ہمارے معاشرے میں عموماً یہ سوال دہرایا جاتا ہے کہ آخر کیوں ہم پہلے سے چاند کی رؤیت کا تعین نہیں کرسکتے؟ اور کیا ہم ایک اسلامی کیلنڈر بنا کر اس کے مطابق عبادات نہیں کر سکتے؟
اور زیادہ تر اس طرح کے سوالات رمضان المبارک کے موقع پر پیش آتے ہیں کیونکہ سارا سال ویسے بھی بہت سی عبادات اور تہوار چلتے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ شب برأت ہے، محرم کا تہوار ہے لیکن ان موقعوں پر یہ اختلافات اور اس قسم کی باتیں سامنے نہیں آتیں بلکہ، در اصل یہ صرف ایک ایسے موقع اور تہوار کو مُتنازع بنانے کی کوشش ہوتی ہے کہ جب تمام اُمت مسلمہ یکجا ہونے کی کوشش کرتی ہے اور جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے جو کہ کثرتِ عبادت کا موسم اور اللہ تعالیٰ سے رحمتیں و برکتیں سمیٹنے کا وقت ہوتا ہے۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ایک روِش چل پڑی ہے کہ ہرایک چیز کو سائنسی اعتبار سے دیکھا اور عقلی اعتبار سے پرکھا جائے اور پھر عقل کو مقدم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جاتا ہے اور شریعت کوایک پرانے دور کی چیز سمجھی جاتی ہے ۔ اور خاص طور پر علماء اور مدارس کے متعلق یہ سمجھنا کہ شاید یہ لوگ گزشتہ ادوار کے لوگ ہیں اور بڑے قدامت پسند (backward) قسم کے لوگ ہیں ۔ان کو آج کل کی دنیا کا پتہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو زیادہ تر شریعت سے بالکل لا علم ہوتے ہیں، جبکہ شریعت کے احکامات اور عبادات کے معاملات اللہ رب العالمین نے نبی کریم ﷺکے دور سے ایسی فطرت پر مرتب کیے ہیں کہ ہر دور کا مسلمان ان عبادات کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔
آج سائنسی دور ہے اور ہمارے پاس ایسی سائنسی آلات موجود ہیں جس کے ذریعہ سے ہم بہت ساری چیزیں سمجھ سکتے ہیں، لیکن آج سے پہلے ایسے سائنسی آلات یا سائنسی ذرائع موجود نہیں تھے جو نبی کریم ﷺ کے دور میں اور اِس کے بعد بھی ایک عرصے تک اور ممکن ہے کہ آنے والے دور کے اندر بھی حالات وہی ہوں ، تو اسلام تو قیامت تک کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ نے شرعی احکامات عبادت کے طور مرتب کیے ہیں جیساکہ قرآن مجید میں سوال ہوا:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ
البقرۃ – 189
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے (احرام کی حالت میں)۔
اسی طرح مُسند احمد کی صحیح حدیث میں آتا ہے کے آپ ﷺ نے فرمایا:
إنَّا أمَّةٌ أمِّيَّةٌ لا نكتُبُ ولا نحسِبُ
صحیح مسلم
ہم تو ایک اُمی اُمت ہیں ، ہم حساب کتاب نہیں کرتے، بلکہ ہم چاند کو دیکھ کر روزہ رکھتے ہیں اور چاند کو دیکھ کر روزہ کھولتے ہیں ۔
لہذا تقویمِ اسلامی یعنی اسلامی کلینڈر اور سائنس کے ذریعہ کسی عبادت کا تعین کر لینا ،یہ ہمارے لیے شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔
اگر سائنسی اعتبار سے بھی دیکھا جائےتو آج کل کے جدید سائنسی ادارے اس بات کے قائل ہیں ، بلکہ انہوں نے بھی اِسی چیز کی تصدیق کی ہے جو شریعت نے کہا ہے کہ چاند کی رؤیت (crescent sighting) جس کو ہم دوسرے الفاظ میں رؤیتِ ھلال کہتے ہیں ، ایک باریک چاند کو دیکھنا ہوتا ہے تو اس کی پہلے سے پشین گوئی کرنا ناممکن ہے۔ یعنی اس کے متعلق سو فیصد یہ کہہ دینا کہ فلاں وقت پر، فلاں ٹائم پر اور فلاں جگہ پر چاند نظر آجائے گا، یہ ممکن نہیں ہے اگرچہ ہمارے پاس سائنسی آلات موجود ہیں جو چاند کی پیدائش تو بتا سکتے ہیں کہ فلاں وقت پر پیدائش ہوگی فلاں جگہ کے لیے ،لیکن چاند نظر آئے گا یا نظر نہیں آئے گا اس کی کوئی بھی پشین گوئی نہیں کر سکتا۔ اور آج کل کے سائنسی ادارے خود بھی اس چیز کے قائل ہیں ۔
چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کے متعلق چار بنیادی وجوہات ہیں کہ اگر کہیں پر بھی چاند دیکھنا ہو تو وہاں پر یہ چار اہم باتیں چاند کے نظر آنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ ایک تو چاند اور زمین، چاند اور سورج ان کا ایک متناسب فاصلہ پر ایسے مدار پر گردش اس طریقے پر ہو کہ چاند کو دیکھا جا سکے، دوسرا یہ کہ چاند کی پیدائش کو اتنا عرصہ ہو گیا ہو کہ اس مقام سے چاند کو دیکھنا ممکن ہو،اور کم از کم اس کے لیے دس (10) گھنٹوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں چاند نظر آنا ہے تومغرب سےدس (10) بارہ (12)گھنٹے پہلے چاند کی پیدائش ہو چکی ہو، مثال کے طور پر اگر آج چار (4) بجے یا پانچ(5) بجے چاند کی پیدائش ہو جاتی ہے تو چاند کی پیدائش کے اعتبار سےتو اگلے دن روزہ ہونا چاہیئے لیکن چونکہ ہم مغرب کے وقت چاند دیکھ نہیں سکتے، کیونکہ چاند ابھی دو(2) تین (3) گھنٹے کا ہے، لہذا ہم روزہ نہیں رکھیں گے، روزہ ہم کب رکھیں گے جب ہم اگلے دن چاند کو دیکھیں گے، تو پتہ چلا کہ پیدائش اصل نہیں ہے بلکہ رؤیت اصل ہے ، پھر فضاء صاف ہونی چاہیئے تاکہ انسان چاند کو آرام سے دیکھ سکے۔
بسا اوقات یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پھر چاند کو ٹیلی اسکوپ کی مدد سے کیوں دیکھا جاتا ہے، ٹیلی اسکوپ سے چاند کو دیکھنے کا مقصد زمین سے فضاء میں چاند کو دیکھنا مقصد ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خلائی اسٹیشن پر جا کر چاند کو دیکھ لیں، وہاں تو چاند موجود ہے لیکن چاند کی پیدائش کے بعد کا چاند کا جو نظر آنا ہے وہ ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ سے زیادہ واضح نظر آسکتا ہے، شریعت اس کا اعتبار کرتی ہے۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ ایک ہے چاند کی پیدائش، اس کے اعتبار سے عبادت نہیں ہے، بلکہ عبادت چاند کی رؤیت کے اعتبار سے ہے ۔ اب رہا سوال کہ اسلامی کلینڈر کیوں مرتب نہیں کیا جاتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں اسلامی کلینڈر مرتب ہوتا ہے ۔ سعودی عرب میں تقویم الھجری یعنی ہجری کلینڈر موجود ہے ، لیکن عبادات اس کے اعتبار سے نہیں ہوتیں بلکہ عبادات چاند کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتی ہیں۔