ماہِ صفر اور بد فالی

پہلا خطبہ:

یقینا تمام  تعریفیں اللہ عز وجل کے لئے ہیں ، اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کر سکتا، اور اس کے حکم پر تعاقب نہیں کر سکتا، اور ہر چیز اسی کے قضا و قدر کی مرہون  ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اس کا ربوبیت، الوہیت ، اور اسماء و صفات میں کوئی بھی شریک نہیں ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد  اللہ بندے اور اس کے رسول  ہیں، یا اللہ! آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانوں!

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ جو شخص تقوی الہی اختیار کرے، اللہ تعالی اسے بچا لیتا ہے، اور جو شخص اللہ تعالی پر توکل کرے تو اللہ ہی اسے کافی ہے۔

مسلمانوں!

وحی کے مطابق عقیدہ توحید کے اصولوں میں  یہ بھی شامل ہے کہ ہمہ قسم کے خرافات سے خبردار کیا جائے، اور ہر قسم کی گمراہی سے  سے متنبہ کیا جائے۔

بد شگونی زمانہ قدیم سے لے کر آج تک کچھ لوگوں میں پائی جانے والی خرافات میں سے ایک ہے، اسی  طرح کوئی نظر آنے والی چیز یا سنا جانے والا لفظ طبیعت  کو ناگوار گزرے یا موروثی طور پر کسی چیز کو نا پسند کیا جائے؛ ان چیزوں کے بارے میں بد شگونی لینا بھی انہی خرافات میں شامل ہے، مثال کے طور پر ماہِ صفر میں کسی خاص پرندے یا لفظ کو دیکھنے یا سننے کو بدشگونی سے منسلک کرنا ۔

چنانچہ کچھ لوگ اسی بد شگونی کی وجہ سے اپنے عزائم کو ختم کر  ڈالتے ہیں اور اپنے مقاصد سے ہٹ جاتے ہیں، امام احمد نے  شواہد کے ذریعے مضبوط ہونے والی سند کے ساتھ  مرفوعاً ذکر کیا ہے کہ: ( بد شگونی یہ ہے  کہ جو آپ کی پیش قدمی یا پسپائی کا باعث بنے)

عز بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں: دل میں موجود بدگمانی کو  [عربی میں ]”تطیّر” [بد شگونی- اسم] اور اس بدگمانی پر مرتب ہونے والے عمل کو  [عربی میں] “طِیَرۃ” [بد شگونی- فعل] کہتے ہیں۔

اس قسم کی باطل بدفالی،  اور وہمی بد شگونی  پر مشتمل نظریات اسلام کی نظر میں کم عقلی اور کھوکھلے پن کی عکاسی کرتے ہیں، اور صحیح عقیدہ کے منافی ہیں؛ جو کہ خالق، قادر، مختار کل ، نفع و نقصان کے مالک اللہ کی ذات پر توکل  کا نام ہے،  کیونکہ تقدیر میں لکھے گئے اسبابِ کونیہ کے مطابق کوئی بھی کام اللہ کے ارادے، قدرت، اور اجازت کے بغیر  ہو ہی نہیں سکتا۔

مسلمانوں!

اسی لئے شرعی نصوص  نے غلط نظریات سے خبردار کیا، اور انہیں جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا، تا کہ عقیدہ توحید صحیح سلامت باقی رہے، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کے مطابق قرآن کریم  نے بد شگونی کا ذکر  صرف رسولوں کے دشمنوں اور توحیدِ خالص و صاف عقیدہ کے مخالفین کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے۔

ہمارے پیارے رسول ﷺفرماتے ہیں: (کوئی بیماری از خود متعدی نہیں ہوتی، نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے،  اور اُلّو [کوئی منحوس چیز نہیں ہے] اور نہ ہی ماہِ صفر [میں کوئی نحوست ہے]) بخاری و مسلم

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان اشیاء کی بذاتہ خود کوئی تاثیر نہیں ہے، اور کسی بھی مسلمان کو ان کے بارے میں غلط نظریات بنانے کی اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی ان کے بارے میں توجہ کرنی چاہیے، چنانچہ  ایک مؤمن پر یہ واجب ہے کہ وہ ان باطل امور کے سامنے ہتھیار مت پھینکے، اور اپنی سِمت سے ذرا بھی نہ ہٹے،  اور اپنے عزائم کی تکمیل ، اور ضرورت و حاجت کو مکمل کر کے ہی دم لے، کیونکہ  بد شگونی ایسا شرک ہے جو کہ  عقیدہ توحید کی کم ترین سطح کے بھی منافی ہے۔

چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ : (بدشگونی شرک ہے، بد شگونی شرک ہے) یہ حدیث  متعدد محدثین کے ہاں صحیح ہے۔

مسلمانوں!

اگر بد شگونی لینے والے نے  یہ نظریہ رکھا کہ بد شگونی والی چیز  اختیار الہی کے بغیر بذاتہ خود نفع نقصان پہنچا سکتی ہے، تو یہ -اللہ کی پناہ-شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ نظریہ اس چیز کو تخلیق و ایجاد میں اللہ کے ساتھ شریک بنا رہا ہے۔

اسلامی بھائیوں!

بدشگونی لینے والوں کی یہ بھی صورت ہے کہ: انسان کسی چیز سے بد شگونی لینے کے بعد اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آگے بڑھے، لیکن اس کے ذہن پر گھبراہٹ، فکر، خوف سوار ہو، اور بدشگونی والی چیز سے ایذا رسانی کا خدشہ  دماغ میں رکھے،  ایسی سوچ رکھنا شرک ہے، عقیدہ توحید اور اللہ پر اعتماد  میں کمی کی علامت ہے۔

اور جس کسی کے دل میں  بدشگونی  آئے تو اس سے بچے، اور اس بدشگونی والی  رکاوٹ سے رو گردانی کرتے ہوئے اللہ تعالی پر  بھر پور بھروسہ و اعتماد کرے، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (ہر کسی کے دل میں بد شگونی آتی ہے، لیکن اللہ تعالی توکل  کی وجہ سے اسے ختم کر دیتا ہے) اور ایک مسلمان پر بارگاہِ الہی  میں پناہ حاصل کرنا  اور دل کو صرف اللہ کے جوڑنا ضروری ہے، اس کے لئے وہ دعا میں گڑگڑا کر اللہ تعالی سے مانگے۔

[عروہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ]”رسول اللہ ﷺکے پاس بد شگونی کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا: (ان میں سے بہتر نیک فال ہے، اور بد شگونی کسی مسلمان کو پیش قدمی سے نہیں روک سکتی، اور اگر کسی کو غیر مرغوب چیز نظر بھی آئے تو وہ کہے:

اَللَّهُمَّ لَا يَأْتِيْ بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

یا اللہ! بھلائی کو تو ہی لانے والا ہے، اور برائی کو تو ہی دور کرنے والا ہے، اور نیکی کرنے  اور برائی سے بچنے کی طاقت صرف اللہ  کی طرف سے ہے۔

اسی طرح  وارد شدہ ادعیہ میں یہ بھی ہے کہ:

اَللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ وَلَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ

یا اللہ! بھلائی صرف تیری ہی طرف سے ہے، اور کوئی بھی پرندہ  تیری ملکیت سے باہر نہیں ہے، اور تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔

اور جو شخص  شیطان کے بہکاوے میں آکر بد شگونی میں پڑ جائے، اور جس کام کی نیت سے چلا تھا اُسے چھوڑ دے، تو بسا اوقات کم ترین سطح سے بھی نچلے درجے  کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے سزا  کے طور پر  اس کے [بدشگونی والے]خدشات کو حقیقت میں بدل دیا جاتا ہے؛ کہ اس نے اللہ تعالی پر سچا توکل اور بھرپور بھروسہ نہیں کیا۔

چنانچہ اللہ کے بندوں! اللہ سے ڈرو!  واجبات میں خلل پیدا کرنے والے  اوہام سے بچو، رب ارض و سما  کے بارے میں عقیدہ توحید سے متصادم  نظریات سے دور رہو، کیونکہ سب معاملات اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، اس کے فیصلوں  کو کوئی بدل نہیں سکتا، اور اس کے فضل کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔

فضیل رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر تمہارے دل میں مخلوق  پر اعتماد کی کوئی جگہ نہ ہو تو اللہ تعالی جو  چاہو گے تمہیں عطا فرما دے گا”۔

اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش  مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اپنے رب کی تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں،  اور میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ یکتا ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی اُن پر ، اُن کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانوں!

ہر مسلمان کے لئے اپنے دل کو صرف ایک اللہ کے ساتھ جوڑنا واجب ہے،  اسے چاہیے کہ اللہ پر اپنے اعتماد کو بڑھاتا رہے، مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لئے  اللہ تعالی سے گڑگڑا کر مانگے۔

یہ بات ذہن نشین  کر لیں!  انسان کا جتنا وقت اللہ کی اطاعت میں گزرے تو وہ اس کے لئے وقت ِ با برکت ہے، اور جتنا وقت اللہ کی نافرمانی میں گزرے وہ اس کے اور پورے معاشرے کے لئے وقتِ نحوست ہے۔

چنانچہ ابن رجب رحمہ اللہ کے مطابق  نحوست  اللہ کی نافرمانی کادوسرا  نام ہے، اُن کا کہنا ہے کہ: مجموعی طور پر نحوست  گناہوں اور نافرمانیوں کا ہی دوسرا نام ہے، کیونکہ ان سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے، اور جس وقت اللہ تعالی اپنے بندے سے ناراض ہو  تو انسان دنیا و آخرت میں منحوس بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح جب اللہ تعالی اپنے بندے سے راضی ہو تو  وہ دنیا و آخرت میں سعادت مند بن جاتا ہے۔

ابو حازم رحمہ اللہ کہتے ہیں:  “اہل و عیال یا مال کچھ بھی اللہ تعالی سے غافل کر دے تو وہ تمہارے لئے منحوس ہے”۔

اسی طرح گناہگار اپنے اور دوسروں کے لئے  نحوست کا باعث ہے،  کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس پر عذاب نازل ہو تو دیگر لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے، خصوصاً ایسے لوگوں کو جنہوں نے اسے برائی سے نہیں روکا، اسی طرح کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق برائی کی جگہوں سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔

ہمیں اللہ تعالی نے ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے اور وہ نبی ﷺ پر درود و سلام  ہے:

یا اللہ! ہمارے پیارے نبی  ، ہمارے رہبر و رہنما اور سربراہ محمد  پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان ، علی ، آپکی آل، تمام صحابہ کرام، اور قیامت تک انکے راستے پر چلنے والے افراد سے  راضی ہو جا۔

یا اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ!  مسلمانوں کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان کی تمام منصوبہ بندیاں غارت فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! مؤمن مرد و خواتین کو بخش دے، یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین کو بخش دے، یا اللہ!  ہم جہاں بھی رہیں ہمیں بابرکت بنا دے ، یا اللہ! ہم جہاں بھی رہیں ہمیں با برکت بنا دے، یا اللہ! ہم جہاں بھی رہیں ہمیں با برکت بنا دے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے دکھ درد، اور مسلمانوں کی تمام مشکلات کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی تکالیف رفع فرما دے، یا اللہ! تمام مومن مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مومن مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مومن مریضوں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تیری اطاعت والی لمبی زندگی انہیں عطا فرما، یا اللہ! اُنہیں اور ان کے دونوں نائب کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ ! تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی اقوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! انہیں برے حکمرانوں سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں اور ہر وقت تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں میں پھیلے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں میں پھیلے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! ان کی مشکل کشائی فرما دے، یا اللہ! ان کی مشکل کشائی فرما دے،یا ذا لجلال و الاکرام!

یا اللہ! تمام مسلمانوں کو حق و تقوی پر متحد فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو حق و تقوی پر متحد فرما۔

 یااللہ! تو ہی غنی، قابل تعریف ہے، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما،یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں میں بارشیں نازل فرما،یا اللہ! رحمت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! رحمت کی بارش عطا فرما، یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! رحمت کی بارش عطا فرما، یا حیی! یا قیوم! یا غنی! یا حمید!

یا اللہ! ہماری دعا قبول فرما، یا اللہ! ہماری امیدوں کو بار آور فرما، یا اللہ! ہماری امیدوں کو بار آور فرما، یا اللہ! ہماری امیدوں کو بار آور فرما۔

اللہ کے بندوں!

اللہ ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو اور صبح و شام اسی کی تسبیحات پڑھا کرو!۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔