جدید دور کی فضولیات ! ہمارا کردار اور ذمہ داریاں

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو دلوں کو گمراہی اور فضولیات کے پنجوں سے محفوظ بناتا ہے، میں اللہ تعالی  کے فضل و کرم اور عنایتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں،  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے ہمارے نفسوں کو ایمان و سعادت سے بھر پور بنایا، اور میں یہ بھی  گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے  اور رسول  ہیں، آپ قیادت و حکمرانی کے لئے عظیم ترین مثالی شخصیت ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور  صحابہ کرام پر رحمتیں  نازل فرمائے  جنہوں نے امت کو خود مختاری اور راہِ حکمرانی پر گامزن کیا۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔

 اسلامی حکمتوں، تعلیمات، اخلاقی اقدار اور آداب  کے ذریعے اسلام نے سوچ اور فکر بلند رکھنے کی تربیت دی ، اور ایسے عزائم رکھنے کی ترغیب دلائی جس سے مسلمان کی زندگی پروان چڑھے، مسلمان کے اہداف یقینی بن جائیں، کارنامے  تعمیر و ترقی کے باعث ہوں؛ تا کہ مسلمان کی شخصیت دوسروں سے ممتاز نظر آئے، مسلمان  بے مقصدیت اور فضولیات سے برتر ہو کر ان کا مقابلہ با مقصد عملی اقدامات  اور بلند نظری سے کرے؛ جو زندگی کو تعمیر و ترقی کے ذریعے خوشحال بنا دیں، مسلمان  کی یہ تربیتی خصوصیات وقت اور حالات کے بدلنے پر کبھی تبدیل نہیں ہوتیں، مسلمان ان خصوصیات سے کنارہ کش نہیں ہوتا چاہے اسباب و ذرائع کتنے ہی رنگا رنگ ہوں  ، دورِ جدید کی ٹیکنالوجی کیسی بھی ہو،  چنانچہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“میرا نفس ہمیشہ آرزو مند رہتا ہے، جب بھی میری تمنا پوری ہوئی تو اس سے اچھے کی جانب نفس نے نظریں گاڑ لیں، مجھے گورنر بننے کا شوق ہوا پھر جب میں گورنر بن گیا تو دل میں خلیفہ بننے کا شوق پیدا ہوا، پھر جب مجھے خلافت بھی مل گئی تو اس سے بھی اچھی چیز پانے کی تمنا پیدا ہو گئی اور وہ ہے جنت، امید ہے کہ وہ بھی مجھے مل جائے گی۔”

اسلام نے مسلمان کو لا یعنی، آوارگی اور فضولیات کی دلدل سے بچا کر بلند اہداف پانے اور اعلی کردار ادا کرنے کی تہذیب دی، نیز مسلمان کو اللہ تعالی کی بندگی  سے منسلک کیا جو کہ سب سے بڑا اور اعلی مقام ہے، بلکہ یہی بندگی مسلمان کیلیے مشعل راہ، سب کاموں کا محور، دلچسپی کا منبع ہے۔

آوارگی اور بیکارگی انسان کو کردار کی بلندی سے روکتی ہیں، انسان میں احساسِ ذمہ داری ختم کرتی ہیں، مثبت کام کرنے کا جذبہ ماند کرتی ہیں؛ چنانچہ ایسے انسان سے فائدے کی امید کی بجائے نقصان کا خدشہ یقینی رہتا ہے، لا پروائی  شخصیت کو ہر قسم کی مثبت سرگرمیوں سے گرا دیتی ہیں؛ جس کی وجہ سے سارا وقت فضول گزرتا ہے، عمر بے مقصد ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح حقوق ضائع ہوتے ہیں، شخصیت کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی، اور زندگی بے کار اور بے وقعت بن جاتی ہے۔

جذبے اور ولولے اس وقت گدلے ہو جاتے ہیں جب انہیں مختلف انداز سے بے سود امور میں صرف کر دیا جائے، مثال کے طور پر: شہرت کیلیے فضول اور نا مناسب ویڈیوز بنا کر  انہیں سوشل میڈیا پر نشر کرنا، اور اوچھے واقعات کی ویڈیو بنانے سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے، ان سے خرابیاں تو متوقع ہوتی ہیں بہتری کی امید نہیں  ہو سکتی، ایسے لوگوں ساکھ خراب ہوتی ہے اور ان کی برائیاں سامنے آتی ہیں؛ کیونکہ جب وہ غیر مناسب لباس پہن کر سامنے آئے یا بد کلامی کرے ، یا کوئی نا مناسب حرکت کرے، یا عقل و خرد اور مروّت کے منافی کام کرے تو یہ دین، قوم اور ملک سب کیلیے رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث ہے۔

ایسی فضول حرکتیں حقیقت میں اخلاقی تنزلی، کم عقلی، مفہومِ زندگی سے لا علمی، سطحی سوچ کی علامت اور علم و عرفان  سے دوری ہے؛ نیز ان سے عزائم کمزور پڑتے ہیں ترقی پستی میں بدلتی ہے، مزید ان سے سماجی اور گھریلو نقصانات  بھی ہوتے ہیں۔

نا معقول حرکتوں میں گرنے والا شخص ہوس پرستی اور احکامات الہی کی بے قدری میں مبتلا ہو جاتا ہے، دل کو خطاؤں اور اپنے ارادوں کو گناہوں سے گدلا کر لیتا ہے اور اس کی فطرت ہی بدل جاتی ہے۔

کسی بھی اہل دانش  سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ امت اسلامیہ کی اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے سامنے ذلت کا سبب : اللہ تعالی کی حرمتوں کی پامالی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے

ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ

الحج – 30

 یہ اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے۔

فضول اور بے کارگی کی وجہ سے  انسان لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتا، اور حیا کا خون کرنے والی بے باکی پیدا ہو جاتی ہے،  حالانکہ اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میری ساری امت بخشی جا سکتی ہے سوائے کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کے یہ کھلم کھلا گناہ میں سے ہے کہ رات کو ایک آدمی کوئی کام کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈالے رکھے پھر صبح ہونے پر وہ آدمی کہے: “اوئے! میں نے گزشتہ رات فلاں فلاں گل کھلائے” رات کو اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا اور یہ صبح کو پردہ فاش کر دے) بخاری

اللہ تعالی پردہ پوشی فرماتا ہے، اللہ تعالی قیامت کے دن بھی بندے کے گناہوں پر پردہ ڈالے گا، لیکن یہ صرف ان کیلیے ہو گا جو بے باکی سے گناہ نہیں کرتے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی مومن کو قریب بلائے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال کر اسے چھپائے گا، پھر فرمائے گا: “کیا تمہیں فلاں فلاں گناہ معلوم ہے؟”  وہ کہے گا : “ہاں! اے میرے پروردگار!” یہاں تک کہ اللہ تعالی اس سے گناہوں کا اقرار کروا لے گا، تو مومن اپنے دل میں سمجھے گا : “وہ تو تباہ ہو گیا” لیکن اللہ تعالی فرمائے گا: “میں نے دنیا میں تیرے گناہ پر پردہ ڈالا، آج میں تیرے گناہ کو بخش دیتا ہوں”  پھر اس کی نیکیوں کی کتاب اسے دے دی جائے گی) بخاری، مسلم

فضول چیزوں میں دلچسپی اور بے وقعت لوگوں کو فالو کرنے کی وجہ سے ہم ہی انہیں اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ منظر عام پر آئیں، حالانکہ وہ رذیل شخصیت کے مالک ہوتے ہیں،  ہم ہی ان کی کارستانیوں اور گھٹیا حرکتوں کی تشہیر کر کے انہیں مشہور بناتے ہیں، ہم ہی ان کا راستہ ہموار کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے ذہن خراب کریں، اخلاقیات میں گرواٹ لائیں، اور لوگوں کو کامیابی اور ترقی کے راستے سے روک دیں۔

اس سے بڑی بات یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنی شہرت  کے دھوکے میں آ کر ایسے مسائل میں کود پڑیں جنہیں وہ سمجھتے تک نہیں ، ایسے علوم و فنون کے متعلق موشگافی  شروع کر دیں جس کی الف ب بھی نہیں جانتے؛ چنانچہ کچھ نوجوان جہالت و ہوس     میں ڈوب کر شرعی اور دینی مسائل بتلانے لگ گئے ، اور کچھ دختران نے حجاب کا مذاق اڑانا شروع کر دیا، تیسرا شخص اسلامی تعلیمات اور احکامات کو نشانہ بنانے لگا، چوتھے نے  حکمرانوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیں اور پانچویں شخص نے  علمائے کرام، اہل علم  اور واعظین  پر نشتر چلائے؛ ایک بات عہد قدیم میں کہی گئی تھی کہ: “برتن سے پانی نکل جائے تو وہ ہوا سے بھر جاتا ہے”

بیکارگی اور بیکاروں کے پیچھے لگنے والا شخص : جھگڑ کر اپنا دن  اور دین برباد کر لیتا ہے، اپنے اخلاق کو  افواہیں پھیلا کر  اور معاشرے  کے امن و امان کو چغلی کے ذریعے  خراب کر ڈالتا ہے، ان بیکار لوگوں نے کتنے ہی انمٹ  زخم لگائے ہیں اور کتنی نا ختم ہونے والی دشمنیاں پیدا کی !

شہرت کی ہوس خفیہ ترین بیماری ہے، اگر یہ بیماری عقل پر مسلط ہو جائے تو انسان شہرت کے کسی بھی ذریعے کو جائز قرار دے دے اور ہر قیمت پر شہرت حاصل کر کے رہے، انسانی دل پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے کہ اسے خیر اور نورِ حق نظر ہی نہیں آتا؛ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے شہرت پرستی، اور اعمال ضائع ہونے کی وجہ ریا کاری سے بھی منع کیا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص شہرت کیلیے کوئی لباس پہنے تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن ذلت  کا لباس پہنائے گا) ابن ماجہ

فضولیات میں اپنا وقت ضائع کرنے والا جب بیدار ہو گا تو اس وقت تک کامیاب لوگ آگے نکل چکے ہوں گے، با مقصد امور میں مصروف رہنے والے لوگ ترقی کر چکے ہوں گے، اور یکسو ہو کر محنت کرنے والے بلندیوں پر فائز ہوں گے، اس وقت وہ اپنے ہاتھوں پر کاٹے گیں جب وہ اپنے آپ کو گہرے زوال اور سراب میں سر گرداں پائیں گے، وہ تذذب کا شکار  اور جہالت  کی وجہ سے انحطاط پذیر ہوں گے، لیکن وہ پشیمانی کا وقت نہیں ہو گا! اللہ کے بندو! مسلمان کا اپنی زندگی میں ایک پیغام ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو فضولیات اور بیکاری کی دلدل سے بچا کر رکھتا ہے، اپنے عزائم بلند رکھتا ہے، اپنے اوقات کو رضائے الہی کا موجب بننے والے کاموں میں صرف کر کے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے جس سے وہ اپنے دین، ملک اور قوم کی علمی یا عملی خدمت کا فریضہ ادا کرے۔

اسلامی تعلیمات نے معاشرے  کو منفی کرداروں کے اثرات سے بچانے کیلیے  بھر پور کوشش کی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی کرم والا ہے اور کرم کے ساتھ بلند اخلاقی اقدار کو بھی پسند فرماتا ہے، نیز  بے مقصدیت سے نفرت فرماتا ہے) حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے  اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی  بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

اللہ کیلیے ایسی تعریفیں جس کی کوئی حد نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہمارا اس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد  اللہ کے چنیدہ اور برگزیدہ بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل و صحابہ کرام پر اور آپ کے پیروکاروں پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی کما حقُّہ دلوں میں بساؤ، خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان و نگران سمجھو۔

اللہ کے بندو! فضولیات میں دلچسپی  کے سامنے خاندان سب سے پہلی رکاوٹ ہے ، خاندان نو عمر افراد کو مثالی طور پر حسن سلوک، اعلی نمونہ بن کر دکھائے، خاندان ہی حوصلہ افزائی کا باعث بنے اور ان کیلیے بلند اہداف پانے کیلیے راستہ واضح کرے۔

میڈیا کی بھی غیر معمولی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی فضولیات پھیلانے والے ذرائع کی روک تھام کرے ، اس کیلیے سب سے پہلے عقائد میں ثابت قدمی پیدا کریں اور مثالی شخصیات تیار کریں۔ ہمارے نوجوان بھی  فضولیات کے خاتمے کیلیے اپنا کردار ادا کریں، اس کیلیے فضول چیزوں کو نشر مت کریں، آگے مت پھیلائیں، اور نشر کرنے والوں کو روکیں، دوسری طرف صنف نازک کیلیے حیا داری  ہی اس کا اعزاز اور خوبصورتی ہے، لہذا فضولیات اور بے مقصدیت کے پیچھے چلنا قدم پھسلنے اور نقصانات کا باعث ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (حیا اور ایمان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے، چنانچہ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی اٹھائی گئی تو دوسری بھی ساتھ ہی اٹھ جائے گی) اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے، اسی طرح صنف نازک کیلیے فرمانِ باری تعالی ہے:

فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ

الاحزاب – 32

نرم لہجے میں بات مت کریں کہیں جس کے دل میں بیماری ہے وہ طمع کرنے لگے۔

مسلمان اپنے آپ کو بے مقصدیت اور فضولیات سے بچاتا ہے، اس کیلیے ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھتا ہے کہ ایک دن اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونا ہے ، یہی سوچ اسے فضول دیکھنے، فضول سننے اور فضول بولنے  کے ساتھ ساتھ فضول مجلسوں سے دور رکھتی ہے، اسی طرح ہر وقت اللہ تعالی کو اپنا نگہبان و نگران تصور کرنے سے  انسان کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ مضبوط ہو جاتا ہے، جو کہ شہرت پسندی اور خوشنمائی  سے کہیں بالا تر کر دینے کا باعث ہے۔

آخرت کے میزان دنیا کے میزانوں سے یکسر مختلف ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (1) لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ (2) خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ

الواقعة – 1/3

 جب قیامت قائم ہو جائے گی [1] اس کے وقوع کو کوئی جھٹلانے والا نہیں ہے [2] وہ [ترازو کو ]تہہ و بالا کرنے والی ہو گی۔

اللہ کے بندوں!

رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 اللہ اور اس کے فرشتے  نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود  و  سلام بھیجا کرو۔

یا اللہ! محمد  -ﷺ- پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت  و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے ، اور محمد  -ﷺ- پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر  برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین  ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی  رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا،  انکے ساتھ  ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام  سے راضی ہو جا،  اور اپنے رحم و کرم، اور احسان کے صدقے  ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر اور مدد گار بن جا۔

 یا اللہ! حلب میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! موصل میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! شام میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! عراق میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! فلسطین میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! وہ بھوکے ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست فرما، وہ ننگے پاؤں ہیں انہیں جوتے فراہم فرما، انہیں تن ڈھانپنے کیلیے کپڑے عطا فرما، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے۔

یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے یا سمیع الدعاء! یا اللہ! ان مسلمانوں کے دشمنوں کے تار پور بکھیر دے، ان کے جتھوں میں پھوٹ ڈال دے، یا اللہ! تباہی اور بربادی ان کا مقدر بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! کتاب نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکروں کو پچھاڑنے والے دشمنانِ اسلام کو شکست سے دوچار فرما، اور مسلمانوں کو ان پر غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا قوی! یا متین!

یا اللہ! ہم جنت کا تجھ سے سوال کرتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک ہر قسم کی جامع خیر کا سوال کرتے ہیں، شروع سے لیکر اختتام تک ، اول سے آخر تک ، ظاہری ہو یا باطنی  سب کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لیے ہدایت  آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ہم پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر اور تیرے لیے ہی مر مٹنے والا بنا،  تیری طرف رجوع کرنے والا اور تجھ ہی سے توبہ مانگنے والا بنا۔

یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہ معاف فرما، ہمارے دلائل ثابت فرما، ہماری زبانوں کو  درست سمت عطا فرما، اور ہمارے سینوں  کے میل نکال باہر فرما۔

یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال ، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے ، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، بیماروں کو شفا یاب فرما، اور ہمارے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لے،  نیز ہمارا خاتمہ بالخیر فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے تمام معاملات درست فرما دے اور ہمیں ایک لمحہ کیلیے بھی تنہا مت چھوڑ، یا اللہ! ہم تجھ سے حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں، ماضی کی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں سے معافی مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہم پر اپنی برکت، رحمت،  فضل، اور رزق کے دروازے کھول دے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ یا اللہ! تو ہی معبودِ حقیقی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے ہم فقیر ہیں، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما اور ہمیں مایوس مت فرما،  یا اللہ! بارش عطا فرما، یا اللہ! بارش عطا فرما، یا اللہ! بارش عطا فرما، یا اللہ! رحمت و فضل والی بارش ہو، تباہی ، غرق، اور آزمائش میں ڈالنے والی بارش نہ ہو۔  یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو نفاذ قرآن اور تیری شریعت نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

الاعراف – 23

 ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف  نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

الحشر – 10

 اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے,  اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

 ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

 اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔