کلمہ توحید اسلام کی بنیاد

kalima toheed

پہلا خطبہ :

یقینا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد و ثنا بجالاتے ہیں، اسی سے مدد اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور اپنے نفس کی برائیوں اور برے اعمال سے اسی کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ہے ، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنھوں نے پیغام ربانی پہنچا دیا، امانت الہی کو ادا کر دیا، امت کی خیر خواہی فرمائی اور کماحقہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ انھیں موت آپہنچی۔

 اللہ تعالی رحمتیں نازل کرے آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر اور قیامت تک آپ ﷺ کی سنت و سیرت پر چلنے والوں پر۔

اما بعد !

بے شک سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے بری چیز دین میں نئی بدعات ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے۔

اللہ کے بندو! اوامر الہی بجالا کر تقوی الہی اختیار کرو، منع کردہ اور زجر و توبیخ والے تمام کاموں کے ارتکاب سے باز رہو۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اے لوگو! ذکرالہی تقرب کا افضل ترین ذریعہ، جلیل القدراطاعت، عظیم ترین عبادت اور باقی رہنے والے نیک اعمال میں سے ایک ہے۔ جس سے درجات بلند ہوتے ہیں، نیکیاں بڑھتی ہیں اور گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرًاعَظِيمًا

الاحزاب – 35

الله کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔

 اور دوسری جگہ ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۚ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلا

الاحزاب – 41/42

اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔

اور اللہ کے نزدیک سب سے عظیم اور پاکیزہ ذکر کلمہ توحید ہے۔ یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔ یہ کلمہ توحید اسلام کا شعار ہے، جو اہل شرک اور اہل ایمان کے درمیان فیصلہ وفرق کرتا ہے، جو جنت کی کنجی اور اس کا بھاؤ ہے۔ یہی کلمہ بندوں کو ان کے رب تک پہنچاتا ہے۔ مخلوقات کی تخلیق ، رسولوں کی بعثت ہوئی اور کتابوں کا نزول اسی توحید کے لیے ہی ہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ

النحل – 2

 وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے کہ خبر دار کر دو کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہذا مجھ سے ڈرو۔

اللہ کے بندو! کلمہ توحید اسلام کا قلعہ ہے۔ اسی سے انسان اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں۔ جو لوگ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں گے وہ مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے سوائے اس حق کے جو اسلام کی وجہ سے واجب ہوگا، باقی رہا، ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔ (متفق علیہ)۔

یہ اسلام کے پانچ ارکان اور ستونوں میں سے پہلا رکن اور ستون ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی ( بر حق ) معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، بیت (اللہ ) کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری و مسلم)۔

یہ سب سے پہلا فریضہ ہے جسے اللہ نے فرض کیا ہے، جس پر تمام آسمانی کتابوں کے علاوہ اللہ کے پیغمبر بھی متفق ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ

الانبیاء – 25

 اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف ہم یہی وحی کرتے رہے کہ “میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہذا صرف میری ہی عبادت کرو۔

اور دوسری جگہ فرمایا:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ

النحل – 36

ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا جو انھیں یہی دعوت دیتا رہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

 اللہ نے اس کلمہ توحید کی گواہی دی ہے اور اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔ (اس کے علاوہ) فرشتوں اور منتخب اہل علم نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الحكيمُ

آل عمران – 18

اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

اللہ کے بندو! سب سے عظیم چیز جس پر دل عزم وارادہ کرتا ہے ، جس کا انسان قصد کر کے اس کے مطابق عمل کرتا ہے، سب سے عظیم کلمہ جو زبان سے نکلتا ہے وہ ہے لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کی گواہی دینا۔ (یعنی: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں)۔

 یہ دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت و نجات اور کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ یہ اعمال کی قبولیت کی شرط ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پاکیزہ کلمہ ہے، سب سے عظیم عمل ہے ، سب سے افضل قول ہے اور آخرت میں سب سے زیادہ ثواب کا حامل ہو گا۔

طلحہ بن عبید اللہ بن کریز علی المیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے افضل دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے۔ اور سب سے افضل جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام نے کہا ”لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ “کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔“ (اسے امام مالک نے روایت کیا ہے)۔

عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کے نبی نوح علیہ السلام کی وفات کا جب وقت آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں، میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں۔ میں تمہیں (لاالہ الا اللہ کا حکم دیتا ہوں کیوں کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھے جائیں، اور ”لا الہ الا اللہ “ کو دوسرے پلڑے میں تو ”لا الہ الا اللہ والا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور اگر ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان ایک مضبوط دائرہ کی طرح بن جائیں تو ”لا الہ الا اللہ انہیں توڑ دے گا، اور میں تمہیں ”سبحان اللہ و بحمدہ ” کا حکم دیتا ہوں کیوں کہ یہ ہر مخلوق کی تسبیح ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔ میں تمہیں شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں۔ “ (اسے امام احمد نے روایت کیا ہے)۔

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” قیامت کے دن تمام مخلوقات کے سامنے میری اُمت کے ایک شخص کو آواز دی جائے گی، پھراللہ تعالیٰ اُس کے سامنے گناہوں کے ننانوے رجسٹر کھول دے گا، ہر رجسٹر کی لمبائی تاحد نگاہ ہو گی۔ پھراللہ تعالی فرمائے گا: کیا تو اس میں سے کسی (عمل) کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا؟ وہ عرض کرے گا: نہیں، اے میرے پروردگار! اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے، یا کوئی نیکی ہے؟ تو وہ مبہوت ہوجائے گا، اورعرض کرے گا: اے میرے رب! نہیں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: ہاں، ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے، آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔ پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمہ شہادت: (أَشْهَدُ أن لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ) لکھا ہوگا، اللہ تعالی فرمائے گا: اسے میزانِ عمل کے پاس حاضر کرو۔ وہ عرض کرے گا: اے اللہ! (گناہوں کے ) ان دفتروں کے سامنے اس چھوٹے سے کاغذ کی کیا حیثیت ہے؟ کہا جائے گا: آج تجھ پر ظلم نہیں ہو گا۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: پھرایک پلڑے میں (گناہوں کے) ننانوے رجسٹر رکھے جائیں گے اور دوسرے میں کاغذ کا وہ ٹکڑا رکھا جائے گا۔ رجسٹروں والا پلڑا ہلکا ہو جائے گا جبکہ کاغذ ( والا پلڑا) بھاری ہو گا۔ بے شک اللہ تعالی کے نام کے مقابلے میں کوئی دوسری چیز وزنی اور بھاری نہیں ہو سکتی۔“ (اسے امام احمد نے روایت کیا ہے)۔

میزان میں رکھے گئے اعمال میں سے سب سے بھاری ” لا الہ الاللہ “ ہو گا اور یہ ہی ایمان کا سب سے افضل شعبہ بھی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے سب سے افضل ”لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم یہ ہے کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادیا جائے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

اللہ کے بندو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو راحت ملتی ہے ، مصائب و مشکلات کے بادل چھٹتے ہیں اور معاصی و گناہ مٹتے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُ الْقُلُوبُ

الرعد – 28

جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ یادر کھو! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔

اللہ کا بکثرت ذکر کرو اور لا الہ الا اللہ پر ہمیشگی اختیار کرنے کی کوشش کرو؛ کیوں کہ یہ اللہ کے نزدیک سب سے پاکیزہ عمل ہے اور جو بھی خیر اور نیک عمل اللہ کو پیش کرو گے اسے اللہ کے پاس پاؤ گے۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص دن میں سو مر تبہ : ” لا الہ الا للہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وهو علی کل شیء قدیر”۔ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہت اسی کی ہے، حمد صرف اسی کو سزاوار ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ” کہے اس شخص کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ملتا ہے ، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اس کے سو گناہ مٹادیے جاتے ہیں اور یہ کلمات شام تک پورادن شیطان سے اس کی حفاظت کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور کوئی شخص اس سے زیادہ افضل عمل نہیں کر سکتا، سوائے اس شخص کے جو اس سے بھی زیادہ مرتبہ یہی عمل کرے۔“ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، کلمہ توحید کی کماحقہ قدر کرو، اس کی فضیلت کو جانو، اس کے نواقض یعنی اسے ختم کر دینے والے اعمال سے بچو تاکہ تمھیں دنیا و آخرت میں امن و امان مل جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ هُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

الانعام – 82

جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو اس کے شایان شان ہوں اور درود و سلام نازل ہوں نبیوں اور رسولوں میں سے اس کے منتخب کردہ رسول پر ، ان کے آل و اصحاب پر اور ان کے متبعین و محبین پر۔

اللہ کے بندو! انسان جتنے بھی اعمال سر انجام دیتا ہے ، ان میں سب سے زیادہ عذاب الہی سے بچانے والا عمل ذکر الہی ہے اور جس نے بھی اللہ کی رضا کی خاطر اخلاص کے ساتھ ”لا الہ الا اللہ “ کہا ہے وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا۔ عمر بن خطاب علی اللہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ” بے شک میں ایک کلمہ جانتا ہوں، اسے جو بھی انسان صدق دل سے کہتا ہے پھر اسی عقیدہ پر مرتا ہے تو اس پر اللہ تعالی جہنم کی آگ کو حرام کر دیتا ہے وہ ہے: ”لا الہ الا اللہ “ اور ایک روایت میں ہے: ”اللہ تعالی جہنم پر اس آدمی کو حرام کر دیتا ہے جولا الہ الا اللہ کہتا ہے“ (اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے)۔

اور انس بن مالک علی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہ دیا اور اس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی (ایمان) ہے تو وہ (ایک نہ ایک دن) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور اسی طرح دوزخ سے وہ شخص ( بھی ) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ ”لا الہ الا اللہ “ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانے کے برابر خیر موجود ہے اور دوزخ سے وہ (بھی) نکلے گا جس نے کلمہ ”لا الہ الا اللہ“ پڑھا اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی خیر ہے۔“ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

کلمہ “لا الہ الا اللہ “ دو چیزوں کا تقاضا کرتا ہے:۔

پہلی چیز: اس بات کا اقرار کہ اللہ ہی تن تنہا معبود ہے ، وہی اکیلا بے نیاز پروردگار ہے، ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا پروردگار ہے چنانچہ عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔

دوسری چیز: اللہ کے علاوہ تمام مخلوقات سے الوہیت اور بوبیت کی نفی وانکار، اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں اور اللہ کے سوا کوئی پروردگار نہیں۔

اے لوگو! قیامت کے دن سب سے زیادہ نصیبے والا وہ شخص ہو گا جو نبی اکرم ﷺ نام کی شفاعت سے سرفراز ہو گا، آپ ﷺ ہی سفارش کریں گے اور آپ ﷺ کی سفارش قبول ہو گی اور سفارش کیے جانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ آدمی ہو گا جو اخلاص ویقین کے ساتھ ا الہ الا اللہ کہا ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا “۔ (اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔

اللہ کے بندو! اس کے بعد (ذہن نشین کر لو کہ) کا یہ توحید سب سے بہترین خاتمہ ہے۔ ایک مومن کو اسی پر ہی اپنے اعمال اور زندگی کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے ، اپنے اہل و عیال کو اسی کلمے کے ساتھ الوداع کہنا چاہیے اور اس (قریب المرگ) کے آس پاس موجو دلوگوں کو چاہیے کہ وہ اسے اسی کلمے کی تلقین کریں تاکہ وہ اسی کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرسکے۔ جیسا کہ ابوسعید خدری ولی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” قریب المرگ لوگوں کو ”لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔“۔ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جس کا آخری کلام ”لا الہ الا اللہ “ ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا یا جنت اس کے لیے واجب ہو گی۔“ (اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے)۔

اے اللہ! ہمارا خاتمہ ہمارے سب سے بہترین عمل سے فرمانا، ہمارا سب سے اچھا دن اس دن کو بنادینا جس میں ہم تجھ سے ملاقات کریں گے اور دنیا سے جاتے ہوئے لا الہ الا اللہ کو ہمارا آخری کلام بنانا۔

اے اللہ! تواپنے ذکر، شکر اور حسن عبادت پر ہماری مدد فرما اور دنیاوی واخروی زندگی میں ثابت قدمی عطا فرما۔

 اے اللہ! تو ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنادے اور اسے ہمارے دلوں میں مزین کر دے، کفر کو ، فسق فجور اور نافرمانی کو ہماری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادے اور ہمیں رشد و ہدایت یافتہ بنادے۔

 اے دلوں کے پلٹنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔

 اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔

 اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد تو ہمارے دلوں کو کج رونہ بنا۔ اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔بے شک تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، فرزندانِ توحید کی مدد فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنادے۔

یا اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں امن وامان عطا فرما، ہمارے حکمرانوں اور ملکی قیادت کی اصلاح فرما۔

 اے اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو خصوصی توفیق سے نواز، ان کی خصوصی مدد فرما۔

 اے اللہ! تو انہیں صحت و عافیت عطا فرما ۔یارب العالمین۔

یا اللہ! تو انہیں اور ان کے نائب ولی عہد کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما اے دعاؤں کو سننے والے!۔

 اے ہمارے رب! ہم سے قبول کر، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے اور ہماری توبہ قبول فرما، بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔

اے اللہ! تو محمد ﷺ، ان کی آل اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر رحمتیں نازل فرما۔

خطبة الجمعة مسجدالنبويﷺ: فضیلة الشیخ ڈاکٹر عبداللہ البعیجان حفظه اللہ
11شعبان 1444 ھ بمطابق 03 مارچ 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمٰن بعیجان حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، آپ ایک بلند پایہ خطیب اور بڑی پیاری آواز کے مالک ہیں۔جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہیں۔