جود و سخا کے پیکر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

امامِ کائنات ﷺ دینِ اسلام کے مقدس پیغام کو لے کر اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ جن لوگوں نے آپ کی زندگی میں آپ کی دعوت کو قبول کیا اور وہ اسلام کی تائید و حمایت میں آپ کے معاون بنے تاریخ میں ان جلیلُ القدر ہستیوں کو صحابہ اکرام (رضی اللہ عنھم) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ عظیم لوگ ہیں جن کو رب العزت نے رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ کے خطاب سے نواز کر اپنی رضامندی کے سرٹیفکیٹ عطا فرمائے۔ ان میں سے ایک شخصیت تیسرے خلیفہِ راشد جود و سخا کے پیکر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں۔

آپ کا نام عثمان اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کے والدِ محترم کا نام عفان تھا۔ آپ کا تعلق قریش کی شاخ بنو امیہ سے تھا۔ آپ کا پیشہ تجارت تھا۔ امانت و دیانت سے کام لینے کی وجہ سے آپ ایک مال دار تاجر تھے۔ آپ کا خاندان قریش میں شرافت، سیادت اور نسب کے اعتبار سے ممتاز تھا۔آپ کا شمار جنابِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ جب سرورِ گرامی ﷺ نے دعوتِ اسلامیہ کا آغاز کیا تو آپ کی عمر مبارک چونتیس سال تھی۔

قبولِ اسلام کے بعد آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کی شادی آپ سے کی۔اور پھر ان کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہ کی شادی آپ سے کی۔ یوں آپ کو وہ اعزاز حاصل ہوا جو پوری اولادِ آدم میں کسی کو حاصل نہیں ہوا کہ کسی نبی کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے اس کے نکاح میں آئی ہوں۔ اس کے علاوہ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے دو مرتبہ اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ جب کفارِ مکہ کا تشدد حد سے بڑھا تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

 امام حاکم اپنی مستدرک میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی لائے ہیں: “عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت فرمائی”۔ اور پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ قدرت نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اوصافِ حمیدہ اور اعلی اخلاق سے نوازا تھا۔ آپ سیرت و کردار کے اعتبار سے مثالی شخصیت تھے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا وہ درسگاہِ محمدی اور پیغمبرِ اسلام کے فیض یافتہ تھے۔

یوں تو سارے یارانِ نبی ﷺ زہد و تقوی میں اپنی مثال آپ تھے لیکن ان کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ ہر وقت خوفِ باری تعالیٰ سے لرزاں رہتے تھے۔ جب آپ کے پاس قبر کا ذکر کیا جاتا تو زار و قطار رونے لگ جاتے کسی نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے قبر کے بارے میں سن کر اس لیے خوف آتا ہے کہ وہاں انسان بالکل تنہا ہوگ اور حشر کے باقی مراحل میں تو سب لوگ ساتھ ہوں گے۔

 اپنا زیادہ وقت عبادت میں گزارتے۔ اکثر اوقات روزے کی حالت میں رہتے اور کثرت سے کلامِ پاک کی تلاوت فرماتے۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے والہانہ لگاؤ تھا۔ ان کی اس بے پناہ عقیدت کا ہی ثمرہ تھا کہ آپ ﷺ نے اپنی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں دیں اور دوسری بیٹی کی وفات پر فرطِ محبت سے یوں گویا ہوئے: “اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں عثمان کے نکاح میں دیتا جاتا”۔

 آپ کا شمار مکہ کے ان افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا، پڑھنا جانتے تھے آپ حافظِ قرآن اور کاتبِ وحی تھے۔ راویِ حدیث، عظیم مجتہد اور علم و فضل میں منفرد و یگانہ مقام رکھتے تھے۔آپ شرم و حیا کے مجسم پیکر تھے۔


یہ بھی پڑھیں: سیرت ومناقب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ از مصادر شیعہ واہل السنہ


صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ میں ‏‏‏‏حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اس حال میں کہ آپ ﷺ کی دونوں رانیں یا دونوں پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی آپﷺنے ان کو اجازت دے دی اس حال میں کہ آپ اسی طرح لیٹے رہے پھر آپ باتیں کرتے رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی اس حال میں آپ اسی طرح لیٹے رہے اور باتیں کرتے رہے پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو رسول اللہﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے- راوی کہتا ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے- حضرت عثمان آ کر باتیں کرتے رہے جب وہ سب چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے ان کا کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ان کی کوئی پرواہ کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی اور جب حضرت عثمان آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑے درست کر لیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس آدمی سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔1

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اسلام کے لیے ہر مالی و جانی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔جب لوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مدینہ منورہ میں ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا جو کہ مسلمانوں کو پانی پینے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جناب عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا پیسہ خرچ کر کے وہ کنواں خریدا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے مسجدِ نبوی کے تنگ ہونے کا ذکر فرمایا تو آپ نے مسجدِ نبوی کے ساتھ والا مکان خرید کر مسجد میں شامل کر دیا۔ اسی طرح غزوات کے موقع پر دل کھول کر اپنی رقم اور مال و زر پیش کرتے۔ غزوہِ تبوک (جیش العسرہ) کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعاون کا فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار اونٹ، ان کے کجاوے، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار دینار اور دو سو اوقیہ چاندی پیش کی۔ اس پر نبی محترم ﷺ نے آپ کے مثالی کردار پر جنت کی ضمانت عطا فرمائی جس کا تذکرہ روایت میں یوں ملتا ہے: سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ جہاد (جیش العسرۃ) کی تیاری کر رہے تھے تو (سیدنا) عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی آستین میں ایک ہزار دینار لے آئے اور انھیں آپ ﷺ کی جھولی میں ڈال دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ انہیں جھولی میں الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے:

ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم2

آج کے بعد عثمان جو بھی عمل کریں انھیں نقصان نہیں ہو گا۔

 غزوہِ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔اپنی اہلیہ محترمہ بنتِ رسول ﷺ حضرت رقیہ کی علالت کی وجہ سے غزوہِ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إن لك أجر رجل ممن شھد بدراً وسھمه

تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا

بیعتِ رضوان کا عظیم واقعہ آپ کی وجہ سے پیش آیا جب آپ سفیرِ مصطفی ﷺ بن کر مکہ تشریف لے گئے اور جب آپ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو آپ کا قصاص لینے کے لیے ایک بیعت لی گئ جو سیرت و تاریخ میں بیعتِ رضوان کے نام سے معروف ہے۔ اور یہ وہ عظیم بیعت تھی جس پر خوشنودی کا اظہار خود رب کائنات نے لقد رضی اللہ عن المومنین ۔۔ کا ارشاد فرما کر کیا۔ اور اس بیعت کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بیعت کے دوران آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔

آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا:

ھٰذہ ید عثمان

(صحیح البخاری: 3699)

 یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ اور پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا: یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے جن چھ صحابہ کرام کی کمیٹی بنائی اور یہ نصیحت کی کہ ان میں سے کسی ایک کو اپنا خلیفہ بنا لیں۔ ان میں آپ بھی شامل تھے۔چنانچہ تمام لوگوں نے اپنی فہم و فراست سے سیدنا عثمان کو خلیفہ منتخب کر لیا۔ اور اس کی طرف خود نبی محترم نے بھی اشارہ فرمایا تھا جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے رسول اللہ ﷺ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ:

یا عثمان! إن اللہ عزوجل عسٰی أن یلبسک قمیصاً، فإن أرادك المنافقون علیٰ خلعه فلا تخلعه حتّی تلقاني3

اے عثمان! عنقریب اللہ عزوجل تجھے ایک قمیص (خلافت کی) پہنائے گا۔ پس اگر اسے اتارنے کے لئے تیرے پاس منافقین آ جائیں تو میری ملاقات (وفات و شہادت) تک اسے نہ اتارنا۔

آپ رضی اللہ عنہ کم و بیش بارہ سال منصبِ خلافت پر فائز رہے۔۔اگرچہ آپ کا دور شورشوں اور بغاوتوں کا دور تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں کو کئی فتوحات حاصل ہوئیں۔ مثلاً : فتحِ قبرص، فتحِ طرابلس اور فتحِ طبرستان وغیرہ۔ آپ ہی کے دور میں مسلمانوں کے دفاع کے لیے بحری بیڑے کی بنیاد رکھی گئی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ آپ کا دور فتنوں کا دور تھا جس کے کچھ اسباب تھے۔ اور ان کی پیشین گوئی خود نبی محترم ﷺ نے بھی فرمائی تھی: سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا:

افتح له وبشرہ بالجنة، علٰی بلویٰ تصیبه4

اس کے لئے دروازہ کھول دو اور جنت کی خوش خبری دے دو اور یہ (بھی بتا دو) کہ انھیں ایک مصیبت (اور آزمائش) پہنچے گی۔

تو میں نے انھیں (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو) بتا دیا۔ پھر (انھوں نے) اللہ کی حمد بیان کی اور کہا: اللہ المستعان، اللہ مددگار ہے۔

اس کے علاوہ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی آقائے دو جہاں ﷺ نے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم امین کو لازم پکڑ لینا وہ اس وقت ہدایت پر ہوں گے اور ان کا اشارہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔

اس کے علاوہ دیگر اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ عہدِ فاروقی میں حکومتی مناصب پر وہ کبار صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم تھے جنہوں نے دن رات شجرِ اسلام کی آبیاری کی۔ دورِ عثمانی میں کئی صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم وفات پا چکے تھے اور جو موجود تھے وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے حکومتی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک اور وجہ آپ کی نرم مزاجی تھی۔ آپ اپنے مخالفین کی کھلم کھلا سازشوں کے باوجود بھی ان پر گرفت نہ کرتے اور فتنہ و فساد کے باوجو بھی جنگ کی اجازت نہ دی اور اس کا سب سے بڑا سبب عبداللہ بن سبا کی سازشیں تھیں۔ یہ مجوسی شخص بظاہر تو مسلمان تھا۔در حقیقت یہ اسلام اور اہلِ اسلام کا بد ترین دشمن تھا۔ اس نے حضرت عثمان غنی کے خلاف اتنی کامیاب سازش کی کہ آپ کے عمال اس کا تدارک نہ کر سکے۔ اور اس کے ساتھی بلوائیوں نے حضرت عثمان کے ساتھ دشمنی کی انتہا اس وقت کی جب آپ مسجدِ نبوی میں خطبہ دینے لگے تو ایک بلوائی آگے بڑھا اور آپ کے ہاتھ سے وہ لاٹھی چھین کر توڑ دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے دونوں خلفاء کے پاس بھی رہی۔ آپ نے ابھی خطبہ مسنونہ پڑھا تو انھوں نے آپ پر پتھر برسائے پھر آپ گھر تشریف لائے اور انھوں نے آپ پر مسجدِ نبوی کا داخلہ بند کر دیا۔ آپ تک سامان خورد و نوش بھی پہنچنے نہیں دیا جاتا تھا۔ آپ گھر میں چالیس دن تک مقید رہے۔ چالیسویں دن بلوائیوں سے چھت پر چند سوالات کیے وہ کہنے لگے آپ کی باتیں درست ہیں لیکن تم ہمارے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے تھے۔ حضرت عثمان جب سے مقید تھے روزہ رکھتے تھے۔ مستدرک حاکم میں ایک روایت ہے:

 سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک صبح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے بیان کیا: بیشک گزشتہ رات میں نے خواب میں نبی ﷺ کو دیکھا ہے. آپ نے فرمایا : “عثمان! افطاری ہمارے ساتھ کرنا”۔

 چنانچہ اس روز سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا اور آپ کو روزے کی حالت میں شہید کر دیا گیا۔5

چالیسویں دن بلوائیوں سے مکالمہ کے بعد آپ قرآنِ حکیم کی تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ آپ قرآنِ مجید کے مقام

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

البقرۃ – 137

پر پہنچے۔تو بلوائی دیواریں پھلانگ کر آپ کے گھر میں داخل ہو گئے۔اور آپ پر وار شروع کر دئیے۔ یوں رسول اللہ ﷺ کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو انھوں نے احد پہاڑ پر فرمائی تھی۔ نبی ﷺ اور ابو بکر، عمر و عثمان (رضی اللہ عنہم اجمعین) احد کے پہاڑ پر چڑھے تو (زلزے کی وجہ سے) احد کانپنے لگا۔

آپ ﷺ نے اس پر پاؤں مارکر فرمایا: اُحد رک جا! تیرے اوپر(اس وقت) ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید (موجود) ہیں۔6

جودو سخا کے اس مجسم پیکر کو ان کے اہل خانہ کے سامنے بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

بقولِ شاعر

امت تمام آپ کی احسان مند ہے
ہاں ناشر و محافظِ قرآن آپ ہیں
وہ جس کا خون زینتِ قرآن ہو گیا
ہاں وہ شہید حضرتِ عثمان آپ ہیں۔

  1. (رقم الحدیث:6210)
  2. (احمد 63/5 ح 20906 والترمذی: 3701 وقال: ’’حسن غریب‘‘ وسندہ حسن)
  3. (مسند احمد 86/6، 87ح 25073 وسندہ صحیح)
  4. (البخاری:3693 ومسلم:2403/28)
  5. المستدرك للحاكم : 4554، صحيح
  6. (صحیح البخاری: 3686)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

بنتِ بشیر