2795
بِسْمِ اللہِ واللہُ أَکْبَرُ، اَللّٰھمَّ مِنْکَ وَ لَکَ تقبل مني
مسند أحمد – 465
۳۔ جانور ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری کو تیز کر لیں اور چھری کو جانور کے سامنے تیز نہ کریں بلکہ اپنی چھری کو جانور سے چھپائیں۔
سالم بن عبداللہ( بن عمر) رضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیان كرتے ہیں كہ رسول اللہ ﷺ نے چھری تیز كرنے اور جانوروں سے چھپانے كا حكم دیا اور جب تم میں سے كوئی شخص ذبح كرےتوپہلے جلدی کرے۔(سلسلہ احادیث صحیحہ : حدیث نمبر 819)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو اپنی ٹانگ ایک بکری کے اوپر رکھے چھری تیز کر رہا تھا۔ بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اس سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ اسے دو مرتبہ مارو؟(سلسلہ احادیث صحیحہ حدیث نمبر 2053)
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : دو باتیں ہیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے یاد رکھی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس لئے جب تم ( قصاص یاحد میں کسی کو ) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو ، اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ، تم میں سے ایک شخص ( جو ذبح کرنا چاہتا ہے ) وہ اپنی ( چھری کی ) دھار کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 5055)
۳۔ ذبح میں چھری کو جلدی جلدی اور تیزی سے چلائیں۔
رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا، لیکن ذبح کرنے میں جلدی کرو۔ جو چیز خون بہا دے(صحیح بخاری حدیث نمبر 2507)
۵۔ ذبح میں خصوصی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد فوری اس کی گردن کو نہ تو مروڑاجائے اور نہ ہی اس کی شہ رگ کو کاٹا جائے جس سے جانور بہت جلدی ٹھنڈاتو ہوجاتا ہے لیکن اس کا ذبح کا خون اس کے جسم میں باقی رہ جاتا ہے جدید تحقیق یہ کہتی ہے کہ جانور میں باراں حصے خون ہوتا ہے اور خون کو ہضم کرنے کی صلاحیت ہمارے معدے میں نہیں ہے جس وجہ سے یہ خون مضر صحت بھی ہے جانور کو اپنے حال پر چھوڑ دینے سے اور ہاتھ پاؤں مارتے رہنے سے جب خود بخود ٹھنڈا ہوگا تو اس کا خون اس کے ساتھ ساتھ نکلتا رہے گا اور جانورکی تکلیف بھی اس کے ساتھ ہی ساتھ نکل جاتی ہے۔
حقیت یہی ہے کہ بے زبانوں کی کشادہ اور فرحت
بھری زندگی انہی کے مالکوں کے دم سے ہے
بقول علامہ اقبال کے ایک گائےبکری کے آگے
مالک کے شکوے کرتی ہے کہ ہم ساری زندگی
دودھ سے ان۔کے بچے پالیں پھر بھی یا بیچ
ڈالے یا ذبح کر ڈالے تو بکری جواب دیتی ہے
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزہ لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایہ
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں بے زباں غریب کہاں
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
اس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی کہ آزادی
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گلہ اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
کلیات اقبال