الحمد لله رب العالمین وبعد
الله تعالی نے اس كره ارض پر اپنے بندوں كے لیے مختلف انواع و اقسام كی نعمتیں پیدا كی ہیں اور انہیں طیبات یعنی پاكیزه رزق كهانے كا پابند کیا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگو ! اللہ تعالیٰ طیّب (پا ک) ہے اور وہ صرف طیّب (پاکیزہ چیز) ہی کو قبول کرتا ہے۔ اللہ نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا ہے جس بات کا رسولوں کو حکم دیا چنانچہ (اللہ تعالی نے) فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
المؤمنون: 51
’’اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو یقیناً جو تم عمل کرتے ہو میں اسے بخوبی جانتا ہوں‘‘
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ
البقرة: 172
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں۔۔۔‘‘ [1]۔
- حدیث میں مذکور دونوں آیتوں میں طیبات (پاکیزہ رزق) کے کھانے کے ساتھ نیک عمل کی انجام دہی (وَٱعۡمَلُواْ صَٰلِحًاۖ ) اور شکر گزاری (وَٱشۡكُرُواْ لِلَّهِ ) کا بھی حکم ہے۔ یہاں یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ طیبات بدن اور قلب کے لیے نافع اور تقویت کا باعث ہیں جن کا تناول کرنا انسان کو نیک اعمال (نماز، روزہ، جہاد وغیرہ) کے انجام دینے میں ممدّ و معاون ثابت ہوتا ہے۔
- طیبات کی معرفت کا معتبر و باوثوق ذریعہ اللہ تعالی کی وحی ہے۔ امام التفسیر قتادہ رحمہ اللہ سورہ اعراف آیت 32 کے تحت جس میں طیبات کا ذکر ہے فرماتے ہیں: ’’ (طیبات سے مراد ) حلال ہے‘‘[2]۔
ثقہ و صدوق مفسّر مقاتل بن حیان رحمہ اللہ طیبات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ ہر قسم کی اشیاء میں سے طیبات وہ چیزیں ہیں جن کا استعمال اللہ نے لوگوں کے لیے حلال کردیا ہے لہذا طیبات رزقِ حلال سے عبارت ہے‘‘[3]۔
یہ تفسیر باللازم کہلاتی ہے۔ لہذا اگر آپ طیبات کو پہچاننا چاہتے ہیں تو یہ دیکھ لیں کہ اللہ تعالی نے اسے حلال کیا ہے یا نہیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کے لیے کسی چیز کو حلال ٹھہرائے اور اصلاً اس میں نقصان و ضرر کا پہلو غالب ہو!
اللہ تعالی نے نبی علیہ السلام کا یہ فریضہ ذکر فرمایا ہے کہ:
وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ ٱلۡخَبَٰٓئِثَ
الأعراف : 157
اور وہ (نبی) ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہراتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام ٹھہراتا ہے۔
آیت کے مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے حلال بتایا ہے وہ طیّب ہے ۔ اگر فطرت سلامت ہو تو طیبات اور خبائث کے درمیان انسان فرق محسوس کرسکتا ہے البتہ یہ لازم نہیں کہ ہر حلال شے سب کے انفرادی یا علاقائی (مثلا گرم، خشک وغیرہ) مزاج اور طبیعت کے مطابق ہو ۔ اسی لیے کسی چیز کے طیب (یعنی پاکیزہ اور حلال) ہونے کا معیار لوگوں كے تجربات اور میلانات نہیں ہیں بلکہ اس سلسلے میں معیار صرف اللہ کی وحی ہے۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
“إِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا …”[4]
’’یقینا میں کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا‘‘
اور مزید فرمایا:
” لَيْسَ لِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ اللهُ”[5]
’’مجھے اسے حرام کرنے کا اختیار نہیں جسے اللہ نے حلال کیا ہے۔
یعنی نبی ﷺ برملا اظہار فرماتے کہ حلال یا حرام کا بیان میری اپنی پسند یا نا پسند پر موقوف نہیں بلکہ یہ وحی الہی سے ہے اور یہ مہم آپ علیہ السلام وحیِ الہی سے ہی سر انجام دیتے ہیں۔
رب العزت نے اناج، نباتات، لحمیات (گوشت) وغیرہ کی صورت میں انسانوں كی غذائی ضروریات كا کامل بندوبست فرما دیا ہے۔ چوپائے بھی اللہ کی عظیم نعمت ہیں جن سے دودھ دوہا جاتا ہے اور گوشت حاصل کیا جاتا ہے. فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِنَّ لَكُمۡ فِي ٱلۡأَنۡعَٰمِ لَعِبۡرَةٗۖ نُّسۡقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمۡ فِيهَا مَنَٰفِعُ كَثِيرَةٞ وَمِنۡهَا تَأۡكُلُونَ
المؤمنون: 21
تمہارے لئے چوپایوں میں بھی بڑی بھاری عبرت ہے۔ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور بھی بہت سے نفع تمہارے لئے ان میں ہیں ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔
گائے بھی انہی چوپایوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالی نے حلال کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک خلقِ کثیر گائے کا گوشت استعمال کرتی ہے خصوصاً عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے لیے اکثر گائے کو ترجیح دی جاتی ہے حتی کہ عیدِ قربان کو گائے سے موسوم کرتے ہوئے (بقرہ عید) کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض حضرات طبی نکتہ نگاہ سے گائے کے گوشت کو ضرر رساں قرار دیتے ہیں اور بعض تجزیاتی اعداد و شمار کی بناء پر اسے چند بڑی بیماریوں (دل کی بیماریوں ’Heart diseases ‘جیسےشریانِ قلب کی بندش ، سرطان’cancer ‘،وغیرہ) کا پیش خیمہ اور ان کے ابھرنے کا سبب (ہیجان انگیز) گردانتے ہیں جبکہ دوسری جانب کئی طبی ماہرین اس بات کی تردید کرتے ہیں، ان خدشات کو بسیار خوری اور بے اعتدالی پر محمول کرتے ہیں اور حدِّ اعتدال میں اس کے استعمال کی افادیت و اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ ایک مومن کے لیے یہ دیکھنا لازم ہے کہ خالقِ کائنات جو بندوں کی مصلحتوں کو بخوبی جانتا ہے اس نے ہمیں اپنے دین میں کیا رہنمائی دی ہے؟ بعض حلقوں میں یہ روایت گردش کرتی ہے کہ گائے کے گوشت کو بیماری کہا گیا ہے۔ بعض علماء نے اس روایت کی کئی توجیہات بیان کی ہیں مگر اس سے قبل یہ جاننا لازم ہے کہ آیا نبی علیہ السلام سے یہ حدیث ثابت بھی ہے یا نہیں؟۔ گائے کے گوشت کی اس مقبولیت اور لوگوں میں رائج مختلف تصورات کی بناء پر زیرِ نظر مضمون میں ہم نے ان روایتوں کی تحقیق کی ہے تاکہ لوگوں کو علم ہوسکے کہ شرعِ مطہّر میں اس حوالے سے کیا رہنمائی کی گئی ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔
نبی ﷺ کی جانب کسی بات کو منسوب کرنے کا بنیادی ضابطہ :
نبی علیہ السلام کی طرف منسوب كسى بهى بات کے بارے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ آیا آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی بھی تھی یا نہیں؟! اس کا طریقہ محّدثینِ کرام کے اسلوب پر سندوں کی چھان پھٹک اور اس روایت کی بابت محدّثین کی ٹھوس علمی آراء ہی ہیں۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے کسی بات کی آپ ﷺ کی جانب نسبت کی تصدیق یا تردید ہوسکتی ہے۔ امام المحدثين یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ کا سنہری قول ہے :
لَا تَنْظُرُوا إِلَى الْحَدِيثِ وَلَكِنِ انْظُرُوا إِلَى الْإِسْنَادِ فَإِنْ صَحَّ الْإِسْنَادُ وَإِلَّا فَلَا تَغْتَرَّ بِالْحَدِيثِ إِذَا لَمْ يَصِحَّ الْإِسْنَادُ [6]
“حديث كى طرف مت ديكھو بلکہ (پہلے) سند کی طرف دیکھو پھر اگر سند صحیح ہو ( تو ٹھیک ) وگرنہ حدیث (کے ظاہری الفاظ) سے دھوکا مت کھانا”۔
یعنی الفاظ کے پر کشش ہونے سے متاثر مت ہونا! قبولِ حدیث میں معیار سَنَد ہے نہ کہ کسی کی عقل یا ذاتی ذوق اور میلان۔ اور پھر حدیثِ رسول اگر ثابت ٹھہرے تو اس کی روشنی میں سائنسی تحقیقات اورعقلی معیارات كو پرکھا جاتا ہے نہ کے اس کے برعکس۔
چنانچہ وہ حدیثیں جن میں گائے کے گوشت کو بیماری سے تعبیر کیا گیا ہے نبی علیہ السلام سے سنداً ثابت نہیں۔ کئی علماء مثلا: علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے (التذکرۃ : ص: 148) میں، حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے (الأجوبة المرضية : ج:1، ص: 21) میں، محدث عجلونی رحمہ اللہ نے (كشف الخفاء : ح 2038) میں بالتفصیل اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی (زاد المعاد : ج: 4، ص: 478) میں اس کی صحت پر کلام کیا ہے- رحمهم الله جمیعا- جیسا کے مزید آگے واضح ہو جائے گا إن شاء الله۔
ذیل میں ہم اس باب کی مختلف سندوں سے مروی روایات پیش کریں گے اور محدثین کے اقوال کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں گے۔
پہلی روایت: ملیکہ بنت عمرو کی روایت :
کتاب مراسیل أبی داود ( 450) میں امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتےہیں:
حدثنا ابن نفيل، حدثنا زهير، حدثتني امرأة، من أهلي عن مليكة بنت عمرو، أنها وصفت لها سمن بقر من وجع كان بحلقها وقالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألبانها شفاء، وسمنها دواء، ولحمها داء»
ترجمہ : زہیر اپنے خاندان کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں اور وہ ملیکہ بنت عمرو سے کہ ملیکہ نے انہیں حلق کی تکلیف میں گائے کا گھی استعمال کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: ان (گائیوں) کا دودھ شفاء ہے، اس کا گھی دواء ہے اور اس کا گوشت بیماری ہے۔
اس روایت کا مدار امام زہیر بن معاویہ رحمہ اللہ پر ہے. وہ اسے اپنے خاندان کی ایک خاتون سے بیان کرتے ہیں جبکہ زہیر سے اسے ان کے کئی شاگردوں نے بیان کیا ہے جن میں ابو جعفر النفیلی [7]، احمد ابن یونس الیربوعی [8]، ابو النضر ھاشم [9] اور ابن الجعد[10] رحمہم اللہ شامل ہیں. اس روایت کی دو بنیادی علتیں ہیں۔
۱) زہیر کے خاندان کی عورت مبھمہ (نا معلوم) ہے اور اس کی معتبر توثیق موجود نہیں ہے۔ مسند علي بن الجعد(2683) ميں وارد ہے کہ یہ زہیر کی بیوی تھیں۔ اس میں شذوذ ہے کیونکہ بقیہ شاگردوں کا اسلوب اس کے برعکس ہے۔ مزید ابن الجعد کی روایت میں زہیر نے انہیں “صدوقة” یعنی سچی خاتون قرار دیا جبکہ محدثین کے نزدیک راوی کا اپنے شیخ کو مبھم رکھ کر توثیق کرنا بھی کافی نہیں ہے۔ ( ملاحظہ کیجیے: الکفایۃ للخطیب : 373، 374 اور نزهة النظر ج:1، ص :101- 102) مزید یہ کہ روایت کی قبولیت میں صرف راوی کی امانت کافی نہیں بلکہ ضبط و اہلیت بھی شرط ہے ۔
۲) دوسری علت ملیکہ کی صحابیت کا ثابت نہ ہونا ہے۔ بعض علماء نے اگرچہ انہیں صحابیہ شمار کیا ہے مگر اس کی کوئی قوی دلیل نہیں۔ ایک کمزور سند میں ’ملیکہ‘ نامی خاتون کی صحابیت کا ذکر ہے مگر وہاں ملیکہ مھملاً وارد ہے، ان کی ولدیت مذکور نہیں اور ان کی تعیین ملیکہ بنت عمرو رحمہا اللہ سے کرنا محلِ نظر ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اِصابہ میں اشارہ فرمایا ہے [11]۔ اسی کے پیشِ نظر امام ابو داود رحمہ اللہ نے اسے مرسل کہا ہے اور مرسل روایت نُقّاد محدثین کے ہاں ضعیف حدیث کی ہی ایک قسم ہے۔ مزید یہ کہ ملیکہ کی صحابیت ثابت نہ ہونے کی صورت میں وہ تعدیل و توثیق کی بھی محتاج ہیں۔
لہذا یہ روایت قابلِ احتجاج نہیں۔ اس کے متعلق حافظ سخاوی رحمہ اللہ کا تبصرہ یہ ہے کہ یہ روایت مبھمہ راویہ کی وجہ سے ضعیف قرار پائے گی (الأجوبة المرضية : ج: 1، ص: 22). محدثِ شام عجلونی رحمہ اللہ کہتے ہیں: {الحديث ضعيف} یہ حدیث ضعیف ہے (كشف الخفاء : 2038)۔
دوسری روایت: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت :
امام حاکم رحمہ اللہ اپنی مستدرک (8232) میں فرماتے ہیں:
حدثني أبو بكر بن محمد بن أحمد بن بالويه، ثنا معاذ بن المثنى العنبري، ثنا سيف بن مسكين، ثنا عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي، عن الحسن بن سعد، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «عليكم بألبان البقر وسمنانها، وإياكم ولحومها فإن ألبانها وسمنانها دواء وشفاء ولحومها داء»
ترجمہ : ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ تم گائے کے دودھ کو اور اس کے گھی کو ضرور استعمال کرو اور اس کے گوشت سے بچو کیونکہ اس کا دودھ اور گھی دواء اور شفاء ہے جبکہ اس کا گوشت بیماری ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ صحیح الإسناد ہے۔ یہ روایت کتاب کے اس آخری دو تہائی حصہ میں واقع ہے جس میں ابنِ حجر رحمہ اللہ کے بقول حاکم نیسابوری رحمہ اللہ سے احادیث پر حکم لگانے میں بکثرت وھم ہوا ہے اور انہیں اس کی مراجعت کا موقع بھی نہ مل سکا۔ یہ بھی انہی اوھام میں سے ہے۔
اس سند میں تین علتیں ہیں :
۱ ) بنیادی علت سند کا مرکزی راوی سیف بن مسکین الأسواری ہے۔ یہ سخت ضعیف ہے۔
- اس کے متعلق امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” لَا يَحِلُّ الِاحْتِجَاجُ بِهِ”[12] اس سے حجت پکڑنا حلال نہیں ! ۔
- امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: ” لیسَ بالقوي”[13] یہ کوئی مضبوط راوی نہیں ہے ۔
- امام ذھبی رحمہ اللہ تلخیص مستدرک میں مذکورہ بالا حدیث کے تحت تعاقب فرماتے ہیں کہ “فيه سيف بن مسكين وهّاه ابن حبان” سیف نامی راوی کوابن حبان نے مجروح قرار دیا ہے۔ اسی طرح حافظ ذہبی ایک مقام پر اسے “واہٍ”[14] بہت کمزور قرار دیتے ہیں ۔
- حافظ هیثمی رحمہ اللہ اس راوی کے متعلق کہتے ہیں: “ضعیف جدا”[15] سخت ضعیف ہے ۔
- عصرِ حاضر میں علومِ حدیث و نقدِ رجال کے امام شیخ عبد الرحمن معلمی یمانی رحمہ اللہ اسے “تالف”[16] تباہ حال قرار دیتے ہیں۔
۲) سیف کے استاد مسعودی رحمہ اللہ مختلط ہوگئے تھے۔ یہ دوسری علت ہے ۔
۳)مزید یہ کہ اس سند میں عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود رحمہ اللہ کا اپنے والد ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے خصوصا سماع بھی ثابت نہیں۔ انہوں نے چند ایک باتوں کے سوا اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔ ان کے عہدِ طفولت میں ہی ان کے والد محترم وفا ت پاگئے تھے۔ آخری دو علتیں اس صورت میں مؤثر ہوں گی کہ جب سند مسعودی تک پھر تابعی تک پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہو۔
حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح پر کئی حفاظ نے ان کا تعقب کیا۔ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں جیسا کہ گزر چکا، علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے کہا: {بل هُوَ مُنْقَطع وَفِي صِحَّته نظر فَإِن فِي الصَّحِيح ان النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ضحى عَن نِسَائِهِ بالبقر وَهُوَ لَا يتَقرَّب بالداء} بلکہ یہ منقطع روایت ہے (یعنی ابن مسعود اور ان کے بیٹے کے درمیان) اور اس کا صحیح ہونا محلِّ نظر ہے کیونکہ صحیح ( بخاری ) میں یہ وارد ہے کہ نبی ﷺ نے ازواجِ مطہرات کی جانب سے گائے کی قربانی فرمائی اور آپ ﷺ بیماری کے ذریعے، اللہ کا قرب نہیں چاہ سکتے!‘ (اللآلي المنثورة : ص: 148). ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: {بل سند ضعيف والمسعودي اختلط} بلکہ ضعیف سند ہے مسعودی کو اختلاط ہوگیا تھا۔ (إتحاف المهرة : 12828)
صحیح ابن حبان [17] اور دوسری کتب میں مسعودی وغیرہ کے طریق سے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت وارد ہے کہ
ما أنزل الله داء إلا أنزل له دواء، فعليكم بألبان البقر، فإنها ترمّ من كل الشجر۔
’’اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو لہذا تم گائے کے دودھ کو لازمی اختیار کرو کیونکہ وہ ہر درخت و بوٹی سے چرتی ہے‘‘۔
اس روایت کو پچھلی روایت کا متابع بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کی سند مختلف ہے اور سند میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا واسطہ ذکر ہونے میں اختلاف ہے[18]۔ پھر اس روایت میں نہ گائے کے گوشت کے بیماری ہونے کا تذکرہ ہے اور نہ ہی دودھ اور گھی کے مطلق شفاء ہونے کا ذکر ہے! بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن مسکین نے در اصل مسعودی رحمہ اللہ کی بیان کردہ اس روایت کا یہ حلیہ بنا ڈالا ہے۔
تیسری روایت: سیدنا صهيب بن سنان رومی رضي الله عنه سے منسوب روایت :
اسى طرح صهيب رضي الله عنه سے منسوب ایک روایت ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے “الطب النبوي” (325) میں ذکر کی ہے:
أخبرنا أحمد في كتابه، حَدَّثَنا محمد بن جرير، حَدَّثَنا أحمد بن الحسن الترمذي، عَن موسى بن محمد النسائي، حَدَّثَنا دفاع بن دغفل السدوسي، عَن عَبد الحميد بن صيفي بن صهيب، عَن أبيه، عَن جَدِّه صهيب الخير، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: عليكم بألبان البقر فإنها شفاء وسمنها دواء ولحومها داء.
ترجمہ: صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ گائے کا دودھ ضرور اختیار کرو کیونکہ یہ شفاء ہے اور اس کا گھی دواء ہے جبکہ اس کا گوشت بیماری ہے۔
یہ سند منکر اور سلسلة المجاهيل یعنی مجہول راویوں کی کڑی پر مشتمل ہے۔
۱) اس کے بنیادی راوی دفّاع بن دغفل السدوسي كو ابو حاتم الرازى رحمه الله نے “ضعیفُ الحدیث”[19] قرار دیا ہے۔
۲) اس سے اوپر عبد الحمید اور اس کے والد صیفی دونوں مجھول ہیں۔ مزید یہ کہ (عبد الحمید بن صیفي عن أبيه عن جده) کے سلسلہ کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: {لا يعرف سماع بعضهم من بعض} [20] ان کا آپس میں ایک دوسرے سے سماع معلوم نہیں۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: {لَا يَثْبُتُ هَذَا الْإِسْنَاد}[21] یہ سند ثابت نہیں۔
چوتھی روایت: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما پر گھڑی ہوئی روایت :
يہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے اور اسے ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں محمد بن زیاد الطحان (ج: 7، ص: 300) کے ترجمہ میں روایت کیا ہے۔
حدثنا عبد الله بن محمد بن ياسين، حدثنا محمد بن معاوية الأنماطي، حدثنا محمد بن زياد الطحان عن ميمون، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم سمن البقر وألبانها شفاء ولحومها داء.
ترجمہ: (منسوب ہے کہ) ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ گائے کا گھی اور اس کا دودھ شفاء ہے جبکہ اس کا گوشت بیماری ہے۔
اس سند کو وضع کرنے والا محمد بن زیاد الطحان ہے۔ اسے ائمہ جرح و تعدیل یحیی بن معين، احمد بن حنبل اور ابراهیم الجوزجاني رحمهم الله نے بالاتفاق ” کذاب خبیث”[22] قرار دیا ہے۔ اور بهى كئی علماء کی جروح ثابت ہیں۔
اس روایت کو حافظ ذہبی نے میزان میں طحان مذکور کی “من گھڑت” روایات میں شمار کیا ہے[23]۔
خلاصہ کلام یہ کہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ غیر ثابت اور سخت منکر ہے۔
معاصر علماءِ حدیث میں سے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہے. شیخ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: “جن روایات میں آیا ہے کہ گائے کے گوشت میں بیماری ہے ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں۔ “[24] اسی طرح شیخ الضیاء اعظمی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب “الجامع الکامل” میں اس کی اسانید پر کلام کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’والخلاصة فيه: أن هذا الحديث لا يصح بوجه من الوجوه ۔۔۔‘‘[25]
’’ اس بارے میں خلاصہ یہی ہے کہ یہ حدیث کسی طرح بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔۔۔‘‘ پھر شیخ نے اس کی تردید میں قرآن کریم کی کئی آیات ذکر کیں [26]۔
جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں مختلف مقامات پر ان روایات کی تحقیق و دراسہ کیا ہے[27] اور ان روايات كو حسن لغيره كہنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ البتہ دلائل کی رو سے راجح بات ان علماء کی ہی معلوم ہوتی ہے جو اسے غیر ثابت کہتے ہیں ۔
یہ طرق شدتِ ضعف کی وجہ سے ایک دوسرے کو تقویت نہیں دیتے اس پر مستزاد یہ کہ معتمد کتبِ صحاح اس سے خالی ہیں اور اصول الروایات اس کے خلاف ہیں۔ قرآنِ كريم میں بصراحت یہ قصہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ اللہ رب العالمین نے بنی اسرائیل کو گائے کی قربانی کرنے کا حکم دیا (سورة البقرة : 67) ۔ صحيح بخارى [28]ميں ہے کہ نبی علیہ السلام نے ازواج مطہرات كى طرف سے گائے کی قربانی کی اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس اس کا گوشت بھیجا. مزید حدیث مبارکہ میں جمعہ کے دن پہلی گھڑی میں آنے والے کو گویا ایک اونٹ قربان کرنے اور دوسری گھڑی میں آنے والے کو گویا ایک گائے کی قربانی دینے کے مثل بتایا گیا ہے [29]۔
جبکہ معلوم شد کہ”اللہ طیب (پاک) ہے اور طیب کے سوا کچھ بھی قبول نہیں کرتا”[30] ۔ دلائل مذکورہ سے گائے کے گوشت کا حلال، طیب اور پاکیزہ ہونا واضح ہے اور یہ بھی اس روایت کے باطل اور سخت منکر ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ مطلقاً بیماریوں کا منبع اور ضرر رساں ہوتا تو اللہ رب العالمین کے ہاں اس کی قربانی دی جاتی نہ بندوں کے لیے اسے حلال کیا جاتا۔
اس روایت کے بطلان پر ایک قوی قرینہ یہ بھی ہے کہ نبی علیہ السلام نے یہ اسلوب ایک خبیث محرّم شہ کے متعلق اپنایا ہے۔ جب آپ علیہ السلام سے شراب (خمر) کے بطور دواء استعمال کے متعلق پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: {إنه ليس بدواء، ولكنه داء} یقینا یہ دواء نہیں ہے بلکہ یہ بیماری ہے[31]۔ یعنی اسلام میں بیماری (شراب) کے استعمال کا کوئی جواز نہیں پھر کیونکر گائے کے گوشت کو حلال کیا جاتا!۔
خلاصہ :
نبی علیہ السلام سے گائے کے گوشت کو بیماری قرار دینا قطعاً ثابت نہیں۔ وہ تمام روایتیں جن میں گائے کے گوشت کو بیماری اور دودھ اور گھی کو “شفاء” کہا گیا ہو ثابت نہیں۔ گائے کا گوشت طیب، حلال اور صحت بخش ہے البتہ اسے متوازن مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ اس میں اعلی قسم کی لحمیات proteins)) بکثرت ہوتی ہیں جو جسم کے لیے از حد مفید ہیں مگر ان کا مستقل استعمال انہی لوگوں کے لیے موزوں ہے جو جفاکش اور محنتی ہوں۔ معاشرے میں بیماریوں کی اصل وجہ کھانے کے بعد جسمانی ورزش اور بھاگ دوڑ کا بالکل نہ ہونا ہے۔اور بسیار خوری تو بہر صورت ضرر رساں ہے۔ لہذا گائے کے گوشت کو موردِ الزام مت ٹہرائیے اور اپنی جسمانی سرگرمیاں بڑھائیے اور بے فکر ہو کر اعتدال کے ساتھ اللہ کی اس نعمت کو استعمال کیجیے۔ بیماری کی صورت میں اپنے معالج سے مشورہ ضرور لیں۔
اللہ رب العالمین اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے، عمل کرنے اور نشر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
واللہ عندہ علم الصواب۔
[1] (صحیح مسلم : 2346[1015])
[2] (تفسیر ابن ابی حاتم : 8397 سندہ حسن)
[3] (تفسیر ابن ابی حاتم : 8343 سندہ حسن)
[4] (صحیح بخاری : 3110، صحیح مسلم : 2449)
[5] (مسلم : 565، احمد : 11084 و اللفظ لہ)
[6] (الجامع لأخلاق الراوي للخطيب ج: 2، ص : 102 سنده صحيح ، وصحّحه الشيخ زبير رحمه الله)
[7] (مراسیل ابی داود : 450)
[8](المعجم الکبیر للطبرانی : 79)
[9] (السنن الکبری للبیھقی : 19600)
[10] (مسند ابن الجعد لأبی القاسم البغوی : 2683)
[11] (الإصابۃ : ج: 8، ص 319)
[12] (المجروحين ،ج: 1، ص 347)
[13] (العلل ج: 1، ص 219)
[14] (تحت حديث المستدرك: 5465)
[15] (مجمع الزوائد : 12515)
[16] (حاشية الفوائد المجموعة , تحت ح : 50)
[17] (التقاسیم : 4618، الإحسان : 6075)
[18] (علل ابن ابی حاتم : 2254، علل الدارقطنی : 958)
[19] (الجرح والتعديل ،ج: 3، ص: 445)
[20] (الضعفاء للعقيلي ترجمة رقم : 1005 لعبد الحميد بن زياد بن صيفي وسنده حسن، أبو علي آدم بن موسى الخواري صدوق)
[21] (زاد المعاد : ج: 4، ص: 479 عطاءات العلم)
[22] (الکامل لابن عدي ج: 7، ص : 299 وأسانيد أقوالهم صحيحة)
[23] (دیکھیے میزان الاعتدال جلد: 3، صفحہ: 552)
[24] (مقالات ج: 2، ص: 217)
[25] (الجامع الكامل : 798/9)
تفصیل کے لیے کلک کریں
فقیہِ امت شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”بدون أن ننظر إلى سنده نحكم بأنه باطل ۔۔۔ ولا يصح، لو كان لحومها داء هل يمكن أن يحلها الله لعباده؟ لا يمكن أبدا؛ لأن الله تعالى لا يحل لعباده ما كان ضررا عليهم حتى لو قال قائل: يمكن أن نحمل هذا الحديث على أكل لحم البقر بدون طبخ، هل يصح هذا؟ لا” (تفسیر ابن عثیمین رحمہ اللہ : سورۃ المائدة : 92)۔
شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سند کو دیکھے بغیر(متن کی واضح نکارت کی بناء پر) ہی حکم لگالیں گے کہ یہ باطل ہے صحیح نہیں. اگر گائے کا گوشت بیماری ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ اللہ اسے اپنے بندوں کے لیے حلال فرما دے؟ کسی طرح ممکن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے ایسی چیز حلال نہیں فرماتا جو ان کے لیے نقصان دہ ہو۔۔۔الخ
شیخ رحمہ اللہ نے یہاں مقاصدِ شریعت کو ملحوظ رکھ کر اپنے سلامتِ ذوق سے کلام کیا ہے البتہ یہاں ہم طلبہِ علم کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ اگر متن میں بظاہر نکارت ہے تو یہ ایک قرینہ اور علامت ہے کہ اس کی سند درست نہیں۔ اور یہ ناممکن ہے کہ اس روایت کی سند میں کوئی علت(!) نہ پائی جائے یا متقدمین جہابذہ کا کلام نہ ملے. لہذا اسے ہی تلاش کیا جائے اور حتی الامکان اسی پر اکتفاء کیا جائے! اور اگر ہمارے ذوق کے بالمقابل پچھلے علماء کی تصحیح آ جائے تو اپنے ناقص فہم کی درستگی کرلی جائے! یاد رہے کہ نقد المتون کا باب بہت ضیق اور حساس ہے اور یہ متقدمین جہابذہ نقاد (ومن جری مجراھم) کے ساتھ خاص ہے –كما أشار إليه ابن القيم في مطلع المنار المنيف- لہذا ہمارے لیے سلامتی اسی میں ہے کہ اسے اصالةً کے بجائے نقد الاسانید کے ماتحت تبعاً ذکر کیا جائے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔
[27] (سلسلہ صحیحہ: 518، 1534، 1650، 1943)
[28] (صحیح بخاری: 1720)
[29] ( صحیح البخاري : 881)
[30] ( صحيح مسلم : 1015)
[31] (صحيح مسلم : 1984)