رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے فرمانبردار مؤمن بندوں کے لیے اپنی خوشنودی ، دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے اور نیکی و عمل صالح میں اضافے کے لیے ایسے مواقع اور موسم کے ذریعے اسباب و ذرائع مہیا کیے ہیں جن میں بے پناہ خیر و برکات پائی جاتی ہیں اور جن میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کی قربت اور مرتبے میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہی موسموں میں سے ایک ماہ شعبان ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت میں روحانیت اور تقربِ الہی بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم دی ، وہیں نفلی روزے رکھنے کی بھی ترغیب دی ہے بالخصوص ماہ شعبان میں آپ ﷺ سے بکثرت روزے رکھنا منقول ہے۔ ماہِ شعبان وہ مہینہ ہے جس کا مومن بندے کو شدت سے انتظار رہتا ہے اور وہ اس میں نیک اعمال کا اہتمام کرتا ہے۔ آخر وہ انتظار کیوں نہ کرے کیونکہ ماہ شعبان حفاظ و قراء کرام کا مہینہ ہے ، رب العالمین کے حضور اعمال پیش ہونے کا مہینہ ہے اور ماہ رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے۔
ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ کا عمل
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كانَ رَسولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُ حتَّى نَقُولَ: لا يُفْطِرُ، ويُفْطِرُ حتَّى نَقُولَ: لا يَصُومُ، فَما رَأَيْتُ رَسولَ اللہِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إلَّا رَمَضَانَ، وما رَأَيْتُهُ أكْثَرَ صِيَامًا منه في شَعْبَانَ.
(صحيح البخاري: 1969، وصحیح مسلم :1156)
رسول اللہ ﷺ روزہ رکھنا شروع کر دیتے تو ہم سمجھتے کہ اب آپ روزہ افطار نہیں کریں گے اور جب آپ افطار کرنا شروع کر دیتے تو ہم سمجھتے کہ اب آپ ﷺ روزہ ہی نہیں رکھیں گے نیز میں نے نبی کریم ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں مکمل مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي الحديث دليل على فضل الصوم في شعبان1
ترجمہ: حدیث میں ماہ شعبان کے روزے کی فضیلت کا ثبوت ہے۔
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما صيام النبي صلى الله عليه وسلم من أشهر السنة فكان يصوم من شعبان ما لا يصوم من غيره من الشهور2
ترجمہ: جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سال کے مہینوں میں روزوں کا تعلق ہے تو آپ ﷺ ماہ شعبان میں اس قدر روزے رکھتے تھے جو دوسرے مہینوں میں نہیں رکھتے تھے۔
امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفيه دليل على أنه يخصُّ شعبان بالصوم أكثر من غيره3
ترجمہ: حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان کو دوسرے مہینوں سے زیادہ روزے رکھنے کے لیے خاص فرمایا کرتے تھے۔”
اسی طرح ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنْ السَّنَةِ شَهْرًا تَامًّا إِلا شَعْبَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ
( صحیح أبي داود : 2336 )
ترجمہ: نبی کریم ﷺ سال میں کسی مہینے کے مکمل روزے نہ رکھتے سوائے شعبان کے۔ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ
(صحيح النسائي :2356)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ پورا شعبان روزہ رکھتے تھے۔
مذکورہ بالا تمام احادیث صحیح اور حسن ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں یہ بات عیاں اور واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ شعبان کے روزے رکھنا اور ان کا خوب اہتمام کرنا سنت رسول ﷺ اور باعث اجر و ثواب ہے۔
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمتیں
درج ذیل سطور میں رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ماہ شعبان کی محبوبیت اور اس میں کثرت سے روزوں کا اہتمام کرنے کی چند حکمتیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔
1۔ الله تعالیٰ كی قربت
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت تقربِ الہی کا حصول ہے کیونکہ اللہ تعالی کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے فرائض کے بعد نفلی عبادات بھی مشروع کی ہیں جنہیں ادا کرنے سے انہیں اللہ تبارک و تعالی کا قرب اور اجر عظیم حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وما تَقَرَّبَ إلَيَّ عَبْدِي بشَيءٍ أحَبَّ إلَيَّ ممَّا افْتَرَضْتُ عليه، وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ
(صحيح البخاري : 6502)
ترجمہ: اور میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض قراردی ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔
2۔ غفلت کا مہینہ
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں بکثرت روزہ رکھتے ہیں تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! جس قدر کثرت سے آپ شعبان میں روزہ رکھتے ہیں کسی اور ماہ میں نہیں رکھتے، اس کی وجہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے یوں جواب دیا :
ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ
(صحيح النسائي: 2356)
ترجمہ: یہ وہ مہینہ ہے کہ جو رجب و رمضان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے لوگ عبادت میں غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس ماہ میں اعمال اللہ تعالی کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں تو میں اس وقت روزے سے رہوں۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان میں کثرت کے ساتھ روزہ رکھنے کی دو اہم اسباب بیان فرمائے ہیں۔
الف۔ لوگوں کی غفلت
چونکہ لوگ ماہ رجب کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کیونکہ وہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور رمضان المبارک کا اس لیے اہتمام کرتے ہیں کیونکہ اس ماہ کا روزہ فرض اور اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے لیکن ماہ شعبان میں عبادت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ایسے وقت میں اللہ کو یاد کروں جب لوگ اس کے ذکر سے غافل ہوں کیونکہ کسی بھی ایسے وقت میں جس میں لوگ عبادت یا ذکر الہی سے غافل ہوں تو ذکر الہی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہجد کی نماز تمام نمازوں میں سب سے افضل ہے، بازار میں ذکر الہی کی بڑی فضیلت ہے، صحراء میں اذان دے کر نماز پڑھنے کی بڑی اہمیت ہے۔
ب۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں نامہ اعمال کی پیشی۔
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کو یہ پسند تھا کہ جب اعمال اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں تو اس حالت میں پیش کیے جائیں کہ روزے کی عظیم فضیلت کی وجہ سے اللہ کا بندہ عمدہ اور خوشگوار حالت میں ہو تاکہ اگر وہ ایسی حالت میں زبان سے اللہ کے لیے کوئی التجاء کرے تو بندے کے گناہوں کے لیے معافی کا سبب بن سکے۔
3۔ شعبان کے روزے اشھر الحرم کے روزوں سے افضل
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ شعبان کے روزے اشھر الحرم(حرمت والے مہینے) کے روزوں سے افضل ہیں۔ چنانچہ امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صيام شعبان أفضل من الأشهر الحرم، وأفضل التطوع ما كان قريبًا من رمضان قبله و بعده، وذلك يلتحق بصيام رمضان لقربه منه، وتكون منزلته من الصيام بمنزلة السنن الرواتب مع الفرائض قبلها وبعدها، وهي تكملة لنقص الفرائض، وكذلك صيام ما قبل رمضان وبعده، فكما أن السنن الرواتب أفضل من التطوع المطلق بالصلاة، فكذلك يكون صيام ما قبل رمضان وبعده أفضل من صيام ما بعُد منه4
ترجمہ : شعبان کے روزے اشھر الحرم (حرمت والے مہینے) کے روزوں سے افضل ہیں اور سب سے افضل وہ نفلی عبادت ہے جو رمضان سے قبل اور بعد میں رمضان سے متصل ہو کیونکہ ان روزوں کا درجہ فرائض کے ساتھ سنن مؤکدہ جیسا ہے جو فرائض سے قبل اور بعد میں پڑھی جاتی ہیں جو کہ فرائض کے نقص کوپورا کریں گی۔ اسی طرح رمضان سے قبل اور بعد میں روزے بھی اسی طرح ہیں تو جس طرح نماز میں عام نفلوں سے سنت موکدہ افضل ہیں اسی طرح رمضان سے پہلے اور اس کے بعد کے روزے بھی افضل ہیں ۔
4۔غیر مشہور عمل کی فضیلت
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک اور حکمت یہ ہے کہ بعض اوقات جن مقامات، اوقات اور اشخاص کی فضیلت مشہور ہوچکی ہوتی ہے ان کی بنسبت دوسرے اوقات، مقامات اور اشخاص مطلقا یا کسی خصوصیت کی وجہ سے زیادہ افضل ہوتے ہيں لیکن اس کی طرف اکثر لوگوں کی توجہ نہیں ہوتی اور لوگ صرف عوام میں مشہور فضیلت والے عمل میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اس طرح غیر مشہور کی فضیلت حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
5۔ہر ماہ تین دن کے روزوں کا جمع
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ تقریباً ہر اسلامی مہینے کے تین دن روزہ رکھتے تھے لیکن بسا اوقات سفر و ضیافت وغیرہ یا کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے روزے جمع ہو جاتے تو ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصومُ -يَعْني- مِن غُرَّةِ كلِّ شهرٍ ثلاثةَ أيَّامٍ۔
( صحيح أبي داود: 2450 )
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے شروع میں تین دن روزے رکھتے تھے۔
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:
يا أبا ذرٍّ إذا صُمتَ منَ الشَّهرِ ثلاثةَ أيَّامٍ ، فصُم ثلاثَ عشرةَ ، وأربعَ عشرةَ وخمسَ عشرةَ
(صحيح الترمذي: 761)
ترجمہ: اے ابو ذر ! جب تم (کسی بھی) مہینے میں کچھ دن روزے رکھو تو تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں کو رکھا کرو۔
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كانَ رسولُ اللہِ صلَّى اللہُ عليْهِ وسلَّمَ يصومُ ثلاثةَ أيَّامٍ منَ الشَّهرِ الاثنينِ والخميسَ والاثنينِ منَ الجمعةِ الأُخرى
(صحيح أبي داود: 2451)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ مہینے میں تین دن روزے رکھتے تھے یعنی (پہلے ہفتہ کے) دو شنبہ، جمعرات اور دوسرے ہفتے کے دوشنبہ کو۔
معاذہ عدویہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا:
أَكانَ رسولُ اللہِ صلَّى اللہُ عليْهِ وسلَّمَ يصومُ من كلِّ شَهرٍ ثلاثةَ أيَّامٍ؟ قالت نعَم قلتُ من أيِّ شَهرٍ كانَ يصومُ ؟ قالت ما كانَ يبالي من أيِّ أيَّامِ الشَّهرِ كانَ يصومُ
(صحيح أبي داود: 2453، وصحیح مسلم : 1160)
ترجمہ: کیا رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، میں نے پوچھا: مہینے کے کون سے دنوں میں روزے رکھتے تھے؟ جواب دیا کہ آپ ﷺ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تھی کہ مہینے کے کن دنوں میں رکھیں۔
رسول اللہ ﷺ کا تین روزے رکھنے کا معمول
درج بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مہینے کے کسی بھی تین دن روزے رکھ لیا کرتے تھے۔ تین روزوں کا اہتمام ایام بیض کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ کبھی ایام بیض میں رکھتے تھے اور کبھی مہینے کے کسی بھی تین دن روزے رکھ لیا کرتے تھے۔ِ
6۔ ماہِ رمضان المبارک کی تیاری
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كما أن شهر شعبان مقدمة لشهر رمضان، ولذلك شرع فيه الصيام، ليحصل التأهب والاستعداد لاستقبال شهر رمضان، ولترويض النفس على طاعة الله5
ترجمہ: ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ شعبان کا مہینہ رمضان المبارک کیلئے مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اس میں روزے رکھنا مسنون قرار دیا گیا ہے تاکہ بندہ ماہِ رمضان کے استقبال کے لیے تیار ہو ہوسکے اور اطاعت الہی کے لیے روح کی تربیت کی جاسکے۔
7۔اطاعت الہی اور عبادات کی مشق
حافط ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أن صيامه كالتمرين على صيام رمضان؛ لئلا يدخل في صوم رمضان على مشقة وكلفة، بل قد تمرن على الصيام واعتاده، ووجد بصيام شعبان قبله حلاوة الصيام ولذته، فيدخل في صيام رمضان بقوة ونشاط6
ترجمہ: شعبان کا روزہ رمضان کے روزوں کی مشق کرنے جیسا ہے۔ تاکہ انسان مشقت اور بھاری طبیعت کے ساتھ رمضان کے روزوں میں داخل نہ ہو بلکہ وہ شعبان کے کچھ روزے رکھ کر، روزوں کا عادی ہوکر، روزوں کی مٹھاس اور لذت پا کر رمضان میں داخل ہو۔ اس طرح وہ بھر پور طاقت، تیاری اور نشاط کے ساتھ رمضان کے روزوں میں داخل ہوگا ۔
8۔ تربیت نفس
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک اور حکمت یہ بھی ہے کہ چونکہ رمضان میں روزے فرض اور تلاوت قرآن و صدقہ و خیرات مسنون ہیں۔ اب اگر اچانک یہ کام کرنے پڑیں تو انسان پر بھاری پڑیں گے کیونکہ نفس انسانی جس کام کا عادی نہیں ہوتا وہ کام اگر اچانک آن پڑے تو اس پر عمل بھاری ہوتا ہے لیکن اگر انسان اس کا پکا عادی ہو تو اس پر عمل بھاری نہیں ہوتا۔ اسی لیے رمضان سے قبل شعبان کے مہینے میں بکثرت روزہ رکھنے کو مشروع قرار دیا گیا اور سلف تلاوت قرآن کا بکثرت اہتمام کرتے تھے تاکہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہو تو اس میں مکمل نشاط اور پوری تیاری سے داخل ہوں ۔
9۔ اوقات غفلت کو اطاعت الہی میں بدلنا
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت اوقاتِ غفلت کو اطاعت الہی میں بدل دینا ہے کیونکہ لوگوں کی غفلت کے اوقات کو اطاعت الہی سے بھر دینا مستحب عمل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نصف شب کو قیام اللیل کی فضیلت بیان ہوئی ہے کیونکہ اکثر لوگ نصف شب کو ذکر الہی سے غافل رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أقرَبُ ما يَكونُ الرَّبُّ منَ العبدِ في جوفِ اللَّيلِ الآخرِ ، فإن استَطعتَ أن تَكونَ مِمَّن يذكرُ اللہَ في تلكَ السَّاعةِ فَكُن
(صحيح الترمذي: 3579)
ترجمہ: رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہو جاؤ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غفلت والے اوقات میں نیکی کرنا اور اللہ تعالی کی اطاعت بجا لانا مستحب عمل ہے جیسا کہ سلف میں سے کچھ حضرات نمازعشاء اور نماز مغرب کے مابین نماز پڑھنا مستحب سمجھتے اور کہتے تھے کہ یہ غفلت کا وقت ہے اور اسی طرح بازار میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ جگہ بھی غفلت والی ہے۔ اس لیے اہل غفلت کے اندر رہتے ہوئے اطاعت کرنا بھی ایک ذکر ہے۔
10۔سنن مہجورہ کو زندہ کرنا
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت سنن مہجورہ کو زندہ کرنا ہے خصوصاً آج کے دور میں متروک شدہ سنتوں کو زندہ کرنا جہاد سے کم نہیں ہے کہ ہر طرف شر و فساد کی بھرمار ہو، بدعات و فتنے پھوٹ رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں سنت پر کار بند رہنے کا اجر زیادہ عظیم ہوگا۔ سیدنا معقل بن یسار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الْعِبادَةُ في الهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إلَيَّ.
(صحيح مسلم: 2948)
ترجمہ: فتنوں کے زمانہ میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے مانند ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ فتنے کے زمانے میں لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور دین کی طرف نہیں آتے اس لیے ان کی حالت زمانہ جاہلیت کی طرح ہے۔ اگر ان میں کوئی ایسا ہے جو اپنے دین پر قائم ہو، اپنے رب کی عبادت کرتا ہو، رب کی خوشنودی کی پیروی کرتا ہو اور اس کی ناراضگی سے بچتا ہو تو وہ اس شخص کا درجہ پاتا ہے جو زمانہِ جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاتے ہوئے، اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اور اس کی ممانعتوں سے اجتناب کرتے ہوئے آپ ﷺ کی طرف ہجرت کر کے آیا ہو-
سنن مہجورہ کو زندہ کرنے کا اجر
سنن مہجورہ کو زندہ کرنے کا اجر و ثواب بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن أحيا سنَّةً من سنَّتي ، فعملَ بِها النَّاسُ ، كانَ لَهُ مثلُ أجرِ من عَمِلَ بِها ، لا يَنقصُ مِن أجورِهِم شيئًا ، ومن ابتدعَ بدعةً ، فعمِلَ بِها ، كانَ عليهِ أوزارُ مَن عملَ بِها ، لا ينقُصُ مِن أوزارِ من عملَ بِها شيئًا
(صحيح ابن ماجه : 174 ، صحيح لغيره)
ترجمہ: جس نے میری کسی سنت کو زندہ کیا پھر اس پر لوگوں نے عمل کیا (تو) اسے اس سنت پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے کوئی بدعت ایجاد کی پھر اس پر عمل کیا گیا (تو) اسے عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہی ہوگی‘‘۔
سنت اور ترکِ سنت کو ہلکا سمجھنے کا انجام
سنت اور ترکِ سنت کو ہلکا سمجھنے کے انجام کے متعلق شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من تھاون بالآداب عوقب بحرمان السنة، ومن تھاون بالسنة عوقب بحرمان الفرائض، ومن تھاون بالفرائض عوقب بحرمان المعرفة7
ترجمہ: جو شخص آداب میں سستی کرتا ہے، وہ سنت سے محرومی کی مصیبت میں مبتلا کیا جائے گا اور جو سنت میں سستی کرتا ہے اور اُسے ہلکا سمجھتا ہے، وہ فرائض کے چھوٹنے کی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور جو فرائض میں سستی کرتا ہے اور اُسے خفیف سمجھتا ہے، وہ معرفتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔ ‘‘
حاملینِ سنت کے لئے خوشخبری
سنت پر عمل پیرا لوگوں کا مقام و مرتبہ اعلی و ارفع ہوگا کیونکہ یہی لوگ اندھیر ے میں روشنی کے علمبردار ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إن الإسلام بدأ غريبًا ، وسيعودُ غريبًا كما بدأَ ، فطُوبَى للغُرباءِ قيل : من هم يا رسولَ اللهِ ؟ قال : الذينَ يصلحونَ إذا فسدَ الناسُ
(السلسلة الصحيحة: 1273 )
ترجمہ: جب اسلام کی ابتدا ہوئی تو وہ اجنبی تھا (نامانوس) تھا اور عنقریب دوبارہ اجنبی بن جائے گا سو (اس دین کو اپنانے والے) غرباء کے لیے خوشخبری ہے۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! یہ غرباء کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے بگاڑ کے وقت ان کی اصلاح کرتے ہیں۔“
ایک روایت میں حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طُوبى لِلْغُرَباءِ ، قيل : و مَنِ الغُرَباء يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ناسٌ صالِحُونَ قَلِيلٌ في ناسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أكثرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ
(السلسلة الصحيحة: 1619)
ترجمہ: غرباء کے لیے خوشخبری ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول(ﷺ) ! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نیک لوگ جو برے لوگوں کی بنسبت کم ہوتے ہیں اور ان کی نافرمانی کرنے والے ان کی اطاعت کرنے والوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔“
11۔قضاء شدہ روزوں کی ادائیگی
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ ماہِ رمضان میں قضاء ہونے والے روزے آپ کے موجود ہونے کی وجہ سے مؤخر کرتی رہتیں۔ یہاں تک کہ ماہِ شعبان آجاتا تو وہ اپنے قضاء شدہ روزے رکھتیں۔ ساتھ ہی نبی ﷺ بھی نفلی روزے رکھ لیا کرتے تھے8
12۔ نیک عمل پر خاتمہ
ماہِ شعبان میں کثرتِ صیام کی ایک حکمت خاتمہ بالخیر کی ترغیب ہے۔ کسی بھی نیک عمل پر خاتمے کی بڑی اہمیت ہے۔ جس کا خاتمہ کسی نیک عمل پر ہو گا وہی اس کا حسن خاتمہ سمجھا جائے گا۔ اسی لیے نبی ﷺ اس کا اہتمام فرماتے تھے اور اپنی امت کو بھی یہ تعلیم دی کہ وہ بھی اس کا اہتمام کریں۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن قال : لا إلهَ إلا اللهُ خُتِمَ له بِها دخل الجنةَ ، و من صامَ يومًا ابْتغاءَ وجْه اللهِ خُتِمَ له به دخلَ الجنةَ ، ومَن تصدَّقَ بصدقةٍ ابْتغاءَ وجْهِ اللهِ خُتِمَ له بِها دخل الجنةَ
(صحيح الترغيب: 985)
ترجمہ: جس کی زندگی کا خاتمہ اس حال میں ہو کہ اس نے اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی امید میں کسی مسکین کو کھانا کھلا رکھا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا، جس کا خاتمہ اس حال میں ہوا کہ اس نے اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی امید میں روزہ رکھا ہوا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس کا اختتام اس صورت میں ہوا کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید میں «لا إله إلا الله» پڑھا ہوا ہو تو وہ بھی جنت میں داخل ہو گا۔“
درج بالا حکمتوں سے معلوم ہوا کہ شعبان ان اوقات میں سے ایک ہے جو ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور اپنی عبادت پر توجہ مرکوز کرنے کی یاد دہانی کراتا ہے تاکہ ماہِ رمضان کے فضائل و برکات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔
اوقاتِ غفلت میں اطاعتِ الہی کے فوائد
اوقاتِ غفلت میں نیکی اور اطاعت الہی کے درج ذیل فوائد ہیں :
1۔پوشیدہ نیکی
امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
أنه يكون أخفى، وإخفاء النوافل وإسرارها أفضل. لا سيما الصيام فإنه سر بين العبد وربه. ولهذا قيل: إنه ليس فيه رياء.
ترجمہ : اوقات غفلت میں کیا جانے والا عمل عمومی طور پر پوشیدہ ہوتا ہے (پوشیدہ عمل اللہ تعالی کو بہت پسند ہے) اور نوافل کو چھپانا اور پوشیدہ رکھنا افضل عمل ہے خاص کر روزہ جو کہ بندے اور اس کے رب کے مابین ایک راز ہوتا ہے کیونکہ اس میں کوئی ریاء کاری نہيں ہوتی ۔
2۔انسانی نفس پر مشقت والی نیکی
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
أنه أشقّ على النفوس، وأفضل الأعمال أشقها على النفوس9
ترجمہ : اوقات غفلت میں کیا جانے والا عمل انسانی نفس پر زیادہ بھاری پڑتا ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو انسانی نفس پر بھاری ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی نیک عمل کو کرنے میں بہت سارے لوگ شامل ہوں تو اس عمل کا انجام دینا زيادہ آسان ہوجاتا ہے لیکن جب کسی نیک عمل کو کرنے والے بہت کم لوگ ہوں تو پھر وہی عمل ادا کرنے والے کے لیے مشکل ہوجاتا ہے اور مشکل اوقات میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جانے والا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
3۔ فتنوں کے وقت عبادت کا ثواب
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْعِبادَةُ في الهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إلَيَّ
(صحیح مسلم : 2984 ،وصحيح الترمذي : 2201)
ترجمہ: فتنہ و فساد کے وقت عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے مانند ہے ۔
یعنی فتنے کے دور میں لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں تو دین پر عمل پیرا ہونے والا شخص مشقت والے کام سر انجام دیتا رہتا ہے ۔
4۔ پچاس صحابہ کرام کے برابر اجر و ثواب
سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ مِن ورائِكم أيامَ الصَّبرِ ، لِلمُتَمَسِّكِ فيهنَّ يومئذٍ بما أنتم عليه أجرُ خمسين منكم ، قالوا ، يا نبيَّ اللهِ أو منهم ؟ قال ، بل منْكم
(السلسلة الصحيحة: 494)
ترجمہ: تمہارے بعد والا زمانہ صبر آزما ہو گا۔ اس وقت (حق کو) تھامنے والے کو تمہارے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ثواب ملے گا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے نبی(ﷺ) ! کیا ان میں سے (پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر) ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” بلکہ (اس کا اجر) تم میں سے (پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر) ہو گا۔“
فضیلۃ الأستاذ ڈاکٹر سليمان الرحيلی حفظہ الله فرماتے ہیں :
يكفي أن المتمسك بالسنة في آخر الزمان ، له أجر خمسين من الصحابة10
ترجمہ :سنت کے مقام و منزلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آخری زمانے میں سنت کو لازم پکڑنے والے کو پچاس صحابہ کے برابر اجر ملے گا۔”
5۔ پچاس شہیدوں کے برابر اجر و ثواب
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ ورائِكُم زمانُ صبرٍ ، لِلْمُتَمَسِّكِ فيه أجرُ خمسينَ شهيدًا منكم
(صحيح الجامع: 2234 )
ترجمہ: تمہارے بعد صبر کا دور آنے والا ہے۔ اس وقت دین پر کاربند رہنے والے کا اجر تم میں سے پچاس شہیدوں کے برابر ہو گا !”
6۔عذاب الہی کو دور کرنے کا ذریعہ
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
أن المفرد بالطاعة من أهل المعاصي والغفلة قد يدفع البلاء عن الناس كلهم، فكأنه يحميهم ويدافع عنهم11
ترجمہ : غافل اور معصیت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے درمیان عبادت میں مشغولیت ان لوگوں پر سے عذاب الہی کے ٹلنے کا سبب بنتا ہے۔
خلاصہ کلام
درج بالا باتوں سے معلوم ہوا کہ ماہِ شعبان ایمان کو مضبوط کرنے، استغفار کرنے اور رمضان کے با برکت مہینے کی تیاری کا مہینہ ہے۔ ماہِ شعبان انسانوں میں روحانیت اور اللہ تعالیٰ سے تقرب بڑھانے کا مہینہ ہے۔ روزہ اور نمازِ تہجد اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے لہذا ماہِ شعبان میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال بجا لانے چاہیے اور شعبان کے دنوں کو روزہ اور اس کی راتوں کو نمازتہجد اور تلاوت قرآن پاک کے لیے وقف کریں۔ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ فہمِ قرآن کا اہتمام کریں۔
ہمارا فریضہ
بحیثیت مسلمان ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ماہِ شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھیں۔ یہ نہ ہوسکے تو ماہِ شعبان کے نصف اوّل کے روزے رکھیں۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو ماہِ شعبان میں ایامِ بیض یعنی (13، 15،14 شعبان) کے روزے رکھنے کی کوشش کریں اور اتنا بھی نہ ہو سکے تو کم ازکم پیر یا جمعرات کے روزے تو رکھ لینا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں شعبان کی خوب قدر کرنے، زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ میں حصہ لینے اور ماہِ رمضان المبارک کی تیاری کرنے کی بھر پور توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔