: ہرقسم کی تعریف اللہ تعالی کے لیے ہے ایسی تعریف جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہے جیسا کہ ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ نہایت بلند اور سب سے اعلی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ اس کے بندے رسول اور برگزیدہ نبی ہیں اللہ تعالی رحمتیں اور سلامتی کا نزول فرمائے ان پر ان کے آل پر اور صحابہ کرام پر جو رشد و ہدایت اور خشیت و تقوی سے سرشار تھے ۔
اما بعد:
اللہ کے بندو ! اللہ سے ڈرو اس کی رضا و خوشنودی کی جانب سبقت کرو ۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔
وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ1
’’اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو (١) اور وہی ہے جس کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے‘‘۔
مومنوں کی جماعت سب سے عظیم توفیق اور کامل راستہ یہ ہے کہ انسان اطاعت الہی کی حفاظت پر حریص رہے اپنی عبادت کو سنبھالنے کا حد درجہ اہتمام کرے حقوق العباد کے تعلق سے سلامت رہنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرے مخلوق پر کسی بھی طرح کے ظلم سے کوسوں دور رہنے کی بھرپور کوشش کرے خواہ قولی ظلم ہو یا فعلی ظلم ہو
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ2
’’اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی‘‘۔
اور حدیث قدسی میں ہے :
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا رَوَى عَنْ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا3
’’ابوذر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی روایت بیان کی جو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بیان کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘۔
اللہ کے بندو :سب سے بڑی بربادی اور خطرناک نقصان یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو دوسروں پر ظلم کرنے کے لیے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے کے لیے بے لگام چھوڑ دے اور ازاد کر دے
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ4
’’عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے‘‘۔
مسلمان بھائی یاد رکھو کہ تمہارے اوپر سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی نیکیوں پر اپنے دین کو اس دن کے لیے بچا کر رکھے جس دن انسان اپنے بھائی ماں باپ اور بیوی بچوں سے دور بھاگے گا
جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ5
’’اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں‘‘۔
لہذا حقیقی افلاس اور سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ آپ کو نیکیوں اور اطاعت والے کاموں کی جانب پیش قدمی اور سبقت کرنے کا موقع اور اس کی توفیق مل جائے مگر روز قیامت آپ اس حال میں ائیں کہ لوگوں پر ظلم کر کے ان کے حقوق کا بوجھ آپ کے اوپر لگا ہوا ہو یہ ایک بہت بڑی مصیبت اور زبردست قسم کا خسارہ ہوگا:
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ إِنَّمَا سُمِّيَ الْمَقْبُرِيَّ لِأَنَّهُ كَانَ نَزَلَ نَاحِيَةَ الْمَقَابِرِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ هُوَ مَوْلَى بَنِي لَيْثٍ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ وَاسْمُ أَبِي سَعِيدٍ كَيْسَانُ6
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ ( سے ظلم کیا ہو ) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہوگا تو اس کے ساتھی ( مظلوم ) کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ ابوعبدللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا سعید مقبری کا نام مقبری ا س لیے ہوا کہ قبرستان کے قریب انہوں نے قیام کیا تھا۔ ابوعبداللہ ( اما م بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ سعید مقبری ہی بنی لیث کے غلام ہیں۔ پورا نام سعید بن ابی سعید ہے ا ور ( ان کے والد ) ابوسعید کا نام کیسان ہے‘‘
یہ مکمل افلاسی مفلصی دیوالیہ پن ہوگا کہ جن لوگوں کے آپ نے حقوق و اعمال کیے وہ تمہاری نیکیاں لے جائیں گے یا وہ اپنے گناہ تمہارے اوپر ڈال دیں گے ۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ7
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟” صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: “میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔
یہ مکمل عدل الہی ہے اے میرے وہ بھائی جو سلامت و عافیت کا خواہاں ہے مخلوق پر ظلم کرنے سے باز ا ٓجاؤ ان کے حقوق کی ادائیگی میں جلدی کرو اور ان کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرنے میں سبقت کر لو پیش قدمی کر لو۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ8
’’راستہ تو انھی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں حق کے بغیر سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔
اے وہ شخص جس نے اپنی زبان اور قلم کو لوگوں کو گالی دینے ان پر تہمت لگانے اور ان کی عیب جوئی میں شتر بے مہار چھوڑ دیا ہے ان کی غیبت کرنے میں جلد بازی کی اور ان کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کیا اے وہ شخص جس نے لوگوں کے مالوں کو ہڑپ کر لیا ہے انہیں معمولی سمجھا ہے اور ان کے اموال ان کی طرف لوٹانے میں کوتاہی برتی ہے اپنے پروردگار سے توبہ کر لو اپنی رشت و صلاح کی جانب واپس لوٹ آؤ اور ان حقوق سے چھٹکارا حاصل کرنے میں جلدی کر لو ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا9
’’اور یقیناً ناکام ہوا جس نے بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں صحیح قول کے مطابق اس سے مراد مطلق ظلم ہے جو لوگوں پر حسی و معنوی دونوں طرح کے ظلم کو شامل ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دِينَارٌ أَوْ دِرْهَمٌ قُضِيَ مِنْ حَسَنَاتِهِ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ10
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس کے ذؐے ایک دینار یا ایک درہم تھا، وہ اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا، وہاں (آخرت میں) دینار ہوں گے نہ درہم‘‘۔
اللہ تعالی تمہارے اوپر رحم کرے حقوق کے تعلق سے اپنا معاملہ صاف کرنے میں جلدی کر لو اپنے نفوس کی نجات کے لیے سبقت کرو تو تم سلامت رہو گے اور کامیاب ہو جاؤ گے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنْ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ11
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قیامت کے دن تم سب حقداروں کے حقوق ان کو ادا کرو گے، حتی کہ اس بکری کا بدلہ بھی جس کے سینگ توڑ دیے گئے ہوں گے، سینگوں والی بکری سے پورا پورا لیا جائے گا”۔
اے اللہ تو ہماری توبہ قبول فرما ی یقین تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ہمارے گناہ معاف فرما یقینا تو ہی معاف کرنے والا اور مہربان ہے جو ہم نے سماعت کیا اللہ تعالی اس میں برکت عطا فرمائے تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں تمام تعریفیں تمام جہانوں کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔
خطبہ ثانی:
میں اپنے پروردگار کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اسی کا شکر بجا لاتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اے اللہ رحمتیں اور سلامتی کے حضور فرما ہو ان پر ان کے آل پر اور صحابہ کرام پر ۔
اللہ کے بندو ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ پوری کوشش کر کے مخلوق کے حقوق سے اپنا ذمہ بڑی کر لے۔
جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے:
عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ «يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ12
’’عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے، سوائے قرض کے‘‘۔اس سلسلے میں کوتاہی کا انجام یہ نکلتا ہے کہ انسان پھر دنیا و آخرت میں تباہ کاریوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ13
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کردے گا‘‘۔
پھر اللہ تعالی نے ہمیں ایک عظیم کام کا حکم دیا ہے اور وہ ہے سید ولد عدنان ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا اے اللہ ہمارے نبی محمد صلی درود و سلام نازل فرما برکتوں کا نزول فرما اے اللہ صحابہ کرام اہل بیت اور احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں سے بھی راضی ہو جا اے اللہ تمام مسلمان مرد و خواتین کو معاف فرما تمام مومن مومنات کو اللہ معاف فرما جو ان میں سے زندہ ہیں فوت شدہ ہیں سب کی مغفرت فرما ۔
اے اللہ مسلمانوں کے ہر جگہ حفاظت فرما اے اللہ ان کی پریشانیوں کو دور فرما اور ان کی مصیبتوں کو کافور کر دے ان کے مسائل حل کر دے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دے اے اللہ فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرما انہیں اپنی حفاظت میں رکھ اپنی نگہبانی میں رکھ اے اللہ جو ان پر ظلم و ستم کرتا ہے اس پر اپنی گرفت کو مضبوط فرما انہیں بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لے اے اللہ ہمارے حاکم اور ان کے ولی عہد کو توفیق خاص سے نواز اور ان کی حفاظتی فرما اور تمام مسلم حکمرانوں کو ان کی رعایا کی فلاح و بہبود کے کاموں کی توفیق عطا فرما آمین یا رب العالمین ۔
اے اللہ ہم پر باران رحمت کا نزول فرما اے اللہ بارش نازل فرما اے غنی و بے پرواہ اور قابل تعریف ذات اور ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام تعریفیں تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے۔
خطبہ جمعہ : مسجد نبوی
تاریخ : 27شوال 1446ھجری
بمطابق 25 اپریل 2025 عیسوی
فضیلۃ الشیخ:الدکتور حسین بن عبد العزیز آل الشیخ
_____________________________________________________________________________________________________________________