گناہوں پر اصرار اور مداومت کے نقصانات

انسان خطاؤں اور لغزشوں کا پتلا ہے ۔ انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا۔ انسانوں سے خطائیں سر زد ہونا عام سی بات ہے کیونکہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف سے مطلوبہ امور کو انجام نہیں دیتا اور اس کی منع کردہ اشیا کو ترک نہیں کرتا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

يا رسولَ اللہِ عَلِّمْنِي دُعَاءً أدْعُو به في صَلَاتِي، قالَ: قُل: اللَّهُمَّ إنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، ولَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْ لي مَغْفِرَةً مِن عِندِكَ، وارْحَمْنِي إنَّكَ أنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ

( صحيح الترمذي :  3531 )

ترجمہ: اے اللہ کے رسول !  آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جو میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  تم یہ پڑھا کرو:  اے اللہ! میں نے گناہ کرکے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم فرما ۔ یقینا تو ہی بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

فوائد الحدیث

معلوم ہوا کہ اس کائنات میں کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کے فرائض میں غفلت اور گناہوں کے ارتکاب سے خالی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ  جب  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  جیسی شخصیت کو یہ دعا   پڑھنے کی راہنمائی کی جا رہی ہے تو گناہوں میں لت پت اور نا فرمانیوں میں گھرے ہوئے عام انسانوں  کی کیا حالت ہوگی؟

انبیاءِ کرام سے خطائیں

خطائیں صرف عام انسانوں سے نہیں بلکہ اللہ کے ولیوں اور نبیوں سے بھی خطائیں سرزد ہوتی رہی ہیں ۔قرآن کریم کی بہت سی آیات میں متعدد انبیاء علیہم السلام کے متعلق ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب بھی ہوا۔ معلوم ہوا کہ اس کائنات میں کوئی بھی گناہوں اور خطاؤں سے پاک نہیں ہے ۔

 بہترین گناہ گار کون ؟

یہ  ایک حقیقت ہے کہ سارے انسان خطا کار ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول الله صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا:

كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ، وخيرُ الخَطَّائِينَ التَّوَّابونَ

(حسّنه الألباني في صحيح الترمذي: 2499)

ترجمہ: تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔

اب  سوال یہ ہے کہ کیا ہم کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں ؟ یا ہم دن رات گناہ پر گناہ کیے جا رہے ہیں کہ  نہ تو ہمیں ندامت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہم توبہ کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إيَّاكُم ومحقَّراتِ الذُّنوبِ ، فإنَّهنَّ يجتَمعنَ على الرَّجلِ حتَّى يُهْلِكْنَه

(صححه الألباني في صحيح الترغيب: 2470)

ترجمہ: گناہوں کو حقیر جاننے سے بچو کیونکہ یہ مل کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں۔

لیکن اپنے گناہوں اور خطاؤں پر اڑے رہنا ، اس کو سر پر سوار کیے رکھنا، گناہ پر گناہ کیے جانا ، یہ نہایت خطرناک طرزِ عمل ہے جو انسان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے ۔ درج ذیل سطور میں گناہوں پر اصرار اور مداومت کے نقصانات کی بابت چند گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔

گناہوں پر اڑے رہنے کے نقصانات

جو لوگ گناہوں پر اڑے رہتے ہیں وہ لوگ مختلف نقصانات اور  برے اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“ينبغي أن يُعلم أن الذنوب والمعاصي تضر، ولا بد، وهل في الدنيا والآخرة شر إلا سببه الذنوب والمعاصي؟ ولها من الآثار القبيحة المذمومة، المضرة بالقلب والبدن، في الدنيا والآخرة، ما لا يعلمه إلا الله۔1

ترجمہ: معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ اور نا فرمانی لازماً نقصان پہنچاتے ہیں اور دنیا و آخرت میں جو بھی شر  ہے اس کا سبب گناہ اور اللہ کی نا فرمانی ہے ۔ گناہوں کے انتہائی قبیح اور قابلِ مذموم اثرات ہیں جو انسان کے دل اور جسم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہ دنیا اور آخرت میں بھی نقصان دہ ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

درج ذیل سطور میں گناہوں کے چند نقصانات اور برے اثرات کی تفصیل پیشِ خدمت ہے ۔

1۔ دل میں تاریکی اور سختی

گناہوں پر اصرار اور ان پر اڑے رہنے کے نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ گار انسان کا دل تاریک اور سخت ہو جاتا ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تُعرَضُ الفِتَنُ على القُلوبِ عَرْضَ الحَصِيرِ عُودًا عُودًا ، فأيُّ قلبٍ أُشْرِبَها نُكِتَتْ فيه نُكتةٌ سَوداءُ ، وأيُّ قلبٍ أنْكَرَها نُكِتَتْ فيه نُكتةٌ بيضاءُ ، حتى يصِيرَ القلبُ أبيضَ مثلَ الصَّفا ، لا تَضُرُّه فِتنةٌ ما دامَتِ السمواتُ والأرضُ ، والآخَرُ أسودَ مُربَدًّا كالكُوزِ مُجَخِّيًا ، لا يَعرِفُ مَعروفًا ، ولا يُنكِرُ مُنكَرًا ، إلا ما أُشْرِبَ من هَواه

(صححه الألباني في صحيح الجامع: 2960

فتنے دلوں پر ڈالے جائیں گے، چٹائی (کی بنتی) کی طرح تنکا تنکا (ایک ایک) کر کے اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا (اس نے ان کو قبول کر لیا اور اپنے اندر بسا لیا)، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا، اور جس دل نے ان کو رد کر دیا، اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے: (ایک دل) سفید چکنے پتھر کے مانند ہو جائے گا۔ جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دوسرا: کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کے مانند (جس پر پانی کی بوند بھی نہیں ٹکتی) جو نہ کسی نیکی کو پہچانے گا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ (دل) لبریز ہو گا”۔

گناہوں سے مانوس ہونا

گناہوں پر اصرار اور اڑے رہنے کے برے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان گناہ سے اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

حتى إن كثيرا من الفساق ليواقع المعصية من غير لذة يجدها ولا داعية إليها إلا لما يجد من الألم بمفارقتها۔2

“یہاں تک کہ بہت سے فاسق لوگ بغیر کسی لذت اور وجہ کے بھی گناہ کے کام کر بیٹھتے ہیں صرف اس لیے کہ گناہ سے دوری ان کے لیے باعثِ اذیت ہوتی ہے”۔

3۔ علم سے محرومی

علم اللہ تعالیٰ کا نور  ہے اور گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے انسان علم کے نور سے محروم ہو جاتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

شکوت إلى وکیع سوء حفظي         فأرشدني إلى ترك المعاصي

وأخـبرني بأن العلم نور                  ونور الله لا يهدى لعاصی

”میں نے اپنے استاد وکیع سے کمزور حافظے کی شکایت کی تو آپ نے مجھے ترک معاصی (گناہوں کو چھوڑنا) کی نصیحت فرمائی اور آپ نے یہ بتایا کہ علم ایک نور ہے اور اللّٰہ کا نور گناہ گار کو نہیں دیا جاتا۔”

4۔ رزق سے محرومی

 گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان روزی اور رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ سیدنا ثوبان سے فرمانِ نبوی ﷺ مروی ہے:

إنَّ العَبدَ ليُحرَمُ الرِّزقَ بالذَّنبِ يُصيبُه۔3

ترجمہ: بے شک بندہ اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔

حصولِ رزق اور فراخئِ معاش کے لیے ترکِ گناہ سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

(سورة الطلاق:3،2)

” جو شخص اللّٰہ سے ڈرتا ہے اور گناہوں سے باز آ جاتا ہے۔ اللّٰہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔”

5۔ انسان کی عمر اور علم میں بے برکتی

گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کی عمر اور علم میں بے برکتی آ جاتی ہے ۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أنَّ من عقوبات المعاصي أنها تَمْحَق بركة العمر وبرَكة الرِّزق، وبرَكة العِلم وبركة العمل، وبركة الطاعة، وبالجملة أنها تمحق برَكةَ الدِّين والدنيا، فلا تجد أقلَّ بركةً في عمره ودِينه ودنياه ممَّن عصَى الله، وما مُحقِت البركة من الأرض إلا بمعاصى الخَلْق۔4

گناہوں کی ایک سزا یہ ہے کہ اس سے عمر کی برکت، روزی کی برکت، علم کی برکت، کام کی برکت، اطاعت کی برکت، مختصرا  یہ دین و دنیا کی تمام برکتوں کو برباد کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے کی عمر ، دین اور دنیا سے ساری برکتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ کائنات سے بے برکتی دنیا میں رہنے والوں کی نا فرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے ہی ختم ہوئی ہیں۔

6۔ دل کی گمراہی

گناہوں پر اصرار اور اڑے رہنے کے برے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان کا دل آہستہ آہستہ گمراہی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔

 امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ومن عقوباتها: أنها تصرف القلب عن صحته واستقامته إلى مرضه وانحرافه فلا يزال معلولا لا ينتفع بالأغذية التي بها حياته وصلاحه فإن تأثير الذنوب في القلوب كتأثير الأمراض في الأبدان۔5

ترجمہ : ان گناہوں کی سزا یہ ملتی  ہے کہ وہ دل کو اس کی تندرستی اور ثابت قدمی سے بیماری اور گمراہی کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جن غذاؤں سے اسے زندگی ملتی اور اس کی قوت و طاقت قائم رہتی ہے ان سے اس کے دل کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ دلوں پر گناہوں کا وہی اثر ہوتا ہے جو اثر بیماریاں جسم پر دکھاتی ہیں۔

7۔ دل  پر مہر لگ جانا

گناہوں پر اصرار اور اڑے رہنے کے نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ جب کثرت سے گناہ ہونے لگتا ہے تو گناہ گار کےدل پر مہر لگا دی جاتی ہے چنانچہ وہ غافلوں میں سے ہو جاتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ المؤمنَ إذا أذنبَ كانت نكتةٌ سوداءُ في قلبِه فإن تاب ونزع واستغفرَ صقلَ قلبُه فإن زاد زادت فذلك الرَّانُ الذي ذكرَه اللهُ في كتابِه ﴿ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾ (المطففين: 14) ” 

(حسنه الألباني في صحيح ابن ماجه: 3441. وصحيح الترمذي: 3334

ترجمہ: جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے، باز آ جائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے:

كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ

(المطففين: 14)

 ”ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ پکڑ لیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

امام حسن بصری رحمہ  اللہ فرماتے ہیں:

هُوَ الذَّنْبُ عَلَى الذَّنْبِ ، حَتَّى يُعْمِيَ الْقَلْبَ۔6

کہ زنگ لگنے سے مراد یہ ہے کہ وہ  گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ دل اندھا ہو جاتا ہے”۔

8۔ظالموں کی نشانی

 گناہوں پر اڑے رہنا ظالموں کی نشانی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَسْمَعُ آيَاتِ اللہِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

(الجاثیة : 8)

ترجمہ :وہ اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے جن کی اس کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے پھر وہ تکبر کی وجہ سے (اپنے کفرپر) اڑا رہتا ہے گویا کہ اس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں ہے تو آپ اسے درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے۔

9۔ گناہِ کبیرہ کے مساوی

صغیرہ گناہوں پر اڑے رہنا گناہِ کبیرہ کے مساوی ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الإصرار على الصغيرة قد يساوي إثمه إثم الكبيرة أو يربى عليها۔7

صغیرہ گناہوں پر اصرار و مداومت کا گناہ کبیرہ گناہوں کے برابر یا اس میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

صغیرہ گناہوں پر اصرار سے وہ کبیرہ ہو جاتے ہیں اور کبیرہ پر اصرار کرنے سے آدمی کفر تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر ہر گناہ کے بعد صدقِ دل سے توبہ و استغفار کر لے اور اسے دوبارہ نہ کرنے کی پختہ نیت کرے مگر بد قسمتی سے پھر اس میں مبتلا ہو جائے تو یہ اصرار نہ ہو گا۔

تمام پریشانیوں كا ایک ہی سبب

تمام پریشانیوں اور مصیبتوں كا سبب انسان كے اپنے برے اعمال، گناہ  اور گندے كرتوت ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ

(الروم:41)

ترجمہ: لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا ہے۔

اللہ کا فرمان ہے:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ

(الشورى: 30)

ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ اور وہ تو بہت سی باتوں سے در گزر فرما دیتا ہے۔

اللہ کا فرمان ہے :

مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللہِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ

(النساء: 79)

ترجمہ: تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

(آل عمران: 182)

ترجمہ: یہ تمہارے پیش کردہ اعمال کا بدلہ ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔

وہ اسباب جن کی بنا پر صغیرہ گناہ بھی کبیرہ ہو جاتے ہیں:

صغیرہ گناہوں پر مداومت اور ہمیشگی کرنا:

جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

لا کبیرۃ مع الاستغفار ولا صغیرۃ مع الإصرار۔8

ترجمہ: استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں رہتا۔

یعنی استغفار بڑے بڑے گناہوں کو بھی مٹا دیتا ہے جب کہ گناہوں پر ڈٹے رہنا چھوٹے چھوٹے گناہوں کو بھی کبیرہ گناہ بناہ دیتا ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے دور رہے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو۔

2۔گناہ کو معمولی سمجھنا

صغیرہ گناہ کبیرہ گناہ میں تبدیل ہو جانے کے اسباب میں سے ایک سبب گناہ کو معمولی اور حقیر سمجھنا ہے۔ چنانچہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

يا عائشةُ إياكِ ومحقَّراتِ الأعمالِ فإنَّ لها من اللهِ طالبًا

(صححه الألباني في صحيح ابن ماجه: 3440)

اے عائشہ! چھوٹے گناہوں سے بچو کیونکہ اللہ کی جانب سے اس کا ایک نگراں موجود ہوتا ہے۔

3۔ گناہ کو چھوٹا سمجھنا

صغیرہ گناہ کے کبیرہ گناہ میں تبدیل ہو جانے کے اسباب میں سے ایک سبب گناہ کو نہایت چھوٹا سمجھنا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

إنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أعْمالًا، هي أدَقُّ في أعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ، إنْ كُنَّا لَنَعُدُّها علَى عَهْدِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم مِنَ المُوبِقاتِ

(صحيح البخاري: 6492)

 تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں تصور کرتے) جب کہ ہم لوگ رسول الله ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاکت خیز امور تصور کرتے تھے۔

جلیل القدر صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں جو نیک اعمال کرنے اور  گناہوں سے بچنے میں سستی برتتے ہیں کہ تم بعض گناہوں کو چھوٹا سمجھتے ہو لیکن  ان کے ذریعے جس ذات کی معصیت کی جاتی ہے اس کی عظمت کی طرف تمہاری نظر نہیں جاتی ۔چنانچہ تمہارے نزدیک یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم انہیں ہلاک کر دینے والی اشیاء میں سے شمار کرتے تھے کیونکہ جس ذات کی معصیت ہوتی ہے اس کی عظمت سے وہ آگاہ تھے، اور ان میں بہت زیادہ خوف پایا جاتا تھا اور وہ اپنے آپ پر نظر رکھتے اور اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہتے تھے۔

4۔ گناہوں کو حقیر جاننا

گناہوں پر اصرار اور اڑے رہنے کے نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی معصیت کو معمولی اور حقیر سمجھنے لگتا ہے جو کہ ایک خطرناک چیز ہے جبکہ مؤمن کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں گناہوں کو بڑا سمجھے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأنَّهُ قاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخافُ أنْ يَقَعَ عليه، وإنَّ الفاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبابٍ مَرَّ علَى أنْفِهِ فقالَ به هَكَذا

(صحيح البخاري: 6308)

ترجمہ: مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر جائے اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس طرف اشارہ کیا (راویِ حدیث نے ناک پر اپنے ہاتھ  کے اشارے سے اس کی کیفیت بتائی) ۔

مؤمن کی نظر میں ہر گناہ بڑا

  مؤمن اپنے دل میں ہر چھوٹے گناہ کو اس لیے بڑا سمجھتا ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کی عظمت ، بڑائی  اور شان کا بخوبی علم ہوتا ہے چنانچہ جب بندہِ مؤمن رب العزت کی جلالت و عظمت کو دیکھتا ہے جس کی نافرمانی کی جا رہی ہے تو اسے ہر چھوٹا گناہ بڑا نظر آنے لگتا ہے۔

امام بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لا تنظُرْ إلى صِغر المعصية، ولكن انظر إلى عظمة مَن عصيتَ۔9

ترجمہ: یہ مت دیکھو  کہ گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ ،  بلکہ یہ دیکھو  کہ تم جس ذات کی نا فرمانی کر رہے ہو اس کی عظمت اور شان کیا ہے ؟

امام فضيل بن عياض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 بقَدْر ما يصغُر الذنبُ عندك، يعظُم عند الله، وبقدر ما يعظم عندك، يصغر عند الله۔10

ترجمہ :جتنا آپ گناہ كو معمولی  سمجھیں گے اتنا ہی الله تعالیٰ کے نزدیک وہ گناہ بڑا ہو جاتا ہے اور جتنا آپ گناہ كو عظیم سمجھیں گے اتنا ہی الله تعالیٰ کے نزدیک وہ گناہ معمولی اور چھوٹا ہو جاتا ہے ۔

5۔ صغیرہ گناہوں پر فخر كرنا

صغیرہ گناہ کے کبیرہ گناہ میں تبدیل ہو جانے کے اسباب میں سے ایک سبب صغیرہ گناہوں پر فخركرنا ہے ۔  یعنی کوئی شخص یہ کہے کہ  دیکھو میں نے کس طرح فلاں کی عزت و آبرو تارتار کردی اور اس کی برائیاں ذکر کر کے اسے شرمندہ کردیا یا اسے دھوکہ دے دیا یا اس کا غبن کر لیا۔

6۔ عالمِ دین کا گناہ

أن يكون المُذنب عالماً يقتدى به، فإذا فعله بحيث يرى ذلك منه كبر ذنبه. كإطلاق اللسان في الأعراض، وتعديه باللسان في المناظرة، وقصده الاستخفاف، واشتغاله من العلوم بما لا يقصد منه إلا الجاه،كعلم الجدل والمناظرة، فهذه ذنوب يُتَّبَعُ العالِم عليها، فيموت العالم ويبقى شرُّه مستطيرًا في العالم آمادًا متطاولة، فطوبى لمن إذا مات ماتت ذنوبه معه۔11

ترجمہ : یعنی ایسےعالمِ دین کا گناہ جس کی اقتدا کی جاتی ہو۔ یعنی اگرعالم کوئی گناہِ صغیرہ کرے گا اور لوگوں کو اس کا علم ہوگا تو اس کا گناہ بڑھ جائے گا۔ جیسے لوگوں کی عزت نیلام كرنا ، بحث و مناظره میں توہین و تحقیرکی نیت سے جارحانہ زبان چلانا اور ایسےعلوم کے حصول میں میں لگ جانا جس کا مقصد لوگوں پر اپنا علمی رعب یا شخصی جاہ و منزلت جمانے کے سوا کچھ نہ ہو۔ جیسے بحث و مناظرہ کا علم۔ یہ وہ گناہ ہیں جن کی سزا عالمِ دین کو دی جائے گی۔ عالمِ دین تو دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے  مگر اس کی برائی دنیا میں طویل عرصے تک پھیلی رہتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو جب مرتے ہیں تو ان کے گناہ بھی ساتھ مر جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ

(يس : 12 )

ترجمہ : بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے ۔

اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

مَن سَنَّ في الإسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَن عَمِلَ بهَا بَعْدَهُ، مِن غيرِ أَنْ يَنْقُصَ مِن أُجُورِهِمْ شَيءٌ، وَمَن سَنَّ في الإسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كانَ عليه وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَن عَمِلَ بهَا مِن بَعْدِهِ، مِن غيرِ أَنْ يَنْقُصَ مِن أَوْزَارِهِمْ شَيءٌ

(صحيح مسلم: 1017)

جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اسکا اور اسکے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ملتا ہے اور انکے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی اور جس شخص نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کو اسکا اور اسکے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ملتا ہے اور انکے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔

7۔ گناہ کی تشہیر اور اعلان

صغیرہ گناہ کے کبیرہ گناہ میں تبدیل ہو جانے کے اسباب میں سے ایک سبب صغیرہ گناہوں کی تشہر اور اعلان کرنا ہے۔ گناہوں کی تشہیر کرنے والے کی معافی نہیں ہے۔12

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

كُلُّ أُمَّتي مُعافًى إلَّا المُجاهِرِينَ، وإنَّ مِنَ المُجاهَرَةِ أنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ باللَّيْلِ عَمَلًا، ثُمَّ يُصْبِحَ وقدْ سَتَرَهُ اللَّهُ عليه، فَيَقُولَ: يا فُلانُ، عَمِلْتُ البارِحَةَ كَذا وكَذا، وقدْ باتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، ويُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عنْه

(صحيح البخاري: 6069)

ترجمہ : میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللّٰہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے ربّ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللّٰہ کے پردے کھولنے لگا (یعنی اپنے گناہوں کا لوگوں کو بتانے لگا) ۔ ”

8۔ صغیرہ گناہوں پر خوشی کا اظہار کرنا

صغیرہ گناہ کے کبیرہ گناہ میں تبدیل ہو جانے کے اسباب میں سے ایک سبب صغیرہ گناہوں پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا اور لوگوں کے سامنے ان گناہوں پر شیخی بھگارنا ہے۔ یاد رکھیئے ! بندے کے اندر صغیرہ گناہ کی لذت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی وہ صغیرہ گناہ گناہِ کبیرہ ہو جاتا ہے اور دل کو تاریک کرنے میں اس کا اثر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ گناہ گاروں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کی تعریف کرتے ہیں۔ اپنے گناہ پرشیخی بھگارتے ہیں کہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔13

پرہیزگار انسان کی صفت

متقی اور پرہیزگار انسان کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر اڑے نہیں رہتے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

(آل عمران:135)

اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔

یعنی اگر گناہ ہو جاتا ہے تو استغفار کرتے ہیں کیونکہ دل سے استغفار کر لینے کے بعد اگر دوبارہ اسی گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو اسے گناہ پر اصرار نہیں کہا جاتا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما أصرَّ من استَغفرَ وإن عادَ في اليَومِ سَبعينَ مرَّةً

(حسّنه شعيب الأرناؤوط في تخريج سنن أبي داود: 1514)

ترجمہ :  جو استغفار کرتا رہا اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا گرچہ وہ دن بھر میں ستر بار اس گناہ کو دہرائے“

شيخ زبير على زئي نے مشكوة المصابيح (2340) میں حافظ ابن کثیر نے (تفسیر ابن كثیر(2/106)  میں اور حافظ ابن حجر العسقلانی نے ( فتح الباری :1/137) میں اس حدیث کو  ” حسن“ کہا ہے ۔

صغیرہ گناہوں پر اصرار سے وہ کبیرہ ہو جاتے ہیں اور کبیرہ پر اصرار کرنے سے آدمی کفر تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر ہر گناہ کے بعد صدقِ دل سے توبہ و استغفار کر لے اور اسے دوبارہ نہ کرنے کی پختہ نیت کرے مگر بد قسمتی سے پھر اس میں مبتلا ہو جائے تو یہ اصرار نہ ہو گا۔

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما مِن عبدٍ يذنبُ ذنبًا، فيُحسنُ الطُّهورَ، ثمَّ يقومُ فيُصلِّي رَكْعتينِ، ثمَّ يستغفِرُ اللہَ إلَّا غفرَ اللہُ لَهُ، ثمَّ قرأَ هذِهِ الآيةَ: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللہُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران: 135)

(صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1521)

ترجمہ: جب کوئی آدمی گناہ کرتا ہے، تو اس کے بعد اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے معاف کردیتا ہے۔ پهر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

(آل عمران: 135)

ترجمہ:ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ہر قسم کے گناہوں ، نافرمانیوں اور لغزشوں سے بچائے رکھے ۔ آمین۔

  1. (الداء والدواء،لابن القيم :42-56)
  2. ( الجواب الكافي :1/56)
  3. (حاشیة بلوغ المرام لابن باز ، ص:778 ، إسناده صحیح )
  4. (الجواب الكافي لابن القيم، ص: 56 )
  5. ( الداء والدواء، ص: 184)
  6. (تفسیر سورۃ المطففین، آیة : 14)
  7. (إغاثة اللهفان :2/151)
  8. (تفسير أبي حاتم الرازي، بتحقيق أسعد محمد الطيب: 5217۔آیت: 31 سورة النساء ۔ وسنده صحیح)
  9. (سیر اعلام النبلاء: 5/91)
  10. (شعب الإیمان : 5/428)
  11. (مختصر منھاج القاصدین،للمقدسی،ص258، وإحياء علوم الدين للإمام الغزالی : ج 4/ 365)
  12. (مختصر منھاج القاصدین،للمقدسی،ص258، وإحياء علوم الدين للإمام الغزالی : ج 4/ 365)
  13. (مختصر منھاج القاصدین،للمقدسی،ص258، وإحياء علوم الدين للإمام الغزالی : ج 4/ 365)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ