بارات کا تصور، مفاسد اور حل

شادیوں میں بارات کا رواج کب سے شروع ہوا؟ یعنی پورے خاندان،برادری اور دوست احباب کا ایک جم غفیر اور انبوہ کثیر کو لے کر لڑکی والوں کے گھر جانا ۔

تاہم یہ بات توواضح ہے کہ عہد رسالت وعہد صحابہ وتابعین یعنی دور خیر القرون میں اس کا نام ونشان نہیں ملتا ، صرف گھر کے چند افراد جاتے اور خاموشی اور سادگی کے ساتھ گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر نکاح پڑھ کے لڑکی کو اپنے ہمراہ لے آتے ، شرعاً نکاح میں اعلان ضروری ہے اور یہ اعلان طرفین کے گھر والوں کے سامنے ہوجاتاتھا نیز ولیمے میں مزید لوگوں کے علم میں آجاتا ، اب جو بارات کا عام رواج ہے جس کے بغیر شادی کا تصور بھی ممکن نہیں اس کے بے شمار مفاسد ہیں ، ان میں سے چند بڑے مفاسد حسب ذیل ہیں۔

(1) سارے دوست احباب اور خاندان اور برادری کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنا،اسراف(فضول خرچی) ہے، پہلے خود لڑکے والوں کو تمام مہمانوں کے بیٹھنے اور خاطر تواضع کا انتظام کرنا پڑتا ہے ، قریبی رشتے داروں کے لیے تو یہ انتظام کئی کئی دن کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان سب کو ساتھ لانے اور لے جانے کے لیے بسوں اور گاڑیوں کا انتظام اس پر مستزاد۔ اس سے بھی پہلے شادی کارڈوں کی اشاعت کا مسئلہ آتاہے ، پہلے تو سادہ سے کارڈ چھپوا کر اطلاع کا اہتمام کر لیا جاتا تھا ، اب اس میں بھی پیسے والوں نے بڑی جدتیں اختیار کر لی ہیں اور اتنے اتنے گراں کارڈ چھپنے لگے ہیں کہ ان کو دیکھ کر اس قوم کی فضول خرچی پر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں زیادہ قریبی رشتے دار( بہنیں اور بیٹیاں اور ان کی اولاد) تو کئی کئی دن پہلے آکر شادی والے گھر میں ڈیرے ڈال لیتی ہیں اور مختلف رسموں(مایوں،مہندی وغیرہ) کے علاوہ کئی کئی راتیں مسلسل ڈھولکیاں بجاتیں اور اہل محلہ کی نیندیں خراب کرتی ہیں۔

پھر نکاح والے دن بقیہ خاندان اور احباب وغیرہ جمع ہوکر ایک لاؤ لشکر کی صورت میں لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں جس کی ضیافت اور ٹھہراؤ کے لیے کسی شادی ہال یا کسی بڑی مکان کا انتظام لڑکی والوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح ان کو ایک بہت بڑا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ، جن کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے ان کےلئے تو یہ بوجھ کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن جن کے پاس زیادہ وسائل نہیں ہوتے ان کو بھی خواہی نخواہی یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے چاہے وہ زیر بار ہوجائیں اور اس بوجھ کے اتارنے میں وہ سالہا سال پریشان رہیں۔

(2) جب لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور اللہ سے بے خوفی کے نتیجے میں یہ تصور بھی عام ہے کہ یہ خوشی کا موقع ہے اس وقت جو چاہیں کر لیں ، اس کا جواز ہے ، چنانچہ بڑی بڑی شیطانی حرکتیں کی جاتی ہیں اور باراتی ان سے خوب محظوظ ہوتے ہیں ، اس طرح سب گناہ میں شریک ہوجاتے ہیں ، بلکہ اکثر اوقات لڑکی والوں کی طرف سے بھی ان کا مطالبہ اور اصرار ہوتا ہے ، یوں دونوں خاندان اور ان کے سارے عزیز واقارب اجتماعی طور پر نہایت دھڑلے سے اللہ کی نافرمانیاں کرتے اور شریعت اسلامیہ کی دھجیاں اڑاتے ہیں جب کہ اسلامی تعلیم کی رو سے انفرادی گناہ جو خفیہ اور چھپ کر کیا جائے اگرچہ وہ بھی گناہ ہے لیکن اگر کوئی گناہ کا کام کھلم کھلا لوگوں کے سامنے کیا جائے ، تو اس جرم کی شناعت وقباحت کئی گنابڑھ جاتی ہے ۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے ۔

كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ

صحیح البخاری ، کتاب الادب، باب ستر المؤمن علی نفسة

’’ میری امت کے سارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں سوائے ان گناہ گاروں کے جو کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والے ہوں گے۔‘‘

اجتماعی طور پر کیے جانے والے یہ گناہ جو باراتیوں کے ہجوم میں اور ان کی وجہ سے کیے جاتے ہیں، حسب ذیل ہیں :

بینڈ باجوں کا اہتمام جن کی شیطانی دھنوں سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں حتی کہ ان پر نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے جس کا نام ویل دینارکھا ہوا ہے۔

آتش بازی جو’’گھر پھونک،تماشہ دیکھ‘‘ کی مصداق ہے ، ہزاروں روپے اس پر اڑادیے جاتے ہیں۔

ہوائی فائرنگ، جس کی زد میں آئے دن بعض باراتی یا اڑوس پڑوس کے لوگ آجاتے ہیں اور موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بھنگڑا اور لڈیاں ڈالنا، اس کا رواج بھی بڑھتا جارہاہے حتی کہ بعض باراتیوں میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ خواتین بھی اس میں شریک ہوجاتی ہیں۔

پیسے لٹانا، پہلے تو ریزگاری کی شکل میں تھوڑی سی رقم ہی اس پر خرچ ہوتی تھی ، اب یہ رسم نوٹوں تک پہنچ گئی ہے جس سے اس مد پر بھی ہزاروں روپے برباد کیے جاتے ہیں۔

ہیں جن کا بوجھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتاہے ،یہ بھی فضول خرچی ہی کی ایک مد ہے۔

یہ بارات جب لڑکی والوں کے ہاں(ہال یا گھر میں) پہنچتی ہے تو نوجوان لڑکیاں اور یکسر بے پردہ عورتیں دونوں طرف ہاتھوں میں پھولوں کے تھال پکڑے ہوئے دولہا اور باراتیوں کا استقبال کرتی ہیں اور ان پر گل پاشی کرتی ہیں، یہ بھی بے پردگی کی ایک ایسی بے ہودہ رسم ہے جس کی توقع کسی مسلمان مرد عورت سے نہیں کی جاسکتی۔

بارات کے ساتھ کرائے کے مووی میکر ہوتے ہیں جو ان ساری خرافات کو بھی اور ہال میں ہونے والے ساری کارروائی کو بھی(نکاح کی تقریب سے لے کر دلہن کی رخصتی تک) فلم بند کرتے ہیں اور ایک ایک سین کو بالخصوص خواتین کے مختلف پوزوں کو اور دلہن کے ایک ایک پوز کو محفوظ کرتے ہیں اور بعد میں دونوں خاندانوں کے گھروں میں بے حیائی کے ان مظاہر کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتاہے۔

بارات میں خواتین کا بھی ایک ریلا شریک ہوتا ہے جو سب بے پردہ،نہایت بھڑ کیلے،زرق برق ، حتی کہ عریاں اور نیم عریاں لباس میں ملبوس ، نہایت بے ہودہ میک اپ اور سولہ سنگھار سے آراستہ اور زیورات میں لدی پھندی ہوتی ہیں گویا وہ شادی کی ایک بابرکت تقریب میں نہیں بلکہ وہ مقابلہ حسن یا آرائش وزیبائش اور بے پردگی وبے حیائی کے مقابلے میں شریک ہونے کے لیے جارہی ہیں۔

اب بہت سی جگہوں پر مخلوط اجتماع بھی ہونے لگے ہیں ، یعنی مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حصے نہیں ہوتے، کھانے کا الگ الگ انتظام نہیں ہوتا بلکہ بغیر کسی تفریق اور پردے کے مرد اور عورت کے لیے ایک ہی ہال اور کھانے کی میزیں بھی مشترکہ  

إنَّا للهِ وإنَّا إليهِ رَاجِعُونَ

آخر میں مراثیوں کا ایک غول آجاتا ہے جو الٹی سیدھی ہنسانے والی باتیں ہانک کر اور بڑکیں مار کر باراتیوں سے (ویلیں) وصول کرتے ہیں۔

اور بعض جگہ اور بعض خاندانوں میں مجرے کا رواج ہے۔ مخنث(ہیجڑے) نسوانی لباس اور نسوانی ناز وادا اور ناچ گاکر باراتیوں کا دل لبھاتے ہیں اور ان سے خوب ویلیں وصول کرتے ہیں اور باراتی ان پر بھی نوٹوں کی بارش برساتے ہیں۔

کھانے کے موقعے پر بھی اکثر وبیشتر عجیب ہڑبونگ مچتی ہے ، کھانے پر لوگ اس طرح ٹوٹ کر پڑتے ہیں ، جیسے مویشیوں کو چارہ کھر لی میں ڈال کر چھوڑ دیا جاتاہے اور وہ

﴿يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ﴾

[ محمد : 12 ]

کے مصداق ہوتے ہیں یا جیسے بھوکے گد ہوتے ہیں یا جیسے ایسی وحشی اور گنوار قسم کی قوم کے افراد ہوں جن کو کبھی کھانا نصیب نہیں ہوا یا جن کا کوئی تعلق تہذیب وشائستگی سے نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ہر شخض اپنی اپنی پلیٹوں کو اس طرح بھر لیتا ہے کہ اکثر وہ اس سے کھایا ہی نہیں جاتا اور آدھی آدھی پلیٹیں بھری ہوئی چھوڑ دیتے ہیں ، وہ سارا کھانا کوڑے میں پھینک دیا جاتاہے حالانکہ اس صورت حال کے پیش نظر میزبان ضرورت سے زیادہ وافر مقدار میں کھانا تیار کرواتا ہے اور یہ اندیشہ قطعاً نہیں ہوتا کہ کسی کو کھانا نہیں ملے گا ، بعض دفعہ کسی میز پر بیرے کو دوبارہ کھانا لانے میں ذرا دیر ہوجاتی ہے تو لوگ معمولی سا انتظار کرنے کے بجائے ہوٹنگ شروع کردیتے ہیں، بد اخلاقی اور تہذیب وشائستگی سے عاری یہ مظاہراتنے عام ہیں کہ ہم ان تقریبات میں غیر مسلم اشخاص کو بلانے کی جسارت نہیں کر سکتے کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر ہم مسلمانوں کے اخلاق وکردار کے بارے میں کیا تاثر قائم کریں گے کہ یہ اسی مسلم قوم کے وارث ہیں جن کے اسلاف نے دنیا کو مکارم اخلاق اور تہذیب وشائستگی کا درس دیا تھا اور جن کے پیغمبر بھی خلق عظیم کے مالک تھے اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم ہی کے لیے مبعوث ہوئے تھے جس کے بہترین نمونے ان کے پیروکاروں(صحابۂ کرام وتابعین عظام) نے دنیا کے سامنے پیش کیے اور دنیائے انسانیت میں معلم اخلاق کے نام سے معروف ہوئے۔

یہ سارے مظاہر جن کے کچھ نمونوں کی تفصیل آپ کے سامنے پیش کی گئی ، ایک تو سراسر اسراف وتبذیر میں داخل ہے جن کے مرتکبین کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اخوان الشیاطین(شیطانوں کے بھائی)قرار دیا ہے ۔

دوسرے قدم قدم پر اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب ہے ۔

تیسرے ڈنکے کی چوٹ پر علانیہ بڑے بڑے گناہوں کی جسارت ہے جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں کی جاسکتی۔

چوتھے ، بداخلاقی اور بدتہذیبی کے مظاہر ہیں جن کی توقع کسی بھی مہذب اور شائستہ قوم سے نہیں کی جاسکتی ،چہ جائیکہ اسلام کے ماننے والے ان کا ارتکاب کریں؟

تمام مذکورہ خرافات کے بعد آخر میں فوٹو سیشن ہوتا ہے جس میں مرد وعورت سب اسٹیج پر یا اور کسی نمایاں جگہ پر جمع ہوتے اور باری باری دولہا اور دلہن کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہیں یہ سراسر بے پردہ اور مخلوط اجتماع ہوتاہے۔

ان تمام مفاسد اور خرابیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ اور ایک ہی حل ہے کہ باراتوں کا سلسلہ ختم کیا جائے ، دولہا کے ساتھ خاندان کے چند لوگ لڑکی والوں کے گھر جائیں ، لڑکی والے بھی اپنا پورا خاندان جمع کرنے کی بجائے چندضروری افراد ہی کو اس تقریب میں شریک کریں اور گھر کے ایک کمرے ہی میں نکاح کرکے حسب استطاعت مہمانوں کی ضیافت کرکے اپنی بچی کے ہمراہ ان کو رخصت کر دیں اس طرح اس تقریب کے لیے نہ شادی ہال کی بکنگ کی ضرورت ہوگی ، نہ مہمانوں کے لیے درجنوں کے حساب سے دیگوں، مختلف ڈشوں اور دیگر اشیائے طعام کی نہ عورتوں کی بے پردگی وبے حیائی کا فتنہ اور نہ بینڈباجوں،آتش بازی اور نہ مووی فلموں کی حیا سوز فتنہ انگیزی اور نہ دیگر بے شمار خرابیوں کا ظہور جس کی تفصیل گزشتہ سطور میں پیش کی گئی ہے۔

﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾

[ القمر : 17 ]

کیا کوئی ہے ان نصیحتوں پر کان دھرنے والا؟ سادگی اور اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے والا ؟ اور لوگوں کی ناراضی اور لومۃ لائم(ملامت گروں کی ملامت سے) سے بے خوف ہوکر صرف اللہ کو راضی کرنے والا؟


بارات میں عورتوں کی شرکت کے مزید مفاسد

لڑکی والوں کے گھر جاتے وقت سوائے گھر کی خواتین کے (بیٹے کی ماں اور بہنوں کے) خاندان کی عورتوں اور دوست احباب کی بیگمات کو قطعاً ساتھ نہ لے جایا جائے اس لیے کہ بارات میں عورتوں کی شرکت بھی بے شمار مفاسد کا باعث ہے۔

عورتوں میں سادگی کا تصور بالکل ختم ہوگیا ہے ، حالانکہ حکم یہ ہے کہ عورتیں بالکل سادہ لباس میں باپردہ گھر سے باہر نکلیں، جب کہ ہوتا یہ ہے کہ خاندان میں کسی کی شادی کی اطلاع ملتے ہی گھر کی خواتین مردوں کو مجبور کرتی ہیں کہ گھر میں( بچیوں اور بیوی سمیت) تمام خواتین کے لیے کم از کم دو دو سوٹ اعلیٰ قسم کے تیار کیے جائیں ، ایک نکاح والے دن اور دوسرا ولیمے والے دن کے لیے کیونکہ خاندان کی ساری عورتوں نے ان کو دیکھنا ہے ، دونوں دن ایک ہی سوٹ میں اور سادہ لباس میں ملبوس ہونے کی صورت میں ان کی سبکی ہوگی۔

محدود آمدنی والے مرد کے لیے اپنے محدود بجٹ میں اس کے لیے گنجائش نکالنا بڑا مشکل ہوتاہے ، علاوہ ازیں لباس اور اس کی سلائی کے علاوہ ، سادگی کا تصور ختم ہونے کی وجہ سے ، میک اپ اور سولہ سنگھار کا سامان کا بھی مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے اور آنے جانے کے لیے کرائے کی گاڑی بھی ضروری ہے ۔

جو صاحب حیثیت گھرانے ہیں ان کی بیگمات کا ، مذکورہ اخراجات کے علاوہ ، زیورات کے نئے طلائی سیٹ کا مطالبہ ہوتا ہے ، گھر میں پہلے جو سیٹ بلکہ بعض کے ہاں کئی کئی سیٹ ہوتے ہیں ، ان کا کہنا ہوتا ہے وہ پرانے ہیں یا فلاں کی شادی میں میں نے وہ پہنے تھے ، اب وہی سیٹ اس شادی میں میں نے نہیں پہننا ہے اور آج کل کے زن مرید قسم کے شوہر یہ مطالبہ بھی پورے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اور اب بہت سی خواتین میک اپ کے لیے بیوٹی پارلروں کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں اور وہاں سے اپنے بال، چہرہ اور ہر چیز سیٹ کروا کر شادیوں میں شریک ہوتی ہیں تاکہ وہ لباس اور زیورات ہی میں نہیں بلکہ حسن وجمال اور آرائش وزیبائش میں بھی یکتا اور ممتاز نظر آئیں، پھر ان تکلفات وتصنعات میں پردے اور نماز پڑھنے کا اہتمام کیوں کر ممکن ہے ؟ چنانچہ ہماری شادیوں میں ان سب کا تصور ختم ہوگیا ہے ، پردہ کریں گی تو آرائش وزیبائش کے یہ مناظر لوگوں کو کب نظر آئیں گے ؟ اور نماز کے لیے وضو کریں گی تو میک اپ کا یہ کرشمہ ’مصنوعی حسن‘ بہہ جائے گا اور چہرے کی اصل رنگت اور اصل خدوخال نمایاں ہوجائیں گے۔

یہ عورتیں جب شادی والے گھر یا شادی ہال میں اکٹھی ہوتی ہیں تو ان کی نظریں دیگر تمام عورتوں کے لباس،زیورات اور میک اپ کا جائزہ لیتی ہیں اگر وہ ان سب میں ممتاز ہوتی ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے ، شیطان ان کے اندر تفاخر اور تکبر کا احساس اور اپنے سے کمتر عورتوں کی تحقیر کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو سادہ مزاج قسم کی عورتوں کی بابت اس قسم کے تبصرے بھی ان کے نوک زباں پر آجاتے ہیں کہ فلاں کو دیکھو! اللہ نے ان کو سب کچھ دیا ہے لیکن یتیموں اور فقیروں کے سے لباس میں یہاں آئی ہیں ، یعنی یہ سادگی ، جو اللہ کو پسندہے ، شیطان صفت ان عورتوں کو بری لگتی ہے۔

یہ عورتیں ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو اکثر وبیشتر ان کی باہم گفتگو کا موضوع ایک دوسرے کی غیبت اور ایک دوسرے پر لعن طعن ہوتا ہے ، اللہ کا ذکر شاذ ونادر ہی ان کی زبانوں پر آتا ہے ۔

مووی فلم میں ، جو آج کل شادیوں کا(بارات میں بھی اور ولیمے میں بھی) ایک لازمی حصہ بن گیا ہے ، ان بے پردہ فیش پرست عورتوں کے ایک ایک سین کو محفوظ کرکے ان کے حسن وجمال اور بناؤ سنگھار اور لباسوں کی تراش خراش بلکہ عریانی ونیم عریانی کو عام کرکے دونوں خاندانوں میں ان کی نمائش کا اہتمام اور ان کا چرچا ہوتا ہے حالانکہ عورتوں کی یہ ساری خوبیاں اور آرائش وزیبائش کی ساری صورتیں صرف خاوند کے لیے جائز اور اسی کے لیے مخصوص ہیں۔ لیکن بے چارہ مرد تو اپنی بیوی کو اپنے گھر میں بالعموم اس کے برعکس حالت میں دیکھتا ہے کیونکہ عورتیں اپنے خاوند کے لیے اس طرح کی آرائش وزیبائش کا اہتمام نہیں کرتیں جب کہ ان کو ان کے سامنے بناؤ سنگھار کرنے کی نہ صرف اجاز ہے بلکہ حکم ہے لیکن جب ان کو باہر جانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس طرح بن سنور کر نکلتی ہیں کہ اللہ کی پناہ، بالخصوص شادیوں میں تو اس کی بے پردگی،اس کا نیم عریاں لباس، میک اپ ، غازہ ولپ سٹک، اس کی ایک ایک حرکت وادا ایک غارت گردین وایمان اور رہزن تمکین وہوش، کسی الھڑ حسینہ، دل ربا چنچل بازاری عورت سے کم نہیں ہوتی حالانکہ حکم یہ ہے کہ عورت جب گھر سے باہر نکلے تو باپردہ اور سادگی سے نکلے حتی کہ اس کی خوشبو کی مہک بھی کسی مرد کو محسوس نہ ہو ۔

ایک حدیث میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا رِيحَهَا فَهِىَ زَانِيَةٌ

سنن النسائی ، کتاب الزینة، باب ما یکرہ للنساء من الطیب ، سنن أبی داؤد ، کتاب الترجل ، باب فی طیب المرأۃ للخروج ،

’’ جو عورت خوشبو لگا کر (باہر نکلتی ہے اور) لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونکھ لیں تو وہ بدکار ہے۔‘‘

احادیث میں ایک دفعہ بیان ہوا ہے کہ ایک عورت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزری تو انہوں نے اس سے خوشبو مہکتی ہوئی سونگھی، انہوں نے پوچھا: اے اللہ کی بندی! کیا تو مسجد میں آئی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ انہوں نے کہا : اور مسجد میں آنے کے لیے تو نے خوشبو لگائی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ آپ نے فرمایا : میں نے اپنے محبوب پیغمبر ابو القاسم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ہے ۔

لا تُقْبَلُ صَلاةٌ لامْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ لِهَذَا الْمَسْجِدِ، حَتَّى تَرْجِعَ فَتَغْتَسِلَ غُسْلَهَا مِنَ الجَنَابَةِ

سنن ابی داؤد ، کتاب الترجل ، باب ماجاء فی المرأۃ تتطیب للخروج

’’ اس عورت کی نماز مقبول نہیں جو خوشبو لگا کر مسجد میں آتی ہے جب تک کہ وہ واپس جاکر اس طرح کا غسل نہ کرے جو جنابت کا غسل ہوتاہے۔‘‘

اس سے اسلامی تعلیمات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عورت کو مسجد میں جانے کے لیے بھی خوشبو لگا کر جانے کی اجازت نہیں ہے تو دوسری کسی بھی جگہ معطر اور مزین ہوکر جانے کی اجازت کس طرح ہوسکتی ہے؟ اور جو اس طرح جاتی ہے اس کے دل میں اسلامی تعلیمات کا احترام اور ان پر عمل کا جذبہ کتنا ہے ؟

  نکاح کے بعد عورتوں کے اجتماع اور حصے میں ایک اور رسم کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے اور وہ ہے کہ دولہا میاں اپنے دوستوں کے ہمراہ اس حصے میں جاتے ہیں اور وہاں دولہا دلہن کو ایک ساتھ بٹھا کر تمام خواتین کے سامنے دودھ پلائی کی رسم ادا کی جاتی ہے اس کے علاوہ دولہا دلہن سب کے سامنے ایک دوسرے کے منہ میں مٹھائی ڈالتے ہیں ، اس موقعے پر دونوں خاندانوں کی خواتین کے علاوہ لہا کے قریبی دوست بھی وہاں موجود ہوتے ہیں ۔ستم ظریقی کی حد یہ ہے کہ دیندار خاندانوں میں بھی اس رسم کو معیوب نہیں سمجھا جاتا اور اسے بلا تکلف ادا کیا جاتاہے حالانکہ دولہا بھی سوائے پھوپھی،خالہ یا اپنی ماں ، بہنوں اور ساس کے تمام عورتوں کے لیے غیر محرم ہے ، دولہا کے ساتھ اس کے دوست بھی اس موقع پر موجود ہوتے ہیں جو دلہن سمیت تمام خواتین کے لیے غیر محرم ہوتے ہیں لیکن سب کے سامنے بے حیائی کی یہ رسم ادا کی جاتی ہے اور ویڈیو والے یہاں بھی یہ تمام مناظر فلمانے کاکام جاری رکھتے ہیں۔

  دلہن کی رخصتی کے وقت بھی عجیب عجیب مناظر دکھائی دیتے ہیں حتی کہ بعض خاندانوں میں قرآن پکڑ کر اسے دلہن کے سر پر چھتری کی طرح تان کر قرآن کا اس پر سایہ کیا جاتا ہے گویا قدم قدم پر ہر کام میں اللہ کی نافرمانی اور قرآنی تعلیمات کی مٹی پلید کرنے کے باوجود ہم قرآن سے اس جذباتی تعلق کا اظہار کرکے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں ، یا اللہ ! دیکھ لے اس سب خود فراموشی اور خدافراموشی کے بعد بھی بطور تبرک تیرے قرآن کریم ہی کو استعمال کررہے ہیں۔ یہ قرآن کریم کے ساتھ کتنا بھونڈا مذاق ہے۔اعاذنا اللہ منہ

کیا روزِ محشر اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے نہیں پوچھے گا کہ کیا قرآن کریم میں نے صرف اس لیے نازل کیا تھا کہ تم اس کو حریر وریشم کے غلافوں میں لپیٹ کر گل دستۂ طاق نسیاں بنا کر رکھ دینا اور اپنے کاروبار میں ، معاملات زندگی میں اور اپنی معاشرتی تقریبات(شادی بیاہ وغیرہ) میں اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا، تاہم اس کو کبھی کبھی تبرک کے طور پر یا مردے بخشوانے اور کھانے پر فاتحہ پڑھنے کے لیے استعمال کر لیاکرنا۔

تاکہ تم اللہ کو ، دنیا کو اور اپنے نفسوں کو یہ دھوکہ دیتے رہو کہ تم قرآن کریم کو ماننے والے ہو ، سچ فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ۔

﴿يُخَادِعُونَ اللّٰهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ﴾

[ البقرۃ : 9 ]

ترجمہ:’’ یہ اللہ کو اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں اوران کو یہ پتہ ہی نہیں کہ دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔‘‘

  شادی کے اختتام پر مرد حضرات اپنی اپنی خواتین کو لینے کے لیے ہال کے گیٹ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ماشاء اللہ سب خواتین چونکہ بے پردہ ، ہر طرح کے فیشن سے آراستہ نیم عریاں لباسوںمیں ملبوس اور الٹے سیدھے میک اپ سے اپنے چہروں کو اور پلکوں کو بزعم خویش سجایا بھڑکایا ہوتا ہے تو کیا باہر نکلتے ہوئے یہ عورتیں مردوں کے سامنے سے بلا جھجھک نہیں گزرتی ہیں ؟ اور کیا مرد رنگ ونور کے اس سیلاب سے ، یا حسن وجمال کے اس جلوہ ہائے بے تاب سے یا بکھرتے اور دھنکتے اس قوس قزح سے محظوظ نہیں ہوتے؟ کیا بے حیائی وبے پردگی کے ان مناظر اور مظاہروں کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ اور جن مسلمان کہلانے والے مردوں نے اپنی بیگمات،بیٹیوں اور بہنوں کو اس بے حیائی کا مظہر بننے کی اور ’’بے حیا باش وہرچہ خواہی کن‘‘ کا مصداق بننے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ، کیا وہ اس کے ذمے دار نہیں ہیں؟ اگر وہ واقعی مسلمان ہیں تو کیا اس بے غیرتی کا ان کے پاس کوئی جواز ہے؟ کیا انہوں نے کبھی سوچاہے اسلام کی اس طرح مٹی پلید کرنے پر وہ اللہ کوکیا جواب دیں گے، بارگاہ الٰہی میں کس طرح سرخرو ہوں گے؟ کیا اس جواب سے ان کا چھٹکار ہوجائے گا کہ بیوی یا بیٹی نہیں مانتی تھی؟ یا ہمارے معاشرے کا رواج ہی یہ تھا کہ شادی بیاہ کے موقعے پر شریعت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا تھا ؟ یا اگر ہم اپنی خواتین کو سادہ لباس اور باپردہ لے جاتے تو لوگ ہمیں دقیانوسی خیال کرتے اور یہ پھبتی کستے۔

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ ، انہیں کچھ نہ کہو
کیا اس قسم کے جوابات سے ہماری چھوٹ ہوجائے گی؟

پس چہ باید کرد؟

بہر حال یہ صورت حال نہایت المناک ہے اور اہل دین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ، یہ کہا جاسکتاہے کہ سب شادیوں میں تو ایسا نہیں ہوتا ، بلاشبہ یہ بات صحیح ہے لیکن بات تو چند افراد یا چند شادیوں کی نہیں بلکہ قوم کی حیثیت مجموعی کی ہے۔ رسم ورواج اور بے حیائی کایہ طوفان اور دینی اقدار وروایات سے یکسر انحراف کا یہ سیلاب اتنا عام اور تیز ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے دین دار گھرانے اور خاندان بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں اور دولت اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ان کے اندر بھی دین کی پابندی کے بجائے شان وشوکت کے اظہار کا جذبہ بڑھتا جارہاہے ، اس کی وجہ سے بہت سی مذکورہ خرابیاں دین داروں کی خواتین میں بھی عام ہوتی جارہی ہیں ، مثلاً

امیرا نہ شان وشوکت کا اظہار ۔ ان کی خواتین نے ظاہری طور پر تو پردہ کیا ہوا ہوتا ہے لیکن پردے کے پیچھے وہی زرق برق لباس کی نمائش، زیورات کی نمائش، میک اپ اور آرائش کی نمائش ، تفاخر اور برتری کا احساس وغیرہ ۔

یہ چیزیں کمتر حیثیت کی خواتین کے اندر احساس محرومی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ فضول خرچی کے علاوہ معاشرے کے محروم طبقات کے اندر احساس محرومی کے جذبات پیدا کرنا بھی شرعی طور پر ناپسندیدہ ہے۔

پھر مائیں تو پردے کا کچھ اہتمام کرلیتی ہیں لیکن ان کے ساتھ ان کی نوجوان یا قریب البلوغت بچیاں ہوتی ہیں وہ اکثر بے پردہ بھی ہوتی ہیں اور مذکورہ فیشنی مظاہر سے آراستہ بھی۔

علاوہ ازیں دین دار خاندانوں کے سارے رشتے دار بھی یا تو دین دار نہیں ہوتے یا دینی اقدار وروایات کے زیادہ پابند نہیں ہوتے نیز ان کے قریبی احباب میں بھی بہت سے دین سے بہت دور ہوتے ہیں ان کی خواتین بھی جب بارات اور ولیمے میں شرکت کرتی ہیں تو وہ اسی بے پردگی اور اس کے لوازمات کا مظہر ہوتی ہیں جس کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔

بڑی باراتوں اور ان کی ضیافت کے لیے دین داروں کو بھی وسیع پیمانے پر انتظامات کرنے پڑتے ہیں ، شادی ہال کا اور انواع واقسام کے کھانوں کا ۔جو فضول خرچی ہی کے ذیل میں آتاہے۔

لڑکی کی شادی ہو یا لڑکے کی۔ شادی والے گھر ہی میں کئی کئی دن چراغاں ضروری نہیں ہوتا بلکہ گلی،چوراہوں میں بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے اور دین دار ہوں یا غیر دین دار، سب ہی اس کا اہتمام کرتے ہیں حالانکہ خوشی کے موقعے پر چراغاں کرنا مسلمانوں کا شیوہ کبھی نہیں رہا ، یہ آتش پرستوں کی رسم ہے جسے ہندؤوں نے اختیار کیا اور ہندؤوں سے میل جول کی وجہ سے یہ مشرکانہ رسم مسلمانوں میں بھی آگئی۔

یہ چند مفاسد وہ ہیں جو دین دار گھرانوں اور خاندانوں میں بھی عام ہوتے جارہے ہیں اور ان سےبچنے کا داعیہ اور جذبہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہاہے۔


سخت آپریشن اور دینی غیرت اختیار کرنے کی ضرورت

جب بیماری شدید اور ناسور خطر ناک ہوجائے تو بیماری اور ناسور کے خاتمے اور بیمار کی زندگی کو بچانے کے لیے آپریشن ناگزیر ہوجاتاہے اور یہ ناگوار اقدام مریض سے ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہوتاہے۔

شادی بیاہ کی رسمیں، جن میں بارات بھی ایک مرحلہ ہے ، خطر ناک ناسور کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ اس مریض قوم اور اس ناسور بھرے معاشرے کے معالج اور ہمدرد صرف اور صرف اہل دین ہیں ، اس لیے معاشرے کے ان پھوڑوں(ناسوروں) کی نشتر زنی انہی کے ذمے داری ہے۔ وہ اپنی ذمے داری کو محسوس کریں لوگوں کی باتوں سے نہ ڈریں، طعن وتشنیع کی پروانہ کریں اور بغیر لومۃ لائم کے خوف کے اس بیمار قوم کے آپریشن کا آغاز کریں اور اس کے لیے ابتدائی قدم یہ ہے کہ اپنے گھر سے اسے شروع کریں۔ بالخصوص جو اصحاب حیثیت دینی خاندان اور افراد ہیں ، وہ ہمت کریں اور فوری طور پر بارات کا سلسلہ ختم کریں بے شک اللہ نے ان کو سب کچھ دیا ہے ، وہ سینکڑوں نہیں ، ہزاروں افراد پر مشتمل باراتوں یا ان کی ضیافت کا اہتمام کرسکتے ہیں ، لیکن اللہ نے یہ دولت فضول خرچی کے لیے نہیں دی ہے ، اس پر تو آپ سے باز پرس کی جاسکتی ہے ، اس دولت کو صحیح مصارف پر خرچ کریں جس کی ہمارے معاشرے میں سخت ضرورت ہے۔ اس کی مزید وضاحت ان شاء اللہ ہم جہیز پر گفتگو کے ضمن میں کریں گے۔ پاکستان میں ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم کی ’’تنظیم اسلامی‘‘ نے اس کا آغاز کیا ہوا ہے اور اس تنظیم سے وابستہ افراد کی ایک معقول تعداد نے باراتوں کا سلسلہ موقوف کیا ہوا ہے۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے جسے اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

یہ صرف ایک تنظیم یا اس سے وابستہ افراد کا کام نہیں ہے ، یہ ایک دین کا تقاضا ہے جو سارے اہل دین کے مل کر کرنے کا کام ہے ، صرف ایک تنظیم کے چند افراد کا یہ کردار قابل تعریف ہونے کے باوجود معاشرے میں اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں ، اس کی حیثیت کسی صحرا میں پکاریا نقار خانے میں طوطی کی صدا سے زیادہ نہیں ہے۔

ملک میں اہل دین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو دینی شعور اور اس کی تعلیمات سے بہرہ ور بھی ہے ، دینی اقداروروایات سے وابستگی کا جذبہ بھی اس کے اندر ہے اور بے دینی وبے حیائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے پریشان اور اس کا رخ موڑنے کی خواہاں بھی ہے لیکن بے عملی ، ایمانی ودینی غیرت وحمیت کے فقدان اور ہوا کے رخ پر ہی بغیر کسی مزاحمت کے ، چلتے جانے کی روش نے اتنی بڑی تعداد کوبے حیثیت بنایا ہوا ہے۔

بنابریں ضرورت عملی اقدامات کی ہے ، ایمانی غیرت وحمیت کے مظاہرے کی ہے ، ایک مضبوط تحریک برپا کرنے کی ہے اور تمام دینی جماعتوں سے وابستہ دین دار افراد کے یہ عہد کرنے کی ہے کہ وہ باراتوں میں شریک نہیں ہوں گے اور خود بھی بارات کے بغیر شادی کریں گے تاکہ مذکورہ خرافات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور قوم کے سامنے دین کا ایک عملی ، سچا نمونہ پیش کریں۔

اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا


لڑکی والوں کے گھر کھانا جائز ہے یا نہیں ؟

بعض لوگ کہتے یا سمجھتے ہیں کہ باراتیوں کے لیے لڑکی والوں کے گھر کھانا کھانا ناجائز ہے ، اسی طرح لڑکی والوں کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ لڑکے والوں کے ساتھ آنے والے باراتیوں کی مہمان نوازی کریں ، ایسا سمجھنا صحیح نہیں ، یہ وہ غلو ہے جو ناپسندیدہ ہے۔

نکاح کی غرض سے لڑکی والوں کے گھر آئے ہوئے حضرات، کم ہوں یا زیادہ ، مہمان ہیں اور اکرام ضیف یعنی مہمان کی عزت وتکریم اور حسب طاقت وضرورت ان کی خاطر تواضع کا اہتمام نہایت ضروری اور ایمان کا تقاضا ہے، البتہ اپنی طاقت سے بڑھ کر محض دکھلاوے کے لیے فضول خرچی کی حد تک اہتمام ناجائز ہے جیسے مثال کے طور پر بارات کسی دوسرے شہر سے آئی ہے اور پھر اسے واپس بھی اسی شہر میں جانا ہے تو ظاہر بات ہے کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد تقریب نکاح کے بعد خالی پیٹ رہنا اور پھر اسی طرح رخصتی لے کر بغیر کچھ کھائے پیئے دوبارہ عازم سفر ہوجانا ، ناممکن ہے ، ایسا نہ ہوسکتا ہے اور نہ کیا ہی جاسکتاہے۔ اس لیے مہمانوں کی ضیافت ناگزیر ہے اور اس قسم کی صورتوں میں لڑکی والوں کی  طرف سے کھانے پینے کاانتظام کرنا اور مہمانوں کا لڑکی والوں کے گھر کھانا دونوں باتیں جائز ہیں ، شرعاً ان میں کوئی قباحت نہیں ہے ، اصل بات جو ہے وہ یہ ہے کہ بھاری بھر کم بارات کا یہ تصور لڑکی والوں کے لیے خواہ مخواہ کا وہ ناروا بوجھ ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ معاشرے کا وہ ناجائز رواج ہے جو لڑکی والوں کے لیے ایسا تصور ہے جس نے زمانۂ جاہلیت کی طرح لڑکی کی پیدائش کو غم واندوہ اور ماتم وشیون والی چیز بنادیا ہے جس کو اسلام نے آکر مٹایا تھا اور لڑکی کی پیدائش کو بھی اللہ کی نعمت قرار دیا تھا۔ بارات کے ناروا بوجھ اوردیگر رسم ورواج کے اغلال وسلاسل نے ایک اسلامی معاشرے کو دوبارہ قبل از اسلام کے جاہلی معاشرے میں تبدیل کر دیا ہے ، اور قرآن کریم نے اسلام کی نعمت سے محروم جاہلی معاشرے کی جو یہ کیفیت بیان کی ہے ۔

﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ﴾

[ النحل : 58 ]

ترجمہ:’’ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غم وغصے سے بھرا ہوتا ہے۔‘‘

یہی کیفیت ہمارے پاک وہند کے مسلمان معاشروں کی ہوگئی ہے ، اور اس کی وجہ صرف وہی رسوم ورواج ہیں جو شادیوں کا جزو لا ینفک بن گئے ہیں ، جن میں بارات،جہیز،بری اور زیورات وغیرہ کی وہ غیر ضروری رسمیں ہیں جن کی بیڑیاں خود ہم نے اپنے پیروں میں ڈالی ہوئی ہیں اور جن کو اتار پھینکنے کے لیے کوئی تیار نہیں ، نیز اس میں دونوں خاندان برابر کے ملوث ہیں لڑکے والے بھی اور لڑکی والے بھی اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ اس سے نہ کوئی دین دار خاندان مستثنیٰ ہے اور نہ غیر دین دار خاندان ۔ گویا

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

یا

ہم ہوئے ، تم ہوئے کہ میر ہوئے
ایک ہی زلف کے سب اسیر ہوئے

مسلمان معاشروں سے اس جاہلی کیفیت کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شادی بیاہوں کے ان تکلفات کی بیڑیوں کو کاٹ کر نہیں پھینک دیا جائے گا جن میں ایک بھاری بھر کم بارات کا کروفرکے ساتھ آنا اور پھر شاہانہ انداز میں اس کی ضیافت کرنا شامل ہے۔


  مروّجہ جہیز کی شرعی حیثیت

شادی کی رسومات میں ایک رسم جہیز بھی ہے۔ یہ رسم البتہ ایسی ہے کہ اس کی اصل حیثیت میں اختلاف ہے کہ یہ واقعی دیگر غیر ضروری رسومات کی طرح ایک رسم محض ہے یا کسی لحاظ سے اس کا شرعی جواز بھی ہے؟

ہمارے نزدیک اس رسم کے دو پہلو یا دو رخ یا دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت میں اس کا جواز ہے اور دوسری صورتوں میں ناجائز۔اس کو سمجھنے کے لیے ان صورتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے جن کے پیش نظر جہیز کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ حسبِ ذیل ہیں:

1             شان و شوکت یا امارت کا اظہار
2             نمو دو نمائش، شہرت اور تفاخر کا اظہار
3             اسراف و تبذیر کی حد تک اس کا اہتمام
4             وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ
5             محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رسم کے طور پر
6             عدم استطاعت کے باوجود قرض لے کر اس کا اہتمام کرنا
7             تعاون، ہدیہ اور صلہ رحمی کے طور پر

اوّل الذکر چھ کی چھ صورتوں میں یہ ایک محض رسم ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ اور اس ناجائز صورت میں اکثر و بیشتر مذکورہ ساری ہی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے جہیز کی رسم تمام مذکورہ خرابیوں کا مجموعہ ہے، اسے کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس میں شان و شوکت کا اظہار بھی ہوتا ہے، نمودو نمائش کا جذبہ بھی۔

  اسراف و تبذیر کی حد تک اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس لیے ہر چیز دینے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو اور لڑکے والوں کے پاس اتنا غیر ضروری سامان رکھنے کی جگہ بھی ہو یا نہ ہو۔

  جس کے پاس استطاعت نہیں ہوتی، وہ قرض لے کر، حتیٰ کہ قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض لے کر یہ رسم پوری کرتا ہے۔

  بھرپور جہیز دینے میں وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے۔ بالخصوص اصحابِ حیثیت اس نیّت سے لاکھوں روپے جہیز کی نذر کردیتے ہیں اور پھر واقعی ان کے بیٹے اپنے صاحب جائداد باپ کی وفات کی بعد اپنی بہنوں کو وراثت سے ان کا شرعی حق نہیں دیتے اور یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ باپ نے جہیز کی صورت میں اپنی بیٹیوں کو جو دینا تھا دے دیا، اب یہ ساری جائداد صرف بیٹوں کی ہے۔ اس طرح یہ رسم ہندؤوں کی نقل ہے۔ ہندو مذہب میں وراثت میں لڑکیوں کا حصہ نہیں ہے، اس لیے وہ شادی کے موقعے پر لڑکی کو ’دان‘ دے دیتے ہیں۔یہی دان کا تصور(وراثت سے محرومی کا بدل) مسلمانوں میں جہیزکے نام سے اختیار کر لیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے۔اگر جہیزمیں مذکو رہ تصورات کار فرما ہوں تو جہیز کی یہ رسم سراسر ناجائز ہے، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اس کے خلاف بھی جہاد ضروری ہے، کیونکہ جہیز دینے والے بالعموم ایسے ہی تصوارت کے تحت جہیز دیتے ہیں اور اس رسم کو بھی پورا کرنا نا گزیر سمجھتے ہیں۔


جہیز کی جائز صورت

البتہ جہیز کی ایک جائز صورت بھی ہے جس کا ذکر ساتویں شکل میں کیا گیا ہے اور وہ ہے تعاون، صلہ رحمی اور ہدیے(تحفے،عطیے) کے طور پر اپنی لڑکی کو شادی کے موقعے پر کچھ دینا۔

اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بڑی فضیلت ہے، اس طرح ایک دوسرے کو ہدیہ، تحفہ دینے کی بھی ترغیب ہے۔ اور اگر تعاون یا ہدیے کا معاملہ اپنے قریبی رشتے داروں کے ساتھ کیا جائے تو اس کوصلہ رحمی کہا جاتا ہے اور اس کی بھی بڑی تاکید ہے اور اس کو دگنے اَجر کا باعث بتلایا گیا ہے۔

اس اعتبار سے اپنی بچی کو،اگر وہ واقعی ضرورت مند ہے یا بطورِتحفہ کچھ دینا، بالکل جائز، بلکہ مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی طاقت کے مطابق اس کی ضروریات پوری کریں۔

  اس کے لیے قرض لے کر زیر بار نہ ہوں۔
  نمائش اور رسم کے طور پر ایسا نہ کریں۔

  ضروریاتِ زندگی کی اس فراہمی میں شادی کے موقعے پر ضروریات کا جائزہ لیے بغیر تعاون کرنا جائز نہیں ہوگا۔ بلکہ شادی کے بعددیکھا جائے کہ اس گھر میں کن چیزوں کی ضرورت ہے اورلڑکے والے اُن کو مہیا کرنے سے واقعی قاصر ہیں، تواُ ن کو وہ اشیا مہیا کرنے میں حسبِ استطاعت ان سے تعاون کیا جائے لیکن حسب ذیل شرائط کے ساتھ

  اس تعاون کو وراثت کا بدل سمجھ کر اسے وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ نہ ہو۔
  بیک وقت تعاون کی استطاعت نہ ہو تو مختلف اوقات میں تعاون کردیا جائے۔

  اگر بچی کو گھریلو اشیائے ضرورت کی ضرورت نہ ہواور والدین صاحب استطاعت ہوں اور وہ بچی کو تحفہ دینا چاہتے ہوں تو داماد کی مالی پوزیشن کے مطابق اس کو ایسا تحفہ دیں جس سے اس کا مستقبل بہتر ہوسکے۔ مثلاً، اس کے پاس سرمائے کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ کاروباری مشکلات کا شکار ہے، اس کو نقد رقم کی صورت میں ہدیہ دے دیا جائے تاکہ وہ اپنا کاروبار بہتر کر سکے، یا اُس کو پلاٹ لے دیا جائے تاکہ وہ آہستہ آہستہ اپنا مکان بنا سکے، اگر اس کے پاس مکان نہیں ہے یا وہ مشترکہ خاندان میں رہائش پذیر ہے اور وہاں جگہ کی تنگی ہے، ان دونوں صورتوں میں یہ پلاٹ، یا گھر کی تعمیر، یا کاروبار میں مالی تعاون میاں بیوی(بیٹی اور داماد) کے لیے ایسا بہترین تحفہ ہے جو صرف انہی کے نہیں بلکہ آئندہ نسل کے بھی کام آئے گا۔ نیزتعاون کی ایسی صورت ہے جس میں رسم، نمود ونمائش، بلا ضرورت زیر بار ہونے کی کار فرمائی نہیں بلکہ خیر خواہی اور تعاون کا صحیح جذبہ ہے جو عنداللّٰہ نہایت پسندیدہ ہے۔


یہ جہیز نہیں بلکہ صلہ رحمی، تعاون اور خیرخواہی ہے

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس صورت کو جہیزنہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ تعاون اور صلہ رحمی یا ہدیہ ہے۔ جہیز کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ احادیث میں اس مروّجہ جہیز کا کوئی ذکر نہیں۔

 رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی متعدد ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی اپنے ساتھ جہیز لے کر نہیں آئی، اسی طرح رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی چار بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کو بھی۔ قبل از نبوت اور بعد از نبوت۔جہیز نہیں دیا۔ صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مشہور ہے کہ آپ نے اُن کو تین چار چیزیں بطورِ جہیز دی تھیں۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے، اس کا کوئی تعلق مروّجہ رسم جہیز سے نہیں ہے،جیسا کہ اس کی وضاحت آگےآرہی ہے۔

عربی زبان میں تجہیز(جہیز بنانے) کا مفہوم

جہیز،عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ جہاز(سامان) ہے۔قرآن مجید میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے:

﴿وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ﴾

[ یوسف : 59 ]

’’جب(یوسف کے کارندوں نے ) برادرانِ یوسف کا(واپسی کا) سامان(سفر) تیار کر دیا۔‘‘

جَهَّزَ

(باب تفعیل) کے معنی ہیں: اس نے سامان تیار کیا۔ ہر موقعے کے لیے الگ الگ سامان ہوتا ہے، اس کے حساب سے اس کے ساتھ یہ لفظ لگ کر اپنا مفہوم ادا کرتا ہے۔ جیسے جہاز العروس (دلہن کو تیار کرنا)، جہاز المیت(میت کا سامان تیار کرنا) ،جہاز السفر(سفر کا سامان)،جہاز الغازی(غازی کو سامان اسلحہ وغیرہ دینا)۔

احادیث میں یہ لفظ دو مو قعوں کے لیے استعمال ہوا ہے:ایک غازی کے لیے اس کو میدانِ کا ر زار میں کام آنے والی اشیا(خَود، زرہ، اسلحہ وغیرہ) مہیا کر کے تیار کرنا۔ دوسرا دلہن کو شبِ زفاف کے لیے تیار کر کے یعنی اُس کو عمدہ لباس وغیرہ سے آراستہ کر کے دولہا کے پاس بھیجنا۔ چنانچہ احادیث میں تین خواتین کا ذکر اس ضمن میں ملتا ہے۔ ایک سیدہ صفیہ، دوسرا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور تیسرا سیدہ فاطمہ الزہرارضی اللہ عنہا کا۔

   جنگِ خیبر میں واپسی پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کر لیا تھا،اس حدیث میں آتا ہے:

جَهَّزَتْهَا لَهُ أمُّ سُلَيْمٍ

صحیح البخاری،  کتاب الصلاۃ ، باب ما يذكر في الفخذ

’’سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے سیدہ  صفیہ رضی اللہ عنہا کو تیار کیا اور اُن کو شب باشی کی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پیش کردیا۔‘‘

نجاشی(شاہ حبشہ) کی طرف سے سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کو، ان کا نکاح بذریعہ وکالت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ کر کے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک صحابی جناب شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔ اس حدیث میں آتا ہے:

ثُمَّ جَهَّزَهَا مِنْ عِنْدِهِ وَ بُعِثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وجَهازُهَا كُلُّ مِنْ عِندِ النَّجاشيِّ

مسند احمد: 6؍ 427

’’پھر نجاشی نے سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس سے تیار کیا اور ان کو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف بھیج دیا…اور اُن کی ساری تیاری نجاشی کی طرف سے تھی۔‘‘

ان دونوں احادیث میں تجہیز دلہن سازی، یعنی دلہن کو عروسی لباس اور آرائش وزیبائش سے آراستہ کرنے کے معنی میں ہے۔ أثاث البیت( گھریلو سامان) دینے کے معنیٰ میں نہیں ہے جس کو آج کل جہیز کا نام دے دیا گیا ہے، حالانکہ ان احادیث میں جہیز کا لفظ ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں ہوا ہے۔مسند احمد میں مزید جھاز کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا مطلب یہاں حق مہر کی ادائیگی ہے جو کہ سامانِ آرائش و زیبائش کے علاوہ مکمل طور پر نجاشی ہی کی طرف سے ادا کیا گیا تھا، اس لیے

جَهازُهَا كُلُّ مِنْ عِندِ النَّجاشيِّ

کہا گیا ہے۔


سيدہ فاطمہ رضی رلله عنہا کا جہیز

  رہا تیسرا واقعہ سیدہ  فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دینے کا، جس سے جہیز کے جواز پر استد لال کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟

اس واقعے پر غور و خوض کرنے اور اس سے متعلقہ روایات کے مختلف طرق کا جائزہ لینے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا تعلق بھی أثاث البیت(گھریلو سامانِ ضرورت) سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی دراصل دلہن کو پہلی مرتبہ دولہا کے پاس بھیجنے ہی کی تیاری تھی اور اس موقعے پر رسول اللّٰہ ﷺ نےسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو چیزیں دی تھیں، ان کا تعلق رات کو سونے کيلیے کام آنے والی چیزوں سے تھا، جیسے چادر، تکیہ، پانی کی مشک۔ جیسے سنن نسائی میں ہے:

جهَّزَرَسُوْلُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِْيلٍ، وَقِرْبَةٍ، وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ

سنن نسائی ، کتاب النکاح ، باب جھاز الرجل ابنتہ

’’رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجنے کے لیے) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔‘‘

اس روایت میں جز اور جہازکے معنی وہی ہیں جو اس سے پہلےسیدہ  صفیہ اورسیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہما والی دونوں حدیثوں میں اس لفظ کے گزرے ہیں یعنی دلہن کو شبِ زفاف کے لیے تیار کر کے دولہا کے پاس بھیجنا۔ چنانچہ سیدہ  صفیہ رضی اللہ عنہا سے متعلقہ روایت، جس میں آتا ہے :

جَهَّزَتْهَا أُمُّ سُلَيْمٍ، فأهْدَتْهَاإِليْهِ مِنَ اللَّيْلِ

’’اُن کو سیدہ امّ سلیم نے تیار کر کے (دلہن بنا کر) شب باشی کے لیے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔‘‘

اس روایت کوامام نسائی باب البناء في السفر میں لائے ہیں۔ بناء کا لفظ شبِ زفاف ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ  کی اس تبویب اور اس کے تحت” جہّزتہا “والی روایت درج کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ “جہَّز” کے معنی دلہن سازی کے ہیں، نہ کہ سامانِ جہیز کے۔

ہماری بیان کر دہ وضاحت کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ فاطمہ سے متعلقہ روایت سنن ابن ماجہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  سیدنا علی و فاطمہ رضی اﷲ عنہما کے پاس تشریف لے گئے اور وہ دونوں ایک چادر (خمیل) میں تھے۔

قَدْ كَانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ جَهَّزَهُمَا بِها، وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ

’’اس چادر کے ساتھ ہی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو تیار کیا تھا اور ایک تکیہ، اِذخر گھاس کا بھرا ہوا، اور ایک مشک بھی عنایت کی تھی۔‘‘

امام ابن ماجہ نے اس روایت کو باب ضجاع آل محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت بیان کیا ہے۔ یعنی ’’آل محمد(محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھرانے)کا بستر۔‘‘

امام ابن ماجہ کی اس تبویب سے بھی واضح ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہاسے متعلقہ روایت میں جہیز کے معنی شب باشی کے سامان یا شب باشی کے لیے تیار کرنا ہیں، نہ کہ مروّجہ سامانِ جہیز کے ۔

احادیث میں ان تین واقعات کے علاوہ (سوائے حدیثِ جہاد  من جہز غازيا … الحديث کے) تجہیز کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، بالخصوص شادی بیاہ کے مسائل میں اور ان تینوں واقعات میں جس سیاق میں یہ لفظ آیا ہے، اس کا وہی مفہوم ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس سے مروّجہ جہیز مراد لینا یکسر بے جواز اور خلافِ واقعہ ہے۔ بنا بریں پورے یقین اور قطعیت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مروّجہ جہیز کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔


ستم ظریفی کی انتہا

اور یہ تو ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جہیز کا مطالبہ کیا جائے حالانکہ لڑکی کے ماں باپ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ بچی کو ناز و نعمت میں پال کر اور اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے اللّٰہ کے حکم کی وجہ سے اپنے دل کے ٹکڑے کو دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس احسان مندی کے بجائے ان سے مطالبات کے ذریعے سے احسان فراموشی کا اظہار کیا جاتا ہے جب کہ اللّٰہ کا حکم احسان کے بدلے احسان کرنے کا ہے :

﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾

[ الرحمٰن : 60 ]

نہ کہ محسن کے لیے عرصۂ حیات تنگ کرنے کا۔ یا بھاری بھر کم جہیز نہ لانے پر لڑکی کا جینا دو بھر کردینے کا حتیٰ کہ اس کو خود کشی تک کردینے پر مجبور کردینا۔

علاوہ ازیں اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو قوام(عورت کا محافظ، نگران اور بالا دست)

﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ﴾

[ النساء : 34 ]

بنایا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عورت کی مالی ضروریات پوری کرتا ہے، مرد اپنے اس مقام و مرتبہ کو فراموش کر کے عورت سے لینے کا مطالبہ کرتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے سببِ فضیلت

﴿ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ﴾  

یعنی معاشی و مالی کفالت کی ذمے داری، کے بھی خلاف ہے اور اس کے شیوۂ مردانگی کے بھی منافی۔

بہرحال جس حیثیت سے بھی اس رسم کو دیکھا جائے، اس کی شناعت و قباحت واضح ہوجاتی ہے۔


شادی بیاہ کی فضولیات اور رسومات پر ایک اخباری فیچر

 بارات اور جہیز کے علاوہ شادی کے رسوم ورواج میں جن فضولیات کا اہتمام ہوتا ہے، ان کی تفصیل کافی لمبی ہے اور نہایت ہوش ربا بھی۔چند سال قبل روزنامہ’’جنگ‘‘ کے ایک فیچر نگار نے ان تفصیلات پر مبنی ایک مفصل فیچر لکھا تھا جو اخبار مذکور کے سنڈے میگزین (۲۰۰۳ء) میں شائع ہوا تھا ، جو بقول ایک شاعر کے

خوش تر آں باشد کہ سرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں

کا مصداق ہے ۔

یہ فیچر راقم کی کتاب ’’مسنون نکاح‘‘ مطبوعہ دارالسلام میں درج ہے ۔ قارئین اس کتاب میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

شادی بیاہوں میں اختیار کیے جانے والے طور اطوار


احادیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی روشنی میں

مذکورہ رسومات کے ارتکاب، ان میں شرکت اور ان سے تعاون میں بڑے بڑے دین دار حضرات بھی کوئی تأمل نہیں کرتے۔ ایسے مداہنت پسند حضرات کے لیے چند احادیث مختصر مختصر تبصرے کے ساتھ پیش ہیں تاکہ ان کی روشنی میں اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیا جا سکے۔

رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذٰلِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ

صحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان کون النھی عن المنکر من الإیمان

ترجمہ:’’تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کی برائی کا اظہار کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو بُرا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

وضاحت:مرد کو اللّٰہ تعالیٰ نے عورتوں پر قوام (حاکم ، نگران، سربراہ) بنایاہے، اس لیے ہر مرد فطری طور پر اپنے گھر کا سربراہ ہے۔ سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے سارے افراد کو راہِ راست پر رکھے اور اس سے اُن کو منحرف نہ ہونے دے۔ اس خداداد مقام پر فائز مرد کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ یہ کہے کہ شادی کی رسومات میں بیوی میری بات نہیں مانتی، بچے نہیں مانتے۔ یہ اس کے شیوۂ مردانگی کے بھی خلاف ہے اور یہ عذر بارگاہِ الٰہی میں ناقابل شنوائی بھی۔ علاوہ ازیں دنیاوی معاملات میں کیا کوئی مرد ایسی بے بسی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ اگر ہانڈی میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہو جائے تو دونوں صو رتوں میں عورت کی شامت آجاتی ہے۔ اس وقت تو عورت کی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ مرد کی ناراضی پر چُوں بھی نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین ہی ایسا یتیم ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے اس کے ساتھ جو چاہے، سلوک کر لیں، مردوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہر مرد سوچ لے کہ منکرات سے یہ سمجھوتہ اس کو ایمان کی کس پستی میں دھکیل رہا ہے۔ أعاذنا اللّٰه منه

سیدنا  ابن عمر سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْأَمِیْر الّذِيْ عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، وَالرَّجُلُ رَاعِ عَلى أَہْلِ بَیْتِہِ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْہُمْ، وَالْمَرْأةُ رَاعِیَةٌ عَلٰى بَیْتِ بَعْلِھا وَوَلَدِہِ، وَہِیَ مَسْئُوْلَةٌ عَنْہُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰى مَالِ سَیِّدِہِ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْہُ، أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رِعِیَّتِہ

صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب فضیلۃ الامیر العادل

ترجمہ:’’خبردار! تم سب کے سب نگران اور ذمے دار ہو اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت (ماتحتوں) کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ حاکم وقت، لوگوں پر حکمران ، ذمے دار اور نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت (ملک کے عوام) کی بابت باز پرس ہو گی۔ مرد اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے ان کی بابت پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس سے ان کی بابت باز پرس ہو گی، غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ اچھی طرح سن لو! تم سب کے سب نگران اور ذمے دار ہو اور تم سب سے اپنے اپنے ماتحتوں (رعیت) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘

وضاحت: عربی زبان میں راعی کا مطلب ہے: نگران اور ذمے دار، کس چیز کا؟ جو اس کے ماتحت ہے۔ وہ ان کی اصلاح کرنے ، ان کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے اور ان کے دین و دنیا کی مصلحتوں کا خیال رکھنے کا ذمے دار ہے۔

مَسْئُوْلٌ کا مطلب ہے، اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا، باز پرس ہو گی، کس بات کی؟ اس بات کی کہ اس نے اپنے ماتحتوں کے حقوق کی رعایت کی؟ ان کی دینی و دنیاوی مصلحتوں کا خیال رکھا اور ان کی تعلیم و تربیت کا صحیح اہتمام کیا ؟

اس حدیث کی روشنی میں جائزہ لیا جائے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور شادی بیاہ میں ہونے والی خلافِ شرع رسومات و خرافات سے اپنے اپنے ماتحتوں کو بچانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟ اگر ادا کیا ہے تو وہ کیا ہے؟ … ہر گھر کا سربراہ مرد اور عورت بھی اللّٰہ کی بارگاہ میں جانے سے پہلے آخرت کی باز پرس کو سامنے رکھے۔

سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس رضی اﷲعنہماسے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلَاثَةٌ مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ وَمُبْتَغٍ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ

صحیح البخاری،کتاب الدیات ، باب من طلب دم امری بغیر حق

’’لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اللّٰہ کے ہاں تین شخص ہیں۔ ایک حرم میں بے دینی پھیلانے والا۔ دوسرا، اسلام میں جاہلیت کے طریقے تلاش (اختیار) کرنے والا، تیسرا، ناحق کسی شخص کے خون کا خواہاں، تاکہ وہ اس کا خون بہائے۔‘‘

وضاحت: ہماری شادی بیاہوں کی بیشتر رسومات ہندوؤں کی نقالی پر مبنی ہیں یا مغرب کی حیا باختہ تہذیب اور زمانۂجاہلیت کی خرافات پر۔ گویا قدیم و جدید جاہلیت کا مجموعہ اور اسلامی تعلیمات سے یکسر بے اعتنائی کا نمونہ۔

اس انداز سے شادیاں کرنا، یا ان میں ذوق و شوق سے شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا، یہ اسلام میں جاہلی طریقوں ہی کو فروغ دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا اللّٰہ کے ہاں کیا مقام ہے وہ اس حدیث کی دوسری شق سے واضح ہے۔ دنیا میں تو انسان کا ہوا و ہوس میں مبتلا نفس اور شیطان اس کا پتہ نہیں چلنے دیتا، لیکن آخرت میں تو ان کی کارفرمائی ختم ہو چکی ہو گی اور اللّٰہ کے ہاں اس کا وہ مقام واضح ہو کر سامنے آ جائے گا، جس کا ہیولیٰ اس نے اپنے عمل و کردار سے تیار کیا ہو گا اور وہ ہے، اللّٰہ کے ہاں ناپسندیدہ ترین شخص، اور اس روز ناپسندیدہ ترین شخص کا جو مقام ہو گا، اس کا اندازہ رسوماتِ جاہلیہ کے دل دادہ ہر مرد اور عورت کو کر لینا چاہیے۔

جناب جریر سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

مَنْ سَنَّ فِي الْاِسْلَام سُنَّةً حَسَنَةٌ فَلَہُ أَجْرُھا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِھمْ شَیْئًا وَمَنْ سَنَّ فِي الْاَسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھا مِنْ بَعْدِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْقُصَ مِنْ اَوْزَارِھمْ شَيْءٌ

صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقة

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا، تو اس کوخود اس پر عمل کرنے کا اجر بھی ملے گا اور اُن کا بھی اجر ملے گا جو اُس کے بعد اس پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کچھ کمی ہو اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا تو اس پر (اس کے اپنے عمل کا بھی) بوجھ ہو گا اور ان سب کے گناہوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اس کے بعد اس برائی پر عمل کریں گے، بغیر  اس کے کہ ان کے بوجھوں میں کوئی کمی ہو۔‘‘

وضاحت: اس حدیث میں’’اچھا طریقہ‘‘ نکالنے یا جاری کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی طرف سے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے، کیونکہ یہ تو بدعت ہو گی جس کی بابت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی اور جہنم میں لے جانے والی ہے۔ بدعت سازی دراصل شریعت سازی ہے، جس کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ بلکہ اچھے طریقے سے مراد کسی ایسے عمل میں پہل کرنا ہے جو شریعت سے ثابت ہے یا کسی ایسی جگہ پر اس عمل شریعت کو سرانجام دینا ہے، جہاں پہلے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا یا خاندانی رسم و رواج کی وجہ سے اس پر عمل متروک تھا، اس کو کرنے پر دوسروں کو ترغیب ملی اور اُنہوں نے بھی اس کو اختیار کر لیا، یا کسی جگہ کوئی سنّت متروک تھی، کسی ایک شخص کے عمل کرنے پر دوسرے لوگوں نے بھی اس سنّت کو اپنا لیا۔ ان تمام صورتوں میں کسی بھی ثابت شدہ نیک عمل کا آغاز کرنے والے، سنت متروکہ کو زندہ کرنے والے اور فراموش شدہ نیکیوں کو یاد کرانے والے کو ان تمام لوگوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے۔ اسی طرح کسی نے اس کے برعکس برائی میں پہل کی یا اس کا کسی جگہ آغاز کیا تو بعد میں اس کو دیکھ کر برائی کے مرتکبین کے گناہوں کا بوجھ بھی اس پہل کرنے یا آغاز کرنے والے کو ملے گا۔

اس حدیث کی روشنی میں شادی بیاہوں کی جاہلانہ رسومات اور اسراف و تبذیر پر مبنی بھاری بھر کم اخراجات، سنتِ سیئہ (برا طریقہ) ہے۔ کسی خاندان میں اگر سادگی سے نکاح کرنے کا رواج تھا، رسومات سے بچا جاتا تھا۔ لیکن اس خاندان کے کسی فرد نے اگر دولت کے نشے میں اس کے برعکس مروّجہ رسومات کے ساتھ شادی کرنے میں پہل کی، یا اس خاندان میں مہندی کی بے حیائی پر مبنی رسم نہیں تھی، اُس نے اس خاندان میں اس کا آغاز کیا، پہلے مجرے کا سلسلہ نہیں تھا، اس نے اس کا ارتکاب کیا، وعلیٰ ہذا القیاس، اسی طرح کی دیگر برائیوں میں پہل کرتا ہے۔ تو اس کے بعد اس خاندان میں جتنے لوگ بھی ان میں ملوث ہوں گے، ان کا ارتکاب کریں گے، ان سب کے گناہوں کا بوجھ بھی اس پہل کرنیوالے کو ملے گا۔

اسی طرح شادی بیاہوں میں سادگی، پردے کی پابندی، بھاری بھر کم اخراجات سے اجتناب جیسی خوبیاں سنتِ حسنہ (اچھا طریقہ) ہے۔ جو شخص اپنے خاندان میں اس اچھے طریقے سے شادی کرنے میں پہل کرے گا، بعد میں اس خاندان کے جتنے لوگ اس کی پیروی کرتے ہوئے تمام خرافات و رسومات سے بچ کر شادیاں کریں گے، پہل کرنے والے کو بھی ان سب کی ان نیکیوں کا اجر …ان کے اجروں میں کٹوتی کے بغیر۔ ملے گا۔

یہ دو راستے اور دو طریقے ہیں۔ ایک ڈھیروں اجر و ثواب کمانے کا اور دوسرا گناہوں کا ناقابل برداشت بوجھ اپنے اوپر لاد لینے کا ۔

﴿فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا﴾

[ الكہف : 29 ]

’’اب جس کا جی چاہے، بھلائیوں والا راستہ اپنا لے اور جس کا جی چاہے دوسرا، لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ نافرمانی والا راستہ اختیار کرنیوالوں کیلیے جہنم کی آگ ہے۔‘‘

سیدناعبد اللّٰہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ أَلْبَسَهُ اللهُ يَوْمَ القِيَامَةِ ثَوْبًا مِثْلَهُ، ثُمَّ تُلْهَبُ فِيهِ النَّارُ

سنن ابن ماجہ: کتاب اللباس باب من لبس لباس الشھرۃ۔ سنن ابی داؤد: کتاب اللباس ،باب فی اللبس الشھرۃ

’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا، اللّٰہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ذلّت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں جہنم کی آگ بھڑکائے گا۔‘‘

وضاحت: اللّٰہ تعالیٰ نے اسباب و وسائل سے نوازا ہو تو اظہارِ نعمت کے طور پر اچھا اور عمدہ لباس پہننا جائز ہے۔ لیکن اس حدیث میں جس لباس شہرت کا ذکر ہے، وہ کون سا ممنوع لباس ہے؟ اس کی چار صورتیں ہیں:

اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان اس نیت سے لباس فاخرہ پہنے کہ لوگوں میں اس کے لباس کا اور اس کی شان و شوکت کا چرچا ہو۔

دوسری صورت یہ ہے کہ عام چلن کے برعکس ایسے رنگ کا یا ایسی تراش خراش کا لباس پہنے کہ اس کی اس طرفہ طرازی کی وجہ سے اس کی شہرت ہو۔

تیسری صورت یہ ہے کہ ریاکاری کے طور پر فقرا و مساکین کے روپ میں رہے تاکہ لوگ اسے پارسا اور پرہیز گار سمجھیں۔

چوتھی صورت یہ ہے کہ محض نمودونمائش کی نیت سے کسی مخصوص قسم کے لوگوں کا لباس اور اُن کے طور اطوار اختیارکیے جائیں۔ جیسے آج کل بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فلموں میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کے حیا باختہ لباسوں اور بے ہودہ طور اطوار کی نقالی کرتے ہیں۔

اور ایک پانچویں صورت یہ ہے کہ ایسا لباس پہنا جائے کہ لباس پہننے کے باوجود جسم کے نمایاں حصے عریاں ہو۔ اس صورت کی مزید تفصیل اگلی حدیث کے تحت آئے گی۔

شادی بیاہوں میں ہماری عورتوں کا لباس بالعموم،ایک تیسری صورت کو چھوڑ کر، باقی صورتوں کا مظہر ہوتا ہے۔ اس قسم کے لباسوں پر جو سخت وعید ہے، وہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے-

﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾

[ القمر : 17 ]

’’ کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا؟‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

صِنْفَان مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا: قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ. وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ. لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا

صحیح مسلم ، کتاب اللباس، باب النساء الکاسیات ……. ،

ترجمہ:’’جہنمیوں کی دو قسمیں ہیں، جنہیں میں نے نہیں دیکھا (ابھی ان کا وجود نہیں ہے، مستقبل میں ہوگا) ایک وہ لوگ کہ ان کے پاس کوڑے ہوں گے، گائے کی دموں جیسے، وہ ان سے لوگوں کو ماریں گے۔ (دوسری قسم) وہ عورتیں، جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح جھکے ہوں گے، یہ عورتیں جنّت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو تک نہ پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی ا تنی مسافت (یعنی بڑی بڑی دور) سے سونگھی جا سکنے والی ہوگی۔‘‘

وضاحت:یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے معجزات اور اعلامِ نبوت میں سے ہے۔ آپ نے اس میں جن دو قسم کے لوگوں کی پیش گوئی فرمائی تھی، آج قدم قدم پر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر عورت کی جن فتنہ سامانیوں اور حشر انگیزیوں کا اس میں تذکرہ ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ذیل میں اس کی کچھ توضیح کی جاتی ہے۔

پہلی قسم سے ظالم قسم کے لوگ مراد ہیں، جو اپنے وسائل، طاقت و اقتدار اور جاہ و منصب کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتے ہیں۔ دنیا میں یہ لوگ طاقت کے نشے میں اندھے اور مغرور ہوتے ہیں اس لیے رحم و کرم کے بجائے ظلم وستم ان کا شعار ہوتا ہے۔ آخرت میں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایسے لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اعاذنا الله منه

جہنمیوں کی دوسری قسم فیشن ایبل عورتوں کی ہوگی، ان کی حسبِ ذیل علامات اور خصوصیات ہوں گی:


لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، اس کی تین شکلیں عام ہیں:

لباس پہننے کے باوجود ان کے جسم کے بہت سے قابل ستر حصے ننگے ہوں گے، جیسے چہرہ، ہاتھ، یا بازو، گردن اور سینہ (چھاتی) اور گردن کا پچھلا حصہ۔ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کے یہ حصے ننگے ہوتے ہیں حالانکہ یہ سب حصے پردے میں رہنے چاہئیں۔

  ایسا تنگ اور چست لباس پہنا جائے کہ جس سے جسم کے خدوخال ہی نہیں، انگ انگ نمایاں ہو۔

  یا ایسا باریک لباس پہنیں کہ جس سے سارا جسم جھلکتا نظر آئے اور اُن کی جلد کی رنگت اور اُن کا حسن نمایاں ہو۔

یہ تینوں صورتیں بے پردگی کی ہیں، جن سے مردوں کو دعوتِ نظارہ ملتی ہے۔ مسلمان خواتین کو جو پردے کی اہمیت کو سمجھتی ہیں، نامحرموں کے سامنے مذکورہ تینوں صورتوں سے بچنا چاہیے، اس کے بغیر پردے کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

2 مُمِیْلَات کے ایک معنی کیے گئے ہیں، دوسری عورتوں کو بھی مردوں کی طرف راغب کرنے والیاں، یا اپنے کندھوں کو نازو و اَدا سے مٹکا مٹکا کر چلنے والیاں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی چال ڈھال یا ناز و اَدا سے مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا اور دوسروں کو بھی بے حیائی کی اس راہ پر لگانا جیسےفلموں اور ڈراموں میں کام کرنے والی حیا باختہ عورتوں کا کردار ہے، اور شادی میں شرکت کرنے والی خواتین کا حال ہے کہ وہ بھی اس موقعے پر انہی کی نقالی کرتے ہوئے لباس، بناؤ سنگھار اور بے پردگی میں انہی کا نمونہ بننے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ مووی فلم کے ذریعے سے پورے خاندان میں اُن کے حسن و جمال، ان کے لباس اور زیورات اور ان کے سولہ سنگھار کا تذکرہ ہو۔

3 مَائِلَات کے معنی ہیں ناز و ادا سے ایسی چال چلنا جس سے لوگ ان کی طرف مائل اور راغب ہوں۔

4  بختی اونٹ کی مانند اُن کے سر ہوں گے، کا مطلب، سر پر جوڑا کر کے اُن کو سر کے درمیان اونچا کر کے باندھ لینا۔ یہ فیشن بھی چند سال قبل عورتوں میں عام تھا، اور اب بھی بہت سی عورتیں کرتی ہیں، حتیٰ کہ بعض برقع پوش خواتین کے سروں پر بھی اس طرح کی کلغی نظر آتی ہے۔ اس حدیث کی رو سے بالوں کا یہ اسٹائل یا فیشن بھی ناپسندید ہ ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ وَالمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالمُتَنَمِّصَاتِ وَالمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ فَجَاءَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ، فَقَالَ: وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ فِي كِتَابِ اللّٰهِ، فَقَالَتْ: وَاللّٰهِ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ، قَالَ: وَاللّٰهِ لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ﴿وَمَا آتَاكُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾

صحیح البخاری ،کتاب اللباس، باب المتنمصات و مسلم ، کتاب اللباس و الزینۃ، باب تحریم فعل۔۔۔۔۔،

’’سیدناعبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللّٰہ نے لعنت فرمائی، جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر، بال اُکھڑوانے والیوں پر، حسن کی خاطر، (دانتوں کے اندر) شگاف کرنے والیوں پر، اللّٰہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر۔ اُمّ یعقوب (نامی عورت) نے کہا: اے (عبد اللّٰہ!) تم یہ کیا کہتے ہو؟ حضرت عبد اللّٰہ نے فرمایا: مجھے کیا ہے کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر اللّٰہ کے رسول نے لعنت کی ہے اور جو اللّٰہ کی کتاب میں لعنتی ہے؟ اس عورت نے کہا: اللّٰہ کی قسم! میں نے تو وہ سارا قرآن پڑھا ہے جو دو تختیوں کے درمیان ہے، اس میں تو میں نے یہ چیز (مذکورہ قسم کی عورتوں پر لعنت) نہیں پائی۔ عبد اللّٰہ بن مسعود نے فرمایا: اللّٰہ کی قسم! اگر تو اسے (صحیح سمجھ کر) پڑھتی تو یقینا تو اس میں یہ بات پاتی کہ اللّٰہ کے رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو (اپنالو) اور جس سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ۔‘‘


تشریح

وَاشِمَات، وَاشِمَة

کی جمع ہے، وشم کرنے والی عورت۔

 مُسْتَوْشِمَات

 جمع ہے

مُسْتُوْشِمَة

کی، وشم کروانے والی عورت۔وشم کے معنی ہیں گودنا، جس کا مطلب ہے کہ جسم کے کسی حصے پر سوئی یا اسی قسم کی کسی چیز سے باریک سا سوراخ کرنا حتی کہ خون بہنا شروع ہو جائے، پھر اس میں سرمہ یا کوئی رنگ بھر دینا۔ عام طور پر چہرے یا ہاتھوں پر ایسا کیا جاتا تھا جیسے ہندو عورتیں پیشانی پر سیندور بھرتی یا بندیا لگاتی ہیں۔ گودنا بھی اسی قسم کا کوئی فیشن تھا جو زمانۂ جاہلیت میں عورتوں میں رائج تھا۔

مُتَنَمِّصَات، مُتَنَمِّصَة

کی جمع ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’اس کے معنی ہیں، بال اُکھڑوانے والی عورت اور اُکھیڑنے والی عورت کو نَامِصَة کہا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں) گویا مُتَنَمِّصَات وہ عورتیں ہیں جن کے چہروں یا اَبرؤں سے بال اُکھیڑے جائیں اور جو عورتیں یہ کام کریں گی، وہ نَامِصَة ہیں۔یہ بھی اس زمانے کا ایک فیشن تھا کہ پلکوؤں (ابرؤں) اور چہرے کے اِکّے دُکّے بالوں کو اُکھیڑا جاتا تھا جیسے آج کل بھی یہ جاہلی فیشن عورتوں میں عام ہے ۔ وہ ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر مختلف قسم کے چمکیلے رنگ یا سرمہ وغیرہ اس میں بھر لیتی ہیں۔ حدیث کی رو سے یہ سب لعنتی فعل ہیں۔ تاہم کسی عورت کے چہرے پر داڑھی یا مونچھیں اُگ آئیں تو چونکہ یہ معمول کے خلاف بات ہے، اس لیے ان بالوں کا صاف کرنا اس کے لیے جائز بلکہ مستحب ہے کیونکہ ان بالوں سے واقعی عورت کا چہرہ بدنما ہو جاتا ہے۔ اس بدنمائی کو دور کرنا اس کے لیے جائز اور مستحب ہے جب کہ پہلی قسم کا مطلب فیشن کے طور پر اللّٰہ کی پیدائش میں تبدیلی کرنا ہے  جس کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

مُتَفَلِّجَات، مُتفلّجة

کی جمع ہے۔ یہ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو فَلَج کرتی یا کرواتی ہے۔ فَلَج کے معنی ہیں: ثنائی یا رباعی دانتوں کے درمیان کشادگی کرنا۔ یہ وہ عورتیں کرتی تھیں جن کے دانت ملے ہوتے تھے اور وہ ایسا اپنے آپ کو کمسن یا خوب صورت ظاہر کرنے کے لیے کرتی تھیں، کیونکہ کمسن عورتوں کے دانتوں کے درمیان کچھ کشادگی ہوتی تھی جو ان کی کمسنی اور حسن کی علامت سمجھی جاتی تھی، اس لیے بڑی عمر کی عورتیں فَلَج کرکے اپنی عمر تھوڑی اور اپنے آپ کو حسین باور کراتی تھیں، جیسے آج کل بھی عورتوں میں یہ رحجان عام ہے اور اپنی عمر چھپانے کے لیے وہ دسیوں قسم کے فیشن اور میک اپ کرتی ہیں۔

مذکورہ سب کام ایسے ہیں جن پر لعنت فرمائی گئی ہے اور اس کی دو وجوہ ہیں:

ایک یہ کہ ان سب کاموں میں مقصد دھوکا اور فریب دینا ہے۔ دوسرے، ان میں اللّٰہ کی پیدائش میں تبدیلی کرنے کی مذموم سعی ہے۔


مذکورہ تفصیل سے حسب ذیل چیزیں واضح ہوتی ہیں:

عورت زیب و زینت اختیارتو کر سکتی ہے (گو اس کا اظہار صرف خاوند ومحارم کے سامنے جائز ہے) لیکن اپنے حسن و جمال میں اضافے کے لیے زیب و زینت کے ایسے طریقے اختیار نہیں کر سکتی جن میں دھوکہ اور فریب کا عنصر شامل ہو، یا ان میں اللّٰہ کی تخلیق میں تبدیلی کا اظہار ہو۔شادی بیاہوں کے موقعے پر عورتوں کی آرائش و زیبائش میں بالعموم یہ دونوں ہی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔


بیوٹی پارلرکا کاروبار حرام ہے

اس اعتبار سے بیوٹی پارلروں کے ذریعے سے عورتوں میں حسن و جمال اور آرائش و زیبائش کے جو طور طریقے سکھائے جا رہے ہیں اور عورتیں انہیں اختیار کر رہی ہیں، جیسے بالوں کے نئے نئے اسٹائل، بناؤ سنگھار کے ذریعے سے عورت کے حلیے کو بدل دینا، سیاہ فام کو سفید فام اور سفید فام کے رنگ و روغن کو مزید نکھار دینا، ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر ان میں سرمہ، روشنائی یا اور اسی قسم کی چیزیں بھرنا، یہ سب کام ممنوع اور حرام ہیں، کیونکہ انہیں لعنتی کام کہا گیا ہے۔ جن کے بارے میں اتنی سخت وعید ہو، ان کے جواز کی گنجائش کہاں نکل سکتی ہے؟ اس لیے جس طرح مذکورہ کام حرام ہیں ، اسی طرح بیوٹی پارلر کا کاروبار بھی حرام ہے کیونکہ ان میں مذکورہ حرام کام ہی کیے جاتے ہیں یا پھر ان میں مذکورہ چیزوں کی تربیت دی جاتی ہے۔

ایک حدیث میں ہے:

أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللّٰه إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي غَيْرَ الَّذِي يُعْطِينِي فَقَالَ رَسُولَُ اللّٰهِ ﷺ الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُوْرٍ

صحیح البخاری، کتاب النکاح ، باب المتشبع بما لم ینل۔۔۔۔،

’’ایک عورت نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول! میری ایک سوکن ہے ، اگر میں اس کے سامنے کسی چیز کی بابت یہ ظاہر کروں کہ یہ مجھے میرے خاوند نے دی ہے جب کہ وہ چیز اُس نے مجھے نہ دی ہو، تو کیا اس سے مجھ پر گناہ ہو گا؟ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو کوئی ایسے ظاہر کرے کہ یہ چیز، میری ہے (یا مجھے دی گئی ہے) حالانکہ (وہ اس کی نہ ہو) نہ اس کو دی گئی ہو، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مکروفریب کے دو کپڑے پہنے ہو۔‘‘

وضاحت: اس حدیث سے جہاں یہ و اضح ہوتا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویوں کو آپس میں ایک دوسرے کو جلانے کے لیے (سوکناپے میں) جھوٹ بول کر یہ تأثر دینا منع ہے کہ اس کا خاوند (دوسری بیوی کے مقابلے میں) اس پر زیادہ مہربان ہے اور اِس کو اُس نے فلاں چیز لا کردی ہے جب کہ خاوند کا کردار ایسا نامنصفانہ نہ ہو۔ اس ممانعت سے مقصود جہاں جھوٹی شان وشوکت کے اظہار سے روکنا ہے، وہاں آپس میں فساد اور بگاڑ کا سدباب بھی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس ممانعت کو جس بلیغ طریقے اور ایک تمثیلی انداز سے بیان فرمایا ہے، اس نے اس ممانعت کے مفہوم میں بڑی وسعت پیدا کردی ہے جس نے مکر و فریب کی ساری صورتوں اور جھوٹے وقار کے سارے طور طریقوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔

ہماری شادی بیاہوں میں اس جھوٹے وقار کا بھی عام مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی عورت کے پاس

 زیادہ زیور نہیں ہوتا تو وہ شادی میں شرکت کرنے کے لیے مانگے تانگے کا زیور پہن کر جھوٹے وقار (یعنی خلافِ واقعہ اپنی امارت) کا اظہار کرتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ دلہن کو بھی مانگے تانگے کا زیور پہنا کر یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ لڑکے والوں نے دلہن کے لیے اتنا زیور تیار کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا اور دو تین دن کے بعد وہ زیور دلہن سے لے کر اصل مالکوں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹی کاروائی بھی فساد اور بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

اور اب تو سونے کے بجائے مصنوعی زیورات نکل آئے ہیں جو دیکھنے میں بالکل سونے کے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی مالیت چند سیکڑے ہوتی ہے جبکہ سونے کے اصل زیورات کی مالیت اب لاکھوں میں ہے۔ دھوکہ دہی کی یہ صورت بھی اب اختیار کی جانے لگی ہے، بعد میں جب حقیقت حال سامنے آتی ہے تو یہ ملمع سازی بھی فساد ہی کا باعث بنتی ہے۔

اس حدیث ِ رسول کی رو سے ملمع سازی اور فریب کاری کی ایسی ساری صورتیں ناروا قرار پاتی ہیں، مانگے تانگے کا زیور پہن یا پہنا کر جھوٹی شان و شوکت کا اظہار یا آرٹی فشل کے زیورات کا استعمال یہ باور کراکر کہ یہ سونے ہی کے زیورات ہیں۔ یہ سب ناجائز، ممنوع ہیں اور فساد و بگاڑ کا باعث ہیں۔


دکھلاوے اور نمودونمائش کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

مکروفریب کی یہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس لیے کہ شادیوں میں دیگر بہت سی خرافات کے ساتھ ساتھ سونے کے زیورات کو بھی ایک لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے جب کہ ہماری شریعت میں ان رسومات، فضول خرچی، ناروا بوجھ اور نمودونمائش کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اس کا حل بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ شادی کے اخراجات سے سونے کے زیورات کو بھی یکسر خارج قرار دیا جائے۔

سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ

صحیح البخاری،كتاب النكاح، مَا يُتَّقَى مِنْ شُؤْمِ المَرْأَةِ،حدیث:5096۔

’’میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا، جو عورتوں سے زیادہ مردوں کے لیے نقصان دہ ہو۔‘‘

وضاحت: یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہو گا جو میرے بعد رونما ہو گا۔ حالانکہ عورت کا وجود انسان کے لیے راحت و آسائش اور امن و سکون کا باعث ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾

[ الروم : 21 ]

’’اللّٰہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی نفسوں (جنس) سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی۔‘‘

علاوہ ازیں عورت کا وجود مرد کے لیے ناگزیر اور انسانی زندگی کے دو پہیوں میں ایک پہیہ ہے۔ اس کے باوجود اس کو مرد کے لیے سب سے زیادہ خطرناک فتنہ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ مرد کی یہ کمزوری ہے کہ قوامیت (گھر کی سربراہی، حاکمیت اور نگرانی) کا مقام اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کیا ہے، لیکن ایک تو ا س نے عورت کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ نہیں کیا۔ دوسرے، گھر میں اپنی قوامیت (حاکمیت) عورت کے سپرد کر کے خود محکومیت کا درجہ اپنے لیے پسند کر لیا، بالخصوص شادی بیاہ کے معاملات اور رسوم و رواج کی پابندی، فیشن پرستی اور اسراف و تبذیر کے مظاہر میں۔ ان تمام معاملات میں مردوں نے بے بسی بلکہ پسپائی اختیار کر لی ہے اور اپنے مردانہ اختیارات عورت کو دے دیے ہیں۔

شادی بیاہ میں وہی ہو گا جو شریعت سے بے پروا عورت کہے گی اور کرے گی، مرد کا کام غلامِ بےدام کی طرح صرف اس کے حکم کی بجا آوری ہے، حتی کہ عورت کی خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کے لیے اس کے پاس اگر وسائل بھی نہیں ہیں تو وہ رشوت لے گا، لوٹ کھسوٹ کرے گا۔ آمدنی کے دیگر حرام ذرائع اختیار کریگا، قرض لے گا، حتیٰ کہ سودی قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا، پھر ساری عمر قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہے گا۔

علاوہ ازیں عورت اگر کہے گی تو بننے والے داماد کو سونے کی انگوٹھی پہنا کر اپنی بھی اور اُس کی بھی آخرت کی بربادی کا سامان کیا جائے گا، عورت کہے گی تو پورا ہفتہ ڈھولکی وغیرہ کے ذریعے سے اہل محلہ کی نیندیں خراب کی جائیں گی، عورت کہے گی تو مہندی کی رسم میں نوجوان بچیاں سرعام ناچیں گی۔ وعلی ہذا القیاس دیگر رسموں کا معاملہ ہے۔

ظاہر بات ہے کہ مرد کی اس پسپائی اور بے بسی میں اس کے لیے دنیا کی بربادی کا بھی سامان ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی بھی اس کا مقدر ہے۔کیا ایک مسلمان کہلانے والے مرد کے لیے اس سے بھی بڑا فتنہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟

خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةَ

کا یہی وہ فتنہ ہے جس کا اظہار زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہوا ہے۔


دین دار عورت دین داروں کے لیے فتنہ نہیں ہے!

عورت کا یہ فتنہ انہی لوگوں کے لیے ہے یا ان کے حق میں فتنہ ہے جنہوں نے اپنی مردانگی (قوامیت) سے دست بردار ہو کر اپنی باگ ڈور (زمامِ کار) عورت کے ہاتھ میں دے دی۔ لیکن جو لوگ اپنی قوامیت کو برقرار رکھتے ہیں اور عورت کو کسی بھی مرحلے پر شریعت کے دائرے سے نہیں نکلنے دیتے بلکہ اس کو پابندِ شریعت بنا کر رکھتے ہیں، عورت اُن کے لیے کسی بھی مرحلے پر فتنہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ ان کی خیر خواہ، معاون اور ہر اچھے کام میں ان کا دست و بازو اور سراپا خیر و رحمت ہوتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی ایسی نیک عورت کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا ہے۔فرمایا:

الدُّنْيَا مَتَاعٌ ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا المَرْأَةُ الصَّالِحَةُ

صحیح مسلم ، کتاب الرضا ع ، باب خیر متاع الدنیاالمراۃ الصالحة

’’دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہتر پونجی نیک عورت (بیوی) ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں نیک عورت کی خصلتیں بیان فرمائی ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ أَيُّ النِّسَاءِ خَيرٌ ؟ قَالَ: الَّذِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيْعُهُ إِذَا أَمَر، وَلا تُخَالِفُهُ فِيْمَا يَكرَهُ فِي نَفسِهَا وَمَالِهِ

سنن النسائی ، کتاب النکاح ، باب أی النساء خیر

’’رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا گیا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت (بیوی) سب سے بہتر ہے جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ خوش کن نظر سے اُسے دیکھے۔ جب خاوند اسے کسی بات کا حکم دے، تو اسے بجا لائے اور وہ (عورت) اپنے نفس اور خاوند کے مال میں اس کی خواہش کے برعکس ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو ا ُس کے خاوند کو ناپسند ہو۔‘‘

قرآنِ مجید میں بھی نیک عورتوں کے لیے ” قَانِتَات‘‘  کا لفظ استعمال ہوا ہے:

﴿فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ﴾

[ النساء : 34 ]

نیک عورتیں قانتات ہیں۔

’  قانتات ‘   کا  مطلب ہے: فرماں بردار، اللّٰہ کی بھی اور خاوند کی بھی!

اس وضاحت سے مقصود یہ ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو مردوں کے لیے جو نہایت خطرناک فتنہ قرار دیا ہے جس کے شواہد آج ہم دیکھ رہے ہیں، یہ وہ عورتیں ہیں جو شرعی حدود و قیود سے آزاد ہیں، اور اُن کے مرد بھی اپنی غلامانہ ذہنیت اور خود بھی دین سے دور ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو روکنے ٹوکنے اور ان کو راہِ راست پر رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ لیکن جن مردوں کی عورتیں دین دار اور دین کی پابند ہیں، اور وہ دینی اقدار و روایات کی بالادستی میں اپنے خاوندوں کی مددگار ہوتی ہیں، وہ فتنہ نہیں ہیں، وہ سراپا خیر و برکت ہیں۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت دیگر دنیاوی ترجیحات کے مقابلے میں دین دار عورت کا انتخاب کرو۔ تاکہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر معاملے میں شریعت کے احکام کو بروئے کار لانے میں مرد کا ساتھ دے، اس کی مخالفت اور اپنی من مانی نہ کرے۔

الغرض شادی بیاہوں کی مذکورہ رسومات اور ان کی حشرسامانیوں سے بچنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ دین سے ہماری وابستگی برائے نام نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور ہماری خواتین بھی دینی ا قدار و روایات کی پابند اور اس کا صحیح نمونہ ہوں جس کا مظاہرہ شادی بیاہ کی تقریبات میں واضح طور ہو۔ وہ شادی کی تقریب اپنے ہی کسی بچے یا بچی کی ہو یا خاندان کے کسی اور گھرانے کی، دیکھنے والے دیکھیں کہ یہ شادی واقعی کسی دین دار خاندان کی ہے یا اس میں شریک ہونے والی خواتین واقعی دین دار، پردے کی پابند، شریعت کی پاس دار اور سادگی کا پیکر ہیں:

﴿وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾

[ المطففين : 26 ]

ترجمہ:سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے ۔

شادی کے موقعے پر دف بجانے کی شرعی حیثیت

شادی کے مروجہ رسموں میں خوشی کے شادیانے بجانے بھی ہیں، جس کی کئی صورتیں رائج ہیں۔

مثلاً، شادی سے قبل کئی دن تک محلے کی اور قریبی رشتے داروں کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شادی والے گھر میں راتوں کو گھنٹوں ڈھولکیاں بجاتی اور گانے گاتی ہیں جس سے اہل محلہ کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔

دوسرے نمبر پر برات کے ساتھ بینڈ باجہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فلمی گانوں کی دھنوں پر ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا ہے اور اب منگنی کے موقعے پر بھی ایسا کیا جانے لگا ہے۔

تیسرے نمبر پر بہت سے لوگ میوزیکل شو کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ناچنے گانے والی پیشہ ور عورتیں اور مرد حصہ لیتے ہیں، جس میں بے حیائی پر مبنی حرکتوں اور بازاری عشقیہ گانوں سے لوگوں کو محظوظ کر کے ان کے ایمان و اخلاق کو برباد کیا جاتا ہے۔

چوتھے نمبر پر شادی ہال نکاح اور ولیمے کی تقریبات میں اوّل سے آخر تک میوزک کی دھنوں سے گونجتا رہتا ہے اور اس طرح نکاح اور ولیمے کی بابرکت تقریبات بھی شیطان کی آماج گاہ بنی رہتی ہے۔

ان تمام خرافات اور شیطانی رسومات و حرکات کے جواز کے لیے ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جن میں شادی اور عید یعنی خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کو دف بجانے اور قومی مفاخر پر مبنی نغمے اور ملی ترانے گانے کی اجازت دی گئی ہے۔

جیسےسیدہ ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی عمل میں آئی تو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس اس طرح آ کر بیٹھ گئے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے (راوی سے خطاب ہے) ۔تب چھوٹی بچیاں (خوشی کے طور پر) دف بجا کر شہداے بدر کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اچانک ان میں سے ایک بچی نے کہا:

وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ

صحیح البخاری ،کتاب النکاح ، باب ضرب الدف فی النکاح والولیمة

ہمارے اندر ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سن کر فرمایا:

دَعِي ھَذِہِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ

اس کو چھوڑ اور وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (چھوٹے، بڑے سب) صحیح العقیدہ تھے۔اس لیے بچی کے مذکورہ قول کا

مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی بابت عقیدۂ علم غیب کا اظہار تھا بلکہ آپ کی رسالت کا اظہار تھا کہ رسول پر وحی کا نزول ہوتا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اپنے احکام سے بھی مطلع فرماتا ہے اور آئندہ آنے والے واقعات سے بھی بعض دفعہ باخبر کر دیتا ہے۔ بچی کے شعری مصرعے کا مطلب اسی وحیٔ الٰہی کا اثبات تھا، پھر بھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو اس طرح کہنے سے روک دیا کہ مبادا بعد کے لوگ بدعقیدگی کا شکار ہوجائیں۔ علاوہ ازیں ایک د وسری روایت میں صراحتاً بھی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

وَلَا یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ اِلَّا اللّٰہ

طبرانی ، بحوالہ ’’آداب الزفاف‘‘ للألبانی ، ص:95

کل کا علم اللّٰہ کے سوا کسی کو نہیں۔

بہرحال اس واقعے سے خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کا اشعار پڑھ کر اظہارِ مسرت کرنے کا اثبات ہوتا ہے۔

عہد نبوی کا ایک دوسرا واقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہانے ایک لڑکی کو نکاح کے بعد شبِ زفاف کے لیے تیار کرکے اس کے خاوند (ایک انصاری مرد) کے پاس بھیجا۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا: تمہارے پاس لہو نہیں ہے؟

مَا کَانَ مَعَکُمْ لَھْوٌ؟

انصار کو لہو پسند ہے

فَإِنَّ الْأَنْصَارَ یُعْجِبُھمْ اللَّھْوُ

صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب انصار یعجبھم اللھو

حافظ ابن حجرکہتے ہیں، ایک دوسری روایت میں مَا کَانَ مَعَکُمْ لَھْوٌ کی جگہ الفاظ ہیں:

فَہَلْ بَعَثْتُمْ مَعَھا جَارِیةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّی

کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی بچی (یا لونڈی) بھیجی ہے جو دف بجا کر اور گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔

اسی طرح :

فَإِنَّ الْأنْصَارَ یُعْجِبُہُمُ اللَّھْو

کی جگہ دوسری روایت میں ہے:

قَوْمٌ فِیْہِمْ غَزْلٌ

فتح الباری ، کتاب النکاح،تحت حدیث مذکور 9/282

انصاریوں میں شعروشاعری کا چرچا ہے۔

اس دوسری روایت کے الفاظ سے پہلی روایت میں وارد لفظ لَہْو کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ واقعہ

مذکورہ میں اس سے مراد چھوٹی بچی کا دف بجا نااور قومی گانا گا کراظہارِ مسرت کرنا ہے۔

محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاح

سنن النسائی ، کتاب النکاح ، باب اعلان النکاح بالصوت …..،

حرام اور حلال کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور نکاح میں آواز بلند کرنا ہے۔

ایک اور واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے، عامر بن سعدرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک شادی میں گیا، وہاں دو صحابی ٔرسول جناب قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی بچیاں گانا گا رہی ہیں۔ میں نے دونوں صحابیوں سے کہا: تم دونوں اصحابِ رسول اور اہل بدر (جنگ بدر کے شرکا) میں سے ہو، تمہاری موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا:

شادی کے موقعے پر ہمیں “لَھْو‘‘(چھوٹی بچیوں کے قومی گیت وغیرہ گا کر اظہار مسرت کرنے) کی رخصت دی گئی ہے، تمہارا جی چاہتا ہے تو سنو، جانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے۔[1]

مذکورہ روایات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

ان احادیث سے دو باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دف بجانے کا اور دوسرے، ایسے گیتوں اور شعروں کے گانے اور پڑھنے کا جن میں خاندانی شرف و نجابت کا اور آباء و اجداد کے قومی مفاخر کا تذکرہ ہو، لیکن ساری متعلقہ صحیح احادیث سے ان دونوں باتوں کی جو نوعیت معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:

خاص موقعوں پر دف بجایا جا سکتااور قومی گیت گایا جا سکتا ہے، جیسے شادی بیاہ کے موقعے پر یا عید وغیرہ پر، جس کا مقصد نکاح کا اعلان کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، تاکہ شادی خفیہ نہ رہے۔ اسی لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے:

اَعْلِنُوْا النِّکَاحَ

صحیح ابن حبان ، حدیث:1285 ۔ آداب الزفاف ، ص:97

نکاح کا اعلان کرو۔

یعنی علانیہ نکاح کرو، خفیہ نہ کرو۔ اس حکم سے مقصود خفیہ نکاحوں کا سدباب ہے جیسے آج کل ولی کی اجازت کے بغیر خفیہ نکاح بصورت لو میرج، سیکرٹ میرج اور کورٹ میرج کیے جا رہے ہیں، عدالتیں اور فقہی جمود میں مبتلا علما ان کو سند جواز دے رہے ہیں حالانکہ احادیث کی رو سے یہ سب نکاح باطل ہیں، یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتے۔

یہ کام صرف چھوٹی یعنی نابالغ بچیاں کر سکتی ہیں، بالغ عورتوں کو ان کاموں کی اجازت نہیں ہے اور نہ مردوں ہی کو اس کی اجازت ہے۔

یہ کام نہایت محدود پیمانے پر ہو۔ محلے کی یا خاندان اور قبیلے کی بچیوں کو دعوتِ دے کر جمع نہ کیاجائے۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کاموں کی صرف اجازت ہے، ان کی حیثیت فرض وواجب اور امر لازم کی نہیں ہے۔ جیسے مذکورہ دو صحابیوں کے واقعے میں ہے:

قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّہْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ

’’ہمیں شادی کے موقعے پر لَہْو کی رخصت دی گئی ہے۔‘‘

اور یہ مسلمہ اُصول ہے کہ ایک جائز کام، حدود و ضوابط کے دائرے میں نہ رہے اور اس کا ارتکاب بہت سے محرمات و منہیات تک پہنچا دے تو ایسی صورتوں میں وہ جائز کام بھی ناجائز اور حرام قرار پائے گا۔

موجودہ حالات میں اظہارِ مسرت کا مذکورہ جائز طریقہ، ناجائز اور حرام ہے

اس وقت مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی اور اس پر عمل کرنے کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقعوں پر وہ اللّٰہ و رسول کے احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محرمات و منہیات کا نہایت دیدہ دلیری سے ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ مہندی کی رسم اور اس میں نوجوان بچیوں کا سرعام ناچنا گانا، ویڈیو اور مووی فلمیں بنانا، بے پردگی اور بے حیائی کا ارتکاب، بینڈ باجے، میوزیکل دھنیں اور میوزیکل شو، آتش بازی وغیرہ۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب غیروں کی نقالی اور اسلامی تہذیب و روایات کے یکسر خلاف ہیں۔ اسلام سے ان کا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہو ہی سکتا ہے۔

یہ صورت حال اس امر کی تائید کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں دف بجانے اور قومی گیت گانے سے بھی احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی شریعت کی بتائی ہوئی حد تک محدود نہیں رہتا اور محرمات تک پہنچے بغیر کسی کی تسلی نہیں ہوتی۔ بنا بریں اسلام کے مسلمہ اصول سَدًّاللذریعۃکے تحت یہ جائز کام بھی اس وقت ممنوع ہی قرار پائے گا جب تک قوم اپنی اصلاح کرکے شریعت کی پابند نہ ہو جائے اور شریعت کی حد سے تجاوز کرنے کی عادت اور معمول کو ترک نہ کر دے۔


کیا غیرشرعی شادیوں کا بائیکاٹ صحیح نہیں ہے ؟

لوگ کہتے ہیں کہ جن شادیوں میں غیر شرعی حرکتیں ہوتی ہیں ، تو ان کو خاموشی سے برداشت کرلینا چاہیے اور ان رسومات کی وجہ سے بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے رشتے داریاں ٹوٹ جاتی ہیں ، بہن بھائی، عزیز واقارب ناراض ہوجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ

یہ ٹھیک ہے کہ صلہ رحمی(رشتے داریوں کو قائم رکھنے) کی تاکید ہے اور قطع رحمی(رشتے توڑدینے) پر بڑی سخت وعید ہے ، لیکن اس حکم کا تعلق دنیوی معاملات سے ہے یعنی دنیوی معاملات میں کتنی بھی تلخی ، کشیدگی، ناراضی ہوجائے اسے طول نہیں دینا چاہیے اور نہ ان کی وجہ سے بول چال اور تعلق منقطع کرنے کی اجازت ہے اور اگر جذبات میں زیادہ شدت ہو تو تین دن تک تعلق منقطع کرنے کی رخصت ہے ، اس کے بعد صلح کر لینی اور بات چیت شروع کر دینی چاہیے۔ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے تعلق منقطع کیے رکھنے کی اجازت نہیں ہے لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے ، دینی احکام وشعائر اور دینی اقدار وروایات کے احترام اور ان پر عمل کرنے کا معاملہ ہے یہ دنیوی معاملات سے یکسر الگ ہے ، دین ، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محترم اور ہر تعلق سے زیادہ بالا ہے۔ اس کے احترام اور بالادستی پر ہر چیز کو قربان کیا جاسکتاہے بلکہ کیا جانا ضروری ہے ، یہی ایمانی غیرت اور دینی حمیت کا تقاضا ہے ، جولوگ کہتے ہیں کہ شادی بیاہوں میں ساری شیطانی حرکتوں اور جاہلی رسومات کے باوجود ان کا بائیکاٹ کرنا صحیح نہیں ہے ان میں شریک ہی رہنا چاہیے ، ان کے اندر نہ دین کی حمیت وغیرت ہے اور نہ دین اسلام کا صحیح شعور ، وہ اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بے خبر ہیں اور صحابہ ٔ کرام کی دینی غیرت سے بھی لا علم ۔ ذرا نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسوۂ حسنہ دیکھیے!

سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : انہوں نے ایک تصویروں والا گدّا خریدا ، جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں اندر داخل ہونے لگے تو دروازے سے ہی اس گدّے پر نظر پڑ گئی تو آپ دروازے ہی پر کھڑے ہوگئے ، اندر داخل نہیں ہوئے ، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں)  میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں بارگاہ الٰہی میں توبہ کرتی ہوں اور آپ سے بھی معافی کی خواست گارہوں ، مجھ سے کیا غلطی صادر ہوگئی ہے ؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : یہ گدّا کیا ہے ؟

میں نے کہا : یہ میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھا کریں اور اس کو بطور تکیہ استعمال کرلیا کریں تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

’’ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا ، تم نے جو یہ تصویریں بنائی تھیں ، ان میں جان ڈال کر ان کو زندہ کرو ‘‘ مزید فرمایا :

إِنَّ البَيْتَ الَّذِي فِيهِ الصُّوَرُ لاَ تَدْخُلُهُ المَلاَئِكَةُ

صحیح البخاری ، کتاب البیوع ، باب التجارۃ فیما یکرہ۔۔۔۔،

’’ جس گھر میں تصویریں ہوں ، اس میں (رحمت کے)فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘

جب اللہ کے رسول کا اسوۂ حسنہ ، جو مسلمانوں کے لیے واجب الاتباع ہے یہ ہے کہ جہاں آپ کو تصویریں نظر آئیں ، وہاں آپ نے داخل ہونا پسند نہیں فرمایا تو جن اجتماعات میں بینڈ باجے بج رہے ہوں ، مردوزن کا مخلوط اجتماع ہو، عورتوں نے شرم وحیا کے سارے حجابات اتار پھینک دیئے ہوں ، ان کی موویاں بن رہی ہوں ۔ ایسے شیطانی اجتماعات میں شریک ہونا اور شریک رہنا ایک مسلمان مرد اور عورت کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟

رہا مسئلہ ایسی خرافات کا ارتکاب کرنے والوں کے بائیکاٹ کا تو اس کا اثبات اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے اس واقعے سے بھی یقیناً ہوجاتا ہے لیکن ہم دو صحابیوں کی ایمانی غیرت کے بھی دو واقعے اس موقع پر بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں تاکہ مزید وضاحت ہوجائے کہ صحابۂ کرام نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ کتنا سخت رویہ اختیار فرمایا اور رشتوں کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی۔

سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ عورتوں کو مسجدوں میں جاکر نماز پڑھنے سے مت روکو ! تو ان کے بیٹے بلال نے کہا : ہم تو عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکیں گے تاکہ فساد پیدا نہ ہو ، یہ سن کرسیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سخت غضب ناک ہوئے اور ان کو اتنا برا بھلا کہا کہ کبھی کسی کو اتنا برا بھلا نہ کہا ، اور فرمایا : میں تجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان سنا رہا ہوں اور تو اس کے مقابلے میں کہتا ہے کہ ہم عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکیں گے ۔[2]

یہی روایت مسند احمد میں بھی ہے ، جس میں یہ اضافہ بھی ہے ۔

فَمَا كَلَّمَهُ عَبْدُ اللَّهِ حَتَّى مَاتَ

مشکوۃ ، کتاب الصلوۃ باب الجماعة وفضلھا، ح1084 ، وقال الالبانی رحمہ اللہ : وسندہ صحیح

’’ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے اس بیٹے سے ساری عمر کلام نہیں کیا حتی کہ فوت ہوگئے۔‘‘

اسی طرح کا ایک واقعہ سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا ہے ، ان کا ایک قریبی عزیز (بھتیجا) انگلی سے کنکری پھینک رہا تھا ، عبد اللہ بن مغفل نے اسے اس سے روکا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے ، اس کے باوجود وہ باز نہیں آیا تو انہوں نے اس سے فرمایا : میں تجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث سنا رہا ہوں کہ اس سے آپ نے منع فرمایا ہے اور تو پھر بھی کنکری مار رہا ہے ؟

لَاأُكَلِّمُكَ أَبَدًا

صحیح مسلم ،کتاب الصید باب یستعان،

’’ میں تجھ سے کبھی کلام نہیں کروں گا۔‘‘

اللہ کی ناراضی یا لوگوں کی ناراضی ، کس سے بچنا ضروری ہے ؟

دو حدیثیں اور ملاحظہ فرمائیں جو نہایت فیصلہ کن ہیں بشرطیکہ دل میں ایمان کی حرارت اور اللہ کا خوف ہو؟

سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

مَنْ أَرْضَى اللّٰهَ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللّٰهُ النَّاسَ، وَمَنْ أَسْخَطَ اللّٰهَ بِرِضَى  النَّاسِ وَكَلَهُ اللّٰهُ إِلَى النَّاسِ

الصحیحۃ للألبانی 5/392 ، رقم الحدیث : 2311

’’ جس نے اللہ کو راضی کر لیا، چاہے لوگ ناراض ہوگئے ہوں اللہ اس کو لوگوں سے کافی ہوجائے گا اور جس نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کر لیا ، اللہ اس کو لوگوں ہی کے حوالے کر دےگا۔‘‘

2 کمال ایمان کے لئے بھی بائیکاٹ کرکے نفرت کا اظہار ضروری ہے

سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

مَنْ أَحَبَّ لِلّٰهِ، وَأَبْغَضَ لِلّٰهِ، وَأَعْطَى لِلّٰهِ، وَمَنَعَ لِلّٰهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

أخرجہ الطبرانی فی الکبیر 8/208 ۔ سنن ابی داؤد کتاب السنۃ ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ..

’’ جس نے (کسی سے) اللہ کے لیے محبت رکھی اور اللہ ہی کے لیے نفرت رکھی ، اللہ ہی کے لیے (کسی کو کچھ) دیا اور اللہ ہی کے لیے انکار کیا، اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘

وضاحت : کسی نیک آدمی سے اس کی نیکی اور تقوی کی وجہ سے ، کسی عالم دین سے اس کی حق گئی اور حق پرستی کی وجہ سے ، کسی صداقت شعار آدمی سے اس کی صداقت اور راست بازی کی وجہ سے محبت رکھنا اللہ کے لیے محبت ہے کیونکہ ان خوبیوں کو اپنانے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان کے اختیار کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ بھی محبت رکھتا ہے اور جو اللہ کے حکموں کو پامال کرتا ہے ، اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے تو ایسے لوگوں سے نفرت اور ناراضی کا اظہار کرنا ، اللہ کے لیے نفرت کا اظہار ہے جو اللہ کو پسند ہے ، اسی طرح کسی ضرورت مند صاحب ایمان کو اللہ کی رضا کے لیے دینا اللہ کے لیے دینا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے اور کسی بدکردار کو دینے سے انکار کر دینا، اللہ کے لیے انکار ہے ، یہ سب کچھ اللہ ہی کے لئے کرنا کمال ایمان ہے اور اس کے برعکس رویہ ایمان کے منافی ہے ۔ مذکورہ احادیث کی روشنی میں بہ آسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ زیر بحث قسم کی شادیوں میں شریک ہونا اور آخر وقت تک شریک رہنا، ایک مسلمان کے شایان شان اور اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے یا ان کا بائیکاٹ کرنا شیوۂ مسلمانی اور عند اللہ پسندیدہ ہے؟ ہر شخص آخرت کی جواب دہی کا احساس اور فکر کرتے ہوئے ، اگر آخرت پر اس کا یقین ہے ، جواب سوچ لے اور اس کے مطابق فیصلہ کر لے۔

ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
مانو نہ مانو! جان جہاں اختیار ہے


آئینہ دیکھ کر بر انہ منایئے ! اصلاح کیجئے !

سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِن

سنن ابی داؤد ،کتاب الأدب ، باب فی النصیحةو الحیاطة

’’ مومن ، مومن کا آئینہ ہے۔‘‘

آئینے کا کام کیا ہے ؟ وہ انسان کے چہرے اور رنگ روپ کو بالکل اس طرح دکھاتا ہے ، جس طرح وہ ہوتا ہے ، اس میں نہ آئینے کا کوئی نقص ہے اور نہ آئینہ دکھلانے والے کی غلطی ، اس لیے بیان کردہ رسومات اور اس میں ہمارےعمل اور رویے کی تفصیلات ، ایک آئینہ ہے جو ایک مومن بھائی نے دوسرے مومن بھائیوں اور بہنوں کو دکھلایا ہے جس سے مقصود اصلاح اور خیر خواہی کے سوا کچھ نہیں ۔

بنابریں آئینہ ان کو دکھلایا تو برامان گئے ۔ والا طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے اپنے رویوں کا جائزہ لے کر ان میں اصلاح اور تبدیلی کی کوشش کریں ۔ وبیداللہ التوفیق

قرآن کریم میں اللہ کا حکم

اب تک جو گفتگو ہوئی ، احادیث رسول اور آثار صحابہ کی روشنی میں تھی اب ذرا قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾

[ النساء : 140 ]

ترجمہ: ’’ اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو، جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہوگے ، یقینا اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔‘‘

یعنی جہاں اللہ کے احکام کا انکار یا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہو تو اہل ایمان کو وہاں بیٹھنے(جانے یا اگر بے خبری میں چلے گئے ہیں تو بیٹھے رہنے) سے منع کیا جارہا ہے اور تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر تم منع کرنے کے باوجود ایسی مجلسوں میں جاؤ گے یا وہاں بیٹھے رہو گے تو تم بھی گناہ اور نافرمانی میں ان کے برابر ہوگے۔

جیسے ایک حدیث میں آتا ہے ، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ جوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دورچلے۔‘‘[3]

اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں یا اجتماعات میں شریک ہونا جن میں اللہ رسول کے احکام کا قولاً یا عملاً انکار یا مذاق اڑایا جاتا ہو، جیسے آج کل اُمراء ، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں ایسا کیا جاتا ہے کیونکہ کھلم کھلا، علانیہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب بھی دراصل اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا ہی ہے ۔ علاوہ ازیں ارتکاب کرنے والے اور خاموش تماشائی بن کر شرکت کرنے والے، دونوں جرم میں برابر کے گناہ گار ہیں ، اسی لیے اللہ نے آیت میں یہ فرما کر (إِنَّکُم إِذاً مِّثلُھُم) ’’ اس وقت تم بھی ان جیسے ہی ہو گے‘‘ شرکت کرنے والوں کے لیے یہ کہنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ، ہم تو رشتے داری کی وجہ سے مجبور ہیں ؟’’ان جیسے ہی ہوگے‘‘ کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کردینے کے لیے کافی ہے ، بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو ۔

اور یہ جو اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ ’’ اس نے یہ کتاب میں نازل کیا ہے ‘‘ یہ اس آیت کا حوالہ ہے جو اللہ نے اس سے قبل نازل فرمائی اور اس میں بھی یہی حکم فرمایا جو اس میں فرمایا ہے اور وہ آیت ہے :

﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ﴾

[ الأنعام : 68 ]

ترجمہ: ’’ اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں ۔ ‘‘

آیت میں خطاب اگرچہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے ، اور اسی طرح آیت میں اگرچہ ذکر اہل زیغ واہل ضلال اور ان کی مجالس میں بیٹھنے کی ممانعت کا ہے لیکن آیت کا حکم عام ہے جس میں ہر وہ مجلس شامل ہوگی جس میں اللہ رسول کے احکام کا زبان وبیان کے ذریعے سے یا عمل کے ذریعے سے انکار کیا یا مذاق اڑایا جارہا ہو ، عملی انکار یا مذاق میں شادی بیاہ کی وہ ساری تقریبات (مہندی، منگنی،بارات،ولیمہ وغیرہ) آجاتی ہیں جن میں غیر شرعی حرکات کا دھڑلے سے ارتکاب کیا جاتاہے۔ اعاذنا اللہ منھا

خیرامت ہونے کے لیے بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا ضروری ہے

دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا :

﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ﴾

[ آل عمران : 110 ]

’’ تم بہترین امت ہو جولوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ، کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو ، بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

اس آیت میں ’’امت مسلمہ‘‘ کو ’’خیر امت‘‘ (بہترین امت) قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے جو امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے ، گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو ’’بہترین امت‘‘ ہے ، بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پاسکتی ہے( جیسے وہ اس وقت دنیا میں ہے) اس کے بعد قرآن کریم میں اہل کتاب کی مذمت سے بھی اسی نکتے کی وضاحت مقصود معلوم ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف ونھی عن المنکر نہیں کرے گا ، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا ، اہل کتاب کی صفت بیان کی گئی ہے ۔

﴿كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾

[ المائدۃ : 79 ]

ترجمہ:ـ’’ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت

اور زیر تفسیر آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے ، قرآن مجید میں اس سے قبل ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے ۔

﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾

[ آل عمران : 104 ]

ترجمہ:’’ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں ۔‘‘

’’منکر‘‘ (برائی) سے جس طرح شرک وبدعات ، فسق وفجور اوردیگر نافرمانی والے کام مراد ہیں ، اسی طرح وہ ساری رسومات وخرافات بھی داخل ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے یکسر خلاف ہیں اور زیر بحث شادی کی رسومات اسی قبیل(قسم) سے ہیں۔ دوسرے ،آیت میں (مِنکُم) کے ’مِن‘ کو تبعیضیہ قرار دے کر کہا جاتا ہے کہ اگر ایک گروہ(بعض لوگ) امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا فریضہ ادا کرلے گا تو سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا یعنی یہ فریضہ فرض کفایہ ہے ، لیکن آیت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ ہی کامیاب ہیں ، یہ الفاظ مقتضی ہیں کہ “مِن‘‘کو” تبیین‘‘ کے لئے مانا جائے کیونکہ کامیابی تو ہر مسلمان کا مقصد ہے اور ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے یہ فریضہ’’فرض عین‘‘ ہے یعنی ہر ہر فرد اپنے اپنے دائرے اور اپنی اپنی طاقت کے مطابق امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا فرض ادا کرے ۔ جیسے ’’بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘ کے تحت ہر شخص تبلیغ کا ذمے دارہے۔

واللہ اعلم بالصواب


[1] سنن النسائی ، کتاب النکاح ، باب اللھو والغناء عند العرس ،

[2] صحیح مسلم ، کتاب  الصلاۃ ، حدیث:442

[3] مسند أحمد ، 1/392/339

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1945ء میں ریاست جے پور راجستھان میں آپ کی ولادت ہوئی ، فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف ر حمہ اللہ کا شمار پاکستان کے نامور قلمکاروں میں ہوتا ہے ، آپ کی تصانیف کی ایک لمبی فہرست ہے ، جنہیں اللہ نے بڑی مقبولیت سے نوازا ، اور بڑے اعزاز کی بات یہ ہے کہ آپ نے اردو زبان میں بنام احسن البیان قرآن کریم کی انتہائی جامع تفسیر تحریر فرمائی ، جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور سعودی عرب کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں شائع کی جارہی ہے۔ اسی طرح آپ صحابہ کرام کے دفاع میں آپ کا ایک عظیم کارنامہ خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت کے عنوان پر ایک شاندا ر و جاندار علمی ، تحقیقی کتاب ہے ، جسے ہر خاص و عام میں خوب شہرہ ہوا اور تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس کتاب کی تحسین کی۔