ماہِ محرّم اور روزہ !

ماہِ محرّم اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں یومِ عاشوراء (۱۰ محرّم ) کورسولِ اکرم ﷺخود بھی روزہ رکھا کرتے اور آپ نے رمضان المبارک کے روزوں کے بعداس روزے کو سب سے افضل قرار دیا ہے۔

آپ ﷺکا فرمانِ مبارک ہے:رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینہ محرّم کا ہے۔[رواه مسلم 1982]

اسی طرح ” جب رسول كريم ﷺمدينہ تشريف لائے تو مدينہ كے يہوديوں كو ديكھا كہ وہ يوم ِعاشوراء كا روزہ ركھتے ہيں، تو رسول كريم ﷺنے فرمايا: يہ كيا ہے؟ تو وہ كہنے لگے: يہ وہ دن ہے جس ميں اللہ تعالى نے موسىٰ عليہ السلام كو غرق ہونے سے نجات دى تھى لہذا ہم اس دن كا روزہ ركھتے ہيں، تو رسول كريم ﷺنے فرمايا:” ہم تم سے زيادہ موسى عليہ السلام كے حقدار ہيں، لہذا رسول كريم ﷺنے خود بھى روزہ ركھا اور اس دن كا روزہ ركھنے كا حكم بھى ديا”۔

اور دور جاہليت ميں قريش بھى اس دن كى تعظيم كرتے تھے،اور جس دن كا روزہ ركھنے كا حكم ديا وہ ايك دن تھا۔كيونكہ نبى كريم ﷺمدينہ ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں تشريف لائے اور اگلے سال يومِ عاشوراء كا روزہ ركھا اور اس كا روزہ ركھنے كا حكم بھى ديا، پھر اسى برس رمضان المبارك كے روزے فرض كر ديے گئے تو عاشوراء كا روزہ منسوخ ہو گيا۔

علماء كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ: كيا اس دن كا روزہ واجب تھا؟ يا مستحب؟

اس ميں دو مشہور قول ہيں:

ان ميں صحيح يہى ہے كہ ماہِ رمضان کے روزے فرض کیے جانے سے پہلے يہ روزہ واجب تھا، پھر بعد ميں اسے استحباب ميں بدل ديا گيا، اور نبى كريم ﷺنے لوگوں كو اس كا روزہ ركھنے كا’’ حكم‘‘ نہيں ديا بلكہ آپ فرمايا كرتے تھے:

” يہ يوم عاشوراء ہے، ميں روزہ سے ہوں لہذا جو كوئى روزہ ركھنا چاہے روزہ ركھے”۔

اور نبى كريم ﷺنے يہ بھى فرمايا: ” يوم عاشوراء كا روزہ ايك سال كے گناہوں كا كفارہ ہے، اور يومِ عرفہ كا روزہ دو برس كے گناہوں كا كفارہ ہے”۔

اور جب نبى كريم ﷺكى زندگى كے آخرى ايام تھے اور جب انہيں يہ علم ہوا كہ يہودى اس دن كو تہوار اور عيد كے طور پر مناتے ہيں تو رسول كريم ﷺنے فرمايا:

” اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں نو محرم كا بھی روزہ ركھوں گا”۔

تا كہ يہوديوں كى مخالفت كرسكيں، اور اس دن اُن یہودیوں كے تہوار منانے ميں اُن كى مشابہت نہ ہو سكے۔

اسی لیے صحابہ كرام اور علماء صرف اکیلے يوم عاشوراء كا روزہ ركھنا مكروہ سمجھتے تھے، جيسا كہ كوفيوں كے ايك گروہ سے نقل كيا جاتا ہے،جبکہ كچھ علماء اس كا روزہ مستحب قرار ديتے ہيں۔ليكن صحيح يہى ہے كہ: جو شخص يوم ِعاشوراء كا روزہ ركھے اسے اس كے ساتھ نو محرم كا بھى روزہ ركھنا چاہيے۔ كيونكہ نبى كريم ﷺكا آخرى امر ہے اس كى دليل يہ ہے كہ رسول كريم ﷺنے فرمايا:

” اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں دس كے ساتھ نو كا بھى روزہ ركھوں گا”۔ جيسا كہ حديث كے بعض طرق ميں اسى تفسير كے ساتھ آيا ہے، لہذا رسول كريم ﷺنے يہى مسنون كيا ہے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔