بینک ایک ایسا ادارہ ہے جو آج کے معاشی نظام میں اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اور عصرِ حاضر میں جبکہ دنیا گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کر چکی ہے اس ادارہ کے بغیر بڑی بڑی تجارتی منڈیاں چلانا تقریباً ناممکن ہوچکاہے ۔ مغربی بینکوں کے وجود میں آنے کے بعد اہل ِاسلام نے بھی اس میدان میں کوششیں شروع کردیں کہ بینکاری سسٹم کو شرعی خطوط پر استوار کیا جائے اور پوری دنیا میں کمرشل اور سودی بینکوں کے مقابلے میں اسلامی بینک بنائے جائیں ۔ ابتدا میں انفرادی سطح پر یہ سوچ پیدا ہوئی اور بالآخر اس نے اجتماعی شکل اختیار کرلی اور ایک اسلامی بینکاری سسٹم عملی طور پر متعارف کرادیا گیا اس سسٹم کے قیام کے لئے متعدد پلیٹ فارموں سے کاوشیں کی گئی جن کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
آغاز وارتقاء :
اسلامی نظام بینکاری کوئی ساٹھ ستر دہائیوں پر محیط نظام ہے جس کا آغاز مصر سے1963ء میں میت غمر کے اسلامک بینک کے قیام کی صورت میں ہوا تھا ۔ اس سے قبل اس حوالے سے چند کاوشیں اور تجربے جنوبی ہند کی مسلم ریاست حیدرآباد میں بھی ہوچکے تھے۔ حیدرآباد دکن کے اس تجربے کے بعد 1950ء، 1951 ء میں اس طرح کی ایک ہلکی سی کاوش پاکستان میں بھی ہوئی ۔ جس میں شیخ احمد رشاد نے کلیدی کردار ادا کیا ۔
1969ء میں ملائیشیا میں تبونگ حاجی ’’ حجاج کا انتظامی فنڈ اور بورڈ ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیاجس کا کام حجاج کرام کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا ۔ بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ مصر کے میت غمراور ملائیشیا کے تبونگ حاجی بورڈ اسلامی بینکاری کی عملی صورت تھی ،مگر اسلامی بینکاری کے قیام کی اولین عملی اور تطبیقی صورتوں میں اگر ان دو اداروں کا جائزہ لیا جائے تو انہیں اسلامی بینکاری کی ایک ابتدائی نامکمل صورت تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس پر مکمل اسلامی بینک کا اطلاق کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ دونوں ادارے انتہائی محدود مقاصد کیلئے قائم کئے گئے تھے ۔ میت غمر پراجیکٹ کا دائرہ عمل دیہی کاشتکاروں اور ملائیشیا کے تبونگ حاجی کے پیش نظر حاجیوں کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا جو مکمل بینکاری نہیں بلکہ اس کی ابتدائی شکل ہے ۔
1971ء میں مصری وزارت خزانہ نے ناصر سوشل بینک کے نام سے ایک بینک قائم کیا۔ یہ ایک باقاعدہ طور پر سرکاری بینک تھا جو سرکاری وسائل سے وجود میں آیا تھا ۔ اس کے بعد 1975ء میں پرنس محمد الفیصل کی کاوشوں سے اسلامی ترقیاتی بینک(Islamic Development Bank) قائم ہوا۔ 1975ء میں ہی دبئی اسلامی بینک قائم ہوا ۔ دبئی اسلامی بینک کے بعد جس ادارے نے اس میدان میں نمایاں کردار ادا کیا وہ کویت فنانس ہاؤس کے نام سے 1977ء میں وجود میں آیا ۔
اسلامی بینکاری کے ماہرین نے 70 کے عشرہ کو اسلامی بینکاری کے جنم لینے کے عشرہ سے تعبیر کیا ہے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں :
’’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنہ 70 کا عشرہ اسلامی بینکاری کے جنم لینے کا عشرہ ہے ۔ اس عشرے میں دبئی ، سوڈان ، مصر ، کویت ، اور بحرین میں متعدد اسلامی بینک وجود میں آئے ۔ ان ممالک میں ان بینکوں کو بعض مراعات بھی دی گئیں ۔ بعض ممالک میں ان بینکوں کو قواعد اور احکام کے مطابق بعض قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ‘‘۔ [1]
اسلامی بینکاری کو ممکناتی عملی صورت میں لانے کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو چارمراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا مرحلہ: شخصی اور انفرادی اقدامات
1963ء میں ڈاکٹر احمد نجار رحمہ اللہ کی کاوشوں اور محنتوں سے ایسی امید قائم ہونے لگی کہ مصر کی سرزمین پر اسلامی بینکوں کے قیام کا اولین تجربہ سامنے آیا جوکہ شرعی مضاربہ پر قائم تھا ۔
اس کے علاوہ حیدرآباد دکن ، ملائشیا اور پاکستان میں بھی اس طرح کے انفرادی اور شخصی تجربات کئے گئے ۔ جن کی طرف گزشتہ صفحات میں اشارہ کیا جا چکاہے ۔
دوسرا مرحلہ: حکومتوں کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات
اسلامی بینکاری جب اپنے ابتدائی مراحل میں تھی تو مختلف اسلامی ممالک میں سرکاری رویہ آغاز میں سرد مہری اور غیر جانبداری کا تھا ۔ اور صورت حال یہ تھی حکمرانوں نے یہ طرز اپنایا ہوا تھا کہ بھائی دور سے جائزہ لو اگر کامیاب ہوگیا تواس کا سہرا اپنے سر لے لو ، اور اگر ناکام ہوجائے تو کہہ دوکہ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ نظام نہیں چل سکے گا ۔ بعد ازاں اسلامی حکومتوں نے اس نظام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس پر توجہ دی ، اس طرح رفتہ رفتہ یہ کام بڑے پیمانے پر ہونے لگا ۔ جس کے نتیجے میں دو اہم بینک وجود میں آئے ۔
1975(1)ء میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ترقیاتی بینک کا قیام ۔
1977(2)ء میں مکۃ المکرمہ میں اسلامی بینکوں کی بین الاقوامی یونین کا قیام عمل میں آیا ۔
تیسرا مرحلہ : بین الاقوامی نوعیت کے اقدامات
یہ مرحلہ اپنی نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے انتہائی اہم مرحلہ ہے کہ جب عالم اسلام کی دیرینہ خواہش تخیلات وتصورات سے نکل کر صفحہ عمل پر منتقل ہوئی اور پوری دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی بینکوں کی برانچیں قائم کردی گئیں ۔ جن میں سے چند ایک درجِ ذیل ہیں۔
♦ دبئی اسلامک بینک : جس کا قیام 1975ء ، میں متحدہ عرب امارات میں عملمیں آیا ۔ یہ بینک پہلا مکمل اسلامی بینک ہے ۔
♦ فیصل بینک ( سعودی عرب ) 1977ء
♦کویت فنانس ہاؤس ( کویت ) 1977ء
♦ بحرین اسلامک بینک 1979ء
♦ ابو ظہبی اسلامک بینک 1997ء [2]
نیز اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسلامی بینک وجود میں آئے اور عالم اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم اپنا لوہا منوایا ۔
چوتھا مرحلہ : جامع اقدامات :
ان اقدامات میں تمام کےتمام بینکاری سسٹم کی اسلامائیزیشن کی عملی جدوجہد تھی۔ تاکہ عالمِ مغرب پر یہ عیاں ہو کہ اسلامی اقتصادی نظام ہر جگہ ومقام اور ہر وقت کیلئے موزوں ہے ۔ اور اپنے واجبات کی ادائیگی کسی بھی دوسرے نظام کے مقابلے میں بہتر سے بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔ اس کاوش کے نتیجے میں بہت سے اسلامی ملکوں نے روایتی بینکاری نظام سے جان چھڑانےاور مالیاتی اداروں میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر خواہ کوشش کی ۔ جن میں پاکستان ، سوڈان ، وغیرہ شامل ہیں ۔ بہت سے مغربی ممالک کے بینکوں نے بھی اسلامی شاخیں کھولنے کا اعلان کردیا ۔ انہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں سن2008ءمیں ان بینکوں کی تعداد 396 تک جا پہنچی جو دنیا کے 53 ممالک میں قائم ہوئیں۔ اور ان بینکوں کےاثاثہ جات (Assets) 442 بلین ڈالر تھے۔ جبکہ وہ کمرشل بینک اور روایتی بینک جنہوں نے اسلامی شاخیں کھولی ہوئیں تھیں اور اسلامی پروڈکٹس فراہم کرتے تھے ان کی تعداد 320بینک تھی ۔ اور ان کےاثاثہ جات(Assets) 200 بلین ڈالر تھے۔ [3]
ارض پاکستان میں بلاسود بینکاری کے قیام کی کاوشیں
اسلامی بینکاری کے قیام اور استحکام کے لئے پاکستان بھی پیش پیش رہا ہے ۔ اور مختلف محاذوں پر سودی لعنت پر مبنی نظام سے خلاصی اور قرآن وسنت کے پیش کردہ معاشی اصولوں کی روشنی میں ایسے طریقہ کار کیلئے کاوشیں کی گئی ہیں کہ کسی طرح سود کی لعنت سے اس ملک کو پاک کیا جاسکے ۔ اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی کاوشیں لائق تحسین ہیں مگر ہم یہاں محض سرکاری سطح پر ہونے والی چند کاوشوں کا تذکرہ کریں گے ، جس سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اربابِ اختیار اسلامی معیشت کے اصولوں کو اپنانے میں کتنے مخلص ہیں ؟
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اسلامی معیشت کے اصولوں سے ہم آہنگ ایسا طریقہ کار وضع کرے جس سے سود ی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے ۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے ماہرین معاشیات اور بینکاری کے تعاون سے ایک عبوری رپورٹ نومبر1978ءمیں اور حتمی رپورٹ جون 1980ء میں پیش کی ۔
10 فروری 1979ء کو ملک کے تین مالیاتی اداروں ، نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ ، آئی سی پی میوچل فنڈ اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے سود کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جس پر یکم جولائی 1979ء کو عمل درآمد ہوا ۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا لب لباب یہ تھا کہ : بلاسود بینکاری نفع ونقصان کی بنیاد پر قائم ہوگی ،بینکوں کا بیشتر کاروبار مشارکت ومضاربت پر مبنی ہوگا اور اجارہ ، مرابحہ ، وغیرہ محض وقتی متبادل کے طور پر استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
1980ء کے آخر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تمام تجارتی بینکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ وہ 1981ء سے اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے ۔ اسٹیٹ بینک کے اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بینکوں نے پی ایل ایس اکاؤنٹ کے نام سے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی اور عندیہ دیا کہ رفتہ رفتہ پورے بینکاری نظام کو غیر سودی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا ۔
بلا سود بینکاری کے قیام کی ابتدا سے لیکر اسٹیٹ بینک کا حکم نامہ جاری ہونے اور تجارتی بینکوں کی عملداری تک جو جملہ پیش رفت ہوئی وہ محض اتنی تھی کہ مارک اپ کے نام پر سود کو ایک نئی شناخت دے دی گئی اس کے علاوہ اس میں کوئی کام نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بینک اسلامی نظام معیشت پر چلنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوا ۔ اہل علم نے اس تمام عمل کو ایک ڈھونگ اور اسلام کے نام پر شرمناک فریب ، اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کاوش قرار دیا ۔
’’ اسلامی نظریاتی کونسل نے جسٹس تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس منعقدہ 1983ء میں حکومت کو یاد دلایا کہ ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لئے حکومت نے 1979ء میں تین سال کی جو مدت مقرر کی تھی وہ دسمبر 1981ء میں ختم ہوگئی ہے ۔ لیکن ابھی تک سودی نظام کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ موجودہ سودی استحکام کا سبب بن رہے ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بارے میں جن حقائق کی نشاندہی کی ان میں سے چند یہ تھے :
(1) تجارتی بینکوں میں پی ایل ایس کھاتوں کے ساتھ ساتھ سودی لین دین بھی ہورہاہے ۔
(2) نفع ونقصان میں شرکت کے نظام کے تحت جو رقوم وصول کی جارہی ہیں انہیں مارک اپ نظام کے تحت استعمال میں لایا جا رہاہے ۔ مشارکت کے معاہدوں کی بہت سی شرائط شرعی احکام سے متصادم ہیں ۔
(3)سودی بنیاد پر جاری بچت اسکیموں کو سود سے پاک سرمایہ کاری کے مقابلے میں زیادہ پر کشش بنادیاگیاہے ، مثلاً خاص ڈیپازٹس پر شرح سود پندرہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کردی گئی ہے ۔
(4) حکومت اور حکومت کے زیر انتظام اداروں نے سود کا نام بدل کر اسے منافع کہنا شروع کردیا ہے ۔
(5)ایسے میعادی کھاتوں پر جن کا لین دین سود کی بنیاد پر ہے ۔ زکوٰۃ وضع کی جارہی ہے جس سے زکوٰۃ کا تقدس مجروح ہو رہاہے ۔
(6) نفع ونقصان میں شراکتی کھاتوں میں جمع ہونے والی رقم کس کاروبار میں لگائی جارہی ہے اس کاکوئی ذکر نہیں ہے نہ ہی منافع کے حساب کا طریقہ بتایا گیا ہے‘‘ ۔ [4]
اس کے بعد بھی سود کے خاتمے کے بہت سے وعدے کئے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔
1984ء میں ملک کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے قومی بجٹ کے موقع پر اعلان کیاکہ 1985ء میں ملک سود سے پاک ہوجائے گا اور یکم جولائی 1985ء کے بعد کوئی بینک سود کی بنیاد پر لین دین نہیں کرے گا ۔ اس حکم کے موجب اسٹیٹ بینک نے ایک اعلان تو جاری کردیا لیکن نہ اس میں بینکوں نے دلچسپی لی نہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے احکامات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا اور نہ خلاف ورزی پر کسی کی گرفت کی ۔ کسی واضح طریقہ کار اور ڈائریکشن کے نہ ہونے اور باز پرس میں مجرمانہ غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ تجارتی بینکوں نے مضاربہ مشارکہ ترک کرکے مارک اپ کا طریقہ اپنالیا ۔
تئیس چوبیس سال کی اس جدوجہد ، اجلاسوں ، سیمینارز ، قراردادوں ، وفاقی حکومت کے اعلانات کا نتیجہ محض یہ نکلا کہ ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے ترا حسن کرشمہ ساز کرے
سالوں پر محیط جدوجہدکو محض حیلہ سازی اور چور دروازوں کے ذریعے پانی میں بہا دیاگیا۔
2002ء میں پاکستان میں اسلامی بینکوں جنہیں دوسرے لفظوں میں بلا سودی بینک کہا جاسکتا ہے کو لائسنس دئے گئے جن میں سب سے پہلا لائسنس میزان بینک اور اس کے بعد البرکہ بینک کو دیا گیا ۔اس کے ساتھ ساتھ سودی بینکوں کو بھی اسلامی بینکاری کے نام پر علیحدہ شاخیں کھولنے کی اجازت مرحمت فرمادی گئی ۔ الغرض رطب و یابس کو یکجا کردیا گیا ۔ جس کا مقصد اسلام کے نام پر صارفین کی دولت کو سمیٹنا تھا۔ پاکستان میں اسلامی بینکوں کی ترقی کا تناسب دیکھا جائے تو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 2004ء کے اختتام تک اسلامی بینکوں کے اثاثے 44 بلین سے تجاوز کرچکے تھے ، اور ان میں ڈپازٹ کی مالیت 5.30بلین تھی ۔جولائی 2005ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں جو ایک نجی اکاؤنٹنسی فرم کے اسلامک بینکنگ ڈویژن کی مرتب کردہ تھی ، کہا گیا تھا کہ 2014ء کے اختتام تک پاکستان کے اسلامی بینکوں کے ڈپازٹس کی مالیت 780 بلین تک پہنچ جائے گی اور اس کی وسعت میں بحرین ، قطر اور کویت وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجائے گا ۔ تاہم پاکستان میں اسلامی بینکاری کا تناسب اس روایتی بینکاری کے مقابلے میں آٹھ فیصد ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے تخمینے کے مطابق 2020 ء تک یہ تناسب دس فیصد تک بڑھ جائے گا ۔ ‘‘ [5]
الغرض اسلامی بینکاری سسٹم کا آغاز جس جوش وجذبے سے ہوا تھا جس کے پیچھے یقیناً ان افراد کا اخلاص اور جذبہ کار فرما تھا جنہوں نے دن رات کی انتھک محنت کے بعد اس کی داغ بیل ڈالی تھی اتنی ہی تیزی سے یہ پروگرام رول بیک ہوگیا ۔ اسلامی بینکوں کی مقبولیت میں انتہا درجے کی تیزی سے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ بہت جلد انشاء اللہ یہ نظام اسلامی دنیا کو بالخصوص اور عالمی دنیا کو بالعموم روایتی بینکاری کے چنگل سے آزاد کرالے گا لیکن صد افسوس کہ بہت جلد یہ نظام انہی مغرب کے کارندوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگیا اور جس ظلم اور استحصال سے جان چھڑا نے کیلئے اس نظام کا آغاز کیا گیا تھا وہی ظلم واستحصال مزعومہ اسلامی بینکوں کا خاصہ بن گیا ۔
صحیح اسلامی بینکاری نظام کا قیام بہت ضروری ہے :
بعض ارباب علم ودانش مروجہ اسلامی بینکوں کے طرز عمل کو دیکھ کر ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام میں بینکاری سسٹم کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ رائے مبنی بر حقیقت نہیں ،بلکہ فرائض سے پہلو تہی اختیار کرنے اور حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے ۔
صحیح اسلامی بینکاری نظام کیوں ضروری ہے ؟
اس لئے کہ آج کے معاشی نظام میں بینکوں کی اہمیت روز افزوں ہے ۔بینکوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں :’’ بینکوں کی حیثیت موجودہ معاشی نظام میں نظام اعصاب کی ہے ۔ بینکوں ہی کے ذریعے پوری دنیا کی معیشت چل رہی ہے ۔ بینکوں ہی کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں فروغ پارہی ہیں ۔ بین الاقوامی تجارت کو جو ادارے کنٹرول کر رہے ہیں وہ بڑے بڑے بینک ہیں ۔ سرمایہ کار اور کاروبار کرنے والے فریق عامل کے درمیان رابطے کا سب سے مؤثر اور آسان ذریعہ بینکاری کا نظام ہے ۔ اگر بینک یہ کام نہ کریں تو نہ صرف بڑے بڑے سرمایہ داروں کے لیے ، بلکہ چھوٹی چھوٹی بچتیں رکھنے والوں کے لیے بھی ممکنہ فریق عامل تک پہنچنا اور فریق عامل کا انتخاب کرکے اپنا سرمایہ یا بچت اس کے کام یا منصوبہ میں لگانا تقریبا ناممکن ہے ۔ قابل اعتماد مضارب یا قابل اعتماد شریک کا حصول ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔ بینکوں کے ذریعے یہ کام بہت آسانی سے ہوجاتا ہے ۔
پھر عالمی سطح پر جو تجارتی اور اقتصادی سرگرمیاں ہیں مثلادرآمد وبرآمد کا نظام ہے ، مختلف ممالک کے آپس میں معاشی روابط ہیں ، تجارتی لین دین ہے ، ان سب کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا ادارہ موجود ہو جو اس پورے عمل میں رابطے کا فریضہ انجام دے ۔ رابطے کا یہ فریضہ بڑی حد تک بینک انجام دیتے ہیں اور بینکوں کے ذریعے یہ کام بہت آسانی سے ہوجاتا ہے ۔ پھر جو لوگ بین الاقوامی سطح پر لین دین کرنا چاہتے ہیں یا جن کا درآمد وبرآمد کا کاروبار ہوتا ہے ، ان کو مختلف ممالک کے قوانین سے واقفیت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ہر ملک کے ٹیکسوں کا نظام جاننا پڑتا ہے ۔ یہ مہارتیں حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ نہ ہر شخص یہ مہارتیں حاصل کرسکتا ہے ۔ پاکستان کے کسی شہر میں مثال کے طور پر سیالکوٹ یا گوجرانوالہ میں بیٹھا ہوا ایک تاجر جب جرمنی اور کینیڈا سے کوئی سامان منگوانا چاہتا ہے یا جاپان اور سنگاپور کا کوئی تاجر گوجرانولہ اور سیالکوٹ کا بنا ہوا سامان خریدتا ہے تو نہ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے تاجر کے لیے ممکن ہے کہ جرمنی ، جاپان اور دوسرے ممالک کے قوانین سے کما حقہ واقفیت حاصل کرے اور نہ یہاں بیٹھے بیٹھے وہاں کے ٹیکسوں کے نظام سے واقفیت حاصل کرنا آسان کام ہے ۔ بینکوں کے پاس یہ مہارتیں پہلے سے دستیاب ہوتی ہیں اور ان کی مدد سے یہ کام بہت آسانی کے ساتھ ہوجاتا ہے ۔ بینکوں کے کردار کو اگر ختم کردیا جائے اور یہ ذمہ داری کسی اور ادارے یا اداروں کے سپرد نہ کی جائے ، تو بین الاقوامی تجارت کا نظام چشم زدن میں درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ بین الاقوامی تجارت کا نظام درہم برہم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پوری دنیا کا نظام معیشت ، درآمد وبرآمد کا سارا سلسلہ چشم زدن میں زمین بوس ہوجائے ۔ [6]
مروجہ اسلامی بینکوں کا کردار ایک سوالیہ نشان ؟
صحیح اسلامی بینکاری کا قیام از حد ضروی ہے لیکن مروجہ اسلامی بینکاری پر تکیہ کرنا اور لوگوں کو یہ طفل تسلیاں دینا کہ یہ تو ایک نوزائیدہ نظام ہے اور رفتہ رفتہ بہتری کی طرف بڑھے گا یہ بات مبنی بر انصاف نہیں ۔ بلکہ یہ نظام اب بہتری نہیں ابتری کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ عجب نوزائیدہ ہے کہ ستر اسی سال میں جواں ہی نہیں ہوا !!!مروجہ اسلامی بینکاری کی حیثیت ایک پروڈیکٹ کی مانند ہے جو مارکیٹ کی طلب کے مطابق کام کر رہی ہے ۔ ابتدا میں اس نظام میں اتنی پیچیدگیاں نہیں تھیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ جیسےیہ نظام پھیلتا پھولتارہا ویسے ویسے اس کی اسلامیت بھی مشکوک ہونے لگی ۔
جن احباب نے اسلامی بینکوں کے سسٹم کو پڑھا ، ان کے طرز عمل وطریقہ تعامل کا گہرائی سے مطالعہ کیا ، اور اس نظام کے ارتقائی مراحل کا بغور مطالعہ کیاوہ یہ بات انتہائی وثوق سے کہتےہیں کہ اسلامی بینک بجائے اس کے کہ بہتر اور اچھانظام تشکیل دیں اور اپنی خامیاں دور کریں وہ کمرشل بینکوں کے ساتھ مداہنت اور میلان کی پالیسی پر قائم ہیں ۔
اسلامی بینکاری کی موجودہ صورت حال :
اسلامی بینکاری سسٹم سے واقفیت کے بعد ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی تأمل نہیں کہ اسلامی بینک مکمل طور پر شرعی احکامات کی پاس داری نہیں کرتے اور نہ ہی یہ خود کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میدان میں کئی دہائیوں کا تجربہ اس امر کا عینی شاہد ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ مروجہ اسلامی بینک قرآن کریم اور شریعت اسلامیہ کے متعین کردہ تین بنیادی مبادی کے حصول میں مکمل طور پر ناکا م ہوچکےہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا ۔کیونکہ صحیح اسلامی بینکاری کے قیام کے لئے ان تین بنیادی مبادی کا ہونا ضروری ہے ۔
(1)مال لوگوں کے گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنے اور بے وقوفوں اور کم عقل لوگوں کی شاہ خرچیوں اور فضول خرچیوں کا سبب نہ بنے ۔
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِيْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيٰمًا وَّارْزُقُوْهُمْ فِيْهَا وَاكْسُوْهُمْ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
النساء – 5
بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔
(2) مال صرف دولت مندوں کے ہاتھوں میں گردش کرتا نہ رہ جائے ۔
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ
الحشر – 7
تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے ۔
(3) معاشی نظام اور اس کی پالیسیاں عدل پر قائم ہوں ان میں ظلم کا شائبہ نہ پایا جائے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ
البقرۃ – 279
ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اگر بعینِ انصاف دیکھا جائے تو اسلامی بینکوں کے پاس ان تینوں مبادی کا فقدان ہے ۔ بینکوں کی شرائط ، کاروباری پالیسی ، اور پیکیجزدیکھنے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ غریب کو یہاں سے کچھ نہیں مل سکتا ۔ پھر رقوم کے تناسب سے ویٹ دینا، بینک کا خود کو کسی بھی متوقع خسارے سے بچانے کیلئے من مرضی کے ضوابط متعین کرنا ، صارفین کی رقوم میں اپنی صوابدید پر تصرف کرنا اور صارفین کو تما م معاملے سے بالکل بےخبررکھنا ،اپنے حصے کو زیادہ ویٹ دینا ، تاخیر پر بلا امتیاز محتاج وغیر محتاج کے صدقہ واجب کرنا یہ سب وہ معاملات ہیں جن کا شریعت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں اور تجربہ بھی اس امر کا شاہد ہے کہ محض نام بدل دئے گئے ہیں کام وہی ہیں ۔ موجودہ صورت حال میں اگر اسلامی بینکوں کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقی اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں تو یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
آج کی دنیا میں معیشت کا جو بنیادی مسئلہ ہے وہ غریب اور ضرورت مند کا استحصال ، بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ، اقتصادی نظام معیشت میں عدم توازن اور کساد بازاری ہے ۔ان تمام کی بنیادی وجہ معاشرےمیں مستقل بنیادوں پر ایک عادلانہ معاشی نظام کی عدم بحالی ہے ، لہذا معاشرے کی ترقی ایک مصنفانہ عادلانہ اور اخلاقی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں ہے جوکہ محض شریعت اسلامی سے ہی ممکن ہے ۔
اسلامی بینکوں میں جو اسلامی پروڈکٹس پیش کی جارہی ہیں وہ بنیادی طور پر چھ ہیں ۔
۱: مضاربہ ۲: مشارکہ : ۳ : مرابحہ ۴ : اجارہ ۵ : سلم ۶ : استصناع
المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر نے بفضل اللہ وتوفیقہ’’ اسلامی بینکاری شرعی میزان میں ‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں اکابر علماء کرام نے حاضر ہوکر مروجہ اسلامی بینکاری میں موجود سقم کی بخوبی نشاندہی فرمائی قارئین اس سیمینار کے تمام مقالہ جات المدینہ سینٹر کی ویب سائٹ (www.islamfort.com) سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں نیز البیان کی اس خصوصی اشاعت میں بھی مروجہ اسلامی بینکاری کی ان چھ کی چھ پروڈکٹس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور اس کی جملہ خامیوں کو واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی بینک جس طرز پر ان پروڈیکٹس کو استعمال کر رہے ہیں وہ ظلم واستحصال سے محفوظ نہیں ۔
ایک غلط فہمی :
لوگوں میں بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلامی بینک کیلئے صرف سود سے پاک ہونا ہی کافی ہے ۔ لیکن یہ غلط فہمی ہے اسلامی بینک کہلانے کے لیے اس کا صرف غیر سودی ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ تمام معاملات میں شرعی احکام کی پابندی ضروری ہوتی ہے ۔ چنانچہ ماہرین اسلامی بینکاری کی تعریف یوں کرتے ہیں :
المصرف الإسلامي هو : مؤسسة مالية مصرفية تزاول أعمالها وفق أحكام الشريعة الإسلامية .
’’ اسلامی بینک سے مراد بینکنگ سے متعلق ایسا مالیاتی ادارہ ہے جو اپنے معاملات شرعی احکام کے مطابق انجام دے ‘‘۔[7]
عرب دنیا کے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر عبد الرحمٰن یسری بینک کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: اسلامی بینک سے مراد بینکاری کا وہ ادارہ ہے جو اپنے تمام معاملات میں ، سرمایہ کاری کی تمام سرگرمیوں میں، اپنے انتظامی امور میں اسلامی شرعیت کے احکام کا مکمل التزام کرے ، شریعت کے مقاصد کی تکمیل کو اپنا ہدف سمجھے اور ایک مسلم معاشرے کی مالی اور مصرفی ضروریات کا اندرون ملک اور بیرون ملک اہتمام کرے۔ [8]
ڈاکٹررفیق یونس مصری اسلامی بینکاری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ بینک فقط حرام امور کے عدم ارتکاب سے مکمل اسلامی نہیں بن جاتا بلکہ اس کے مکمل اسلامی بننے کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے معاملات اپنی شرائط ، ارکان اور اختیارات کے لحاظ سے بھی شریعت کے احکام کے موافق ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی بینک وہ نہیں ہے جو صرف سود اور حرام امور سے اجتناب کرے بلکہ اسلامی بینک وہ ہے جو ممنوعہ امور کے ساتھ شرعی احکام کی بھی پابندی کرے ۔ ‘‘[9]
خلاصہ کلام یہ کہ : اسلامی بینکاری سسٹم کے قیام میں اہل علم ماہرین ِفن کی کاوشیں قابل ستائش ہیں ، جن کے پیچھے یقیناً للہیت اور جذبہ اخلاص کا بہت بڑا عمل دخل تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ نظام ایسے افراد کے ہاتھ چڑھ گیا جنہوں نے اس کے اسلامی تشخص کو محض اپنی دکان چمکانے اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کیلئے استعمال کیا ۔ اور کئی دہائیاں بیتنے کے بعد بھی اگر مروجہ اسلامی بینکوں کے کردار پر نظر ڈالی جائے کہ انہوں نے معاشرے سے ظلم، غربت، افلاس ، استحصال کے خاتمے کیلئے کیا کردار ادا کیا ہے تو جواب ندارد!
اس لئے اسلامی بینکاری کے ماہرین کیلئے بالعموم اور ان بینکوں میںمتعین کردہ شرعی ایڈوائزروں پر بالخصوص یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سسٹم کو مکمل طور پر شرعی خطوط پر استوار کریں، اور عبوری دور کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے باہر آکر معاشرے اور ملت کی بہتری کیلئے پالیسیاں ترتیب دیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان علماء کرام اور مفکرین ملت اسلامیہ کے کاندھوں پربھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر امت مسلمہ کی معاشی میدان میں رہنمائی کریں ۔اور ایک صحیح اسلامی بینکاری نظام متعارف کرائیں جس کی آبیاری شریعت مطہرہ کے رہنما اصولوں سے ہو ۔نیز محض معاشی نظام کو اسلامی بنانے کی نہیں بلکہ اس میدان میں کام کرنے والے عملے کی بھی اسلامی تربیت اور اسلامی مالیاتی اداروں میں اسلامی ماحول دینا بھی ضروری ہے ۔ آج کے اسلامی بینک دعویٰ تو اسلامی ہونےکا کرتے ہیں لیکن بینک کی عمارت میں داخل ہوتے ہی اس دعوے کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ غالب عملہ شرعی تعلیم وتربیت سے کورا ہوتا ہے خواتین ومردوں کا اختلاط اور بے پردگی سر عام ہے۔نمازوں کے اوقات میں بھی اسلامی بینک کا عملہ مصروف عمل ہوتا ہے جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو جب کسی فرد کو کوئی ادارتی یا ریاستی ذمہ داری سونپتے تو سب سے پہلے اس کی نماز چیک کرتے اور فرماتے کہ:
’’ إن أهم أموركم عندي الصلاة فمن حفظها وحافظ عليها حفظ دينه ومن ضيعها فهو لما سواها أضيع‘‘۔
ترجمہ: تمہارے معاملات میں میرے نزدیک سب سے اہم چیز نماز ہے جس نے اس کی پابندی کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا اور جس نے اسے ضائع کردیا تو وہ دیگر چیزوں کا سب سے زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا ۔
الغرض محض نظام کی نہیں بلکہ تہذیب وتطہیر نفس کی بھی ضرورت ہے مقصد صرف اسلامی مالیاتی نظام تشکیل دینا نہیں بلکہ پورے ادارے کی اسلامائزیشن ضروری ہے ۔
أعاننا اللہ علی ذلک انه ولی التوفیق
وصلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آله وصحبه أجمعین
[1] حاضرات معیشت وتجارت ، ص/ 376
[2] www.alukah.net
[3] www.biltagi.com
[4] روزنامہ جنگ کراچی اشاعت جمعرات15 نومبر 2012ء
[5] روزنامہ جنگ کراچی اشاعت جمعرات 15نومبر 2012ء
[6] محاضرات معیشت وتجارت ، ص 363، 364
[7] المصارف الإسلامية بين النظرية والتطبيق : ص 174للدكتور عبد الرزاق رحيم جدي
[8] بحوالہ : محاضرات معیشت وتجارت ص 374-375
[9] المصارف الاسلامیۃ : ص 8بحوالہ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ص 116