آج کل ہمارے ہاں (investment) سرمایہ کاری کا ایک بڑا رجحان ہے، مختلف کاروبار کے اندرسرمایہ کاری کی جاتی ہے، بہت سے لوگ پراپرٹی کے کام میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، بہت سے لوگ امپورٹ، ایکسپورٹ(Import and Export) میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، اسی طریقے سے دکانوں پر، فیکٹریز کے اندر، بہت ساری مالزکے اندر یا مختلف کاروبار ہیں جس میں مختلف طریقوں سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
ہمارے سوسائٹی کے اندر سرمایہ کاری کے تعلق سے ایک عام تاثر یہ پایا جاتاہے کہ یہ ایک سلیپنگ پارٹنرSleeping Partner ہے اور ایک ورکنگ پارٹنر ہے۔ جو سلیپنگ پارٹنر ہے اصل میں انویسٹر ہوتا ہے جو انویسٹ کرتا ہے اورجو ورکنگ پارٹنر Working Partner ہے اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کام کرے اور کاروبار کرے اور پھر اس کے اوپر منافع کمائے اور پھر وہ منافع سلیپنگ پارٹنر اور ورکنگ پارٹنر کے درمیان تقسیم ہو جاتا ہے۔
سرمایہ کاری کی چند غلطیاں
سرمایہ کاری ایک سادہ سی چیز ہے،اورسرمایہ کاری کا ایک طریقہ کار ہے ۔ایک ذریعہ آمدن بہت سارے لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن اس میں کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ مکمل سرمایہ کاری حرام ہو جاتی ہے بہت سارے لوگ سرمایہ کاری کر رہے ہوتے ہیں لیکن سرمایہ کاری سے متعلق دین کا علم موجود نہیں ہے اس کی وجہ سے وہ سرمایہ کاری یا وہ سورس آف انکم ہمارے لیے حرام ہو جاتی ہے اور ان چیزوں کو یاان شرائط کو لاگو نہ کرنے کی وجہ سے بسا اوقات ہمارے درمیان بہت اختلاف بھی پیدا ہو جاتا ہے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرمایہ کاری کا طریقہ کار کیا ہے اور شریعت نے کونسی سرمایہ کاری کی اجازت دی ہے اورسرمایہ کاری کے اندر منافع کا مارجن یا شرح کیسے طے کیا جائے گا ؟تو شریعت کے اندر سرمایہ کاری کے تعلق سے ایک اصول موجود ہے ، چنانچہ شرعی صول کی روشنی میں آپ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کے اندر بھی بہت سارے ایسے واقعات موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نےسرمایہ کاری کی ہے۔ اس کو ہم مضاربہ اور مشارکۃ بھی کہتے ہیں۔
مضاربہ اور مشارکۃ کی تعریف
مضاربہ اصل میں وہ سرمایہ کاری ہوتی ہے کہ جس میں ایک سلیپنگ پارٹنر اور ایک ورکنگ پارٹنر ہوتا ہے اور مشارکہ ایک ایسا موڈ آف پارٹنرشپ ہے کہ اس کے اندر دونوں ورکنگ بھی ہوتے ہیں اور دونوں انویسٹر بھی ہوتے ہیں نبی اکرمﷺ نے دونوں طریقے سےسرمایہ کاری فرمائی ہے۔ اسی طریقے سے صحابہ کرام میں جناب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور بہت سارے صحابہ کرام یہ سرمایہ کاری کیا کرتے تھے۔
سرمایہ کاری کا بنیادی اصول
سرمایہ کاری کے تعلق سے شریعت کے اندراصول یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ چیز دیکھنا ضروری ہے کہ جس کام میں یا جس کاروبار میں ہم انویسٹمینٹ کر رہے ہیں وہ کاروبارحلال ہے یا حرام؟۔ مثلا ہم شیئرز کے کام میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یا ہم کسی اور کاروبار میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ،ان پورٹ یاایکسپورٹ میں کر رہے ہیں، یا آئی ٹی سی یاجو بھی کاروبار ہم کر رہے ہوں، ہمارے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ کاروبار حلال ہے یا حرام۔
تو سب سے پہلا اصول یہی ہے جو تقریباً عام مسلمان کے علم میں ہوتا ہے کہ یہ کاروبار جائز ہے یا نا جائز ہے؟ تو اس کو دیکھ کر طے کیا جا سکتا ہے کہ کی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ اگر کاروبار حلال ہے تو سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے ۔ اور اگر کاروبار حلال نہیں ہے تو بحیثیت مسلمان ہم اس کاروبار میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔
دوسری اہم چیز ہے جس میں بہت سارے لوگ غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آپ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس کے اندر نفع و نقصان کی شیئرنگ ہیں اس کے تعلق سے کچھ کنڈیشنز ہیں جن کا خیال کرنا ضروری ہے۔
منافع کے تعلق سے چندغلط فہمیاں
ہمارے سوسائٹی میں بہت سارے انویسٹرز کو منافع کے تعلق سے ایک غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ منافع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ منافع ہم نے طے کرنا ہےجبکہ سرمایہ کاری کے لحاظ سے یہ ضروری نہیں ہے۔
اگر سرمایہ کاری یا کسی کاروبار میں دو پارٹنر ہیں۔ ایک پارٹنر کی سرمایہ کاری 30 فیصد ہے اور دوسرے پارٹنر کی سرمایہ کاری 70 فیصد ہے تو منافع کی شیئرنگ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ آپ کی سرمایہ کاری کے لحاظ سے ہو۔30 فیصد والا پارٹنر50 فیصد بھی منافع لے سکتا ہے، 60 فیصد بھی لے سکتا ہے اور 70 فیصد بھی لے سکتا ہے۔ 70 فیصد والا پارٹنر10فیصد، 20 فیصد، 30 فیصد منافع لے سکتا ہے۔ تو منافع شیئرنگ باہمی رضامندی کے اوپر ہوتی ہے۔ جو پارٹیز پارٹنر آپس میں طے کر لیتے ہیں اس کے اوپر وہ اپنا منافع شیئرنگ کر سکتے ہیں۔ لیکن منافع شیئرنگ میں یہ بات زہن نشین رکھیں کہ منافع طے کرتے ہوئے کبھی بھی آپ نے رقم خاص نہیں کرنی ہے۔ مثال کے طور پر میں دو لاکھ روپے انویسٹ کر رہا ہوں اور مجھے آپ نے ماہانہ پانچ ہزار روپے منافع دینا ہے تواس طرح آپ رقم طے نہیں کر سکتے ہیں۔ بلکہ جو بھی پارٹنر ہے وہ اب اس میں جو منافع طے کریں گے وہ فیصدیج میں طے کریں گے۔ ایک شئیر ان کا بنے گا اس شیئر کے حساب سے وہ اپنی فیصدیج طے کریں گے۔
منافع کا مطلب کیا ہے؟
منافع کا مطلب یہ ہے کہ کیپیٹل اماؤنٹ کے اوپر جو بھی آپ کو مل رہا ہے وہ منافع ہے۔خواہ وہ ایک روپے مل رہا ہو، یادس روپے مل رہا ہو، یالاکھ روپے مل رہا ہو، یا کرور روپے مل رہا ہو۔ وہی آپ کا منافع ہے۔
منافع کا طریقہ
اس منافع شیئرنگ کے اندر آپ کو فیصدکے لحاظ سے منافع ملے گا ۔اگر آپ کا 10 فیصد ہے اور لاکھ روپے کا منافع ہوا تودس ہزار روپے آپ کے پاس آئے گا ۔ اوراگربیس فیصد ہے تو اس کے حساب سے آپ کو منافع مل جائے گا۔
منافع کے تعلق سے دوسری غلط فہمی
منافع کے تعلق سے دوسری غلط فہمی ہمارے ہاں یہ ہے کہ منافع کی جو فیصدیا شرح طے کی جاتی ہے اس کوسرمایہ کاری کے ساتھ لنک کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہوں اور مجھے 2 فیصد منافع چاہیے ۔ 2فیصد میننگ کے 2 فیصد مجھے ایک کروڑ روپے کا چاہیے ۔ یعنی مجھے دو لاکھ روپے کا منافع چاہیے. یہ غلط ہے۔
منافع کی فیصد اورشرح طے ہوتی ہے منافع کے حساب سے یعنی میں نے اور کسی اور پارٹنر نے مل کے کاروبار کیا اس میں سے ہمیں جو بھی پروفٹ ہوگا اس کی فیصدیج ہمیں ملے گی۔
مثلاً میری سرمایہ کاری چاہے ایک کروڑ روپے کی ہے یا10 لاکھ روپے کی ہے لیکن اگر منافع ایک لاکھ روپے کا ہوا ہے تو میں اس میں سےبیس فیصد، یا تیس فیصد جو بھی میرے اپنے پارٹنر کے ساتھ میوچل انڈر اسٹینڈنگ ہے وہ میں اس میں سے وصول کروں گا ۔ یعنی اپنی انوسٹمنٹ کے لحاظ سے میں فیصدیج طے نہیں کروں گا ۔کہ میری سرمایہ کاری کا دو فیصدآپ مجھے منافع دیں گے ۔ یہ غلط ہے ۔ لہٰذا منافع کے حوالے سے یہ چیز ہمارے ذہن میں ہونی چاہئے۔
منافع کے تعلق سے تیسری غلط فہمی
اور اسی طریقہ سے ایک اور بڑی غلطی جو ہماری سرمایہ کاری کے اندر موجود ہے جس کی وجہ سے ہمارامنافع انٹرسٹ میں چینج ہو جاتا ہے ۔یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کی وجہ سے ہمارا سارا منافع سود بن جاتا ہے۔ وہ اس طرح ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر میں نےسرمایہ کاری کی اور میں نے یہ طے کیا کہ آپ نے مجھے میری سرمایہ کاری کا منافع دینا ہے ۔ اور ایک سال کے بعد آپ نے میری سرمایہ کاری واپس کر دینی ہے۔ اس میں لوس بیرنگ کا یا لوس شیئرنگ کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہے کہ اگر نقصان ہوگا تو کس کا ہوگا ؟یہ نقصان طے نہیں کیا جاتا تو نقصان کے حوالے سے جو شریعت کا اصول ہے، جس کے بارے میں دین اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ نقصان آپ کی سرمایہ کاری پر ہے ۔ مثلاً اگر میری 50 فیصد کی سرمایہ کاری ہے تو جتنا لوس ہو گا اتنے لوس کے اندر میں نے ففٹی فیصد کی شیئرنگ کرنی ہے۔ پچاس فیصد کا لوس بیر میں نے کرنا ہے ۔ اور اگر میری سرمایہ کاری 100 فیصد ہے تو پورا پورانقصان میں نے اٹھانا ہے۔ اور ورکنگ پارٹنر کو میں نے لوس پہ شیئر نہیں کرنا ہے۔
ورکنگ پارٹنر نقصان میں کب شریک ہوگا؟
ہاں اگر ورکنگ پارٹنر کی غلطی ہے اس نے جو اس کے ساتھ شرائط طے ہوئی ہیں اس کے اندر اس نے کوتاہی کی ہے، غلطی کی ہے تو اس کو لوس میں شریک کیا جا سکتا ہے، ورنہ اگر قدرتی طور پر ایک نقصان ہو گیا ہے تو وہ نقصان انویسٹر نےاٹھانا ہے ۔ ورکنگ پارٹنر وہ نقصان نہیں اٹھائے گا۔ اگر ہم نے ورکنگ پارٹنر کے اوپر یہ بوجھ ڈال دیا کہ آپ نے بھی نقصان اٹھانا ہے تو یہ غلط ہو جائے گا۔
سرمایہ کاری اور بینک کے سود میں فرق
اور اگر میں نے اپنی انوسٹمنٹ کو سکیور کرلیا کہ آپ نے ایک سال کے بعد میرے پیسے مجھے لوٹا نے ہیں تو یہ تو سود ہو گیا۔کیونکہ ہم بینک کے اندر سیونگ اکاؤنٹ کے اندر اپنا پیسہ رکھتے ہیں اور ہم بینک سے یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہمارا پیسہ آپ کے پاس موجود۔ ہے ہمارا دس لاکھ روپے ہم نے ڈپوزٹ کرایا ہے بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کے اندر اس دس لاکھ روپے میں سے ایک روپیہ بھی کم نہیں ہو سکے گا اور اس کے اوپر بینک ہمیں ایک سال کے اندر منافع بھی دے گا تو یہی چیز انویسٹر یہاں پر بھی کر رہا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ورکنگ پارٹنر سے یہ کہہ رہا ہے کہ آپ نے مجھے ایک مہینے کے بعد یا دو مہینے کے بعد یا جو بھی TENURE فکس کیا جائے اس کے بعد آپ نے مجھے میرےسرمایہ کاری رٹن کرنی ہے اور پلس آپ نے مجھے اتنا پروفٹ دینا ہے تو اس میں اور بینک کے سود میں کیا فرق رہ گیا تو بنیادی فرق جو ہےسرمایہ کاری میں اور لون میں وہ یہی ہے کہ لون کے اندر نقصان نہیں ہو تا ہے آپ نے کسی کو قرضہ دیا آپ نے پورا کا پورا واپس لینا ہے تو جب آپ نے پورا کا پورا قرضہ واپس لینا ہے تو آپ اس کے اوپر منافع نہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺ کی حدیث ہے فرمایا کہ:
لا يحل بيع ما ليس عندك، ولا ربح ما لم يضمن1
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں۔
یعنی جس چیز کا آپ نقصان برداشت نہیں کر رہے ہیں اس کا آپ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے ہیں یہ بالکل واضح حدیث ہے تو اگر میں نے كسی سرمایه كاری كے اندر لوس شئیر نگ نہیں کی ہے تو میں اس کا منافع نہیں لے سکتا۔
منافع كب ملے گا؟
مجھے منافع اس وقت ملے گاجب میری کنڈیشن اس کے ساتھ یہ طے ہو جائے کہ اللہ نہ کرے اگر اس کاروبار کے اندر، اس بزنس کے اندر کوئی نقصان ہوتا ہے تو میں نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
نقصان کے حوالےسے ایک غلط فہمی
اور نقصان کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ اس کے حوالے سے بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کا منافع کم ہو جائے ، مثلاً آپ کو اگر10 فیصد منافع ہو رہا تھا اگر وہ پانچ فیصد پہ آگیا تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نقصان ہوگیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ،بلکہ لوس کا مطلب ہے کہ آپ کی کیپیٹل اماؤنٹ کم ہو جائے۔ مثلاً آپ نےایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کیا اورکیپیٹل اماؤنٹ ایک لاکھ سے 90 ہزار پے آ گیا تو یہ لوس ہے۔ لوس منافع میں کمی ہے۔ ایک روپیہ بھی منافع ہو گا تو وہ منافع ہی کہلائے گا اور اس پہ آپ نے جو پروفٹ فیصد طے کی ہے تو وہ آپ منافع کے اندر اسی حساب سے فیصد یج لیں گے ۔تو یہ سرمایہ کاری کے اندر ایک بنیادی چیز ہے جو کہ آج بہت سارےسرمایہ کاری کرنے والے لوگ اپنی کنڈیشنز کے اندر اس کو طے نہیں کرتے ۔ یا لوس شیئرنگ یا لوس بیرنگ کو واضح نہیں کرتے ہیں۔اور منافع کی جو فیصدیج طے کرتے ہیں وہ غلط طریقے سے طے کرتے ہیں۔
سرمایہ کاری میں سود کیسے پیدا ہوگا؟
انویسٹمینٹ کے اندر کبھی بھی آپ روپے طے نہیں کر سکتے کہ آپ نے مجھے منتھلی اتنے روپے دینے ہیں ورنہ یہ سود ہو جائے گا کیونکہ آپ کو کنفرم ہوگیا کہ اتنے تو مجھے ملنے ہی ملنے ہیں جب آپ فیصدیج میں طے کریں گے تو جتنا منافع ہو گا اتنا فیصد آپ کو مل جائے گا۔
لہذاایک تو ہم نے روپے طے نہیں کرنے ہیں اور دوسرا یہ ہے کہ اگراللہ نہ کرے کاروبار کے اندر لوس ہوتا ہے۔ تو وہ لوس انویسٹر اٹھائے گا۔ اور جو ورکنگ پارٹنر ہے وہ لوس نہیں اٹھائے گا اس چیز کو ہم نے کلیئر رکھنا ہے ۔تاکہ ہمارا منافع حلال ہوجائے اور ہمارا منافع بینک کے سود کی طرح کا حرام نہ ہو ۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حلال و حرام کو سمجھنے اور حلال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔