مناقب ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ از مصادر شیعہ

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اولین مسلمان

شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان میں یہ صراحت ہے کہ :

إن أولَ من أسلم بعد خديجة أبو بكر1

کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اسلام لانے کے  بعد سب سے پہلے جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے سب سے بڑے خیر خواہ

نہجُ البلاغہ کی شرح جو شیعہ مجتہد ابنِ میثم بحرانی نے لکھی ہے اس میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا امیرِ شام حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط منقول ہے جس میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے جناب صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اسلام اور ایمان کی جو شان بیان فرمائی ہے وہ نہایت قابلِ غور ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں :

وكتب إلى أمير الشام معاوية بن أبي سفيان: (وذكرت أنّ الله اجتبى له من المسلمين أعواناً أيّدهم به، فكانوا في منازلهم عنده على قدر فضائلهم في الإسلام كما زعمت، وأنصحهم لله ولرسوله الخليفة الصدّيق وخليفة الخليفة الفاروق، ولعمري إنّ مكانهما في الإسلام لعظيم، وإنّ المصابَ بهما لجرحٌ في الإسلام شديدٌ، يرحمهما الله وجزاهم الله بأحسن ما عملا)2 (شرح نهج البلاغة لابن الميثم البحرانی، جزء ۳۱ ، ص:488، طبع إيران).

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملکِ شام کے امیر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک خط لکھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے مسلمانوں میں سے بہت سے مدد گاروں کا انتخاب فرمایا اور ان مددگار اصحاب کے ذریعے ان کو قوت و طاقت بخشی۔ اور ان حضرات کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس وہی قدر و منزلت تھی جو اسلام نے انہیں دی تھی جیسا کہ تم جانتے ہو ۔ اور رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام میں سب سے افضل اور اللہ و رسول کے لئے سب سے زیادہ مخلص اور خیر خواہ تھے اور اس خلیفہ کے خلیفہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح تھے۔ میری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ ان دونوں حضرات کا مرتبہ اسلام میں بڑا عظیم الشان تھا اور بے شک ان کی موت سے اسلام کو سخت صدمہ اور زخم پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں پر رحم فرمائے اور ان دونوں کو ان کے اچھے اعمال کی بہترین جزاء عطا فرمائے۔

صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی رائے

رسولِ کریم ﷺ اور حضرت علی کے چچیرے بھائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: اللہ ابو بکر پر رحم کرے ، آپ فقیروں پر رحم کرنے والے ، قرآن کی تلاوت کرنے والے ، بُری بات سے روکنے والے ، دین کو پہچاننے والے ، اللہ سے ڈرنے والے ، ناجائز امور پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے ، اچھی باتوں کا حکم دینے والے ، رات کو اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے تھے۔ آپ صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے تقوی و طہارت میں برتر مقام کے حامل اور زہد و پاکیزگی میں سب سے بلند تر تھے۔3

صدیق کا لقب

اگر جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب دیا ہے تو حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ صدیق کے لقب سے یاد فرمایا ہے ۔ چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا یہ ارشاد موجود ہے :

أبو بکر الصدیق جدي ، ھل یسب أحدٌ أباہ ؟ لا قدّمني اللہ إن لا أقدّمه4

جناب ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ میرے نانا ہیں۔ کیا کوئی شخص اپنے آباء و اجداد کو گالی دینا پسند کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی شان اور عزت نہ دے اگر میں صدیق رضی اللہ عنہ کی عزت و عظمت کو نہ مانوں ۔

اسی کتاب میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے:

ولدنی أبوبكر مرتین5

میں دو طرح سے ابوبكر الصدیق كی اولاد میں داخل هوں ۔

امام جعفر صادق رحمہ الله كے اس ارشاد كی تشریح شیعہ كی مستند كتابوں میں یوں بیان ہوئی ہے ۔

و مادرش ام فروه دختر قاسم بن ابی بكر بود ، و مادر ام فروه اسماء دختر عبد الرحمن بن ابو بكر بود6

امام جعفر صادق رحمہ الله كی والده امِ فروه تھیں جو حضرت ابو بكر الصدیق رضی الله عنہ كی پڑ پوتی (پوتے كی بیٹی ) اور امام جعفر صادق رحمہ الله كی نانی تھیں حضرت اسماء جو حضرت ابو بكر صدیق رضی الله عنہ كی پوتی تھیں ۔

وَقَالَ حَفْصُ بنُ غِيَاثٍ: سَمِعْتُ جَعْفَرَ بنَ مُحَمَّدٍ، يَقُوْلُ: مَا أَرْجُو مِنْ شَفَاعَةٍ عَلَيَّ شَيْئاً، إِلاَّ وَأَنَا أَرْجُو مِنْ شَفَاعَةِ أَبِي بَكْرٍ مِثْلَه، لَقَدْ وَلَدَنِي مَرَّتَيْنِ7

 حفص بن غیاث کا کہنا ہے کہ میں نے جعفر بن محمد سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے اپنے بارے میں کسی بھی شفاعت کی اتنی امید نہیں ہے جتنی کہ ابو بکر کی شفاعت کی امید ہے کہ انہوں نے مجھے دو مرتبہ پیدا کیا ہے، رضی اللہ عنہ۔

دو مرتبہ پیدا كرنے سے مراد

دو مرتبہ پیدا کرنے سے مراد یہ ہے کہ امام جعفر الصادق کی والدہ ام فروہ کے والد قاسم بن محمد بن ابی بکر تھے۔ اور ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر تھیں رحمھم اللہ ۔ یعنی امام جعفر الصادق کے نانا بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں اور نانی بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پوتی ہیں رحمھم اللہ۔ اسی لیے امام محمد الباقر رحمہ اللہ کا کہنا ہے:

عن محمد بن علي قال أجمع بنو فاطمة على أن يقولوا في أبي بكر وعمر أحسن ما يكون من القول

 محمد بن علی زین العابدین کا کہنا ہے کہ بنو فاطمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما کے بارے میں اچھی بات ہی کی جائے۔

ابو بکر تُو صدیق ہے

شیعہ كی تفسیرِ قمی میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے نبی کریم ﷺ کے واقعہِ غار سے متعلق یہ روایت موجود ہے :

لما كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الغار قال لأبي بكر: كأني أنظر إلى سفينة جعفر في أصحابه تقوم في البحر، وأنظر إلى الأنصار محتبين في أفنيتهم، فقال أبو بكر: وتراهم يا رسول الله! قال: نعم، قال: فأرنيهم، فمسح على عينيه فرآهم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أنت الصديق8

جب رسول اللہ ﷺ غار میں تھے تو نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: گویا کہ میں جعفر طیار اور اس کے ساتھیوں کی کشتی کو دیکھ رہا ہوں ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا آپ ان کو دیکھ رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے دکھا دیجیئے ، نبی کریم ﷺ نے انکی آنکھوں پر پاتھ پھیرا تو حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے ان سب کو دیکھ لیا۔ پس اس وقت رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ تو صدیق ہے‘‘۔

سورہ زمر کی آیت کی تفسیر

وَالَّذِى جَآءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِه ُأولٰٓئِكَ هُمُ المُتَّقُونَ

الزمر – 33

اور جو سچے دین کو لے کر آئے اور جنہوں نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں۔

اس آیت كی تفسیر میں شیعہ كی معتبر كتاب تفسیر مجمع البیان میں لکھا ہے کہ:

الذي جاء بالصدق رسول الله ﷺ وصدق به أبوبكر9

وہ شخص جو سچ لیکر آیا جناب رسول اللہ ﷺ ہیں اور وہ شخص جس نے نبی کریم ﷺ کی تصدیق کی اور ہر بات کو بلا چوں و چرا مان لیا وہ حضرت ابو بکر الصدیق ہیں۔

اسی طرح شیعہ کی ایک اور معتبر کتاب میں یہ درج ہے کہ:

كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (ما سبقكم أبو بكر بصوم ولا صلاة ولكن بشيء وقر في صدره)10

نبی کریم ﷺ ہمیشہ صحابہ کی جماعت میں فرمایا کرتے تھے کہ ابو بکر کی سبقت و فضیلت روزہ ، نماز سے نہیں بلکہ وہ ان کے دل کی عقیدت مندی اور اخلاص کا ثمر ہے ۔

امام محمد تقی رحمہ اللہ کا قول

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت جس طرح شیعہ کتابوں میں نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اسی طرح حضرات أئمہ کرام سے بھی ثابت ہے چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب میں امام محمد تقی رحمہ اللہ کا یہ قول ثابت ہے ۔

لستُ بمنكر فضل عمر ولكن أبا بكر أفضل من عمر11

یعنی میں جناب عمر رضی الله عنہ كے فضائل كا منكر نہیں لیكن حضرت ابو بكر رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ سے افضل ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا قول

اگر حضرت امام محمد تقی رحمہ اللہ نے حضرت صدیق< اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ عنھما دونوں حضرات کی فضیلت کا اقرار کر کے حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے ان دونوں حضرات کو امامت و خلافت ِحقہ کا اعلان فرمایا: چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب میں امام جعفر صداق رحمہ اللہ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا:

ھما إمامان عادلان قاسطان كانا علی الحق و ماتا علیه فعلیهما رحمة الله یوم القیامة12

دونوں عادل و منصف امام تھے، دونوں حق پر رہے اور دونوں حق پر رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ، پس ان دونوں پر تا قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔

سورۃ النور کی آیت 22 کی تفسیر

شیعہ کی تفسیر مجمع البیان میں قرآن كی درج ذیل آیت :

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ  وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا  أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

النور – 22

اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہئے کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ (صدقہ وغیرہ) نہ دیں گے۔ انھیں چاہئے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

سورہ نور کی اس آیت کی تفسیر میں تفسیر مجمع البیان مذکور ہے كہ:

أن قوله وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ ، الآیة ، نزلت في أبي بكر ومسطح بن أثاثة13

 اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ” وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ  ” حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مسطح بن اثاثہ  رضی اللہ عنہ کے حق میں اترا ہے (جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی مسکین اور مہاجر تھے )۔

شیعہ کی معتبر تفسیر یہ بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ” أولو الفضل منکم ” میں فضیلت اور بڑے درجے والا قرار دیا ہے۔

سورۃ اللیل کی آیت کی تفسیر

اسی تفسیر مجمع البیان میں قرآن کی آیت :

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ‎﴿١٧﴾‏ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ

اللیل – 17/18

اور جو بڑا پرہیزگار ہوگا اسے اس سے دور رکھا جائے گا جس نے پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیا ۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ نقل کیا گیا ہے :

عن ابن الزبیر ، قال: إن الآیة نزلت في أبي بكر، لأنه اشتری ممالیك الذین  أسلموا مثل بلال وعامر بن فهیرة وغیرهما وأعتقهم14

  ابنِ زبیر نے کہا کہ یہ آیت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ جیسے مسلمان ہونے والے غلاموں کو ان کے کافر مالکوں سے خرید کر آزاد کر دیا تھا ۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مصلیٰ امامت پر

صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ نے آخری ایام میں تمام صحابہ و اہل بیت و بنی ہاشم کا امام اور اپنا قائم مقام مقرر فرمایا چنانچہ ” درّ نجفیہ شرح نہج البلاغہ ” میں خود شیعہ کے مجتہدِ اعظم کا یہ اقرار ہے کہ :

كان عند خفة  مرضه یصلی بالناس بنفسه ، فلما اشتد به المرض أمر أبا بكر أن یصلی بالناس ، وأن أبا بكر صلی بالناس بعد ذلك یومین ثم مات15

جناب رسول اللہ ﷺ اس وقت تک خود بنفس نفیس لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے جب تک مرض خفیف رہا ، لیکن جب مرض سخت ہو گیا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہیں اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دو دن تک نبی کریم ﷺ کی زندگی میں تمام لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے پھر نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقتدی

اگر نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں جناب صدیقِ اکبر کو امام مقرر فرمایا تو حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ ان کی امامت کو صدقِ دل سے قبول فرمایا۔ شیعہ کی کتابوں سے بخوبی ثابت ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مسجد میں آ کر حضرت صدیقِ اکبر کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔ چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی میں یہ بات مذکور ہے ۔

ثم قام و تهیأ للصلاة و حضر المسجد و صلی خلف أبی بكر16

پھر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اٹھے اور نماز کے لئے تیاری کرکے مسجد میں حاضر ہوئے اور حضرت ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی ۔

یہی عبارت  شیعہ کی تفسیر البرھان اور دیگر کئی کتابوں کے اندر بھی درج ہے ۔

ثُمَّ قَامَ وَ تَهَيَّأَ لِلصَّلاَةِ، وَ حَضَرَ الْمَسْجِدَ، وَ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ17 

پھر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اٹھے اور نماز کے لئے تیاری کرکے مسجد میں حاضر ہوئے اور حضرت ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی ۔

شیعہ کی اردو کتاب غزواتِ حیدری میں حضرت صدیقِ اکبر کے متعلق لکھا ہے : ’’ بس بے اختیار اٹھے اور گزرتے وقت سے بہت گھبرائے نا چار آ کر اقامت کہی اور جماعتِ اہلِ دین نے عقب ان کے صف باندھی چنانچہ اس صف میں شاہِ لا فتی بھی تھے‘‘۔18

ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز

شیعہ كا مشہور مترجمِ قرآن مجید ترجمہ مقبول احمد كے ضمیمہ پر حضرت علی المرتضی كے بابت لكها ہے : ’’ پھر وه (علی رضی الله عنہ) اٹھے اور نماز كے قصد سے وضو فرما كر مسجد میں تشریف لائے اور ابو بكر كے پیچھے نماز پڑھی ‘‘۔19 

حضرت علی کی حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت

شیعہ کی کتاب احتجاجِ طبرسی میں لکھا ہے:

قال أسامة له هل بایعته ؟ فقال: نعم یا أسامة20

حضرت اسامہ نے حضرت علی سے پوچھا کیا آپ حضرت صدیقِ اکبر کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جی ہاں! میں ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہوں ۔

اسی کتاب کے دوسرے مقام پر لکھا ہے :

ثم تناول ید أبي بكر فبایعه21

پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کر لی ۔

خلافتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پشین گوئی

حضرت علی رضی اللہ عنہ كیسے حضرت ابو بكر صدیق كے پیچھے نماز نہ پڑھتے كیونكہ خود رسولِ كریم ﷺ نے ان كو امام مقرر فرمایا تھا اور اسی طرح حضرت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ كی خلافتِ حقہ پر بیعت کیوں نہ کرتے کیونکہ خود نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے خوشخبری سنا دی تھی جو شیعہ کی مختلف کتابوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ شیعہ تفسیرِ قمی ، مجمعُ البیان اور تفسیرِ صافی میں موجود ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کی اہلیہ محترمہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دفعہ پریشان تھیں۔ ان کو خوش کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ نے  یہ خوش خبری سنائی :

إن أبا بکر یلي الخلافة بعدي ثم بعده أبوك، فقالت من أنباك هذا ؟ قال نبأني العلیم الخبیر22

ضرور بضرور میرے بعد خلافت کا والی ابو بکر ہوگا اور ابو بکر کے بعد تیرا باپ ( حضرت عمر) خلیفہ ہوگا تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کو اس بات کی خبر کس نے دی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دی ہے جو بہت جاننے والا اور باخبر ذات ہے۔

ایک اور جگہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو بکر کی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فمشيت عند ذلك إلى أبي بكر فبايعته، ونهضت في تلك الأحداث حتى زاغ الباطل وزهق، وكانت كلمة الله هي العليا ولو كره الكافرون، فتولى أبو بكر تلك الأمور، فيسر وسدد وقارب واقتصد، فصحبته مناصحاً، وأطعته فيما أطاع الله فيه جاهدا23

چنانچہ میں اٹھا اور ابو بکر کے پاس گیا اور میں نے ان سے بیعت کی اور میں ان واقعات کے دوران ڈٹا رہا ، حق کا ساتھ دیتا رہا یہاں تک کہ باطل مٹ گیا اور اللہ کا کلام غالب ہوگیا۔ اگرچہ کافر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ۔ اور جب ابو بکررضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہوں نے رعایا کے ساتھ نرمی کی، کجی کو سیدھا کیا، معاملات کی اصلاح کی، میانہ روی اور کفایت شعاری اختیار کی۔ پس میں اس کا ساتھی بن گیا اور جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہے میں انکی اطاعت کی کوشش کرتا رہا 

خلفاءِ ثلاثہ كی بیعت

نہج البلاغة مؤلف علامہ الشریف ابو الحسن محمد الرضی بن الحسن الموسوی المتوفی 404 ھ کی شرح میں ہے۔

(ومن كتاب له (عليه السلام) إلى معاوية : إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر، وعمر ، وعثمان ،على ما بايعوهم عليه ، فلم يكن للشاهد أن يختار ، ولا للغائب أن يرد ، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسمَّوه إماماً كان ذلك لله رضاً ، فإن خرج عن أمرهم خارج بطعن أو بدعة ردوه إلى ما خرج منه ، فإن أبى قاتلوه على اتباعه غير سبيل المؤمنين ، و ولاه الله ما تولى . ولعمري يا معاوية لئن نظرت بعقلك دون هواك لتجدني أبرأ الناس من دم عثمان ، ولتعلمن أني كنت في عزلة عنه إلا أن تتجنى فتجن ما بدا لك.والسلام)24

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ بے شک میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کی بیعت کی ہے اور انہیں شرطوں پر کی ہے جن شرطوں پر ان کی بیعت کی تھی سو کسی موجود کے لئے گنجائش نہیں کہ اپنی مرضی کرے اور کسی غیر حاضر کو مجال نہیں کہ وہ اس کو رد کرے اور یقینی امر ہے کہ شورٰی کا حق مہاجرین اور انصار کوحاصل ہے سو وہ جس آدمی کے بارے میں اتفاق کر لیں اور اس کو امام مقرر کریں تو اسی میں اﷲ تعالیٰ کی رضا ہے۔ پس اگر کوئی شخص طعن کرتے ہوئے یا بدعت کا ارتکاب کرتے ہوئے ان کے فيصلے سے سرتابی کرے گا تو وہ اسے اس چیز کو لوٹائينگے جس سے وہ نکلا ہے۔ اگر اس نے انکار کیا تو وہ اس سے قتال کریں گے کيونکہ وہ مومنوں کے راستے کے بغیر کسی اور راستے پر چل پڑا ہے اور ﷲ تعالیٰ نے اس کو اسی طرف پھیر دیا ہے جدھر کو وہ چل پڑا ہے۔ اے معاويہ ! مجھے اپنی عمر (کے خالق) کی قسم اگر تو عقل سے ديکھے گا نہ کہ اپنی خواہش سے تو تُو مجھے حضرت عثمان کے خون سے بری پائے گا اور تُو ضرور جان لے گا کہ میں اس سے بری ہوں۔ ہاں اگر تُو میرے پيچھے پڑ کر مجھے اس جرم میں آلودہ کرے تو جو خیال میں آئے کرو۔ والسلام

اس خط سے درج ذیل واضح اور قیمتی فوائد حاصل ہوتے ہیں 

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرات خلفاءِ ثلاثہ رضی اللہ عنھم کو برحق خلفاء تسلیم کرتے تھے جیسا کہ عبارت میں تصر یح ہے۔
  • اپنی خلافت کے حق ہونے کی يہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مجھے اسی قوم نے خلیفہ منتخب کیا ہے جس نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا ہے پھر تم مجھے خلفیہ برحق کیوں نہيں تسلیم کرتے ؟
  • جس طریقہ پر خلفاءِ ثلاثہ رضی اللہ عنھم کا انتخاب ہوا تھا کہ حضرات مہاجرین اور انصار رضوان اللہ علیھم اجمعین کے شورٰی سے يہ انتخاب ہوا تھا بالکل وہی طریقہ میرے انتخاب کا ہے تو پھر میں کیوں خلفیہ برحق نہیں ہوں؟
  • اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی خلافت کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے کوئی نص یا وصیت ہوتی جیسا کہ شیعوں کا دعوی ہے تو اس مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ضرور اس کا حوالہ ديتے کہ : اے معاويہ ! میں تو نبی کریم ﷺ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین اور مقرر کردہ خلیفہ ہوں پھر مجھے تم کیوں نہیں مانتے؟ اس اہم موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا اپنی خلافت کے بارے میں قرآنِ کریم اور حدیث شریف کی کسی نص کا ذکر نہ کرنا  اس امر کو بالکل بے نقاب کر دیتا ہے کہ خلافت کی وصیت کے افسانے شیعہ کی تراشی ہوئی جھوٹی کہانیا ں ہیں ۔
  • مہاجرین و انصار سبھی مومن ہیں اور ان مومنین کے راستے کو چھوڑنے والا غیر سبیل المومنین پر گامزن ہے اور حسبِ ارشادِ خداوندی “نولہ ما تولی” کا مصداق ہے۔
  • مہاجرین اور انصار کا کسی امر پر اتفاق و اجماع اﷲ تعالیٰ کی رضا ہے اور اس کی خلافت ورزی بدعت ہے۔
  • جو شخص مہاجرین و انصار کے اس اجتماعی فیصلہ سے خروج کرے کا تو اس کے خلاف جہاد اور قتال ہوگا تا کہ وہ راہِ راست پر آ جائے۔
  • يہ فوائد اس عبارت سے بالکل عیاں ہیں جیسا کہ کسی بھی عربی دان سے مخفی نہیں ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت امیرِ معاويہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ بھی اسی ليے ہوئی کہ ان کی تحقیق و اجتہاد میں حضرت امیر معاويہ رضی اللہ عنہ بظاہر مہاجرین اور انصار کے شورٰی اور ان کے فیصلے کا احترام نہیں کرتے تھے اور حضرت امیر معاويہ رضی اللہ عنہ اس لئے قتال پر آمادہ ہوئے کہ ان کی دانست میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مظلوم خلفیہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص میں تساہل سے کام لے رہے تھے اور در حقیقت سبائی پارٹی نے بدنیتی کی وجہ سے فریقین کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع نہیں دیا۔

خلفاءِ راشدین کے طرز پر حکومت کرے

و كان الحسن يُجل أبابكر وعمر رضي الله عنهما حتى أنه أشترط على معاوية فى صلحه معه أن يسير بسيرتهما فمن ضمن شروط معاهدة الصلح” إنه يعمل و يحكم فى الناس بكتاب و سنة رسول الله و سيرة الخلفاء الراشدين25

حضرت حسن  رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی نہایت عزت و احترام کیا کرتے تھے اس حد تک کہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی صلح کے معاہدے میں یہ شرط رکھی کہ وہ خلفاءِ راشدین یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کی سیرت پر چلیں گے۔ چنانچہ اپنی شرائط بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک زندہ رہیں گے قرآن و سنت پرعمل کریں گے اور حکومت اس طرز پر کریں گے جس طرز پر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما نے کی تھی ۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دعا

عن الإمام جعفر الصادق عن أبيه الإمام محمد الباقر قال: قال رجل من قريش لعلي بن أبي طالب، رضي الله عنه: يا أمير المؤمنين نسمعك تقول في الخطبة آنفا، اللهم أصلحنا بما أصلحت به الخلفاء الراشدين المهتدين، فمن هم؟ فاغرورقت عيناه، ثم أهملهما فقال: “هم حبيباي وعماك أبو بكر وعمر، إماما الهدى، وشيخا الإسلام، ورجلا قريش، والمقتدى بهما، بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم)، فمن اقتدى بهما عصم، ومن اتبع آثارهما هدي إلى صراط مستقيم، ومن تمسك بهما فهو من حزب الله، وحزب الله هم المفلحون”26

امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے والد امام باقر رحمہ اللہ سے روایت كرتے ہیں كہ قریش كے ایک شخص نے حضرت علی رضی الله عنہ سے كہا: اے امیر المؤمنین ابھی ہم نے آپ سے خطبہ کے دوران سنا ۔ آپ فرما رہے تھے ۔ یا اﷲ ! ہماری اسی طری اصلاح فرما جس طرح تو نے خلفاءِ راشدین کی اصلاح کی۔ سوال کیا گیا کہ خلفاءِ راشدین کون تھے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ میرے دوست اور تیرے چچا حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما ہیں۔ وہ دونوں ہدایت کے امام اور قریش کے فرد تھے اور جناب رسولِ کریم ﷺ کے بعد رہنما اور مقتدی تھے،  وہ دونوں شیخ الاسلام تھے جس نے بھی ان کی پیروی کی وہ گمراہی سے بچ گیا اور جو ان کے نقشِ قدم پر چلا وہ صراطِ مستقیم پا گیا۔ اور جو ان دونوں کی پیروی کرے گا وہ اللہ کی جماعت میں سے ہوگا اور اللہ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے۔

اس خطاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرات شیخین رضی اللہ عنھما کو خلیفہ برحق تسلیم کیا اور ان کو خلفاءِ راشدین مانا ہے اور ان کو اپنا محبوب اور قابلِ احترام تسلیم کیا ہے۔ اور محمد ﷺ کے بعد انہیں امت کے لئے مقتدی کہا ہے اور ان کی اتباع کو گمراہی سے بچاؤ کا ذریعہ اور ان کی پیروی کو ہدایت اور صراطِ مستقیم قرار دیا ہے۔ ﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو ان کی محبت مرحمت فرمائے۔ اور اس محبت پر تا زیست قائم رکھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد

حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ و حضرات حسنین کریمین كو حضرت صدیقِ اكبر سے اس قدر كیوں محبت نہ ہوتی جبكہ حضرت صدیقِ اكبر ہمیشہ جناب علی المرتضی كے ساتھ محبت كرتے اور ہر قسم کی ممكنہ دوستانہ امداد و اعانت كرتے رہتے تھے چنانچہ حضرت علی المرتضی كی شادی جب سیده فاطمہ سے ہوئی تو شادی کی تمام ضرویات حضرت صدیقِ اكبر رضی اللہ عنہ ہی بازار سے خرید كر لائے ۔  چنانچہ ملا باقر مجلسی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

دو کف ازاں دراہم بر گفت و با بوبکر داد و فرمود بر و ببازار و از برائے فاطمہ بگیر آنچہ  او را درکار است  از جامہ و اثاث البیت ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ و جمعے از صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین از پے او فرستاد ہمگی در بازار در آمدند ، پس ہریک از ایشاں چیزے را اختیار مے کر دند بہ ابو بکر می نمودند و بمصلحت او می خریدند 27

یعنی جناب رسول اللہ ﷺ نے ان درہموں سے دو مٹھی بھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی اور بازار جانے کا حکم فرمایا تاکہ سیدہ فاطمہ کی شادی کے لئے کپڑے اور سامان خرید لائیں۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کی ایک جماعت ان کے ساتھ روانہ کی۔ یہ تمام حضرات بازار آئے پس ہر شخص جس چیز کو پسند کرتا تھا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ دکھاتا تھا تو صدیقِ اکبر کے مشورے اور صوابدید سے خرید کی جاتی تھی ۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مشکل وقت کے ساتھی

نبی کریم ﷺ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس قدر گہرے، پیارے اور برادری کے تعلقات کیوں نہ ہوتے جب کہ وہ ان کو مشکل سے مشکل وقتوں میں آزما چکے تھے کہ یہ شخص سچا جان نثار اور پورا وفا دار ہے۔ اگر اُحد کا میدانِ کار زار ہے تو صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا حق ادا کر رہے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ کی کتاب تفسیر مجمع البیان کا مصنف لکھتا ہے :

ذكر أبو القاسم البلخي أنه لم یبق مع النبي ﷺ یوم أحُد إلا ثلاثة عشر نفرا ، خمسة من المهاجرین وثمانیة من الأنصار، فأما المهاجرون فعلي و ابوبكر ،و طلحة و عبد الرحمن بن عوف و سعد بن أبي وقاص ۔28

ابو القاسم بلخی نے بیان کیا ہے کہ اُحد کے دن نبی کریم ﷺ کے ساتھ تیرہ شخصوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ پانچ مہاجرین اور آٹھ انصاری تھے ۔ مہاجرین میں سے جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو بکر صدیق ،  جناب طلحہ و عبد الرحمن ابن عوف و سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم رہے ۔

ہاں وہ صدیق ہیں

عن عروة بن عبد الله ،قال سألت أبا جعفر محمد بن علی علیهما السلام عن حلیة السیوف فقال لابأس به قد حلّیٰ أبو بكر الصدیق رضی الله عنه سیفه، قلت : فتقول الصدیق ؟ قال : فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال: نعم ، الصدیق ، نعم الصدیق ، نعم الصدیق ، فمن لم یقل له الصدیق فلا صدّق الله له قولا في الدنیا ولا في الآخرة ۔29

عروہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابا جعفر محمد باقر بن علی رحمھما اللہ سے تلواروں کو زیور سے آراستہ کرنے کے بارے میں پوچھا تو امام صاحب نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور پہنایا تھا ( لہذا یہ جائز ہے )  راوی کہتا ہے کہ میں نے امام کی خدمت میں عرض کی کہ آپ بھی ابو بکر کو صدیق کہتے ہیں ؟ امام صاحب جلدی کھڑے ہوئے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے فرمانے لگے : ہاں ! وہ صدیق ہیں، ہاں ! وہ صدیق ہیں، ہاں ! وہ صدیق ہیں ۔

فرزندانِ اہلبیت کے اسمائے گرامی

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ اہلِ بیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت اور عقیدت رکھتے تھے کہ جناب امیر المؤمنین علی المرتضی اور دیگر ائمہ اہل بیت نے اپنے فرزندوں کے نام ابو بکر رکھے۔30

أبناء علی المرتضیٰ ، حسن ، حسین ، محسن ، عباس ، محمد ، أبوبکر ، عمر ، عثمان وغیرھم31

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حسن ، حسین ، محسن ، عباس ، ابو بکر ، عمر ، عثمان وغیرہ ہیں۔

جلاءُ العیون میں شیعہ مجتہد باقر مجلسی لکھتے ہیں :

فرزند حضرت امیر المؤمنین او  را  ابوبکر مے گفتند32

جناب علی المرتضی كے فرزند جن كو ابو بكر كہتے تھے۔

حضرت حسن رضی الله عنہ كے فرزندوں كے نام

حضرت حسن رضی الله عنہ كے فرزندوں كے نام بھی ابو بكر و عمر تھے۔

فرزندان امام حسن ، قاسم ، عبد الله ، حسن مثنی ، زید عبد الرحمن ، ابوبكر ، عمر ، اسماعیل وغیرهم33

یعنی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے قاسم، عبدالله، حسن مثنیٰ، زید، عبد الرحمن، ابوبکر، عمر، اسماعیل وغیرہ ہیں۔

حضرت حسین رضی الله عنه كے فرزندوں كے نام

حضرت حسین رضی الله عنه كے فرزندوں كے نام بھی ابو بكر وعمر تھے چنانچہ شیعہ کی مشہور تاریخ کی کتاب میں یہ بات صراحت ہے : 

فرزندان امام حسین رضی اللہ عنہ ،  زین العابدین ، علی اكبر ، علی اصغر ، زید ، ابراهیم ، محمد ، حمزه ، ابوبكر ، جعفر ، عمر  وغیرهم ۔34

یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے زین العابدین، علی اکبر، علی اصغر، زید، ابراہیم ، محمد، حمزہ، ابو بکر، جعفر، عمر وغیرہ ہیں۔

کربلا میں شہید ہونے والے

وممن قتلوا في كربلاء من ولد الحسين ثلاثة، علي الأكبر وعبد الله الصبي وأبو بكر بنوا الحسين بن علي35

کربلا میں شہید ہونے والوں میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے علی اکبر، عبد اللہ اور ابو بکر بن حسین بھی شامل تھے۔

امام زین العابدین رحمہ اللہ

إن زين العابدين بن الحسن كان يكنى بأبي بكر أيضاً36

یعنی امام زین العابدین رحمہ اللہ کی کنیت ابو بکر تھی ۔ .

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پوتا

وأيضاً حسن بن الحسن بن علي، أي حفيد علي بن أبي طالب سمى أحد أبنائه أبا بكر

یعنی حضرت علی کے پوتے حسن بن حسن نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا.

امام موسی کاظم رحمہ اللہ

والإمام السابع عند الشيعة موسى بن جعفر الملقب بالكاظم أيضاً سمى أحد أبنائه بأبي بكر37

شیعہ کے ساتویں امام موسی کاظم  رحمہ اللہ نے بھی اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا ۔

امام علی رضا رحمہ اللہ

ويذكر الأصفهاني أن علي الرضا – الإمام الثامن عند الشيعة – كان يكنى بأبي بكر38

اصفہانی کے مطابق شیعوں کے آٹھویں امام علی رضا رحمہ اللہ کی کنیت بھی ابو بکر تھی ۔

امام موسی كاظم رحمہ اللہ کی بیٹی کا نام

اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ موسی کاظم رحمہ اللہ نے اپنی ایک بیٹی کا نام بھی حضرت ابو بکر کی بیٹی عائشہ صدیقہ کے نام پر رکھا ۔ چنانچہ شیخ مفید ’’ ذكر عدد أولاد موسى بن جعفر وطرف من أخبارهم‘‘ یعنی اولاد موسی بن جعفر کی تعداد اور ان کے احوال کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

وكان لأبي الحسن موسى عليه السلام سبعة وثلاثون ولداً ذكراً وأنثى منهم علي بن موسى الرضا عليهما السلام و … وفاطمة … وعائشة وأم سلمة39

جناب ابو الحسن موسی کے 37 بیٹے اور بیٹیاں تھے جن میں (امام) علی بن موسی الرضا اور فاطمہ ، عائشہ اور امِ سلمہ شامل ہیں۔

اصحاب ِ رسول ﷺ کو گالی نہ دو
ملا باقر مجلسی نے طوسی کی سند سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک معتبر روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

أوصيكم في أصحاب رسول الله ، لا تسبوهم، فإنهم أصحاب نبيكم، وهم أصحابه الذين لم يبتدعوا في الدين شيئاً، ولم يوقروا صاحب بدعة، نعم! أوصاني رسول الله في هؤلاء40

: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں ان کو گالی نہ دو کیونکہ وہ تمہارے نبی کے اصحاب ہیں اور نبی کے وہ اصحاب ہیں جنہوں نے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی اور کسی بدعتی شخص کی تعظیم نہیں کی، ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں مجھے وصیت کی۔

  1. (مجمع البیان في تفسیر القرآن ، لفضل بن الحسن بن الفضل الطبرسی، ج 2 ، ص: 53)
  2. (نواسخ التاریخ ،ج5  ص: 143  مطبوعہ ایران)
  3. (احقاق الحق ، ص: ۷)
  4. (احقاق الحق ، ص: 7)
  5. (احقاق الحق ، ص: 7، جلاء العیون ،ص: 248، كشف الغمه ، 215 ، 222، احتجاج طبرسی ، ص: 205)
  6. [سير أعلام النبلاء ط الرسالة (6/ 259]
  7. تفسير القمي: (1/289)
  8. (تفسیر مجمع البیان ، ج4 ، ص: 498)
  9. (مجالس المؤمنين، ص: 88)
  10. (الاحتجاج للطبرسی ، ص: 250)
  11. (احقاق الحق ، ص: 16)
  12. (مجمع البیان في تفسیر القرآن ، ج4  ص: 133  )
  13. (مجمع البیان في تفسیر القرآن ، ج5  ص؛ 501  )
  14. (در نجفیه، محمدباقر بن محمد جعفر شیخی همدانی ، ص: 225)
  15. (الاحتجاج – الشيخ الطبرسي – ج 1 – الصفحة 126) و تفسير القمي – علي بن إبراهيم القمي – ج 2 – ص: 159)
  16. ( البرهان في تفسير القرآن ، الجزء : 4  صفحة : 348 ، ومرآة العقول ، ص: 388 )
  17. (غزوات حیدری ، ص: 627 )
  18. (ضمیمه ترجمه قرآن از مقبول احمد ، ص: 415 )
  19. (الاحتجاج للطبرسی ، ص: 56  )
  20. (الاحتجاج للطبرسي ، ص: 52 ، و روضة الكافي للكليني ، ص: 115 ، 139)
  21. ( تفسیر قمی ، ص: 354  ، تفسیر مجمع البیان ، ج 5 ، ص: 314 ، اور تفسیر صافی ، ص:  522)
  22. ۔ ( شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: (6/95)، کتاب الغارات للثقفي: 2/305 – 307)
  23. (شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج 14 – ص: 35)
  24. (منتهى الآمال للعباس القمى ج : 2/21،2 ط إيران)
  25. (حوالہ : تلخيص الشافي للطوسي 2/428)
  26. (جلاء العیون ، ص: 55 )
  27. (تفسیر مجمع البیان ، ج 1  ، ص : 24 )
  28. (كشف الغمة ، ج 2 ، ص: 148)
  29. (تاریخ الائمہ ، ص: ،43 )
  30. (كشف الغمة – ص/132)
  31. (جلاء العیون ، ص:  193)
  32. (تاریخ الأئمہ ، ص: 83 ، وکشف الغمۃ ،ص: 132 )
  33. (تاریخ الائمہ ، ص:  83  )
  34. (التنبيه والإشراف” ص:263)
  35. ( كشف الغمة” ج2 ص74)
  36. (كشف الغمة ” ج 2 ص 217 )
  37. (مقاتل الطالبين” ص:561، 562)
  38. (الإرشاد، ص:302، 303، والفصول المهمة، ص:  242، وكشف الغمة،ج2 ص:237)
  39. (حياة القلوب للمجلسي، ج2 ص621)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ