چونکہ لوگوں کے ما بین لین دین کے تمام معاملات میں مرکز و محور زَر ہی ہوتاہے، اس لئے ہر معاشی نظام میں زر اور اس کے متعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زَر کی اس اہمیت کے پیش نظر علماے اسلام نے بھی اپنی تحریری کاوشوں میں اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسلام کے قرونِ اُولیٰ میں قانونی زر سونے،چاندی کے سکوں (دنانیر و دراہم) کی شکل میں ہوتاتھا مگر دورِ حاضر میں تمام ممالک کے مالیاتی نظام کی اساس کاغذی کرنسی ہے، سونے چاندی کے سکے پوری دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہو تے۔ اسلامی نقطہ نظر سے زر کی حقیقت اور مروّجہ کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثیت کیاہے؟ ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں :
زرکی حقیقت
زَر کوعربی میں نَقْد کہتے ہیں اور مشہور لغت’’ المعجم الوسیط‘‘ میں نقد کا معنی یوں لکھا ہے:
’’النقد: (في البيع) خلاف النسيئة ويقال: درهم نقد: جيد لا زيف فيه (ج) نقود۔والعملة من الذهب أو الفضة وغيرهما مما يتعامل به وفن تمييز جيد الکلام من رديئه،وصحيحه من فاسده‘‘۔
’’خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو اُدھار نہ ہو ، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو’’درہم نقد‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی ’’نقد‘‘ کہتے ہیں ‘‘۔
فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے
—سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں ۔ چنانچہ فقہاء کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے’’النقدان‘‘ کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے ۔
—سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو’’ فُلُوْس ‘‘ کہتے ہیں ۔اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں ۔
—ہر وہ چیز جو بطورِ آلۂ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے،پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں ، بشرطیکہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو ۔عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔[3]
جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر)کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں :
’’إن للنقد ثلاث خصائص متی توفرت في مادة مَّا، اعتبرت هذه المادة نقدًا:
الأولیٰ: أن يکون وسيطا للتبادل
الثانية: أن يکون مقياسا للقيم
الثالثة: أن يکون مستودعًا للثروة
’’زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں ، وہ زر شمار ہو گا :
* ذریعۂ مبادلہ ہو
* قیمتوں کا پیمانہ ہو
* دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو۔[4]
بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے ،چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلّمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے ،چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مؤرخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے:
’’هممت أن أجعل الدراهم من جلود الإبل فقيل له إذا لابعير فأمسک‘‘۔
’’میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم ہوجائیں گے تو اس پراُنہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ‘‘۔[5]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’لو أن الناس أجازوا بينهم الجلود حتّٰی تکون لها سکة وعين لکرهتها أن تُباع بالذهب والورق نظرة‘‘
’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ‘‘۔[6]
یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے
ہیں ۔ علامہ ابن نجیم حنفی خراسان کے امیر غطریف بن عطاء کندی کی طرف منسوب’’ غطارفۃ‘‘ نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں :
’’وذکر الولوالجي أَن الزکاة تجب في الغطارفة إذا کانت مائتين؛ لأنها اليوم من دراهم الناس وإن لم تکن من دراهم النّاس في الزّمن الاول وإنما يعتبر في کل زمان عادة أهل ذلک الزمان‘‘.
’’ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی،کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں ۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے‘‘۔[7]
اس سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔
زَر صرف حکومت جاری کر سکتی ہے
اگرچہ شریعت نے زر کے انتخاب میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، لیکن زر جاری کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیا ہے کیونکہ مالیاتی لین دین کا مکمل نظام زر کی اساس پر ہی رواں دواں ہے اور اگرہرکس و ناکس کو حسب ِمنشا زر جاری کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے نہایت خطرناک اقتصادی اور معاشی حالات پیدا ہو جائیں گے۔چنانچہ کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
’’ولا يجوز لغير الإمام ضرب النقود لأن في ذلک افتياتا عليه ويحق للإمام تعزير من افتات عليه فيما هو من حقوقه،
وسواءً کان ما ضربه مخالفًا لضرب السلطان أو موافقا له في الوزن ونسبة الغش وفي الجودة حتی لو کان من الذهب والفضة الخالصين،
قال الإمام أحمد في رواية جعفر بن محمد: لا يصلح ضرب الدراهم إلا في دار الضرب بـإذن السلطان، لأن الناس إن رخص لهم رکبوا العظائم‘‘
’’امام کے علاوہ کسی کوکرنسی بنانے کی اجازت نہیں ،کیونکہ یہ اس پر ظلم ہے۔ اور امام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ جوشخص اس کا یہ حق سلب کرے، وہ اسے سزا دے خواہ اس کی بنائی ہوئی کرنسی خالص سونے چاندی کی ہی کیوں نہ ہو۔ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ درہم صرف حاکم وقت کی اجازت سے ٹکسال میں ہی بنائے جا سکتے ہیں ،کیونکہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو وہ بڑے مصائب میں مبتلا ہو جائیں گے‘‘۔[8]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ويکره أيضا لغير الإمام ضرب الدراهم والدنانير وإن کانت خالصة لأنه من شأن الإمام ولأنه لا يؤمن فيه لغش والافساد‘‘
’’امام کے علاوہ کسی کو درہم اور دینار بنانے کی اجازت نہیں چاہے وہ خالص ہی ہوں ،کیونکہ یہ امام کا حق ہے اور اس دوسرے کو اس لئے بھی اجازت نہیں کہ اس میں جعل سازی اور بگاڑ کا اندیشہ ہے ‘‘۔[9]
ثابت ہوا کہ اسلامی نقطہ نظر سے حکومت ِوقت کے علاوہ کسی کوکرنسی جاری کر نے کا اختیار نہیں ،کیونکہ اس طرح جعلی کرنسی وجود میں آ نے کاخدشہ ہے جوموجب ِفساد ہے۔
زر کی قدر مستحکم ہونی چاہئے
اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل ڈھانچہ عدل پرقائم ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان معاملات کو ممنوع قرار دیاہے جو عدل کے منافی ہیں ، چونکہ تمام مالی معاملات در حقیقت زرہی کے گرد گھومتے ہیں اورکسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زر کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی سے صاحب ِ حق کا متأثر ہونا یقینی ہے جو تقاضائے عدل کے خلاف ہے، اسی بناپر بعض مسلم مفکرین افراطِ زر کو بخس،تطفیف اورملاوٹ میں شمار کرتے ہیں ۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدرکومستحکم رکھے۔ چنانچہ الموسوعۃ الفقهيۃ میں مرقوم ہے :
’’من المصالح العامة للمسلمين التي يجب علی الإمام رعایتها المحافظة علی استقرار أسعار النقود من الانخفاض،
لئلا يحصل بذلک غلاء الأقوات والسلع وينتشر الفقر ولتحصل الطمأنينة للناس بالتمتع بثبات قيم ما حصلوہ من النقود بجهدهم وسعيهم واکتسابهم،لئلا تذھب هدرا ويقع الخلل والفساد ‘‘.
’’مسلمانوں کے مفاداتِ عامہ جن کا تحفظ امام کی ذمہ داری ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زر کی قیمتوں میں ثبات پیدا کرے تاکہ اس سے خوراک اور اشیا کی قیمتیں نہ بڑھیں اور غربت میں اضافہ نہ ہو۔ اور لوگ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کئے گے زر سے فائدہ اُٹھانے کے متعلق مطمئن ہوں تاکہ وہ زر رائیگاں نہ جائے اور خلل اور فساد واقع نہ ہو‘‘۔[10]
مشہور محدث امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والثمن هو المعيار الذي به يعرف تقويم الأموال فيجب أن يکون محدودًا مضبوطًا لايرتفع ولاينخفض إذ لو کان الثمن يرتفع وينخفض کالسلع لم يکن لنا ثمن نعتبر به المبـيعات بل الجميع سلع وحاجة الناس إلی ثمــن يعتبرون به المبيعات حاجــة ضرورية عامـة وذلک لا يمکن إلا بسعر تعرف به القيمة وذلک لا يکون إلا بثمن تقوم به الأشياء ويستمر علی حالة واحدة ولا يقوم هو بغيرہ إذ يصير سلعة يرتفع وينخفض فتفسد معاملات الناس ويقع الخلف ويشتد الضرر‘‘
’’زر ہی وہ معیار ہے جس کے ذریعے اموال کی قیمتوں کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ متعین اور کنٹرول میں ہو، اس کی مالیت میں اُتار چڑھاؤنہ ہو،کیونکہ اگر سامانِ تجارت کی طرح زَر میں بھی اُتار چڑھاؤ ہو تو ہمارے پاس اشیاء کی قیمت لگانے کے لئے کوئی ثمن (زَر) نہیں رہے گا بلکہ سب سامان ہی ہو گا، حالانکہ اشیاءکی قیمت لگانے کے لئے لوگ ثمن کے محتاج ہیں ۔اور یہ ایسے نرخ کے ذریعے ممکن ہے جس سے قیمت کی معرفت حاصل ہواور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب اشیاء کی قیمت لگانے کے لئے ایک ز ر ہو اور وہ ایک ہی حالت پر رہے۔ اور اس کی قیمت کا معیار کوئی دوسری چیز نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں وہ خود سامان (Commodity) بن جائے گا جس کی قیمت بڑھتی اور کم ہوتی ہے، نتیجتاً لوگوں کے معاملات خراب ہو جائیں گے، اختلاف پیدا ہوگا اور شدیدضرر لاحق ہو گا‘‘۔[11]
یعنی کرنسی ایسی ہونی چاہیے جس کی مالیت میں عام اشیاء کی طرح غیر معمولی کمی واقع نہ ہو بلکہ معقول حد تک مستحکم قدرکی حامل ہو ورنہ لوگ ضرر کا شکار ہوں گے۔
زر کی قدر میں استحکام کیسے لایا جا ئے؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان چلا آرہا ہے اور آج کل تو اس کی قدر بہت تیزی سے گر رہی ہے، اس کے برعکس سونے چاندی کی قوتِ خرید خاصی مستحکم ہے، بالخصوص سونے کی قوتِ خرید میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اگر کسی بحران یا سونے کے مقابلہ میں اشیاء وخدمات کی قلت کی بنا پر ایسا ہوا بھی تو کمی کا یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہا اور اس کے اسباب دور ہونے کے بعد صورت اس کے برعکس ہو گئی۔ اگر عہد ِرسالت میں سونے کی قوتِ خرید کااس کی موجودہ قوتِ خرید سے تقابل کیا جائے توکوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔بطورِ نمونہ دو مثالیں ملاحظہ ہوں :
قتل کی دیت سو اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہوں تو وہ ان کی قیمت ادا کر دے جو آپ ﷺکے دور میں آٹھ سو دینار مقرر تھی ۔
’’کانت قيمة الدية علی عهد رسول اﷲ صلی اللہ علیه و سلم ثمان مائة دينارٍ‘‘۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی‘‘۔[12]
اس کا مطلب ہے کہ عہد ِرسالت میں ایک اونٹ کی قیمت آٹھ دینار تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق شرعی دینار کا وزن 25.4گرام ہے ۔[13] اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک اونٹ کی قیمت 34گرام سونا بنی، آج بھی اتنے سونے کے عوض ایک اونٹ خریدا جاسکتا ہے۔ اگرچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ گراں ہونے پر دیت کی قیمت آٹھ سو سے بڑھا کر ہزار دینار کر دی تھی، مگر آج کل ایک سو اونٹ خریدنے کے لئے آٹھ سو دینار یعنی 3400 گرام سونا کافی ہے ۔
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
’’أَعْطَاهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیه وسلم دِينَارًا يشْتَرِي بهِ أُضْحِيةً أَوْ شَاةً فَاشْتَرٰی شَاتَينِ فَبَاعَ إِحْدَاهما بِدِينَارٍ فَأَتَاهُ بِشَاةٍ وَدِينَارٍ‘‘.
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دینار دیا تا کہ وہ اس سے ایک قربانی یا ایک بکری خریدے۔ اُنہوں نے دو بکریاں خرید لیں ،پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے‘‘ ۔[14]
یعنی عہد ِ رسالت میں 25.4 گرام سونے کے عوض ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، آج بھی سونے کی قوتِ خرید یہی ہے۔
ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد ِرسالت سے لے کر اب تک سونے کی قدر میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی، اگر کسی دور میں ایسا ہوا بھی تو بعد میں معاملہ اُلٹ ہو گیا ۔البتہ اس عرصہ کے دوران سونے کی نسبت چاندی کی قوتِ خرید میں کافی کمی آئی ہے:
عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دس درہم (تقریباً تیس گرام) چاندی سے ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں اونٹوں کی زکوٰۃ کے ضمن میں یہ بیان ہواہے :
’’مَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ مِنَ الإِبِلِ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ، وَلَيسَتْ عِنْده جَذَعَةٌ وَ عِنْده حِقَّةٌ، فَإِنَّهاَ تُقْبَلُ مِنهُ الْحِقَّةُ وَيجْعَلُ مَعهَا شَاتَينِ إِنِ اسْتَيسَرَتَا لهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرهَما‘‘.
’’جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ میں جذعہ (چار سالہ اونٹ) فرض ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو تو اس سے تین سالہ اونٹ قبول کر لیا جائے گااور وہ ساتھ دو بکریاں اگر آسانی سے میسر ہوں دے گا یا بیس درہم‘‘۔یعنی ایک بکری کے بدلے دس درہم۔[15]
لیکن آج کل اتنی چاندی میں ایک بکری نہیں خریدی جاسکتی۔ تاہم اس کمی سے اس قسم کے تباہ کن معاشی حالات پیدا نہیں ہوتے رہے جن سے لوگ کاغذی کرنسی کی وجہ سے دوچار ہیں ۔ اس لئے ماہرینِ معیشت کی رائے میں کاغذی کرنسی کی قدر میں ہوش ربا تغیر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہنگائی کے طوفانوں کا ایک ہی حل ہے کہ مالیاتی لین دین کی بنیاد سونے ،چاندی کو بنایا جائے۔ چنانچہ آج کل پوری دنیا میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دوبارہ سونے،چاندی کے سکوں کا نظام رائج کیاجائے۔
ابن مقریزی کے نزدیک بھی نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کا حل یہی ہے کہ ازسرنو ’’معیاری قاعدہ زَر ( Gold Specie Standard)‘‘کا اِجرا کیا جائے۔ چنانچہ کویت کے فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ان کی رائے یوں درج ہے:
’’نرخوں میں افراتفری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی موجوں کا علاج صرف یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے زر کے استعمال کی طرف لوٹا جائے‘‘۔
ان کے دور میں افراطِ زر کا جو بحران پیدا ہوا تھا، ان کی نظر میں اس کا ایک سبب سونے کی جگہ معدنی سکوں سے لین دین تھاجس سے قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں ۔ چنانچہ وہ اس پر روشنی ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے دیں جن کے سپرد اس نے اپنے بندوں کے اُمور کر رکھے ہیں یہاں تک کہ وہ لین دین کو سونے کی طرف لے جائیں اور سامان کی قیمتوں اور اُجرتوں کو دینار اور درہم سے وابستہ کر دیں تو اس سے اُمت کا بھلا اور اُمور کی اِصلاح ہو گی‘‘۔ [16]
جبکہ جدیدماہرینِ معیشت کے نزدیک حکومت کا حقیقی پیداوار کو نظر انداز کرکے نوٹ چھاپنا، اشیاء و خدمات کی طلب و رسد کے درمیان عدمِ توازن،اِسراف و تبذیر،تاجروں میں ناجائز منافع خوری کا رجحان اوراشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو کرنسی کی قدر میں عدمِ استحکام پیدا کرتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کر کے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سونے ،چاندی کے سکے لازمی شرعی تقاضا نہیں ، علاوہ ازیں سونے، چاندی کے سکوں کی پابندی ریاست کے لئے غیر ضروری زحمت کا موجب بھی بن سکتی ہے، ممکن ہے ریاست کے پاس سکے بنانے کے لئے سونے چاندی کے وسیع ذخائر موجود نہ ہوں ۔ البتہ جب افراط زر کامسئلہ سنگین صورت اختیار کرجائے تو اس وقت اس کا کوئی معقول حل ہونا چاہئے جیسا کہ علما کی فقہی آراء گزر چکی ہیں ۔
زَر : اقسام ، تاریخ اور احکام
زَر کی دو قسمیں ہیں : حقیقی،اعتباری
حقیقی زر کااطلاق سونے،چاندی پر ہوتا ہے۔ سونے چاندی کے علاوہ زر کی باقی تمام اقسام خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ’’اعتباری زر‘‘ کہلاتی ہیں ۔سونے چاندی کو حقیقی زر اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کی قوتِ خریدفطری ہے، اگر بحیثیت ِ زر ان کا رواج ختم بھی ہوجائے تب بھی باعتبارِ جنس ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے ۔جبکہ اگر اعتباری زر کی زری حیثیت ختم ہو جا ئے تو سونے چاندی کی طرح اس کی افادیت باقی نہیں رہتی۔سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت کا فلسفہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ زَر ہیں۔
زر اور کرنسی میں فرق
کرنسی کے مقابلے میں ’’زر‘‘ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، کیونکہ اس میں کرنسی کے علاوہ دوسری اشیاء بھی شامل ہیں جن کو معاشرے میں آلہ مبادلہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کرنسی کا اطلاق صرف کاغذی زر پر ہوتا ہے ۔اسی طرح کرنسی کو ادائیگیوں کے لئے قانونی طور پر قبول کرنا لازم ہوتا ہے جبکہ عام زر میں یہ پابندی نہیں ہوتی۔ تاہم اس اعتبار سے دونوں ایک ہیں کہ زر کی طرح کرنسی بھی آلہ مبادلہ کی حیثیت سے استعمال ہونے کے علاوہ اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرتی اور قابل ذخیرہ ہوتی ہے۔
کرنسی کی تاریخ
سونے ،چاندی کے بحیثیت ِزر استعمال ہونے سے قبل دنیامیں ’’زرِبضاعتی‘‘یا ’’اجناسی زر‘‘(النقود السلعيۃ)کا نظام رائج تھا۔ اس سسٹم کے تحت ہرخطے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں مقبول اور قیمتی شمار ہونے وا لی اشیاء کو زر کا درجہ دیا۔بعض علاقوں میں چاول بعض میں چمڑااوربعض میں چائے زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ معروف سعودی عالم جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
’’اس نظام میں یہ طے پایا کہ ایسی اشیا کوزرِ بضاعتی قرار دیا جائے جن میں حسابی وحدت، قیمتوں کی یکسانیت، بحیثیت ِمال جمع کئے جانے کی استعداد اور قوتِ خرید موجود ہو۔ یہ اشیاء نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں مثلاً ساحلی علاقہ جات میں موتیوں کو بطورِ ثمن (زر)استعمال کیا گیا۔ سرد علاقوں میں پشم کو ثمن ٹھہرایا گیا۔جبکہ معتدل موسم کے حامل ممالک میں آباد لوگوں کی خوشحال زندگی اور آسودہ حالی کی بنا پر خوبصورت اشیاء (مثلاً قیمتی پتھروں کے نگینے ،عمدہ لباس، ہاتھی کے دانت اورمچھلیوں وغیرہ)کو کرنسی قرار دیا گیا۔ جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چاول کو بطورِ کرنسی استعمال کیا گیا جبکہ وسط ِایشیا میں چائے، وسطی افریقہ میں نمک کے ڈلوں اور شمالی یورپ میں پوستین کو کرنسی قرار دیاگیا‘‘۔[17]
رومی بادشاہ جولیس سیزر (دورِ حکومت 60تا 44ق م)کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج کو تنخواہ نمک کی شکل میں ملتی تھی۔ نمک کو لاطینی میں ’’سیل‘‘کہتے ہیں ، اسی سے لفظ Salary نکلا ہے جس کامعنی ’’تنخواہ‘‘ ہوتا ہے۔
چونکہ اشیاء ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ نظام مستقل جاری نہ رہ سکا۔لوگوں نے اس کی جگہ سونے چاندی کا استعمال شروع کردیا۔ابتدا میں سونے چاندی کے وزن کا ہی اعتبار ہوتا تھا۔سکوں کا رواج بعد میں شروع ہو ا۔سکے کب وجود میں آئے؟اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ قرآنِ مجید سے یہ پتہ چلتاہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے دور میں دراہم موجود تھے، کیونکہ ان کے بھائیوں نے اُنہیں دراہم کے عوض بیچاتھا :
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
یوسف – 20
’’اُنہوں نے اس کو انتہائی کم قیمت، جو گنتی کے چند درہم تھے، کے عوض فروخت کر دیا۔‘‘
واضح رہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کا دور 1910 تا 1800ق م ہے۔
اسی طرح کہتے ہیں کہ سونے کا سکہ سب سے پہلے لیڈیاکے بادشاہ کروسس (دورِ حکومت: 560تا541 ق م) نے متعارف کرایا۔
عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنسی
بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے۔
—درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کوبرقرار رکھا۔ یہ دراہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لئے جب نصابِ زکو ۃ کے لئے درہم کا وزن مقررکرنے کی نوبت آئی تومسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا۔ ایک قول کے مطابق یہ کام عمررضی اللہ عنہ کے دور میں جبکہ
دوسرے قول کے مطابق بنواُمیہ کے دور میں ہوا۔جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا۔لیکن فقہاء اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن975.2 گرام چاندی ہے۔[18]
—اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفائے راشدین اور سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو اُنہوں نے زمانۂ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ’’شرعی دینار‘‘ کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا۔[19]
—معمولی اشیاء کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں فُلُوْس کہاجاتا ہے، بھی استعمال ہوتے ۔ جیسا کہ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلْمُفْلِس کالفظ آتا ہے۔ شارحِ بخاری حافظ ابن حجر اپنی مایہ ناز تالیف ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’شرعی معنوں میں ’’مفلس‘‘وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہوجائیں ۔ اسے مفلس اس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم و دینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس کو فلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہو تا ہے، کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیا کا لین دین ہی کرتے تھے‘‘۔ 3
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی فُلوس کا تذکرہ موجود ہے :
’’فَأَمَرَهاَ أَنْ تَشْتَرِیَ بهِ فُلُوسًا‘‘
’’اُنہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کے بدلے ’’فلوس‘‘خرید لو‘‘۔
سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعدبھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیاء زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں ۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتاتھا،چنانچہ وہ لکھتا ہے :
’’سوڈان میں نمک بطورِ روپیہ کے چلتا ہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیتے ہیں اور ان کے ذریعے خریدو فروخت ہوتی ‘‘۔ [20]
پھرمختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کا رواج ختم ہوتا چلا گیااور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیامیں کرنسی نوٹوں کا ہی دور دورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعۂ مبادلہ ہے ۔
نوٹ کب ایجاد ہوئے؟
کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے 650ء سے 800ء کے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی نوٹوں کی اشاعت کا تصور دیا ۔ اسی لئے کاغذکی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کرنسی نوٹ910ء میں چین میں ایجادہوئے ۔ [21]
ابن بطوطہ جو 1324ء سے1355ء کے درمیان چین کی سیاحت پر گیاتھا، چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے :
’’اہل چین درہم یادینار کے ذریعہ سے خرید وفروخت نہیں کرتے بلکہ سونے اور چاندی کو پگھلا کر ان کے ڈلے بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعہ سے خرید وفروخت کرتے ہیں ۔ یہ کاغذ کاٹکڑاکفدست(ایک بالشت)کے برابر ہوتاہے اور بادشاہ کے مطبع میں اس پر مہر لگاتے ہیں ۔ ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ دینار کے معنی میں مستعمل ہوتاہے ۔ جب یہ کاغذ کثرت استعمال سے یا کسی اور طرح پھٹ جاتاہے تو وہ دارالضرب میں لے جاتے ہیں اور اس کے عوض نیا لے آتے ہیں ۔ یہ دارالضرب ایک بڑے درجہ کے امیر کی تحویل میں ہے۔ جب کوئی شخص بازار میں درہم یا دینار لے کر خرید وفروخت کرنے جاتاہے تو وہ درہم یا دینار نہیں چلتے، لیکن وہ درہم یا دینار کے عو ض یہ کاغذ لے سکتاہے اور ان کے عوض جو چیز چاہے خرید سکتا ہے‘‘۔
مشہورمؤرخ ابن مقریزی جب بغداد گئے تھے تواُنہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیاتھا۔[22]
چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے ۔یورپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ 1661ء کو’’سٹاک ہام بینک‘‘ آف سویڈن نے جاری کیا۔ انگلینڈ نے 1695ء میں کرنسی نوٹ جاری کئے۔ہندوستان میں پہلا نوٹ 5جنوری1825ء کو ’’بنک آف کلکتہ‘‘ نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر 1948ء کو جاری کئےگئے ۔
ابتداء میں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ1971ء سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے۔
کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت
اب نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس بارے میں علماء کی مختلف آرا ہیں :
پہلی رائے یہ ہے کہ نوٹ اصل میں اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ حاملِ نوٹ نے اس نوٹ کےجاری کنندہ سے اتنا سونا یا چاندی وصول پانا ہے۔ اس کے حق میں سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نوٹ پر یہ ا لفاظ تحریر ہوتے ہیں:
’’حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا‘‘۔
اس رائے کے مطابق نوٹوں کے ساتھ سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، کیونکہ نوٹ کے ساتھ خریداری کا مطلب حقیقت میں اس سونے یا چاندی کے ساتھ خریداری ہے جو اس نوٹ کی پشت پرہے اور شرعی اعتبار سے سونے کی سونے یا چاندی کی سونے کے ساتھ بیع میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے جو یہاں مفقود ہے، کیونکہ خریدار نے سونے کے بدلے سونا نہیں دیا بلکہ اس کی رسید دی ہے ۔چنانچہ تفسیر’’اضواء البیان ‘‘کے مصنف علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
’’وأنها سند بفضة وأن المبيع الفضة التي هي سند بها ومن قرأ المکتوب عليها فَهم صحة ذلک، وعليه فلا يجوز بيعها بذهب ولا فضة ولو يدًا بيد لعدم المناجزة بسبب غيبة الفضة المدفوع سندها‘‘۔
’’یہ نوٹ چاندی کی رسید ہیں اور بیچی گئی چیز وہ چاندی ہے جس کی یہ رسید ہیں ۔جو ان پر لکھی عبارت پڑھے گا وہ اس رائے کا درست ہونا سمجھ جائے گا۔اس رائے کے مطابق نوٹوں کی سونے چاندی کے بدلے بیع چاہے نقد ہوجائز نہیں ، کیونکہ جس چاندی کی رسید دی جاتی ہے وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے موقع پر قبضہ کی شرط نہیں پائی جاتی‘‘۔[23]
جس طرح اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، اسی طرح نوٹوں کے ساتھ مشارکہ یا بیع سلم درست نہیں ، کیونکہ اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹ دَیْن (Debt)کی رسید ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شراکت اور سلم میں سرمایہ نقد ہونا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ رائے اختیار کرکے ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ (منی چینجر کا کاروبار) بھی نہیں ہوسکتا،کیونکہ یہ سونے کے بدلے سونے کی اُدھار اور کمی بیشی کے ساتھ بیع ہو گی جو شرعاًدرست نہیں ۔
مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اب نوٹ قرض کی رسید نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہو ا ہے بلکہ اب یہ خود قانونی زر بن چکا ہے اور ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ حکومت کوئی بھی چیزبطورِ زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت ’’حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا‘‘۔کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دار ہے ۔ جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک فرماتے ہیں :
’’نوٹ رسید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ گم یا تلف ہو جائے تو اس کا مالک جاری کنندہ سے مطالبہ نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس ہزار گواہ ہوں اور اگر یہ حقیقی رسید ہوتا تو اس کو ضروریہ اختیار ہوتا، کیونکہ قرض مقروض کے ذمے ہوتا ہے، رسید تلف ہونے سے ضائع نہیں ہوتا‘‘۔[24]
بعض نامور علما کے نزدیک نوٹ بذاتِ خود سامان(جنس) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مشہور مالکی فقیہ علیش مصری کی بھی یہی رائے ہے ۔علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’وممن أفتٰی بأنها کعروض التجارة العالم المشهور عليش المصري صاحب النوازل، وشرح مختصر خليل، وتبعه في فتواہ بذلک کثير من متأخري علماء المالکية‘‘
’’جن حضرات نے ان کے سامانِ تجارت ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں ’’نوازل ‘‘اور ’’شرح مختصر خلیل ‘‘کے مصنف مشہور عالم علیش مصری بھی شامل ہیں ۔ بعد کے اکثرمالکی علماء نے بھی ان کے فتویٰ کی پیروی کی ہے‘‘۔[25]
اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نوٹ قیمت بننے کی صلاحیت سے عاری ہے، کیونکہ یہ نہ سوناہے اور نہ چاندی، یہ تو سامان کی مانندہیں ۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نوٹ کا دو نوٹوں کے ساتھ تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح اس نظریہ کے مطابق نوٹوں میں زکوٰۃ اسی صورت واجب ہو گی جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو ۔یعنی بذات خود ثمن کی بجائے نوٹ سامانِ تجارت قرار پاسکتاہے۔مزید برآں ا س قول کی بنیاد پر نوٹ سے مضاربہ اور بیع سلم بھی جائز نہیں بنتی، کیونکہ یہ قیمت نہیں ، سامان ہے۔چونکہ یہ نظریہ خطرناک نتائج
کا حامل ہے، اس لئے عصر حاضر کے اہل علم اس کی تائید نہیں کرتے۔
تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں ۔ اگراس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو توچاندی کامتبادل ہو گا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
’’ اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی، کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زرِ ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد ِشرعیہ کاتعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ الفاظ اور ان کی بناوٹ سے‘‘۔ [26]
اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہوں گے اور جب یہ دو سو درہم چاندی یا بیس دینار سونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پرزکوٰۃ بھی واجب ہوگی۔اسی طرح ان کے ذریعے بیع سلم بھی درست ہو گی۔
لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے، کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یاچاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں ۔ چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی خود تردید کرتے ہیں :
’’یہ نظریہ بھی حقیقت ِواقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں ،کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں۔ بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر ،زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ، ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جنہیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔ لہٰذا یہ نظریہ خلافِ واقعہ ہونے کی بنا پر بہت کمزور ہے‘‘۔ [27]
نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں (فلوس ) کی طرح اصطلاحی زر ہیں جیسا کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے لکھا ہے :
’’الرابع ما هوسلعة بالأصل وثمن بالاصطلاح کالفلوس… إلی أن قال إذا علمت هذا فالنوط هو من القسم الرابع سلعة بأصله لأ نه قرطاس وثمن بالاصطلاح لأنه يعامل به معاملة الأثمان‘‘
’’مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تومال ہے، لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں …جب یہ معلوم ہوگیا تو، سنو نوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے، کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیاجاتاہے‘‘۔
لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہاء نہ توکمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں رأس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں ۔نیزان میں زکوٰۃبھی اسی صورت واجب قرار دیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ جیساکہ الموسوعۃ الفقهيۃمیں ہے :
’’الأصح عند الشافعية والصحيح عند الحنابلة وهو قول الشيخين من الحنفية وقول عند المالکية: أنها ليست أثمانا ربوية وأنها کالعروض‘‘
’’امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف رحمہم اللہ اورمالکی فقہاء کاقول ،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں کاصحیح ترین نقطہ نظر یہی ہے کہ دھاتی سکوں میں ربا نہیں ہے بلکہ یہ سامان کی طرح ہیں ‘‘۔[29]
’’ذهب جمهور الفقهاء: أبو حنيفۃ وأبو يوسف والمالکية علی المشهور و الشافعية والحنابلة إلی أن المضاربة لا تصح بالفلوس لأن المضاربة عقد غرر جوز للحاجة فاختص بما يروج غالبًا وتسهل التجارة به وهو الأثمان‘‘.
’’امام ابو حنیفہ ،ابویوسف ، مالکی(مشہور مسلک کے مطابق) شافعی اور حنبلی فقہاء کا خیال ہے کہ دھاتی سکوں کے ذریعے مضاربہ درست نہیں کیونکہ مضاربہ عقد ِ غرر ہے جو ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ انہی چیزوں کے ساتھ خاص رہے گاجو اکثر مروّج ہوں اور ان کے ساتھ تجارت آسان ہو اوروہ نقد میں ہیں ‘‘۔یعنی دھاتی سکے زر نہیں ۔[30]
”فذھب الشافعية و الحنابلة إلٰی أن الفلوس کالعروض فلا تجب الزکاة فيها إلا إذا عرضت للتجارة‘‘۔
’’شافعی اور حنبلی فقہاء کی رائے میں دھاتی سکے سامان کی طرح ہیں ، چنانچہ ان میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب یہ تجارت کی غرض سے ہوں ‘‘۔[31]
ان فقہاء کے نقطہ نظر کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی حدیث میں دھاتی سکوں کی زکوٰۃکا تذ کرہ نہیں ملتا حالانکہ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ موجود تھے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اگر یہ زر ہوتے تو سونے چاندی کی طرح ان کی زکوۃ کا بھی ذکر ہوتا۔ سیدنا ابو ذرضی اللہ عنہ کی اس روایت کہ انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا: ’’اس کے فلوس خرید لو‘‘۔سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں ، اسی لئے وہ ان میں زکوٰۃ بھی واجب قرار دیتے ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ی حیثیت ختم کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اوران حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہو تا ہے۔
ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہاء کی نظر میں دھاتی سکے( فلوس) یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں ، اسی لئے وہ ان سے زرکاوصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔جو صورت بھی ہو بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ نہ تودھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلوغالب ہے۔ یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں، ان کی جو حیثیت بھی ہے، وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کااختیار ہے، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں ۔
اس سلسلہ میں پانچویں اورآخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے، کیونکہ نوٹوں میں زر کی تما م صفات پائی جاتی ہیں ۔ قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں ۔ شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کر آئے ہیں :
’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا‘‘ ۔
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطور زر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
’’أما الدرهم والدينار فما يعرف له حد طبعي ولا شرعي بل مرجعه إلی العادۃ والاصطلاح وذلک لأنه في الأصل لايتعلق المقصود به بل الغرض أن يکون معيارًا
لما يتعاملون به والدراهم والدنانير لا تقصد لنفسها بل هي وسيلة إلی التعامل بها ولهٰذا کانت أثمانا بخلاف سائر الأموال فإن المقصود الانتفاع بها نفسها
فلهٰذا کانت مقدرة بالأمور الطبعيـة أو الشرعيـة والوسيلـة المحضـة التـي لا يتعلـق بهــا غـرض لا بمادتها ولا بصورتها يحصل بها المقصود کيف ما کانت‘‘۔
’’اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصطلاح سے ہے، کیونکہ درہم و دیناربذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں ۔ اسی لئے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اَموال سے فائدہ اُٹھانا مقصود ہوتا ہے، اس لئےان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی ہو اس سے مقصود حاصل ہوجاتاہے‘‘ ۔[32]
چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں ، اس لئے دور حاضر کے علماء کی اکثریت وبیشترمفتیانِ کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قرار دادیں اسی کے حق میں ہیں ۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔ [33]
سعودی کبار علماء کی مجلس نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔[34]
جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک بھی اسی قول کے حق میں ہیں ۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آرا ء اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’کاغذی زر کے متعلق علما کی آرا ء اور ہر ایک کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے اَحکام جاری ہوتے ہیں۔ ربا، سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے‘‘۔[35]
دیگر اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کومشکل میں ڈال دیں گے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کر دیں گے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دیں گے اور نقدین کی زکوٰۃ ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولیں گے‘‘۔[36]
[1] یخ الحدیث ابو ہریرہ اکیڈمی، لاہور
[2] ص 944
[3] الموسوعۃ الفقهيۃ:41173
[4] مجلۃ البحوث الإسلاميۃ: عدد1، ص
[5] 200 فتوح البلدان: ج3،ص578
[6] المدونۃ الکبری: التأخير في صرف الفلوس
[7] البحر الرائق: باب زکوٰۃ المال
[8] 1الموسوعۃ الفقهيۃ:ج41ص178،179
[9] المجموع:ص611
1ص41196،197
[11] اعلام الموقعين:2:156
[12] سنن أبی داؤد:کتاب الدیات، باب الدیۃ کم ھي ؟ (صحیح لغیرہ)
[13] دیکھیے :الموسوعۃ الفقھيۃ:2129
[14] سنن أبی داؤد:کتاب البیوع، باب فی المضارب یخالف، (صحیح)
[15] صحيح بخاري:کتاب الزکوٰۃ، باب من بلغت عندہ صدقہ بنت مخاض و لیست عندہ
[16] الموسوعۃ الفقھيۃ :48،49
[17] کاغذی کرنسی کی تاریخ ، ارتقا اورشرعی حیثیت : ص 10
[18] الموسوعة الفقهية:20249
[19] ايضاً3 5: 79 4مسند احمد بن حنبل:مسند الأنصار، حدیث ابی ذر(صحیح)
[20] فر نامه ابن بطوطه:2؍270
[21] الأوراق النقديۃ في الاقتصاد الإسلامي:ص 115
[22] الموسوعۃ الفقهيۃ 41:176،178
[23] اضواء البیان ج1، ص 207
[24] الربا والمعاملات المصرفيۃ في نظر الشريعۃ الإسلاميۃ ص321
[25] اضواء البیان:ج1 ص720
[26] کاغذی کرنسی کی تاریخ :ارتقا اورشرعی حیثیت: ص
[27] أيضاً: ص61
[28] کفل الفقیہ الفاھم فی أحکام قرطاس الدراھم:ص33
[29] 32:205
[30] الموسوعۃ الفقهيۃ: 3846،47
[31] ايضا:205،32
[32] 19:251،252
[33] کاغذی کرنسی کی تاریخ،ارتقاء اورشرعی حیثیت: ص90
[34] مجلۃ البحوث الإسلاميۃ:ع1:ص221
[35] الربا والمعاملات المصرفيۃ في نظر الشريعۃ الإسلاميۃص339
[36] حوالہ مذکورہ