ایک سلگتا ہوا معاشرتی مسئلہ
بلوغت کے بعد بچی کی شادی ایک اہم مسئلہ ہے تو نوجوان بچے کی شادی بھی اہم ہے۔ کیونکہ دونوں کی بابت نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بالغ ہونے کے بعد شادی میں تاخیر نہ کی جائے۔ تاہم مسلمان معاشرے میں نوجوان بچی کی شادی کا مسئلہ بہت زیادہ اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے پردے کی پابندی ہے، اپنے ابدی محرموں کے علاو ہ دوسرے مردوں سے میل ملاقات پر پابندی ہے، فکرِ معاش سے اسلام نے اسے آزاد رکھا ہے، اس لئے معاشی جہد و جہد کی خاطر بھی اسے باہر جانے اور لوگوں سے میل جول کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسلام کی ان تعلیمات کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی شادی کی تمام تر ذمہ داری اس کے اولیاء پر ہو۔ وہی اس کے لئے مناسب رشتہ اور شادی کے جملہ انتظامات کا بندوبست کریں۔
والدین (parents)کے دل میں اولاد کی محبت ایک فطری چیز (by nature)ہے یہ فطری محبت ہی والدین کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی نوجوان بچی کے لئے مناسب ترین رشتہ تلاش کریں جو ظاہری اور معنوی لحاظ سے موزوں تر ہو۔ والدین سے بڑھ کر اولاد کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوسکتا چنانچہ وہ شادی کے موقع پر اپنی خیر خواہی کا حق اس طرح ادا کرتے ہیں کہ بہتر سے بہتر رشتہ تلاش کرنے میں کوئی لمحہ بھی لا پرواہی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر اسلامی معاشرے میں شادی کا مسئلہ خیر و خوبی کے ساتھ انجام پا جاتا ہے اور والدین اور اولاد کے درمیان کوئی اختلاف رونما نہیں ہوتا۔
کسی موقعے پر اس فطری داعیے کی کمی کا امکان بھی ہے۔ ہوسکتا ہے والدین بعض دفعہ بچی کی خواہش اور جذبات کے مقابلے میں دوسرے عوامل و اسباب کو ترجیح دینا پسند کریں اور یوں نوجوان بچی کا مستقبل تاریک ہو جائے۔ ایسا اگرچہ کم ہی ہوتا ہے تاہم اس کے وقوع و ظہور سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اسلام نے اس کے سدِّ باب کے لئے نہایت واضح ہدایت دے دی ہے اور وہ یہ کہ اولیاء guardians) (شادی کرتے وقت بچی کی رضامندی بھی ضرور حاصل کریں۔ اگرایک رشتہ بچی کو پسند نہیں ہے تو اس کے لئے دوسرا، تیسرا رشتہ تلاش کریں حتی کہ وہ راضی ہو جائے یا اس کو قائل کرکے راضی کرلیا جائے۔ والدین کو ایسی جگہ شادی کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے جہاں بچی شادی کرنا پسند نہیں کرتی۔ انہیں جبر کے ذریعے شادی کرنے سے سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اگر والدین بچی کی رضامندی حاصل کئے بغیر جبر و اکراہ (by force)کے ذریعے سے اس کی شادی کردیں گے تو شریعت نے نوجوان لڑکی کو ایسا نکاح فسخ (annulment) کرانے کا اختیار دیا ہے۔ وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعے ایسا نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔ نبی ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے اس طرح جبراً اپنی لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کر دیا تو نبی ﷺ نے اسے اختیار دیا کہ اگر وہ چاہے تو نکاح فسخ کروالے۔1
تاہم کسی نوجوان لڑکی کو یہ ا جازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر، گھر سے راہِ فرار اختیار کرکے کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جا کر از خود کسی سے نکاح رچا لے. ایسا نکاح باطل ہوگا اور وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا. نکاح کی صحت کے لئے ولی کی اجازت، رضامندی اور موجودگی ضروری ہے۔ اس اعتبار سے محبت کی شادی(Love marriage) کورٹ میرج(court marriage)، سیکرٹ میرج(خفیہ شادی) قطعاً نا جائز ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ان تینوں صورتوں میں اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف پایا جاتا ہے۔
اسلام کی مذکورہ تعلیم میں بڑا اعتدال و توازن ہے۔ ایک لڑکی کو تاکید ہے کہ والدین نے اسے پالا پوسا ہے، اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ہے، وہ مستقبل میں بھی جب کہ وہ اپنی نوجوان بچی کو دوسرے خاندان بھیج رہے ہیں اس کے لئے روشن امکانات دیکھ رہے ہیں اور اس کی روشنی میں ہی انہوں نے اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے وہ اپنے محسن، خیر خواہ اور مشفق و ہمدرد والدین کے فیصلے کو رضامندی سے قبول کرلے۔ دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضامندی حاصل کئے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع کر دیا ہے۔ اگر کوئی ولی guardian) (بالجبر (by force) ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فقہاء نے ایسے ولی کو ولیِٔ عاضل((غیر مشفق ولی) قرار دیکر ولی ابعد (دور کے ولی) کو آگے بڑھ کر اس کی شادی کرنے کی تلقین کی ہے۔ ولی ابعد بھی کسی وجہ سے اہتمام کرنے سے قاصر ہو تو عدالت یا پنچایت یہ فریضہ سرانجام دے گی۔ فقہاء کے اس فیصلے کی تلقین کی بنیاد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی طبرانی اوسط کی یہ حدیث ہے جس کی سند کو حسن قرار دیا گیا ہے۔
لا نکاح الا بولی مرشد او سلطان2
ولی مرشد یا سلطان کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔
اس کی دوسری دلیل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں ولی کی بغیر اجازت کئے گئے نکاح کو باطل کہا گیا ہے۔ اس میں آگے یہ الفاظ ہیں:
فان اشتجرو ا فالسلطان ولی من لا ولی لھا3
اگر ولی آپس میں لڑیں تو اس عورت کا ولی سلطان ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔
اس جھگڑے سے مراد ایسا جھگڑا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس کے نکاح میں رکاوٹ بن جائیں تو ایسے اولیاء کو عاضل( غیر مشفق، نا اہل) قرار دیکر ولیٔ ابعد یا سلطان (قاضی، یا حاکمِ مجازpersonnel Authorized) کو ولی بنایا جائے گا چنانچہ صاحبِ سبلُ السلام فرماتے ہیں:
اور اولیاء کے جھگڑے سے مراد ان کا عورت کا نکاح کرنے سے انکار کرنا اور یہی عضل ہے جس کی وجہ سے ولایت سلطان کی طرف منتقل ہو جائے گی اگر ولیٔ اقرب ولیٔ ابعد کو بھی شادی کرنے سے روک دے اور یہ قرینِ قیاس ہے۔ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سلطان ہر اس عورت کا ولی ہے جس کا ولی نہ ہو۔ وہ (ولی) سرے سے ہی نہ ہو یا اس کے نکاح سے روکنے کی وجہ سے اس کو ولی بننے سے روک دیا گیا ہو، اسی طرح وہ (ولی) غیر موجود ہو (تینوں صورتوں میں سلطان وقت ولی کے فرائض انجام دے گا)۔4
بعض فقہاء نے عضلِ ولی کے لئے قرآنِ کریم کی آیت
فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ
البقرۃ – 232
’’تم عورتوں کو (ان کی پسندیدہ جگہوں پر دوبارہ شادی کرنے سے) مت روکو‘‘۔
سے بھی استدلال کیا ہے جو بالکل صحیح ہے۔ اس سے واضح ہے کہ لڑکی کی رضامندی کا مسئلہ بھی اتنا اہم ہے کہ اسے نظر انداز کرنے والے ولی کو حقِ ولایت سے ہی محروم کر دیا جاسکتا ہے۔ اس مقام پر ضروری ہے کہ جبر اور عضل کا صحیح مفہوم بھی واضح کر دیا جائے تاکہ مسئلے کی نوعیت میں کوئی ابہام نہ رہے۔
جبر و عضل کا مفہوم:
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی بلا وجہ خود سری کا مظاہرہ کرتی ہے یا جذبات میں آ کر والدین کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیتی ہے جبکہ والدین کا فیصلہ خیر خواہی اور دور اندیشی پر مبنی ہونے کے علاوہ دین و دنیا کی مصلحتوں کے بھی مطابق ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر والدین کو اپنی بالغ(مگر عقل و شعور کے اعتبار سے نا بالغ) بچی کو سمجھانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات اپنے اختیارات بھی بروئے کار لانے پڑتے ہیں۔ یہ جبر نہیں ہے بلکہ خیرخواہی اور حقِ ولایت کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب قرار پائیں گے۔ کیونکہ دین و دنیا کی مصلحتوں کو جس طرح سرد و گرم چشیدہ والدین سمجھ سکتے ہیں۔ ایک نوجوان بچی نہیں سمجھ سکتی۔
جبر دراصل یہ ہے کہ ولی اپنے مفادات کی خاطر نوجوان بچی کے مفادات اور اس کے مستقبل کو نظر انداز کردے جیسے کوئی شخص اپنی نوجوان بچی کا نکاح کسی عمر رسیدہ شخص سے کرنے پر اصرار کرے یا پیسے کی لالچ میں بے جوڑ شادی کرنا چاہے یا اور اس قسم کی کوئی صورت ہو جو بچی کے لئے ناپسندیدہ ہو۔ ان صورتوں میں والد یا ولی کو جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح مثلاً اگر کوئی باپ اپنی نوجوان بچی کی شادی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کی زمین یا جائیداد تقسیم ہو جائے گی یا لڑکی اچھی ملازمت کرتی ہے یا گھر میں رہ کر کوئی آمدنی والا کام کرتی ہے تو وہ اس کی شادی نہ کرے تاکہ اس کی آمدنی سے وہ محروم نہ ہو یا اس لئے شادی نہ کرے کہ وہ اس کی خدمت سے محروم ہو جائے گا۔ ان تمام صورتوں میں ایسے ولی کو عاضل قرار دیکر ولی ابعد یا حاکمِ مجاز کے ذریعے بچی کی شادی کا انتظام کیا جائے گا۔
یہ ہے مسئلے کی اصل نوعیت:
اس اعتبار سے جہاں والدین اور نوجوان بچی کے درمیان شادی کے مسئلے میں اختلاف ہو یا نوجوان بچی گھر سے فرار ہو کر کسی آشنا کے ساتھ شادی کرلے اور معاملہ عدالت یا پنچایت میں پہنچے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بچی کا یہ اقدام واقعی والدین کے ناجائز جبر یا عضل کا نتیجہ ہے یا بچی ناسمجھی، خود سری اور بغاوت کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو یقیناً اسے والدین کے ظلم و جبر سے بچا کر اس کی شادی کا اور اگر شادی کرچکی ہو تو اس کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن دوسری صورت میں وہ قطعا کسی امداد و تعاون کی مستحق نہیں ہے وہاں والدین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرہ انتشار سے محفوظ رہے اور اگر اس نے والدین کی رضامندی کے بغیر از خود کسی سے نکاح کرلیا ہے جبکہ والدین اس کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں تو ایسے نکاح کو باطل قرار دے کر ایسی لڑکی کو والدین کے سپرد کیا جائے گا۔
آج کل عدالتوں میں نوجوان لڑکیوں کے از خود نکاح کرنے کے جو مقدمات پیش ہو رہے ہیں ان میں مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا تعین اور تحقیق کئے بغیر صرف اس بنیاد پر فیصلہ کرنا یا بعض علماء کا فتویٰ دینا کہ نوجوان لڑکی ولایت کی محتاج نہیں ہے اس لئے یہ نکاح جائز ہے قرآن و حدیث کی رو سے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جمہور علماء و فقہاء کے مسلک کی روشنی میں بالکل غلط ہے۔ عدالتیں اگر قرآن و حدیث کو اپنا حَکَم مانتی ہیں تو وہ ایسا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں ہیں اور علماء بھی اگر
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
النساء – 59
’’اگر تمہارے درمیان کسی چیز کی بابت جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو‘‘
پر صدقِ دل سے عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی مذکورہ نکاحوں کے جواز کا مطلقاً فتویٰ دینے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔ ولی جابر یا عاضل ہوگا تو ولی ابعد یا عدالت نکاح کرائے گی لیکن کسی بالغ لڑکی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بھاگ کر یا چھپ کر اپنا نکاح خود کرلے۔
دلائل:
سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا نکاح الا بولّی5
ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔
والحدیث دلّ علی أنّه لا یصحّ النّکاح الّا بولّی، لأنّ الأصل فی النّفی نفی الصّحّة لا الکمال6
“ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں کیونکہ نفی میں اصل صحت کی نفی ہوتی ہے نہ کہ کمال کی نفی۔”
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
ایّما امرأۃ نکحت بغیر اذن و لیّھا فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فان دخل بھا فلھا المھر بما استحلّ من فرجھا، فان اشتجروا فالسّلطان ولّی من لّا ولیّ له
(مسند احمد)
“ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر مرد اس کے ساتھ دخول کرلیتا ہے تو اس عورت کو مرد کی طرف سے شرمگاہ کو حلال کرنے کے عوض حق مہر ملے گا اور اگر (باپ نہ ہو اور) ان (دوسرے ولیوں) میں اختلاف ہو جائے تو حاکمِ وقت اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں ہے۔”
خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أیما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیّھا فنکاحھا باطل، لا نکاح الّا باذن ولّی7
جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے اس کانکاح باطل ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔
اس سلسلے میں مکمل دلائل اور ان کے جائزہ کے لئے کتاب ’’ مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔