لوگوں میں صلح کروانا، اور سانحہ پشاور کی مذمت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہی سب کا مالک، حق ، اور ہر چیز واضح کرنیوالا ہے، چاہے  مجرمین  کو اچھا نہ بھی لگے وہ اپنے کلمات کے ذریعے حق  کو غالب ، اور باطل کو مغلوب  کردیتا ہے ،  اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں  وہ یکتا ہے ، وہی اولین و آخرین سب کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اس کے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول  محمد ، آپ کی اولاد اور متقی صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے پسندیدہ اعمال  پر عمل اور حرام کردہ اعمال  سے دور رہ کر تقوی الہی اختیار کرو، متقی   تمام بھلائیوں  کے ساتھ با مراد  ، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد ہوں گے۔

مسلمانوں!

یہ بات سمجھ لو ! اللہ کے ہاں محبوب ترین چیز اپنی  اصلاح اور دوسروں میں مصالحت کروانا ہے، اپنی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ خود کو وحی کے مطابق بنایا جائے، جو کہ تزکیہ و طہارتِ نفس کا باعث ہے، اور دوسروں میں  مصالحت یہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی دِگر گوں صورت حال کو درست کیا جائے، یا دو افراد یا دو گروپوں کے درمیان شرعی تقاضوں کے مطابق خراب تعلقات کو درست کیا جائے، چنانچہ دوسروں میں مصالحت متنفر دلوں کو قریب  ، متصادم آراء میں ہم آہنگی، اور اصلاح  کی غرض سے ثواب کی امید کرتے ہوئے حکمت و بصیرت کے ساتھ واجب حقوق کی ادائیگی کرنے کا نام ہے۔

ناراض افراد  میں صلح کروانا  جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ، اور عام و خاص فتنوں  سے امان ،  اور ہر لحاظ سے مفید  ہے، اس  کے ذریعے شدید ضرر رساں اشیا  کا خاتمہ کیا جاتا سکتا ہے۔

اور مصالحت قائم کرنے سے شیطان کے لئے انسان  میں داخل ہونے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

فرد یا قوم  میں سے کسی کی تاریخ پرکھنے والا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ناراض افراد میں صلح نہ کروانے کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں نقصانات  کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا،  جبکہ باہمی صلح کی وجہ سے بہت سے نقصانات اور فتنے  دھول کی طرح اُڑگئے۔

بہت سے بڑے بڑے سانحے  چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں، اسی لئے ناراض لوگوں میں صلح کروانا اسلام کے عظیم مقاصد اور بہترین تعلیمات میں شامل ہے، فرمان باری تعالی ہے:

 فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

الانفال – 1

تم اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت  کرتے ہوئے آپس میں ناراض افراد  کی صلح کرواؤ۔

اور ناراض افراد میں صلح کروانے کی فضیلت  کے بارے میں نبی ﷺکا فرمان ہے: (کیا میں تمہیں [نفلی] نماز، روزہ، اور صدقہ سے بھی افضل درجات کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ ) تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟   تو آپ نے فرمایا: (ناراض لوگوں میں صلح کروانا، کیونکہ باہمی ناچاقی  ہی “حالقہ” ہے)ابو داود، اور ترمذی نے اسے صحیح کہتے ہوئے ابو درداء رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ : “حالقہ” سے مراد یہ نہیں کہ سر کے بال مونڈ دیتی ہے، بلکہ دین کا صفایا کر دیتی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے:

لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

النساء – 114

 ان کی بہت سی خفیہ باتوں میں کوئی خیر کی بات نہیں ہوتی، الّا کہ کوئی شخص صدقہ، نیکی، اور لوگوں کے مابین صلح کروانے کا حکم دے، جو شخص یہ کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرے گا، ہم جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازیں گے۔

ایسے ہی فرمایا :

وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ

الاعراف – 170

 اور جو لوگ کتاب پر مضبوطی سے کاربند ہوکر نمازیں قائم کرتے ہیں، [ان کا صلہ یہ ہے کہ ]بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کریں گے۔

ایک مقام پر فرمایا:

وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ

الاعراف – 142

 اصلاح کرو، اور فسادیوں کے راستے پر مت چلو۔

ایک جگہ اور فرمایا: 

يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

الاعراف – 35

 اے بنی آدم! اگر تمہارے پاس تمہی میں سے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کریں تو [ان کی بات سننے کے بعد]جس شخص نے تقوی اختیار کیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں  گے ۔

ایسے ہی فرمایا:

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

الانعام – 48

 اور ہم رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں، چنانچہ جو کوئی ایمان لے آیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔

میاں بیوی کے اختلافات  میں صلح ایسی بنیاد پر ہوگی جو دونوں کے حقوق کی ضامن ہو، فرمان الہی ہے:

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا

النساء – 35

 اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی  تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ،  اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا،  اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

اسی بارے میں یہ بھی فرمایا:

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ

النساء – 128

 اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اگر میاں بیوی آپس میں  سمجھوتہ کرلیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور صلح  بہرحال بہتر ہے۔

میاں بیوی کے درمیان صلح کی وجہ سے خاندان  کا وجود کٹنے پھٹنے سے محفوظ رہتا ہے، جس کی وجہ سے خاندانی  دیکھ بھال قائم رہتی ہے، اور میاں بیوی  کے تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں، اور اولاد کو  والدین کے متحد ہونے کی وجہ سے پر امن، اور مستحکم  تربیت گاہ میسر ہوتی ہے، ہر قسم کے انحراف سے محفوظ رہتے  ہوئے، والدین کی شفقت  حاصل کرتے ہیں اور اچھی تربیت پاتے ہیں۔

اور اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا  طول پکڑ جائے، اور کوئی صلح نہ کروائے تو خاندان سلامت نہیں رہتا، بچے بگڑ جاتے ہیں، اور طلاق کے بعد رشتہ داروں کے تعلقات میں دراڑیں پڑ جانے کی وجہ سے زندگی میں انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور میاں بیوی دونوں نقصان اٹھاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ: “شیطان  اپنے لشکروں کو کہتا ہے کہ: “آج تم میں سے کس نے مسلمان  کو گمراہ کیا ہے؟ میں اسے قریب کر کے تاج پہناؤں گا!  تو ایک آکر کہتا ہے کہ: “میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کر لی” تو شیطان کہتا ہے: “ہو سکتا  وہ صلح کر لے”  دوسرا  آکر کہتا ہے کہ: “میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے  چوری کر لی” تو شیطان کہتا ہے: “ممکن ہے وہ بھی توبہ کرلے” تیسرا آکر کہتا ہے کہ: “میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ وہ زنا کر بیٹھا” تو شیطان کہتا ہے: “ہوسکتا ہے یہ بھی توبہ کر لے” ایک اور آکر کہتا ہے کہ: “میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے  اپنی بیوی کو طلاق ہی دے دی”  تو اب کی بار ابلیس کہتا ہے کہ : “توں ہے تا ج کا مستحق!!” تو اسے اپنے قریب کرکے  تاج پہناتا ہے”مسلم

مصالحت  آپس میں ناراض رشتہ داروں کے درمیان بھی ضروری ہے، تاکہ صلہ رحمی قائم دائم رہے، اور قطع تعلقی  نہ ہو، کیونکہ صلہ رحمی باعث خیر و برکت ، اور جنت میں داخلے کا سبب ہے، اس کی وجہ سے دینی، دنیاوی بھلائیاں اور عمر میں برکت  حاصل ہوتی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (رشتہ داری عرش سے چمٹ کر کہتی ہے: جو مجھے جوڑے  گا اللہ اسے جوڑ دےگا، اور جو مجھے توڑے گا اللہ اسے توڑ دے گا)بخاری و مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:  (جو شخص  یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے رزق میں فراخی اور عمر میں درازی فرمائے تو وہ صلہ رحمی کرے)بخاری

عمرو بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (رشتہ داری جوڑنا مالی ثروت، خاندانی محبت، اور عمر میں طوالت کا باعث ہے)طبرانی، یہ حدیث صحیح ہے۔

بالکل اس کے برعکس  قطع رحمی، دنیا و آخرت میں بد بختی اور شر کا باعث ہے، چنانچہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺنےفرمایا:( قطع رحمی کرنے والا شخص جنت میں نہیں جائے گا) بخاری و مسلم

ابو بکرہ  رضی اللہ عنہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بغاوت اور قطع رحمی  سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جسکی سزا دنیا میں اللہ کی طرف سے جلد از جلد دی جاسکتی ہو،  اور آخرت  میں بھی اس کے بدلے میں عذاب ہو )ابو داود، اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔

اس لئے آپس میں ناراض رشتہ داروں کے درمیان صلح کراونا عظیم نیکیوں میں سے ہے۔

مصالحت پڑوسی کے ساتھ بھی ضروری ہے تا کہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ پڑوسی کا  حق ادا ہوسکے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: (مجھے جبریل اتنی دیر تک پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث بھی بنائے گا)بخاری  و مسلم

دو آپس میں لڑنے والے مسلمانوں کے درمیان بھی صلح کروائی جائے، فرمان الہی ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

الحجرات – 10

 بلاشبہ مؤمن آپس میں بھائی ، بھائی ہیں، تو تم اپنے بھائیوں کے مابین صلح کرواؤ، اور اللہ سے ڈرو، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

اے مسلم!

لوگوں کے مابین مصالحت  مت ترک کرنا، اس میں بہت ہی خیر ہے، چنانچہ آپ ﷺاپنے صحابہ کرام کے درمیان صلح کروایا کرتے تھے، اور اس کام کے لئے صحابہ کرام، اور ان کے بعد تابعین عظام نے بھی اپنا کردار ادا کیا، اس بارے  میں ان کے بے شمار فرمودات  ہیں۔

اور حدیث نبوی میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: (لوگو! مسلمانوں کے درمیان مصالحت قائم کرو، بیشک اللہ تعالی مسلمانوں میں صلح کرواتا ہے) اور مسلمان اس دور میں صلح کروانے والے افراد کی کمی کے باعث   مایوس  ہیں، جبکہ بہت سے مسلمان معاشرے میں اس کام سے بیزار نظر آتے ہیں۔

اے مسلم!

تمہیں خلوص نیت، ثواب کی امید، اور اسباب اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، پھر ان کے نتائج اللہ تعالی  کے سپرد ہیں، اور اللہ تعالی نے تمہیں  اس کام پر ثواب کا وعدہ دے دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ

الجاثیة – 15

 جو بھی اچھا کام کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا، اور جو بھی برائی کرے گا وہ اسی پر ہوگی، پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین  ﷺکی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے،  میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفات اللہ کے لئے ہیں، تمام تعریفیں آسمان و زمین کو پید اکرنے والے اللہ کے لئے ہیں، وہی حمد کا مستحق ہے، اسی نے نیکیاں کرنے کا حکم دیا،  اسی نے  سرکشی، زیادتی، اور گناہوں سے منع فرمایا، میں اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں  کہ اس نے ہم پر اور سب مخلوقات پر اپنی نعمتیں نچھاور فرمائیں،   اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور  یکتا ہے ، وہی اولین و آخرین سب کا معبود ہے، اس سے کوئی بات، عمل، اور اردہ مخفی نہیں رہ سکتا ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سربراہ محمد اس کے  بندے اور رسول ہیں ،آپ کو اللہ تعالی نے نشانیاں دے کر مبعوث فرمایا،  یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، آپ کی آل، اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو  اور اسی کی اطاعت کرو، ہمیشہ گناہوں و معصیت سے بچ کر رہو،کیونکہ اللہ تعالی کی پکڑ بہت سخت ہے۔

اللہ کے بندوں!

لوگوں پر  اللہ کی طرف سے حجت قائم ہو چکی ہے،  کہ خود اللہ تعالی نے صلح کروانے والوں پر احسان کرتے ہوئے دنیا و آخرت میں ملنے والا ثواب بیان فرما دیا ، اور فسادیوں  کو سزا دینے کے لئے دنیاوی رسوائی، اور آخرت  میں ان کے منتظر عذاب کے بارے میں بتلا دیا۔

جس طرح اللہ تعالی اصلاح اور مصالحت  کو پسند فرما کر  دنیا و آخرت میں ناقابل بیان حد تک اجر و ثواب سے نوازے گا، اسی طرح اللہ تعالی  فساداور فسادیوں کو بھی ناپسند فرماتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

القصص – 77

زمین میں فساد مت تلاش کرو، بیشک اللہ تعالی فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا۔

اسی طرح فرمایا:

 وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

الاعراف – 85

اور زمین پر اصلاح کے بعد فساد مت پھیلاؤ، اگر تم مؤمن ہو تو یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔

اسی طرح فرمایا:

 وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ

البقرة – 205

اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔

ایک جگہ فرمایا:

 وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ

الاعراف – 142

  فسادیوں کے راستے پر مت چلو۔

انسانی جانوں کے قتل کے بعد کونسا فساد شرک کے بعد سنگین ہوسکتا ہے؟!! اللہ تعالی نے معصوم جانوں کا قتل حرام قرار دیا ہے،  پاکستان کے شہر پشاور میں رونما ہونے والے سانحہ  میں بہت سے معصوم بچوں  سمیت   120 جانوں کا قتل ایک ایسا سنگین جرم ہے جو سنگلاخ پہاڑ بھی نہیں کر سکتے،  یہ قتل عام مجرم قاتلوں  کے ہاتھوں ہوا، یہی فسادی لوگ ہیں،  یہی دہشتگرد اور رسوا ہونے والے لوگ ہیں،  یہ شریر انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔

بہت سے لوگ عام معاشروں میں  عموما ، اور مسلم معاشروں میں خصوصا    اس قسم کے دہشت گردی ، اور المناک جرائم سے متاثر ہیں ،  یہ سانحہ المناک سانحہ ہے، یہ دہشت گردی اور مجرمانہ فعل ہے،  اس سانحے میں بہت سے سنگین گناہوں کا ارتکاب کیا گیا ،  اس ملک کے تمام ذمہ داران ، علمائے کرام، اور عوام الناس اس  سنگین جرم کی انتہائی پر زور مذمت ، کرتے ہیں، اور ساتھ میں اس قسم کے جرائم کو ختم کرنے کے لئے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مطالبہ کرتے ہیں، تا کہ دوبارہ اس قسم کا اندوہناک سانحہ پیش نہ آئے، یہ کام تو ابلیس خود بھی نہیں کر سکا،  اس لئے علمائے کرام پر ضروری ہے کہ درندگی پر مبنی ایسے اعمال سے  لوگوں کو خبردار کریں،  ایسے ہی کاموں سے اسلام کی روشن صورت کو بگاڑا گیا،  اور اسلام سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے،  کیونکہ اسلام رحمت، سلامتی، بھلائی، اور عدل و انصاف کا دین ہے، اسلامی نصوص بھی اسی بات کا پرچار کرتی ہیں، اور تاریخ بھی اسی بات کی گواہی دیتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا

المائدة – 32

 اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے (تورات میں) لکھ دیا تھا کہ ”جس شخص نے کسی دوسرے شخص کو قتلِ قصاص کے بغیر ، یا زمین میں فساد بپا کرنے کی غرض سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو ہی مار ڈالا اور جس نے کسی کو (قتل ناحق سے) بچا لیا تو وہ گویا سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا”۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (جن کو اللہ تعالی نے نیکیوں کے لئے دروازہ ، اور برائی کے لئے روکنے کا سبب بنایا ان کے کے لئے خوشخبری ہے، اور جن کو اللہ تعالی نے برائیوں کے لئے دروازہ ، اور نیکیوں کے لئے روکنے کا سبب بنایا ان کے کے لئے ہلاکت ہے)یہ حدیث صحیح ہے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اللہ کےبندوں!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔

اور آپ ﷺکا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم وبارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد وسلم تسليما كثيرا

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی  سے راضی ہوجا،  تابعین کرام اور قیامت تک ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! ان کے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا رب! ہمارے  گناہوں کو معاف فرما دے، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کوئی کینہ مت  پیدا فرما،  یا اللہ! ہمیں اور ہم سے پہلے ایمان میں سبقت لے جانے والے بھائیوں کو بخش دے، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کوئی کینہ مت  پیدا فرما، اے پروردگار! تو ہی بخشنے والا، اور نرمی و رحم کرنے والا ہے۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما،  یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما،  یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما دے،یا رب العالمین!

یا اللہ! اپنے قرآن، اور سنت نبوی کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اپنے دین، قرآن، اور سنت نبوی کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما، یا قوی! یا عزیز! یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمیں اپنی اطاعت میں مشغول فرما، اور ہمیں تیری نافرمانی سے دور فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا اللہ! مسلمانوں کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمیں حق بات اچھی طرح  دکھا دے، اور پھر اتباعِ حق  کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل بات اچھی طرح  دکھا دے، اور پھر باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ، ہمارے لئے باطل کے بارے میں ابہام مت رکھنا ، کہ کہیں گمراہ نہ ہوجائیں، یا ذالجلال والاکرام!

یا اللہ! مہنگائی،  وبائی امراض، زنا، زلزلے، آزمائشیں ، ظاہری و باطنی فتنے  سب سے ہمیں محفوظ فرما،  یا اللہ!اپنی رحمت کے صدقے ،  مہنگائی،  وبائی امراض، زنا، زلزلے، آزمائشیں ، ظاہری و باطنی فتنے  سب سے ہمیں محفوظ فرما،  یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! مسلمان مقروض لوگوں سے قرضے چکا دے، یا اللہ! مسلمان قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! زمین پر فساد و بغاوت کرنے والے جادو گروں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما،  یااللہ! سب مسلمانوں ، اور ان کی اولاد کو جادو گروں کے شر سے محفوظ فرما،  بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! ان کی مکاریاں بھسم فرما دے، یا اللہ! ان کی مکاریاں بھسم فرما دے،یا اللہ! تجھے تیری عزت، کبرائی، اور عظمت کا واسطہ! یا اللہ! ان کی مکاریاں انہی کے خلاف بنا دے۔

یا اللہ! ہمارے ملک کی ہر شر و مصیبت سے حفاظت فرما۔

یا اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی اپنی مرضی کے مطابق  راہنمائی  فرما، اور اس کے تمام اعمال اپنی رضا کے لئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے،  اور اپنے دین کو اس کے ذریعے غالب فرما، یا اللہ! انہیں ہر خیر کے کام کی توفیق عطا فرما، اس کے دونوں ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور انکی اپنی مرضی کے مطابق راہنمائی فرما، اور انہیں اسلام و مسلمانوں کے لئے سود مند کام کرنے کی توفیق دے،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ایک لمحے یا اس سے بھی کم وقت کے لئے تنہا مت چھوڑنا۔

یا اللہ! ہمارے تمام معاملات درست فرما دے ، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ یا اللہ! ہم اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں،یا اللہ! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

النحل – 90/91

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ

آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین