کچھ ایسا کیجیئے کہ اللہ مسکرادے!

ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیااورکہا: میرابھوک سے براحال ہے، آپ ﷺ نےاپنی بیویوں کےپاس پیغام بھیج کرمعلوم کروایاکہ کھانے کےلیے کچھ ہے ؟جواب آیا قسم ہے آپ کوبرحق رسول بناکربھیجنےوالے کی! گھر میں پانی کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ہے دوسری بیوی سےمعلوم کرواکربھی یہی جواب ملا، ایک ایک کرکے سب بیویوں کایہی جواب آیاکہ پانی کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا کہ آج رات کون اس آدمی کی مہمان نوازی کریگا اللہ اس پررحم فرمائے؟ ایک انصاری صحابی نے کہاکہ اے اللہ کےرسول ﷺ میں اس کام کےلیے تیارہوں اور اس مہمان کو لے کر گھر چلےگئے۔ بیوی سے پوچھاکہ کھانے میں کچھ ہے؟بیوی کاجواب آیا صرف ہمارے بچوں کے لیے ہی کھاناہے۔صحابی نےکہاکہ بچوں کاکسی چیز سے دل بہلا کر سلادو اورجب مہمان کھانےکےلیے آئےتوروشنی کےلیے جلے ہوئے چراغ کوٹھیک کرنےکے بہانےبجھادینا۔اورہم اس کےسامنے اس طرح ظاہرکرینگے کہ ہم بھی کھاناکھارہے ہیں۔ جب مہمان کھانے کے لیے آیا بیوی نےچراغ کوبجھا دیا،سب کھانےکےلیےبیٹھ گئے۔مہمان نےاندھیرےمیں کھاناکھایا، میاں بیوی ایسے ظاہر کرتے رہے جیسے وہ بھی کھا رہے ہوں جبکہ وہ رات بھرخود بھوکےرہے صبح نبی ﷺ کےپاس جب پہنچے آپ ﷺ نےفرمایا کہ رات تم دونوں میاں بیوی کے اس عمل کودیکھ کراللہ تعالیٰ مسکرادیا۔[2]

اور اللہ تعالیٰ کایہ فرمان:

وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ

الحشر – 9

بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو۔

اس واقعہ کی عکاسی کرتا ہے۔

قارئین کرام! اس واقعہ میں مذکورکام ہے توبہت سادہ اورآسان لیکن اصل اہمیت اسی کام کی ہوتی ہے جواللہ کی خوشنودی کاسبب بنے۔ اس واقعہ کوپڑھ کر ہمیں کچھ باتیں سمجھنی چاہئیں۔

اللہ کے نزدیک عمل کی حیثیت اخلاص اوررضائے الٰہی کی امید سے ہوتی ہے ۔چاہے وہ عمل دنیاکی نظرمیں معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ دونوں میاں بیوی اندھیرےمیں ایک ایساکام کرتےہیں جس کادنیامیں کسی کوبھی علم نہیں لیکن اس عمل پراللہ نےمسکراکراپنی رضامندی ظاہر کی اوراس کی اطلاع اپنےنبی کےذریعہ پوری امت کودی۔

مہمان نوازی ہم بھی کرتےہیں بلکہ مہمانوں کےلیے کھانے کااہتمام اپنی مثال آپ ہوتاہے لیکن ذراسوچناچاہیےکہ کیاہماری اس دعوت کےبعد اللہ مسکرائے گا۔ کبھی اللہ کی رضاانسان چھوٹی چھوٹی چیزوں سےحاصل کرسکتاہے۔

جیساکہ ایک حدیث میں یہ بھی تذکرہ ملتاہے کہ ایک آدمی نے چلتےچلتےراستہ میں پڑےہوئے کانٹےیاٹہنی کوپاؤں کی ٹھوکرسےسائڈ پرکر دیا فشکراللہ لہ وغفرلہ‘اللہ نےاس بندہ کےاس عمل کی قدرکرتےہوئے اسےمعاف کردیا۔[3]

اس واقعہ سے نبی ﷺ کی سادہ زندگی کاعجیب منظرسامنے آیا کہ آپ نےدنیااورمال ومتاع کی فکرنہیں کی اسی لیے آپ کےگھرمیں کئی کئی دن فاقے بھی ہوتے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہااپنےبھانجےعروہ سے فرماتی ہیں کہ کئی کئی مہینوں تک نبی ﷺ کے گھروں میں چولہاتک نہ جلتاتھاعروہ نے پوچھا پھر گزاراکیسےہوتاتھاجواب دیا:

الأسودان التمروالماء

 پانی اورکھجورپرگزاراکرتےالبتہ کبھی کبھی نبی ﷺ کے انصاری پڑوسی اپنی بکریوں کادودھ بھیج دیاکرتےتووہ ہم پی لیتےتھے۔[4]

اس واقعہ سے یہ بھی درس ملتاہے کہ انسان کےاندرجب تک دوسروں کااحساس ہے وہ اللہ کے ہاں بھی کامیاب ہے ۔اوردوسروں کی ضرورتوں کواپنی ضرورت سے زیادہ اہمیت دےکرپوراکرنےکی کوشش کرنےسےاللہ ہماری ضرورتوں کوخود پوراکرتاہے۔چنانچہ فرمان نبوی ﷺ ہے:

من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنیا نفس اللہ عنه کربة من کرب یوم القیامة ومن یسرعلی معسریسراللہ علیه فی الدنیا والآخرۃ

ترجمہ: ’’جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ۔‘‘[5]

لہٰذا انسان دنیاوی معاملات میں دوسروں کی ضروریات کو فوقیت دےجبکہ عبادت کےمعاملہ میں دوسروں سے آگے نکلنےکی کوشش کرے۔

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِۚ

البقرة – 148

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کانبی ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کاجذبہ ہی ان کی کامیابی کاراز تھاجس کی اقتداہم پربھی لازمی ہے ۔ جیسا کہ اس واقعہ میں مذکور ہے۔البتہ واقعہ میں بچوں کوبھوکاسلانے کے معاملے میں یہ بات یقینی ہے کہ بچوں کاپیٹ بھراہواتھا اور جوکھاناان کے لیے رکھاگیاتھاوہ بچوں کی اس عادت کوپوراکرنےکے لیےتھاجوبسااوقات وہ طلب کرتےہیں اس لیے کہ اگربچوں کوبغیرکھاناکھلائے بھوکا  سلایاجاتاتویہ عمل قابل تعریف نہیں تھا کیونکہ یہ ہرباپ کی ذمہ داری میں سے ہے اوریہ ذمہ داری مہمان نوازی پرمقدم ہے۔ اللہ تعالیٰ  اور نبیﷺ کاان دونوں میاں بیوی کی تعریف کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرچکے تھے۔

بیوی بچوں کےلیے کمانا اوران کے کھانےکابندوبست کرنابھی اجرکاباعث ہے آپ ﷺ نے اسے صدقہ سے تعبیرکیاہے۔اورجوشخص اس ذمہ داری کوادانہیں کرتااسے گناہ گار شمارکیاگیاہے۔آپ ﷺ کافرمان ہے:

کفی بالمرءإثماأن یضیع من یقوت

ترجمہ:’’ انسان اپنےزیرکفالت لوگوں کی کفالت پوری نہ کرے یہی اس کےگناہ کےلیے کافی ہے۔ ‘‘[6]

لہٰذا زندگی میں کوشش کریں کسی لمحہ کیا گیا کوئی عمل اللہ کی مسکراہٹ کا سبب بن جائےاور وہ ہماری کامیابی کا باعث ہو جیسا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔


[2] صحیح مسلم : باب إکرام الضیف وفضل إیثارہ

[3] صحیح البخاری ،کتاب المظالم والغصب،باب من أخذ الغصن  ومایوذی الناس فی الطریق فرمی بہ:حدیث2472

[4] صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب کیف کان عیش النبی ﷺ وأصحابہ وتخلیھم من الدنیا

[5] صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلیٰ الذکر،حدیث:2699[6] سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ،باب فی صلۃ الرحم(حدیث حسن)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ عبداللہ شمیم حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، بعد ازاں اسی ادارہ میں بحیثیت مدرس خدمات دین میں مصروف ہیں، آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں سینئر ریسرچ اسکالر اور الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ میں بحیثیت مدرس کام کررہے ہیں۔