قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران حکومت نے ایک ایسے بل کو منظور کروا لیا ہے جس کی بیشتر شقوں کو اسلامی نظریاتی کونسل نے شریعت کے خلاف قرار دیا ہے جو کہ پاکستانی قانون کے بھی خلاف ہے کیونکہ قرارداد مقاصد میں لکھا ہوا ہے کہ ملک میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو کہ قرآن و سنت کے خلاف ہو گا گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کے نام پر جو بل منظور ہوا ہے وہ ملکی کلچر اور اسلامی روایات اور اقدار کے بھی خلاف ہے۔
اس میں سب سے زیادہ شرمناک نکتہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے بچے کو کسی بات سے روکتا ہے یا ڈانٹتا ہے چاہے اس کے بھلے کے لیے ہی ہو تو بچہ عدالت میں جاکر باپ پر مقدمہ دائر کروا سکتا ہے ۔اور عدالت اس قانون کی رُو سے باپ کو اس بات کا پابند کرسکتی ہے کہ وہ بچے کے پاس نہ آئے ۔اس بالجبر دوری کے لیے باپ کو سرکاری رہائش گاہ میں بھی رکھا جاسکتا ہے جس کو آپ قید کہہ سکتے ہیں ۔ مزید شرمناک پہلو یہ ہے کہ بچے کے « تحفظ» کے لئے باپ کے ہاتھ میں ایک ڈیجیٹل کڑا پہنایا جائے گا جس میں جی پی ایس (GPS) سسٹم لگا ہوگا اس سے باپ کی نقل و حرکت کو چیک کیا جا سکے گا ۔ عدالت اس بات کا حکم دے سکتی ہے کہ باپ اپنے ہی تعمیر کردہ گھر میں بھی داخل نہ ہو ۔ کیا اس سے زیادہ توہین آمیز اور شرمناک سلوک کا تصور کیا جاسکتا ہے ؟
جبکہ رسولِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ
(سنن أبي داود: 1/ 133)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں ( اور نماز نہ پڑھیں ) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔
اس بل میں مزید بھی ایسی انتہائی نامناسب شقیں ہیں جو ہمارے اسلامی خاندانی نظام اور روایات کے یکسر مخالف ہیں ۔ جیسا کہ خاوند اور بیوی کے معاملات ہیں، اس قانون کے مطابق خاوند اگر بیوی کے سامنے صرف دوسری شادی کی خواہش کا اظہار بھی کرے گا تو اس کو ذہنی تشدد قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ سراسر اسلام کے خلاف ہے۔ دوسری شادی کا حق مرد کو اللہ تعالی نے دیا ہے کوئی کون ہوتا ہے اس حق کو سلب کرنے والا ؟ اسی طرح بیوی کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرنا بھی قابلِ سزا جرم ہوگا ۔ اندازہ کیجئے کہ ہمارے قانون بنانے والے لوگ کس قدر سطحیت کا شکار ہیں ۔ ان کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ گھر اس طرح کے قوانین سے نہیں بسا کرتے بلکہ گھر تو پیار محبت اور صلح سے بسا کرتے ہیں ۔
رسولِ کریم ﷺ کا فرمان گرامی:
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ، وَوَعَظَ، فَذَكَرَ فِي الحَدِيثِ قِصَّةً، فَقَالَ: أَلاَ وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ، لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلاَّ أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً، أَلاَ إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلاَ يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلاَ يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلاَ وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ
(سنن الترمذي: 2/ 458)
سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور (لوگوں کو) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصے کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس (ہم بستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کاجواز کیا ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا حق ہے ) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علیحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ تلاش نہ کرو۔ سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہننے میں اچھا سلوک کرو۔
پچھلے دورِ حکومت میں بھی تحفظِ نسواں بل منظور کیا گیا تھا ۔اس شرمناک بل میں بھی اس طرح کے ہی احمقانہ اور حقیقتوں سے دور قوانین بنائے گئے تھے کہ جس میں خاوند اگر بیوی کی نظر میں اس کے ساتھ بد سلوکی کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ اس کی شکایت کر سکتی ہے اور خاوند کے ہاتھ میں بھی جی پی ایس والا کڑا ڈالا جائے گا ۔اور جب یہ قانون منظور ہوا تھا تو پہلے مہینے میں ہی ایک خاتون اسی طرح کی فضول شکایت لے کر حکومتی ادارے میں جا پہنچی ۔ خاوند کو کچھ دن کے لیے قید کروا دیا ۔ خاوند نے باہر نکل کر رہائی کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اس عورت کو طلاق دے دی ۔ اور یہ لیجئے ! آپ کے قانون نے ایک گھر بسا دیا ۔
اسلام میں خاندان کو بنیادی یونٹ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ یونٹ ٹوٹ جائے تو بنی نوعِ انسان کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے جیسا کہ مغربی معاشرے میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں طلاق مرد اور خلع عورت کا حق ہے۔ لیکن اس بل کی شق چار کے تحت یہ حق بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ طلاق کی دھمکی دینا بھی گھریلو تشدد کے زمرے میں شمار ہوگا ۔ اسلامی خاندانی نظام کے اندر میاں بیوی کے درمیان مسئلہ ہو جائے یا بیوی شوہر کی حکم عدولی پر اُتر آئے تو اسے حل کرنے کے لیے اسلام نے مختلف مدارج رکھے ہیں۔ اول یہ کہ شوہر بیوی کو سمجھائے گا پھر بھی وہ نہ مانے تو بیوی کا بستر الگ کر دیا جائے گا اس کے باوجود مسئلہ حل نہ ہو تو شوہر کو بیوی کو ہلکی ضرب لگانے کی اجازت ہے یعنی ایسی چوٹ جس کا نشان نہ بنے اور وہ نازک حصے پر نہ ماری جائے۔ مقصد تشدد نہیں بلکہ بیوی کو انتباہ کرنا ہے۔ اس کے باوجود بھی میاں بیوی میں صلح نہ ہوسکے تو پھر ثالث مقرر کرنے کا حکم ہے اور یہ کوشش بھی ناکام ہونے پر طلاق یا خلع کا مرحلہ آتا ہے لیکن مذکورہ بل میں اسلام سے متعلق ان تمام مدارج کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ براہِ راست حکومت اور پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مداخلت کرے جس سے گھر کے بننے سے زیادہ ٹوٹنے کے امکانات ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
النساء – 34
’’مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔‘‘
یہ ہے گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ بل جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس سے عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام ہوگی اور تحفظ حاصل ہوگا۔ حالانکہ ایک سنجیدہ اور باشعور آدمی اسے پڑھتے ہی بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے یہ بل نہیں لایا گیا بلکہ اس بل سے دینِ اسلام کے صریح احکامات سے بغاوت کا درس دیا گیا۔ مغرب کی گندی تہذیب کی تقلید کی گئی۔ اس کے علاوہ ایک پرامن گھریلو نظام کو توڑنے اور بے حیائی و بے شرمی کو سندِ جواز دینے کے لیے اس بل میں پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس بل کا ہدف اسلامی خاندانی نظام کو درہم برہم کرنا، عورت کو تحفظ کے نام پر خاندان کے تحفظ سے نکال کر بے راہ روی کی راہ پر دھکیلنا، آزادی کے نام پر اسے عفت وحیا اور پاکدامنی سے آزاد کرکے کاروباری جنس بنانا، برابری کے نام پر اس پر وہ بوجھ ڈالنا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا ہی نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری قوم کے ایمان، حیا، عفت، غیرت اور پاک دامنی کی حفاظت فرمائے ، ان کے گھریلو نظامِ زندگی کو ٹوٹنے سے محفوظ فرمائیں اور ہمارے حکمرانوں کو ایمانی غیرت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
وصلّٰی اللہ تعالٰی علٰی نبينا محمد ﷺ وعلٰی آله وأصحابه وسلم