دیوالی تہوار کا مفہوم
ہندؤں کا تہوار جسے دیوالی، اور دیپاولی بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ دیوالی سنسکرت کے لفظ دیپوالی سے آیا ہے، ‘دیپ ‘ کا مطلب روشنی اور ‘آولی’ کا مطلب قطار۔ یعنی “روشنی والے چراغوں کی قطار”۔ اسی لیے دیپاولی کو روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔
اس تہوار کا پس منظر
دیوالی عام طور پر ہندو کیلنڈر کے مطابق قمری مہینے کارتک کے 15ویں دن منائی جاتی ہے۔ اس دنیا پوری دنیا کے ہندو خوشی مناتے ہیں ۔یہ پانچ روزہ تہوار ہے۔ گھروں، دکانوں اور عوامی مقامات کو تیل کے چھوٹے چھوٹے لیمپوں سے سجایا جاتا ہے جنہیں دیا کہتے ہیں۔ یہ تہوار کارتک کی 15 ویں دن منایا جاتا ہے۔ پران کے مطابق، جب رام نے راون کو شکست دی تو اس دن اپنی بیوی سیتا اور بھائی لکشمن کے ساتھ ایودھیا کی بادشاہی میں واپس آئے ۔رام چودہ سال کی جلاوطنی کے بعد واپس آئے تھے اور ان کی رعایا نے حکمران کے استقبال کے لیے ایودھیا کی گلیوں کو دیپ جلا کر روشن کردیا تھا۔
ہندووں کے کیے جانے والے اعمال
ہندو نظریات کے مطابق دیوالی ایک مقدس تہوار ہے جسے مذہبی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔
- اس دن ہندو لوگ جلدی اٹھتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں کے تیل سے غسل کرتے ہیں اور لکشمی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اس دن ہندو لوگ اپنے گھروں میں لکشمی دیوی کا استقبال کرنے کے لیے اپنے گھروں میں دیے اور روشنیاں جلاتے ہیں ہندو نظریات کے مطابق دیوی اس موقع پر اپنی پوجا کرنے والوں کو دولت اور خوشحالی عطا کرے گی۔ اس موقع کو نئی سرمایہ کاری کرنے کے لیے بھی اچھا سمجھا جاتا ہے۔
- اس دن ہندو قسمت کا خدا سمجھے جانے گنیش کی پوجا کرتے ہیں۔
- دیوالی کو دیوی لکشمی اور بھگوان وشنو کے درمیان شادی کے دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔
- مغربی بنگال میں دیوالی کے موقع پر پوجا کرنے والے کالی دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔
- لوگ اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہیں گھروں کی سجاوٹ کے لیے نئی نئی چیزیں خردی جاتی ہیں اور گھروں کو روشنیوں اور رنگین ڈیزائنوں سے سجایا جاتا ہے۔
- لڈو جیسی مٹھائیاں گھر پر تیار کی جاتی ہیں اور خاندان اور دوستوں کے درمیان بانٹی جاتی ہیں۔
- دیوالی سے ایک دن پہلے، ناراکا چتردشی یا چھوٹی دیوالی پر بھی کرشن کی پوجا کی جاتی ہے تاکہ شیطان ناراکا کو شکست دی جائے۔
- کرشن کی تعظیم کے لیے پانچ روزہ دیوالی تہوار کے چوتھے دن گووردھن پوجا کی جاتی ہے اور دیوالی کے تہوار بھائی دوج کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے، جس دن بھائی بہن کا رشتہ منایا جاتا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری
دین اسلام نے ہمیں دو تہوار دیے ہیں جسے ہم مذہبی عقیدت اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ شرعی تعلیمات کے مطابق مناتے ہیں ۔ لہذا ہمیں یہ تہوار کافی ہیں۔ غیرمسلموں کے تہوار و عبادات و رسوم و رواج کی شرعاً منانے کی کوئ اجازت نہیں کیونکہ غیرمسلموں کی عبادات شرک و کفر پر قائم ہیں۔ اس تہوار میں بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی پوجا کی جاتی ہے ۔ ایک مسلمان شرک کیسے کرسکتا ہے یا ایسی مجالس یا تہواروں میں بھلا کیسے شریک ہوسکتا ہے جو شرک پر مشتمل ہو جسے قرآن کریم نے گندگی قرار دیا ۔ اور اعلان کردیا گیا کہ شرک ناقابل معا فی گناہ ہے اور کوئی بغیر توبہ کے مرجائے تو معافی کی کوئی سبیل نہیں۔ یہ تہوار سراسر شرک پر قائم ہے۔
دیوالی کی مجالس میں شرکت
ایک مسلمان کیلئے اس قسم کی تقاریب میں شریک اور ان کی دعوت قبول کرنا ناجائز و حرام ہے بلکہ یہ انہیں محض مبارکباد دینے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔مسلمان کسی ایسی مجلس میں شریک ہونے کی اجازت نہیں جہاں دین اسلام کی تعلیمات کے منافی امور کیے جائیں ان کی مجالس میں غیر اللہ کی پوجا پرستش کا معاملہ سب سے زیادہ خطرنک ہے اسلامی حمیت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہمیں حد درجہ شرک و کفر سے نفرت ہو ۔ مزید یہ کہ ایسی مجالس میں مرد و زن کا اختلاط ، موسیقی ، فضول خرچی ، آتش بازی یہ سب امور شرعی طور پرناجائز ہیں ، لہذا جہاں یہ امور کیے جائیں وہاں شرکت بھی ناجائز ہے۔
حکمران طبقہ کا رویہ
قابل افسوس بات یہ ہے ہندو ووت کے حصول کے لیے مسلمان حکمران اپنی دینی ذمہ داری کو بھول جاتے ہیں ، دیوالی کے موقع پر شاہ محمود قریشی ، ایم این آفتاب حسین صدیقی، مریم نواز ، بلاول بھٹو اور ملک پاکستان کے حالیہ وزیر اعظم سمیت مذکورہ شخصیات میں سے بعض کا ان مجالس میں شریک ہونا اوربعض کا بیانات کی حد تک مبارک باد دینا قابل مذمت ہے۔ شرعی طور پر تو ایسے حکمران مسلمانوں کی حکمرانی کا استحقاق کھودیتے ہیں ۔ اس لیے انہیں اپنی دینی ذمہ داری کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ چار دن کی چاندنی کے لیے ہمیشہ کے عذاب کو دعوت نہ دیں بلکہ حکمران طبقے کو تو غیرمسلموں کی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے اور اصلاح و دعوت دین کے لیے مؤثر مفید اقدامات کرنے چاہییں۔
دیوالی مبارک کہنا جائز نہیں ۔
مبارک ایک عربی لفظ ہے اور اسلامی اصطلاح ہے ۔ لوگ اس موقع پر دیوالی مبارک کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس میں دو خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ دیوالی کی کسی بھی الفاظ میں مبارکباد دینا جائز نہیں اور دوسری یہ کہ اسلامی اصطلاحات کے ساتھ مبارکباد دینا اس کی شناعت اور قباحت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے اس سے احتراز لازمی امر ہے۔ کسی بھی الفاظ میں مبارکباد دینے والا شخص گناہ گار ہوگا۔ جانتے بوجھتے شرعی اصطلاحات استعمال کرنے والا شخص زیادہ بڑے گناہ کا مرتکب ہے۔ اس کی نیت و ارادے میں اگر اسلامی اصطلاحات کی اہانت یااستہزاء مقصود ہوتو معاملہ کفر یا ارتداد تک جا پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما التهنئة بشعائر الكفر المختصة به فحرام بالاتفاق ، مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم ، فيقول: عيد مبارك عليك ، أو تهْنأ بهذا العيد ونحوه ، فهذا إن سلم قائله من الكفر فهو من المحرمات وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب بل ذلك أعظم إثماً عند الله ، وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس ، وارتكاب الفرج الحرام ونحوه ، وكثير ممن لا قدر للدين عنده يقع في ذلك ، ولا يدري قبح ما فعل ، فمن هنّأ عبداً بمعصية أو بدعة ، أو كفر فقد تعرض لمقت الله وسخطه
“کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: “آپکو عید مبارک ہو” یا کہنا “اس عید پر آپ خوش رہیں” وغیرہ، اس طرح کی مبارکباددینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے” ۔
لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپ کا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور ۔اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اسکا جواب نہیں دینگے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر انکے دین میں تو شامل ہیں لیکن نبی کریم ﷺ پر ساری مخلوق کیلئے نازل ہونے والے اسلام نے انکی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے۔
دیگر ناجائز امور
اس قسم کے تہواروں میں کسی مسلمان کا جس شریک ہونا یا مبارکباد دینا ناجائز و حرام ہے اسی طرح اس موقع پر ان کی مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام یا تحائف کا تبادلہ کرنا یا وہ امور کرنا جو امور وہ ایسے مواقع پر کرتے ہوں جیسے مٹھائی تقسیم کرنا ، اچھےکھانے بنانا وغیرہ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
من تشبه بقوم فھو منھم
جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مشابهتهم في بعض أعيادهم توجب سرور قلوبهم بما هم عليه من الباطل وربما أطمعهم ذلك في انتهاز الفرص واستذلال الضعفاء
“کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اُنکے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے،اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اسکی وجہ سے انکے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے” ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر مسلمان کو دیوالی کی مجالس میں شرکت سے بچناچاہیے ، مبارکباد نہ دی جائے ، اور ان کی مٹھائی وغیرہ کھانےسے بھی گریز کریں۔