استصناع( Manufacturing Contract ) کی صورت :
استصناع سے مراد ’’ آرڈر پر کوئی چیز تیار کروانا‘‘
فقہاء کی اصطلاح میں استصناع سے مراد : ایک انسان کسی دوسرے کومخصوص رقم کے عوض معینہ اقسام اور صفات پر مشتمل کسی ایسی چیز بنانے کا آرڈر دے جو ابھی تک تیار نہیں ۔
استصناع اور عام بیع میں فرق
عام بیع اور استصناع میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ اگرچہ استصناع میں بھی خرید وفروخت ہوتی ہے لیکن نوعیت کے لحاظ سے اور شرعی حکم کے لحاظ سے یہ مسئلہ بیع سے قدرے مختلف ہے کیونکہ بیع کی جو بنیادی شرط شریعت نے متعین کی ہے وہ یہ کہ
لا تبع ماليس عندک
جامع ترمذی: کتاب البیوع، باب ماجاء في کراھیة بیع ما لیس عندک
ایسی چیز مت بیچو جو تمہارے پاس نہیں ۔ استصناع کے مسئلہ کو اگر بیع کی نوعیت سے دیکھا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ آرڈر پر مال تیار کرانا جائز نہ ہوا کیونکہ چیز تیار کرنے والا ایسی چیز فروخت کر رہا ہے اور ایسی چیز پر معاہدہ کر رہا ہے جو ابھی کسی کی بھی ملکیت میں نہیں بلکہ سرے سے معدوم ہے ۔ لیکن شریعتِ مطہرہ چونکہ لوگوں کی آسانی کیلئے نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يُرِيدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْ
البقرة – 185
اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
الحج – 87
( اللہ تعالیٰ نے ) تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔
لوگوں کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے معاہدات کو عمومی احکام سے چند صورتوں میں الگ کرکے استثنائی طور پر ان کی اجازت مرحمت فرمادی گئی تاکہ لوگ تنگی اور تکلیف میں مبتلا نہ ہوں ۔
وہ ضروریات جن کے پیشِ نظر عقد استصناع کی اجازت دی گئی
*بیچنے اور بنانے والے کا فائدہ :کہ اس کو بنانے کی قیمت وصو ل ہوتی ہے ۔ اور چیز بننے سے پہلے ہی اس کا گاہک موجود ہوتا ہے ،اور مینوفیکچرر اگر بیع وشراء کرے گا توممکن ہے وہ چیز اس سے بکے گی یا نہیں یا جلدی بک جائے یا دیر سے ۔
پھر اس کی مارکیٹنگ کی ضرورت پڑے گی ۔لہذا یہاں شریعت نے صانع کا فائدہ بھی ملحوظ رکھا ہے ۔
* خریدار کا فائدہ : خریدار اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چیز تیار کروا سکتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ جو چیز مارکیٹ میں موجود ہے وہ اس کی ضرورت ٹھیک طرح سے پوری نہ کرتی ہو ، لہذا اس معاہدہ کے ذریعہ وہ اپنی مرضی کی چیز تیار کروا سکتا ہے ۔ * : دیگر اقتصادی فوائد : شیخ مصطفیٰ زرقا نے ان اقتصادی فوائد کی جانب اشارہ فرمایا ہے ، فرماتے ہیں کہ : بہت سے ایسے سامان اور چیزیں ہوتی ہیں جن کا اس وقت تک بنانا ناممکن ہوتا ہے جب تک ان کا کوئی خریدار نہ مل جائے ، جیسے مختلف مواصفات وخصوصیات پر مبنی مخصوص جگہ پر گھر اور عمارت کی تعمیر ہے ، یا مختلف خصوصیا ت کاحامل پل مخصوص مقام پر تعمیر کرانا ، یا پیٹرولیم ریفائنری (Petroleum refinery) لگوانا ، اس کا ناممکن ہونا بسا اوقات قدرتی ہوتا ہے ،جیسے صفات کی خصوصیات کا اختلاف جوکہ خریداروں کے مزاج کے اختلاف کے سبب ہوتا ہے۔ یا پھر اس کے ناممکن ہونے کی وجہ مالیاتی ہوتی ہے کہ بنوائی جانے والی چیز اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ اس پر لاگت ( Cost ) بہت زیادہ آتی ہے اور تیار کرنے والا اسے بغیر آرڈر کے تیار نہیں کرتا کہ اگر کرلیا تو بکے یا نہیں ؟ ۔ ۔۔۔ ‘‘[1]
استصناع کے جواز کے دلائل
قرآن مجید سے دلیل :
بعض اہل علم نے قرآن مجید کی آیت :
فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا
الكهف – 94
’’ کیا ہم آپ کے لئے کچھ خرچ کا انتظام کردیں؟ (اس شرط پر کہ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں‘‘۔
سے استصناع کے جواز کی دلیل لی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مذکورہ آیت میں لفظ’’خَرْجًا‘‘کی تفسیر’’ أجرا عظیما ‘‘ یعنی بہت بڑا معاوضہ ۔ کی گئی ہے ۔ اس آیت میں قرآن مجید نے اس قسم کے معاہدہ کے صحیح ہونے کی رہنمائی کی ہے ۔
حدیث سے دلیل :
*نبی اکرمﷺنے انگوٹھی بنوانے کا حکم دیا ۔
*آپﷺکا آرڈر پر منبر بنوانا : حدیث میں ہے کہ نبیﷺنے ایک انصاری عورت سے کہا کہ ’’تم اپنے بڑھئی لڑکے کو حکم دو کہ وہ میرے واسطے ایسی لکڑیاں بنادے کہ جب میں لوگوں سے مخاطب ہوں، تو اس پر بیٹھوں، چنانچہ اس عورت نے اس لڑکے کو اس کے بنانے کا حکم دیا….‘‘[2]
نیز ان دلائل کے علاوہ زمانہ اول سے لوگ اس طرح کے معاملات کرتے آئے ہیں ، کہ گھر ، چپلیں اور دیگر ضروریات کی اشیاء آرڈر پر بنواتے رہے ہیں ۔ لہذا اس بنا پر بعض اہل علم نے عملی طور پر ایسے معاملات کے جواز پر اجماع بھی نقل کیا ہے ۔
استصناع کے معاہدہ کی صحت کیلئے متعین کردہ شرعی شرائط
استصناع پر بالعموم بیع کی عمومی شرائط لاگو ہوتی ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ چند اہم شرائط ایسی ہیں جو بیع سے ہٹ کر ہیں ان کا استصناع کے معاہدے میں خیال رکھا جانا ضروری ہے ۔
پہلی شرط :
جس چیز کا آرڈر دیا جا رہا ہے وہ معاشرہ میں رائج ہو اور لوگ اسے تیار کرواتے ہوں کیونکہ اس معاہدے کو بیع معدوم سے مستثنی ہی اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اس کی صورت وماہیت اور خصوصیات کا لوگوں کو علم ہوتا ہے جس کے سبب جہالت اور غرر کا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔
دوسری شرط :
آرڈر پر تیار کرائے جانے والی چیز کی تمام جملہ خصوصیات کا معاہدہ کے وقت مکمل تعین کر لیا جائے ۔ اور ہر اس شق سے بچا جائے جس سے معاہدہ متنازع ہونے کا خدشہ ہو ۔
تیسری شرط :
بعض فقہاء نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ عقد استصناع کرتے وقت معاہدہ میں وقت کا تعین نہ کیا جائے اگر وقت کا تعین کیا گیا تو وہ چیز استصناع سے نکل کر بیع سلم میں داخل ہوجائے گی اور اس پر سلم کے احکامات لاگو ہوں گے نہ کہ استصناع کے ۔
لیکن معاصر محققین کے نزدیک یہ شرط قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ اگر وقت کاتعین نہ کیا گیا تو تنازع کی صورت باقی رہے گی لہٰذا وقت کا تعین ضروری ہے تاکہ تنازعہ سے بچا جا سکے ۔
مجمع فقہ اسلامی جدہ کی جانب سے استصناع کے حوالے سے متعین کردہ چند ضابطے :
(1) عقد استصناع کے معاہدہ میں اگر مطلوبہ شرائط ، ارکان ، چیز کا معیار ، اس کی تیاری کی مدت معین ہو تو طرفین یعنی بینک اور صارف کے لئے اس معاہدے کی پاسداری لازم ہو جاتی ہے ۔ فریقین میں سے کوئی بھی اس سے انحراف نہیں کرسکتا ۔
(2)صارف کیلئے ضروری ہے کہ وہ مطلوبہ چیز کی جنس کا معاہدہ کے وقت تعین کرے اور اس کی سپردگی کا وقت بھی متعین کرے ۔
(3) عقد استصناع میں قیمت پیشگی بھی دی جاسکتی ہے اور قسطوں کی صورت میں بھی ۔
(4) استصناع کے معاہدہ میں فریقین کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ معاہدے کی شق میں اس شرط کا تذکرہ کردیں کہ تاخیر کی بظاہر صورت کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود اگر بینک نے مقررہ وقت پر چیز تیار کر کے نہ دی تو اس کی کیا سزا ہوگی ؟۔
عقد استصناع میں درجِ ذیل معاملات جائز ہیں
*عقد استصناع میں قیمت کی پیشگی ادائیگی ضروری نہیں ، بلکہ پیشگی بھی دی جاسکتی ہے اور چیز لیتے وقت یا اس کے بعد بھی ادا کی جاسکتی ہے ، اور اقساط میں ادا کرنا بھی جائز ہے ۔
*استصناع میں یہ ضروری نہیں کہ مطلوبہ چیز معاہدہ طے ہونے کے بعد ہی بنائی جائے ۔ بلکہ اگر کسی کمپنی یا فرد نے کسی سے استصناع کا معاہدہ کیا اور وہ کمپنی یا فرد مطلوبہ کوالٹی اور صفات کی حامل چیز لے آئے تو یہ بھی عقد استصناع ہی ہوگا ۔ لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ وہ چیز بعینہ ان تمام شرائط پر پوری اترتی ہو جو خریدار نے معاہدہ میں ذکر کی تھیں ۔
کیا استصناع کا معاہدہ کرنے والی کمپنی وہ کام کسی اور سے کرو ا سکتی ہے ؟
اس مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ بطور مثال Aنامی کمپنی سے صارف نے معاہدہ کیا کہ میں آپ سے گھر کا فرنیچر جوان ان صفات کا حامل ہو بنوانا چاہتاہوں اس کمپنی نے آرڈر تو لے لیا لیکن وہ کام بعد میں اپنا تھوڑا منافع رکھ کر کسی اور کو دے دیا کہ اس معیار کا حامل فرنیچر تیار کردو ۔ تو کیا ایسا کرنا اس کمپنی کیلئے جائز ہے ۔ ؟
اس مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے فقہاء نے اس مسئلہ کو اجارہ کے مسئلہ سے تشیبہ دی ہے ۔ ایک شخص کسی کو اجرت اور مزدوری پر کوئی کام کرنے کو دیتا ہے کہ اتنے پیسے لے لو اور میرا گھر تعمیر کردو یا پھر کسی کو ٹھیکے پر مخصوص صفات کی حامل دیوار بنانے کی ذمہ داری دیتاہے ، تو اس ٹھیکہ دار یا اجیر نے انہی پیسوں میں یا ان سے کچھ زیادہ یا کم میں وہ کام آگے کسی اور کے سپرد کردیا تو فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ تیسرا شخص انہی صفات کی حامل چیز تیار کرے جس کا آرڈر دیا گیا ہے کیونکہ یہاں مطلوب کام ہے نہ کہ فرد لیکن یہاں ذمہ داری اسی ٹھیکہ دار یا اجیر پر ہوگی جس سے صارف نے معاہدہ کیا ہے ۔
نوٹ : اس مسئلہ کے جواز سے اہل علم نے دو مسائل کو مستثنیٰ کیا ہے
پہلا مسئلہ :
اگر صارف معاہدہ میں یہ شرط لگاتا ہے کہ یہ چیز آپ ہی نے بنانی ہے ، یا پھر آپ کے پاس کام کرنے والے فلاں شخص نے تیار کرنی ہے تو یہاں کمپنی کو پاسداری کرنا ضروری ہے کسی اور کو وہ کام نہیں دےسکتی ۔
دوسرا مسئلہ:
تیارکنندہ کی شہرت اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے آرڈر دیا گیا ہو ۔ جیسے کسی مشہور ڈیزائنر کو اس کی کام میں مہارت یا کسی مشہور انجینئر کو اس کی اہلیت کے باعث کام دیا جائے اور اسے مارکیٹ ویلیو سے بڑھ کر قیمت بھی اد ا کی جائے، کیونکہ اس کی بنائی گئی چیزیں پائیدار ہوتی ہیں ، اور ڈیزائن بہترین ہوتے ہیں ۔ اس صورت میں بھی وہ فردیاکمپنی یہ آرڈر کسی اور کو نہیں دے سکتی اسے خود ہی تیار کرنا پڑے گا ورنہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی ۔
عقداستصناع کا معاہدہ کب لازم ہوتا ہے ؟
اس کا مطلب یہ کہ جیسا کہ بیع میں فریقین کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ معاہدہ کی مجلس میں سودا منسوخ کرنا چاہتے ہیں تو شریعت نے انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ معاہدہ منسوخ کر سکتے ہیں جیساکہ آپﷺنےارشاد فرمایا : ’’ بیچنے والے اور خریدنے والے کو اختیار ہے جب تک کہ دونوں جدا نہ ہوں ، پھر فرمایا اگر دنوں سچ بولیں اور صاف صاف بیان کریں تو دونوں کی بیع میں برکت ہوگی اور اگر دونوں نے چھپایا اور جھوٹ بولا تو ان دونوں کی بیع کی برکت ختم کردی جائے گی ‘‘ ۔[3]
اور عام بیع میں خیارالشرط [4]کا ضابطہ بھی لاگو ہو تا ہے ؟ ۔ توکیا عقد استصناع کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس میں خیار المجلس اور خیار الشرط کا ضابطہ بیع کی طرح ہی لاگو ہوگا یا اس معاہدہ کے لاگو ہونے کی کوئی اور صورت ہے ۔؟
عہد عثمانی میں لکھے جانے والے قوانین کے مجموعہ ’’ مجلة الأحکام العدلية ‘‘ میں شق نمبر 392کے تحت لکھا ہے کہ :’’ استصناع میں فریقین معاہدہ کے وقت یعنی معاہدہ مکمل ہونے کے فوارا بعد سے چیز کے سپرد کرنے تک اس معاہدے کے پابند ہوجاتے ہیں ، اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے فریق کی مرضی کے بغیر یہ معاہدہ ختم نہیں کرسکتا ۔ لیکن اگر مطلوبہ چیز مطلوبہ آرڈر کے مطابق تیار نہ کی گئی تو اس صورت میں صارف کو اس معاہدہ کی منسوخی کا اختیار ہوگا ‘‘۔
مجمع فقہ اسلامی نے بھی اس کی تائید کی ہے ۔ کیونکہ معاملات اس کے بغیر سلجھ نہیں سکتے ۔ بالخصوص عصرِ حاضر میں تو بڑی مہنگی مہنگی چیزیں بحری جہاز ، پل ، ہوائی جہاز ، ٹرینیں وغیرہ آرڈر پر تیار کرائی جاتی ہیں ۔ اگر چیز کی تیاری تک فریقین کو معاہدہ منسوخی کا اختیار دیا گیا تو اس سے عظیم منفی اثرات جنم لیں گے ۔ جس کے پیش نظر اس معاہدہ کو وقت انعقاد سے ہی عقد لازم سمجھا جانا ضروری ہے ۔ لیکن بعض اہل علم نے ایسی چیزیں جو اتنی بھاری مالیت کی نہیں ہوتیں جیسے جوتے ، کپڑے وغیرہ ہیں تو اس کم قیمت چیزوں میں خیار الرؤیہ( چیز کے دیکھنے تک معاہدہ کو موقوف کرنا ) کی شرط کا اعتبار کیا ہے ۔
استصناع اور سلم میں بنیادی فرق :
(1) استصناع کا معادہ صرف ان چیزوں میں ہوتا ہے جن کے تیار کرنے کی ضرورت ہو جبکہ سلم سب چیزوں میں ہوسکتی ہے خواہ انہیں تیار کرنے کی ضرورت ہو یا نہ ہو ۔
(2)سلم میں قیمت پیشگی ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ استصناع میں قیمت پیشگی بھی ادا کی جاسکتی ہے ، اور قسطوں میں بھی یا بعد میں بھی۔
اسلامی بینکوں میں رائج استصناع
اسلامی بینک استصناع ( Manufacturing Contract ) کی بنیاد پر دو طرح کے معاہدے کرتے ہیں ۔
پہلی صورت
بحیثیت خریدار استصناع کا معاہدہ : جو شخص بینک یا مالیاتی ادارے سے رقم کے حصول کی خواہش رکھتا ہے اور وہ مینوفیکچرر ہے تو بینک یا مالیاتی ادارہ بحیثیت خریدار اس کے ساتھ استصناع کا معاہدہ کرتے ہیں۔
جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بینک مینوفیکچرر کو یہ آرڈر دیتا ہے کہ وہ اس کے لئے ان صفات کی حامل چیز تیار کردے ۔ اس ضمن میں بینک کی جانب سے جو پیشگی رقم دی جاتی ہے اسے پیشگی قیمت تصور کیا جاتا ہے ۔مطلوبہ چیز تیار ہونے کے بعد بینک اس کو منافع پر مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے ۔
ایک شرعی قباحت
مذکورہ طریقہ کار میں اگر بینک خود فروخت کرنے کی بجائےاسی مینوفیچکرر سے معاہدہ کرلے کہ وہ بینک کا ایجنٹ بن کر اس چیز کومخصوص منافع کے ساتھ فروخت کرکےرقم بینک کے حوالے کرے تو ایسا کرنا شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں ۔ چاہے یہ چیز ضبط تحریر میں لائی گئی ہو یا ذہن میں ہو ۔ کیونکہ اس صورت میں بینک کا کردار محض ایک مالیاتی ثالثی کا رہ جاتا ہے ۔ جس کے ذریعہ وہ نفع حاصل کرتا ہے ۔ اور یہ عمل رقم کے لین دین پر نفع حاصل کرنے کے مترادف ہے اور سود سے مشابہ ہے لہذا یہ جائز نہیں ۔
دوسری صورت
جن صارفین کو گھر ، آلات ، یا مشینری وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بینک انہیں طے شدہ صفات کے آلات ، گھر اور مشینری فراہم کرنے کا معاہدہ کرتا ہے ۔ اور صارف سے قیمت اقساط میں وصول کرتاہے ۔
یہاں واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ بینک وہ چیز یا آلات خود ہی تیار کرے بلکہ وہ متوازی استصناع کے معاہدے کے ذریعہ کسی تیسرے فریق سے بھی وہ چیز تیار کرواسکتا ہے ۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں معاہدوں میں کوئی باہمی ربط نہیں ہونا چاہئے ۔ اور شرعی نقطہ نگاہ سے کلائنٹ کو ایجنٹ مقرر کرنا، یا اسے کام کی نگرانی سونپنا بھی صحیح نہیں ۔
علامہ محمد سلیمان الاشقر فرماتے ہیں : ’’ استصناع متوازی میں دونوں معاہدوں کے باہمی ربط ، یا خریدار کو متوازی استصناع کے معاہدے کا وکیل بنانے ، یا اس پر قبضہ کرنے ، یا تعمیر کی نگرانی کرنے ، یا کوئی ایسا کردار سونپنے جس سے بینک کا کردار سکڑ کر صرف رقم کے لین دین پر نفع حاصل کرنے تک محدود ہوجائے سے پرہیز کرنا چاہیے ‘‘ [5]
اسلامی بینکوں میں مینوفیکچرنگ کا طریقہ کار
(1)صارف بینک کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ بینک اس کے لئے ایک بلڈنگ تیار کرے ۔ اس ضمن میں وہ بینک کو ایک درخواست بھی پیش کرتا ہے جس میں اس بلڈنگ کی صفات ، خصوصیات اور نقشہ وغیرہ ملحق ہوتے ہیں ۔
(2)درخواست کے ساتھ صارف ٹوکن منی کے طور پر کچھ رقم بھی بینک کو جمع کراتا ہے ، ضمانت ، اور ادائیگی کا طریقہ کار ( کہ آیا یک مشت کرنی ہے ، یا قسطوں میں ) طے کرتا ہے ۔ نیز اس کے ساتھ فیزیبلٹی رپورٹ بھی جمع کراتا ہے ۔
(3)بینک فزیبلٹی رپورٹ کا ماہرین کے ساتھ جائزہ لیتا ہے ۔
(4) اگر بینک صارف کی اس پیشکش سے مطمئن ہے تو وہ اس سے فائنانس کے حوالے سے آخری ڈاکومیٹشن پیش کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور ضروری ضمانتیں فراہم کرنے کا کہتا ہے ۔
(5) حتمی اتفاق کے بعد صارف اور بینک کے درمیان مینو فیکچرنگ معاہدہ پر دستخط ہوتے ہیں جس میں طرفین کیلئے معاہدے کی ضروی پابندیوں کا ذکر ہوتا ہے ۔
معاہدے کے اہم ترین مشتملات مندرجہ ذیل ہیں
بینک کی طرف سے صارف کیلئے تعمیر کی جانے والی بلڈنگ کی قیمت ، سپردگی کا وقت ، ادائیگی کا دورانیہ ، معینہ قسط کی تحدید ، ایڈوانس قیمت کی ادائیگی کی صورت میں رقم کا تعین ۔
(6)جب صارف اور بینک کے درمیان استصناع کا معاہدہ طے پاجاتا ہے تو بینک اسٹیٹ ایجنٹ سے اس پروجیکٹ پر عمل درآمدی کا معاہدہ کرتا ہے ۔ اسے عموما متوازی استصناع کا معاہدہ کہا جا تاہے ۔ یعنی یہ بلڈنگ کوئی تیسرا فریق تعمیر کرے گا جس کو بینک نے منتخب کیا ہے ۔
پاکستان کے اسلامی بینکوں میں بھی عموماًیہی طریقہ کار رائج ہے ۔ چنانچہ پاکستان کے معروف اسلامی بینک میزان بینک نے استصناع معاہدے میں جو مراحل ذکر کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
. (1)صارف اور ایم بی ایل ( M B L ) استصناع کا معاہدہ کرتے ہیں جس میں ایم بی ایل اپنے کلائنٹ کو آرڈر دیتا ہےکہ وہ ایک مخصوص سامان / چیز بینک کے لئے تیار کرے جس کی اسے کیش یا اقساط میں پیشگی قیمت ادا کی جاتی ہے ۔
(7)سامان کی تیاری کے بعد کلائنٹ بینک کو سامان پہنچا دیتا ہے ۔
(8)سامان وصول کرنے کے بعد بینک اسے مارکیٹ میں براہ راست یا کسی ایجنٹ کے ذریعے فروخت کردیتا ہے۔
مذکورہ طریقہ کار کو تصویر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
اسلامی بینکوں میں رائج استصناع کے طریقہ کار اور صورتوں کا جائزہ لینے کے بعد جو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ اسلامی بینکوں کی یہ پراڈکٹ بھی سقم اور شرعی قباحتوں سے خالی نہیں ہے ۔ جس کی نشاندہی ذیل میں کی جاتی ہے ۔
(1)بینک کا تیار کرائی جانے والی چیز کو قبضہ میں نہ لینا ۔
(2)صارف کو ہی وکیل مقرر کرنا ۔
اس طریقہ سے واضح ہوتا ہے کہ بینک محض ایک مالیاتی ثالثی کے فرائض انجام دیتا ہے حقیقی کاروبار میں حصہ نہیں ڈالتا جس سے بینک کا کردار رقم کے لین دین پر نفع حاصل کرنے تک محدود ہوجاتا ہے اس لیے یہ جائز نہیں ۔
صحیح طریقہ کار
شرعی رو سے اس معاہدہ کو صحیح کرنے کیلئے اسلامی بینکوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ مینوفیچرنگ معاہدوں سے شرعی قباحتوں کو دور کریں ۔
(1) چیز کو مارکیٹ میں بیچنے سے پہلے اپنے قبضے میں لیا جائے ۔
(2) صارف کو وکیل اور ایجنٹ مقرر نہ کیا جائے ۔
(3) استصناع متوازی میں دونوں معاہدوں میں کوئی باہمی ربط نہیں ہونا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ حنیف کی سربلندی کیلئے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشی نظام کو شرعی خطوط پر استوار کرنے میں ہماری مدد فرمائے ۔
انه ولی التوفیق والعلم عند الله وصلی الله و سلم علی نبینا محمد و علی آله وصحبه أجمعین
[1] الإستصناع ، ص 12
[2] صحیح بخاری : كتاب الصلاة ، أبواب إستقبال القبلة .
[3] صحيح بخاري : کتاب البيوع ، باب إذا بين البيعان ولم يکتما ونصحا
[4] خیار الشرط یا خیار الرؤية کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی خریدار معاہدہ کے وقت فروخت کنندہ سے یہ شرط طے کرلے کہ میں یہ چیز اس شرط پر خریدتاہوں کہ چیز دیکھنے کے بعد اس میں کوئی کمی پیشی پائی گئی تو معاہدہ ختم کردوں گا۔
[5] بحوالہ : دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم از حافظ ذوالفقار علی ص199