بلند ہمتی کے فوائد

پہلا خطبہ:

تمام تعریف اللہ رب العزت کے لئے ہے جس نے با توفیق لوگوں کے دلوں میں عزم و ہمت کے خزانے ودیعت کئے ہیں۔میں اُس پاک ذات کی حمد کرتا ہوں کہ اُ س نے ہر اہم کام میں مدد کی  اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں اُس کا کوئی شریک نہیں اُسی کے لئے ہر طرح کا غلبہ اور طاقت ہے۔ اُسی نے خیر کو شروع کیا اور اُسے مکمل کیا اور اُسی نے بھلائی کو پھیلایا اور عام کیا ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں جو بہترین دین کے داعی اور بہترین امت کی طرف مبعوث ہیں۔اللہ تبارک و تعالٰی درو نازل فرمائے آپ ﷺ پر اور آپ کے اہلِ بیت اور اصحاب پر جو عزم و ہمت  کے پیکر ہیں جنہوں نے کتاب کو بڑی طاقت کے ساتھ پکڑا ۔اور اللہ تعالٰی بہت زیادہ برکتیں نازل فرمائے جس سے لوبان کی خوشبوئیں مہکیں ۔

اما بعد!

اے مومنوں ! اللہ سے ڈریں اور نعمت کی تکمیل اور مقصد کے حصول پر اللہ کا شکر ادا کریں ۔کیونکہ اُس کی مدد ہی سے کسی خیر کو پایا جاسکتا ہےاور اُس کے فضل ہی سے اُس خیر کےثواب کو حاصل کیا جاسکتاہے ۔اُس نے جو کچھ عطا کیا اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور اس نے جو روکا ہے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں ۔اس نے جو جاری کیا اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور اس نے جو بند کیا اس کاکوئی جاری کرنے والا نہیں۔

اس کی ذات پاک ہے ہر خیراس کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں ، اس کا چہرہ سب سے معزز چہرہ ہےاور اس کی جاہ سب سے عظیم جاہ ہےاور اس کی نوازش سب سے افضل نوازش ہے۔ اس کی نعمتوں کاکوئی بدلہ نہیں دے سکتا اور اس کی تعریف کوکسی سخن ور کا کلام پہنچ نہیں سکتا۔مومنوں جامع اور روشن ترین فضائل ، معزز اور بلند ترین خصائل میں سے بلند ہمت اور تابناک عزائم ہیں یہ بلند چیزوں میں مشغول رہنے اور کمالات سے کم تر چیزوں کو حقیر سمجھنے پر ابھار تے ہیں سو جس کی ہمت بلند ہے وہ بلند چیزوں کو ہی اختیار کرے گااور جس کی ہمت پست ہے وہ گھٹیا چیزوں کے دائیرے میں ہی گھومتا رہے گا۔

اللہ کے بندوں ! عزم و ہمت کی بلندی ہر خوبصورت چیز کی طرف لے جانے والی اور ہر اچھی چیز کی طرف بلانے والی ہے۔ یہ اہلِ کمال کا وصفِ لازم ہے اور سنجیدہ و مستعد لوگوں کی راسخ خصلت ہے ۔آپ کوئی ایسا نام ور شخص نہیں پائیں گے جو پست ہمت و کوتاہ عزم اور سست کوشش کا حامل ہو۔عزم و ہمت ولا شخص جب ارادہ کر لے تو سچ کر دکھاتا ہےاور جب عزم کرے تو پورا کرتا ہے،کوئی قصد کرے تو کر گزرتا ہے اور جب چلے تو سبقت لے جاتا ہے۔ وہ نا مشکلات کی پرواہ کرتا ہے نہ مصیبتیں اسے روکتی ہیں اور نہ بیماریاں اسے کمزور کرتی ہیں۔

بلند ہمتی جیسی کوئی خصلت نہیں ہے جس کا حامل شخص سرداری کا مستحق ہو۔بلند ہمت قوم کا سردار ،گھر والوں کا پیشوا ساتھیوں کا لیڈر اور مجلس کا صدر ہوتا ہے۔ اور لوگ اس معاملے میں مختلف اقسام اور الگ الگ سوچ کے حامل ہیں ۔ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے دلوں میں ہمت بلند ہے اور جن کے نفسوں میں عزم و ارادہ جوشیلا ہوتاہے لیکن وہ اسے نہ کسی عمل کے ذریعے آگے دھکیلتے ہیں اور نہ کسی کوشش کے ساتھ اسے جوڑتے ہیں ایسے لوگ زیادہ آرزو والے اور کم محنتی ہوتے ہیں ۔اور بغیر عمل کے آرزؤئیں کسی چٹیل میدان کے سراب کی طرح ہیں یا بنا بار ش کے بجلی کی طرح ہیں۔

ان میں سے کچھ پست ہمت  لوگ کمزور ارادہ اور شکستہ عزم کے ہوتے ہیں ایسے لوگ بے کار کاموں میں مشغول ہوتے ہیں اور ان چیزوں پر اکتفا کرلیتے ہیں جن پر غیر ذمہ دار چوپائے اکتفا کرتے ہیں ۔وہ نہ کسی کارنامے پر توجہ دیتے ہیں نہ کسی کارِ خیر کی طرف گامزن ہوتےہیں اور نہ وہ اپنی عقلوں کو چمکانے اور نہ اپنی روحوں کو سیراب کرنے کی امید کرتے ہیں ۔ان کی فکر کھانے پینے اور لذت حاصل کرنے تک محدود ہوتی ہے۔ وہ شکل میں انسان تو ہیں پر حقیقت میں حیوان ہوتےہیں ۔


یہ بھی پڑھیں: بلندیوں کے حصول کی کوشش


اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی ہمت بلند جن کا ارادہ پختہ اور جن کی کوشش پیہم ہوتی ہے۔ مگر وہ اپنی ہمت کو کسی خاص کام یا کسی خاص بات پر محصور کردیتے ہیں ۔ایسے لوگ اچھا کرنے والے ہیں  مگر ہیں کوتاہ۔

اللہ کے بندوں ! لوگوں میں سب سے کامیاب وہ بندہ ہے جو بلند چیزوں کا ارادہ کرے ان کی طرف صبح و شام تیز چلے ،وہ ذاتِ ذوالجلال سے توفیق و ہدایت مانگے جو نفس کو زندگی اور روح کو طاقت دینےوالی ہے۔ اس کی فکر ہر شریف مطلب اور بلند عزت ہو،وہ نہ کمزور پڑے اور نہ کوتاہی کرے۔ پھر اس کی ہمت کی غایت اور عزیمت کی انتہادل کی درستگی، نفس کی بیماریوں کا علاج مقصد ِ اول کے ساتھ آخرت کا قصد و ارادہ اور اس کی پوری فکر اور اس کے اعلیٰ مرتبہ معزز ترین مقام اور کامل ترین  نعمت کے حصول کا پورا عزم و ارادہ ہو۔

 اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ نے بلند ہمتی کے اعلیٰ درجے کی رہنمائی کرتے ہوئےاور اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو،وہ جنت کا عمدہ ترین اور بلند ترین مقام ہے اور اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے۔ اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ رواہ البخاری

اللہ کی قسم ! عقلمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کی قیمت جنت کے سوا کچھ نہ سمجھے۔ مومنوں ! بلند ہمتی اس بات کی محرک ہے کہ آدمی خیر کے راستوں  میں سے ہر راستے پر اپنی حصے داری درج کرائے۔ اور تھوڑے خیر سے زیادہ خیر کی نسبت بے نیاز نہ ہو۔ اور یہ ارباب ِ کمال کا شیوہ ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے پوچھا:  تم میں سے کس نے آج روزے کی حالت میں صبح کی ؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا  “میں نے” آپ ﷺ نے پوچھا: تم  میں سے کون آج جنازے کے پیچھے چلا؟  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ،آپ ﷺ نے پھر پوچھا : تم میں سے کس نے آج مسکین کو کھانا کھلایا ؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے، آپ ﷺ  نے پھر پوچھا : تم میں سے کس نے آج مریض کی عیادت کی ؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کسی آدمی میں یہ خصلتیں جمع نہیں ہوئیں سوائے اس کہ کہ وہ شخص جنت میں داخل ہوگیا۔رواہ مسلم

یہ ہے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بلند ہمتی ۔ اور اگر یہ شان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نہ ہو تو  کس کی ہو۔اللہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے۔ 

لوگوں ! یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عملی نمونہ  اللہ کی کتاب اور اللہ  کے رسول ﷺ کی روشن تعلیمات کا محور ہےاور یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ کیونکہ تدبر اور سمجھ کے ساتھ کتاب اللہ کی تلاوت عزائم کو مہمیز اور طبیعتوں کو دو آتشا کرتی ہے ۔اس لیے کہ اس کی آیات میں سے ہر آیت یا تو فضیلت  کی طرف بلاتی ہے یا رذائل سے ڈراتی ہے  جس سے نفس میں فرمانبرداری کے لئے آمادگی اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس میں بلند ہمت زندہ ہوتی ہے۔ اور جوشیلے نفس  کی چنگاری سلگنے لگتی ہے ۔ 

بعض اہلِ علم نے کہا:  قرآن دلوں کو ہمت کے عزم سے بھر دیتا ہے۔ یہ وہ عظمت ہے جس نے اس کے دوستوں کو دائیں بائیں بھیجا پھر وہ ایسے تختوں پر آئے جو ظالم  تھی انہوں نے ان تختوں کو زمین سے اکھاڑ پھینکا پھر انہوں نے انصاف کا جھنڈا بلند کیا اور علوم کی لہریں پوری طرح جاری کیں ۔ اگر ہم بعض قراء میں کمزور عزائم دیکھتے ہیں تو اس لئے کہ انہوں نے قران کی آیتوں میں تدبر نہیں کیا اور اس کے اسرار کو نہیں سمجھا ۔ قرآن نے امت کی تربیت کی  اسے ادب سکھلایااس کے نفس کو پاک کیا اس کی طبیعت کو صاف کیا اس کی ذہانت کو دو آتشا کیا اس کی صلاحیتوں کو جلابخشی، اس کے عزئم کو تیز کیا ،اس کی ہمتوں کو بلند کیااور اس کے ارادوں کو مضبوط کیا ۔

یہ قرآن امت کے ساتھ لگاتار رہا یہاں  تک کہ بکریوں کے چرواہوں میں سے قوم کے رہنما نکالے اور لاعلمی  کی گمنامی سے علم و حکمت کے  منارے  بنائے ۔ اس قرآنی روح کی بدولت یہ نفوس آگے بڑھےاور ملکوں سے پہلے سماعتوں کو فتح کیا اور عدل و انصاف کے ذریعے جسموں سے پہلے روحوں کے مالک بنے مگر قرآ ن مجید کا راز نہ سوختہ حفظ میں ہے اور نہ اس مفلوج تلاوت میں ہے  بلکہ پورا راز قرآن مجید پر تدبر کرنے اور اسے سمجھے اس کی پیروی کرنے اور اس کے طریقے پر چلنے اور اس کے آداب کو اپنانے میں ہے۔

اللہ تعالٰی مجھے اور آپ کو قرآن مجید کے طریقے اور نبی کریم ﷺ کی سنت  سے فائدہ پہنچائے۔میں اپنی یہ بات کہ رہاہوں اور اللہ سے ہر گناہ و خطا کی مغفرت طلب کرتاہوں۔ آپ اس سے مغفر ت طلب کریں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کریں بیشک میرا رب قریب اور قبول کرنے والا ہے۔

دوسراخطبہ:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالٰی کے لئے ہے جو امید تک پہنچا تا ہے اور عمل میں برکت دیتا  ہے۔ میں اس پاک ذات کی حمد کرتا ہوں وہ حمد کےلائق و اہل ہے ۔ اور میں درود و سلام پڑھتا ہوں محمد رسول اللہ ﷺ پر جو بہترین دین کے ساتھ بھیجے گئے ہیں ۔ان کے اہلِ بیت و اصحاب کرام پر جو اہلِ زیبائش و زینت ہیں اور اللہ تعالی لا تعداد سلامتی نازل فرمائے ۔

اما بعد!

مومنوں ! مومن کے دل میں بلند ہمتی پیدا کرنے والے اسباب میں سے کامل ترین اسباب میں سے کم تمنا کرنا اور دنیاکے جلدی فنا ہونے کو یاد رکھنا ہے۔ بندہ جب یہ جان جائے اور اس کا یقین کرلے تو بلند چیزوں پر اس کا عزم مرکوز ہوجاتاہے چھوٹی چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے  بھلائیوں کی طرف آگے بڑھتا ہے اور عزتوں کے حصول کے لئے تیزی دکھاتا ہے ۔

شاعر کہتا ہے کہ:

دنیا میں امیدوں کو کم کروکامیاب ہوگے
اور عقلمندی کی دلیل ہے امید کم کرنا

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایات ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے کندھوں کو پکڑکر فرمایا: تم دنیامیں اسے رہو جیسے تم اجنبی ہو یا مسافر ۔رواہ البخاری۔اور یہ اضافہ کیا کہ “ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ جب تم شام کرو  تو صبح کا انتظار مت کرواور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرواور اپنی صحت سے اپنی بیماری کے لئے اور اپنی زندگی سے اپنی موت کے لئے توشہ لے لو۔”

یہ حدیث حافظ ابن ِ حجر رحمہ اللہ کے بقول  دنیامیں اپنی امیدوں کو کم کرنے کی اصل ہےاور یہ کہ ایک مومن کے لئے زیبہ نہیں کہ وہ دنیا کو اپنا مسکن بنالے اور اس میں مطمئن ہوجائے بلکہ اسے چاہیئے  کہ اس  میں اس طرح رہے جیسے وہ حالتِ سفرمیں ہو اور کوچ کے لئے اپنا سامان تیار کررہا ہو۔

اس پر انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی وصیتیں متفق ہیں  اللہ تعالٰی نے آل ِ فرعون کے مومن کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ

غافر – 39

اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے، (یقین مانو کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ  کی بات کتنی اچھی ہے ،انہوں نے کہا : اللہ کی ملاقات کے لئے بندے کی استقامت  سب سے مفید اور بلند و بلیغ   ترین سبب ہے۔کیونکہ جو اللہ تعالٰی سے ملاقات کے لیے تیار رہا اس کا دل دنیا اور اس کے تقاضو ں سے الگ ہوگا۔ اس کے نفس سے شہوتوں کی آگ بجھ جائےگی وہ اپنے دل کو اللہ کے لیے یکسو کردےگااور اس کی ہمت اللہ پر مرکوز ہوجائےگی ۔الغرض اللہ سے ملاقات کیے لئے سچی تیاری  تمام نیک اعمال اور ایمانی حالت کی کنجی ہے ۔ اور یہ کنجی علیم و فتاح  یعنی دانا و علم و حکمت والے کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اورنہ کوئی رب ہے  ۔

آپ سب درود و سلا پڑھیں اللہ کے خاص و مقر ب بندے پر جس کا ذکر اللہ کے ذکر کے ساتھ دنیا میں بلند کیا جاتا ہے اور جو آخرت میں شافی و مشفا ء ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والوں  تم بھی ان پر درود  پڑھتے رہا کرو۔

اے اللہ تو  درور و سلام نازل فرما اپنے نبی کرم محمد ﷺ پر اور تو راضی ہوجا ان کے چاروں خلفاء راشیدین ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاور ان تما م سے جو ان کی اچھی طرح اتباع کریں ۔یاکریم  یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ بندر بلیلة حفظه اللہ 
بتاریخ 9 شوال 1442هـ  بمطابق 21 مئی 2021

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ بندر بلیلۃ حفظہ اللہ