ہم نے جشنِ عيد ميلاد النبى ﷺ کیوں نہیں منایا؟

ہم نے جشنِ عيد ميلاد النبى ﷺ کیوں نہیں منایا؟

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ امابعد،

قارئین کرام ! ربیع الاول کا مہینہ جب بھی آتا ہے ، اس کے آغاز میں ہی ایک بحث ہر سال سننے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ اس مہینے میں جس دن نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی ہے، اس دن کو ایک مسلمان کس طرح گزارے؟ آیا کہ وہ دن اس کی زندگی کے معمول کے مطابق ایک عام دن ہو یا اس دن کچھ خاص قسم کے اعمال سر انجام دیے جائیں؟

لہذا اسی حوالے سے میں آپ کے سامنے کچھ بنیادی باتیں پیشِ خدمت کرنا چاہتا ہوں:

پہلی بات: ہر مسلمان کا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دنیا میں بعثت نہ صرف ایک بہت بڑی نعمت تھی بلکہ یہ ہم پر اللہ کا بہت بڑا احسان بھی تھا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ1

بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ 

دوسری بات: یقینا آپ ﷺ سے محبت ہر مسلمان اور ہر مومن کے ایمان کا لازمی حصہ ہے، بلکہ جب تک وہ آپ ﷺ سے اپنے والدین، اولاد اور تمام مخلوقات سے بڑھ کر محبت نہ کرے، اس وقت تک اس کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوسکتا! یہ تو کچھ مسلمہ باتیں ہیں کہ جس سے کسی کو انکار نہیں۔

اب اس بات کی طرف آتے ہیں کہ اس دن کو کس طرح منایا جائے؟
 تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دن کو کسی خاص انداز سے منانا نبی ﷺ کی تعلیمات سے ثابت نہیں ہے۔ یہ دن بھی ہماری زندگی میں باقی ایام ہی کی مانند ہے، لہذا جس طرح باقی دنوں میں ہم اللہ تعالی کی عبادت کرتے اور مختلف اعمال سر انجام دیتے ہیں اور دین و دنیا کے معاملات دیکھتے ہیں تو اسے بھی اسی طرح ہی گزارنا چاہیے، البتہ یہ دن اگر پیر کا دن ہے تو اس دن آپ ﷺ کا ایک معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ ہر پیر کے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ یہ آپﷺ کی سنت تھی جو پورے سال آپ ﷺ سر انجام دیا کرتے تھے ، اس سنت پر ہمیں بھی عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سوال: اس دن کو خاص طور پر کیوں نہیں منانا چاہیے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش کی خوشی منانے كے ليے ايک دن كا انتخاب كرنا اور اس دن مخصوص اعمال سر انجام دينا یقینی طور پر ناجائز امر ہے اور اس کی 10 وجوہات ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- دین میں اضافہ:
اس دن کو منانا دین میں اضافہ ہے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا، نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اور نہ ہی تابعین عظام نے، بلکہ 400 سال بعد “عُبیدی فرقہ” جو کہ منحرف اور دینِ اسلام کی تعلیمات سے رو گردانی کرنے والا فرقہ تھا اس نے قاہرہ میں اس عمل کو جاری کیا۔

نیز ام المومنین سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد

” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا تو وہ مردود (نا قابلِ قبول) ہے ۔”

اور مسلم شريف كى ایک روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

من عمل عملًا ليس عليه أمرُنا فهو رَدٌّ2

” جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ رد ہے(يعنى نا قابلِ قبول ہے) ۔”

دینِ اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں جو بھی عمل آپ کر رہے ہوں تو اس کی دلیل آپ کے پاس ہونی چاہیے کہ کس نے اس عمل کو پسندیدہ قرار دیا ؟ آپ ﷺ کی اس سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اب چونکہ اس عمل کے متعلق آپ ﷺ کی ہدایات موجود نہیں تو یہ بدعت ہے۔

2- اہل کتاب کی مشابہت:
اس عمل میں نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہے کیونکہ وہ ہر سال 25 دسمبر کو عیسیٰ علیہ السلام کی میلاد کی خوشی مناتے ہیں اور یہ عمل ان میں عرصہ سے جاری ہے۔ ثابت ہوا کہ انبیاء کی پیدائش پر خوشیاں منانا  یہ مسلمانوں کا طریقہ ہی نہیں رہا بلکہ دیگر اقوام کا طرز رہا ہے کہ جن کی مخالفت کرنے کا نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا اور فرمایا:

خالفوا اليهود والنصارى3

یہود و نصاری کی مخالفت کرو۔

اسی طرح جناب ابنِ عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺ نے فرمايا:

مَن تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ4

” جس نے بھى كسى قوم کی مشابہت اختيار كى وہ انہی ميں سے ہے ۔”

اور آپ ﷺ نے امت کو ڈراتے ہوئے فرمایا: ” تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔“

 ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟

 فرمایا: پھر اور کون؟۔5

3- عید سے ملتا جلتا ایک اور دن کا اضافہ:
  اللہ تعالی نے ہمارے لیے فقط دو عیدیں مقرر کی ہیں، ان کے علاوہ تمام عیدوں کو باطل قرار دیا، چاہے وہ دینی ہوں یا ثقافتی، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے لیے سال میں دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے ہیں تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”یہ دو دن کیسے ہیں؟“، تو ان لوگوں نے کہا: جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں: ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن‏‏‏‏“۔6

یاد رکھیے! عید “عود” سے ہے جسکا معنی وہ دن ہے جو زندگی میں بار بار آئے۔ لہذا معلوم ہوا کہ ایسے صرف دو ہی دن شریعت نے بار بار خوشی منانے کے لیے مقرر کیے ہیں اور اس کے علاوہ کسی ایسے دن کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی جو بار بار آئے۔

4- محفلِ میلاد میں غیر شرعی امور کی انجام دہی:
میلاد کی محفلوں میں نہ صرف فساد اور گناہ کے امور نظر آتے ہیں بلکہ بدعات اور شرک كى بھرمار بھی ديكھنے ميں آتى ہے ۔ مثلا: نبی کریم ﷺ کی شان میں غلو سے کام لینا ،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کے لیے خوبصورت اوصافِ حمیدہ بیان ہوئے ہیں اور اس کی خبربھی آپ ﷺ ہمیں دے چکے ہیں ۔ اب ان اوصاف میں غلو کرنا یا اس میں اپنی مرضی سے اضافہ کرنا، یہ ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ یعنی ہم یوں نہیں کہ سکتے کہ نبی کریم ﷺ علمِ غیب جانتے ہیں یا آپ ﷺ ہمیں مدینہ بلا سکتے ہیں یا آپ ﷺ ہمارے حالات کو درست کرسکتے ہیں وغیرہ ، لہذا اس طرح کی باتیں آپ ﷺ کے متعلق درست نہیں بلکہ ناجائز اور بعض اوقات شرک کی حدوں کو چُھو رہی ہوتی ہیں جبکہ یہ تمام باتیں ہمارے ہاں نعتوں میں عام پائی جاتی ہیں۔

  • پھر اسکے بعد مختلف قسم کے جلوس اور ان میں چراغاں وغیرہ اس پر مستزاد ہے۔
  • پھر ہر سال اس میں جدت آرہی ہے، کیوں؟ کیونکہ اس سے متعلق شرعی ہدایات موجود ہی نہیں ہیں، اور لوگ اپنے تجربات کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

اور مزید یہ کہ جگہ جگہ شامیانے وغیرہ لگا کر لوگوں کے لیے ایذاء کا سبب بنا جاتا ہے جس سے شریعت نے روکا ہے، جیسا کہ ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا:

لا ضرر ولا ضرار7

”نہ (ابتداءً) کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا۔‘‘

  • لہذا اس میں مفاسد زیادہ ہیں اور شرعی مصلحت کوئی نہیں اور یہ قاعدہ معروف ہے کہ (ان درء المفاسد مقدم علی جلب المصالح ) نقصان اور فساد سے بچنا (بالخصوص كسى متوہم اور خيالى) مصلحت كے حصول سے مقدّم ہوتا ہے۔
  • مزید یہ کہ  برائی کے راستے بند کرنا دین کا اصول ہے اور آپ ﷺ كى بہت سى تعليمات بھی اس پر شاہد ہیں
  • الغرض یہ کہ اس دن کے منانے میں مفاسد زیادہ ہیں اور شرعی مصلحت کوئی نہیں جبکہ مفسدہ سے بچنا شرعی تقاضہ ہے۔

    5- تاریخِ ولادت میں اختلاف:
    مولدِ نبویﷺ کی تاریخ کے بارے میں ہمیں کوئی یقینی معلومات نہیں۔ دن تو یقینی طور پر پیر تھا اور سال بھی عام الفیل تھا۔ البتہ تاریخ کے متعلق کسی بھی حدیث کی کتاب میں کوئی مستند مرفوع یا موقوف روایت نہیں ملتی بلکہ مؤرخين كا بھی اس مسئلے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ عظیم محدث و مؤرخ ابن عبد البر رحمہ اللہ  كى رائے ہے كہ نبى كريم ﷺ كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو ہوئی اور امام ابن حزم نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے۔

     اہلِ بیت میں سے جناب ابو جعفر محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ كا قول ہے کہ آپ ﷺ دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے۔ اسی طرح ایک اور قول کے مطابق نو ربيع الاول ہے۔

    حتی کہ بریلوی مکتبِ فکر کے مشہور اور بڑے عالم احمد رضا خان صاحب کا اپنا قول یہ ہے کہ نبی ﷺ کی تاریخِ پیدائش آٹھ ربیع الاول ہے۔

      ایک قول یہ ہے كہ: نبى كريم ﷺ كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابنِ اسحاق كا قول ہے۔
    اور ایک قول ہے كہ: نبى كريم ﷺ كى پيدائش رمضان المبارک ميں ہوئى، جيسا كہ ابنِ عبد البر نے نسب کے مشہور امام زبير بن بكار سے نقل كيا ہے۔8
    یعنی تاریخِ ولادت تو کجا بلکہ مہینے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

    • لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام ، تابعین وغیرہ اس دن کوئی خاص عمل یا خاص لباس کا اہتمام کرتے تو کیا اس دن میں اختلاف پایا جاتا؟
    • علماء كا يہ اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم ﷺ سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم ﷺ كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشنِ ميلاد النبى ﷺ مناتے اور پھر كئى سال گزرنے کے باوجود مسلمانوں نے کبھی يہ جشن نہيں منایا۔
    • اگر یہ عمل قابلِ تعریف ہوتا تو اس کی تاریخ محفوظ کی جاتی جس طرح عیدین ، حج ، رمضان اور ایامِ بیض وغیرہ کی تاریخیں معروف و مشہور ہیں اور ان میں کوئی اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔
    • 12 ربیع الاول کا قول اگرچہ مشہور ہے لیکن اسے دين ميں حجت نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی اس پر احکام کا دار و مدار ہو سکتا ہے ، کیونکہ كسى عمل كو قابلِ تعريف سمجھنا اور سے اپنانا یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے اور غیر مستند بات سے حجت و حکم پکڑنا دین میں درست نہیں۔

    6- شرعی عید پر اثر انداز:
    اس طرح کی بدعتی عیدوں پر خوشیاں منانے سے شرعی عیدوں کا جوش اور ان كا شوق متاثر ہوتا ہے، کیونکہ سال بھر کی مختلف اقسام کی مناسبتوں پر خوشى منا لينے سے انسان کا دل بھر چکا ہوتا ہے اور عزيز و اقارب اور دوست و احباب كے ساتھ ملنا ملانا بھی خوب ہو چكا ہوتا ہے، لہذا اس طرح كے تہواروں پر خوشیاں منانا مقاصدِ شریعت کے خلاف ہے اور پھر اسکی قباحت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب شريعت نے اس کی اہمیت تو کجا بلکہ اس کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کی ہو، اس کے باوجود اس دن کا اہتمام کرنا ایسا ہی ہے جيسا كہ كچھ خاص اعمال اور خاص اذکار کا اہتمام کیا جانا، جو کہ از خود كرلينا جائز ہی نہیں ہے بلکہ انہی خود ساختہ اعمال کی وجہ سے لوگ بھی شرعی امور سے دور اور بدعی امور کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    7- میلاد کا تعلق کس سے؟:
    ميلاد کی خوشی یا تو ایک مستقل بہترین عمل ہے یا اس کا تعلق نبوت سے ہے یا اس کا تعلق سب سے افضل نبی (ﷺ) اور ان کی شرعی تعلیمات و ہدایات ملنے اور پایۂِ تکمیل تک پہنچنے اور تا قیامت باقی رہنے کے ساتھ ہے۔ اگر ایسا ہے پھر تو یہ ایک ایسی خير و بھلائى ہے کہ اس کی خوشی پورے سال ہونی چاہیے، لہذا ایک دن خاص کرنے کا کوئی معنیٰ نہیں!
     اور اگر نبوت کی وجہ سے ہے تو پھر یہود و نصاری اپنے نبیوں کی پیدائش کی جو خوشیاں مناتے ہیں اس میں ان کا بھی ساتھ دینا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے بھی نبی ہیں۔ جیسے ابراھیم، نوح، موسی و عیسی وغیرھم  علیھم الصلاۃ و السلام۔
     اور اگر صرف افضل ترین نبی کی خوشی منانا مقصد ہے تو پھر بھی یہ درست نہیں ؛کیونکہ اس طرح تو ہم نے باقی انبیاء کا حق ہی ادا نہ کیا ۔اگر یکساں طریقے سے نہیں تو کم ازکم سب سے افضل نبی کے لیے خاص طریقے سے منایا جائے اور باقی کے لیے عام انداز میں ہی سہی ، نہ کہ انہیں بالکل ہی نظر انداز کردیا جائے۔
    تو جب ان تینوں امکانات كى ہی نفى ہو جاتی ہے تو پھر آپ ﷺ کی پیدائش کے نام پر ایک دن کی خوشی منانا صرف خواہشِ نفس کی پیروی کرنا ہے۔

    8- چند اشکالات:
    نبى كريم ﷺ نے اگر مولدِ نبوى (ﷺ) کی طرف دین کا حکم ہوتے ہوئے بھی ہماری راہنمائی نہیں فرمائی جبکہ اس کی ضرورت بھی تھی، تو دو ہی امکان رہ جاتے ہیں:

    اولا: یا تو آپ ﷺ نے قصدا یہ کام کیا اور امت سے اسے چھپایا ۔

    ثانیا: یا پھر آپ ﷺ کو اس كى اہمیت کا علم ہی  نہ تھا۔(والعیاذ باللہ)

     اگر پہلی صورت ہے تو یہ آپ ﷺ پر بہت بڑى تہمت اور بہتان ہے۔

     اور اگر ہم یہ کہیں کہ پیارے نبی ﷺ ہمیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کر سکے (معاذاللہ) تو ہمارے اس دعوے سے پورا دین متاثر ہوگا؛ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دین کے تعلق سے آپ ﷺ نے ہمیں بہت سی ضروری چیزیں نہیں بتلائیں، جبکہ اس کے برعکس ہمار ایمان ہے کہ دین مکمل ہے اور نبی کریم ﷺ نے دین کے ہر باریک سے باریک امور سے بھی ہمیں آگاہ فرما دیا ہے ، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

    إنَّهُ ليس شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى الجنةِ إلَّا قد أَمَرْتُكُمْ بهِ ، و ليس شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى النارِ إِلَّا قد نَهَيْتُكُمْ عنهُ9

     ”جو چیز تمہیں جنت کے قریب کر سکتی ہے، میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا ہے اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب کر سکتی ہے، اس سے منع کر دیا ہے “۔

    9- اجماعِ امت:
    امت کا بہترین زمانوں میں اس بات پر عملى اجماع ہو چکا ہے کہ اس دن کوئی خوشی نہیں منائی جائے گی۔اس لیے جو اس دن خوشی منانے کو درست سمجھ رہے ہیں وہ امت کے اجماع اور عملی تواتر کی مخالفت کرتے ہوئے مومنوں کے راستے سے روگردانی کر رہے ہیں، لہذا ان کا یہ عمل باطل ہے؛ کیونکہ جو بہترین کام بہترین لوگوں کے ہاتھوں بہترین زمانوں میں وجود میں نہ آیا تو کیا وہ فتنوں کے دور میں وجود میں آسکتا ہے؟ جس سے معلوم ہوا کہ یقینا یہ خیر کا کام نہیں ہے ورنہ وہ سب ہم سے اس خیر کے کام میں آگے بڑھتےاور بھرپور شان و شوکت سے اسے مناتے اور ترویج دیتے۔ اللہ رب العزّت کا فرمان ہے:

    وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِه جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا10

    اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔

    • امام شافعی کے نزدیک اجماعِ اُمّت کی سند اس آیت میں ہے۔ گویا اہلِ ایمان کا جو راستہ ہے جس پر اہل ایمان کا اجماع ہو گیا ہو ،وہ خود اپنی جگہ بہت بڑی سند ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

     إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ11

      میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ شروع کب ہوا؟

    اس کا جواب اگر کتبِ تاریخ میں تلاش کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ چوتھی صدی ہجری میں “دولہ عبیدیہ” (فاطمیین) نے ایجاد کیا ، مشہور تاریخی کتاب “البدایہ و النھایہ” میں تفصیلا مذکور ہے کہ “بنو عبیدیہ” نے اپنے برے اعمال چھپانے اور مسلمانوں میں اپنا مقام و مرتبہ بنانے کے لیے اس کا آغاز کیا اور بعض اہلِ بیت اور نبی کریم ﷺ کی تاریخ کو اس طرح منانا شروع کیا، لہذا یہ تو بہت بعد کی ایجاد ہے۔

    10- ائمہ اربعہ و سلف الامۃ کی بھی مخالفت:
    کسی بھی معتبر و معروف امام و عالم نے اب تک اس ميلاد كے دن کی خوشیاں نہیں منائیں، بالخصوص ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ) جو کہ ہم سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والے تھے‘ ان کی تعلیمات میں نماز، روزہ اور دیگر دین کے باریک باریک امور سے متعلق تعلیمات تو موجود ہیں لیکن اس دن کے متعلق کوئی بھی قول یا عمل نہیں ملتا، اور نہ ہی دیگر ائمہ اہلِ سنت والجماعت سے اس دن کے تعلق سے کسی خاص اہتمام کا ذکر ملتا ہے بلکہ عصرِ حاضر میں بھی اس دن کو منانے والوں کی اکثریت تصوّف اور خرافات پر یقین رکھنے والے ہیں جو دين كى سمجھ بوجھ اور شرعى علم سے دور ہیں؛ لہذا ایسے لوگوں کی بات ہمارے لیے ناقابلِ اعتبار ہے۔

    معزز قارئینِ کرام! یہ دس وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم اس دن کو نہیں مناتے اور نہ ہی اس دن کے منانے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ آپ سے یہی گزارش ہے کہ آپ بھی ان وجوہات پر ضرور غور و فکر فرمائیں!

    اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ  وہ ہم سب کو صحیح دین اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    1. (آل عمران: 164)
    2. (صحيح بخارى: 1718، صحيح مسلم: 2550)
    3. (صحیح ابن حبان: 2186)
    4. (سنن ابو داود:4031)
    5. (صحیح بخاری: 3456، صحیح مسلم: 2669)
    6. (سنن ابو داود: 1134، سنن النسائى: 1556)
    7. (سنن ابن ماجہ: 2340)
    8. دیکھيں: السيرۃ النبويۃ لابن كثير ، صفحہ: 199 – 200
    9. (المنتخب من فوائد ابن علويہ القطان لابى بكر الحداد : 1 / 168، سلسلہ صحيحہ: 173)
    10. (النساء: 115)
    11. ( جامع ترمذى: 2167)

    مصنف/ مقرر کے بارے میں

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فراز الحق مدنی