اطاعتِ رسول ﷺ کے فوائدوثمرات اور ہمارا طرز ِعمل

اطاعت رسول ﷺ  دین کے اہم ستون میں سے ہے ۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اطاعت رسول  کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہِ

(سورۃ النسآء: 64)

ترجمہ: اور ہم نے جتنے بھی رسول  بھیجے ہیں ، اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے ۔

ایک مقام پر ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

(سورۃ محمد: 33)

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو ۔ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں رسول کریم ﷺ کی اطاعت کا حکم دینے کے بعد اہل ایمان کے لئے  اطاعت ِ رسول ﷺ کےانعامات وفوائد کا ذکرکیا ہے۔  کائنات کا ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کا امتی کہتا ہے، اگروہ آپﷺ کے تمام اقوال اور افعال، کسی تاویل اور حجت کے بغیر برضا و رغبت قبول کرتا ہے اورنبی کریمﷺ کی اطاعت کے اس معیار پر پورا اترتا ہے تو وہ ان تمام فوائد و ثمرات کو حاصل کر سکتا ہے جن کا قرآن و سنت میں اکثر مقامات پر تذکرہ کیا گیا ہے ،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

اطاعت ِرسول ﷺ، اللہ کی رحمت کا سبب ہے ۔

 ارشاد باری تعالیٰ  ہے :

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

(سورۃ النور: 56)

ترجمہ:  اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم رحم کیے جاؤ۔

یہ خطاب صرف منافقوں کو ہی نہیں بلکہ سب کے لئے عام ہے۔ یعنی اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ تم پر رحم فرمائے اور اس کی رحمتیں تم پر نازل ہوں تو اس کی صورت صرف یہی ہے کہ سچے دل سے اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا پورا اہتمام کرو۔

اطاعتِ رسول ﷺ، کامیابی کی ضمانت ہے ۔

 ارشاد باری تعالیٰ  ہے ۔

وَمَن يُطِعِ اللہَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

(سورۃ الأحزاب: 71)

ترجمہ:  اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقیناً اس نے کامیابی حاصل کرلی، بہت بڑی کامیابی۔

جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اوامر کو بجا لائے گا اور نواہی سے گریز کرے گا وہ بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا، اسے ہر خوف سے نجات ملے گی اور اس کی ہر نیک تمنا پوری ہوگی، جہنم سے نجات ملے گی اور جنت اس کی ابدی منزل ہوگی۔

اطاعتِ رسول ﷺ، جنت میں داخلے کا سبب ہے ۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَن يُطِعِ اللہَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

(سورۃ النسآء: 13)

ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے وہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ 

اطاعت ِرسول ﷺ، اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی محبت کا ذریعہ ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللہُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

(سورۃ آل عمران: 31)

ترجمہ: کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کر دیا ہے کہ محبت الٰہی کا طالب اگر اتباع محمد ﷺکے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، تو پھر تو یقیناً وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے، ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا۔ یعنی اتباع رسول ﷺ کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔

اطاعت ِ رسول ﷺ کی بدولت کوئی عمل ضائع نہ ہوگا ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا  قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ  وَإِن تُطِيعُوا اللہَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

(سورۃ الحجرات: 14)

ترجمہ: بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

اور اگر تم کسی فعلِ خیر اور اجتناب شر کے ذریعے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہو تو وہ تمہارے اعمال میں ذرہ بھر کمی نہیں کرے گا بلکہ تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور تم اپنا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل غیر موجود نہیں پاؤ گے۔

اطاعت ِ رسول ﷺ، ہدایت یافتہ ہونے کی گواہی ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا  

  (سورۃ  النور :54 )

  ترجمہ: اور اگر تم ان ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے  ۔

اللہ تعالی کے اطاعت گزار ہونے کا اعزاز

ارشاد باری تعالیٰ  ہے :

مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ   

(سورۃ  النساء :80 )

ترجمہ : جو شخص رسول کی اطاعت  کرے گا تو بےشک اس نے اللہ تعالی  کی اطاعت کی۔

اطاعتِ رسو ل کرنے والے، بہترین لوگوں کے ساتھ ہوں گے ۔

ارشاد باری تعالیٰ  ہے :

وَمَن يُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا

(سورۃ النساء: 69)

ترجمہ: اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔

اس آیت میں اللہ ورسول کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے:

  الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ 

(صحيح بخاری: 1640)

ترجمہ: آدمی انہی کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی۔

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کو جتنی خوشی اس فرمان رسول کو سن کر ہوئی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ ﷺ کی رفاقت پسند کرتے تھے۔  بعض صحابہ رضی الله عنہم نے بطور خاص نبی ﷺسے جنّت میں رفاقت کی درخواست کی جس پر نبی ﷺنے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی  (صحيح مسلم:  488)

اطاعت رسول اور ہمارا طرز عمل

اب ذرا رک کرہم  اپنا جائزہ لیں  کہ  کیا ہم  واقعی   نبی کریم  ﷺ  کی سچی اطاعت کرتے ہیں ؟صرف ایک حدیث رسول ملاحظہ کیجیے!

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا۔ اس لیے ابوطلحہ (جو میرے سوتیلے باپ تھے) میرا ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! انس سمجھ دار بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔

خَدَمْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عليه وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، وَاللہِ ما قالَ لِي: أُفًّا قَطُّ، وَلَا قالَ لي لِشيءٍ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا؟ وَهَلَّا فَعَلْتَ كَذَا؟

(صحيح مسلم: 2309)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اللہ کی قسم! آپ نے مجھے کبھی بھی اف تک نہیں کہا اور نہ کسی کام کے کرنے میں یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں ایسا کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟

ایک اور روایت میں آتا ہے  :

فَخَدَمْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَلَمْ يَضْرِبْنِي ضَرْبَةً قَطُّ وَلَمْ يَسُبَّنِي وَلَمْ يَعْبِسْ فِي وَجْهِي

(سیر اعلام النبلاء ج4ص:204  والطبرانی :893 )

کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی، اس پورے عرصے میں آپﷺ نے کبھی بھی مجھے نہیں مارا اور نہ ہی کبھی  کوئی گالی دی اور نہ کبھی ماتھے پر شکن ڈالی۔

یعنی دس سال میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اللہ کے نبی نے مجھے جھڑکا ہو، ڈانٹا ہو یا کسی کام پر یہ کہا ہو کہ یہ کیوں کیا ؟

اب ایک نظر اپنے گریبان  میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ  کسی نہ کسی صورت میں ہمارے ماتحت بھی کچھ لوگ کام کرتے ہیں ۔ فرض کریں اگر آپ باپ ہیں تو بچے آپ کے  ماتحت ، خاوند ہیں تو بیوی ما تحت ، یونیورسٹی میں پرنسپل یا سرکاری آفیسر ہیں  تو نچلے درجے کےاساتذہ یا ملازمین آپ کےماتحت ہیں۔

ذرا غور کیجئے ! ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ؟ ہمارا رویہ  اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا ہے ؟ کیا ہمارا رویہ واقعی ایک سچے محب رسول ﷺ جیسا ہے؟ کیا ہمارے رویوں میں  واقعی اطاعتِ رسول ﷺ کی جھلک نظر آتی ہے ؟

دنیا میں ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ملازم، خادم چوںکہ دن رات کا بیش تر حصّہ ہماری خدمت گزاری میں وقف ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشاء کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمّل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصّہ کرنے کے بجائے، صبر سے کام لینا چاہیے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔

يَا رَسُولَ اللہِ ‏‏‏‏‏‏كَمْ أَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ ؟ فَصَمَتَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللہِ ‏‏‏‏‏‏كَمْ أَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً

(صحيح أبي داود: 5164)

اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے، اس نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہر روزستر بار معاف کرو“۔

ذرا سوچیں کہ کیا  آپ  اپنے ماتحت  ملازمین کی غلطیاں معاف کرتے ہیں جو اللہ کے نبی ﷺ کی سنت ہے؟ ذرا غور کیجئے کہ کہیں آپ اپنے ماتحت لوگوں کو بات بات پر جھڑکتے تو نہیں ہیں ؟ کہیں آپ اپنے ماتحتوں کو بلاوجہ یا معمولی باتوں پر ڈانٹتے تو نہیں ہیں ؟  کیا ملازمین پرغصہ کرنا آپ کی عادت تو نہیں ہے؟ کیا سنت رسول ﷺ کی پیروی میں ایک دن ایسا گزار سکتے ہیں کہ آپ اپنے سارے ماتحتوں سے حسن سلوک کریں، مسکرا کر بات کریں، غلطی ہو جائے تو پیار سے سمجھائیں، کیا ہم اپنے ہمسائیوں کی خبرگیری کرتے ہیں ؟ کیا ہم اپنے نبی ﷺ کے فرامین پر مکمل عمل پیرا ہیں ؟ کیا ہماراعمل اور کردار ہمارے دعوے سے مطابقت رکھتا ہے ؟

اگر نہیں تو ایک بار پھر سوچیں کہ جس نبی کی سنتوں کا عکس آپ کے کردار میں نظر نہیں آتا کیا اس سے محبت اور اطاعت  کا آپ کا دعوی ٹھیک ہے؟

ہم جو دعوی کر رہے ہیں اس میں سچے ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا حب رسول ﷺاور اطاعت رسول ﷺ کا تقاضا نہیں کہ ہم نبی کے حسن اخلاق کی سراپا تصویر بننے کی کوشش کریں ؟ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر نبی کریمﷺ کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ