تین چیزیں جو مصائب کو انسان تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹال دیتی ہیں

ہماری دنیا وی زندگی میں زیادہ ترمصیبتیں اور پریشانیاں انسانوں کے بُرے اعمال کے سبب نازل ہوتی ہیں اور یہ بات اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام مجید کے اندر ارشاد فرمائی ہے :

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ

الشوریٰ – 30

اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے ۔

قارئیں كی خدمت میں ہم تین ایسی چیزوں تذكره كریں گے جو مصائب كو آپ تك پہنچنے سے پہلے ہی روک دیتی ہیں۔ چاہے آپ ان مصائب اور پریشانیوں كے بارے میں پہلے سےعلم رکھتے ہوں یا نہیں۔ مصیبتوں اور پریشانیوں كو ٹالنے والی یہ تینوں چیزیں قرآن وحدیث میں مذکور ہیں اور ہر مسلمان کیلئے ان تینوں چیزوں کو اختیار کرنا اور ان پر عمل کرنا نہایت آسان ہے۔

مصائب کو ٹالنے والی تین چیزوں میں پہلی چیز دعا ہے

اپنی اور دوسروں کی اصلاح ،کامیابی ،دائمی خیر و بھلائی، مصیبتوں اور عقوبتوں سے تحفظ، اور موجودہ مصائب کے ازالے کا اہم طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اخلاص، دلی توجہ اور گڑگڑا کر دعا کی جائے کیونکہ اللہ تعالی دعا کوپسند فرماتا ہے، اور دعا مانگنے کا حکم دیتا ہے۔ دعا  موجودہ اور پیش آمدہ مصائب کے لئےبہترین اکسیر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

غافر – 60

 تمہارے پروردگار نے فرمایامجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں جلد ہی ذلیل و خوار  ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

دعا كی اہمیت اور فضائل میں چندآیات اور احادیث پیش خدمت ہیں۔

دعا اللہ کے حکم کی بجا آوری اور اطاعت ہے

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

الاعراف – 29

اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کو پکارو۔

’’الدِّيْنَ ‘‘ کا معنی یہاں عبادت ہے، یعنی خالصتاً اس کی عبادت کرو اور اس کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔

نبی ﷺ نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے۔

اللہ کے ہاں سب سے معزز چیز دعا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ليسَ شيءٌ أَكْرَمَ على اللَّهِ تعالى منَ الدُّعاءِ

صحیح الترمذی – 337

اللہ تعالی کے ہاں کوئی بھی چیز دعا سے بڑھ کر معزز نہیں ہے۔

دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے

لا يزيدُ في العمرِ إلَّا البرُّ ولا يردُّ القدرَ إلَّا الدُّعاءُ

صحیح ابن ماجه – 73

دعاآنے والی مصیبت اور آئی ہوئی مصیبت دونوں کو دُور کرتی ہے

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدعاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نزلَ ومِمَّا لمْ يَنْزِلْ ، فَعليكُمْ عِبادَ اللهِ بالدعاءِ

صحیح الترغیب – 1634 / حسن / صحیح الجامع – 3409

کہ دعا اس مصیبت کو بھی دور کرتی ہے جو اتر چکی ہے اور اُس مصیبت کو بھی ٹال دیتی ہے جو ابھی آئی نہیں ، تو اے اللہ کے بندو! تم اللہ سے برابر دعا کرتے رہو۔

اللہ دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے

چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

يقولُ اللهُ تَعالَى: أنا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بي، وأنا معهُ إذا ذَكَرَنِي

صحیح البخاری – 7405

حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: میں بندے کے گمان کے مطابق اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں، جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔

دعا کرنا عبادت ہے

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

قال النبی ﷺ الدُّعاءُ هوَ العبادةُ

صحیح الترمذی – 3247

کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دعا ہی عبادت ہے۔

دعا عبادت کیسے ہے؟

 اب ہم یہ دیکھیں گے کہ دعا عبادت کیسے ہے؟ دعا کرنے والا دعا اس وقت کرتا ہے جب کسی چیز کے حصول یا کسی مصیبت کے زائل ہونے کے ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ اور بندہ جس کو پکارتا ہے وہ یہ سمجھ کر پکارتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے میری پکار کو سن رہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ اس کا باطنی اسباب پر اتنا تصرف ضرور ہے کہ وہ میری تکلیف کو رفع کرسکتا ہے یا میری حاجت پوری کرسکتا ہے۔ گویا پکاری جانے والی ہستی کا ایک تو عالم الغیب نیز سمیع و بصیر ہونا ضروری ہوا۔ اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔

 دوسرے جب تک اسباب کائنات میں اس کا تصرف تسلیم نہ کیا جائے اس سے دعا کرنا ایک فعل عبث قرار پاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو کسی دوسری ہستی میں تسلیم کرنا اسے اللہ کا ہمسر یا شریک سمجھنا ہے اور یہی چیزعین شرک ہے۔ اور جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کو الوہیت کا یہ مقام دے دیا تو وہ اس کے مقابلہ میں ازخود بندگی کے مقام پر اتر آیا گویا پکاری جانے والی ہستی اس کی معبود بن گئی اور یہ پکارنے والا عبادت گزار اور اس کی پکار عین عبادت ہوئی۔ اور جتنی دیر اس نے دعا مانگنے میں لگائی وہ مدت گویا اس نے عبادت ہی میں گزار دی۔ لہٰذا ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ مانگتے رہیں۔

دعا نہ کرنے والے متکبر ہیں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

غافر – 60

جو لوگ میری عبادت (دعا) سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

یہ دلیل ہے اس بات کی کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے، یعنی ’’یا علی مدد‘‘ کہتا ہے، ’’ يَا شَيْخُ عَبْدَ الْقَادِرِ جِيْلَانِيْ شَيْئًا لِلّٰهِ ‘‘ کہتا ہے، یا بہاؤ الحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر، گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابلِ معافی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں، کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دعا یا کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا اور عبادت ہم معنی الفاظ ہیں۔

دعا اللہ کے غضب کو ٹالنے کا سبب ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَن لم يسألِ اللهَ يغضبْ علَيهِ

صحیح الترمذی – 3373

جو اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض اور ناخوش ہوتا ہے۔

دعا عاجزی سے حفاظت کا ذریعہ ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ أبخلَ الناسِ من بخلَ بالسلامِ ، وأعجزُ الناسِ من عجز عن الدعاءِ

صحیح الجامع – 1519

لوگوں میں بخیل و کنجوس ترین شخص وہ ہے کہ جو سلام میں بخل کرے۔ اور لوگوں میں عاجز ترین شخص وہ ہے کہ جو دعاء سے عاجز آگیا ہو۔

دعا ہر صورت میں قبول ہوتی ہے

دعا ہر صورت میں قبول ہوتی ہے۔ البتہ دعا کی قبولیت کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں چنانچہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد ملاحظہ فرمائیں :

ما من مسلمٍ يدعو بدعوةٍ ليس فيها إثمٌ ، ولا قطيعةُ رَحِمٍ ؛ إلا أعطاه بها إحدى ثلاثَ: إما أن يُعجِّلَ له دعوتَه ، وإما أن يدَّخِرَها له في الآخرةِ ، وإما أن يَصرِف عنه من السُّوءِ مثلَها. قالوا : إذًا نُكثِرُ . قال: اللهُ أكثرُ .

صحیح الترغیب – 1633

جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبی ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ عطا کرنے والا ہے۔

گویا دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، کبھی فورا قبول کرلی جاتی ہے ، کبھی اس کی قبولیت میں تاخیر ہوسکتی ہے ، کبھی آخرت کے لئے ذخیرہ بنا دی جاتی ہے تو کبھی اس کے بدلے برائی دفع کی جاتی ہے۔

خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے اللہ شرماتا ہے

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

إنَّ اللهَ حيِىٌّ كريمٌ يستحي إذا رفعَ الرَّجلُ إليْهِ يديْهِ أن يردَّهما صفرًا خائبتينِ

صحیح الترمذی – 3556

کہ اللہ تعالیٰ حیادار کریم ہے۔ وہ اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ کوئی شخص اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ اسے خالی اور نا مراد واپس لوٹا دے۔

بہرکیف! دعا عبادت ہے اس لئے عاجزی اوراخلاص کے ساتھ صرف اپنے خالق کو پکاریں، دعا کرتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، براہ راست اسی سے مانگیں، دعا کرتے ہوئے زندہ یا مردہ کسی کا وسیلہ نہ لگائیں بلکہ اللہ کے اسمائے حسنی اور اپنے اعمال صالحہ کا وسیلہ لگائیں ، گناہوں سے بچیں، صحیح طور پر اللہ پر ایمان لائیں ، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پاسداری کریں،توبہ کے ساتھ دعاکریں، حرام کمائی سے بالکل دور رہیں ، لوگوں کا حق نہ ماریں ، نہ ہی کسی پر ناحق ظلم کریں اور دعا میں افضل اوقات کا خیال رکھیں ۔ان باتوں کا پاس ولحاظ ہوگا تو رب العالمین بے شک ہماری دعا قبول فرمائے گا۔

سب سے زیادہ عافیت کی دعا مانگیں

عافیت کی اہمیت کا اندازہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جودین یا دنیا کی کسی نعمت سے محروم ہو، اور جب تک انسان عافیت میں رہتا ہے اس کی قدرو قیمت کا احساس نہیں ہوتا،اور جب اس سے محروم ہوجاتا ہے تب اسےدعا کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عافیت کا لباس ہی دین اور دنیا کا سب سے خوبصورت لباس ہے، اسی کی بدولت دنیا کی زندگی بھی خوبصورت ہوجاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ محمد مصطفی ﷺ نے اپنی امت پر رحم کرتے ہوئے اور ان کی خیرخواہی چاہتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی ہے:

سَلوا اللهَ العَفْوَ والعَافِيَةَ ، فإنَّ أحدًا لمْ يُعْطَ بعدَ اليَقِينِ خيرًا مِنَ العَافِيَةِ

صحیح الرغیب – 3387

اللہ سے معافی اور عافیت مانگیں؛ کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی۔

عافیت کے لئے نبی ﷺ کی دعا

اللهم إني أسألُك العافيةَ في الدنيا والآخرةِ ، اللهم إني أسألُك العفوَ والعافيةَ في ديني ودنياي وأهلي ومالي ، اللهم استرْ عورتي وآمنْ روعاتي ، اللهم احفظْني مِن بين يديَّ ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي ، وأعوذُ بعظمتِك أن أُغتالَ مِن تحتي.

صحیح أبي داؤد – 5074

یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت طلب کرتا ہوں ۔ یا اللہ! میں تجھ سے اپنے دین، دنیا، اور اہل خانہ سمیت اپنی املاک کے متعلق بھی معافی اور عافیت کا درخواست گزار ہوں ۔ یا اللہ! میرے عیب چھپا دے۔ اور مجھے میرے خدشات و خطرات سے امن عطا فرما ۔ یا اللہ! میرے آگے ، میرے پیچھے ، میرے دائیں ، میرے بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری عظمت کے ذریعے سے اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح و شام ان دعاؤں کو نہیں چھوڑتے تھے۔

رفاہی خدمات

دوسری چیز جو مصیبت کو انسان تک پہنچنے سے روکتی ہے وہ رفاہی کام ہیں ۔ یعنی دکھی انسانیت کی خدمت آپ تک مصائب اور پریشانیوں کو پہنچنے سے روک دیتی ہے۔ 

چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

صَنائعُ المعروفِ تَقِي مَصارعَ السُّوءِ، والصَّدَقةُ خَفِيًّا تُطفئُ غضبَ الرَّبِّ، وصِلةُ الرَّحِمِ زيادةٌ في العُمُرِ، وكلُّ معروفٍ صدَقةٌ، وأهلُ المعروفِ في الدُّنيا هُمْ أهلُ المعروفِ في الآخِرةِ، وأهلُ المُنكَرِ في الدُّنيا هُمْ أهلُ المُنكَرِ في الآخِرةِ

صحیح الجامع – 3796

بھلائیوں کے کام بُری موتوں آفتوں اور ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اورپوشیدہ خیرات رب کا غضب بجھاتی ہے اوررشتہ داروں سے اچھا سلوک عمر میں برکت کا باعث ہے اور ہر نیکی صدقہ ہے اور دنیا میں احسان والے وہی آخرت میں احسان پائیں گے اور دنیا میں بدی والے وہی آخرت میں بدی دیکھیں گے۔

رفاہی خدمت کرنے والا سب سے افضل انسان

مذہب اسلام میں سب سے زیادہ افضل انسان اسے کہا گیا ہے، جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کار آمد بھی ہو، غور کیجئے نماز کی کتنی اہمیت ہے، اس کو دین کا ستون بتایا گیا، حضور ﷺ نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ حج کے بارے میں کہا کہا گیا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جیسے اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے، اسی طرح حج مبرور، بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے، لیکن بہتر انسان کا مصداق کون شخص ہے؟ اس کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سب سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہو، جو زیادہ روزہ رکھنے والا ہو، جو زیادہ حج اور قربانی کرنے والا ہو۔ بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَحَبُّ الناسِ إلى اللهِ أنفعُهم للناسِ ، وأَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ عزَّ وجلَّ سرورٌ تُدخِلُه على مسلمٍ ، تَكشِفُ عنه كُربةً ، أو تقضِي عنه دَيْنًا ، أو تَطرُدُ عنه جوعًا ، ولأَنْ أمشيَ مع أخٍ في حاجةٍ ؛ أَحَبُّ إليَّ من أن اعتكِفَ في هذا المسجدِ يعني مسجدَ المدينةِ شهرًا ، ومن كظم غيظَه ولو شاء أن يُمضِيَه أمضاه ؛ ملأ اللهُ قلبَه يومَ القيامةِ رِضًا ، ومن مشى مع أخيه في حاجةٍ حتى يَقضِيَها له ؛ ثبَّتَ اللهُ قدمَيه يومَ تزولُ الأقدامُ

صحیح الترغیب – 2623

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے، یا اس سے مصیبت دور کرے، یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے، اور اگر میں کسی بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلوں تو یہ مجھے اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ جس شخص نے اپنا غصہ روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جو شخص اپنے غصے کے مطابق عمل کرنے کی طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی گیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا۔ اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری ہونے تک اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔

گویا انسانی اور سماجی خدمت کرنے کو اسلام نے بہت فوقیت اور ترجیح دی ہے، وجہ یہ ہے کہ اس کا نفع متعدی ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اسی لیے اس امت کو خیر امت قرار دیا ہے اور اس کا سبب یہی بتایا ہے، کہ یہ امت صرف اپنے نفع کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے نفع کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ انہیں اچھے کاموں کی طرف بلائے اور برے کاموں سے بچائے۔

رفاہی خدمات اور رسول كریم ﷺ كی زندگی

رفاہی کاموں اور انسانی خدمات کے سلسلے میں ہمارے سامنے نبی کریم ﷺ کا عملی نمونہ موجود ہے۔ آپ ﷺ انسانی خدمت کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ بعثت سے قبل کے دورمیں بھی آپ ﷺ ہی تھے جو دُکھی لوگوں کی دست گیری کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کا تعارف ان سنہرے اور جامع الفاظ میں کرایا ہے۔

کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیَكَ اللہُ اَبَدًا اِنَّك لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِ یْ الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ

صحیح البخاری – 3

اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رنج نہ دے گا ، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپ ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، آپ ناداروں کے لیے کماتے ہیں ، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں ، آپ حوادث کے زمانے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

چند رفاہی خدمات رسول اللہ ﷺ کے افعال و اقوال کی روشنی میں

پانی پلانا

اسلام نے بہت سے اعمال کو انسان کے لئے سعادت ونجات، بخشش ومعافی کا ذریعہ بنایا ہے، چنانچہ ان ہی میں سے ایک ’’پانی پلانا‘‘ بھی ہے۔ کسی پیاسے انسان کو پانی پلانا کتنا عظیم اجر کا باعث ہے ذرا نبی کریم ﷺ كے فرامین ملاحظہ کیجیئے:

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا:

فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال: سقْيُ الماءِ

صحیح النسائی – 3666

کہ کونسا صدقہ افضل ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانی پلانا سب سے افضل صدقہ ہے۔

ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لیس صدقة أعظم أجراً من ماء

صحیح الترغیب – 960

یعنی پانی پلانے سے بڑھ کر ثواب والا کوئی صدقہ نہیں ہے۔

بیماریوں کا علاج پانی پلانا ہے

 پانی پلانا ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان کی روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ علی بن حسن بن شفیق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے اپنے گھٹنے کے متعلق سوال کیا جو سات سال سے زخمی تھا اور جس سے خون رس رہا تھا ، اس شخص نے کہا: میں نے کافی اطباء ومعالجین سے رجوع کیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ امام مبارک رحمہ اللہ نے کہا:

اذْهَبْ فَانْظُرْ مَوْضِعًا يَحْتَاجُ النَّاسُ إِلَى الْمَاءِ فاحْفُرْ هُنَاكَ بِئْرًا، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ تَنْبُعَ هُنَاكَ عَيْنٌ، وَيُمْسِكُ عَنْكَ الدَّمُ۔ فَفَعَلَ الرَّجُلُ فَبَرِئَ

سیر اعلام النبلاء – 8/408

کسی ایسی جگہ پر کنواں کھدوا کر دیدے جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہے ، مجھے امید ہے کہ اُدھر پانی کا چثمہ پھوٹ نکلے گا ادھر تیرا خون رک جائے گا ، پس اس شخص نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا تو وہ شفا یاب ہوگیا۔

امام قرطبی رحمہ اللہ بعض تابعین کے کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :

وقد قال بعض التابعين : من كثرت ذنوبه فعليه بسقي الماء ، وقد غفر الله ذنوب الذي سقى الكلب ، فكيف بمن سقى رجلاً مؤمناً موحداً وأحياه

جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ لوگوں کو پانی پلائے ۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو معاف کردیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا ! تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو کیوں نہیں معاف فرمائے گا جو ایک موحد مؤمن کو پانی پلاکر اسے زندگی عطا کرے گا ۔ ( تفسیر قرطبی: 215 / 7  )، سورة الأعراف:  الآیة :  50 )

پانی پلانا باعثِ مغفرت ہے:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ فَنَزَعَتْ خُفَّهَا فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ

صحیح البخاری – 3321

ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، تو اس نیکی کی وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔

لوگوں كی پریشانیاں دور کرنا

مَن نَفَّسَ عن مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِن كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عنْه كُرْبَةً مِن كُرَبِ يَومِ القِيَامَةِ، وَمَن يَسَّرَ علَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عليه في الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَاللهُ في عَوْنِ العَبْدِ ما كانَ العَبْدُ في عَوْنِ أَخِيهِ

صحیح مسلم – 2699

جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی ، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ، اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔

مسکینوں کی خبر گیری

نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں کے لیےسراپا رحمت اور لطف و عطاہے- مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر آپ ﷺ ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے- آپ ﷺ نے مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا- چنانچہ صحابہ کرام کو معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترجیح فرماتے ہوئےآپ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے:

السَّاعِي علَى الأرْمَلَةِ والمِسْكِينِ، كالْمُجاهِدِ في سَبيلِ اللَّهِ، أوِ القائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهارَ.

صحیح البخاری – 3535

بیوہ اور مسکین کے لیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے۔

  کھانا کھلانے میں ترغیب و تعاون

اسلام نے اللہ اور رسول کی اتباع کے ساتھ بندوں کی خدمت، ان کے ساتھ ہمدردی و غم خواری اور ان کی نصرت و اعانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے چنانچہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَطْعِمُوا الجَائِعَ، وعُودُوا المَرِيضَ، وفُكُّوا العَانِيَ.

صحیح البخاری – 5649

”بھوکے کو کھانا کھلاؤ ،بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کی رہائی کا بندوبست کرو۔”

حضور اکرم ﷺ نے اپنی امت کو غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے:

أنَّ رَجُلًا سَأَلَ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أيُّ الإسْلَامِ خَيْرٌ؟ قالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وتَقْرَأُ السَّلَامَ علَى مَن عَرَفْتَ ومَن لَمْ تَعْرِفْ.

صحیح البخاری – 12

حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ  نبی کریم ﷺ سے کسی شخص نے سوال کیا-بہترین اسلام کون سا ہے-آپ ﷺ نے فرمایا، ’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَن أطعَمَ أخاهُ خُبْزًا حتَّى يُشْبِعَه، وسَقاهُ ماءً حتَّى يَرْويَهُ، بَعَّدَهُ اللهُ عنِ النَّارِ سَبْعَ خَنادِقَ، بُعْدُ ما بيْن خَنْدَقَيْنِ مَسِيرةُ خَمْسِ مائةِ سنةٍ.

المستدرك على الصحيحين – 7368 / صحيح الأسناد

جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے۔

ہنر سکھانا

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل رہنمائی کرتا ہے –رسول کریم ﷺ نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے’’حقیر سے حقیر پیشہ اپنانا کسی کے آگےہاتھ پھیلانے سے بہترہے ‘‘اسلام نے درس دیاہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی مزدوری دی جائے – اگر معاشرے میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی قسم کا ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتا ہے یا کوئی شخص کوئی ہنر جانتا ہے لیکن اس میں پختہ نہیں ہے اور پوری طرح کام نہیں کرسکتا تو ایسے شخص کو ہنر سکھانا یا ہنر میں قابل بنانا اس کی رہنمائی کرنا اور کام سلیقے سے کرنے کے لائق بنانا نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے- جیساکہ حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ سےروایت کردہ حدیث رہنمائی کرتی ہے:

سَأَلْتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أيُّ العَمَلِ أفْضَلُ؟ قالَ: إيمَانٌ باللَّهِ، وجِهَادٌ في سَبيلِهِ، قُلتُ: فأيُّ الرِّقَابِ أفْضَلُ؟ قالَ: أعْلَاهَا ثَمَنًا، وأَنْفَسُهَا عِنْدَ أهْلِهَا، قُلتُ: فإنْ لَمْ أفْعَلْ؟ قالَ: تُعِينُ ضَايِعًا، أوْ تَصْنَعُ لأخْرَقَ، قالَ: فإنْ لَمْ أفْعَلْ؟ قالَ: تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ؛ فإنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بهَا علَى نَفْسِكَ.

صحیح البخاری – 2518

حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے برتر اور افضل عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا- میں نے دریافت کیا کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا زیادہ فضیلت کا کام ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ غلام جس کی قیمت زیادہ ہو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کرسکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی مدد کرو جو (غربت کی وجہ سے) ضائع ہورہا ہو یا وه شخص جو اپنا کام نہ کرسکے۔  میں نے عرض کی،  اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ، یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے وجود پر کررہا ہے۔

بیوہ کی امداد:

آپﷺ نے بیواؤں کی بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم دی ہے- قبل از ظہورِ اسلام جب عورت بیوہ ہوجاتی تو مرنے والے کے رشتے دار اسے مالِ وراثت تصور کرتے ہوئے قابض ہوجاتے اور پھر اسکی بقیہ زندگی کسی کنیز سے بہتر نہ ہوتی – مرحوم کے عزیز و اقارب اسے نہ صرف وراثت سے محروم کر دیتے بلکہ اسکا جینا بھی محال کر دیتے-ہوس بھری نگاہوں کے نشتر ہمیشہ اس(بیوہ)کے تعاقب میں رہتے –اسلام نے بیوہ کو احسن طریقے سے زندگی گزارے کے حقوق سے ہمکنار کیا اور معاشرے میں اسکی عزت و تکریم کا اہتمام کیا – اہل عرب بیواؤں سے نکاح کو پسند نہ کرتے جس سے وہ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار رہتیں- آپ ﷺ نے خود بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا- آپ ﷺ نے بیوہ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام عطا فرمایا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا:

السَّاعِي علَى الأرْمَلَةِ والمِسْكِينِ، كالْمُجاهِدِ في سَبيلِ اللَّهِ، أوِ القائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهارَ.

صحیح البخاری – 5353

بیوہ اور مسکین کے لیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے۔

حاجت مند کا نکاح کرانا:

ایک مسلم خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی ہے اس لیے اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے جسے اسلام نے تقدس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے-نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ بتاتی ہے کہ آپ ﷺ نے کتنے ہی مردوں اور عورتوں کنواریوں اور بیواؤں کے نکاح کرواتے- آپ ﷺ نے اپنے ارشادات سے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے مختلف پہلو بیان فرمائے اور اس کی اہمیت واضح کی جیساکہ ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ:

ثلاثةٌ حقٌّ على اللَّهِ عونُهُم: المُجاهدُ في سبيلِ اللَّهِ، والمُكاتِبُ الَّذي يريدُ الأداءَ، والنَّاكحُ الَّذي يريدُ العفافَ

صحیح الترمذی – 1655

تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر ان لوگوں کا حق ہے:

1- اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا

2- غلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا۔

3- اوراپنی عفت محفوظ رکھنےکےلئے نکاح کرنے والا۔

یتیموں کی امداد :

حضوراکرمﷺ نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں- آپ ﷺ نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أنا وَكافلُ اليتيمِ في الجنَّةِ كَهاتين ، وأشارَ بأصبُعَيْهِ يعني : السَّبَّابةَ والوسطى

صحیح الترمذی – 1918

میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں  اور آپ ﷺ نے انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی۔

 دین و ملت کی خدمت کرنے والوں کے خاندان سے حُسنِ سلوک:

اسلامی معاشرے کے وہ افراد جو اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی فریضہ اشاعت وترویج اسلام اور اسلامی حکومت کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں- ایسے افراد کے اہلِ خانہ کی حفاظت و نگہبانی، اگر حاجت مند ہوں تو ان کی امداد کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے- نبی کریم ﷺ شہدا، مجاہدین اسلام کے اہل خانہ سے خصوصی شفقت فرماتے-آپ ﷺ کا ارشادہے :

مَن جَهَّزَ غَازِيًا في سَبيلِ اللَّهِ فقَدْ غَزَا، وَمَن خَلَفَ غَازِيًا في سَبيلِ اللهِ بخَيْرٍ فقَدْ غَزَا.

صحیح البخاری – 2843

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے والے کو ساز و سامان دیا تو وہ (گویا) خود غزوہ میں شریک ہوا اور جس نے خیر خواہانہ طریقہ پر غازی کے گھر بار کی نگرانی کی تو وہ (گویا) خود غزوہ میں شریک ہوا۔

مساجد کی تعمیر

مساجد کی تعمیر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کی جاتی ہے، اس کی تعمیر براہِ راست عبادت میں تعاون ہے، لیکن دورِ اول میں مساجد عبادت کے علاوہ مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی مراکز کی بھی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان کی حیثیت اب بہت کچھ بدل چکی ہے۔رفاہی خدمات کے ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الجَنَّةِ

صحیح البخاری – 450

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے اللہ کی رضا کی طلب میں کوئی مسجد بنائی تواللہ تعالیٰ اس کے لیے اس طرح کا گھرجنت میں بنائے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعمیر مسجد بہت کارِ ثواب ہے۔ مسجدایک بہت بڑا رفاہی ادارہ ہے، جس میں مسلمانوں کی عبادت وملاقات سے لے کر معاملات کے فیصلے تک کیے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، لوگوں سے ملتے ان کے حالات معلوم کرتے بعض فیصلے کرتے اور بعد ازاں گھر تشریف لے جاتے۔ مسجد کى ہر جگہ تعلیمی مرکزکی حیثیت ہونی چاہیے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسجد نبوی ﷺ میں صُفہ ایک ایسا ادارہ تھا جہاں خوراک اور لباس سے غریبوں کی مالی اعانت کی جاتی تھی۔ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ مغربی ممالک میں مساجد اخلاقی اداروں اور کمیونٹی سینٹرز کا کام سر انجام دے رہی ہیں۔ عبادت، تعلیم وتعلم اور شادی بیاہ جیسے امور وہاں سرانجام پاتے ہیں۔

سزائیں اور قیام گاہیں تعمیر کرنا

فلاحی خدمات میں سے ہوٹلوں اور مسافر خانوں کی تعمیر بھی ہے۔ جہا ں مسافروں کو بہتر سہولتیں حاصل ہوں، اور دیس سے دوری کی وجہ سے انهیں مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس سے اس کا اجر وثواب اور فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے۔ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ مِمَّا يلحقُ المؤمنَ من عملِهِ وحسناتِه بعدَ موتِه عِلمًا علَّمَه ونشرَه وولدًا صالحًا ترَكَه ومُصحفًا ورَّثَه أو مسجِدًا بناهُ أو بيتًا لابنِ السَّبيلِ بناهُ أو نَهرًا أجراهُ أو صدَقةً أخرجَها من مالِه في صِحَّتِه وحياتِه يَلحَقُهُ من بعدِ موتِهِ

صحیح ابن ماجه – 200

مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیکیوں اور اعمال میں سے جو چیزیں اسے نفع دیتی ہیں: ایک تو ان میں سے علم ہے جس کی وہ تعلیم دے اور پھیلائے، دوسرا نیک بیٹا ہے جسے وہ چھوڑ کر مرا ہو، تیسرا قرآن ہے کہ اس نے کسی کو اس کا وارث بنایا ہو، چوتھی مسجد ہے جس کی اس نے تعمیر کی ہو، پانچواں وہ مکان ہے جو اس نے مسافروں کے قیام کے لیے بنایا ہو، چھٹی وہ نہر ہے جو اس نے جاری کی ہو، ساتواں وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی زندگی میں اور بحالتِ صحت اللہ کی راہ میں دیا ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو موت کے بعد بھی اس سے ملتی رہتی ہیں۔‘‘

اس حدیث میں فلاح وبہبود کے بعض خاص کاموں کا ذکر ہے، اور انہیں صدقہ جاریہ کہا گیا ہے۔ان میں مسافروں کے لیے مکان اور سرائے کی تعمیر بھی ہے۔ایک اور ارشاد نبوی ﷺ ہے:

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ،‏‏‏‏ صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ،‏‏‏‏ وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ،‏‏‏‏ وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ

صحیح مسلم – 1631

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے“۔

کنواں کھدوانا

پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی صاف پانی کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اسلام نے اس کی طرف جس طرح توجہ دلائی ہے۔ اس کا اندازہ اُوپر کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے جس میں بندگان خدا کے لیے نہرکی تعمیر کو صدقہ جاریہ کہا گیا ہے۔  حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے كہ انہوں نے کہا :

يا رسولَ اللَّهِ ، إنَّ أمَّ سَعدٍ ماتت ، فأيُّ الصَّدقةِ أفضلُ ؟ ، قالَ : الماءُ ، قالَ : فحفرَ بئرًا ، وقالَ : هذِهِ لأمِّ سَعدٍ

صحیح أبي داؤد – 1618

اے اللہ کے رسول ! ( میری والدہ ) ام سعد فوت ہو گئی ہیں تو کون سا صدقہ افضل ہے ؟ ( جو میں ان کی طرف سے کروں ) آپ نے فرمایا :’’ پانی ۔‘‘ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ ( میری والدہ ) ام سعد کی طرف سے ہے ۔

ذرائع آمدورفت کی درستگی

اسلام نے فلاحی خدمات کی ذمہ داری ریاست کے افراد پر ڈالی ہے اور ان افراد کو کہا گیا ہے کہ راستوں کو صاف رکھیں اور ان پر جو رکاوٹیں ہوں انهیں دور کریں۔ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت معروف ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الإِيمانُ بضْعٌ وسَبْعُونَ، أوْ بضْعٌ وسِتُّونَ، شُعْبَةً، فأفْضَلُها قَوْلُ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأَدْناها إماطَةُ الأذَى عَنِ الطَّرِيقِ، والْحَياءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإيمانِ.

صحیح مسلم – 35

ایمان کی ستر یا ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں ۔ان میں سے بہتر لا الہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ شاخ راستہ سے تکلیف کو دور کرنا ہے۔ حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین کو آپ ﷺ نے تاکید کی کہ وہ راستے کو اس کا حق دیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین نے عرض کیا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

آنکھوں کو نیچے رکھنا، راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا اور بھٹکے ہوئے کی راہنمائی کرنا) صحیح مسلم: 4817 , 4815 )

غیر مسلموں سے تعاون

انسانوں کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کے کام میں غیر مسلم تنظیموں اور اداروں کے ساتھ تعاون میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس سلسلہ میں قرآن مجید نے یہ اصولی تعلیم دی ہے:

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ اِنَّ اللّهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ

المائدۃ – 2

نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔

مسلمانوں کو خوش کرنا

مومن صرف اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتا بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہو کر ان کے دکھ درد کا مداوا کرتا ہے، جو بات انہیں دکھ پہنچاتی ہے، اسے دور کرتا ہے، اس کا حل تلاش کرتا ہے، اس سے نجات کی راہیں نکالتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ایسے انسان سے خوش ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائی کا غم ہلکا کرتا ہے، اس کے دکھ بانٹتا ہے ۔ بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ بیان فرمائی کہ وہ بندہ بہت اچھا ہے جو کسی انسان کو خوش کرتا ہے، خاص طور پر ایسا انسان جو رنج وغم میں مبتلا ہو، کسی حادثے کا شکار ہو گیا اور کسی صدمے کی وجہ سے نڈھال رہاہو، ایسے انسان کے پاس جانا، اس کا غم ہلکا کرنا اور اسے خوش کرنا نیکی کا کام ہے، اس مفہوم کی متعدد روایتیں ہیں:

سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أن تُدخِلَ على أخيك المؤمنِ سرورًا ، أو تقضى عنه دَيْنًا ، أو تطعمَه خبزًا

صحیح الجامع – 1096

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ ﷺ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرو یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ۔

ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا

دین اسلام کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ ان کا ظاہر و باطن، داخل اور خارج اور زبان و دل ایک ہو، اس میں دوئی اور دو رنگی نہ ہو، جو بات دل میں سوچے و ہی زبان پر آئے، اگر کسی شخص کا دل اور زبان ایک نہیں ہے تو اسلام اس کو نفاق اور منافقت کہتاہے اور اسے دھوکے (خدع) کا نام دیتا ہے:

حضرت تمیم بن اوس الداری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنا: لِمَنْ؟ قالَ: لِلَّهِ ولِكِتابِهِ ولِرَسولِهِ ولأَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ وعامَّتِهِمْ.

صحیح مسلم – 55

دین سراپا خیر خواہی ہے، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیر خواہی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے لئے، اللہ کی کتاب(قرآن مجید) کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں اور ان کے عام لوگوں کے لیے خیر خواہی کرنا۔

مدینہ منورہ میں اسلام قبول کرنے کے بارے میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین نے بیان کیا کہ ہم جب آپ ﷺ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے آئے تو آپ نے بیعت کرتے وقت عہد لیا:

بَايَعْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ علَى شَهَادَةِ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ، وإقَامِ الصَّلَاةِ، وإيتَاءِ الزَّكَاةِ، والسَّمْعِ والطَّاعَةِ، والنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ.

صحیح البخاری – 2157

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

بحیثیتِ مسلمان سیرت طیبہ کےمطالعےسے ہمیں رفاهی کاموں کی ترجیح و ترغیب کی کامل رہنمائی ملتی ہےبلکہ حضور پاک ﷺ کی سیرت طیبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اپنے نبی مکرم ﷺ کےاسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اورسماجی رفاعہ عامہ کےکاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے-الغرض رسالت مآب ﷺ کے امتی ہونےکی حیثیت سےہم پہ فرض عائد ہوتاہےکہ کسی مخصوص گروہ،رنگ و نسل اورزبان سے بلا امتیاز بلا غرض وغایت سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں انسانی ہمدردی، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کےلئےکام کیا جائے-

کثرت استغفار

تیسری چیزجو مصیبت اور پریشانی کو آپ تک پہنچنے سے پہلے روک دیتی ہے وہ کثرت استغفار ہے۔

استغفار کے فوائد قرآن و سنت کی روشنی میں

استغفار کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے

 ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَّحِيمًا

النساء – 110

اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا آپ نے آپ پر ظلم کرلے ، پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔

استغفار گناہوں کے مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ الرَّجلَ لتُرفَعُ درجتُه في الجنةِ فيقولُ: أنَّى هذا؟ فيقالُ: باستغفارِ ولدِك لكَ

صحيح ابن ماجه – 3/214

اللہ تعالی جب جنت میں نیک بندے کے درجہ کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا :پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ تعالی فرمائے گا تمہیں تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب یہ رتبہ ملا ہے۔

استغفار بارش کے نزول ،مال واولاد کی ترقی اور دخول جنت کا سبب ہے

سورہ نوح کے اندر حضرت نوح علیہ السلام کے زبانی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا

نوح – 10/11/12

اور نوح علیہ السلام نےاپنی قوم سے کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگ لو، بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔  تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا  اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔

استغفار ہر طرح کی طاقت وقوت میں اضافے کا ذریعہ ہے

ارشاد باری تعالی ہے:

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ

ھود – 52

اور اے قوم! اپنے پروردگار سے معافی مانگو، پھر اسی کے آگے توبہ کرو وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید اضافہ کرے گا تم مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔

استغفار سامانِ زندگی کا سبب ہے

 ارشاد باری تعالی ہے:

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ

ھود – 3

اور یہ کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو اور اس کے حضور توبہ کرو۔ وہ ایک خاص مدت تک تمہیں اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔

استغفار بندے کے دنیاوی واخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے

 ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

الانفال – 33

اور جب تک آپ ان کے درمیان رہیں گے اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا اور جب تک وہ مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے، اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا ۔نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

العبدُ آمنٌ مِن عذاب الله ما استغفَرَ اللهَ

حسنه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند – 23953

”بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتا رہتا ہے۔

استغفار نزولِ رحمت کا سبب ہے

ارشاد باری تعالی ہے:

قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ  لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

النمل – 46

حضرت صالح علیہ السلام نے کہا :اے میری قوم کے لوگو! تم بھلائی سے پیشتر برائی کو کیوں جلدی طلب کرتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

استغفار دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ العبدَ إذا أخطأَ خطيئةً نُكِتت في قلبِهِ نُكْتةٌ سوداءُ، فإذا هوَ نزعَ واستَغفرَ وتابَ سُقِلَ قلبُهُ، وإن عادَ زيدَ فيها حتَّى تعلوَ قلبَهُ، وَهوَ الرَّانُ الَّذي ذَكَرَ اللَّه كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

صحیح الترمذی – 3334

‘کہ مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کیے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ ”ران ”ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔

کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ

المطففین – 14

یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔

استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

 هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ

ھود – 61

اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا، تو تم اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو، بیشک میرا رب قریب ہے اور دعا قبول کرتا ہے۔  

استغفار اللہ کی محبت اور اس کے لطف وکرم کا سبب ہے

ارشاد باری تعالی ہے:

وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ

ھود – 90

اور اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا رب نہایت رحم والا، بہت محبت والا ہے۔

استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا ذریعہ ہے

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کہا:

أستغفرُ اللهَ العظيمَ الذي لا إلهَ إلَّا هو الحيَّ القيومَ وأتوبُ إليه غُفِرَ له وإنْ كان فرَّ من الزحفِ

صحیح الترمذی – 3577

تو اللہ تعالی اس کے گناہ کو معاف فرمادے گا اگرچہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگا ہو۔

استغفارقبر میں میت کی ثابت قدمی کا باعث ہے

كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، إذا فرغَ مِن دفنِ الميِّتِ وقفَ علَيهِ ، فقالَ : استغفِروا لأخيكُم ، وسَلوا لَهُ التَّثبيتَ ، فإنَّهُ الآنَ يُسأَلُ

صحیح أبي داؤد – 3221

نبی اکرم ﷺ جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے: اپنے بھائی کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا”۔

اللہ پاک  ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اور ہمیں ہر قسم کی مصیبتوں ،پریشانیوں اور تنگیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ