مُردہ روحوں کا عالمی دن “ہالووین” تاریخ ، حقائق، رسومات اور شرعی قباحتیں

گذشتہ چند سالوں سے مغربی رسوم اور تہوار نہایت تیزی اور غیر محسوس انداز سے ہمارے معاشرے میں شامل ہوتے جا رہے ہیں یا انہیں شامل کرنے کی کوشش میں تیزی آرہی ہے ۔ گذشتہ سال مغربی دنیا کی طرح پہلی بار بعض مسلم ممالک میں بھی ہالووین کا تہوار منایا گیا۔ ظاہر بات ہے کہ ہالووین کا اسلام اوراسلامی ممالک سے کوئی تعلق نہیں، یہ مغرب کی ویلنٹائن ڈے کی طرح کی ایک بے ہودہ رسم ہے مگرمسلمان ممالک  کی طرف سے سرکاری سطح پرایسی تقریبات کا انعقاد کرنا یہ ثابت کرتاہے کہ مغرب اورعالمی طاقتیں مسلمانوں کی تہذیب، شناخت اورمسلمان معاشرے کے اندر کس حد تک سرایت کرچکی ہیں اور ہم اس سیلاب میں بہتے جارہے  ہیں۔ رحمت ِ کائنات ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا :

لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوْا جُحَرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اﷲ ِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ فَمَنْ ؟ ۔

(صحیح البخاری: 7320 )

“تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طور طریقوں کی اس طرح پیروی کروگے جس طرح ایک بالشت دوسری کے برابر ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے جا گھسوگے ۔ ہم نے کہا ، یا رسول ﷲ ! کیا وہ یہودی اور عیسائی ہیں ، آپﷺ نے فرمایا : تو اور کون ہیں؟”۔

 چودہ سو سال پہلے کی ہوئی نبی كریم ﷺ كی پشین گوئی آج حرف بحرف پوری ہورہی ہے ۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتی جا رہی ہے ، روز بروز ایک نیا تہوار منانے کا رواج وجود میں آتا جا رہا ہے اورسال کے اکثر ایام کو مختلف واقعات سے جوڑ کر اسے عالمی سطح پر منایا جانے لگا ہے ۔ جن میں زیادہ تر تہوار ایسے ہیں جو معاشرے کو بڑی تیزی سے تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ تباہی کی طرف دھکیلتے تہواروں میں ہالووین بھی شامل ہے جو مغرب کی دیکھا دیکھی مسلمان ممالک میں بھی اس کی حقیقت جانے بغیر زور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ ”ہولی ایوننگ“ یعنی ”پاک شام“ سے شروع ہونے والایہ لفظ آج ہالووین کہلاتا ہے۔ آئیے درج ذیل سطور میں ہالووین کا معنی ومفہوم ، تاریخ ، حقیقت اور اس کی شرعی قباحتیں معلوم کرنے کی کوشش کرتے  ہیں ۔

ہالووین کا معنی ومفہوم

اصل میں لفظ ہالووین(  Halloween  ) دو الفاظ کا مجموعہ ہے Hallow+evening))

    Hallowکا مطلب کسی چیز کو مقدس بنا کے اختیار کرنا اور evening کا مطلب ہے شام۔ یعنی مقدس شام۔

ہالووین کے دیگر نام

ہالوین کے کئی نام ہیں : All saint,s dayیعنی تمام بزرگوں اور درویشیوں کا دن، All hallows day     یا

  All soul day یعنی”  تمام  روحوں کا دن”  بھی کہا جاتا ہے ۔

ہالووین تہوار کب منایا جاتا ہے ؟

ہالووین اکثر مغربی ممالک میں ہر سال 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے، 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ  گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اورچاکلیٹیں دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔ یہ دن ان کے لیے مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے ابتدا سے لیکر آج تک یوم تعطیل رہا ہے۔

31 اکتوبرکی رات کو کیا ہوتا ہے ؟

عیسائی راہبوں کے مطابق 31 اکتوبر کی یہ رات ایک مقدس رات ہے ۔ جس میں گلی کوچوں، بازاروں، سیرگاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں، اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈراؤنے ڈھانچے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے قریب سے گزریں تو وہ ایک خوف ناک قہقہہ لگا کر دل دہلا دیتے ہیں۔ اس رات مغربی ممالک کے توہم پرست لوگ خوفناک لباس اور شکلیں بنا کر، ہاتھوں میں ڈھول، پلیٹیں اور شور شرابہ کرکے شیطانوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہالووین منانے کے مقاصد؟

ہالووین تہوار منانے کے پیچھے بہت سارے اسباب اور مقاصد تھے جنہوں نے ماضی میں لوگوں کو ہالووین منانے پر اکسایا اور آج تک انہیں ہالووین منانے کی ترغیب دے رہےہیں۔ جن میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

موسم خزاں کا احترام

ہالووین تہوار کا مقصد اختتامِ موسم ِخزاں یعنی موسم ِفصل کٹائی کی اختتام کا احترام تھا کیونکہ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی چنانچہ سیلٹک (  Celtics  )قبائل اختتامِ موسم کے احترام میں فصل کٹوائی کا تہوار harvest festival  ہارویسٹ فیسٹیول منایا کرتے تھے ۔ اس تہوار میں وہ ساری فصل کو نکالتے اور اس سے جو جو کھانا پکتا اسے ٹیبل پر سجاتے اور کھڑکیاں کھول دیتے تاکہ بد روحیں آکر کھانا کھائیں اور کوئی نقصان پہنچائے بغیر واپس ہو جائیں۔

موسم سرما کا استقبال

ہالووین منانے کا ایک مقصد موسم سرما کا استقبال تھا ، کیونکہ ان یورپی علاقوں میں نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ جسے وہ سال کا تاریک ترین موسم  dark Cold winters شمار کرتے تھے۔ یہ قبائل ان سردیوں کو موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات سردی کی وجہ سے اسی موسم میں ہوتی تھیں ۔

سال نو کا استقبال

ہالووین منانے کا ایک مقصد سال نو کا استقبال ہے کیونکہ ان قبائل کے ہاں نیا سال یکم نومبر کو شروع ہوتا تھا اور نئے سال کے آغاز میں سیلٹک قبائل سامہین (Samhain )نامی تہوار مناتے تھے   ، Samhain  جس کااصل  تلفظ( sow.in ہے )   جوبعد میں ہالووین میں تبدیل ہوگیا ۔

بد روحوں کے شر سے بچاؤ

ہالووین منانے کا ایک مقصد اپنے آپ کو ان  خبیث روحوں سے بچانا تھا کیونکہ سیلٹک قوم کےعقائد کے مطابق نومبر کے شروع میں یہ خبیث روحیں دنیا میں آتی ہیں اور زندہ انسانوں کو مار دیتی ہیں یا جو بھی اُن خبیث روحوں کو دیکھتا ہے وہ ویسے ہی مر جاتا ہے۔ چنانچہ ان بدروحوں کے شر سے بچنے کے لیے یہ قوم عجیب و غریب شکلیں بنائے ہوئے اپنے گھروں کے باہر آگ جلاتی اور اس کے ارد گرد ناچتی اور جانوروں کے اور شیطانوں کے خوفناک  ملبوسات پہنتی اور گھروں کے باہر کھڑی ہو جاتی تھیں  ۔

ہالووین  تہوار کی رسمیں

سرکاری تعطیلات

ہالووین تہوار کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ عیسائی ممالک میں سرکاری چھٹی کا دن سمجھا جاتا ہے، جن میں سر فہرست ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، آئرلینڈ اور کینیڈا شامل ہیں ۔اس دن محکمے اور ادارے اپنا کام معطل کر دیتے ہیں۔

خوفناک ملبوسات پہننا

ہالووین کے ملبوسات ہمیشہ سے ہی خوفناک رہے ہیں۔ ماضی میں لوگ مرنے والوں کی روحوں کی علامت والے ملبوسات کے علاوہ انتہائی خطرناک قسم کے جانوروں کی کھالوں اور کھوپڑیوں کو پہننے کا انتخاب کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ایسے ملبوسات پہننا شروع کر دیئے جن کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بدروحوں یا شیطانوں کی مجسم اشکال ہیں، جیسے کہ سیاہ یا کالے داغ دار لباس پہننا، اورایسا ماسک پہننا شروع کیا جو کھوپڑی کی شکل رکھتے ہیں ۔

پارٹیوں کا انعقاد اور قبرستانوں کی زیارت

چونکہ ہالووین تہوار پر تمام ممالک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے، اس لیے بہت سے لوگ تفریح ​​اور لطف اندوزی کے لیے جشن مناتے ہیں، گھروں کو روشنیوں سے سجاتے اور موم بتیاں روشن کرتے ہیں، مُردوں کی قبروں پر جا کر ان پر موم بتیاں بھی روشن کرتے ہیں، اور کچھ سبزیوں، جیسے کدو کو ایک چراغ کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، عجیب وغریب اور ڈراؤنے ملبوسات پہنتے ہیں ، رات کو رہائشی محلوں کی گلیوں میں گھومتے ہیں، آپس میں تحائف اور مٹھائی کا تبادلہ کرتے ہیں، اورقبرستانوں میں جاکر کچھ رسومات بھی ادا کرتے ہیں۔

ہالووین کی فلمیں دیکھنا

اس خاص تہوار کو دکھانے کیلئے مغربی سنیما نے بہت سی فلمیں تیار کی ہیں ، ان میں سے بہت سی فلموں نے بہت بڑا مالی منافع حاصل کیا ہے، لوگ ہالووین کے دوران پیش کی جانے والی فلموں کو نہایت شوق سے  دیکھنے آتے ہیں ، جن  کی کہانیاں اکثر ہالووین کے خیال اورخوفناک مناظر اور حالات کے گرد گھومتی ہیں ۔

مٹھائی یا چلاکی  (Trick or Treat)کی رسم

ہالووین کےتہوار میں   (Trick or Treat)  کی رسم سب سے زیادہ عام ہے،  31  اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں لوگوں کو ڈرانے کیلئے گھر گھر جاکردروازوں پہ دستک دیتی ہیں ، اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی  اور شرارت کے لیے تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ  گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اورچاکلیٹیں دے کر رخصت کر دینے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اوائل میں اس تہوار کی رسم دوسروں کے گھروں میں جانا اور ان سے کھانا یا پیسے مانگنا ہوتا تھا لیکن اب اس کی جگہ Trick or Treat نے لے لی ہے۔

ہالووین تہوار کی علامات اور نشانیاں

ہالووین تہوار متعدد مفہوم اور معانی کے ساتھ بہت سی علامتوں سے بھرا ہوا ہے، چنانچہ دنیا کی سب سے بڑی تجارتی کمپنیاں اس تہوار کے آغازسے قبل ہی ان علامتوں اور نشانیوں کو تیار کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان میں درج ذیل علامتیں قابل ذکر ہیں:

پیٹھا کدو (  Pumpkin)

کدو کی علامت کا استعمال بہت پہلے آئرلینڈ میں شروع ہوا ، خاص طور پر جب سیلٹکس قبائل شلجم کو اندر سے تراش کر کھوکھلا کرتےتھے کیونکہ ان کے پاس کدو نہیں ہوا کرتے تھے۔ پھر یہ لوگ اس تہوار کو منانے کے موقع پر شلجم کے اندرآگ کا الاؤ رکھتے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بری روحوں کو ان سے دور رکھے گی۔ امریکہ منتقل ہونے کے بعد انہوں نے شلجم کے بجائے کدو کا استعمال شروع کیا۔ چنانچہ اب کدو کو اندر سے خالی کیا جاتا ہے اور پھر اس پر مختلف طرح کے ڈراونے اور بھیانک فیس کٹ بنائے جاتے ہیں اور پھر اس کے اندر ایک موم بتی روشن کی جاتی ہے۔ اور پھر ان کدوؤں کو اپنے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کے باہر رکھ دیا جاتا ہے۔

ہالووین ڈائن (چڑیل کی علامت)

چڑیل کی علامت ایک بہت پرانی روایت ہے اور لوگوں میں ہالووین کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی علامتوں میں سے ایک ہے۔ مغربی ثقافت میں چڑیل ہمیشہ ایک مافوق الفطرت خاتون کی نمائندگی کرتی ہے، اور اس کا استعمال اس وقت سے لے کر آج تک بڑے پیمانے پر ہوتا رہا ہے۔

ہالووین چمگادڑ

چمگادڑ کی مغربی ثقافت میں پرانی جڑیں ہیں، کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ چمگادڑ میں ہالووین کے موقع پر جلائی جانے والی آگ کے گرد جمع ہونے والے تمام اڑنے والے کیڑوں کو کھانے کی صلاحیت ہے۔ان کے عقیدے کے مطابق چمگادڑ کی علامت خون چوسنے والی مخلوق سے بھی جوڑا جاتاہے جو نہایت خوفناک لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ بعض چمگادڑ ان خون چوسنے والی مخلوق میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

ہالووین بھوت

بھوت کی علامت ان علامتوں میں سے ایک تھی اور اب بھی ہے جسے لوگ ہر سال اس موقع پر استعمال کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اس رات مرنے والوں کی روحیں پرانے اور لاوارث گھروں میں اپنے پیاروں سے ملنے بھوتوں کی شکل میں گھومتی ہیں۔

ہالووین بلی

کالی بلی کی علامت عام طور پر ہالووین کے تہوار پر استعمال ہوتی ہے کیونکہ ان لوگوں میں  یہ عقیدہ مشہورتھا کہ خبیث اور برے انسان خود کو کالی بلیوں میں تبدیل کرنے کی قوت رکھتے تھے۔ ایک قدیم عقیدہ یہ بھی تھا کہ کچھ چڑیلیں کالی بلیوں میں بھی بدل سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اُن جانوروں کا تعلق بھی چڑیلوں سے ہے جو اکثر کالی بلی کے ساتھ گھومتے ہیں۔ حالانکہ  یہ سب خرافات اور باطل خیالات ہیں ۔

خوفناک  کاسٹیوم  (ڈراؤنے اشکال )

بہت سی تہذیبوں اور ثقافتوں میں مختلف ڈراؤنی اشکال  کی علامت کا استعمال عام تھا ، چنانچہ زیادہ تر جانوروں کی کھوپڑیوں کو ان ڈراؤنی اشکال پر رکھا جاتا تھا اور پھر جشن کے دوران جلا دیا جاتا تھا تاکہ خبیث روحوں میں خوف پیدا کیا جاسکے۔ ان خبیث روحوں کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ وہ نقصان پہنچانے کے لیے لوگوں کے اندر گھُسنے کی کوشش کرتی ہیں۔

بعد میں ڈراؤنے اشکال کی علامت کو موسم خزاں اور فصل کی کٹائی کے موسم کی علامت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ درحقیقت ڈراؤنے اشکال کی علامت کو صرف ہالووین کی علامت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ، بلکہ یہ دوسری تعطیلات، مثلا: یوم تشکر پربھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مقصد زمین  سے فصل کی  کٹائی  اور مال کثیرکے حصول کی نشاندہی مقصود ہے۔ کیونکہ اس دن میں فصل کی کٹائی اور بہت سی بھلائیوں کا نظریہ پوشیدہ ہے۔

ہولناک اور خوفناک کہانیوں کا تبادلہ

ہالووین کے دن لوگ لاوارث گھروں میں رہنے والے جانوروں اور  خبیث  روحوں کے بارے میں ڈراؤنے اور خوفناک کہانیوں کا تبادلہ کرتے ہیں ، نیز ایسی کہانیاں اور خیالات  بنا کر پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کا یہ عقیدہ  ہے کہ اس دن بری روحیں عالم برزخ سے زمین کی طرف منتقل ہوتی ہیں، چنانچہ ان روحوں کو الجھن میں ڈالنے اور خوفزدہ کرنے کے لیے ان  خبیث روحوں کے دلوں میں دہشت اور خوف پھیلانا  نہایت ضروری  سمجھا جاتا ہے۔

پُر اسرار عمارتیں اور کھوپڑیاں

اونچی اور بڑی پُر اسرار عمارتیں اور کھوپڑیاں ہالووین تہوار کی مرکزی علامات سمجھی جاتی ہیں، کیونکہ یہ موت کے تصور کی واضح جسمانی اور حقیقی نشانیاں ہیں۔ ہالووین تہوار کو مردوں اور ان کی روحوں کی عالم برزخ سے انسانی دنیا میں منتقلی کے لئے ہمیشہ سے یومِ عید تصور کیا جاتا رہا ہے۔

خون اور مکڑیاں

مغربی ثقافت میں خون زندگی اور موت کی علامت ہے اور یہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہم بحیثیت انسان  غم اور تکلیف اٹھاتے ہیں اور موت سے بہت ڈرتے ہیں۔ اس میں اس ویمپائر( آدم خور بھوت یا پری )کی طرف بھی  واضح اشارہ ہے جو لوگوں کاخون پی جاتا ہے۔

 ویمپائر: یہ ایسے آدم خور بھوت یا پریوں کا افسانوی کردار ہے جو دوسرے لوگوں کا خون پی کر زندہ رہتے ہیں۔ یہ بھوت یا پری عام طور پر لوگوں کی گردن پر کاٹ کر خون چوستا ہے۔ اُس کے کاٹنے کی وجہ سے متاثر شخص بھی آدم خور بھوت یا پری میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر وہ  بھی اپنی بقاء کے لیے مزید ایسے شکار تلاش کرتا ہے جس کا وہ خون پی سکے۔

مکڑی

ہالووین تہوار پر مکڑی کی علامت  کا استعمال قدیم ہے اور مغربی ثقافتوں میں اس کی جڑیں کافی پرانی ہیں، مکڑی کو تقدیر بُننے والے اور بُرے لوگوں اور چڑیلوں کے ساتھی کے طور پر مانا جاتاہے۔ کیونکہ مکڑی اندھیرے اور ویران جگہوں، جیسے پرانے مکانات، قبرستان، اور غار میں رہنا پسند کرتی ہے ، اور ان کی کچھ اقسام انسانوں کو مارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں چنانچہ اسے جلد ہی ہالووین سے جوڑ دیا گیا۔

ہالووین کی ابتدا

ہالووین کا ظہور 2000 سال قبل یورپی جزائر میں ہوا جو اس وقت آئرلینڈ، برطانیہ اور فرانس کہلاتے ہیں اور اس کا آغاز سیلٹک نامی قبائل نے کیا، جو ہر سال سامہین (Samhain ) نامی مذہبی تہوار منعقد کرتے تھے۔ یہ تہوار فصل کٹوائی کے موسم کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کی مناسبت سے منایا جاتا تھا۔

ہالووین کا نام کب استعمال ہوا ؟

پوپ گریگوری (Pop Gregory) نے اسے آٹھویں صدی میں ہالووین تہوار کا نام دے دیا ۔ یہ ان لوگوں کی یاد میں منایا جاتا جو مر گئے ہیں۔ یہ تہوار اصل میں ایک طرح کا شکرانہ بھی تھا کہ غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جائے لیکن بعد میں اس تصور کو بدل دیا گیا اور غریبوں کے بجائے بدروحوں اور شیطانوں کو کھلانے کا رواج پڑ گیا۔ اس دن بچے بھی ٹافیاں اور کھانے پینے کی چیزیں مانگنے آتے اور لوگ اُنہیں خوشی خوشی دیتے تاکہ بدروحیں ان سے خوش ہو جائیں۔ اب اہل یورپ نے جانوروں، چڑیلوں اور عجیب و غریب چہروں کا روپ دے کر اسے ایک بہت بڑا تجارتی میلہ بنا لیا اور اسے اس تہوار کا حصہ بنا لیا۔

ہالووین تہوار اور سیلٹک قبائل کے عقائد

1۔ سیلٹک قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ نئے سال کے آغازسے پہلے کی رات یعنی 31 اکتوبر کی شب کو زندہ انسانوں اور مردوں کی روحوں کے درمیان سرحد نرم ہوجاتی ہے اوران کی روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

2۔  ان کاعقیدہ تھا کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوسری دنیا میں جا کر یا تو خدا بن جاتے ہیں یا پھر بھوت ۔ اور نومبر میں ہماری اور ان کی دنیا کے درمیان موجود دروازہ کھل جاتا ہے اور ہماری دنیا میں آکر ہمیں مارتے ہیں اورخون خرابہ کرتے ہیں ۔اسے عقیدہ سدھس  (sidhs)کہا جاتا تھا ۔

3۔ ان کاعقیدہ تھا کہ جو بھی اُن  بد روحوں کو دیکھتا ہے وہ ویسے ہی مر جاتا ہے۔ چنانچہ ان بد روحوں سے بچنے کے لیے یہ قوم عجیب و غریب شکلیں بنائے ہوئے اپنے گھروں کے باہر آگ جلاتی اور اس کے ارد گرد ناچتی اور جانوروں کے اور شیطانوں کے عجیب و غریب ملبوسات پہنتی اور گھروں کے باہر کھڑی ہو جاتی ۔

4۔  اس قوم کا عقیدہ و یقین تھا کہ ماہ نومبر سے سدھس آنا شروع ہو جاتے ہیں اس لیے وہ 31 اکتوبر کی رات کو ایسا عجیب و غریب حلیہ بناتے کہ سدھس انہیں پہچان نہ پائیں اور انہیں چھوڑ دیں۔ ان کے خیال میں اگر ہم جانوروں کی یا ڈراؤنی شکلیں اختیار کر لیں گے تو یہ سدھس ہمیں بھی اپنے ہی جیسا سمجھ کر چھوڑ دیں گے اور کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

5۔ سیلٹک لوگوں کے عقیدے کے مطابق چمگادڑ اور کالی بلی بھی مردہ لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ یہ عقیدہ بھی تھا کہ کالی بلیاں گھر سے چڑیلوں کو بھی بھگانے پر قادر ہیں۔

6۔ پادری اس رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کراتے تھے اور لوگ وہاں جمع ہو کر فصلیں اور جانور جلا کر اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لیے قربانی پیش کرتے تھے، اس رسم کے دوران وہ جلائے گئے جانوروں کے سر اور کھال زیب تن کرتے تھے۔

7۔ہالووین پر خوفناک ملبوسات  کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس رات زمین پر گھومتی بد روحیں اُنہیں شناخت نہ کر سکیں، ان ملبوسات کا ایک اور مقصد ان بدروحوں کے لباس کی تقلید کرنا بھی تھا تاکہ وہ انہیں اپنے ساتھی سمجھ کر کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔

8۔ 31   اکتوبر کی رات پادری گھر گھر جا کر مخصوص پکوان طلب کرتے تھے تاکہ اس نذرانے کے ذریعے بدروحوں کو راضی کیا جائے۔

9۔ اگر کوئی گھرانہ پادری کے مطلوبہ پکوان مہیا نہ کر پاتا تو عام عقیدہ تھا کہ ایسے گھر اور اس کے مکین مشکلات، بیماری اور موت کا شکار ہو جائیں گے۔

10۔ خوشحالی اور سلامتی کی بشارت ان لوگوں کے لیے تھی جو فیاضی سے کھانا اور دیگر اشیاء پیش کرتے تھے، اس طرح یہ روایت موجودہ دور میں ہالووین کے حوالے سے مشہور جملے ٹرِک یا ٹریٹ کا سبب بنی، یعنی مٹھائی دو یا ممکنہ نتائج کے لیے تیار رہو۔

11۔  پادری کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ روحوں کے ساتھ کلام کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں اور ان سے مستقبل کی جانکاری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

12۔ لوکی نامی سبزی کو اندر سے کھوکھلا کر کے لالیٹن کی شکل دے کر اس میں دیا یا موم بتی کے ذریعے روشنی کر کے گھومنا  بھی ہالووین کے تہوار سے منسلک ہے۔ اس کا آغاز آئرش نژاد افسانوی کردار جیک نے کیا، جس کے بارے میں یہ قیاس آرائی عام تھی کہ وہ لوگوں کے ساتھ مختلف شرارتیں کر کے لطف اندوز ہوتا تھا۔

13۔ اس کے بارے میں یہ افسانے بھی زبان زد عام تھے کہ جیک مرنے کے بعد جنت یا جہنم میں نہیں بھیجا گیا، اس لیے اس کی روح لوکی سے بنے ہوئے لالٹین لے کر راستے کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔

14۔اس افسانوی کردار کی تقلید میں لوکی اس تہوار کے لیے خاص طور پر کاشت کیے جاتے  اور ان کو اندر سے کھوکھلا کر کے، اس میں موم بتیاں روشن کر کے راستوں میں پھرا جاتا  تاکہ جیک کی روح راستہ پا لے، لوکی پر مختلف ڈراؤنی اشکال بھی گودی جاتی تھیں ، تاکہ بدروحوں کو ڈرا کر بھگایا جا سکے۔

عیسائی مذہب میں ہالووین کا آغاز

عیسائی مذہب میں ہالووین منانے کی تاریخ آٹھویں صدی سے شروع ہوتی ہے، جب پوپ گریگوری سوم نے آل سینٹس ڈے کو 13 مئی سے منتقل کرکے یکم نومبر کومقرر کردیا، جس میں 31 اکتوبر کی رات کو بھی شامل  کیا گیا تاکہ آل  سینٹس ڈے اور ہالووین ایک ہی وقت میں منعقد ہو سکے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہالووین کا تہوار یا ہالووین لفظ بائبل میں کہیں مذکور نہیں ہے بلکہ جرمیا 10:02 واضح انداز میں کہتی ہے کہ ” دوسرے لوگوں کے راستوں کی پیروی نہ کرو‘‘۔

ہالووین کا تہوار امریکہ میں

امریکہ میں ہالووین کی ابتداء 1921میں شمالی ریاست منی سوٹا سے ہوئی اور اس سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا۔ پھر رفتہ رفتہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے تمام علاقوں تک پھیل گیا۔ حالانکہ اٹھارویں صدی میں عیسائیت کے غلبہ کے بعد اس تہوار کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر ناکامی ہوئی۔ اس تہوار کا اثر ختم کرنے کیلئے یکم نومبر کو ’’ تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘‘ قرار دیا گیا ۔کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی۔اس دن کو لوگ اپنے اپنے انداز سے مناتے رہے اورآج تک منا رہے ہیں۔

ہالووین تہوار اور عیسائی عقائد

عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ نیک لوگ جو وفات پاگئے اور انہیں ابھی تک جنت میں جانے کی اجازت نہیں ملی وہ روحیں اس وقت تک کسی درمیانی حالت میں رہتی ہیں جب تک مطلوبہ پاکیزگی حاصل کرکے جنت میں چلی نہیں جاتیں ۔

عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق روحیں زمیں پر آتی ہیں اور لوگوں کو اس شام میں خوف زدہ کرتی ہیں ۔اس شام میں اگر آپ نے کسی کے ساتھ برائی کی ہو تو یہ اس رات میں آپ کو لینے آتی ہیں ۔ اسی وجہ سے کچھ لوگ بھیس بدل لیتے ہیں تاکہ انہیں پہچانا نہ جا سکے اور اس طرح وہ محفوظ رہ سکیں ۔

ہالوین کے موقع پر کالی بلی اور چمگاڈروں کی تصویریں بنائی جاتی ہیں ۔ کالی بلی کے بارے میں ان کے توہمات یہ ہیں کہ یہ چڑیلوں کے گھر ہوتی ہیں اور ان کا یہ بھی وہم ہے کہ کالی بلی اور چمگاڈر روحوں سے بات چیت کرتے ہیں ۔

ہالووین تہوار کی شرعی  قباحتیں قرآن وسنت کی روشنی میں

مذکورہ  بالا حقائق سے یہ واضح ہوگیا کہ ہالووین کی تاریخی جڑیں یا تو بت پرستی سے یا عیسائیت سےجُڑی ہیں ، یعنی یہ ایک مغربی تہذیب کا تہوار اورعیسائی جشن ہے۔ اور یہ جشن 2000سال قدیمی ہے اور عیسائی راہبوں کے مطابق یہ رات ایک مقدس رات ہے۔ جس کا آغاز آئرلینڈ کے قبائل نے کیا۔ ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی  31  اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اسلام کے نکتہ نگاہ سے ہالووین کا جشن منانا بہت سے اسباب کی بنا پر حرام ہے جن میں درج ذیل اسباب قابلِ ذکر ہیں :

1۔ زندہ اور مردہ انسانوں کو عالم الغیب ماننا

ہالووین تہوار منانے والوں کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ اس دن مردوں اور زندوں کے درمیان فرق ختم ہو  جاتا ہے اور زندہ انسان مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ یا اس بارے میں پیشین گوئی کرسکتا ہے۔ جبکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ صرف اللہ کو مستقبل کا علم ہے، اللہ کے علاوہ کسی کو غیب کا علم نہیں۔  اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللہُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

( سورۃ النمل :65)

ترجمہ :آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتا ہے اور نہ انہیں معلوم ہے کہ وہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے۔

2۔  مردہ روحوں كو نفع ونقصان كا مالك سمجھنا

ہالووین تہوار منانے والوں کا عقیدہ ہے کہ روحیں نقصان پہنچاتی ہیں اس لئے ان سے دفاع کرنے کے لئے ان کی شکل کی تصویریں بناتے ہیں ، وحشت ناک کپڑے پہنتے ہیں اور مختلف قسموں کی غذائیں تیار کی جاتی ہیں تاکہ وہ انسانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں حالانکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ فائدہ  اور نقصان صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :

قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ”

( سورۃ المؤمنون: 88).

کہو کہ : ’’ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے، اور جو پناہ دیتا ہے، اوراُس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ بتاؤ اگر جانتے ہو؟

 دوسری آیت میں فرماتا ہے :

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ 

( سورۃ يس: 83)

پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکومت ہے، اور اُسی کی طرف تم سب کو آخر کار لے جایا جائے گا۔

3۔ روحوں كی واپسی كا عقیده

ہالووین منانے والوں  کا عقیدہ ہے کہ ہر سال  31 اکتوبر کو ارواح دنیا میں واپس آتی ہیں اور لوگوں سے بدلہ لیتی ہیں۔ یہ دورِ جاہلیت کی طرح توہم پرستی پر مبنی عقیدہ ہے۔ یہ ہندو مذہب کا عقیدہ ہے جو مردہ انسانوں کی ارواح کی دنیا میں واپسی کے قائل ہیں ۔ ہندوؤں کے علاوہ  دنیا کے کچھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں ۔

  روحیں دنیا میں واپس نہیں آئیں گی

جبکہ اسلام کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کی دنیا میں واپسی کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے جسے قرآن نے پیش کیا ہے کہ ہر مرنے والے کی روح عالم دنیا سے روز محشر تک عالَم برزخ میں منتقل کردی جاتی ہے ، جہاں سے واپسی ناممکن ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ، لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

(سورۃ المؤمنون، آیت: 99 ، 100)

(یہ لوگ اپنی کارستانیوں میں لگے رہیں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی کو جب موت آئے گی تو کہے گا : پروردگار! مجھے دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں وہاں جاکر عمل صالح کروں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک لفظ ہے جسے وہ کہہ رہا ہے (اسے دوبارہ بھی توفیق عمل نہیں ہوگی) اور وہ لوگ اپنی موت کے بعد قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہیں گے۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

(سورۃ الأنبیاء: 95)

جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کر دیا وہ دنیا میں واپس نہیں  آئیں گے ۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

(سورۃ الزمر: 24)

ترجمہ :اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو نہیں مرا ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔

فرمان نبوی ﷺ

جس طرح قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کی دنیا میں واپسی کی نفی کرتا ہے، اسی طرح  فرمان نبوی ﷺ بھی اسی بات کی توثیق وتصدیق کرتا ہے ۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا : اے جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ضرور دیجئے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما كلَّمَ اللہُ أحدًا قطُّ إلَّا من وراءِ حجابِه وأحيى أباكَ فَكَلَّمَهُ كِفاحًا فقالَ : يا عَبدي تَمنَّ عليَّ أُعْطِكَ قالَ : يا ربِّ تُحييني فأقتلَ فيكَ ثانيةً قالَ الرَّبُّ تبارك وتعالَى : إنَّهُ قد سبقَ منِّي أنَّهم إليها لَا يُرجَعونَ

(صحيح الترمذي:  3010)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا   لیکن اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ان سے  ( بغیر پردہ کے )  آمنے سامنے بات کی، اور کہا: اے میرے بندے! مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر، میں تجھے دے دوں گا، انہوں نے کہا: رب! مجھے دوبارہ زندہ فرما، تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں، اللہ تبارک و تعالیٰ  نے فرمایا: میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے“

خلاصہ

پیش کردہ قرآنی آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے۔ اور اگر وہ مرنے کے بعد بھی اپنے گھروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں تو مرنا کیسا ؟ اور ان کی موت پر رونا پیٹنا اور جنازہ و تعزیت کس لیے ؟

روحوں کی واپسی کب ہوگی ؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ  ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مرے ہوئے لوگوں  کی ارواح کی واپسی قیامت کے دن ہوگی، جب دنیا ختم ہو جائے گی تو اس وقت سب اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل آئیں گے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے سورہ معارج میں فرمایا ہے۔

يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍ يُوفِضُونَ

(المعارج: 43)

جس دن وہ قبروں سے تیز دوڑتے ہوئے نکلیں گے، جیسے وہ کسی گاڑے ہوئے نشان کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔

مردہ ارواح کا مقام

 اسلام کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ مردہ روحوں کا مقام یا تو جنت  یا جہنم میں ہوگی چنانچہ جنتی روحوں کا مقام جنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

(سورۃ النحل: 32)

وہ پرہیزگار جو پاک سیرت ہوتے ہیں۔ فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلام ہو، جو اچھے عمل تم کرتے رہے اس کے صلہ میں جنت میں داخل ہوجاؤ ۔

اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إنَّما نسَمةُ المؤمنِ طائرٌ يُعلَقُ في شجرِ الجنَّةِ ، حتَّى يرجعَ إلى جسدِهِ يَومَ يُبعَثُ

(صحيح ابن ماجه : 3465)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درخت سےمعلق رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کواس کے بدن کی طرف لوٹا دے گا جس دن اس کو اٹھائے گا‘‘۔

جہنمی روحوں کا مقام جہنم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ  فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ  بَلَىٰ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ، فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا  فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ

(سورۃ النحل  : 29 ،28)

جب فرشتے اپنے آپ ظلم کرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں ، تو وہ فورا سیدھے ہو جاتے ہیں ( کہتے ہیں ) ہم کوئی برائی کا کام تو نہیں کررہے تھے ۔ فرشتے کہیں گے : کیوں نہیں ، اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے تھے ۔ پس تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ، جہاں تم ہمیشہ کے لیے رہو گے جو تکبر کرنے والوں کے لیے بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

4۔  بچوں سے بھیک منگوانا

اس تہوار میں بچے گھر گھر جاکر حلوہ  مانگتے ہیں۔ یعنی بچوں میں بھیک مانگنے کی عادت ڈالی جاتی ہے ۔ اس بری عادت سے بچوں میں بھکاریوں کی صفت زندہ ہوجاتی ہے حالانکہ بچوں کو دینے ، بخشنے اور عفو کرنے جیسی اچھی صفات کا عادی بنانا چاہئے نہ کہ بھیک مانگنے کا ۔ یہ کام اخلاقیات کے خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ۔ اسلام اس کام سے منع کرتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

ما يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ، حتَّى يَأْتِيَ يَومَ القِيَامَةِ ليسَ في وجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ.

(صحيح البخاري: 1474)

آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو گا ۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَن سَأَلَ النَّاسَ أمْوالَهُمْ تَكَثُّرًا، فإنَّما يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ، أوْ لِيَسْتَكْثِرْ.

(صحيح مسلم : 1041)

جو مال بڑھانے کے لئے بھیک مانگے تو وہ آگ کا انگارہ مانگتا ہے اب چاہے کم مانگے  یا زیادہ۔

یاد رکھیے اسلام میں بھیک مانگنا منع ہے۔ اسلام ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ محنت مزدوری کر کے کمانے، کھانے پر زور دیتا ہے۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بحالتِ  مجبوری  میں ہے۔ اسلام میں پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔

5۔  ڈراونی شکل بناکر لوگوں کو ڈرانا

ہالووین کے جشن میں ڈراؤنے لباس اور خوف ناک قیافہ کا ماسک استعمال کرتے ہیں اور لوگوں میں وحشت اور خوف کا ماحول ایجاد کرتے ہیں۔ یہ کام اسلام میں جائز نہیں ہے در حالیکہ اسلام کسی کو ڈرانے کا حکم نہیں دیتا ہے۔ رسول  کریم ﷺ نے فرمایا:

لا يحلُّ لمسلمٍ أن يروِّعَ مسلمًا

(صحيح أبي داود : 5004)

“کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔

6۔  بے بنیاد توہمات

عیسائیوں کے تہوار ہالوین کا تعلق بے بنیاد توہمات سے ہے جوکہ شرک کی ایک قسم ہے ۔ ایسی تقاریب  اور تہواروں میں شرکت کرنا جن کی بنیاد توہمات اور شرک پر ہو ؟ جائز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے ۔ نبی کریمﷺ نے شرک سے منع کیا ہے ۔اللہ کی ذات پر ایمان ، اعتقاد اور توکل کا تقاضا یہ ہے کہ سب کچھ اسی سے ہونے کا یقین انسان کے قلب و ذہن میں راسخ ہو۔ کسی شے کے بارے میں بدفالی ، نحوست اور توہّم پرستی کا نظریہ درحقیقت ایک غیر اسلامی سوچ اور اسلامی تعلیمات کے منافی عمل ہے۔

7۔  جادوئی و شیطانی قوتوں کو خوش کرنا

ہالووین کا تہوار دراصل جادوئی اور شیطانی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں صریح الفاظ میں فرما دیا کہ جادو حرام ہے، کیونکہ اس سے نقصان پہنچایا جاتا ہے، نفع نہیں ہوتا۔ اسلام دوسری قوموں کے اپنائے غلط راستے پر چلنے کی ممانعت کرتا ہے۔

8۔  شیطان کو طاقتور سمجھنا

یہ تہوار تو شیاطین کو طاقتور دکھانے کیلئے منایا جاتا ہے ۔ ان کے خوف کی وجہ سے ہی یہ تہوار منایا جاتا ہے ۔ ان کے قہر سے بچنے کے لیے ہی طرح طرح کے ماسک پہنے جارہے ہیں۔ لہذا ایسے کسی تہوار میں شامل ہونا جہاں شیاطین کو اتنا طاقتور دکھایا جارہا ہو، جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ  شیطان كو طاقتور نہ کہا کرو ۔ حضرت ابو تمیمہ رضی الله عنہ بیان كرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا :

كنتُ رديفَ النبيِّ صلى الله عليه وسلم فعثرت دابةٌ، فقلتُ: تَعِسَ الشيطانُ ، فقال: لا تقل تَعِسَ الشيطانُ؛ فإنك إذا قلتَ ذلك تعاظمَ حتى يكونَ مثلَ البيتِ ، ويقولُ: بقوتي، ولكن قل: بسمِ اللهِ؛ فإنك إذا قلتَ ذلك ، تصاغرَ حتى يكونَ مثلَ الذبابِ.

(صحيح أبي داود: 4982)

میں نبی ﷺ کے ساتھ سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کی سواری کو ٹھوکر سی لگی تو میری زبان سے نکلا ’’ ہلاک ہو شیطان ‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایسا مت کہو ‘‘ کیونکہ  جب تم  یہ کہتے ہو ’’ ہلاک ہو شیطان ‘‘ تو وہ پھول جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک گھر کے برابر ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری قوت سے ایسا ہوا ، لیکن بسم الله کہو ، تم جب  بسم اللہ کہتے ہو تو وہ  اس قدر سکڑ جاتا ہے  یہاں تک کہ مکھی کی مانند ہو جاتا ہے ۔‘‘ 

 آیۃ الکرسی کی طاقت

ہمارے پاس تو قرآن جیسی سپر پاور موجود ہے کہ جس کی تلاوت سے شیاطین ڈر کے بھاگ جاتے ہیں ، تو ہم شیاطین سے كیوں ڈریں ۔ رسول كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذَا أوَيْتَ إلى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ، لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللہِ حَافِظٌ، ولَا يَقْرَبُكَ شيطَانٌ حتَّى تُصْبِحَ،

( صحيح البخاري : 3275)

ترجمہ :  جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے آؤ تو آیت الکرسی ﴿اللهُ  لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ پڑھ لیا کرو۔ ایسا کرو گے تو اللہ کی طرف سے ایک نگران تمہاری حفاظت کرے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا ۔

معوذتین کی طاقت

معوذتین یعنی قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس ،  ہر قسم کے شر سے بچنے کا ایک مضبوط ہتھیار ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں عظیم سورتوں کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔ یہ دونوں سورتیں اللہ کی طرف سے ایک عظیم قلعہ اور ایسا ہتھیار ہیں جس کے ذریعہ مومن جن و انس کے شیاطین کو بھگا سکتا ہے اور اپنی زندگی میں آنے والے شر، پریشانیوں اور سختیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور مکر و حسد، جادو  کرنے والوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرسکتا ہے اور جو کوتاہیاں اس سے سرزد ہوجاتی ہیں اور اسے نقصان اور تکلیف دیتی ہیں ، یہ دونوں سورتیں ان سے بھی بچنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ نبی کریمﷺ تو ان سورتوں کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے، اور اللہ کے حکم مطابق ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر پناہ حاصل کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:

كانَ رسولُ اللَّهِ ﷺ يتعوَّذُ منَ الجانِّ وعينِ الإنسانِ حتَّى نزَلتِ المعوِّذتانِ فلمَّا نزلَتا أخذَ بِهِما وترَكَ ما سواهما

(صحيح الترمذي: 2058)

 ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ(مختلف الفاظ کے ذریعہ) جنات اور انسان کے حسد سے (اللہ کی)  پناہ مانگا کرتے تھے، لیکن جب یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہی سورتوں کو اپنا معمولِ زندگی بنایا اور باقی تمام الفاظ چھوڑ دیئے۔

بسم اللہ کی طاقت

 نبی کریم ﷺ نے ہمیں گھر میں داخل ہونے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر بسم اللہ نہیں پڑھو گے تو شیطان تمہارے ساتھ گھر میں داخل ہوجائے گا۔  آپ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ، فَذَكَرَ اللہَ عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعَامِهِ، قالَ الشَّيْطَانُ: لا مَبِيتَ لَكُمْ، وَلَا عَشَاءَ، وإذَا دَخَلَ، فَلَمْ يَذْكُرِ اللہَ عِنْدَ دُخُولِهِ، قالَ الشَّيْطَانُ: أَدْرَكْتُمُ المَبِيتَ، وإذَا لَمْ يَذْكُرِ اللہَ عِنْدَ طَعَامِهِ، قالَ: أَدْرَكْتُمُ المَبِيتَ وَالْعَشَاءَ.

(صحيح مسلم: 2018)

ترجمہ : جب آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت اورکھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے)کہتا ہے: تمہارے لئے یہاں نہ رات گذارنے کی جگہ ہے اور نہ رات کا کھانا اور اگر گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گذارنے کے لئے ٹھکانا مل گیا اور اگر کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے: تمہیں رات گذارنے کے لئے ٹھکانا اور رات کا کھانا مل گیا۔

اسی لیے رسول اللہ ﷺ تمام کاموں کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیتے تھے کیونکہ اللہ کا نام لینے سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے کھانے پینے، جماع اور ذبح وغیرہ کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، رات کو اللہ کا نام لے کر سونے کا حکم دیا اور فرمایا :

إذا كانَ جُنْحُ اللَّيْلِ -أوْ أمْسَيْتُمْ- فَكُفُّوا صِبْيانَكُمْ؛ فإنَّ الشَّياطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ، فإذا ذَهَبَ ساعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ فَخلُّوهُمْ، فأغْلِقُوا الأبْوابَ، واذْكُرُوا اسْمَ اللہِ  فإنَّ الشَّيْطانَ لا يَفْتَحُ بابًا مُغْلَقًا، وأَوْكُوا قِرَبَكُمْ واذْكُرُوا اسْمَ اللہِ وخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ واذْكُرُوا اسْمَ اللہِ  ولو أنْ تَعْرُضُوا عليها شَيئًا، وأَطْفِئُوا مَصابِيحَكُمْ.

( صحيح البخاري: 5623 )

جب رات کا اندھیرا شروع ہو یا جب شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو اپنے پاس روک لیا کرو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلتے ہیں۔ البتہ جب ایک گھڑی رات گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو، اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کر لو، کیونکہ شیطان کسی بند دروازے کو نہیں کھول سکتا ۔ اوراللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ دو۔ اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو خواہ کسی چیز کو رکھ کر ہی ڈھانپ سکو اور اپنے چراغ ( سونے سے پہلے ) بجھا دیا کرو۔‘‘

9۔  گمراہ قوموں کی پیروی اور یہود و نصاری کی مشابہت

ہالووین وہ عید ہے جو تاریخی اعتبار سے بت پرستی یا مسیحیت سے جا ملتی ہے جو گمراہ قومیں ہیں۔ یہ گمراہ قومیں اس دن جشن مناتی تھیں ۔ اسلام ایسے جشن منانے کو جائز نہیں سمجھتا ہے جو گمراہ قوموں کا کام ہے ۔ نیز ہالووین جشن کے موقع پر ایسے ایسے خلاف شرع کام انجام دیئے جاتے ہیں، انسان خود کو شیاطین کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور ایسی ایسی چیزوں سے شباہت اختیار کرتے ہیں جواسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

 (صحيح أبي داود: 4031)

”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے”

اس تشبہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہوگا جو صراحتاً ممنوع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللہِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ

(سورة ھود:113)

 اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں، پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا  مددگار، پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔

لہذا اگر ہم نے اس شیطانی کام کو انجام دیا تو ہم بھی اس روایت کے مطابق ان میں شامل ہوں گے۔

10۔   دین میں نئی ایجاد

ہالووین تہوار دین اسلام میں ایک نئی ایجاد ہے اور دین میں نئی ایجاد بدعت کہلاتا ہے اور نبی كرم ﷺ نے بدعت کے متعلق ارشاد فرمایا :

وإنَّهُ سيخرجُ من أُمَّتي أقوامٌ تَجارى بِهم تلكَ الأهواءُ كما يَتَجارى الكَلبُ لصاحِبِه ، لا يَبقى منه عِرْقٌ ولا مِفصلٌ إلَّا دَخلَه

(صحيح أبي داود: 4597)

اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے ان میں یہ بدعات اس طرح سرایت کر جائیں گی جس طرح باؤلے کتے کا اثر کاٹے گۓ شخص کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے ۔

یہ بات واضح ہے کہ ہالووین ایک غیر اسلامی دینی تہوار ہے اور اس کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے۔ اور دین  اسلام سے ہٹ کر کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہيں کرے گا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

(سورۃ آل عمران : 85)

اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

اور نبی كریم ﷺ نے بھی واضح فرمایا :

مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ

(صحيح البخاري: 2697)

یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں ہے وہ مردود ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

عليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ المهديّين الراشدين تمسّكوا بها، وعَضّوا عليها بالنواجذِ، و إياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ

(صحيح أبي داود: 4607)

” تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور گمراہ نہ ہونا، یاد رکھو دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “

11۔  اسراف وفضول خرچی

ہر سال لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کر کے ہالووین تہوار دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ بگ ریسرچ نامی ایک ادارے کی طرف سے کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق ہر سال کروڑوں روپے اس تہوار کے لیے ملبوسات اور دیگر اخراجات کی نذر ہوتے ہیں۔ ایسی دنیا جہاں غربت اور بھوک کے ہاتھوں پسماندہ ممالک کے لوگ دم توڑ رہے ہوں، وہاں ایسے تہواروں پر کروڑوں روپے اُڑا دینا سنگدلی کی علامت ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک کے مطابق دنیا بھر میں آٹھ سو ملین سے زیادہ افراد روزانہ خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ ہر پانچ سیکنڈ میں ایک بچہ بھوک اور غربت کے دیگر مسائل کی وجہ سے مر جاتا ہے جبکہ اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے۔  ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

(سورۃ الأعراف: 31)

 فضول خرچی نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔

 ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔

  وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ

( سورۃ الإسراء :  26، 27 )

 اور بے جا اسراف اور فضول خرچی نہ کرو ، بے شک فضول خرچی  کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

12۔  کسی کو خوش کرنے کیلئےغیر شرعی تہوار منانا

بہت سے لوگ محض وقتی خوشی حاصل کرنے کے لیے یا  بطور مسلمان خود کو دقیانوسی قرار دیے جانے کے طعنے سے بچنے کے لیے، یا خود کو جدید دنیا کے قابل بنانے کے لیے بھی اہلِ مغرب کی تقلید میں ایسے تہوار مناتے ہیں ، یہ سراسر مداہنت ہے جوکہ جائز نہیں ہے ۔

کبھی خوش نہیں ہو ں گے

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مداہنت سے یہود و نصاری اور کافر خوش ہو جائیں گے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ کبھی بھی مسلمانوں سے خوش نہیں ہوسکتے ۔ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا :

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَ لَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ 

(سورۃ البقرۃ :120)

یہ یہودی اور عیسائی اس وقت تک ہرگز آپ سے خوش نہ ہونگے جب تک کہ آپ ان کے طریقے پر نہ چلیں ۔

اہل علم کی ذمہ داری

اہل علم کی ذمہ داری یہ ہے کہ دین میں داخل ہونے والی خرافات، بدعات اور شرکیات سے عوام کو آگاہ کریں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان چیزوں کے مفاسد ، نقصانات سے متنبہ کریں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں تلقین کی تھی تو ایک کشتی کی مثال بیان کی تھی کہ اس میں کچھ لوگ اوپر ہوں گے اور کچھ لوگ نیچے ۔ اور اگر نیچے والے لوگ چاہیں کہ ہم کشتی میں نیچے سے سوراخ کرلیں اور ادھر سے پانی لینا شروع کردیں تو ڈوبیں گے تو سب ہی، کیا اوپر والے اور کیا نیچے والے ۔ یہی حال امت مسلمہ کا ہے اگر ہم ایک دوسرے کو نہیں روکیں گے تو تباہ ہم سب ہوں گے ۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ ایک شیطانی تہوار ہے ۔ اوراس کا مقصد سراسر ہمارے ایمان پہ حملہ ہے اگر ہمارا ایمان متاثر ہوا تو ہماری پہچان اور ساری شناخت ختم ہو جائے گی ۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مُروا بالمعروفِ، وانهوا عَنِ المنكرِ، قبلَ أن تَدعوا فلا يُستجابَ لَكُم

(صحيح ابن ماجه: 3251)

’’ نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو ، قبل اس کے کہ تم دعائیں مانگو اور تمہاری دعائیں قبول نہ کی جائیں ۔‘‘

حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

والَّذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عنِ المنكرِ أو ليوشِكَنَّ اللَّهُ أن يبعثَ عليكُم عقابًا منهُ ثمَّ تَدعونَهُ فلا يَستجيبُ لَكُم

(صحيح الترمذي: 2169 )

اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔

الغرض امت کے جوانوں کو اپنی اصلاح کرنا چاہیے۔ آج امت کے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اس دنیا میں کھو جانے کے بجائے شیطان کی چالوں کو سمجھ کر خود بھی اس سے بچنے کی ضرورت ہے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم امتِ وسط ہیں جسے بھلائی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے لیے نکالا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب  کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ