انٹرویو
عمر فاروق بن مظفر اقبال.
متخرج مرکز ستیانہ، فیصل آباد
نام ونسب، پیدائش اور خاندانی پس منظر
سوال: شیخ محترم اپنے نام و نسب اور پیدائش کے بارے بتلائیں؟
جواب: قاضی سیلمان منصورپوری رحمہ اللہ کے استاد مولانا عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ کو ریاست پٹیالہ کی طرف سے رقبہ ملا تھا۔ انہوں نے وہاں اپنے مویشیوں کے لیے باڑہ بنایا، اپنی رہائش بھی وہیں بنالی اور آپ کے بیٹے بھی وہاں آباد ہوگئے جو آہستہ آہستہ مکمل گاؤں میں تبدیل ہوگیا۔ مولانا عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ نے اس کا نام عزیز آباد رکھا۔ مگر وہ لوگوں میں رشیداں والا کے نام سے مشہور ہوا۔ اور سرکاری کاغذات میں بھی رشیداں والا کے نام سے ہی مندرج ہے۔ میری پیدائش اسی گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان دنوں لوگوں میں بکرمی سن زیادہ چلتی تھی۔ والدہ محترمہ نے بھی بکرمی تقویم کو یاد رکھا جو عیسوی حساب سے 1937 بنتا ہے۔ میری پیدائش سے ستر اسی برس پہلے یہ گاؤں آباد ہوا تھا اور میری پیدائش کے وقت یہ دوسو گھرانوں پر مشتمل تھا۔والدین نے میرا نام محمد رفیق رکھا تھا۔ جب تعلیم و تعلم میں قدم رکھا تو اثری کا اضافہ میں نے خود کیا۔ہمارے آباء میں سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا انکا طیب تھا۔ ہمارا اسلام میں نسب نامہ کچھ یوں ہے:
محمد رفیق بن قائم دین بن علی شیر بن فریدو بن طیب
میرے دادا فریدو اپنا پرانا مسکن چھوڑ کر رشیداں والا آئے تھے۔
سوال:آپ کے کتنے بھائی ہیں؟
جواب:ہم تین بھائی تھے۔ ایک کا نام رحمت اللہ دوسرے کا نام سلیم اور تیسرا میں ہوں۔ وہ دونوں فوت ہو چکے ہیں۔ صرف میں ہی زندہ ہوں۔
سوال : آپ کے والد گرامی اور بھائیوں کی کیا مصروفیات رہی ہیں ؟
جواب:میرے والد محترم نے ادھر شہر میں پرچون کی دکانداری کی تھی۔مجھ سے بڑا بھائی محمد سلیم یہاں پڑھتا تھا۔ کل آٹھ کلاسیں ہیں، اس نے سات پڑھی تھیں، ایک سال رہ گیا تھا کہ خاندانی ضروریات کی وجہ سے اسکی شادی ہوگئی اور وہ کاروبار میں چلا گیا۔ والد محترم کی دکان بھائی نے سنبھال لی اور یہ پرچون کی دکان بعد میں کپڑے کی دکان میں تبدیل ہو گئی۔ بڑا بھائی رحمت اللہ جب ہندوستان سے آئے تھے اس وقت اس کی عمر پچیس برس کے قریب تھی۔ اس نے یہاں آکر کپڑے کا کاروبار شروع کیا۔ بعد میں اس نے لکڑی کی تجارت شروع کر دی۔ لاہور اور کراچی تک وہ لکڑی سپلائی کیا کرتا تھا۔
سوال :پہلے لوگ تہجد کے بہت پابند ہوتے تھے آپ کے گھرانے کی کیا صورتحال تھی؟
جواب:جی بالکل پہلے لوگوں میں تہجد پر بڑی سختی سے پابندی ہوتی تھی اور اللہ کے فضل سے میرے والد محترم اور میرے دونوں بھائی تہجد گزار تھے۔ والحمد للہ
سفر ہجرت اور جلال پور میں سکونت
سوال: شیخ محترم آپ رشیداں والا سے یہاں تک کب اور کیسے پہنچے؟
جواب:1947ء کے فسادات کے دوران مجھے یاد ہے کہ میری عمر تقریباً گیارہ برس تھی۔ ہمارا گاؤں مشرقی پنجاب کا حصہ تھا۔ ہمارا گاؤں تقریباً مسلمانوں پر مشتمل تھا فقط ایک محلہ ہندوؤں کا تھا۔ عید الاضحٰی سے چند دن پہلے رات کے وقت شور سا اٹھا کہ حملہ ہوگیا ہے وہاں سے سب لوگ نکل کر چھ میل کے فاصلے پر پیپل نامی گاؤں پہنچ گئے وہاں ساری آبادی مسلمان تھی۔ پندرہ بیس دن بعد عید الاضحٰی کا موقع آگیا۔ عید ہم نے وہیں پڑھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں بھی عید گاہ گیا تھا۔ عید گاہ کے میناروں پر اس ڈر سے کہ کہیں حملہ نہ ہوجائے چاروں طرف مسلح افراد کو پہرے پر بٹھایا گیا تھا۔ عید کے دوسرے روز ہندو ملٹری آئی تھی۔ انہوں نے کہا تم سب لوگ شہر خالی کرو اور پاکستان چلے جاؤ۔ ہندو ملٹری قافلہ لیکر چلی۔ قافلہ پیدل ہی تھا۔ گنڈا سنگھ کے قریب ہیڈ سلیمانکی سے ہم لوگ پاکستان داخل ہوئے۔ میری یادداشت کے مطابق تمام لوگوں کے نام بھی درج کیے گئے۔ حکومتی کارندے کسی کو ملتان، کسی کو لودھراں، کسی کو ڈیرہ غازی خان اور کسی کو کسی طرف بھیج رہے تھے۔ ہمیں ڈیرہ غازی خان کی طرف جانے کو کہا گیا۔ ہم ریلوے کے اندر جگہ نہ ہونے کے باعث چھت پر سفر کرکے لودھراں تک آئے۔ چند روز ادھر رکے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ وہاں ڈیرہ غازی خان کے بارے دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ تو پہاڑی اور بنجر علاقہ ہے، جب کہ ہمارے اکثر لوگ کاشتکار اور میدانی علاقوں میں رہنے والے تھے۔ انہوں نے کہا بھائی ہم وہاں نہیں جاتے ہم ادھر ہی کہیں جگہ تلاش کرتے ہیں۔ پھر ملتان چلے گئے۔ ایک مہینہ وہاں رہے۔ تب تک سردی گزر چکی تھی۔ وہاں ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے علاقے کے کچھ لوگ جلال پور پہنچ چکے ہیں۔ ابا جان اور انکے دوسرے بھائی جلال پور یہ دیکھنے آئے کہ واقعی رشیداں والا کے لوگ یہاں آئے ہیں؟ وہاں جاکر دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے کئی گھرانے ادھر پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا چلو ایک بار اکٹھے ہوتے ہیں بعد میں دیکھیں گے کہ کہاں رہنا ہے۔ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ مقامی لوگوں نے ساری جمع پونجی لوٹ لی تھی سارا شہر خالی پڑا تھا۔ اس وقت سے ہمارا قبیلہ یہاں آباد ہے۔ راجپوت بھٹی خاندان ہے۔ پچاس ساٹھ کے قریب ہمارے گھرانے تھے سارے ادھر آباد ہوگئے بعد میں کچھ کراچی چلے گئے۔ کچھ رحیم یار خان چلے گئے۔
حصول علم اور اساتذہ کرام
سوال:اپنی علمی منازل کے بارے آگاہ فرمائیں؟
جواب: ناظرہ قرآن مجیدمیں نے ہندوستان میں قرآن مجید کی ابتداء مولانا حافظ غلام نبی صاحب رحمہ اللہ سے کی تھی۔ جب ہم یہاں آئے تھے میں انتیسواں اور تیسواں پارہ پڑھ چکا تھا۔ یہاں ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک دیوبند کی مسجد تھی۔ اس مسجد میں تقریباً ایک ماہ مولانا حافظ نور محمد صاحب رحمہ اللہ سے پڑھتا رہا۔ جب کہ رشیداں والا گاؤں میں مولانا عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ اور دار الحديث رحمانیہ کے ایک فارغ التحصیل عالم کے مواعظ حسنہ کی وجہ سے میرے والد گرامی، میرے تمام چچا،خاندان کے دیگر افراد، تمام کاشت کار بلکہ مکمل گاؤں ہی اہل حدیث تھا۔ اس لیے ہم نے پوچھا یہاں کوئی اہل حدیث کی مسجد ہے؟ تو ہمیں اس مسجد میں پہنچا دیا گیا یہاں حافظ خوشی محمد صاحب رحمہ اللہ تھے۔ انکے پاس قرآن مجید پڑھتا رہا اور انہیں کے پاس مکمل کیا۔
پرائمری اور ابتدائی فارسی
لودھراں کے قریب براتی والا کے نام سے ایک جگہ ہے۔ وہاں جلالپور مدرسہ کے فارغ التحصیل مولانا عبدالرحمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ انہوں نے پرائیویٹ سکول بنایا تھا۔ انکی ترغیب سے محلے اور خاندان کے تقریباً پندرہ لڑکے ان کے پاس چلے گئے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ انہوں نے ہمیں پرائمری تک پڑھایا،فارسی بھی پڑھائی اور ہمیں خوشخطی بھی سکھائی۔ ان دنوں کشمیر کا محاذ کھل چکا تھا وہ ساتھ ساتھ ہمیں فوجی تربیت بھی دیتے تھے۔ وہاں سے پرائمری کے بعد میں واپس آگیا۔
علوم اسلامیہ
مولانا عبیداللہ صاحب رحمہ اللہ ، مولانا ادریس صاحب رحمہ اللہ اور دیگر علماء جو دار الحدیث رحمانیہ کے فضلاء تھے اور ہمارے گاؤں کے مسلک اہل حدیث قبول کرنے میں بڑا عمل دخل رکھتے تھے، والد صاحب ان سے کافی متاثر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی طرح ہمارے بچے بھی پڑھنے چاہیں۔ مجھے اور بڑے بھائی دونوں کو مدرسہ میں داخل کرادیا۔ 1956ء میں فارغ ہوا۔ اسی سال مولوی فاضل کا امتحان دیا۔
سن 54، 55 اور 56 کی چھٹیوں میں لاہور تقویۃ الاسلام بھی جاتا رہا۔ وہاں مولانا شریف صاحب سے منطق اور فلسفہ پڑھتا رہا۔ ہمارے کافی کلاس فیلو تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی تدریسی میدان میں نہیں آیا اس لیے سب کے نام بھول چکا ہوں۔ میرے کلاس فیلوز میں سے صرف مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمۃ اللہ علیہ ہی اس میدان میں اترے۔بعد میں بھی ہماری دوستی قائم رہی۔ وقتاً فوقتاً ہماری ملاقات بھی ہوتی رہتی تھی۔ البتہ مولانا شریف صاحب کے پاس جو طالب علم آتے تھے ان میں سے ایک مولانا محمد علی جانباز رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔
سوال: مولانا شریف صاحب سے مولانا شریف اللہ خان سواتی رحمہ اللہ مراد ہیں یا کوئی اور ہیں؟
جواب: جی! یہ مولانا شریف اللہ خان سواتی ہی ہیں، یہ جامعہ سلفیہ میں پڑھاتے تھے۔ اور چھٹی کے دنوں میں مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر تقویۃ الاسلام میں شمس بازغۃ، سلم العلوم، ھدایۃ الحکمۃ اور منطق و فلسفہ کی دیگر کتب پڑھاتے تھے۔ میں نے یہ کتب مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھیں پھر مولانا شریف اللہ خان صاحب سے دوبارہ پڑھیں۔
اساتذہ کرام
سوال : شیخ محترم ہم آپ کے اساتذہ کے بارے جاننا چاہتے ہیں؟
جواب: چند ایک اساتذہ ” حافظ غلام نبی صاحب، حافظ نور محمد صاحب، حافظ خوشی محمد صاحب، مولانا عبدالرحمان صاحب، مولانا شریف اللہ سواتی صاحب اور مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہم ” کا تذکرہ تو ہوچکا ہے۔ ان کے علاوہ میرے اساتذہ میں مولانا عبدالحمید صاحب، مولانا عبدالقادر بہاولپوری صاحب، مولانا عبدالرحیم عارف صاحب،مولانا محمد قاسم شاہ صاحب، مولانا عبدالقادر مہند صاحب، مولانا عبداللہ مظفر گڑھی صاحب اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیھم شامل ہیں۔میں نے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ میں ان کے پاس ہر سال جاتا تھا۔ وہ میری بہت راہنمائی کرتے تھے۔
عملی میدان
سوال: شیخ محترم فراغت کے بعد کون کون سے مشاغل رہے ہیں؟
جواب: فراغت کے بعد شیخ محترم مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ نے مجھے یہیں پر تدریس کا حکم دیا۔ میں اس وقت سے لیکر آج تک اسی جگہ پر پڑھا رہا ہوں۔لاہور میں مولانا عطاء اللہ صاحب رحمہ اللہ کے حکم پر میں نے چند مضامین بھی لکھے تھے۔ جو مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی نظروں سے گزرے۔ کافی عرصہ بعد مولانا اسحاق بھٹی کے پاس میرا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے یہ وہی رفیق ہے جس کا خط بہت اچھا ہے۔ ساتھیوں نے کہا جی وہی ہے۔
میں نے اس سے اندازہ لگایا تھا کہ مولانا اچھا حافظہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک بات میں ان کو بھی مغالطہ لگ گیا۔ میرے بارے انہوں نے لکھ دیا کہ میں نے ایک سال جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں گزارا ہے۔ مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں سن 56ء سے لیکر آج تک اسی مدرسے پڑھا رہا ہوں اور کہیں نہیں گیا۔
نوٹ: “اس موقع پر میں نے وہ تطبيق ذکر کی جو اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے دبستان حدیث میں شیخ کے ترجمہ میں دی ہے۔ اور شیخ محترم نے فرمایا کہ ممکن ہے ایسے ہی ہو۔”اس کے ساتھ ساتھ میں نے تصنیف و تالیف پر بھی توجہ دی پچیس چھبیس کتب لکھ چکا ہوں۔
تصنیف و تالیف
سوال:آپ کو تصنیفی ذوق کیسے پیدا ہوا؟
جواب:تقسیم ہند کے بعد لوگوں کے بڑے بڑے رقبے رکے ہوئے تھے۔ مسائل کے حل کے لیے پورے علاقے میں دیوبندی، بریلوی یا شیعہ حضرات کا کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جو صحیح طور پر جواب دے سکتا ہو۔ حکومتی اہل کار بھی لوگوں کو ہمارے ہاں ہی بھیجتے تھے۔ میرا خط اچھا تھا اس لیے شیخ محترم مجھ سے فتاویٰ جات لکھوایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد وہ مجھے فرماتے کہ جواب لکھ دو میں تصدیق کردوں گا۔ اس طریقہ سے انہوں نے مجھے اس لائن پر ڈالا۔ اور اس ذوق میں زیادہ ہاتھ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا تھا۔ آپ وقتاً فوقتاً مضامین لکھواتے رہتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ کتب احادیث کے جتنے حواشی ہیں سب حنفیت زدہ ہیں ان کو کم از کم اہل حدیث بنانا چاہیے۔
اس جذبے سے میں نے موطا اور مشکوٰۃ کے حواشی لکھ کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اسی طرح الفیۃ الحدیث کے حواشی ہیں۔
کئی تراجم بھی کیے ہیں۔ ایک عرب عالِم الشيخ عبدالله بن عبيد کی کتاب هداية الناسك کا مناسک الحج کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ رؤیت ھلال کے بارے ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح شرح خطبہ حجۃ الوداع۔ اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے رسالے ہیں۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کی شیعہ کے بارے ایک السیف المسلول نامی کتاب ہے۔ یہ صرف ایک بار ہی دہلی سے چھپی تھی۔ لیکن ہمیں مطبوع نہیں مل سکی ہمیں مخطوط ملا تھا۔ اس میں ناموں کی کافی ساری غلطیاں تھیں۔ مجھ سے جس حد تک ممکن ہوا میں نے اسکی اصلاح اور ترجمہ کرکے چھپوا دیا۔ میرے علاوہ کسی نے اس کا ترجمہ نہیں کیا۔
سوال:شیخ محترم آپ نے التعلیق النجیح میں علامہ البانی رحمہ اللہ پر بہت اعتماد کیا ہے۔ جب کہ ضوء السالک میں اس طرح نہیں ہے، بلکہ ضوء السالک میں تو تحقیق پر کوئی بحث نہیں کی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: جی بالکل۔ آپ نے جو نوٹ کیا ہے وہ درست ہے۔
مشکوٰۃ کی پہلی فصل میں تو تحقیق کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسری اور تیسری فصل کی روایات کی اسانید کے رواۃ پر بحث کرکے خود حکم نہیں لگایا بلکہ محدثین پر اعتماد کیا ہے۔ جس روایت میں بھی کسی محدث کا حوالہ ملا وہ دیدیا۔ جہاں نہیں ملا وہاں علامہ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دیدیا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے چونکہ یہ کام انتہائی محنت سے کیا ہے۔ اس لیے انکو مقبولیت حاصل ہے۔ اور ان کی تحقیقات آسانی سے مل بھی جاتی ہیں۔ اس لیے میں نے اکثر انہی کے حوالے دیئے ہیں۔اور ضوء السالک میں یہ کام اس لیے نہیں کیا کہ مرفوع روایات کی اسانید پر امام مالک رحمہ اللہ پر اعتماد کیا ہے۔ وہ بہت بڑے امام ہیں۔ جن کی سندیں انہوں نے پیش کی ہیں وہ مشہور و معروف سندیں ہیں۔ جن کی سندیں معلق کررہے ہیں ان کے بارے بھی جمہور محدثین کی یہ رائے ہے کہ وہ صحیح ہیں۔ سوائے چار روایات کے۔ لیکن ابن صلاح رحمہ اللہ نے ان کی بھی بحث و تحقیق کردی ہے۔ البتہ آثار صحابہ و تابعین کی تحقیق و تخریج اس وقت نہیں کرسکا۔ اب میں نے اردو ترجمہ چھپوایا ہے۔ اس میں آثار کی تحقیق و تخریج بھی کردی گئی ہے۔
آج کل معجم ابی یعلی پر کام جاری ہے۔ جس پر فیض الرحمٰن ثوری صاحب نے تحقیق و تخرج کی ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہما
سوال:شیخ محترم علامہ البانی رحمہ اللہ کے ساتھ ساتھ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تحقیق و تخرج کا کام کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ سے کئی اختلاف بھی کیا ہے؟ آپ راجح کسے سمجھتے ہیں؟
جواب:مجموعی طور پر ان کا کام بہت زبردست ہے۔ والحمد للہ۔ محنت بھی کافی کی ہے۔ رجال پر انکی نظر بھی وسیع ہے۔ بحث بھی خوب کرتے ہیں۔ ان سے تھوڑا سا ہمارا اختلاف ہے۔ زیادہ نہیں ہے۔ تھوڑا سا ہی ہے۔ وہ یہ کہ ایک روایت کو ایسا راوی بیان کرے جس راوی پر ہلکی سی جرح ہو۔ اگر اس کی تائید دوسری روایت سے ہورہی ہے وہ بھی کچھ کمزور ہے ۔ تیسری سے ہورہی ہے وہ بھی کچھ کمزور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری جلی ہوئی رسیاں ہیں۔ ضعیف + ضعیف + ضعيف + ضعيف = ضعيف۔ ہم اس کو درست نہیں سمجھتے۔ ہم سمجھتے ہیں درست بات جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ہے کہ مختلف روایات مل جائیں تو سندیں اگرچہ ہلکی ہلکی کمزور ہوں موضوع یا منکر حد تک نہ پنچے۔وہ مجموعی حیثیت سے حسن لغیرہ کے درجے میں آجائے گی۔ اور اس پر اعتماد ہو سکتا ہے۔ یہ نظریہ شیخ صاحب کا تھا۔ اور ہم کسی شمار و قطار میں تو نہیں آتے البتہ تائید اسی کی کرتے ہیں۔
مناظرہ
سوال : شیخ محترم آپ کا کبھی مناظرہ ہوا ہو یا اس طرح کا کبھی شوق رکھا ہو؟
جواب : میں نے دو مناظرے کیے تھے۔1975ء کی بات ہے۔ ادھر ہمارے ہاں کھاکھی قوم کی بستی ہے۔وہاں سورت فاتحہ پہ مناظرہ ہوا تھا۔ دیوبندیوں کی طرف سے مولانا خدا بخش حنفی تھے۔ میں نے سورت فاتحہ پڑھنے کے پندرہ دلائل دیئے۔ جب کہ وہ مطلق ممانعت قراءت کی روایات پیش کرتے رہے۔ میں نے کہا بھائی ہم۔ دیگر قراءت نہیں کریں گے۔ آپ فاتحہ نہ پڑھنے کا حکم دکھائیں۔؟ شرط میں بھی یہی طے ہوا ہے کہ اہل الحدیث فاتحہ پڑھنے کی دلیل دیں گے اور دیوبندیوں نے دکھانا ہے کہ نہ پڑھنے کا حکم ہو؟ لیکن وہ یہ نہیں دکھا سکے۔ بہر حال جو پانچ چھ گھر مناظرہ کرا رہے تھے وہ سب اہل حدیث ہوگئے۔ وہ اب تک اہل حدیث ہیں۔ والحمدللہ۔
دوسرا مناظرہ
دوسرا مناظرہ میراں پور میں ہوا یہ بھی حنفی دیوبندی عالم خدابخش ہی کے ساتھ تھا۔ اور موضوع بھی فاتحہ ہی تھا۔ پہلے مولانا خدا بخش نہیں آئے تھے۔ ان کے ایک اور عالم تھے۔ ان کا نام تھا سلطان محمود۔ ان سے بحث ہوئی۔ یہ جواب نہ دے سکے۔ ان کی عمر مجھ سے کافی زیادہ تھی۔ وہ کہنے لگے یہ بزرگ ہیں ہمارے دوسرے عالم آ رہے ہیں وہ جواب دیں گے۔ میں نے کہا اگر یہ کہہ دیں کہ میں جواب نہیں دے سکا تو میں ان سے بات کروں گا۔ اتنے میں مولانا خدا بخش آگئے۔ ہمارے ساتھی کہنے لگے کہ درگزر کریں اور ان سے بحث کریں۔بات شروع ہوئی۔ پانچ پانچ منٹ مقرر ہوئے۔ ہر فریق کے لیے کل وقت اڑھائی گھنٹے مقرر ہوا۔ میں نے ترمذی شریف کی روایت پیش کی کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو فرمایا تھا سورت فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا کرو۔ انہوں نے پڑھی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا کرو۔
مولانا خدابخش کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا:
( ہک منحوس ہی اوہ آکھیا اسی پڑھنے ہونے آں)
ایک منحوس شخص تھا جس نے کہا تھا کہ ہم پڑھتے ہیں۔ ( معاذاللہ )
میں نے اسی بات پر پکڑ کر لی۔ میں نے کہا بحث ختم ہوگئی ہے اس نے صحابی کو منحوس کیوں کہا ہے؟ وہ تھا تو صحابی! اس نے فاتحہ پڑھی یا نہ پڑھی۔ یہ الگ بات ہے۔ آپ یہ بتائیں اس نے صحابی کو منحوس کیوں کہا؟ پہلے اس کا جواب دو پھر آگے چلیں گے۔ وہ کہنے لگے نہیں جی، آپ مسئلے کا جواب دیں۔ میں نے مسئلے کا جواب بعد میں دوں گا پہلے یہ معافی مانگے اس نے صحابی کے بارے میں غلط زبان استعمال کی ہے۔ دیوبندیوں کا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے اپنا ایک کردار ہے۔ سب کہنے لگے یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں آخر اس نے صحابی کو منحوس کیوں کہا؟
اس نے کہا جی مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے کہا اس میں غلطی ہے تو باقی مسائل میں بھی غلطیاں ہیں۔ بات وہیں ختم ہوگئی۔اس خفت کو مٹانے کے لیے وہاں ایک بڑا مناظرہ ہوا۔ انہوں نے کہا یہ تو علاقائی علماء تھے۔ہم اپنے بڑے عالم کو بلاتے ہیں آپ بھی اپنے کسی بڑے عالم کو بلائیں۔
انہوں نے گوجرانوالہ سے قاضی عصمت اللہ صاحب اور قاضی ثمردین صاحب کو بلایا۔ ہم نے مولانا عبدالقادر روپڑی صاحب کو بلایا۔ مقابلہ زبردست تھا۔ ملتان سے اہل حدیثوں کی ایک بس بھر کر آئی تھی۔ اتنے لوگ ہم بھی یہ دریا پار کر کے لے گئے تھے۔ کتابیں اپنے مدرسے سے ہی لے گئے تھے۔ ہم نے اُدھر کتابوں کا بہت بڑا ڈھیر لگا دیا تھا۔ احناف کے مناظر قاضی عصمت اللہ صاحب مقرر ہوئے تھے۔ ان کے معاون مولانا عبدالرحمن تھے۔ البتہ مولانا رفیق مدن پوری بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ بھی اچھے مباحث تھے۔ ہمارے مناظر مولانا عبدالقادر روپڑی مقرر ہوئے اور ان کا معاون میں تھا۔ پہلی تقریر مولانا روپڑی صاحب کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا قاضی صاحب نے جواب دیا۔ چونکہ پہلے ایک مناظرہ ہوچکا تھا۔ مقابلہ بازی میں پورے علاقے کے لوگ جمع تھے۔ زبردست مجمع تھا۔ قاضی صاحب کی آواز باریک اور مدھم سی تھی جو زیادہ مؤثر نہیں تھی۔ جب کہ روپڑی صاحب کی آواز بلند تھی اور آپ دھڑلے سے بولتے تھے۔روپڑی صاحب سارے مجمعے پر چھا گئے۔مولانا روپڑی صاحب نے حقیقۃً حق ادا کردیا تھا۔ میرا کردار یہ تھا کہ آپ جو روایت پیش کرتے میں فوراً کتاب سامنے کردیتا۔ ان کا مناظر جو روایت پیش کرتا میں کتاب نکال کر حافظ صاحب کو دکھاتا اور نشان لگا دیتا کہ اس میں فلاں کمزوری ہے۔ ان کے مناظر نے بیھقی کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت پیش کی جس میں ہے کہ تم سورت فاتحہ پڑھا کرو الا وراء الإمام۔ حالانکہ امام بیھقی نے خود ہی اس روایت کی تردید کی ہے۔ کتاب تو ہمارے پاس بھی تھی لیکن میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ ان سے کتاب لیکر انہی کی کتاب سے دکھائیں کہ روایت صحیح نہیں ہے۔ روپڑی صاحب کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ غلط بیانی کرتے ہو کتاب دکھاؤ۔ انہوں نے کہا کتاب دکھانا شرائط میں سے نہیں ہے۔ مناظرے کی صدارت چیئرمین کر رہا تھا۔ ہمارے اصرار پر اس نے کہا کہ بھائی کتاب دکھائیں اس میں کیا حرج ہے؟ انہوں نے کہا ہماری کتاب گم ہو گئی تو؟ چیئرمین نے کہا میں ضامن ہوں۔ روپڑی صاحب نے انہی کی کتاب سے دکھا دیا کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ چیئرمین نے کہا بس کرو مناظرہ ہوگیا ہے۔ ہم نے سمجھ لیا ہے۔ ہم آئندہ سورت فاتحہ پڑھا کریں گے۔ فقط فاتحہ تو نہیں پڑھنی تھی وہ رفع الیدین بھی کرنے لگے۔ ساری بستی اہل حدیث ہوگئی۔ اب تک اہل حدیث ہیں۔ ان کے بچے ہمارے ہاں پڑھتے رہے۔ کئی فارغ التحصیل ہوکر گئے۔اب انہوں نے اپنا مدرسہ بنا رکھا ہے۔
شیعہ امام بارگاہ کا پڑوس
سوال: شیخ محترم آپ کے ساتھ ہی امام بارگاہ ہے ان کے ساتھ کیسا معاملہ رہتا ہے؟
جواب: پہلے یہاں مقابلے بہت زیادہ ہوتے تھے۔ شیخ صاحب رحمہ اللہ، ہمارے ساتھی اور میری ہمیشہ سے کوشش رہی کہ ان کے ذاکر بعض اوقات ادھر آ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے جو باتیں کرجاتے ہیں ان کا فوری طور پر جواب ہوجائے۔ اب یہ دس دن جو پیٹتے ہیں، خرافات کرتے ہیں ہم گیارہ محرم کو ادھر جلسہ کرتے ہیں اور تمام باتوں کا جواب دیتے ہیں۔ اس بار بھی ہمارا جلسہ ہوا ہے اور بڑا کامیاب رہا۔ مسجداور صحن بھر گیا تھا۔ باہر بھی لوگ کافی تعداد میں موجود تھے۔ سبطین شاہ نقوی صاحب، طیب الرحمان صاحب آف اسلام آباد، خلیل الرحمٰن جاوید صاحب آف کراچی، ضیاء الحق بھٹی صاحب اور عبداللہ داؤد صاحب تھے۔( حفظھم ﷲ)علماء نے بہترین خطابات کیے۔ میں نے بیس پچیس منٹ واقعہ کربلا کی حقیقت پر گفتگو کی۔
اب یہ سنبھل گئے ہیں ادھر کوئی بکواس نہیں کرتے ان کو علم ہے کہ اگر اس طرح کی کوئی بات کی تو فوری طور پر ہمیں اس کا جواب مل جانا ہے کیونکہ ادھار تو ہم کرتے نہیں۔
ایک موقع پر انہوں نے ایک ذاکر کو ادھر بلایا۔مغرب کے بعد اس نے خطاب کیا اور تنقیدات شروع کر دیں۔ دس پندرہ روز یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور ہم صبح فجر کے بعد اس کا جواب دے دیتے تھے۔ ایک دن اس سے غلطی ہو گئی قرآن مجید کی آیت
غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ
الاحزاب – 53
میں إِنَاهُ کا ترجمہ برتن کردیا۔ اور کہا کہ (معاذ اللہ) صحابہ لالچی تھے اللہ کے رسول کے برتنوں میں دیکھا کرتے تھے کہ کیا پڑا ہے۔ اللہ نے منع کردیا کہ برتنوں کو نہ دیکھا کرو۔ میں نے پکڑ کرلی کہ انه کا برتن معنی کس نے کیا ہے؟
میں نے قربان علی شاہ کے ترجمے کا حوالہ دیا کہ اس نے اس کا معنی پکنا کیا ہے ۔ اور خوب خبر لی کہ إِنَاهُ کا معنی تک نہیں آتا اور علمی تقریروں کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ ایسے شخص کو شرم آنی چاہیے۔
اگلے دن شام کو اعلان کردیا کہ نہ تو کوئی شیعہ اہل حدیث ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اہل حدیث شیعہ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ ختم کرنا چاہیے۔ آئندہ ہم بھی چپ اور آپ بھی چپ رہیں گے۔
ایک بار ایک ذاکر کو لاکھوں روپے دیکر بلایا اس نے کچھ بکواس کی۔ ہم نے اس کا سختی سے جواب دیا تو چند روز بعد ایک غنڈہ یہاں آیا دروازے پر دستک دی۔ میرا پوچھا۔ میں آیا تو کہنے لگا کہ غضنفر حسین(ایک غنڈہ ) کو جانتے ہو؟ میں نے جرات مندانہ لہجے میں جواب دیا ہاں جانتا ہوں۔ آؤ جو کرنا ہے کرلو۔ ہم بھی تم کو دیکھ لیتے ہیں۔!
میرا جواب سن کر مرعوب ہو کر چل دیا۔ دوبارہ نہیں آیا۔ الحمد للہ یہ مرعوب ہیں۔ سارا علاقہ اہل حدیثوں کا ہے۔ شیعہ کے صرف چند گھر ہیں۔ ہر ایک کو اپنی جگہ بولنے کا حق ہے اس بناء پر بولتے ہیں ورنہ ان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ سختی سے بات کرسکیں۔
اولاد و زواج
سوال: شیخ محترم اپنی اولاد و زواج کے بارے بتلائیں؟
جواب:اللہ کے کرم سے سات بیٹے ہوئے ہیں۔ ایک وفات سے دوسرے دن فوت ہو گیا تھا۔ ایک بیٹا محمد طیب ستائیس سال کی عمر میں فوت ہوا تھا اسکی ایک بچی بھی تھی۔ اسامہ اور عبدالصبور ادھر ہی پڑھاتے ہیں۔ ایک مزدوری کرتا ہے۔ ایک بہاولپور میں پروفیسر ہے۔ ایک لڑکیوں کا سکول چلاتا ہے۔اور پانچ بچیاں ہیں۔ سب شادی شدہ اور خوش و خرم ہیں۔
سوال:شیخ محترم! آپ خود تو حفظ نہیں کرسکے تو آپ کی اولاد میں سے کوئی حافظ ہے؟
جواب:ہمارے علاقے میں کوئی اہل حدیث کا ایسا ادارہ نہیں تھا جہاں تجوید کا اہتمام ہو۔ اسلیے مجھے قرآن کے بارے افسوس ہی رہا۔ میرے بچے بھی نہیں کرسکے۔ لیکن پوتے کر رہے ہیں۔ بڑی بیٹی کے تین بیٹے حافظ ہیں۔ دوابھی کالج پڑھتے ہیں۔ ایک عالم ہے۔ رمضان میں قرآن تینوں سناتے ہیں۔ ایک پوتے کو بہاولپور داخل کرایا ہے قاری صاحب صرف ذہین بچہ لیتے ہیں ایک سال میں حفظ کرادیتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ پانچ ہزار فیس بھی ہے۔ اس ادارے کا معیار اچھا ہے۔ اسامہ صاحب بھی اپنے بچے کو مڈل کے بعد حفظ کروائیں گے۔ ان شاء اللہ
سوال: علمی مصروفیت کی وجہ سے گھریلو امور پر تو کوئی اثر نہیں ہوا؟
جواب:ہمارے معاملات اتنے گنجلک تو نہیں ہیں کہ زیادہ پریشانی آئے۔ ہلکا پھلکا گھر کا کام ہوتا تھا۔ اہلیہ محترمہ میرا پورا ساتھ دیتی تھیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین
عدم رسوخ
سوال: پرانے علماء میں طب، ادب اور شعر کا بہت ذوق تھا مگر آجکل یہ چیز نظر نہیں آتی؟
جواب: پہلے کتب بینی کی طرف توجہ زیادہ تھی اور آج کل زیادہ توجہ انٹرنیٹ والی بیماری کی طرف ہوگئی ہے۔ پہلے یہ تاثر تھا کہ منطق، فلسفہ اور لغت عرب یہ تین مضمون علمی رسوخ کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ شعراء کا کلام، منطق اور فلسفہ جس کے پاس نہیں ہے وہ عالم نہیں ہے۔ اس لیے اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ نئے طالب علم تیار کیے جائیں۔ شیخ محترم رحمہ اللہ نے مجھے منطق و فلسفہ خود پڑھایا تھا۔ جب آپ کو مولانا شریف اللہ خان سواتی رحمہ اللہ کا پتہ چلا تو آپ نے مجھے اسی نظریے کے تحت ان کے پاس بھیجا۔ أدق کتب پڑھنے کو علمی رسوخ کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا مگر آج کل سہل پسندی آ چکی ہے جس کی وجہ سے علمی رسوخ نہیں ہوتا۔
مختارات
سوال: تاریخ علماء اہل حدیث پر کس مصنف کو پسند کرتے ہیں۔؟
جواب:سب سے زیادہ کام مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ہے۔ رمضان سلفی صاحب نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ مگر زیادہ مستند کام عبدالرشید عراقی صاحب کا ہے۔ بڑا زبردست اور اچھا انداز ہے۔ جو بات لکھتے ہیں بڑی پختہ ہوتی ہے۔
سوال:مقرر کونسا پسند ہے؟
جواب:مجھے مولانا عبدالخالق رحمانی صاحب رحمہ اللہ پسند تھے وہ بہت اچھا بولتے تھے۔ ان کی الفاظ پر اچھی گرفت تھی اور اردو ادب بہت زبردست تھا۔اور یہ ہی دو چیزیں مؤثر ہوتی ہیں۔
اس کے بعد علامہ احسان الہی ظہیر صاحب رحمہ اللہ کا انداز بھی بڑا پیارا ہے۔ اگرچہ زیادہ سیاست پر بولتے تھے۔ لیکن علمی حیثیت کے مالک تھے۔ ان کی بغداد والی تقریر میں نے سنی جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔
سوال:آپ کا پسندیدہ موضوع کیا ہے؟
جواب: میرا پسندیدہ موضوع علم الحدیث اور اس کے متعلق موضوعات ہیں۔ دن رات اسی میں گزرتا ہے۔ اس وجہ سے میں نے اصول حدیث پر بہت دلچسپی سے لکھا ہے۔ الفیۃ الحدیث للعراقی کے حواشی اسی سلسلہ کا حصہ ہے۔ اسی طرح اصول حدیث کی کتاب اسبال المطر بھی پہلے میں نے ہی چھپوائی تھی بعد میں دارالسلام نے طبع کی تھی۔
سوال: کھانے پینے اور لباس میں کیا پسند فرماتے ہیں؟
جواب: اپنے لیے سفید لباس پسند کرتا ہوں۔ جوانی کی عمر میں شاید کوئی اور رنگ استعمال کیا ہو ورنہ سفید ہی استعمال کرتا ہوں۔ سفید رومال، سفید قمیص اور سفید شلوار۔ کھانے پینے میں بس سادہ غذا۔ اور کچھ نہیں۔
سوال: خضاب کے بارے کیا فرماتے ہیں؟
جواب:سیاہ خضاب کو تو میں جائز ہی نہیں سمجھتا باقی خضاب استعمال کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں جائز ہے فرض نہیں ہے۔ البتہ ایک دفعہ ضرور استعمال کرنا چاہیے تاکہ یہود کی مخالفت ہوسکے۔میں نے بھی ایک بار لگایا تھا۔
کھیل
سوال:شیخ محترم! دوران تعلیم آپ کون سی کھیل کھیلتے تھے ؟
جواب:عصر کے بعد فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے علاقے میں سیلاب آتا تھا۔ جس میں تیراکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ایک جھیل ہوتی تھی اس میں تیراکی کرتے تھے۔ کچھ عرصہ والی بال بھی کھیلتے رہے ہیں۔
تاریخ
سوال:تاریخ اسلامی کے لیے کون سی کتب زیر مطالعہ ہونی چاہئیں؟
جواب:تاریخ میں پوری زندگی آتی ہے۔مسلم قوم کی پوری زندگی قرآن اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ یہ سب سے معتبر اور مستند ذخیرہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر الگ سے کام ہوا ہے۔ تفصیلات کے لیے اسدالغابہ، الاصابہ اور الاستيعاب وغیرہ ہیں۔ رجال کی تاریخ پر بھی محدثین نے شاندار تصانیف چھوڑی ہیں۔بادشاہ و ملوک اور دیگر حالات پر البدایۃ و النھایۃ اور ابن خلدون وغیرہ۔ لیکن ان میں صحیح روایات کی پابندی نہیں کی گئی۔اور اب دارالسلام کی طرف سے سیرت انسائیکلوپیڈیا کی طباعت مفید اقدام ہے۔ جس میں جامعیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔
روحانیت اور تصوف
سوال: شیخ محترم! تصوف اور روحانیت کے بارے کیا خیال ہے؟
جواب:ہم اس روحانیت اور زھد کے قائل ہیں جس کی بنیاد کتاب و سنت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو نفل نماز ذکر اذکار اور دعائیں سکھائی ہیں یہی زہد ہے۔ ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمهما اللہ نے یہی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب بدعی تصوف ہیں۔
جرح و تعدیل کا بڑھتا ہوا رجحان
سوال:شیخ محترم! نقد رجال اور تحقیق کی جو لہر نوجوان علماء میں پیدا ہورہی ہے اس بارے آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب:ہمارے لوگ مبالغہ کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس حد تک درست نہیں ہے۔ اکابرین بہت کام کرچکے ہیں۔ تھوڑی بہت تنقید ہر ایک پر ہوتی ہے۔ یہ سیدھا کانٹا لگادیتے ہیں۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں بین السجدتين والی دعا اللھم اغفر لی۔۔۔۔۔ اس میں حبیب بن ابی ثابت راوی مدلس ہے۔ وہ عن سے روایت کررہا ہے۔ جبکہ ایک صحیح سند سے یہ ہی دعا سنن ابوداود وغیرہ میں ہے۔ کہ ایک اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا آپ ﷺنے ان کو نماز میں پڑھنے کے لیے یہی دعا سکھائی۔ اس میں نماز کے کسی حصہ کی صراحت تو نہیں ہے۔ لیکن اس نماز کا ذکر ہے۔ تو اس سے تدلیس کق شبہ ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمارے علماء کرام نے کہہ دیا کہ یہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارے اکابر علماء کرام نے اس دعا کو پڑھا ہے۔ سب نے اپنی کتب میں لکھا ہے۔ یہ ساری باتیں میں نے التعلیق النجیح میں لکھ دی ہیں۔
اسی طرح ایک بار شیخ صاحب رحمہ اللہ اور میں جقمعہ سلفیہ اسلام آباد امتحان لینے گئے۔ وہاں سے ہم ایوبیہ چلے گئے راستے میں ایک آدمی سے ملاقات ہوئی۔ تعارف ہوا اس نے بتایا کہ وہ بھی اہل حدیث ہے اور فوج میں کرنل ہے۔ اس نے اپنے اہل حدیث ہونے کا واقعہ بتایا کہ ایک دن دوران پریڈ مجھے خیال آیا کہ ہم کس قدر نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سیدھی صف بناتے ہیں۔ اور اللہ نے بھی حکم دیا ہے کہ میرے سامنے صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھو لیکن ہم صف بناکر نماز نہیں پڑھتے۔
میں نماز کو جاننے کے لیے فوج کی لائبریری میں گیا۔ نماز والی کسی کتاب کا مطالبہ کیا تو مجھے مولانا صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی کتاب صلوٰۃ الرسول دی گئی۔ میں پڑھتا گیا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ کہ ہمارے لوگ غلط کررہے ہیں۔ اسی کے مطابق میں نے نماز شروع کر دی تو اہل حدیث ہوگیا۔ اب اس کتاب پر جرح کرکے بہت سی روایات کو ضعیف کردیا گیا ہے جس سے کتاب کی افادیت ویسی نہیں رہی۔
چند داعیان کا تذکرہ
مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمة الله عليه
سوال: شیخ محترم! ہمیں محدث جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے کچھ بتائیں خاص طور پر ان کا انداز تدریس؟؟
جواب:ابن ماجہ اور چند ایک ابتدائی کتب کے علاوہ میں نے ساری کتابیں شیخ محترم رحمہ اللہ سے پڑھی تھیں۔ شیخ محترم سے وابستہ یادیں میں نے شیخ محترم کی سوانح عمری میں درج کردی ہیں۔آپ دوران تدریس درج ذیل امور کو مدنظر رکھتے تھے۔
- سب سے پہلے تو عبارت کا لغوی اور صرفی و نحوی حل کرتے تھے۔ بلکہ طلباء سے کرواتے تھے۔ شیخ محترم کوئی بھی اہم لفظ آجا تا اسکی مکمل تحلیل طلباء سے کرواتے تھے۔ اگر انکو نہ آتا تو احساس دلانے کے لیے چھوٹی کلاس کو بلا کر پوچھ لیتے تھے۔ اسی طرح اعرابی غلطی بالکل گوارا نہیں کرتے تھے۔ اور ترکیب بھی کرواتے تھے۔ بعض اوقات حدیث کے دیگر اساتذہ کو بلالیتے اور کہتے کہ یہ لفظ فلاں کتاب میں آیا ہے۔ اور وہ آپ نے پڑھائی ہے لیکن اس طالب علم کے یہ لفظ نہیں آرہا۔( اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت تعلیم پہ کس قدر توجہ ہوتی تھی) ۔
- اس کے بعد ترجمہ کرتے تھے۔ شیخ محترم رحمہ اللہ سے اگر ایک لفظ کا کئی بار بھی ترجمہ پوچھا جاتا تو آپ نے کبھی ناگواری محسوس نہیں کی۔ اگلے صفحے پر دوبارہ اگر پوچھا جاتا تو بتادیتے تھے کبھی انکار نہیں کرتے تھے ۔
- حدیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت بھی خصوصی توجہ کا مرکز رہتی تھی۔
- فقھی مسائل میں بین المسالک کے حوالے سے محدثین کے طرز پر چلتے تھے۔
- رجال کے بارے مفید کتب کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔
سوال:آپ نے دوران تدریس یہ انداز اپنایا ہے یا کچھ تبدیلی کی ہے؟
جواب:میں نے مکمل وہی انداز اختیار کیا ہے۔ اور ایک دو چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔
جن صحابہ کرام اور رواۃ کو ناموں کی بجائے کنی اور نسبتوں سے ذکر کیا گیا ہے ان کے اصل نام اور وجہ نسبت و کنیت یاد کرواتے ہیں۔ دوبارہ آجائے تو طلباء سے پوچھتے ہیں۔اسی طرح اہم رواۃ کا تعارف بھی بچوں کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ یہ چیز مجھے فیض الرحمٰن الثوری رحمہ اللہ کی ترغیب سے حاصل ہوئی تھی۔
فیض الرحمٰن الثوری رحمۃ اللہ علیہ
سوال: فیض الرحمٰن الثوری رحمہ اللہ آپ کے استاد ہیں یا فقط ہم عصر؟
جواب: ان سے باقاعدہ کچھ نہیں پڑھا تھا۔ البتہ رجال کے بارے میں ہماری بہت رہنمائی کرتے تھے۔ یہ 1940ء سے پہلے فارغ ہو کر دہلی چلے گئے تھے وہاں سے پڑھ کر آئے تو بہاولپور جامعہ عباسیہ سے علامہ کی ڈگری حاصل کی۔ جس کے ذریعےریاست بہاولپور میں ملازمت بھی کرتے رہے۔ جب چھٹیاں ہوتیں تھی تو رجال و حواشی پر کام کرتے تھے۔ ان کا بہت سارا کام ابھی تک چھپ نہیں سکا۔ مجھے ان کا انتہائی وقیع کام ملا ہے۔ جامع الترمذی اور تحفۃ الاحوذی پر حواشی ہیں۔ یہ رش السحاب کے علاوہ ہے۔ میری کوشش ہے کہ انکی تمام کتب چھپ جائیں اور آجکل بھی میں مصنف ابی یعلی کے ساتھ ساتھ ان کی حواشی والی کتاب پر کام کررہا ہوں۔
سوال: ان کو ثوری کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب:یہ بلوچ تھے اور دھیرہ میں رہتے تھے۔ سکھوں کے حملے کی وجہ سے چھوڑ آئے تھے اور یہاں آکر یہ بڑے بڑے بیلوں پر مزدوریاں کرتے تھے۔ سرائیکی میں بیل کو ڈھاند کہتے ہیں۔ ان کے قبیلے کو ڈھاندی بلوچ کہا جانے لگا۔ انہوں نے اس کا عربی ترجمہ کرکے اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔
سوال: ان کی کتاب الرد التقي بھی آپ کے پاس ہے؟
جواب: ثوری صاحب رحمہ اللہ یہاں اس پر کام کرتے رہے تھے۔ پھر پیر بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلے گئے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد جہلم چلے گئے۔ ادھر بھی وہ اس کتاب پر کام کرتے رہے۔ ابھی وہ کتاب اسلم شاہدروی صاحب حفظہ اللہ کے پاس ہے۔ کمپوزنگ ہوچکی ہے۔ چھپنے کا کام ابھی باقی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک رسالہ فیض الرحمٰن الثوری میں وضاحت کی ہے۔
مولانا عبدالشكور شاہ اثری صاحب رحمہ اللہ
سوال:شیخ محترم! شاہ عبدالشكور اثری صاحب رحمہ اللہ کے بارے آگاہ فرمائیں؟
جواب:وہ میرے ہم کلاس تھے۔ اکٹھے پڑھتے تھے۔ بڑے مخلص ساتھی تھے۔ زھد و تقویٰ میں ان کا ایک مقام تھا۔ دنگل (میلہ) میں پہلوانوں کی کشتی ہوتی تھی۔ ہم نے شاہ صاحب کو بھی ساتھ لے لیا تاکہ استاد جی پوچھیں تو شاہ صاحب کی وجہ سے ہم بھی بچ جائیں گے۔ بڑی مشکل سے ان کو منایا۔ واپس آئے تو شیخ محترم کے سامنے سب کی پیشی لگ گئی۔ شیخ محترم کے سامنے سب چپ تھے۔ شیخ محترم نے اتنا کہا : عبدالشكور شاہ تساں ای گیا ویں؟ ( آپ بھی گئے تھے؟) وہ صرف اسی بات پر دو دن روتے رہے۔ ہم نے شیخ صاحب کو بتایا۔ شیخ صاحب نے ان کو تسلی دی تو وہ نارمل ہوئے۔
مولانا اللہ یار صاحب رحمہ اللہ
سوال:مولانا اللہ یار صاحب رحمہ اللہ کے بارے کچھ معلومات دیں؟
جواب: جس سال میں نے پڑھانا شروع کیا تھا مولانا اللہ یار صاحب اس سال پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ ابتدائی کتب تقریباً ساری مجھ سے پڑھی ہیں۔ انتہائی ذہین، محنتی، اطاعت شعار اور زاھد تھے۔ شیخ محترم نے ان کے ذمہ ترجمہ تفسیر لگایا تھا۔ جس میں ان کو خاص درک حاصل تھا۔اور انہوں نے آخر عمر تک یہ پڑھایا اور اس کا حق ادا کیا۔
نظریہ پاکستان اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ
سوال: شیخ محترم! آپ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ سے کافی متاثر ہیں تو ان کے نظریہ تقسیم ہند سے بھی متفق ہیں؟
جواب: وہ ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے ہمنوا تھے۔ لیکن جب ملک بن گیا تو وہ کہتے تھے۔ اب پاکستان بن گیا ہے اب اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اپنے ساتھیوں کو پاکستان بھیج دیا تھا۔ لیکن ہمارا ذہن دو قومی نظریہ ہی کے ساتھ ہے۔
مدارس کا نصاب
سوال: نصف صدی سے آپ تدریس کررہے ہیں! آپ کے خیال میں مدارس کے نصاب میں اصلاحات ہونی چاہیں؟
جواب: مدارس کے نصاب میں تاریخ اور جغرافیہ کا اضافہ ہونا چاہیے۔ اور علوم و فنون میں اس قدر سہولت نہیں ہونی چاہیے کہ سارا سسٹم ہی کمزور رہ جائے۔ جیسا کہ آج کل نئی نئی کتابیں شامل نصاب کرکے کیا جارہا ہے۔
ایسی کتابیں شامل نصاب ہونی چاہیں جن سے طلباء کے ذہن علمی طور پر تیار ہوسکیں۔
طلباء کو نصیحت
سوال: علوم اسلامیہ کے طلباء کو کیا نصیحت فرمائیں گے؟
جواب: طلباء کو چاہیے کہ کتب بینی کا شوق پیدا کریں نہ کہ نیٹ کا۔ تحقیق و ریسرچ کے لیے کتب کو کنگھالنے کی کوشش کریں۔ اس سے علم میں پختگی پیدا ہو گی۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے غلط بھی ہوسکتا ہے۔
اور طلباء کو چاہیے کہ مواضع الاتہام سے دور رہیں۔ اس سلسلے میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا والی روایت مد نظر رکھنی چاہیے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدو صحابہ کو بتلایا تھا کہ یہ میری بیوی میرے ساتھ جارہی ہے۔
اساتذہ کے لیے نصیحت
سوال:شیخ محترم! مدرسین کو کیا نصیحت کریں گے؟
جواب: مدرسین کو اس وقت سبق پڑھانا چاہیے جب خود کو سمجھ آجائے۔ ڈھکوسلے سے نہیں پڑھانا چاہیے۔
طلباء کے سامنے اردو کتب سے مطالعہ نہ کریں۔ اگر ضرورت ہو تو علیحدگی میں دیکھے۔ طلباء پر اس چیز کا اچھا تاثر نہیں پڑتا۔
طلباء سے عبارت سنیں تو اعراب پر خصوصی توجہ دیں۔ اس میں صرف کی تصحیح بھی ہوتی جائے گی اور نحو کی بھی۔
کوئی طالب علم ترجمہ پوچھتا ہے تو اسے نظر انداز مت کریں۔ اس پر توجہ دیں۔
اور آخری بات یہ ہے کہ طلباء پر سختی نہ کریں انہیں افہام و تفہیم سے پڑھائی کے لیے قائل کریں۔ سختی سے اچھے نتائج نہیں سامنے آتے۔
تلامذہ
سوال: آپ کے خاص تلامذہ کون سے ہیں؟
جواب: جو شیخ صاحب کے پاس پڑھتے رہے وہ ہمارے بھی شاگرد ہیں۔ ان میں سے مولانا اللہ یار صاحب رحمہ اللہ، ادریس اثری صاحب، عبدالستار حماد صاحب، عبدالرحمان چیمہ صاحب، عمر فاروق سعیدی صاحب، سعید مجتبٰی سعیدی صاحب، ابو نعمان بشیر احمد صاحب، عبدالرحمن شاہین صاحب اور عبدالغفار اعوان صاحب وغیرہ ہیں۔ حفظھم ﷲ
اجازۃ الروایۃ
سوال:کچھ طلباء إجازات کا بہت اہتمام کرتے ہیں! کیا یہ چیز مفید ہے؟
جواب:اجازۃ الروایۃ اس طرح مفید ہے کہ طالب علم کا حدیث اور محدثین کے ساتھ تعلق اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ میں بھی اسی سلسلے کا ایک فرد ہوں۔ اساتذہ کو بھی چاہیے کہ جس کے بارے خیال کریں کہ وہ اس میدان میں کام کرسکتا ہے۔ اس کو سند دے دیں۔
سوال:اپنے اجازۃ الروایۃ کے بارے میں بتلائیں؟
جواب:میری جو عالی سند ہے وہ مولانا عبدالحق ہاشمی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے۔ آپ 1948ء یا 49ء میں یہاں سے چلے گئے تھے۔ میں آپ کو مل نہیں سکا اس لیے اجازۃ عامہ کے طور پر ان کی سند میرے پاس ہے۔ آپ نے مسند الصحیحین کے مقدمہ میں ایک سند درج کر کے کہا ہے کہ یہ سب سے عالی سند ہے۔ اور ساتھ اجازۃ عامہ بھی دے دی ہے کہ جو لوگ اس وقت زندہ ہیں اور حدیث پر کام کررہے ہیں وہ میری طرف سے بیان کرسکتے ہیں۔اور میں ان دنوں حدیث کی کتب پڑھا رہا تھا۔ شیخ محترم رحمہ اللہ کی سندیں میرے پاس ہیں۔ ان سے براہ راست لی ہیں۔ میں نے اپنی مطبوع سند میں وہ سب دتج کردی ہیں میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا دی ہیں۔ اس سے آگے سند معروف ہے۔
ایک بار لیبیا سے شیخ عمر صاحب ملتان میں حافظ عبدالمنعم صاحب کے پاس آئے۔ کہا کہ مجھے ان پندرہ روایات کی تخریج مطلوب ہے مجھے کسی عالم کے بارے بتاؤ جو یہ کام کرسکے۔ انہوں نے میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے ان کا کام کردیا اور باتوں باتوں میں کہا کہ مؤطا پر زیادہ کام مغربی علماء نے کیا ہے۔ جو لیبیا اور مراکش وغیرہ میں آباد ہوئے۔ میں نے بھی مؤطا پر کام کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے کسی مغربی عالم سے سند حاصل ہو۔ انہوں نے میری بات ذہن میں رکھی اور تیونس کے شیخ محمد شاذلی صاحب سے بات کی۔ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے مغربی عالم سے سند کی خواہش کی ہے میں اپ کو سند دیتا ہوں اور السبت الصغیر کے نام سے آٹھ صفحات میں اپنی سند بھیجی جو سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تک المسلسل بالاولویۃ ہے۔ یہ سند میرے خیال میں پاکستان میں صرف میرے پاس ہی ہے۔ چونکہ پاکستان میں سب سے پہلے یہ میرے پاس آئی ہے۔ اس لیے میں نے بھی لکھ دیا کہ میرے لیے بھی المسلسل بالاولویۃ ہے۔
سوال:آپ کی اجازۃ الروایۃ کے لیے کیا شرائط ہیں؟
جواب:جو آدمی علم حدیث پڑھ چکا ہے اور پڑھا رہا ہے یا علم حدیث سے دلچسپی رکھتا ہے اس کو میں سند اجازۃ دے دیتا ہوں وہ مجھ سے بیان کر سکتا ہے۔
سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا اله الا انت استغفرک و اتوب الیک