خطبہ اول:
یقین تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اس کی حمد بجا لاتے ہیں اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں اپنے نفس کی برائیوں سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس شخص کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بنا وہ تنہا ہے اس سے کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اللہ تعالی اس پر رحمتیں اور درود و سلام نازل فرمائے۔
اے لوگو :جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مارو مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو اے لوگو اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس لیے تو مجھے جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے دنیا میں بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دی اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم اس سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتہ داروں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
اے لوگو: جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور بات سیدھی کیا کرو اللہ تعالی تمہارے اعمال کو درست کر دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کاہ مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔
امابعدـ:
اللہ تعالی نے اس امت پر بے شمار احسانات کیے ہیں انہیں بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے ان کے لیے ان کے دین کو مکمل کر دیا ہے ان پر اپنی نعمت کو پوری کر دی اور ان کے لیے بطور دین اسلام کو پسند کیا ہے کسی بھی شخص کو نعمت اسلام کے بعد دین پر ثابت قدمی اور سنت کی پابندی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ملی یہاں تک کہ بندہ اپنے پروردگار سے اس حالت میں ملے کہ نہ اس نے کوئی تبدیلی کی ہو اور راستے سے بھٹکا ہو اور ایسے شخص کو موت کے وقت ہی اللہ سبحانہ کی خوشنودی اور اس کے اعزاز و اکرام کی بشرت دے دی جاتی ہے اللہ کی قسم یہ عظیم اور بلند مرتبہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بلند بندوں کی حوصلہ افزاائی کرتا ہے اور بلند و برتر رتبہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی ہدایت کی طلب پر اپنے اولیاء کو نوازتا ہے۔
جیسا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ1
’’ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ2
’’جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جسے وہ گمراہ کردے سو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں‘‘۔
اور اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتا بلا شبہ آپ تھوڑا سا ان کی طرف مائل ہو جاتے۔
اور حدیث قدسی میں اللہ رب العالمین نے فرمایا:
لنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا رَوَى عَنْ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ3
’’میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا‘‘۔
کیونکہ اعمال کا اعتبار خاتمے پر موقوف ہے اللہ کے متقی بندے اور اس کے نیکوکار دو ست لوگوں میں سب سے زیادہ برے خاتمے اور ہدایت کے بعد بھٹک جانے سے ڈرتے رہتے ہیں نہ تو انہیں ان کے نیک اعمال دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی توبہ اپنے پروردگار کے ساتھ ان کی حالت مایوسی کے بغیر خوف اور لاپرواہی کی بگاہ سے امید کی درمیان ہوتی ہے نہ کہ وہ اپنے کیے ہوئے گناہوں کا خیر ہی سمجھتے ہیں اور نہ ہی کبیرہ گناہ کے مرتکب لوگوں کو مایسی میں مبتلا کرتے ہیں ۔
ابو عبداللہ امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں فرماتے ہیں اعمال کے خاتم اور ان سے متعلقہ خوف و اندیشی کا بیان کہ اس عنوان کے تحت وہ جناب سہل بن سعد سعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث درج کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا یہ شخص قوت و طاقت میں بے پرواہ مسلمانوں میں سے تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی چاہتا ہے کسی جہنمی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھ لے اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ برا لڑتا رہا اور اخر زخمی ہو گیا پھر اس نے چاہا کہ جلدی سے مر جائے اس نے اپنی تلوار کے دھار سے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار کے شانوں کو چیپٹی ہوئی نکل گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاَ:
’’بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے‘‘۔
سن لو کہ کتنی عظیم حدیث نبوی ہے ؛اس میں غور فکر کرنے والے اور اس کے مضمون عقد کرنے والے شخص کے لیے کس قدر بابرکت ہے یہ صادق و مزدور نبی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ نیک اعمال انجام دینا بڑی بات نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ انسان اپنے رب سے ملاقات کرنے تک ان پر ثابت قدم بھی رہے کیونکہ عمر کا اعتبار اس آخری حصے پر اور اعمال کا اعتبار ان کی خاتمے پر ہے۔
’’جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر انسان اسی پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت واقع ہوئی ہے امام مسلم نے اسے ایسے اپنی صحیح میں روایت کی ہے۔‘‘
کتنے ہی لوگ جو عبادت الہی کرتے رہے مگر ان کا خاتمہ اچھا نہ ہوا معاذ اللہ اللہ نہایت عادل فیصلہ کرنے والا ہے ان کو لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا مگر لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں( ایک شخص )نیکی کرتا ہے اور اس کا مت میں نظر لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اس پر اس کی تعریفیں کریں (دوسرا شخص )اپنی عبادت پر نیکی اور اجر کے حسن میں تاخیر محسوس کرتا ہے سو وہ تو اس سے دنیاوی مفاد کا خاہا ہے اس طرح (تیسراوہ شخص) ہے جو اپنے عمل پر خود پسندگی کا شکار ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اچھا خاتمہ اسی کے مقدر میں ہوتا ہے جو اچھے عمل سر انجام دیتا ہے اور اللہ تعالی نہایت کریم و اکرم ہے نہایت معاف کرنے والا اور قدر دان ہے وہ اپنے ایسے مخلص بندوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا جو عبادت میں سنت نبی کا پیروکار ہو اور مولائے کائنات سے ملاقات دین حق پر ثابت قدر بھی رہے سن لو تا حیات حق پر ثابت قدم رہنے کے کچھ اسباب ہیں جن کی طرف اللہ رب العالمین نے رہنمائی فرمائی ہے پھر ہمارے نبی رحمت اللعالمین امت کو ان کی تعلیم دی اور اس امت کے سلف صالحین نے اس پر عمل کیااور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھا ۔
بندوں سے بے پرواہ اور بے نیاز کرنے والے ان عظیم اور جلیل القدر اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی اور اس پر ثابت قدمی کے لیے اللہ سے دعائیں کرنا اللہ تعالی پہنچنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے باپ کی سب شیطانی راستے ہیں اور یہ دعا اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے مشروع قرار دی ہے جو قرآن مجید کے آغاز میں ہی ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ میں ہے اللہ سبحان تعالی کی حمد و ثناء اس کی بلند ذات کی بزرگی کےبیان کے بعدطلب ہدایت جیسی عظیم ترین دعا کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ4
’’ہمیں سچی اور سیدھی راہ دکھا‘‘۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی اے اللہ اپنے حکم سے ان باتوں کی حق کی طرف رہنمائی فرما جن میں اختلاف کیا گیا ہے بے شک تو اس سے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے :’’علی رضی اللہ عنہ کو یہ دعا سکھلائی ہے اے اللہ میں تجھ سے ہدایت مانگتا ہوں‘‘
اور علی رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے :
اللّٰهُمَّ اهْدِنِي وَسَدِّدْنِي
’’اے اللہ! مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے درستگی (سیدھے راستے) پر قائم رکھ‘‘۔
اور آپ نے اس دعا کی طرف رہنمائی فرمائی:
’’اے اللہ میں تجھ سے دین اور دنیا کے معاملات میں ثابت قدمی مانگتا ہوں‘‘۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے اپنے پروردگار سےسب سے زیادہ ڈرنے والے اور اس کی معرفت رکھنے والے تھے اے اللہ میں تجھے اس بات کی تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم مجھے سیدھے راستے بھٹکادے۔
ثابت قدمی کہ ہم اسباب میں سے سب سے اہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا سنت نبی کی مضبوطیسے تھامنا اور گمراہ کن خواہشات کی پیروی کرنابھی شامل ہے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا بھی کرتا ہے درحقیقت وہی آپ کی دعوت پر لبیک کہنے والا ہے اور جو سنت نبوی سے منہ موڑ لیتا ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے نبی کومبعوث فرمایا ہے راہ راست سے بھٹک جاتا ہے اپنے اوپر ظلم کرتا ہے اور ملامت کو عذاب الہی کی سزا و ٹھہرتا ہے۔
کہ ارشاد باری تعالی ہے:
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ5
’’پھر اگر یہ تیری نہ مانیں (١) تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو (٢) بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
امام جنید بن محمد فرماتے ہیں:
مخلوق کے لیے تمام راستے بند ہیں سوائے اس کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدر پر چلنے کا ہے جو شخص یہ سمجھے کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروی کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی ہے دھوکے میں مبتلا ہے ایسے شخص کے قدم سل جاتے ہیں پھر وہ ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں گر جاتا ہے اور راہ نجات سے گر کر حلقات و بربادی کی فائدے پھنس جاتا ہے ثابت قدمی کا ایک بہت بڑا سبب اللہ تعالی کثرت سے یاد کرنا بھی ہے۔
ارشادیباری تعالی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا6
’’مسلمانوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ7
’’جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہےیعنی دل اللہ کی شریعت اس کی انتخاب و اختیار اور ترتیب پر مطمئن ہوتے ہیں شکوک و شبہات اور وسوسوں سے پاک ہو جاتے ہیں جو بندہ اپنے رب کو زیادہ یاد کرتا ہے اس کے لیے ہدایت بھی نور کے کتنے پھوٹتی ہیں جو اس کے دل کو حق پر جمائے رکھتی ہیں اور اس کے نصبی حق و مضبوط کے ساتھ ہمیں رکھتا ہے اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر غور و فکر کرنا بھی دین پر ثابت قدمی کی اہم ترین اسباب میں سے ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ8
’’ کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں، تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقلال عطا فرمائے ،اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہوجائے ‘‘۔
خلوتوں کی جانے والی نیکیاں بھی ثابت قدمی کے ہم ترین اسباب میں سے ہیں: یعنی انسان کے کچھ ایسے نیک اعمال بھی ہونے چاہیے جنہیں اللہ تعالی کے سوا کوئی نہ جانتا ہو درحقیقت ثابت قدمی ہے اس لیے کہ یہ اخلاص کی علامت اور سچ ایمان کی دلیل ہیں۔
مسلسل آخرت کی یاد موت کا تذکرہ اور قبروں کی زیارت بھی انسان کو اپنے مالک و مولا کی اطاعت پر ثابت قدم رکھتی ہے کیونکہ یہ انسان کی امنگوں کو محسوس کرتی ہے اور اسے اچھے اعمال پر بلند کیا کرتی ہے قران مجید میں موت کا بار بار ذکر ایا ہے تاکہ بندے اپنے رب پر ایمان میں پختہ رہیں اور اس سے ملاقات کے لیے اعمال کرتے رہیں۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ9
موت کی توڑنے والی چیز کو کثرۃ سے یاد کیا کرو
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً10
’’( سیدنا بریدہ ؓ ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا ، چنانچہ اب ان کی زیارت کیا کرو ۔ بلاشبہ ان کی زیارت میں ( موت کی ) یاد دہانی ہے ‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:
فَأَذِنَ لِي فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ بِالْمَوْتِ11
’’چنانچہ تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو ، بلاشبہ اس سے موت یاد آتی ہے ۔ “
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنی کتاب قرآن مجید کی رہنمائی سے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نفع پہنچائے میں یہ بات کہتے ہوئے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو بھی اس سے ہدایت طلب کرتا ہے وہ اسے ہدایت عطا فرماتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتا ہے اس سے کافی ہو جاتا ہے جو اس کی طرف پناہ لیتا ہے وہ اسے پناہ دیتا ہے اور درود و سلام نازل ہوں اس کے بندے رسول اور برگزی نبی پر۔
اما بعد؛
یقینا حق پر ثابت قدمی کے وعدے راستوں میں سے ایک نیک اور پرہیز گار لوکوں کی صحبت اختیار کرنا ہے کیونکہ یہ لوگ اللہ کی یاد دلاتے ہیں اس کے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے ہیں ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور اس پر صبر کی تلقین کرتے ہیں اور اپنے بھائی چارے کو اللہ رب العالمین کی خاطر محبت سمجھتے ہیں یہ صحبت انہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فائدہ دیتی ہے جب انسان اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی بھاگے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ12
’’اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پر ہزگاروں کے‘‘۔
پھر جب یہ نیک لوگ نعمتوں سے بھری جنتوں میں باہم ملیں گے بھائیوں کی صورت میں ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے اور نور کے ممبر پر ہوں گے تب ان کی صحبت کے فائدے کی تکمیل ہوگی۔
ثابت قدمی اور ہدایت پر ڈٹے رہنے کا سبب میں سے ایک دنیا کے فانی ہونے اس کی نعمتوں کے زوال اور اس کے حالت کے بدلنے کو یاد کرنا ہے نیند اس کی لذتوں کو ٹوٹنے اور ختم ہونے کے بارے میں توفیق کرنا بھی شامل ہے اس میں حکمت ہی ہے کہ بندوں کے دلوں کو ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی طرف مائل کیا جائے جو رحمت الہی کے بعد صرف حق پر ثابت قدمی اور اس پر صبر کرنے کے ذریعے سے حاصل ہوں گی اسی طرح وقت کے تیزی سے گزر جانے پر غور کرنا بھی ثابت قدمی سبب ہے بری اعمال والا شخص اپنے کاموں پر پریشان اور حسد کھائے گا
جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کا حال بیان کیا ہے:
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ13
’’اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہونگے ، اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں ،واقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے‘‘۔
جبکہ نیک اور حق پر قائم رہنے والے کو تازگی اور خوشی سے ہمکنار کیا جائے گا اور صبر کا بدلہ جنت اور ریشم کے لباس کی صورت میں دیا جائے گا اللہ کے بندو اس مبارک دن کے قیمتی لمحات کو خاتم النبیین رسولوں کے قائد اور تمام بنی اادم کے سردار پر کثرت سے درود و سلام بھیج کر غنیمت سمجھو کیونکہ جو کوئی ان پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر 10 رحمتیں نازل فرماتا ہے اے اللہ ان پر ان کی پاکیزہ ال پر اور ان کے نیک صحابہ پر رحمتیں سلامتی اور برکتیں نازل فرما خواہ وہ مہاجرین میں سے ہو یا انصار میں سے ہیں۔
اے اللہ ہمارے گناہ اور ایمان میں سبقت لے جانے والے ہمارے بھائیوں کے گناہ کو معاف فرما ہمارے دلوں میں مومنوں کے لیے کنا ناپیدار ہونے دے اے ہمارے رب تو مہربان اور رحم کرنے والا ہے
اے اللہ اسلام اور مسلمان کو غلبہ عطا فرما ،اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما اپنے اور دین کے دشمنوں پر تہس نہس کر دے ،اے رسولوں کی مدد کرنے والے ،اے مجبور لوگوں کی پکار سننے والے ،اور اے بہترین مددگار فلسطین میں ہمارے مظلوم اور کمزور بھائیوں کے لیے مددگار و حمایتی سرپرست و ناصر بن جا ،اے اللہ اور غاصبوں کو اپنے گرفت میں لے لے ،اے کتاب نازل کرنے والے بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے انہیں رسوا کر دے اور ان کو قدم کو پھاڑ دے
اے اللہ اپنے بندوں کا بدلہ ان سے لے لے اور اپنے اولیاء کے سینوں کو شفا دے اور ٹھنڈا کر دے ،اے اللہ ہمارے وطنوں میں اور گھروں میں عطا فرما ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو توفیق خاص عطا فرما ،اے اللہ ہمارے امام حرمین شریفین کے خادم کو کام کرنے کی توفیق دے جو پسند کرتا ہے انہیں اور ان کے ولی عہد کو نیکی اور تقوی کی راہ پر قائم رہتا ،اے اللہ انہیں ایسے کام کرنے کا رد فرما جس میں اسلام اور مسلمان کی عزت ہو ،اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت دے کرا نہ کر اپنے پاس رحمت عطا کر بے شک پوری بخشنے والا ہے، اے اللہ ہمیں دنیا و آخرت میں ثابت کرنا عطا فرما ،اے اسمانوں اور زمین کے خالق کو ہی دنیا اور اخرت میں ہمارا ولی ہے میں مسلمان بحیثیت سے فوج عطا کر اور نیکوکاروں کے ساتھ ملا دینا ہمارا رب عزت عظمت والا ہے ان بےہو دروازوں سے پاک ہے جو لوگ کرتے ہیں امام رسولوں پر سلامتی ہو اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
خطبہ جمعہ: مسجد النبوی
13 شوال 1446ھجری بمطابق 11 اپریل 2025 عیسوی
فضیلۃ الشیخ: خالد بن سلیمان المھنا حفظہ اللہ
_____________________________________________________________________________________________________________________