الحَمدُ للهِ وَحدَه، والصَّلاةُ والسَّلامُ على من لا نَبِيَّ بعده
الله تعالی كا فرمان ہے :
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
الانعام – 70
اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور اس کے ساتھ نصیحت کر کہ کہیں کوئی جان اس کے بدلے ہلاکت میں (نہ) ڈال دی جائے جو اس نے کمایا، اس کے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ اور اگر وہ فدیہ دے، ہر فدیہ، تو اس سے نہ لیا جائے، یہی لوگ ہیں جو ہلاکت کے سپرد کیے گئے، اس کے بدلے جو انھوں نے کمایا، ان کے لیے گرم پانی سے پینا اور درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔
ربیع الاول ایک مبارک مہینہ
ماہ ربیع لاول کے حوالے سے یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک بابرکت مہینہ ہے اور اس کی برکت اور مبارک ہونے کی نسبت ہمارے آقا محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کی ذات اقدس سے ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اس دنیا میں بھیجا۔ اور آپ ﷺ کی ولادت با سعادت اسی مہینہ میں ہوئی۔ چنانچہ ماہِ ربیع الاول کے آمد کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی منانا کیسا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز؟ اور اسی طرح عید میلاد النبی کے موقع پر نذر ونیاز کرنا ، دیگیں چڑھانا وغیرہ شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟ چنانچہ اس سلسلے میں میلاد منانے والوں کے بعض شبہات اورپھر ان کے جوابات پیش خدمت ہے۔
میلاد منانے والوں کے بعض شبہات اور ان کا رد
میلاد کے قائلین قرآن پاک کی اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں:
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
یونس – 58
کہہ دے یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی سے ہے، سو اسی کے ساتھ پھر لازم ہے کہ وہ خوش ہوں۔ یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
اب بعض لوگوں نے اس آیت سے میلاد کے جلوس کے لیے دلیل نکالی ہے۔ کہتے ہیں کہ سب سے بڑی خوشی نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی ہے۔ اور میلاد منانا اسی خوشی کا اظہار ہے۔ نبی کریم ﷺ اللہ کا فضل اور رحمت ہیں، لہٰذا ان کے یوم ولادت پر خوشی منانی چاہیے، اس لیے یہ یوم عید ہے اور تیسری بلکہ سب سے بڑی عید ہے۔ ہمارے یہ بھائی اگر ایک دو باتیں مدنظر رکھیں تو کبھی آیت کے مفہوم میں اتنی تحریف کرکے بدعت کے لیے دلیل نہ گھڑیں۔
پہلی بات: تو یہ ہے کہ آج تک کسی مستند اہل علم نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ اس آیت میں فضل اور رحمت سے مراد نبی کریم ﷺ کی ولادت ہے۔
دوسری بات: اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ احسان جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ اصل نعمت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرما کر ان پر بہت بڑا احسان کیا۔ جس کے ذریعے سے اس نے ان کو گمراہی کے گڑھے سے بچایا اور انہیں ہلاکت سے محفوظ کیا۔
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
آل عمران – 164
بلاشبہ یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت واقعی ہم مسلمانوں کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل اور احسان ہے ، بلکہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، نبی ﷺ کا ظہور ایک نعمت ہے، اور اس کی ہجرت ایک نعمت ہے۔ توکیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب بھی اللہ ہم پر کوئی احسان کرےیا کوئی نعمت عطا کرے تو ہم اس دن کو جشن کے طور پر منانا شروع کر دیں۔
تیسری بات: ’’فَرَحٌ‘‘ کا معنی خوشی منانا تو کسی لغت میں نہیں، اس کا معنی تو خوش ہونا ہے، یہ دل کی خوشی کی کیفیت کا نام ہے نہ کہ جلوس نکال کر عید منانے کا۔ دوسرا یہ کہ یہ خوشی تو ہر وقت چوبیس گھنٹے، پورا سال اور ساری عمر مومن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے سینے کو ٹھنڈا رکھتی ہے، آپ کو یہ کس نے کہا کہ یہ سال میں صرف ایک دن کے لیے ہے، ایک شاعر نے اپنی خوشی کا اظہار کس خوبصورتی سے کیا ہے ۔
نہ بہ نظم شاعر خوش غزل، نہ بہ نثرِ ناثر بے بدل
بغلامیٔ شہ عزوجل و بہ عاشقی نبی خوشم
’’میں نہ کسی بہترین غزل گو شاعر کے شعروں پر خوش ہوں اور نہ کسی بے مثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں تو صرف اللہ بادشاہ عزوجل کا غلام ہونے پر اور نبی ﷺ سے محبت رکھنے پر خوش ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ یہ خوشی ہمیشہ ہمارے نصیب میں رکھے۔ آمین!
چوتھی بات یہ ہے کہ اس آیت میں جس فضل اور رحمت الہی سے خوش ہونے کا حکم ہے اس سے مراد نبی کریم ﷺ کی ولادت نہیں بلکہ قرآن مجید، دین حق، شریعت محمدی ﷺ، جنت اور تمام اخروی نعمتیں ہیں ۔ جیساکہ اس سے پہلے والی آیت میں مذکور ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
یونس – 57
اے لوگو! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سرا سر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔
کیا نبی ﷺ پرآیتِ ولادت نازل ہوئی؟
اور پھر اس آیت کا یہ عجیب وغریب معنی اورمفہوم نبی کریم ﷺ سے کیسے مخفی رہ گیا کہ آیت نبی ﷺ کی ولادت کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور نبی ﷺ نہ اپنی میلاد منائے اور نہ ہی امت کو میلاد منانے کے بارے میں کچھ بتائے؟ گویا نبی کریم ﷺ نے امت سے اس اہم دینی فریضہ کو چھپا لیا ۔ لوگو! اللہ کا خوف کرو اس سے بڑھ کر نبی کریم ﷺ پر کیا تہمت ہوگی ۔
اور رحمت سے مراد رسول اللہ کی بعثت اور رسالت ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
الانبیاء – 107
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
قِيلَ: يا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ علَى المُشْرِكِينَ قالَ: إنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وإنَّما بُعِثْتُ رَحْمَةً.
صحیح مسلم: 2599
رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! مشرکین کے خلاف دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا:’’ مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
قرآن پاک کے کسی مفسر نے یہ معنی بیان نہیں کیا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے۔
کیا دین اسلام مکمل نہیں؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین اسلام مکمل ہے یا نہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے دین مکمل پہنچایا ہے یا نہیں۔ اور اگر نبی کریم ﷺ نے دین مکمل پہنچا دیا ہے تو پھر اس دین میں ولادت کی تاریخ کیوں بیان نہیں کی ۔ جب آپ ﷺ نے اپنی تاریخ ولادت کا تذکرہ کہیں پر بھی نہیں کیا تو اپنی طرف سے کوئی تاریخ مقرر کرنا کسی دشمن رسول ، بدبخت اور نامراد کا کام ہوسکتا ہے، نبی ﷺ کے کسی سچے امتی اور محبت کرنے والے کا کام نہیں ہوسکتا۔
ایک عقلی دلیل
عقلی طور پر بھی یہ بات انتہائی نا مناسب ہے کہ اگر کسی کا باپ مرجائے اور محلہ والے آکر اس کے باپ کی میت پر ڈھول بجائے، ناچے، گائے، بھنگڑا دالے، مٹھائیاں بانٹیں، خوشیاں منائیں۔ کہ شکر ہے کہ فلاں شخص مرگیا ہے۔ کیا آپ کی غیرت برداشت کرے گی؟ یہ کام تو کوئی نسلی بے غیرت ہی کرسکتا ہے۔ کوئی غیرت والا بندہ یہ کام نہیں کرسکتا۔ جب آپ اپنے باپ یا کسی عزیز کی میت پر اس طرح کی حرکتیں نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے آپ کی میت کی توہین ہوتی ہے تو نبی کریم ﷺ کے بارے میں یہ کیسے گوارا کرلیتے ہو حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ جو خاتم النبیین ہے، جوسید الانبیاء ہیں۔ اس نبی کی وفات پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ شدت غم سے نڈھال ہوئے، اس نبی کی وفات پرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اپنے حواس کھو بیٹھے، اس نبی کی وفات پر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمۃ الزہراء بھی کا بھی برا حال ہوا۔ ایسے میں نبی کی ولادت کا جشن منایا جائے، ایسا شخص نبی ﷺ کا دشمن تو ہو سکتا ہے مگر نبی ﷺ کی امتی نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی دشمن رسول کا کام تو ہو سکتا ہے کسی مؤمن، سچے امتی اور رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے والے کا کام نہیں ہو سکتا۔ افسوس کہ اپنے نبی ﷺ کے بارے میں یہ سب کیسے گوارا کر لیتے ہو؟
لفظِ عید کی اصطلاح کن موقع پر جائز ہے؟
لفظ ِعید یہ شریعت کی ایک اصطلاح ہے اور اس کو آپ اسی جگہ اور اسی مقصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں جس مقصد کیلئے قرآن وحدیث میں استعمال ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحی کو حدیث میں عید قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جمعہ کے دن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إنَّ هذا يومُ عيدٍ ، جعلَهُ اللهُ للمسلمينَ ، فمن جاءَ إلى الجمعةِ فليغتسل ، وإن كانَ طيبٌ فليمسَّ منْهُ ، وعليْكم بالسِّواك.
صحیح ابن ماجه – 908
’’ یہ عید کا دن ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے، لہٰذا جو شخص جمعہ پڑھنے آئے ، اسے چاہیے کہ غسل کر کے آئے۔ اگر خوشبو موجود ہو تو لگا لے اور مسواک ضرور کیا کرو۔‘‘
یعنی جمعہ کا دن سید الایام ہیں اور باقی دنوں کے مقابلے میں عید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور دن کیلئے قرآن وحدیث میں عید کا لفظ نہیں ملتا۔ اور ظاہر ہے کہ عید ین کے کچھ اپنے احکام ہیں، عید الفطر کے اپنے احکام ہیں اور عید الاضحی کے اپنے احکام ہیں۔ لیکن عید میلاد النبی کی ایسی کوئی نماز نہیں ہے۔
پہلی بات : تو یہ ہے کہ شریعت کی اصطلاح کو کسی اور چیز کیلئے استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صلاۃ ہے، نماز ہے ۔یہ شریعت کی اصطلاح ہے۔ شریعت کی اصطلاح صلاۃ ہے۔ اب صلاۃ کوآپ کسی اور کام کیلئے استعمال کریں جس کیلئے شریعت اس کو استعمال نہیں کرتی، تو شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ شرعی نقطہ نظرسے یہ اصطلاح کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کرسکتے۔ البتہ اگر آپ لغوی اعتبار سے اسے استعمال کریں گے تو شرعی حدود وقیود سے نکل جائیں گے۔
14اگست منانا جائز ہے تو عید میلاد النبی منانا کیوں جائز نہیں ہے؟
عید میلاد النبی کے حوالے سے اکثر لوگ یہسوال بھی کرتے ہیں کہ جب 14 اگست منانا جائز ہے تو عید میلاد النبی منانا کیوں جائز نہیں ہے؟ تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ 14 اگست کو ہم شریعت کے کسی حکم کے طور پر نہیں مناتے، کہ شریعت کا حکم ہے کہ ہم 14 اگست منائیں گے تو ہمیں ثواب ملے گا۔ وہ ہم قومی دن کے طور پر، ایک قومی تہوار کے طور پر یا کلچر کے طور پر مناتے ہیں۔ شریعت کا حصہ سمجھ کر نہیں مناتے، یعنی اگر کوئی 14 اگست منائے گا تو اس کو ثواب ملے گا اور اگر کوئی چودہ اگست نہیں منائے گا تو اسے گناہ ملے گا۔ یا وہ گستاخ ہوجائے گا۔۔ وغیرہ
اگرنبیﷺ کی یومِ ولادت کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق ہوتا
تاریخ اسلام کے اندر نبی کریم ﷺ کی ولادت کے حوالے سے اختلاف ہے ، کوئی کہتا ہے8 ربیع الاوال کو ولادت ہوئی ہے ، کوئی کہتا ہے 9 ربیع لالاول کو ہوئی ہے مگر تاریخ اسلام میں اس بات پر ہر مذہب والے نے اتفاق کیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو نبی ﷺ کی وفات ہوئی ہے۔ ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے مگر وفات کی تاریخ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام بھی دنیا میں تشریف لائے مگر ان تمام انبیاء کرام کی ولادت اور وفات کی تاریخ کا کسی کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ حضرت آدم علیہ السلام کب پیدا ہوئے، کب دنیا میں تشریف لائے، اور کب فوت ہوئے۔ اگر نبی کریم ﷺ کی ولادت کی تاریخ کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہوتا تو نبی کریم ﷺ نے جہاں دین کے دوسرے اہم مسائل اور احکام بیان فرمائے ہیں وہیں اپنی تاریخ ولادت بھی ضرور بیان فرماتے۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اپنی تاریخ ولادت کہیں بھی بیان نہیں کی۔
سیرت النبی کے جلسے کیوں منعقد کرتے ہیں؟
ایک اور اعترض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں سیرت کے جلسے بھی نہیں ہوتے تھے تو آپ سیرت کے جلسے کیوں منعقد کرتے ہیں ؟
جب جلسے جائز ہوگئے اور عید میلاد ناجائز کیوں نہیں ہے ؟
اس حوالے سے اصولی بات سمجھنے کی ہے ۔ دو چیزیں ہیں ۔ ایک کو کہا جاتا ہے ذریعہ اور ایک کو کہا جاتا ہے مقصود ۔ ایک ہے کہ آپ کسی چیز کو اختیار کریں ایک وسیلہ کے طور پر اور ایک ذریعے کے طور پر۔ مثال کے طور پر ہم اذان اور نماز کے لئے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ استعمال نہیں کیا ۔ لیکن ہم استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس کو ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ذریعہ سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی لاؤڈ اسپیکر استعمال کرے تو ٹھیک ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں لاؤڈ اسپیکر یامائک استعمال نہیں کرتا تو ہم اس کو یہ نہیں کہیں گے کہ یہ گستاخ ہے ، یہ ناجائز کام کر رہا ہے۔ یا یہ شریعت کے خلاف کام کر رہا ہے۔ یا اس کورسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں ہے۔ کہ یہ بندہ لاؤڈ اسپیکر کیوں استعمال نہیں کر رہا ہے؟۔۔ کبھی ہم یہ نہیں کہیں گے کیونکہ یہ ایک ذریعہ ہے۔
اعترض ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی چیز مقصود ہوتی ہے۔ ہدف ہوتی ہے۔ اور اس کو کوئی اختیار نہ کرے۔ مثال کے طور پر نماز ایک مقصودی چیز ہے ،ایک عبادت ہے۔ اب کوئی آدمی نماز نہ پڑھے توآپ اس پر تنقید کرسکتے ہیں کہ بھئ یہ نماز نہیں پڑھتا۔ اسی کوئی بندہ روزہ نہ رکھے تو آپ اس پرتنقید کر سکتے ہیں۔ کیونکہ روزہ ایک مقصود ہے۔ یہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جب وہ روزہ نہیں رکھے گا تو آپ اس پرتنقید کرسکتے ہیں۔ لیکن سیرت النبی کا جلسہ ہو رہا ہے اور سیرت النبی ﷺ کے جلسے میں کوئی شرکت کرتا ہے کوئی شرکت نہیں کرتا۔ یا کوئی سیرت النبی کا جلسہ منعقد کرتا ہے اور کوئی جلسہ منعقد نہیں کرتا۔ ان کے بارے ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ گستاخ رسول ہیں یا ان کو اللہ کے رسول ﷺ سے محبت نہیں ہے۔ اس لیے سیرت کا جلسہ مقصود نہیں ہے۔ سیرت کا جلسہ ایک ذریعہ ہے۔ بعینہ یہ چیز جب عید میلاد النبی کے موقع پرجب کہا جاتا ہے کہ جو عید میلاد النبی نہیں مناتا وہ درحقیت گستاخ رسول ہے ۔ اس کو حقیقت میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت نہیں ہے۔ جب یہ بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا یہ کہ آپ نے سیرت کے جلسے کو ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ آپ نے اس کو مقصود بنا لیا، جب آپ اس کو مقصود بنا لیتے ہیں توسمجھو کہ آپ نے دین میں اضافہ کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کا تذکرہ تو آپ ﷺ کی سیرت کا حصہ ہے۔ یہ تو ساری دنیا بیان کرتی ہے۔ لیکن اس کو اس طریقے سے مخصوص کرکے بیان کرنا، اور اس مخصوص طریقے سے اس دن کو نہ منانے پر کسی پر اعتراض کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ اس کو آپ نے شریعت کا خاص حصہ بنا دیا ہے۔ اور جب شریعت میں ایسی کوئی چیز بڑھائی جاتی ہے ، اضافہ کیا جاتا ہے، تو ظاہر ہے کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔
نبی ﷺ کی ولادت کا دن آج تک متعین کیوں نہیں ہوسکا؟
رسول اللہ ﷺ کا یومِ میلاد منایا جاتا ہے، یہ دن نہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، نہ تابعین سے ثابت ہے، یہاں تک کہ خیرالقرون کے زمانے میں بھی ہمیں کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اور یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ صحابہ کومعاذ اللہ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں تھی، حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے اصل محبت کرنے والے، آپ ﷺ کے اصل تابعدار اور اصل جان نثار تو صحابہ کرام ہی تھے۔ اس کے باوجود آج تک رسول اللہ ﷺ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے، اگر صحابہ کرام کے دور سے اس کا کوئی رواج ہوتا تو آج مؤرخین کا رسول اللہ ﷺ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر عید الفطر یکم شوال کو ہوتی ہے۔ اب یہ عید اسلام کا تہوار ہے۔ آپ کو کوئی اختلاف نہیں ملے گا کہ دیوبندی کہہ رہے ہوں کہ یکم شوال کو عید الفطر ہوگی، اور اہلحدیث کہہ رہے ہوں کہ دس شوال کو عید الفطر ہوگی۔ اسی طرح عید الاضحی دس ذوالحجہ کو ہوتی ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ملے گا کہ دیوبندی کہہ رہے ہوں کہ دس ذوالحجہ کو عید ہوگی اور اہلحدیث کہہ رہے ہوں کہ بیس ذوالحجہ کو عید ہوگی ، کیونکہ یہ دن صحابہ کرام نے نوٹ کرکے ہم تک پہنچا دیا ہے کہ عید الفطر کا دن یہ ہے اور عید الاضحی کا دن یہ ہے اورجو عاشوراء کا دن ہے وہ دس محرم کو ہے۔ ہر دن متعین کرکے ہم تک پہنچا دیا۔ یہ دن جو آج تک اریخ کی کتابوں میں متعین نہیں ہوسکا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کے دور میں، تابعین کے دور میں، خیر القرون کے دور میں اس دن کو اس طرح نہیں منایاجاتا تھا۔
یومِ ولادت رسول ﷺ پرمسنون عمل کیا ہے؟
ولادت رسول ﷺ کی مناسبت سے ایک اہم بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے دن مسنون عمل کیا تھا؟ رسول اللہ ﷺ کا معمول کیسا تھا؟ چنانچہ صحیح احادیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس دن میری ولادت ہوئی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے دن مسنون عمل یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے۔ اور ہمارے ہاں تو نزر ونیاز چل رہی ہوتی ہیں۔ مٹھایئاں بانٹی جارہی ہوتی ہیں۔ ایک ہلہ گلہ اور شور وہنگامہ ہوتا ہے، چاہیئے تو یہ تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی محبت میں پیر کے دن کا روزہ رکھتے اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھتے۔
محفل میلاد میں انجام پانے والے چندخرافات
عید میلاد النبی کے نام پرجوہلڑبازی اور بے ادبی بیت اللہ شریف اور روضہ رسول کی ہوتی ہے کہ بیت اللہ اور روضہ رسول کا کیک بنایا جاتا ہے اور پھر اسے کاٹ کر کھایا جاتا ہے ۔ کوئی یہ بات سمجھائے کہ یہ ادب ہے یا بے ادبی ہے؟ یہ کونسی محبت ہے کہ آپ نے روضہ رسول کے کیک کا ماڈل بنایا۔ پھر اس کو کاٹ کر آپ کھا رہے ہیں؟ ظاہر ہے یہ تو کوئی محبت یاتابعداری تونہیں ہے۔
جشن عید میلادالنبی کا نام لے کر گانے بجانے۔ عورتوں اور مردوں کے مخلوط جلوس ، شركیہ نعتیں، جعلی کعبہ اور مسجد نبوی کی توہین و بے حرمتی کرنا ، نبی ﷺ كا نام سن کر تعظیما کھڑا ہونا اور یہ جملے کہنا۔ آگئے آگئے تاج والے اور ’’ دم بدم پڑھو درود کہ حضرت بھی یہاں ہیں موجود‘‘ یہ سب شرک و بدعت اور سراسر فحاشی ہے۔ حالانکہ قیام تعظیمی سے رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں منع فرمادیا تھا۔ جب آپ ﷺ نے زندگی ہی میں منع کر دیا تھا تو وفات کے بعد کیسے جائز ہوسکتی ہے؟
کیا صحابہ کرام کو اس دن کا علم نہ تھا؟
الغرض میلادالنبی ﷺ کے نام پر سجائی جانے والی محافل وغیرہ جائز اور ذریعہ محبت ہوتیں تو سب سے پہل صحابہ اس پرعمل کرتے کیونکہ وہی سچے محبان تھے وہی نبی ﷺ كے حقیقی جان نثار تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اس عظیم نیکی سے محروم رہے؟ کیا ان کی زندگی میں ربیع الاول کا مہینہ نہیں آتا تھا؟ انہوں نے محفل میلاد کیوں منعقد نہ کی؟ کیوں بارہ ربیع الاول کو آپ ﷺ کی وفات کا کھانا پکانے میں اپنا مال صرف نہ کیا؟ کیا وہ محبان رسول ﷺ نہ تھے؟ کیا انہیں میلاد منانے کے فضائل کا علم نہ تھا؟ کیا تم بھی شیعوں کی طرح کہتے ہو کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ مرتد ہو گئے تھے؟ (نعوذ باللہ من ذلک) کیا تمام صحابہ پر بھی وہابی اور گستاخی کا فتوی لگایا جائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ سنتوں کے شیدائی اور بدعتوں کے دشمن تھی۔ محمد رسول اللہ ﷺ نبوت ملنے کے بعد 23 برس زندہ رہے۔ ہرسال آپ کی ولادت با سعادت کا دن آتا رہا مگر آپ ﷺ نے یا آپ ﷺ کے صحابہ نے تو جلوس نہ نکالے نہ چراغاں کیا ،نہ ہی آتش بازی کا مظاہرہ ہوا لیکن آج ہم یہ بدعت منا کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نہیں بلکہ عیسائیوں کی سنت پرعمل کررہے ہیں۔
میلاد النبی کی ابتداء کیسے ہوئی؟
یہ بدعت میلاد (600) ہجری کے بعد ایجاد ہوئی ، اسی واسطے علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں “إن أصل المولد بدعۃ، یعنی محفل میلاد بدعت ہے، اسی طرح نصیر الدین شا فعی، عبد الرحمن حنفی، علامہ ابن الحاج مالکی، شیخ شرف الدین احمد، علامہ تاج الدین فاکہانی وغیرہ اپنے فتووں میں محفل میلاد کو بدعت اور ناجائز کہتے ہیں، ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر اس کام کا جو صحابہ کے دور میں نہ تھاتو پھر یہ کب شروع ہوا؟ تو آیئے سنیے:
علامہ سیوطی رحمہ اللہ اپنے رسالے (حسن المقصد في عمل المولود) میں لکھتے ہیں کہ اس بدعت کا موجد شاه اربل ابوسعید بن زین الدین ہے، امام جوزی اپنی تاریخ (مرآة الزمان) میں راقم ہیں کہ جولوگ شاه اریل کی اس محفل میں شامل ہوتے تھے ان کا بیان ہے کہ اس مجلس میں ظہر سے عصر تک ناچ ہوتا، شاه اربل خودبھی سب کے ساتھ ملکر ناچتا، مؤرخ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ شاد اربل کو سوائے راگ گانے کے اور کسی چیز سے لذت نہیں آتی تھی۔
مسلمانو! اللہ کے لئے سوچو! کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تم نے الله کو چھوڑا صحابہ کو چھوڑا، تقلید کی تو کس کی؟ شاه اربیل کی جسے ناچ گانے ہی میں لذت ملتی تھی ، جس ناچ گانے سے تمہارے رسول ﷺ کوکتنی نفرت تھی کہ گانے کی آواز سن کر انگلیاں کانوں میں ڈال لیتے اور آج جو اس کام سے محبت کرے تو کیا تم پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کرو؟ مسلمانو! کچھ تو اللہ سے ڈرو جس دن حسن وحسین رضی الله عنہما کا نانا، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بابا بلال کا آقا اس دنیا سے رخصت ہوا تو تم نے اس دن کو خوشی کا دن بنالیا، جس دن صحابہ پرغم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، جس دن کوتاریخ میں تاریک ترین دن قرار دیا گیا اس دن تیرے گھر میں چراغاں ہو، کیا تو اپنے باپ کے مرنے اور اپنی ماں کی میت پر بھی ایسے ہی خوشیاں منائے گا اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو حسنین کے نانا کی وفات کے دن نیلے کپڑے ، گھروں میں چراغاں، گلے میں ہار پہنے ہوئے شرم نہیں آتی؟ کیا محبت رسول ﷺ اسی کا نام ہے؟ کس قدر شیطانی دھوکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دشمنی کو تم نے محبت رسول سمجھ لیا۔ اللہ کے بندو! یاد رکھو کہ محبت اطاعت سے ہوتی ہے نافرمانی سے نہیں اگر سچی محبت ہے تو نبی ﷺ کی مکمل اطاعت کرو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
لو كنتَ في حُبكَ صادقاً لأطعتَهُ
إن المحبَّ لمن يحبُّ يُطيعُ
یعنی اگر واقعی تمہارا محبت رسول ﷺ کا دعوی سچا ہوتا تو تم نبی اکرم ﷺ کی مكمل تابعداری کرتے کیونکہ محب محبوب کا تابعدار ہوتا ہے، اے عشق رسول ﷺ کے جھوٹے دعویدار و یا درکھو جب تک اطاعت رسول ﷺ کا مادہ تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتا تب تک تمہارا دعوی محبت جھوٹا ہے۔
پس اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔ نہ صرف محفل میلاد بلکہ ہر شرک و بدعت جیسے قبر پرستی ،تعزیہ پرستی، گیارہویں، تیجہ، دسواں، چالیسواں، بارہویں کا کھانا، لكهی هزاری روزے رکھنا، قبروں کو پختہ بنانا، ان پر غلاف چڑھانا، چراغ جلانا، نماز رجبی وغیرہ سے توبہ کر کے رسول ﷺ کے تابعدار بن جاؤ تاکہ اللہ کے ہاں سرخرو ہو سکو، الله ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ ایمان پرفرمائے۔ (آمین)
ہم میلاد النبی ﷺ کس طرح منائیں؟
عید میلاد النبی اگر اس طرح مناتے ہیں کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا تذکرہ کریں۔ لوگوں یہ بتائیں کہ ہمارے آقا کیسے تھے۔ آپ ﷺ کی سیرت کیا تھی۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی کیسے گزاری۔ آپ ﷺ کیسے شوہر تھے۔ آپ ﷺ کیسے سپہ سالار تھے۔ آپ ﷺ کیسے حکمران تھے۔ آپ ﷺ کیسے رہنما تھے۔ آپ ﷺ کیسے سیاستدان تھے۔ کیسے لیڈر تھے۔ پھرتویہ ساری زندگی ہمارے لیے عید میلاد النبی ہے۔ ساری زندگی ہمارے لیے بارہ ربیع الاول ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی سیرت بیان کرتے تھے۔ صحابہ کرام نے حدیثیں بیان کی ہیں ، ہمارے پاس جو سیرت پہنچی ہیں وہ صحابہ کے ذریعہ پہنچی ہیں۔ کہ آپ ﷺ وضو کیسے کرتے تھے، آپ ﷺ نماز کیسے پرھتے تھے ، تو ربیع الاول میں نبی ﷺ کی سیرت کو بیان کرنا ، یہ تو ایسا موضوع ہے کہ صرف ربیع الاول کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ساری زندگی نبی ﷺ کی سیرت بیان کرتا رہے تو اس سے بڑی کوئی سعادت نہیں ہے۔ انسان اپنی زندگی وقف کردے کہ میں نے ساری زندگی سیرت پڑھانی ہے، لوگوں کو نبی کی سیرت سکھانی ہے اور لوگوں کو نبی کی سیرت پر لیکر آنا ہے۔ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔
سیرت النبی ﷺ کا تقاضہ
ربیع الاول کے حوالے سے سیرت النبی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر جو بات قرآن وسنت کی روشنی میں درست لگے۔ اس کو قبول کیا جائے اور جو غلط بات معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اس کو روکا جائے۔ کیونکہ معاشرے میں رائج غلط چیزوں کو اگر بروقت نہیں روکا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں مزید پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اور اس میں آگے چیزیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ کم نہیں ہوتیں۔
سنت اور بدعت کی نشانی
عید میلاد النبی جب شروع ہوئی تھی تو اس وقت ایسے نہیں منائی جاتی تھی جیسے آج منائی جاتی ہے۔ اب پاکستان میں عید میلاد النبی منانے کا اسٹائل الگ ہے۔ ہندوستان میں الگ ہے ، بنگلہ دیش میں الگ ہے ،یعنی ہر مک اور ہر جگہ الگ الگ اسٹائل ہے۔ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ سنت کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس میں یگانگت ہوتی ہے۔ سنت کے اندر یکسانیت ملے گی۔ اور جو بدعت ہوتی ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ ہر جگہ اس کا انداز اور اس کا طریقہ مختلف ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔