دینِ اسلام میں خرید و فروخت کی بنیادی شرائط

شرط کی لغوی واصطلاحی تعریف

لغوی تعریف :

شرط: (’’را ‘‘ پرجزم وسکون کے ساتھ) کا لغوی معنی ہے : کسی بھی چیز کو لازم پکڑ لینا اس سے چمٹ جانا۔

اصطلاحی تعریف:

فقہاء وعلماء اصول کے مطابق شرط کی تعریف یہ ہے کہ :

’’ جس کے فقدان سے کسی چیز کا نہ ہونا لازم ہواور اس کے وجود سے ہونایا نہ ہونا لازم نہ آئے ‘‘۔ [1]

آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہےکہ: کوئی بھی عمل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی مطلوبہ شرط مکمل نہ ہو، اگر شرط مکمل نہیں ہوئی تو عمل بھی درست نہ ہوگا۔

لہٰذاخریدو فروخت کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں کہ جنہیں شریعتِ مطہّرہ نے کسی بھی معاہدہ بیع کی درستگی کے لئے لازمی قرار دیا ہے اور اگر ان میں سےایک شرط بھی مفقود ہوئی تو وہ بیع شرعی اعتبار سے صحیح نہیں ہوگی ۔

لہٰذا ہر لین دین کرنے والے اور ہر کاروبای تاجر حضرات کیلئے ان شرائط کا علم رکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ خرید وفروخت کا جائز وناجائز ہونا انہی شرائط پر مبنی ہوتا ہے ۔

 اہلِ علم نے شرعی نقطہ نگاہ سے کسی بھی بیع کے درست ہونے کیلئے بنیادی طور پر چھے (6) اہم شرائط ذکر کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :

پہلی شرط :طرفین(خریدار و فروخت کنندہ) حقیقی طور پررضامندہوں

کوئی بھی بیع اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک بیچنےوالا اسے بیچنے اورخریدنے والا اُسے خریدنے پر حقیقی طور پر رضامند نہ ہوں ۔

مذکورہ شرط کے دلائل:

ربُّ العالمین کا ارشاد ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾

النساء: 29

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو۔‘‘

مذکورہ بالا آیت میں تجارت و لین دین کے تمام معاملات میں طرفین کی حقیقی رضامندی کو بنیادی شرط کے طور پر ذکر کیا گیااورجن معاملات میں فریقین کی باہمی حقیقی رضامندی شامل نہ ہو اُنہیں باطل قرار دیا گیا ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:’’ خرید و فروخت صرف باہمی رضامندی سے ہی ہونی چاہئے‘‘۔[2]

اس طرح عقلِ سلیم بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ اگر معاملات میں باہمی حقیقی رضامندی کی شرط عائد نہ کی جائے، تو لوگ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے کھانا شروع کردیں گے، ایک طاقتور شخص اگر اپنے سے کمزور کے پاس اپنی من پسند چیزدیکھے گا تو اس سے زور زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جس سے معاشرہ میں سوائے نفرت، دشمنی، فساد اوربربادی کے کچھ باقی نہ بچے گا، لہٰذا اسی بناپر شریعتِ اسلامیہ میں کسی کی چیز بغیراجازت حاصل کرنا یا کسی کو اس کی چیز بیچنے پر مجبور کرنا یا زبردستی اپنی پسند کی قیمت پراُسے خریدناحرام ہے۔

رضامندی حقیقی ہونی چاہئے

اس حوالہ سے عصرِ حاضر کے معروف عالم فضیلۃ الشیخ حافظ ذوالفقار علی فرماتے ہیں :

’’واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہئے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔

اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے‘‘۔[3]

 باہمی و حقیقی رضامندی سے متعلق چند اہم و ضروری مسائل

 پہلا مسئلہ:’’بیع المعاطاۃ‘‘ کا حکم

بیعِ معاطاۃ سے مراد وہ بیع ہے کہ جس میں:خریدار سامان لیکر فروخت کنندہ(بیچنے والے) کو اُس کی قیمت ادا کردے بغیر زبانی کلامی بات کئے یا اس کے برعکس ہو ۔ یعنی فروخت کنندہ سامان خریدار کو دیتا ہے اور خریدار اس کی قیمت ادا کردیتا ہے۔اور اس دوران خریدار و فروخت کنندہ کے درمیان کوئی زبانی بات چیت نہیں ہوتی دونوں طرف سے یا کسی ایک کی طرف سے قیمت وسامان کا لین دین بغیر کسی زبانی ایجاب وقبول کے ہوتا ہے۔

اس مسئلہ کو یہاں اسی لئے ذکر کیا جارہا ہے کہ ہمارے یہاں بے شمار اس طرح کے سودے ہوتے ہیں جن میں مطلوبہ چیز کو دیکھااور پسند کیا جاتا ہے ، اس کی قیمت معلوم کی جاتی ہے اور بغیر کسی زبانی رضامندی کے قیمت ادا کرکے وہ مطلوبہ چیز لے لی جاتی ہے۔اور اس مسئلہ کی اہمیت اس صورت میں اور بڑھ جاتی ہے جب معاملہ اور سودا بڑے پیمانہ پر ہو ۔

کیا ایسی صورت میں بغیر کسی زبانی رضامندی کے طے پانے والا سودا شرعاً درست ہوگا یانہیں؟

مسئلہ مذکورہ میں اہلِ علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے ، اور بعض نے یہ تفریق کی ہے کہ اگر معاملہ چھوٹے پیمانے پر ہو تو جائز ہے اور بڑے پیمانے پر ہو تو جائز نہیں۔جبکہ جمہور اہلِ علم کے نزدیک یہ بیع مکمل طور پر جائز ہے ۔

اور دلائل کے مطالعہ سے جمہور علماء کی رائے ہی قریب از صواب اورراجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ:

* رضامندی فقط قول ہی سے نہیں بلکہ عمل و فعل سے بھی واقع ہوتی ہے اور یہاں خریدار کا قیمت ادا کرکے چیز کو لینا اور فروخت کنندہ کا چیز کو دیکر قیمت وصول کرنا اُن کی باہمی رضامندی کی صریح دلیل ہے۔

 زمانہ قدیم سے لوگوں کے مابین اس طرح سے معاملات کا لین دین معروف ہے ، اگرزبانی ایجاب و قبول صحتِ بیع کی شرط ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسےصراحت سے ضرور بیان فرمادیتےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایاجو اس کے جواز کی دلیل ہے ۔

 شریعتِ مطہّرہ میں خرید و فروخت سے متعلقہ ہدایات و احکامات موجود ہیں ، اور شریعت نے خرید و فروخت کےانعقاد کے سلسلہ میں کچھ خاص و معیّن الفاظ مقررکرنے کے بجائے اسے معاشرہ میں رائج عرف و طور طریقوں پر چھوڑ دیا ، اور جو ناجائز طریقے ہیں وہ بتادیے ،اور باہمی حقیقی رضامندی کی قید لگادی تاکہ وہ جو بھی معاملات کریں انہیں باہمی حقیقی رضامندی و خوش اسلوبی سے طے کرلیں۔

 دوسرا مسئلہ: ’’بیع المُکرَہ‘‘ (زبردستی کی بیع) کا حکم

فقہاء کی اصطلاح میں ” إکراہ ” سے مراد:’’ایسا کام جسے کوئی انسان کسی دوسرے کے مجبور کرنے پر کرے جس میں اس کی کوئی رضامندی و اختیارنہ ہو‘‘۔

یہاں مراد ایسی بیع ہے جوخریدار یا فروخت کنندہ کو مجبور کرکے ناحق اورزور زبردستی سے کروائی جائے،،خریدار و فروخت کنندہ کو اکراہاً بیع پر آمادہ کرنا شرعاً ،قانوناًو اخلاقاً کسی طور بھی درست و جائز عمل نہیں ، اگرچہ وہ مجبور کرنے والا حاکمِ وقت ہی کیوں نہ ہو ! اگر کسی پر زبردستی کرکےمجبوراً اسےکچھ خریدنے یا اسے اس کا سامان بیچنےپر مجبور کیا جائے تو ایسا کرنے سے یہ بیع شرعاً باطل و فاسد ہوگی اور ا س پر کوئی مؤثرنتائج مرتّب نہیں ہوں گے۔

بلکہ ایسے معاملات میں شریک ہونے والوں کیلئے سخت وعید وارد ہوئی ہےانہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی انسان کے لئے اپنے (دینی)بھائی کے مال سے اُس کی رضا و خوشی کے بغیر کچھ بھی لینا جائز نہیں‘‘۔[4]

اور دوسری روایت میں فرمایاکہ:’’ تم میں سے کوئی بھی اپنے (دینی) بھائی کے مال کو اس کی رضا وخوشی کے بغیر مت خریدے‘‘۔[5]

مذکورہ روایات سے اس مسئلہ کی نزاکت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، لہٰذا اگر خریدار یا فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہو کہ سودا طرفین میں سے کسی ایک کی بھی رضامندی و خوشی کے بغیر ہو رہا ہے تو سودا کرنا جائز نہیں ہے  حتّی کہ اس میں طرفین کی باہمی و حقیقی رضا و خوشی شامل نہ ہو۔

بلکہ اہلِ علم نے مذکورہ روایت کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بھی بیان کیا ہے کہ :

تحفہ و ہدیہ بھی اس وقت قبول کرناجائزنہیں ہے جب یہ معلوم ہوجائے کہ تحفہ دینے والے نےوہ تحفہ ناچاہتے ہوئے یا کسی خجالت و حیاء میں یا مجبوری میں دیا ہے، کیونکہ اگرچہ تحفہ دینے والا اس کی صراحت یا اظہار نہ کرےلیکن اُس کی ظاہری حالت و قرائن یہی ہوں کہ وہ اس پر راضی و خوش نہیں ہے۔

 تیسرا مسئلہ : ’’بیع الجبری‘‘ زبردستی کی بیع کی چند استثنائی صورتیں

حکومت وقت ، عدالت یا کوئی مجاز اتھارٹی بعض ناگزیر صورتوں میں مالک کو اپنی چیز بیچنے پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ جسے فقہاء کی اصطلاح میں بیع الجبری کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

وہ صورتیں جن میں مالک کو اس کی چیز بیچنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے درجِ ذیل ہیں :

معروف عالمِ دین حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ نے اُن صورتوں کو جمع کیا ہے ہم معمولی ردّوبدل کے ساتھ انہیں ذکر کر رہے ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی مقروض اپنے ذمے ( واجب الاداء ) قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت و لعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ (مقرِض یعنی قرض دینے والے)کی داد رسی کے لئے خود بھی اس(مقروض ) کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر سکتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص نےاپنی جائیداد یا کوئی اور چیز رہن(گروی) رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور مدّتِ ادائیگی گذر جانے کے بعدوہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کر رہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کر کے اپنا حق وصول کرسکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہوبشرطیکہ عدالت اورقرض خواہ منصفانہ قیمت پربیچنے کو یقینی بنائیں ،اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت ہر گزنہیں ہے۔

تیسری صورت جب غذائی اشیا ءکی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیاءفروخت کرنے کا حکم دے،اگر وہ حکم کی تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے۔

جیسا کہ الموسوعةالفقهية،ج2،ص95 میں ہے :

’’جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس (ذخیرہ اندوز)کو اس مال ہی کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔

چوتھی صورت:

یہ ہے کہ حکومت کو مقاصدِ عامہ کے لئے کسی جگہ( جیسے دوکان،گھر وغیرہ) یا کسی چیز کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ یا چیز زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے قیمت کی ادائیگی کرے۔البتہ حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو اس کی جائیدا د وملکیت سے محروم نہیں کر سکتی۔

 چوتھا مسئلہ : بیع التلجئۃ (مجبوری میں کی جانے والی غیر حقیقی بیع ) کا حکم

فقہاء کی اصطلاح میں بیع التلجئۃ سے مراد وہ معاملہ ہے جس میں فریقین (خریدار و فروخت کنندہ) دلی ارادہ کے بغیر،محض دکھلاوہ کی غرض سے ایک تصوّراتی سودا کریں اور حقیقت میں اُس کا کوئی ارادہ وحیثیت نہ ہو،اور اس سے عاقدین کا مقصد ظالم حاکم یا کسی دشمن کے خوف سے بچنا ہو لیکن تمام ارکان و شرائطِ بیع کی تکمیل کے ساتھ حیلہ کے طور پر یہ سودا کیاجائے۔ اس بیع کو شافعیہ ’’بیع الأمانۃ ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ۔

کیا ایسی صورت میں شرعاً یہ بیع درست متصور ہوگی کہ نہیں ؟؟ کیونکہ عاقدین کا مقصد اگرچہ اس سے حقیقی بیع نہیں ہےلیکن بیع کے تمام شرائط و ارکان پورے ہیں ۔

ایسے عقد کےصحیح یا باطل ہونے کی دونوں آراء اہلِ علم میں موجود ہیں لیکن دلائل کی روشنی میں راجح و درست رائے یہی ہے کہ ایسا عقد شرعاً باطل ہے، کیونکہ:

باہمی و حقیقی دلی رضامندی اس عقد میں مفقود ہے ، جوکہ کسی بھی بیع کی درستگی کے لئے بنیادی شرط ہے ۔

معاملات و معاہدات میں اعتبار مقاصد و معانی کا ہوتا ہے ناکہ الفاظ و مبانی کا ،جیسے مسائلِ بیوع میں مسلّمہ قاعدہ ہے کہ:

’’العبرة فی العقود للمقاصدوالمعانی لا للألفاظ والمبانی‘‘۔

دوسری شرط:طرفین خرید و فروخت کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہوں

یہاں اہلیت و قابلیت سے مراد یہ ہے کہ عاقد (خریدار یا فروخت کنندہ ) اپنے مال وسامان سے متعلقہ امور میں تصرّفات کرنے کا اہل ہواور وہ جو بھی تصرّف کرے وہ نافذ العمل ہو، اُس کا اعتبار کیا جائے اوراس کےتصرّفات حکم کے اعتبار سے نتائج و اثر رکھتے ہوں ۔

اہلیت و قابلیت کے لئے مندرجہ ذیل پانچ اوصاف کا موجود ہونا ضروری ہے:

پہلا وصف: وہ آزاد ہو غلام نہ ہو

کیونکہ غلام کااپنے مالک کی اجازت کے بغیرخرید و فروخت کرنا شرعاً درست نہیں کہ وہ خود کسی کی ملکیت میں ہےجیساکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ:’’جو کوئی غلام خریدے اور اس کے پاس مال ہوتو وہ اس کے خریدار مالک کی ملکیت ہے الا یہ کہ جس سے غلام خریدا گیا ہے وہ اسے مستثنیٰ رکھے‘‘۔ [6](دور حاضر میں غلام کا تصور نہیں ہے لہٰذا اس حوالہ سے مسئلہ کی تفصیل سے اجتناب کیا گیا ہے )۔

دوسرا وصف : کہ وہ بالغ ہو ،بچہ نہ ہو ۔

تیسرا وصف : کہ وہ عقل مند و باشعور ہو ، پاگل نہ ہو کیونکہ پاگل کا تصرّف درست نہیں۔

چوتھا وصف: کہ وہ سمجھدار ہوبے وقوف نہ ہو۔

 جو اپنے مال میں صحیح تصرّف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو،بے مقصد اشیاء میں پیسے لٹانے والا نہ ہو اور مال و زر کی صحیح قیمت اور ویلیو (Value)وغیرہ سے واقف ہو ،جیسے سو کی چیز دس، بیس میں نہ بیچ ڈالے، لہٰذا بے وقوف کا تصرّف اُس کے سرپرست کی اجازت کے بغیر درست نہیں اور نہ ہی نافذ العمل ہے۔

بےوقوفی کا ضابطہ:

اہلِ علم نے معاملات میں بےوقوفی کی پہچان کا یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ: جو لین دین میں اچھے و مناسب کی سمجھ نہ رکھتا ہو یا پھر، اپنےعمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ اپنے مال میں بہتر مصرف کی پہچان نہیں رکھتا۔

نوٹ:

بے وقوفی سے مراد پاگل پن نہیں ہے ، اگرچہ دونوں ہی تصرف کے قابل نہیں لیکن دونوں میں معنی و احکام کے لحاظ سے واضح فروق موجود ہیں۔

پانچواں وصف:اُس پر مالی تصرّفات میں کسی بھی قسم کی کوئی پابندی و روک نہ لگائی گئی ہو۔

اب خواہ یہ پابندی کسی دوسرے کی مصلحت کی غرض سے ہو ۔

جیسے: قرضہ دینے والوں کی مصلحت کی خاطر،مقروض مفلس(کنگال) پر اسکے اپنے مال میں تصرف کرنے پر پابندی لگانا، یا جس کے پاس کچھ گروی رکھواکر قرض لیا گیا ہو کی مصلحت کی خاطر گروی رکھنے والے پر پابندی لگاناکہ وہ اپنی گروی رکھی ہوئی چیز میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا، یا پھر ورثاء کی مصلحت کی خاطرمرض الموت میں مبتلا مریض پر اس کے اپنے مال میں ثلث (تیسرے حصہ )کی وصیت کرنے پر پابندی لگانا۔

یا یہ پابندی اُس کی اپنی مصلحت کی بناء پر عائد کی جائے۔

جیسے : مجنون، بچےاور بے وقوف ونا سمجھ پر اُن کے اموال میں تصرّف کرنے پر پابندی لگانا کہ وہ اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتے ۔

مذکورہ پانچ اوصاف کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے عاقد کی اہلیت و نا اہلی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

 اہلیت رکھنے والے عاقد میں ان پانچوں اوصاف کا ہونا ضروری ہے ، اگران میں سے ایک وصف بھی مفقود ہوا تو عاقد شرعی اعتبار سے نا اہل قرار پائے گا۔اور اسے خرید و فروخت کی اجازت نہیں ہوگی۔

طرفین کی اہلیت سے متعلقہ چند ضروری وضاحتیں:

نابالغ بچہ کی طرف سے سودا (خرید و فروخت)کرنے کا حکم

اگرنابالغ بچہ ممیّز ہو یعنی صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اُس کا اپنے مال میں تصرّف کرنااپنے سرپرست کی اجازت سے درست ہے۔(سرپرست کی اجازت شرط ہے)۔اور یہی رائے راجح اوردلائل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، کیونکہ:

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نابالغ بچہ کی جائداد ،کاروبار و ملکیت اُس کی بلوغت سے پہلےاُس کے  حوالہ کرنے سے منع فرمایا ہے ا لا یہ کہ اُس کا امتحان لیاجائے ، اُسے آزمایا جائے (تھوڑا مال اُس کے سپرد کرکے ، اُسے کوئی ایک آدھ سودا سونپ کے ، اُس کے تصرّفات کا جائزہ لیکر دیکھا جائے) کہ وہ اس قابل بھی ہے کہ نہیں ؟

ہاں اگر وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھے اور سمجھداری کے قابل ہوجائے تو اُسےاپنے مال میں تصرّف کی اجازت ہے ، اور ولی و سرپرست کی اجازت کی شرط کے ساتھ جو نقصان کے خدشات تھے وہ بھی دور ہوگئے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا﴾

النساء: 6

ترجمہ : ’’ اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ (یتیم کے مال سے) بچتے رہیں ہاں یتیم کا سر پرست اگرمسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے‘‘۔

نوٹ :

یتیم اس بچہ کو کہتے ہیں کہ بلوغت سے پہلے جس کے والد فوت ہوجائیں ۔

بچہ کو بالغ ہونے سے پہلے مالی تصرّفات کی اجازت عموماً اسوجہ سے نہیں دی جاتی کیونکہ اُس میں صحیح اور غلط کی پہچان ، ان میں فرق کرنے کی صلاحیت اور معاملات کی مناسب سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ، لہٰذا اگر بچہ میں یہ علّتِ ممانعت موجود نہ ہواور مطلوبہ صلاحیت موجود ہو تو ممانعت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ، اور پھر ولی و سرپرست کی اجازت کی شرط بھی اس منفی احتمال کو ختم کردیتی ہے۔

 کیا ایک ہی شخص ایک ہی وقت میں بائع ومشتری یعنی خریدار اور فروخت کنندہ ہوسکتا ہے؟

اس مسئلہ کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص کسی کو خرید و فروخت کے سلسلہ میں اپنا وکیل مقرر کرتا ہے :

اب اگر وہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے کسی چیز کوخریدنے کا پابند ہے تو وہ وکیل خود اس مطلوبہ چیز کو اپنے مؤکل کو بیچتا ہے ، یعنی وہ خود وکیل بن کر اپنے مؤکل کی طرف سے اُسے خرید بھی رہا ہے اور خود فروخت کنندہ بن کر اُسے بیچ بھی رہا ہے ۔

اس کے برعکس اگروہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے کسی چیز کوبیچنے کا پابند ہےتو وہ وکیل خود اس مطلوبہ چیز کو اپنے مؤکل سے خرید لیتا ہے ، یعنی وہ خود وکیل بن کر اپنے مؤکل کی طرف سے اُسے بیچ بھی رہا ہے اور خود خریدار بن کر اُسے خرید بھی رہا ہے۔

مذکورہ دونوں صورتوں کو آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ:

ایک وکیل جو اپنے مؤکل کی طرف سے اس کی چیز بیچنے والا ہو تو کیا وہ اُسے اپنے لئےخرید سکتا ہے؟ یاوہ جو اپنے مؤکل کی طرف سے کوئی چیز خریدنے والا ہو تو کیا اپنی چیز اُسے بیچ سکتا ہے؟

یا اسکی تیسری صورت یہ ہے کہ : اُس وکیل کو اُس کا مؤکل ایک چیز –مثلاً ایک زمین بیچنے کا حکم دیتا ہے ، اور اُس کا دوسرا مؤکل اُسے ایک زمین خریدنے کا حکم دیتا ہے تو وہ اُسی زمین کو (اپنے ایک مؤکل کے لئے) بیچتا بھی ہے اوراُسی زمین کو (اپنے دوسرے مؤکل کے لئے )خریدتا بھی ہے ، اس طرح وہ اپنے دونوں مؤکلین کی طرف سے اُس ایک ہی زمین کا (وکیل ہونے کی حیثیت سے )خریدار بھی ہے اور فروخت کنندہ بھی۔

اس مسئلہ میں اہلِ علم میں سے کچھ جواز اور کچھ عدمِ جواز کی رائے رکھتے ہیں ، جبکہ درست و قوی رائے یہی ہے کہ ایسا کرنا وکیل کے لئے جائز و درست ہے بشرطیکہ :

وکیل بازاری قیمت(Market Value)سے بہترڈیل اپنے مؤکل کو فراہم کرے۔یعنی اگر وہ اپنے مؤکل سے خودخرید رہا ہے تو اُسے بازاری قیمت (Market Value)سے زیادہ میں خریدے اور اگر اپنے مؤکل کواپنے پاس سے بیچ رہا ہے تو بازاری قیمت (Market Value)سے کم قیمت میں اُسے بیچے ، تاکہ وکیل دھوکہ کی تہمت سے بری ہوسکے۔

یا پھر اپنے مؤکل کومعاملہ کی مکمل معلومات فراہم کرے اورسب کچھ اس کی اجازت و مرضی سے کرے ۔

مذکورہ دونوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنا لازم ہے وگرنہ وکیل کا عمل ناجائز اور قابلِ مذمت و گرفت  ہوگا۔

مسئلہ مذکورہ میں جواز کی بنیادی دلیل یہ مستقل قاعدہ و ضابطہ ہے کہ: معاملات ، لین دین وخرید وفروخت میں قاعدہ یہ ہے کہ وہ جائز ہے سوائے اس کے کہ جس کی حرمت شریعت بیان کرے ، لہٰذا ایک ہی وقت میں وکیل کا بائع و مشتری ہونا بیان کردہ تفصیل کے مطابق جائز ہے کیونکہ اس کی حرمت شریعت سے ثابت نہیں ہے اور جہاں تک دھوکہ کے امکان کا تعلق ہے تو وہ مذکورہ شرط سے دور ہوجاتا ہے ۔

تیسری شرط:خریدی و فروخت کی جانے والی چیزشرعی اعتبار سے خرید و فروخت کے قابل ہو

یعنی وہ پاک ہو ،حلال ہو اورشرعی طور پر نفع بخش ہو ۔

الغرض ثمن ( قیمت ) مثمن ( سامان ) دونوں شرعی اعتبار سے پاک اورحلال ہوں اورعام حالات میں شرعی طور پر اُس سے فائدہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہو ،کیونکہ جن سے عام حالات میں شرعاً فائدہ حاصل نہیں کیاجاسکتا اُن کی خرید و فروخت ہر حال میں حرام ہے ، جیسے شراب وغیرہ۔

(عام حالت سے مرادعمومی یعنی غیر اضطراری حالات ہیں ،کیونکہ اضطرار ومجبوری میں کچھ چیزیں عارضی طور پر جائز ہوجاتی ہیں)۔

مذکورہ تینوں اوصاف (پاک ہونا، حلال ، ہونا اورجائز نفع بخش ہونا)ان میں سے اگر ایک وصف بھی مفقود ہوا تو اس چیز کی خرید و فروخت شریعتِ مطہّرہ میں جائز نہیں ہے ۔

اس حوالے سے ایک اور مسقل قاعدہ ہے کہ:

’’ تمام حلال و پاک اشیاء کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے ، اسی طرح جن اشیاء سے نفع و فائدہ اٹھاناشرعاًصحیح و درست ہو تو ان کی خرید وفروخت بھی درست ہے سوائے اُن صورتوں میں جن میں شریعتِ مطہّرہ نے دیگر حکمتوں و مقاصد کے پیشِ نظر اُن کی خرید و فروخت کو جائز قرار نہیں دیا۔

جیساکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے کہ:

یقیناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب (خمر)، مردار ،خنزیراور بت ومورتیوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا ہے،کہا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مردہ جانور کی چربی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں(یعنی کیا اس کی بیع بھی حرام ہے؟)جن کے ذریعہ لکڑی کی کشتیوں کی پیوند کاری کی جاتی ہے اور کھالوں کو دھن دیا جاتا ہے(تاکہ وہ نرم پڑجائیں)اور لوگ اُن کے ذریعہ روشنی حاصل کرتے ہیں۔؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ : نہیں وہ (چربی کی خرید وفروخت) بھی حرام ہے پھر اس وقت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے(تین مرتبہ)یہ فرمایاکہ:اللہ یہودیوں کوہلاک وبرباد کرے جن پر اللہ تعالیٰ نے چربیوں کو حرام قرار فرمایا مگر اُنہوں نے (اُسے خود تواستعمال نہیں کیا بلکہ)اسے پگھلایا ،پھر اُسے بیچااور اُسکی قیمت کھاگئے‘‘۔[7]اورایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: یقیناً جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام فرمادیتا ہے تو اُس قوم پر اُس کی قیمت کو بھی حرام فرمادیتا ہے، (یعنی اُسے بیچنا اور بیچ کر اُس کی قیمت کھانا بھی حرام ہے)۔[8]

اور شراب کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:

بے شک جس اللہ تعالیٰ نے شراب کے پینے کو حرام قرار دیا ہے اُس نےاُس کی خرید و فروخت ، تجارت وکاروبار کو بھی حرام قرار دیاہے۔

نوٹ:

 گذشتہحدیث میں میتۃ یعنی وہ حلال خشکی کا جانور جو بغیر ذبح کیے مر جائے اسے حرام قرار دیا گیا ہے لیکن دوسری روایات میں کچھ چیزیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جیسے:

جراد یعنی ٹڈی کا استثناء موجود ہے کہ جس کا کھانا ، استعمال اور بیع بھی حلال ہے،ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’ ہم نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھے یا سات غزوات میں شرکت کی جن میں ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے رہے ‘‘۔[9]اسی طرح مردہ جانور کی کھال کو رنگ دیا جائے تو اسے بھی استعمال اور خریدا و بیچا جاسکتا ہےجیساکہ  حدیث میں اس کا استثناء موجود ہے،البتہ بغیر رنگے مردہ جانور کی کھال بالاتفاق ناپاک ہے۔

اسی طرح اس کے وہ اجزاء جن پر زندگی اثر نہیں کرتی وہ بھی اس حرمت سے مستثنیٰ ہیں ،جیسے بال ، اون وغیرہ کا استعمال اور خرید وفروخت بھی جائز ہے۔بشرطیکہ اُنہیں جسم سےلگی کھال یعنی جڑ سے الگ کردیا جائے ورنہ وہ پاک و جائز نہ ہوں گے۔

حرا م اشیاء میں شامل دیگر امور

شریعتِ مطہّرہ میں شراب ، مردار ، خنزیربشمول اُس کے تمام اجزاء اور بت و مورتیوں کے علاوہ: جوّا ، فال نکالنے کے تمام طریقے، حلال جانور کو ذبح کرتے وقت بہایاجانے والا خون اور بے مقصد،دلفریب اورغافل کرنے والی باتوں کی حرمت بیان کی گئی ہے‘‘۔

شراب کے علاوہ دیگرمنشیات اورمخدّرات کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح بتوں کے علاوہ باقی شرکیہ آلات بھی اس حرمت میں داخل ہیں۔ جب کہ بے مقصد،دلفریب اور غافل کرنے والی باتوں میں گانے، موسیقی اور اُس کے تمام آلات ، گانوں اور موسیقی پر مشتمل آڈیو، ویڈیو کیسٹیں، سی ڈیز، فحاشی وعریانیت پر مشتمل رومانوی ناول،فحش لٹریچر سب شامل ہیں ،جبکہ جادو اورعلمِ نجوم کی تعلیم پر مبنی کتابیں اور اسی طرح تمام باطل افکار و نظریات پر مشتمل کتب ، مذکورہ تمام اشیاء کی تجارت حرا م ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر اُس چیز کی بیع جوشرعی اعتبار سے ناپاک ہو یا حرام کردہ ہویا عام حالات میں اُن سے شرعی طور پر فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تووہ جائز و درست نہیں ہےان سے کُلی اجتناب کرنا ہر مسلم پر واجب ہے ۔

چوتھی شرط:مال و زر فروخت کنند وخریدار کی ملکیت میں ہو

اس شرط سے مراد یہ ہے کہ :کسی بھی شخص کاکسی متعیّن شےپر کُلی ملکیت و اختیار سے پہلے اس کا سودا کرنا جائز و درست نہیں ہے ، اور اس ملکیت کے حکم میں مال اور زر دونوں شامل ہیں یعنی خریدنے والے کا مال اُس کی ذاتی ملکیت ہو اور اُسے اس میں تصرّف کا اختیار ہو اور بیچنے والے کا سامان اُس کی ذاتی ملکیت میں ہو۔

ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت عام ہے کہ لوگ اس چیز کا سودا طے کرلیتے ہیں جو سودے کے وقت اُن کی ملکیت میں نہیں ہوتی یعنی انہوں نے اُسے خریدا ہی نہیں ہوتا بلکہ اُن کا مقصدبعد میں مارکیٹ سےخرید کر اسے خریدار تک پہنچانا ہوتا ہے جوکہ شرعاً ایک ناجائز عمل ہے،کیونکہ اس میں نقصان کے کافی احتمالات ہیں ،جیسے: اُس چیز کا مارکیٹ سےہی ختم ہوجانا، جس قیمت پر اُس نے سودا کیا ہووقتِ خرید اُس قیمت کا بڑھ جاناوغیرہ وغیرہ ،اور پھر اس کے نتیجہ میں تنازع ، نفرت ، عداوت و فسادبھی ہوسکتا ہے ، لہٰذا مال وزر ، عزت وجان کی حفاظت کی خاطر شریعت ایسے کاموں سے سختی سے روکتی ہے۔

قرآن حکیم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾

النساء: 29

ترجمہ:’’ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو۔ ‘‘

اور باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے۔

 اسی طرح یقیناً کوئی شخص بھی اس بات پر راضی نہیں ہوگا کہ کوئی دوسرا اُس کے مال میں تصرّف کرے اور اُسے بیچ ڈالے۔ صورتِ ہٰذا میں بیچنے والا کسی دوسرے کے مال کو جو ابھی اِس کی ملکیت میں نہیں آیا اُسے بیچ رہا ہےجو مالِ غیر میں تصرّف کے مترادف ہے۔

سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ: میرے پاس ایک آدمی آتا ہےجو مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس چیز کا اس سےسودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:جو چیزتمہارےپاس(یعنی تمہاری ملکیت میں، یا قدرت و اختیار میں) موجودنہیں اُسے فروخت نہ کرو‘‘۔[10]

نوٹ (الف)

خرید و فروخت کی جانے والی شے دو قسم کی ہوتی ہے :

 (1) کبھی تو متعیّن و محدّدہوتی ہے ،جسے دیکھا جاسکتا ہو، جیسے کوئی کہے کہ: میں تمہیں یہ گاڑی جو اُس کی نظروں کے سامنے ہو ،جو Hondaکمپنی کی ہے جس کا نام Civicہے اسے بیچتا ہوں ۔

(2) اور کبھی وہ شےمتعین نہیں ہوتی بلکہ اس کی مخصوص قسم کی صفات واضح ہوتی ہیں، لیکن وہ شےنہ ہی سامنےہوتی ہے اور نہ ہی اُسے دیکھا جاسکتا ہے،جیسے کوئی کہے کہ میں تمہیں فلاں کمپنی کی فلاں صفات والی گاڑی بیچتا ہوں ۔

مذکورہ روایت میں سیدنا حزام رضی اللہ عنہ کے سوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا سوال پہلی قسم سے تھا یعنی متعین شےکے سودےکے حوالہ سے تھا، جس کا معنی ہے کہ اگر خرید و فروخت کی جانے والی چیزمتعیّن ہوتو ایسا سودا ملکیتِ کاملہ سے پہلے جائز نہیں ۔

مسئلہ بیع السلم یا بیع السلف

لیکن اگر چیزکےتعیّن کی بجائےاُس کی مخصوص صفات بیان ہوں اور بیچنے والا اسےمستقبل کی ایک خاص مدّت کے اندر (جس میں فریقین کا اتفاق طے پائے)مہیّا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اُس کی مکمل قیمت پیشگی ادا کردی جائےتو یہ سودا جائز ہے جسے شرعی اصطلاح میں

بیع السلم یا بیع السلف

کہا جاتا ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ ، آیۃنمبر:282 اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیث کی روشنی میں بیع سلم یا سلف صحیح و درست ہےجیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہےکہ: تم میں سے جو بھی بیع سلف (سلم)کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ معلوم و متعیّن وزن و پیمانے (یعنی معلوم صفات) اور معلوم ومتعیّن مدّت کےساتھ کرے۔[11]

بیع سلم یہاں ہمارا موضوع نہیں ، لہٰذا بیع سلم میں رأس المال اور مسلم فیہ و الیہ وغیرہ سے متعلق شرائط و احکامات و دیگر تفصیل اس کے اپنے مقام پر دیکھی جاسکتی ہے ، یہاں مذکورہ شرط کے حوالہ سے جو ضروری وضاحت تھی وہ کردی گئی ہے۔[12]

یہاں یہ بھی معلوم ہو کہ اگر قیمت و مال دونوں ہی ادھار پر ہوں، تو یہ

’’بیع الکالی بالکالی ‘‘

 ہوجائیگی جو شرعاً ناجائز ہے ۔

نوٹ (ب):

مذکورہ شرطِ ملکیت کے حکم سےچار قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں

جو مالک تو نہیں بلکہ مالک کے قائم مقام تصوّر کیے جاتے ہیں اور وہ ملکیت کی مذکورہ شرط سے اس طور سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ مال و زر میں ذاتی ملکیت رکھے بغیر کچھ شروط و قیود کے ساتھ خرید و فروخت اور تصرّف کے مجاز ہیں، اور وہ درجِ ذیل ہیں:

(1) وکیل(Agent)۔                                              
(2) وصی۔
(3) ناظر: (نگہبان،Supervisor)۔                
(4) ولی (سرپرست،Guardian)۔

ان چاروں کی مختصر اً وضاحت درجِ ذیل ہے:

وکیل(Agent): وہ شخص جسے مالک کی طرف سے اُس کی زندگی میں اُس کے مال میں تصرّف کی اجازت و اختیار دیا گیا ہو،یا:جو اپنے مالک کی طرف سے کسی متعین چیز کی خریداری یا فروخت کے لئے مقرر ہو۔

جیسے مینیجر، بروکراور ایجنٹ وغیرہ ، مثال کے طور پر مالک ایک شخص کو اپنی کوئی جائداد ، یاگاڑی وغیرہ دیکر اُسے اس کے بیچنے کی ذمہ داری سونپ دے۔ وہ شخص مالک کی طرف سے اس کی متعیّن چیز کا وکیل ہوگا اور اسکی بیع بھی درست ہوگی۔

وصی:وہ شخص جسے مالک کے اپنےمکمل مال کے ثلث (تیسرے حصے)میں کی ہوئی وصیت میں ، اس کی  موت کے بعد تصرّف کی اجازت و اختیار دیا گیا ہو۔

یہ بھی عرفِ عام میں وکیل ہی ہوتے ہیں لیکن انہیں عربی میں وصی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وصیت کے مال میں تصرف کا اختیار رکھتے ہیں ۔جیسےایک شخص اپنے ثلث المال میں سے کسی خاص مصرف مثلاً فی سبیل اللہ کی مد میں پیسہ دینا چاہتا ہواور وہ کسی خاص شخص کو اپنا وصی مقرر کرے تو وہ وصی، وصیت کئے گئے مال کوفی سبیل اللہ کے مصارف میں سے کسی بھی مناسب مصرف میں خرچ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

ناظر(نگہبانSupervisor):اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی بھی وقف(Endowment) وٹرسٹ پر نگہبان و ذمہ دار بنایا گیا ہو۔[13] اب اس وقف کا نگہبان ، ذمہ دار(Supervisor)اس میں مطلوبہ ہدف کی تکمیل کے تصرّفات کا اختیار رکھتا ہے ،جیسے ایک شخص اپنے کسی گھر کو فقراء و مساکین کےلیے وقف کردیتا ہے اور اس کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری عبد اللہ کو سونپتا ہے تو عبداللہ کو اس میں مطلوبہ مقصد کی تکمیل کے لئےتصرّف کا اختیار ہے۔

ولی (سرپرست،Guardian):ولایت ( سرپرستی )کی دو قسمیں ہیں : ولایت ِ عامہ اور ولایتِ خاصہ۔

ولایتِ عامہ سے مراد :حکمران کی ولایت ہے ، جیسے ملک کے وہ اموال،اراضی و املاک کہ جن کا کوئی مالک نہیں اُن کی ملکیت وتصرّف کا اختیار حاکم کے پاس ہوتا ہے، اسی طرح اس یتیم کے اموال و املاک کہ جس کا کوئی خاص ولی و سرپرست نہیں ، اُن کی ولایت بھی حاکم کے پاس ہوتی ہے۔

ولایتِ خاصہ سے مراد: وہ ولایت ہے جو یتیم کے کسی خاص ولی و سرپرست کی ہوتی ہے ،جیسےچچا کی ولایت اس کے یتیم بھتیجے پر۔ ایسی صورت میں یتیم اور اس کے مال کی کفالت اور سرپرستی اس کے خاص ولی  کی ذمہ داری ہے جسے شریعت یتیم کے مال میں جائز و حلال طریقہ سے اس وقت تک تصرّف کی اجازت دیتی ہے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے یا ممیز یعنی صحیح اور غلط میں فرق پہچاننے والا نہ ہوجائے۔

ولی اور وکیل میں فرق:

مذکورہ چاروں صورتوں میں ملکیت نہ ہونے کے باوجود تصرّف کا اختیار حاصل ہےلیکن پہلی تین صورتیں وکالت ہیں جن میں تصرف کا اختیار مالک کی طرف سے حاصل ہوتا ہے جبکہ چوتھی صورت میں یعنی ولی کو تصرّف کا اختیار شرع کی طرف سے حاصل ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم

پانچویں شرط:خریدی ہوئی چیزکوقبضہ میں لینا اورقبضہ سے قبل اُسے فروخت نہ کرنا

خرید و فروخت کی شرائط میں سے ایک اہم وبنیادی شرط جس سے آج عوام الناس بالخصوص کاروباری و تاجر حضرات بہت غفلت برتتے ہیں وہ قبضہ و انتقال سے قبل ہی خریدی ہوئی شےکا آگے سودا کردینا یعنی اُسے بیچ دینا ہے جو شرعی لحاظ سے ناجائز عمل ہے۔

لہٰذاخریدا ہوا مال قبضہ میں لیں اوراُسےخریدی ہوئی جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کریں اور پھر اُسے آگے جہاں چاہیں فروخت کریں ،قبضہ سے پہلے اور خریدی ہوئی جگہ پر بیچنا دونوں ہی شرعاً ممنوع ہیں ۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’جوشخص غلہ خریدے،تو اُسےاس وقت تک فروخت نہ کرےجب تک کہ وہ پوری طرح اُسے اپنے قبضہ میں نہ کرلے‘‘۔[14]اسی طرح صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ خریدتے توہمارے پاس(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے)ایک شخص کو بھیجاجاتا جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم اُسے بیچنےسےپہلےخریدی ہوئی جگہ سے اُٹھا کرکسی دوسری جگہ منتقل کرلیں‘‘۔[15]

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےخریدی ہوئی جگہ پر

 فروخت کرنے سے منع فرمایا ہےیہاں تک کہ تاجر اُسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں‘‘۔[16]

قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت کی علّت

یہ عمل آج اتنا عام ہوگیا ہے کہ درآمد کی جانے والی اشیاءملک میں آتے آتے کئی جگہ فروخت ہو چکی ہوتی ہیں ، جو اسلامی شریعت میں ایک مذموم عمل ہے۔

اس کے دنیاوی نقصانات میں سے اہم ترین نقصان یہ ہوتاہے کہ چونکہ وہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں میں فروخت ہوچکی ہوتی ہے اس لئے جب وہ گھر میں پہنچتی ہے تو اُس کی انتہائی مہنگی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں چڑھاؤ آتا ہے جو غریب و متوسط طبقہ کے لئے بالخصوص ظلم کے مترادف ہے۔

اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ باربرداری کے شعبہ سے وابستہ مزدوروں کا روزگار متاثر ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ حکمت و بصیرت، دور اندیشی اور عدل و انصاف پر مشتمل اسلامی شریعت اس عمل کی بلکہ ہر اُس عمل کی سختی سے مذمت کرتی ہے جو عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہ اترے،بلکہ معاشرے میں موجود متوسط اور غریب افرادپر ناحق بوجھ اور ظلم و زیادتی کا باعث بنے۔

گذشتہ اسباب کے علاوہ شریعت میں اس کی حرمت کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ یہ بیع الغرر Uncertainty)اورجہالت،ودھوکہ) میں سے ہےاوربیع الغرر سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

بیع الغرر سے مراد وہ بیع ہے جس میں کسی بھی لحاظ سے جہالت (لا علمی)،یا دھوکہ ہو،یاجس میں بیچی یا خریدی جانے والی چیز کا ذریعہ حصول معلوم نہ ہو یا اس کی حقیقت یا مقدار معلوم نہ ہو۔

اورجب تک انسان کے قبضہ میں مال نہیں آجاتا اس وقت تک اس کی حقیقت مجہول ہی کے حکم میں ہے جوکہ غرر ہے، اور غرر اس طور پر بھی ہے کہ قبضہ سے قبل فروخت کرنے والا اگر اُسے سستی قیمت میں بیچتا ہے اورخریدار کو وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے تو وہ فائدہ مند ہوگاوگرنہ نقصان میں، اور فائدہ و نقصان کے درمیان یہی غررہے۔

اس کے علاوہ اس میں سود کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے ،جیساکہ سیدنا ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ اس کی ممانعت کی علّت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’ذاک دراهم بدراهم والطّعام مرج‘‘ کہ ’’یہ درہم کے بدلے درہم کا لین دین ہے جبکہ(خریدا ہوابغیر قبضہ میں لیا)غلہ وہیں اپنی جگہ موجود ہے‘‘۔یعنی یہ سودا ایک طرح سے نقدی کالین دین ہی ہے ،جیسے کسی نے ایک لاکھ میں غلّہ خریدا اور اسے اپنے قبضہ میں لئے بغیراور منتقل کیے بغیر وہیں ایک لاکھ دس ہزار میں بیچ دیا گویا ایک لاکھ کی نقدی کےبدلہ دس لاکھ کی نقدی کاسودا کرکے منافع کمایا۔

امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ نے اس حوالہ سے انتہائی مفید گفتگو فرمائی ہے ،آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’یہ عمل ممنوع اس لئے ہے کہ: خریدار کاخریدی ہوئی چیز پراُسے منتقل کیے بغیر نہ تو قبضہ مکمل ہوا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ سے تعلق کُلّی طور پر ختم ہوا ہے ،لہٰذا جب فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہو گاکہ اُس سے خرید کرآگے فروخت کرنے والے کو اس سے خوب نفع حاصل ہو رہا ہے تو وہ قبضہ دینے میں حیل وحجت سےکام لےگایاپھر وہ سودا ختم بھی کرسکتا ہےاورہو سکتا ہےکہ سودا ختم کرنے کے لئےبات تنازع تک اور پھر عداوت و دشمنی تک جا پہنچے جیسا کہ واقعات اس کے شاہد ہیں ۔ چنانچہ حکمت پر مبنی شریعت ِکاملہ کی یہ خوبی ہے کہ اس نے خریدار پر یہ شرط عائد کردی ہے کہ وہ خریدی گئی چیز پراس وقت تک کوئی تصرّف نہ کرے جب تک اُسےفروخت کنندہ سے لیکر اپنے قبضہ میں نہ لے لےاور فروخت کنندہ سے اس کامکمل تعلق ختم نہ ہوجائے، تا کہ وہ سودا فسخ(ختم)کرنےیا قبضہ نہ دینے کا سوچ بھی نہ سکے ۔یہ وہ حِکمتیں وفوائد ہیں جن کو شارع نے نظر انداز نہیں کیا،یہاں تک کہ شریعت کا علم نہ رکھنے والے تاجر وکاروباری حضرات بھی اُنہیں تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیا ل میں بھی ایک طرف مصلحت اس کی متقاضی ہے اوردوسری طرف معاملات میں موجودفساد و خرابیوں کا خاتمہ بھی اسی طرح ممکن ہے۔[17]

 بعض اہلِ علم کے نزدیک مکمل قبضہ کے لئے خریدی گئی شےکا کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری نہیں بشرطیکہ فروخت کنندہ کی طرف سے خریدار کو خریدی گئی شےمیں تصرّف کا مکمل اختیار حاصل ہو اس طور پر کہ:

خریدی گئی چیزکانفع بھی ا ور نقصان کی ذمہ داری بھی دونوں خریدار کی طرف منتقل ہوجائیں۔کیونکہ عموماً خریدار کے قبضہ میں آنے تک خریدی ہوئی چیز کی ذمہ داری فروخت کنندہ (بیچنے والے)کی ہوتی ہےاور اُسے خریدار تک صحیح و سالم بحفاظت پہنچانا فروخت کنندہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

اور ان لوگوں کی دلیل رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

لاْ رِبْحَ مَاْ لم يضْمَن

جامع الترمذي:كتاب البيوع،باب ما جاء في كراهية ما ليس عندك(امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے)

کہ’’ اُس چیز کا منافع جائز ہی نہیں کہ جس میں نقصان کی ذمہ داری نہ لی گئی ہو‘‘۔

اس روایت کی روشنی میں ان کا کہنا ہے کہ قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت کی علّت نقصان کا خدشہ ہے اورجب نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہوگئی توعلّتِ ممانعت بھی ختم ہوگئی لہٰذا اس صورت میں قبضہ ومنتقلی سے قبل فروخت کرناجائز ہوا۔

مذکورہ استدلال درجِ ذیل وجوہات کی بناء پردرست نہیں:

امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ ان کی بیان کی ہوئی علّت کی تردید اور نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہونے کے باوجوداسے ناجائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس کی علت (کے تعین )نے بعض فقہا کو مشکل میں ڈال دیا ہے، حالانکہ یہ شریعت کے محاسن میں سے ہے کہ جب پوری طرح قبضہ نہیں ہوگا اور فروخت کنندہ(بیچنے والے) کا اس سے تعلق ختم نہیں ہو گا تووہ مشتری(خریدنے والے)کو فائدہ ہو تا دیکھ کر معاملہ منسوخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کا لالچ کرےگا۔ اوراگر قبضہ دے گا بھی تو آنکھیں بند کر کے اور نفع سے محرومی کا افسوس لئے ہوئے دے گا، چنانچہ اس کا نفس ادھر ہی متوجہ رہے گا، اس کا طمع ختم نہیں ہو گا،یہ مشاہدے سے ثابت ہے، لہٰذایہ شریعت کا کمال اور خوبی ہےکہ خریدار جب تک چیز کو حاصل نہ کر لے اوروہ اس کی ذمہ داری میں نہ آجائے، اُس سے حصولِ نفع ممنوع ہے تاکہ فروخت کنندہ سودامنسوخ کرنے سے مایوس ہوجائے اورسودے سےاُس کا تعلق ختم ہو جائے‘‘[18]

ممانعت سے متعلقہ فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن میں فروخت کرنے سےپہلےخریدی ہوئی شےکےقبضہ اوراُسے منتقل کرنے کو شرط قرار دیا گیا ہے۔

صحابہ کرام ﷢بھی اسی کے قائل وفاعل تھےجیساکہ ممانعت کے تحت مذکورہ روایات سے ظاہر ہے۔

قبضہ وانتقالِ ملکیت کے بغیر فروخت کرنےمیں غرر ہے۔

قبضہ وانتقالِ ملکیت کے بغیر فروخت کرناسود کے لین دین کے مشابہ ہےجیساکہ سیدنا ابن عباس  کا فرمان ذکر کیا گیا۔

نوٹ:

صحیح قول کے مطابق خریدی گئی چیز کوفروخت کرنے سے پہلے اس کے قبضہ ونقل و حمل کاحکم صرف غذائی اجناس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اشیا ءداخل ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہیں،جیساکہ سیدنازید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے جس میں غلےّ کی بجائے سامان کا تذکرہ ہے۔

البتہ وہ اشیا ءجن کی نقل و حمل ممکن نہیں جیسے اراضی اور مکانات وغیرہ ، ان میں قبضہ کا معنی صرف اتناہے کہ ہر قسم کی کاغذی کاروائی کو مکمل کیا جائے اور فروخت کنندہ تمام رکاوٹیں دور کر کے خریدارکو تصرف کا پورا موقع فراہم کر دے۔اسی طرح جو اشیا ءہاتھوں ہاتھ لے کر قبضہ کی جاتی ہیں جیسے کرنسی نوٹ ، وغیرہ تو ان کا قبضہ یہ ہے کہ ان کو ہاتھوں میں وصول کرلیا جائے۔

چھٹی شرط:خریدی و فروخت کی جانے والی شے سے متعلق مکمل علم رکھنا

 خرید و فروخت کی شرائط میں آخری شرط یہ ہے کہ:جس چیز کوخریدا یا فروخت کیا جارہا ہے ، اس سے متعلقہ مکمل علم فریقین(خریدار و فروخت کنندہ) کو حاصل ہو۔

خریدو فروخت کی جانےوالی شےکا علم اُس سے متعلقہ تین چیزوں کی مکمل معرفت سے حاصل ہوتا ہے:

(1) خریدی یا فروخت کی جانے والی چیز کیا ہے؟ (جس کی معرفت زبان سے اُس کا نام لےکر یا اس کی وضاحت کے ذریعہ یا اشارہ کے ذریعہ حاصل ہوگی)۔

(2) مقدار یعنی وزن و پیمانہ کی معرفت۔ (اگر خرید و فروخت کی جانے والی چیز کا تعلق وزن و پیمانہ سے ہو)۔

(3) صفات کی معرفت۔ (اگر خریدی و فروخت کی جانے والی چیز کا تعلق اس کی صفات کی معرفت سے ہو یا وہ چیز سامنے موجود نہ ہو)۔

مذکورہ اشیاء کی مختصر وضاحت

مذکورہ تینوں اعتبار سے طرفین کوسودے ، اُس کی نوعیت،جنس، مقدار اورمکمل صفات سے متعلقہ کُلی علم ہونالازمی ہے ، ان میں کسی بھی طرح کا ابہام ،شبہ یا لاعلمی شرعی اعتبار سے بیع کو مشکوک بنادیتی ہے،جسے شرعی اصطلاح میں’’ غَرَر (Uncertainty)‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے جو شرعاً ناجائز ہے اور جس کی وضاحت سابقہ سطور میں گذر چکی ہے۔

خرید و فروخت کی جانے والی شے کا علم

سب سے پہلے شےکا تعیّن ہونا چاہئے خواہ وہ اس کا نام لیکرکیاجائے یا اس کی طرف اشارہ کرکے اور اس حوالہ سے طرفین میں سے کسی کو کسی بھی قسم کاکوئی مغالطہ یا شبہ نہ ہوورنہ بیع درست نہ ہوگی۔

مقدار کا علم

یعنی وزن و پیمانہ کی معرفت،تو اس میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جن کی خرید و فروخت وزن ،ناپ تول کے حساب سےکی جاتی ہے جیسے کھانے پینے کی اشیاء اور سائل مادہّ وغیرہ ۔ان اشیاء کی بیع اُس وقت تک درست اور مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ طرفین میں وزن ، ناپ تول کے حوالہ سے اتفاق و اطمینان نہیں ہوجاتا۔

ناپ تول اور وزن میں کمی کرنا

یہاں فروخت کنندہ کو خاص اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جان بوجھ کر وزن یا ناپ تول میں کمی نہ کرے ، کیونکہ یہ عمل دھوکہ دہی کی بد ترین قسم ہے جو انتہائی بڑا گناہ ، غضبِ الٰہی کے نزول ، برکت کے خاتمہ اور معاشرے میں بگاڑ ، فتنہ و فساد کا ذریعہ ہے، فرمانِ الٰہی ہے:

﴿وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ(3)﴾

المطففین: 1 – 3

ترجمہ:’’ناپ تول میں کمی کرنےوالوں کےلئےہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سےناپ کرلیتےہیں توپوراپورالیتےہیں اورجب اُنہیں ناپ کریاتول کردیتےہیں توکم دیتےہیں‘‘۔

سابقہ قوموں میں قومِ شعیب علیہ السلام پر عذابِ الہی کے نزول کی بنیادی وجہ شرک و بد عقیدگی کے بعد یہی ناپ تول میں کمی کرنا تھا ،وہ بدبخت آسودگی و امیری کے باوجود اس لعنت میں مبتلا تھے جس کا انجام اُن کی بربادی کی صورت میں ہوا۔

اس کے علاوہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قوم پر ظالم حکمرانوں کے تسلّط اور اس قوم کی غربت ، فقیری اور لاچارگی کا بنیادی سبب اسی قبیح عمل ناپ تول میں کمی کو قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

لم ینقصوا المکیال والمیزان إلا اخذوا بالسنین وشدة المؤنة وجور السلطان عليهم

سنن ابن ماجه : كتاب الفتن ،باب العقوبات(یہ روایت صحیح ہے)

ترجمہ:’’جوقوم بھی ناپ تول میں کمی کرتی ہےتواس پرقحط سالی،سخت محنت ومشقّت (تنگی )اورحکمرانوں کاظلم مسلط کردیاجاتاہے‘‘۔

 لہٰذاناپ تول میں کمی کرنے والا اس بات کو ہمیشہ اپنے مدِّ نظر رکھے کہ وہ تھوڑے سے دنیاوی عارضی مفاد کی خاطر حقیقت میں اپنی برکت ، اطمینان و سکون ختم کر رہا ہے اور نہ صرف اپنی دنیا و آخرت برباد کر رہا ہے بلکہ معاشرے میں عذابِ الہی کے نزول کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔

صفات کا علم

اسی طرح شئے سے متعلّقہ صفات کی معرفت بھی اس لئے ضروری ہے تاکہ بعد میں اسے لیکر طرفین کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی تنازع پیدا نہ ہوجائے ۔خریدار کو چاہئے کہ خریدنے سے پہلے اُس کی مکمل صفات اچھی طرح معلوم کرلے۔ اور فروخت کنندہ کو چاہئے کہ مطلوبہ صفات کی مکمل وضاحت کرے۔

جان بوجھ کر عیب چھپانا

فروخت کنندہ کاجان بوجھ کر اپنے سامان سے متعلقہ کسی بھی صفت کو چھپانا اور خریدار سے اُسے مخفی رکھنا درست نہیں ہے،اپنے سامان میں عیب کا علم ہوتے ہوئے بھی اُسے خریدار سے چھپاناایک نہیں کئی بڑے گناہوں کاارتکاب ہےجیسے جھوٹ ، دھوکہ دہی ،فریب،کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا اور اُس نقصان کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا وبال بھی اسی فروخت کنندہ کو حاصل ہوگا ، اب اندازہ لگائیے کہ گناہوں  اور نقصانات کے ناختم ہونے والے سلسلہ کے مقابلہ میں عیب چھپاکر اپنی چیز کو بیچ کر حاصل ہونے والے فائدہ کی کتنی اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟سچ بول کر حاصل ہونے والا تھوڑافائدہ دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والی،بے برکتی ، بے اطمینانی اور رسوائی و ذلت سے کہیں بہتر ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’اگروہ دونوں(فروخت کنندہ و خریدار)سچائی کو اپنائیں اورایک دوسرےپرحقیقت ِحال واضح کردیں توان کا سودا بابرکت ہوگااوراگردونوں نےعیب کوچھپایا اور جھوٹ کو اپنایا توان کے سودے سےبرکت ختم کردی جائےگی‘‘[19]

بعض بیچنے والے اپنی چیزکانقص جانتے ہوئے بھی واضح نہیں کرتےبلکہ اس کی ذمہ داری خریدار پرڈال دیتےہیں کہ جی آپ خودہی دیکھ لیں ،اگربعدمیں کوئی خرابی نکلی تو ہم ذمہ دارنہ ہوں گے، معلوم ہو کہ اُن کا یہ طریقہ خلافِ شریعت ہے۔ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِگرامی ہے:’’ ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے۔اورکسی بھی مسلم کےلئےیہ حلال وجائز نہیں کہ وہ اپنی چیزمیں موجود عیب کی وضاحت کئے بغیر اُس کا سودا اپنے بھائی کے ساتھ کرے‘‘۔[20]

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےایسےشخص سےبیزاری و لاتعلقی کااظہار فرمایاہےجوچیزکاعیب ظاہرکیے بغیراُسے فروخت کردیتاہے۔سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلّےکےایک ڈھیرکےپاس سےگزرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپناہاتھ اس ڈھیرمیں داخل کیا۔ آپ کی اُنگلیوں نےگیلاپن محسوس کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:اےغلّےوالے! یہ کیاہے؟ اُس نےکہا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس پربارش پڑگئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تم نےاس بھیگےہوئےغلےکواوپرکیوں نہ کردیا تاکہ لوگ اسےدیکھ سکتے؟ اس موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:‘‘جس نےدھوکادیا،اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔[21]

آخر میں ربِّ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام معاملات میں قرآن و حدیث کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

والعلم عند اللّٰہ


[1] فقہ الحدیث، باب الشروط الصلاۃ 1/343

[2] سنن ابن ماجه :کتاب التجارات،باب بيع الخيار ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے ۔

[3] معیشت و تجارت کے اسلامی احکام، ص30-31

[4] اس روایت کو امام احمد نے مسند میں “اوّل مسند البصريين”حديث نمبر:20578 میں بیان کیا ہے۔

[5] سنن الکبری للبيهقي: کتاب النفقات(یہ روایت صحیح ہے )

[6] سنن ابی داود: کتاب الاجارۃ، باب فی العبد یباع

[7] صحيح البخاري: باب بيع الميتة والأصنام، صحيح المسلم :باب تحريم بيع الخمر

[8] سنن أبي داؤد: باب في ثمن الخمر والميتة

[9] صحیح البخاري:كتاب الذبائح والصيد،باب أكل الجراد

[10] سنن أبي داؤد: كتاب الإجارة،باب في الرجل يبيع ما ليس عنده(صحيح) سنن نسائي: 4617 باب بيع ما ليس عند البائع

[11] صحيح البخاري :كتاب السلم،باب السلم في وزن معلوم.

[12] بیع السلم اور سلف کے حوالے سے مکمل بحث’’ البیان ‘‘کی اس خصوصی اشاعت میں موجود ہے جسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

[13] وقف سے مراد :
ذاتی ملکیت کی کوئی بھی منافع بخش شے جیسےجائداد، کاروبار ،فیکٹری،پیسہ یاکوئی بھی مد جسے کسی خاص مقصد کے لئے مقرر ومتعیّن کیا گیا ہو۔جیسے کوئی شخص اپنی جائدادمیں سے کسی ایک حصہ کو ہمیشہ یا کسی خاص مدّت تک کے لئے فقراء، یتیموں و بیواؤں کی کفالت یا دیگر خیری معاملہ کے لئے مختص کردے ،یا اس جائداد کو استعمال میں لاتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے منافع کو مختص کردےوغیرہ،الغرض وقف کا بہت وسیع مفہوم ہے جو چھوٹی سطح سےلیکر بڑی سطح تک جاسکتا ہے۔

[14] صحيح البخاري:كتاب البيوع ، باب الكيل على البائع و المعطي

[15] صحيح المسلم:كتاب البيوع،باب بطلان بيع المبيع قبل القبض

[16] سنن أبي داود: كتاب الإجارة، باب في بيع الطعام قبل أن يستوفي(صحيح لغيره)

[17] تهذيب: ج 5،ص:137

[18] 2تهذیب: ج5،ص153،154

[19] صحيح البخاری: کتاب البيوع، با ب ما يمحق الکذب والکتمان فی البیع

[20] رواه ابن ماجه: كتاب التجارات، باب من باع عيبًا فليبـيّنه

[21] صحيح مسلم:باب قول النبي صلی اللہ علیہ و سلم من غشنا

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔